105

سلطان باہو ايک باعمل صوفي بزرگ اور پنجابي شاعر

سید شبیر احمد
مادر زاد ولی، قلندرانہ جلال، علم و حکمت کے خزانوں سے بہرہ ور ، معرفت کا پیکر جمال اور ایمانی جگمگاہٹوں سے بھر پور شخصیت ، جنھوں نے اپنا پیغام پنجابی اور فارسی زبان میں عوام وخواص تک پہنچایا۔ ان کے اس پیغام نے لا تعداد لوگوں کی زندگیوں میں روحانی انقلاب بر پا کر دیا۔ وہ سادگی کا پیکر تھے۔ خلوص و وفا ان کی حیات کا لازمی جزو اور اخلاص و مروت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ آپ ریا کاری، نمود و نمائش ، تکلف و تصنع اور مکرور یا سے حددرجہ نفرت کرتے تھے۔ یہ ذات بابرکات ہے سلطان العارفین جناب حضرت سلطان باہو کی۔
حضرت سخی سلطان باہو 1630 ء میں شورکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ شورکوٹ پنجاب کے ضلع جھنگ کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے جو آج کل ضلع بن چکا ہے۔ ان کے والد حضرت محمد بازیدؓ ایک متقی اور پر ہیز گار انسان تھے۔ وہ ایک ایسے فقیہ تھے جنھوں نے دل سے قرآن پڑھا اور سیکھا تھا۔ وہ مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں مغل فوج کے ایک سپہ سالار تھے اور شور قلعے کے قلعہ دار بھی تھے۔ سلطان باہو کی والدہ حضرت بی بی راستی اعلٰی صلاحیتوں کی مالک اور اپنے وقت کی ولیہ تھیں ۔ آپ اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، حضرت علی کی اولاد میں سے تھے۔ ان کی پیدائش سے پہلے والد کو بشارت ہوں کہ ا ن کے گھر ایک ولی پیدا ہوگا جو اپنی ذہنی روشنی اور روحانیت سے اس سرزمین کو روشن کر دے گا۔ چنانچہ ان کی پیدائش پر ان کی والدہ محترمہ نے ان کا نام باہورکھا ۔ وہ پیدائشی ولی تھے، ان کی روحانی رہنمائی کا آغاز بچپن سے ہی ہو گیا۔
روایت ہے کہ جب ایک غیر مسلم نے آپ کے روشن چہرے کو دیکھا تو ان کے نورانی چہرے کو دیکھ کر فورا ً کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اس واقعہ سے ارد گرد کے غیر مسلم حضرت با ہو کے اس معجزے سے اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ ان کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک وفد نے آپ کے والد سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ جب بھی یہ بچہ گھر سے نکلے تو اعلان کیا جائے تا کہ جب یہ بچہ گھرے لگے تو ہم لوگ اپنے گھروں میں رہیں، باہر نہ نکلیں اور اپنے مذہب پر قائم رہ سکیں۔
اپنی کتاب ”امیر الکونین ‘‘میں سلطان باہو لکھتے ہیں کہ روحانی رہنمائی کی تلاش میں وہ تیس سال تک سرگرداں رہے لیکن ان کا اس طرح بھٹکنا بے کا ر رہا۔ آخر انھوں نے حضور اکرم ؐ کی روحانی طور پر بیعت کی اوران کی شریعت پر چلنے کا پکا ارادہ کرلیا۔ بعد ازاں انھوں نے دہلی کے شیخ پیر عبد الرحٰمن قادری کے ہاتھوں پر بیعت کی جوغوث پاک ؓکی اولاد میں سے تھے، جن کا مزار دہلی میں ہے۔
بچپن سے ہی بصیرت میں مصروف رہنے اور اللہ تعالیٰ کی شان و شوکت کے مشاہدہ کی وجہ سے انھیں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اسی لیے حضرت سلطان باہو نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ ابتدائی زندگی سےہی روحانی تجربات حاصل کرنے اور سچائی کی تلاش میں سرگرداں رہے لیکن اس دوران وہ ہمیشہ اللہ تعالی کی وحدانیت کے دریا میں غوطہ زن رہے۔ انھوں نے انتہائی سنجیدگی سے رسول ﷺکی شریعت پر عمل کیا اور ساری زندگی شریعت پر عمل کرتے ہوئے گزار دی ۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے شریعت پر عمل کر کے یہ مرتبہ اور مقام حاصل کیا ہے کیوں کہ میں نے شریعت کو اپنا رہنما بنا لیا تھا۔
سلطان باہو نے تقریباً ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں۔ ان سب کتابوں میں طالبانِ حق اور سچائی جانے والوں کو بار بار تین چیزوں کا مشورہ دیا۔
-اندھیروں سے نکلنا اور غفلت کو ترک کرنا۔
-جستجو کرنا ، طلب رکھنا، خواہش کو بڑھانا ۔
-رسول ؐ نام کی شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہونا۔
حضرت سلطان باہو روحانی درجات کے حصول اور ان کی بلندی کے لیے درج ذیل سرگرمیوں پر زور دیتے تھے۔
-اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی یاد میں استغراق
-نبی اکرم ﷺ کے بارے میں استغراق اور شریعت کی پابندی۔
-کلمہ طیبہ کا ہر وقت ورد
-قرآن مجید کی تلاوت کرنا ، اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا۔ روز محشر کو ہر وقت یاد کرنا
-تذکیہ ٔنفس
-رسول اللہؐ کی یاد میں محور ہنا اور ان پر درود بھیجنا۔
انھوں نے 1691ء میں اکسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا مزار تحصیل شورکوٹ میں گڑھ مہاراجہ کے قصبے کے قریب دریائے چناب کے مغربی کنارے کے ایک گاؤں موضع سلطان حق باہو میں واقع ہے۔ جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو ان کی برسی پر ان کا عرس منایاجاتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اکابر وصوفیا اپنے زمانے میں شریعت کے نام ور، معتبر علما اور فقہا تھے۔ وہ ایک طرف طریقت کے شہ سوار تھے تو دوسری طرف شریعت کے اسرار و رموز سے بھی پوری طرح بہرہ ور تھے۔ یہ وہ مردان پاک باز ہیں جو اخلاقی بے راہ و روی اور فکری کج روی سے فطری طور پر متنفر ہوتے ہیں۔ یہ دنیاوی آرام و آسائشوں پر قلبی و روحانی آرائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ منصب اور عہدے کے اسیر نہیں ہوتے بلکہ قرآن وسنت کے سرمدی پیغام کے سفیر ہوتے ہیں۔ زہد، عبادت وریاضت، مجاھدہ وکشف، ذکر وفکر اور تزکیۂ قلب ان کے محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔
حضرت باہو فقیر کی پہچان بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فقیرا پنی پانچ خصلتوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اپنے پاس موجود علم سے اپنے گردو پیش سے ریا اور جہالت کو دور رکھتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ حلم سے پیش آتا ہے۔ وہ فیض بخش خاص و عام بن کر لوگوں کی دست گیری کرتا ہے۔ اس کے پاس مال ہو تو وہ سخاوت کرتا ہے اور دوسروں پر خرچ کرتا ہے۔ فقیر میں کمال درجے کا استغنا تب ہوگا جب سونا اور مٹی اس کی نظر میں برابر ہوگی۔
وہ فرماتے ہیں کہ درویش صاحب شعور اور فقیر صاحب حضور کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں دنیا کی محبت نہ رکھے۔ فقر اگر ایک جذبہ ہے تو یہ جذبہ عشق ہے، اسے جہالت سے واسطہ نہیں ہے۔ فقر تو محض محبت اور اخلاص کی راہ ہے۔ اگر عشق نہ ہو تو فقر کے مطالبات پورے نہیں ہوتے اور نہ ہی منتہائے مقصود کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہوتا ہے جو شوق بے پایاں عنایت کرتا ہے۔ عشق میں یہ کمال ہے کہ اس میں منافقت یا دوئی کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کے زیر اثر انسان مشکل سے مشکل مقام سے بھی گزرنے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور معشوق کے سوا کسی چیز سے قرار نہیں پاتا اور اس کے سوا مخلوق کا منہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ ” ابیات باہو” پنجابی زبان میں حضرت سلطان باہو کی اعلیٰ شاعری کا مجموعہ ہے جس میں آپ بہت ہی منفرد اور بلند مقام پر نظر آتے ہیں۔ اس میں کل دوسو ابیات ہیں ۔ گو کہ ان کا پنجابی کلام مختصر مجموعے پر مشتمل ہے لیکن جو شہرت دوام اور مقبولیت اس چھوٹے سے مجموعہ کلام کو حاصل ہوئی ہے، وہ دوسرے شعرا کے ضخیم دیوانوں کو حاصل نہیں ہو سکی۔ حضرت سلطان باہو نے ابیات کی حرفی کے انداز میں لکھی ہے، جو کہ پنجابی کی خاص صنف ہے، یہ دوسری کسی ہندوستانی زبان میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کی بنیاد فاری اور عربی متن میں ہے۔ اس میں حروف تہجی یا حروف ابجد کے حساب سے شعر کہے جاتے ہیں۔
بعض روایات کے مطابق یہ آپ کی جوانی کے وقت کا کلام ہے۔ دورانِ سلوک آپ جن کیفیات سے گزرے ، ابیات میں انہی کا اظہار ہے۔ آپ کے بعض اشعار میں روحانی تربیت کے ابتدائی دور کی عکاسی نظر آتی ہے۔ آپ نے ابیات میں بہت ہی سادہ زبان استعمال کی ہے، جو کہ اس دور کے عوام کی زبان تھی۔ پنجاب کے صوفیا نے پنجابی ادب کے ذریعے عوام سے رابطہ کی جو مثال قائم کی ہے، وہ بہت سبق آموز بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ اسی لیے آپ کی ابیات میں جو چاشنی پائی جاتی ہے، وہ دیگر پنجابی شعرا کی زبان میں بہت کم نظر آتی ہے۔ ان کے کلام میں اکثر تبحرعلمی ، واردات قلبی و روحانی اور مقامات و مراتب اصفیا کی تشریح و توضیح ملتی ہے۔ ان میں جابجا قرآنی تفسیر کے حوالے اور اعادہ احادیث مبارکہ شامل ہیں ۔ آپ اپنے مرشد پاک غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی کو مدعا و منشا اور محور، مرکز بنا کر مرشد کامل کے اعلیٰ مقامات، تو قیر اور ذریعہ ہدایت و وسیلہ وصال و قرب الہٰی قرار دیتے ہیں۔ آپ مرشد پاک کی اتباع کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرشد اس کو بنائیں جو آپ کو اپنائے اور آپ کو سیدھا رستہ دکھائے ۔ آپ کو شریعت کی سیدھی راہ پر گامزن کرے۔
مرشد کامل او سہیڑئیے جہیڑا دو جگ خوشی دکھاوے ھو
پہلے غم ٹکڑے دا میٹے وت رب دا راہ دکھاوے ھو
اس کلر والی کندھی نو چا چاندی خاص بناوے ھو
جس مرشد ایتھے کجھ نہ کیتا باہو اوہ کوڑے لارے لاوے ھو
(وہی مرشد کامل ہے جو ہمیں دو جہانوں کی خوشیاں دکھائے۔ پہلے ہمارے اندر کے غم ختم کرے اور پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والا سیدھا راستہ دکھائے۔ ہمارے من کی اس کلر لگی دیوار کو صاف کر کے چاندی کی طرح صاف ستھری اور پاک بنا دے۔ لیکن جو مرشد اس دنیا میں آپ کے لیے کچھ نہیں کرتا وہ آپ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے، اس نے آپ کا پاس کہیں بھی نہیں کرنا۔ اس لیے مرشد بناتے وقت دیکھ بھال کر کسی کو اپنا مرشد بناؤ۔)
آپ اپنی ابیات میں ناقابل تردید حقیقت اور احادیث نبوی کے حوالے سے راہ حق میں قربانی کی اہمیت واضح کرتے ہیں اور شہید کر بلا امام حسین کی مثال کو راہِ حق کی پہلی سیڑھی قرار دیتے ہیں۔ آپ عشق کو آب حیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ عشق کی کٹھنائیوں اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ سچا عاشق وہی ہے جس کا دل اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی نہ کا نپے۔ عقل قربانی سے دور بھاگتی ہےجبکہ عشق قربانی کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔
عاشق ہونویں تے عشق کماویں دل نوں رکھیں وانگ پہاڑاں ھو
لکھ لکھ بدیاں تے ہزار الا ہمے کر جانیں باغ بہاراں ھو
منصور جہیے چک سولی دتے جہیڑے واقف کل اسراراں ھو
سجدیوں سر نہ چاہیے با ہو تو ڑے کافر لہن ہزاراں ھو
(اگر تم عاشق ہو اور عشق کرتے ہو تو تمھیں اپنا دل پہاڑوں کے پتھروں جیسا سخت، اونچا اور دکھ سہنے والا رکھنا پڑے گا۔ لاکھ لو گ تمھاری برائیاں کریں یا تمھیں طعنے دیں اور شکوے کریں تمھیں اپنا دل پھولوں کی طرح نرم رکھنا ہو گا جیسے باغ ہوں ۔ یہاں منصور جیسے لوگ جو بہت سے بھیدوں سے واقف حال تھے ان کو لوگوں نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔ تمھیں ہزار لوگ کافر کہیں لیکن تم نے سجدے سے سر نہیں اٹھانا۔ عشق کے جس رستے پر تم چل رہے ہو اس پر ثابت قدم رہنا، اس سے واپس نہیں ہونا ۔ ) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ” سچا عشق حسین علی دابا ہو، سر دیوے راز نہ بھنے ھو۔“
(سچا عشق حضرت امام حسین ؓ نے کیا تھا جنھوں نے اپنا سر کٹا دیا لیکن باطل کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔)
دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ دنیا ر ہنے کی جگہ نہیں اس میں ہمیں اپنا دل نہیں لگانا چاہیے ۔ جس طرح حیض عورت کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے اسی طرح دنیا میں دل لگانے سے بندے کو کچھ یاد نہیں رہتا۔۔
ایہہ دنیا زن حیض پلیتی ہرگز پاک نہ تھیوے ھو
جیں فقیر گھر دنیا ہووے لعنت اس دے جیوے ھو
حب دنیاں دی رب تھیں موڑے ویلے فکر کچیوے ھو
سہ طلاق دنیاں نو دیے جے باہو سچ پچھیوے ھو
(اس کسی حرفی میں آپ دنیا کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ دنیا عورت کے حیض کی طرح پلید ہے اور ناپاک چیز ہے۔ جس فقیر کو اس دنیا سے پیار ہو اور وہ اسے اپنا گھر سمجھے، اس فقیر کی زندگی پر لعنت ہو۔ دنیا کا پیار اور اس کی محبت ہمارے رب سے ملنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔)
دنیا کی خاطر خرچ کرنے کا سلسلہ وہ نا پاک عمل ہے جو ہر نیک کام سے اس طرح محروم کرتا ہے جیسے حیض عورت کو نماز اور تلاوت قرآن پاک سے روک دیتا ہے۔ دنیا کو تین طلاق دینے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اس طرح چھوڑ دینا چاہیے، جس طرح عورت کو تین طلاق ہو جائے تو پھر اس سے دوبارہ رجوع نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ایک دفعہ دنیا کو چھوڑ کر دوبارہ اس سے رجوع نہیں کرناچاہیے۔۔۔
ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کوئی ھو
منگن ایمان شرماون عشقوں دل نوں غیرت ہوئی ھو
جس منزل نوں عشق بچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ھو
میرا عشق سلامت رہوے باہو ایمانوں دیاں دھروئی ھو
(دنیا میں ہر کوئی اپنے ایمان کی سلامتی چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اپنے عشق کی سلامتی نہیں مانگتا ہے۔ ہر کوئی ایمان کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے لیکن عشق کی سلامتی مانگتے ہوئے سب ہی شرماتے ہیں جس سے میرے دل کو بہت غیرت آئی۔ جس منزل پر آپ کو عشق پہنچاتا ہے، ایمان کو اس کی خبر تک بھی نہیں ہوتی ۔ باہو میرا رب سچا میر اعشق سلامت رکھے، مجھے ایمان کی کوئی پروا نہیں ہے۔) ایمان مطلق تو ہر فرد اور فرقہ رکھتا ہے اور ہر ایک خواہش مند ہے۔ خواہ وہ کافر ہو یا منافق ، یہودی ہو یا مسلم، عیسائی ہو یا مشرک لیکن عشق کے طالب خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو کہ اپنی جانوں کو رضامندی مالک پر قربان کر دیتے ہیں اور رننگ و ناموس کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسرے صوفی بزرگوں کی طرح با ہو بھی اپنے آپ کو جاننے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آپ کا دل ہی رب بچے کا گھر ہے۔ آپ کو یہ بات جاننے کی ضرورت ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اند ر آب حیاتی ھو
شوق دا دیوا بال ہنہیرے متاں لبھی دست کھڑاتی ھو
مرن تھیں اگے مر رہے باہو جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھو
اس سی حرفی میں سلطان باہو آپ اپنی ذات کے عرفان کی بات کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آدمی کی ذات بہت اونچی اور سچی ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی ہم سب کے دل میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ فقیر کہتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ اپنے اندر جھانک کے دیکھو تو تمھیں نظر آئے گا کہ رب تو تمھارے اندر ہی موجود ہے۔ وہ تو تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے ۔ تمھیں خواجہ خضر کی منت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے اندر موجود رب کو خود پہچان لے تو تمھیں آبِ حیات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اپنے اندر شوق پیدا کرو۔ تمھارے اپنے اندر کی جو روشنی ہے، اس کی جوت جلاؤ تو تمھیں اپنا گما ہوا اپنا آپ مل جائے گا۔ جو لوگ مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں، ان کو حق کا راستہ مل جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دنیا میں دنیاوی خواہشات کو ترک کر کے فقر کا رستہ اختیار کرتے ہیں، اس دنیا کو بھول کر خیر کے رستے پر چلتے ہیں، وہ ہی حق کی راہ پر ہیں اور وہی ابدی زندگی پاتے ہیں۔
ان کی اس خوبصورت سی حرفی میں بڑی رمز کی باتیں ہیں ؎
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیاں اساں چت مولا ول لایا ھو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھو
مرن توں اگے مر گئے با ہو تاں مطلب نوں پایا ھو
(میرے مرشد فرماتے ہیں کہ تمھارا جو پل اپنے رب کی یاد سے عافل رہتا ہے وہی پل کافر ہے۔ جس وقت تم اپنے رب کو یاد نہیں کرتے ، وہ وقت تم بر باد کرتے ہو۔ مرشد کی اس نصیحت نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ ان کی یہ نصیحت سن کر جب سے میں نے اللہ سے لولگائی ہے تو میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ تب سے میں نے اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے رستے پر چلنا شروع کر دیا ہے۔ جب سے ہم نے اپنی جان اللہ تعالیٰ کے حوالہ کی ہے، اس کی ذات سے ہمیں عشق ہو گیا ہے۔ جب سے ہم نے دنیا اور اس کی یاد کو ترک کیا ہے، ہمیں جینے کا صحیح مطلب سمجھ آیا ہے۔ جووقت اللہ کی یاد سے غافل گزرا، وہ وقت اچھا نہیں ہے، ہمیں مرشد نے یہ بتایا ہے۔ جب سے ہم نے مرشد کی بات مانی ہے تب سے ہماری آنکھیں کھل گئیں ہیں ۔ جب سے ہم اپنے رب کے عشق میں مبتلا ہوئے ، تارک دنیا ہوئے ہیں تو ہمیں جینے کا صحیح سبب پتا چلا ہے۔)
اپنے مریدین اور چاہنے والوں کو زندگی گزارنے کا اصل ڈھنگ بتاتے ہوئے آپ نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تارک دنیا ہونا ہے تو فقیروں کی طرح رہو۔ اس سی حرفی میں آپ کہتے ہیں دل والوں اور صوفیا کی نظر میں فقیر وہ ہے جس کے دل میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور طلب کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ آپ کی نظر میں فقیری خانہ ویرانی کا نام ہے۔۔
جے کر جیوندیاں مر رہناں ہو وے تاں دیس فقیراں بہیے ھو
جے کوئی سٹے گدڑ کوڑا وانگ اروڑی سہیے ھو
جے کوئی کڈے گاہلاں مندے اس نوں جی جی کہیے ھو
گلا الاہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہیئے ھو
قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باہو جیوں رکھے تیوں رہیے ھو
( آپ اس سی کی عرضی میں فرماتے ہیں کہ اگر دنیا میں رہ کر اپنی زندگی سے دنیاوی خواہشات کو نکالنا ہے تو فقیروں کی طرح رہو۔ اگر کوئی تمھارے اوپر کرکٹ کوڑا پھینکے یا برا بھلا کہے تو اس کو چپ کر کے سہ لو ایسے جیسے روڑی پر سب اپنا کوڑا اور گند پھینکتے ہیں تو وہ آگے سے کچھ نہیں کہتی بلکہ چپ چاپ سہ لیتی ہے۔ اگر تمھیں کوئی گالیاں دیتا ہے یا طعنے مہنے دیتا ہے تو وہ بھی آرام سے سہ لو اور ان کو آگے سے جی جی کرتے رہو۔ اپنے رب کے لیے سب گلے ، الا ہمے اور لڑائی جھگڑا اور خواری آرام سے سہ لیں اور آگے سے اُف تک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ جو ایک قادر مطلق ہے اس کےہاتھ میں ہماری ڈور ہے وہ ہمیں جدھر لے جائے ہمارا کوئی دوش نہیں۔ اللہ تعالی کے سامنے سب بے بس ہیں۔)
یہ سی حرفی آپ نے واقعہ کربلا کے پس منظر میں لکھی ہے ۔ واقعہ کربلا کے اصل سبب اور اس میں اس وقت کے موجود لوگوں کے طرز عمل اور کردار کے بارے میں بتایا ہے۔
جے کر دین علم وچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھو
اٹھاراں ہزار جو عالم آہا او اگے حسین دے مردے ھو
جے کچھ ملاحظہ سرور دا کر دے تاں خیمے تمبوں کیوں سڑ دے ھو
جیکر مندے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بند کر دے ھو
پر صادق دین تنہاں دے باہو جو سر قربانی کردے ھو
(وہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے عشق تھا کہ حضرت امام حسین نے دین کی عظمت کے لیے اپنا سر کٹوادیالیکن باطل کے سامنے نہیں جھکے۔ اگر دین صرف علم پڑھنے میں ہی ہوتا تو پھر آپ اپنی جان قربان کیوں کرتے۔ اس وقت اٹھارہ ہزار سے زیادہ عالم دین موجود تھے جو دین کو سمجھتے تھے لیکن ان کے اندر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا عشق نہیں تھا ور نہ وہ حضرت امام حسین ؓسے پہلے دین کے لیے مرتے۔ اگر اس وقت یزید کی فوج والوں کو حضور ﷺ کا ذرا بھی خیال دل میں موجود ہوتا تو وہ ان کی اولاد کے خیموں کو آگ کبھی نہ لگاتے اور آلِ رسول اور ان کے ساتھیوں کے خیمے کربلا میں کبھی نہ جلتے ۔ اگر وہ حضور ﷺکے فرمان کو مانتے ، ان کی راہ پر چلتے تو وہ آل رسول اور ان کے ساتھیوں کا پانی کبھی بھی بند نہ کرتے ۔ سچا دین انہی کے دم سے ہے ؟ جنھوں نے اپنا سر دین پرقربان کر دیا اورظلم کا ساتھ نہیں دیا۔ دین کے ان سچے عاشقوں کی وجہ سے آج دین قائم و دائم ہے۔ ) ۔
چڑ چناں تے کر روشنائی تارے ذکر کریندے تیرا ھو
تیرے جہے چن کئی سے چڑھدے سانوں سجناں باجھ ہنیرا ھو
جتھے چن اساڈا چڑھدا اتھے قدر نہیں کجھ تیرا ھو
جس دے کارن اساں جنم گوایا باہو یار ملے ایک پھیرا ھو
( آپ چاند سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے چاند ! نکلو اور اندھیری رات میں روشنی کرو، ابھی ستارے تمھارا ہی ذکر کر رہے تھے۔ تمھارے جیسے کئی چاند روشن ہوتے ہیں دنیا سے اندھیرا دور کرنے کے لیے لیکن جب تک میرا چاند یعنی میرا محبوب مجھے نہیں ملتا، میری دنیا میں روشنی نہیں آئے گی۔ جہاں میرے چاند یعنی میرے محبوب کے نظر آنے پر ہمیں خوشی ہوگی ، وہاں تمھارے نظر آنے سے ہمیں ذرا خوشی حاصل نہیں ہو گی۔ اے چاند ! تمھاری ہمارے محبوب کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس کے لیے ہم نے اپنی جان گنوائی ہے اور اس دنیا کر ترک کیا ہے اگر وہ ہمیں ایک بارمل جائے تو ہماری دنیا روشن ہو جائے گی۔)
سن فریاد پیراں دیا پیرا میں آکھ سناواں کینوں ھو
تیرے جہیا مینوں ہور نہ کوئی میں جہیاں لکھ تینوں ھو
پھول نہ کاغذ بدیاں والے در توں دھک نہ مینوں ھو
میں وچ ایڈ گناہ نہ ہوندے با ہو تو بخشیندوں کینوں ھو
(اپنے رب کے حضور میں پیش ہو کر آپ فرماتے ہیں کہ اے سب پیروں کے پیر، اس کائنات کے رب! میں اپنی عرض آپ کو سنا رہا ہوں میری فریاد کو آپ سن لیں ۔ میرے جیسے تو آپ کے لیے لاکھوں ہیں لیکن آپ جیسا میرے لیے اور کوئی نہیں ہے۔ مجھے صرف آپ کا ہی سہارا ہے۔ میں بڑے ادب سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے گناہوں کا حساب کتاب نہ لیں کیوں کہ میں بہت ہی گناہ گار شخص ہوں۔ اپنے در سے مجھے نہ دھکیلنا۔ پھر بڑے مان سے اپنے رب سے عرض کرتے ہیں، اے میرے رب اگر میں گناہ گار نہ ہوتا تو آپ کس کو بخشتے۔ میں گناہ گار ہوں اور آپ سے بخشش کا طلبگار ہوں جس کا آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ اے اللہ! ہمیں بخش دے کیوں کہ آپ کے سوا ہمارا کوئی اور نہیں ہے۔)
اللہ والے بزرگوں کی تعریف کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ جو اپنے رب کے سچے عاشق ہیں وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والے لوگ ہیں ۔ وہ سب کے سامنے بڑے چپ رہتے ہیں اور کوئی فاتو بات نہیں کرتے۔ ان کی نشانیاں بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
عشق جنہاں دے ہڈیں رچیا او رہندے چپ چپاتے ھو
لوں لوں دے وچ لکھ زباناں او پھر دے گنگے باتے ھو
اوہ کر دے وضو اسم اعظم دا تے دریا وحدت وچ نہاتے ھو
تدوں قبول نمازاں باہو جد یاراں یار بچھاتے ھو
اس سی حرفی میں آپ رب کے سچے عاشق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب عاشق کی ہڈیوں میں عشق گھر کرتا ہے تو وہ چپ ہو جاتے ہیں شور نہیں کرتے ۔ ان کے روم روم میں ہزار زبانیں بن جاتی ہیں جو ان کے اندر شور مچاتی ہیں لیکن وہ بالکل گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ سارا حال احوال جانتے ہوئے بھی وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ وہ سچے عاشق ہوتے ہیں اور ان کا عشق اپنے رب سے ہوتا ہے، وہ اسم اعظم کا ورد کرتے ہوئے صرف اللہ کی وحدانیت کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ آپ کی عبادت تب ہی قبول ہوتی ہے، جب آپ سچے دل سے اپنے رب کے حضور پیش ہوں اور آپ کا اپنے رب سے عشق سچا ہو۔ پھر آپ کا محبوب یعنی آپ کا رب بھی آپ کو پہچان لیتا ہے۔
حضرت سلطان باہو مذاہب عالم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مذاہب کے دروازے بہت اونچے ہوتے ہیں اور ان کے مباحث بے حد طویل ہوتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میںاللہ عز وجل راستہ بہت مختصر اور آسان ہے اور اس موضوع پر بحث و مباحثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین کے ٹھیکے دار مولویوں، راہبوں، پنڈتوں نے مذہب میں بحث مباحثہ کر کے اس کو اس قدر تار یک او خراب کر دیا ہے کہ بندے کو ان سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اللہ تک رسائی کا راستہ بہت آسان ہے، اس کا دروازہ اونچا نہیں ہے بلکہ وہ تو شاہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔
مذہباں دے دروازے اچے راہ رباناں موری ہو
پنڈتاں تے ملوانیاں کولوں چھپ چھپ لنگھیےچوری ہو
اڈیاں مارن کرن بکھیڑے درد منداں دے کھوری ہو
باہو چل اٹھا ئیں وسیے جتھے دعویٰ ناں کسے ہوری ھو
(مذہب والوں نے رب کے پاس جانے والے رستے بہت مشکل بنا دیے ہیں۔ اس لیے پنڈتوں اور مولویوں سے چوری چوری اپنے رب سے ملنا چاہیے تا کہ وہ آپ کے رب سے عشق کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ کیوں کہ انھوں نے اپنی بحثوں اور باتوں سے رب کے پاس جانے کا راستہ مشکل بنا دیا ہے۔ باہو چلو وہاں چلیں جہاں کوئی ہمیں اپنے سچے رب سے ملنے سے روک نہ سکے۔)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں