846

قاہرہ میں حضرت امام حسین کا مزار اور مرقد سیدہ زینب

تالیف و تحریر :وجاہت علی خان

گذشتہ مہینے مصرکے دارالحکومت قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا تو اہرام مصر اور دیگر عجائبات دیکھنے کے ساتھ ساتھ میری معلومات میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ یہاں حضرت امام حسین ؓ کا مزار بھی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ یہاں اُن کا سر مبارک دفن ہے جبکہ عموماً زیادہ تر لوگوں کو یہی پتا ہوتا ہے کہ امام حسین ؓ کا مزار کوفہ عراق میں ہے لیکن مصریوں کا کہنا ہے کہ سر مبارک قاہرہ میں دفن ہے ۔یہاں ایک بہت بڑا اور خوبصورت مزار بنایا گیا ہے جسے میں نے خود دیکھا ہے سینکڑوں عقیدت مند ہر وقت یہاں موجود ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسین ؓ کے مزار سے کچھ دور قاہرہ میں ہی حضرت بی بی زینب کا روضہ بھی موجود ہے یہاں بھی ہم نے دیکھا نذر و نیاز ، حاجات اور دعائوں کا سلسلہ جاری تھا اس روضہ کے ساتھ ہی ایک خوبصورت مسجد بھی بنائی گئی ہے جبکہ حضرت زینب ؓ کے مزار کے ضمن میں بھی تین طرح کے دلائل یا نظریات ہیں، مدینہ ، قاہرہ یا شام ۔

قاہرہ میں مساجد اور مقدس ہستیوں کے بیشمار مزارات موجود ہیں اس وقت صرف قاہرہ میں 900مساجد ہیں تقریباً گیارہ سوسال قدیم جامع الازہر بھی یہیں ہے ، قاہرہ کی خوبصورت ترین مسجد جامع سلطان حسن بھی میں نے دیکھی بلاشبہ یہ دینا کی تمام مساجد سے منفرد ہے اسے تقریباً 700سال پہلے سلطان حسن نے تعمیر کروایا تھا اسی مسجد کے ایک طرف شاہ فواد اوّل کا مزار اور دوسری طرف جامع رفاعی ہے یہ بھی نہایت عظیم الشان اور بلند مسجد ہے جیسے بیگم ابراہیم پاشا والدہ اسماعیل پاشا خدیو مصر نے تعمیر کروا کے اپنے بزرگ امام رفاعی کے نام کر دیا ۔ جامع سید نا حسین ؓ جامع ازہر سے متصل ہے شاہ فواد اوّل نے اس کی تعمیر و آرائش کروائی تھی ۔ روایت یہ ہے کہ مسجد کے عقبی حصہ میں حضرت امام حسین کا سر مبارک دفن ہے یہاں میں نے دیکھا کہ مصر کے محکمہ اوقاف کی طرف سے حفاظ متعین ہیں جو ہمہ وقت قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیںجبکہ مزار پر بھی ہر وقت خصوصاً شام کے وقت خاصی رونق رہتی ہے اور عقیدت مند خضوح و خشوع میں مصروف رہتے ہیں ۔ حضرت امام حسین ؓ اور حضرت بی بی زینبؓ کے مزارات کی تفصیل یوں ہے ۔

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ حسین نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کر۔ حسین میرے الْأَسْبَاطِ میں سے ایک سِبْطٌ ہے
حسین بن علی بن ابی طالب (4-61 ھ) اباعبد اللہ و سید الشہداء کے نام سے مشہور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ آپ علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے دوسرے بیٹے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے دوران میں آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہ حسن بن علی اور حسین کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ایک بھی ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات بھی نقل ہوئی ہیں انہی میں سے یہ روایات بھی ہیں؛ «حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔

اپنی وفات سے قبل، اموی حکمران معاویہ نے حسن معاویہ معاہدے کے برخلاف اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا جب معاویہ 680ء میں فوت ہوئے تو، یزید نے مطالبہ کیا کہ حسین اس کی بیعت کریں۔ حسین نے یزید سے بیعت کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس کا مطلب اپنی جان کی قربانی دینا تھا۔ نتیجہ کے طور پر، انہوں نے 60 ہجری میں مکہ مکرمہ میں پناہ لینے کے لیے، اپنے آبائی شہر مدینہ چھوڑ دیا۔ [3] وہاں، کوفہ کے لوگوں نے ان کو خط بھیجا اور بیعت کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اپنے رشتہ داروں اور پیروکاروں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ کچھ سازگار اشارے ملنے کے بعد، کوفہ کی طرف روانہ ہوئے [4] لیکن کربلا کے قریب انہیں یزید کی فوج نے روک لیا۔ یزید نے 10 اکتوبر 680 (10 محرم 61 ہجری) کو کربلا کی لڑائی میں ان کے بیشتر اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت، جس میں حسین کا چھ ماہ کا بیٹا، علی الاصغر، خواتین اور بچوں سمیت قتل کیا گیا تھا اور ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
اسلامی تقویم کے پہلے مہینے محرم کے دوران حسین اور اس کے بچوں، کنبہ اور ساتھیوں کی سالانہ یاد منائی جاتی ہے۔ جس دن انہیں شہید کیا گیا عاشورہ (محرم کی دسویں تاریخ،
معاویہ کی موت کے بعد، انہوں نے یزید کے ساتھ بیعت کرنے سے گریز کیا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ چلے گئے اور چار ماہ تک وہیں مقیم رہے۔ کوفہ کے لوگ ، جو زیادہ تر شیعہ تھے، معاویہ کی موت پر خوش تھے اور انہوں نے حسین کو ایک خط لکھا کہ وہ اب بنی امیہ کی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے اور اس سے بیعت کریں گے۔ حسین نے اپنے کزن، مسلم بن عقیل کو بھی، وہاں اس صورت حال کی چھان بین کے لیے بھیجا۔ پھر، کوفہ کے نئے حکمران عبید اللہ ابن زیاد کے اقدامات کے نتیجے میں، لوگ خوفزدہ ہو گئے اور مسلم کو تنہا چھوڑ گئے۔ حسین، کوفہ میں ہونے والے واقعات سے بے خبر، اپنے دوستوں کے ایما پر ذوالحجہ 60ھ میں کوفہ کے لیے روانہ ہوئے، خدا نے وہ کیا کرنا چاہا۔ اس سڑک کے وسط میں، حرف ابن یزید ریاحی کی سربراہی میں کوفہ کی سپاہ نے کوفہ جانے والے قافلے کا راستہ روک لیا اور اس کے نتیجے میں یہ قافلہ اپنے راستے سے ہٹ گیا اور سن 61 ہجری میں محرم کے دوسرے دن کو کربلا پہنچے۔ عمر بن سعد کی کمان میں محرم کے تیسرے دن سے فوجیں کوفہ سے اس علاقے میں داخل ہوگئیں۔ محرم کے دسویں دن کی صبح، عاشورہ، حسین نے اپنی فوج تیار کی اور گھوڑے پر سوار ہوکر ابن سعد کی فوج کو خطبہ دیا اور ان سے اپنا مؤقف بیان کیا۔ لیکن اسے دوبارہ بتایا گیا کہ اسے پہلے یزید کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ اس نے جواب دیا کہ وہ کبھی بھی خود کو غلام کی حیثیت سے سرنڈر نہیں کرے گا۔ یوں، کربلا کی جنگ شروع ہوئی اور دونوں فریقوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔ دوپہر کے بعد، حسین کی فوج کا بہت محاصرہ کیا گیا۔ اس کے سامنے حسین کے ساتھیوں اور کنبہ کے قتل کے ساتھ، وہ آخر کار تنہا رہ گیا اور اس کے سر اور بازو کو زخمی کر دیا اور اس کے چہرے کے بل زمین پر گر پڑے اور سنان ابن انس نخعی یا شمر بن ذی الجوشن نے ان کا سر کاٹ دیا۔ جنگ ختم ہوئی اور ابن زیاد کے سپاہیوں نے لوٹ مار کی۔ ابن سعد نے میدان جنگ چھوڑنے کے بعد، بنی اسد نے حسین اور دوسرے مقتول کو وہاں دفن کر دیا۔ حسین کا سر، دوسرے بنوہاشم کے سروں کے ساتھ، قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ کوفہ اور دمشق لے جایا گیا۔
امام حسینؑ کا سرِ مبارک کہاں دفن ہوا؟
سر امام حسینؑ اور کربلاء کے شہدا ء کے سروں کے مدفن کے بارے شیعہ اور سنی کتب میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور جو اقوال اس بارے میں نقل ہوئے ہیں ان کے حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے مشہور قول جو شیعہ میں سب نے قبول کیا ہے یہ ہے امام علیہ السلام کا سر مبارک کچھ مد ت کے بعد آپ کے بدن مبارک کے ساتھ ملحق ہو گیا اور کربلا میں لا کر دفن کیا گیا ہے۔ ہم مزید معلومات کے لئے ان اقوال کو یہاں ذکر کرتے ہیں ـ:
۱)کربلا
یہ نظریہ علمائے شیعہ میں مشہور ہے اور علا مہ مجلسیؒ نے اس کی شہرت کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱)شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے سر مبارک کے آپ کے بدن کے ملحق ہونے کے بارے میں فاطمہ بنت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے۔ (۲) اب اس کی کیفیت کیا تھی کہ کیسے آپ کا سر مبارک آپ کے بدن سے ملحق ہوا ،اس بارے میں مختلف نظریات ذکر کئے گئے ہیں ۔ بعض جیسے سیدابن طاؤس اسے امر الٰہی شمار کرتے ہیں کہ خداوند نے خود اپنی قدرت کاملہ سے اعجاز کے طور پر یہ کام انجام دیا اور سید نے اس بارے میں چون و چرا سے بھی منع فرمایا ہے۔ (۳)
بعض دوسرے قائل ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام جب شام سے واپس تشریف لائے(۴) تو وہ سر امامؑ کو اپنے ساتھ لائے اور کربلا میں اپنے بابا کے بدن کے ساتھ دفن کیا۔(۵)
اب یہ سوال کہ کیا سر بدن کے ساتھ ملحق ہو گیا یا امام کی ضریح میں یا اس کے نزدیک دفن کیا گیا۔ اس با رے میں کوئی واضح عبارت تو نہیں ملتی یہاں بھی سید ابن طاؤس نے چون و چرا سے نہی فرمائی ہے۔ (۶)
بعض قائل ہیں کہ سر مبا رک کو تین دن دروازہ دمشق پر آویزاں رکھنے کے بعد اتار کر حکومتی خزانے میں رکھ دیا گیا اور سلیمان عبدالملک کے دور تک یہ سر وہیں تھا اس نے سر مبارک کو وہاں سے نکالا اور کفن دے کر دمشق میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا، اس کے بعد اس کے جانشین عمر بن عبدالعزیز ( ۹۹ تا ۱۰۱ہجری حکومت) نے سر کو قبر سے نکالا، لیکن پھر اس نے کیا کیا یہ معلو م نہیں ہوسکا ، لیکن ان کی ظاہری شریعت کی پابند ی کو دیکھتے ہوئے زیادہ احتمال یہی ہے کہ اس نے سر کو کربلا بھیجا ہو گا۔ (۷)
۲)حضر ت علی علیہ السلام کی قبر کے پاس نجف میں
علامہ مجلسیؒ کی عبارت اور روایات میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سر مقدس سید الشہداء، نجف اشرف میں حضر ت علی علیہ السلام کی قبر کے پاس دفن ہوا۔ (۸)
روایات میں آیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کے ہمراہ نجف میں حضرت امیر المومنینؑ پر درود و سلام بھیجنے کے بعد امام حسینؑ پر سلام بھیجا۔ اس روایت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے دور تک سر مقدس نجف اشرف میں مدفون تھا۔(۹)
بعض دوسری روایا ت بھی اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں بلکہ بعض شیعہ کتابوں میں توحضرت علیؑ کی قبر مطہر کے پا س سر امام حسینؑ کی زیا رت بھی نقل ہوئی ہے۔ (۱۰)
سرِ مقدس کو نجف منتقل کرنے کے حوالے سے امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ اہل بیتؑ کے چاہنے والوں میں سے ایک شخص نے شام سے کسی نہ کسی طریقے سے یہ سر حاصل کیا اور حضر ت علیؑ کی قبر میں لا کر دفن کر دیا ۔(۱۱) لیکن اس نظریے پر اشکال یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے دور تک تو حضرت علیؑ کی قبر مبارک عام لوگوں سے مخفی تھی اور انہیں اس کا پتہ نہیں تھا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ دمشق میں سر مقدس کے ایک مدت تک رکھے جانے کے بعد اسے کوفہ ابن زیاد کے پاس بھیج دیا گیا اور اس نے لوگوں کی شورش کے خوف سے حکم دیا کہ سر کو کوفہ سے باہر لے جا کر حضرت علیؑ کی قبر کے پاس دفن کر دیا جائے۔(۱۲) اس پر بھی وہی اشکال ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے حضرت علیؑ کی قبر مخفی تھی۔
۳)کوفہ
سبط ابن جوزی نے یہ نظریہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ عمرو بن حریث مخزومی نے سر کو ابن زیاد سے لیا اورپھر اسے غسل و کفن دیا اور خوشبو لگانے کے بعد اپنے گھر میں دفن کردیا ۔(۱۳)
۴)مدینہ
ابن سعد ( طبقا ت کے مصنف ) نے یہ نظریہ قبول کیا ہے کہ یزید نے سر حاکم مدینہ عمرو بن سعید کو بھیجا اور اس نے اسے کفن دینے بعد جنت البقیع میں امامؑ کی والدہ ماجدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی قبر کے پاس دفن کر دیا۔ (۱۴)
بعض دوسرے اہل سنت علماء جیسے خوارزمی نے مقتل الحسینؑ میں اورابن عماد جنبلی نے شذرات الذھب میں بھی یہی نظریہ قبول کیا ہے۔ (۱۵) اس نظریے پر اہم اشکال یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر تو معلوم نہیں تھی تو پھر اس کے ساتھ دفن کرنا کیسے ثابت ہوا۔
۵)شا م
کہا جا سکتا ہے کہ اکثر اہل سنت کا یہی نظریہ ہے کہ سر مقدس شام میں مدفون ہے اور پھر اس نظریے کے قائلین میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اس بارے پانچ نظریات ذکر کئے گئے ہیں :
الف: دروازہ فرادیس کے پا س دفن ہوا بعد میں وہاں مسجد الرائس تعمیر کی گئی،
ب: جامع اموی کے پاس ایک باغ میں دفن ہے،
ج: دارالامارہ میں دفن ہے،
د: دمشق کے ایک قبرستان میں دفن ہے،
ھ: باب تو ماکے نزد یک دفن ہے، (۱۶)
۶)رِقّہ
نہر فرات کے کنارے ایک شہر ہے، جس کا نا م رِقّہ ہے، اس دور میں آل عثمان میں سے آل ابی محیط کے نام سے مشہورایک قبیلہ وہاں آباد تھا، یزید نے سرمقد س ان کے پاس بھیجا اور انہوں نے اسے اپنے گھر کے اندر دفن کر دیا ،بعد میں وہ گھر مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ (۱۷)
۷) مصر (قاہرہ)
نقل ہواہے کہ فاطمی حکمران جن کی حکومت مصر پر چوتھی صدی ہجری کے دوسرے نصف سے شرو ع ہوئی اور سا تویں صدی ہجری کے دوسرے نصف تک باقی رہی ، یہ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے سر امام حسین علیہ السلام کو شام کے باب الفرادیس سے عسقلان منتقل کیا اور پھر عسقلان سے قا ہرہ منتقل کیا اور وہاں دفن کر کے ۵۰۰ سا ل بعد اس پر تا ج الحسینؑ کے نام سے مقبرہ تعمیر کیا ۔ (۱۸)
تبریزی نے عسقلان سے قاہرہ کی طرف سر مقدس کے انتقال کی تا ریخ ۵۴۸ ہجری لکھی ہے اور کہا ہے کہ جب سر مقدس عسقلا ن سے نکالا گیا تو دیکھا گیا کہ خون ابھی تک تازہ ہے اور خشک نہیں ہوا اور مشک و عنبر کی خوشبو سر سے پھو ٹ رہی تھی ۔ (۱۹)
علامہ سید محسن امینی عسقلا ن سے مصر سر کے انتقال کا قول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ، سر مقدس کے دفن کی جگہ پر بہت بڑی بارگاہ بنائی گئی ہے اورا س کے پاس ایک بہت بڑ ی مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ میں نے ۱۳۲۱ہجری میں وہاں زیارت کی اور وہاں میں نے زائرین کی بڑی تعداد زیارت و گریہ کرتے ہوئے دیکھا ، پھر آپ فرما تے ہیں کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سر عسقلان سے مصرمنتقل ہوا ہے ، لیکن آیا وہ امام حسین علیہ السلام کا سر تھا یا کسی اور کا اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ (۲۰)
علامہ مجلسیؒ نے بھی بعض مصریوں سے نقل کیا ہے، مصر میں مشہد الکریم کے نام سے بہت بڑی بارگاہ موجود ہے
روضہ امام حسینؑ
امام حسین علیہ السلام کا روضہ، امام حسینؑ اور بعض بنی ہاشم و کربلا عراق میں امامؑ کے اعوان و انصار کے دفن ہونے کا مقام ہے۔ جو 10 محرم سنہ 61 ہجری میں عبید اللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ مختار ثقفی نے امام حسینؑ کی قبر پر پہلی بناء رکھی اور بعد کے ادوار میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں اور شیعوں نے خاص طور پر سلاطین اور بادشاہوں نے اس روضہ کی باز سازی اور تعمیر و توسیع کے سلسلہ میں خاص اہتمام کئے۔
امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنا ایسا عمل ہے جو ہمیشہ شیعوں کی توجہ کا باعث رہا ہے اور جس پر شیعہ ائمہ کی احادیت میں تاکید کی گئی ہے۔ زیارت کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد عاشورا و اربعین اور نیمہ شعبان کے مواقع پر امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع ہوتی ہے۔ شیعہ فقہ میں امام حسینؑ کے حرم اور ان کی تربت کے سلسلہ میں مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔

مرقد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
حضرت السیدہ زینب (س) کی قبر مطہر کے بارے میں تین احتمالات پائے جاتے ہیں: مدینہ منورہ، شام اور قاہرہ۔
یحیی بن حسن حسینی عبیدلی اعرجی نے کتاب” اخبار زینبیات” میں اور بعض دوسرے سیرت نویسوں نے کہا ہے ک ہحضرت زینب (س) نے مصر میں وفات پائی ہے۔ علامہ حسنین سابقی نے اپنی کتاب” مرقد عقیلہ زینب” میں اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ حضرت زینب (س) کا مرقد شام اور دمشق میں واقع ہے۔
بعض دوسرے مصنفوں، جیسے: ڈاکٹر شہیدی اپنی کتاب ” زندگانی فاطمہ زہراء (س)” میں ان کا مرقد شک و شبہہ کی صورت میں شام اور مصر بیان کیا ہے۔
جنھوں نے یہ کہا ہے کہ حضرت زینب(س) کا مقبرہ مصر میں واقع ہے، انھوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ واقعہ کربلا کے اسراء کا کاروان شام سے مدینہ آنے کے بعد، مدینہ کے حالات نا آرام ہوئے۔
حاکم مدینہ نے یزید کو ایک خط لکھا اور اس خط میں مدینہ میں رونما ہوئے حالات اور لوگوں کی بیداری اور مقاومت کے سلسلہ میں حضرت زینب (س) کے رول کی وضاحت کی۔ یزید نے جواب میں لکھا کہ زینب (ع) کو مدینہ سے نکال دیں۔ حاکم مدینہ اصرار کرتا تھا کہ حضرت زینب (ع) مدینہ سے نکلیں ۔ بالآخر زینب (ع) نے مدینہ سے مصر ہجرت کی اور وہاں پر حاکم مصر اور مصر کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ حضرت زینب (ع) نے تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد 15 رجب سنہ 63ھ ق کو غروب کے وقت قاہرہ میں وفات پائی۔
لیکن جنہوں نے یہ کہاہے کہ حضرت زینب (ع) کا مقبرہ شام میں ہے، انھوں نے حاکم مدینہ کی اس داستان کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حضرت زینب (ع) شام چلی گئیں اس سلسلہ میں ایک اور روایت نقل کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ: جب سنہ 62ہجری قمری میں یزدیوں کے توسط سے مدینہ میں واقعہ حرّہ اور غارت اور قتل عام پیش آیا تو، عبداللہ بن جعفر، نے اپنی شریک حیات حضرت زینب (ع) کے ہمراہ شام میں ایک مزرعہ (کھیت) کی طرف ہجرت کی تاکہ حضرت زینب (ع) کا غم تجدید نہ ہوجائے اور تھوڑا سا غم و اندوہ کم ہوجائے، اس کے علاوہ مدینہ میں طاعون کی بیماری پھیلی تھی اس لئے اس سے بچنے کے لئے عبداللہ بن جعفر حضرت زینب (ع) کے ہمراہ شام چلے گئے اور وہاں پر سکونت اختیار کی، حضرت زینب (ع) بیمار ہوئیں اور وہیں پر وفات پائی۔ زینب کبری (ع) کے بعد، ام کلثوم، حضرت علی (ع) کی دوسری بیٹی جو فاطمہ زہراء (ع) کے بطن سے نہیں تھیں اور ان کا نام زینب صغری تھا، زینب کبری کے نام سے مشہور ہوئیں اور وہ مصر چلی گئیں۔
اگرچہ یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر کہاں پر ہے، پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ: جو زیارت گاہیں اور اماکن اس مقدس خاتون سے منسوب ہیں، وہ خدا کے ذکر و توجہ اور انسان ساز اور شہیدوں اور اہل بیت (ع) سے پیوند کی جگہیں ہیں۔ سب اس آیہ شریفہ:” یہ چراغ ان گھروں میں ہے جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔” کے مصداق ہیں۔ یہ جگیں اگرچہ صرف ان سے منسوب ہی ہوں، خدا کے ذکر اور توجہ اور انسان سازی اور شہیدوں اور اہل بیت (ع) سے پیوند کی جگہیں ہیں۔ اہل بیت کی دفن کی جگہ جہاں پر بھی ہو، یہ اماکن ان کی یاد کو تازہ کرنے والے ہیں اور یہ یادیں عاشقوں کے دلوں میں قرار پاتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں