594

حضرت عمر فاروق ؓکی شہادت

تخلیص: ابوبکر عظیم
٢٣ اگست ٦٣٤ عیسویں اور سن ١٣ ہجری ٢٢ جمادی الثانی کو حضرت عمر نے حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد مسند اقتدار سنبھالی انکی پیدائش ٣٨٦ یا ٥٩٠ کے درمیان مکہ میں اور- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کیلئے روشن خدمات ، جرات وبہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات وترقی اور عروج کا زمانہ تھا مسلمان اس قدر خوشحال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰة دینے کیلئے ”مستحق زکوٰة “ کو تلاش کرتے تھے
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کیلئے روشن خدمات ، جرا وبہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات وترقی اور عروج کا زمانہ تھا مسلمان اس قدر خوشحال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰة دینے کیلئے ”مستحق زکوٰة “ کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰة لینے والامشکل سے ملتا تھا۔سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضورنے بارگاہ خداوندی میں جھولی پھیلا کر مانگا تھا اسی وجہ سے آپ کو ”مرادِ مصطفےٰ“ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ خوش نصیب صحابہ کرام میں بھی شامل ہیں جن کو دنیا میں ہی حضور نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔آپ رضی اللہ عنہ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبوی موجود ہیں۔آپ کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمررضی اللہ عنہ ہوتا۔ (ترمذی)

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ”نصرت الٰہی“ تھی اور ان کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے (عمررضی اللہ عنہ ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب تم کو شیطان کسی راستہ پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم )ایک موقع پر حضور نے فرمایا کہ بلاشبہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے عمررضی اللہ عنہ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو (جاری ) قائم کر دیا ہے۔ (ترمذی)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ ”بدر کے قیدیوں“ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپ کی رائے اور مشورہ کی تائید کی میں ”آیت قرآنی“ نازل ہو گئی۔آپ کا نام عمر ابن خطاب ، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے، آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور سے ملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ نبوت کے چھٹے سال 33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے مال مال ہوئے جبکہ آپ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہو چکی تھیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم قد دارز تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ ایسا معلوم ہوتا گویا آپ سواری پر سوار ہیں۔ آپ زبردست بہادر اور بڑے طاقت ور تھے اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی اسلام لانے کے بعد ویسی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپ خاندان قریش کے باوجاہت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف ہے اور آپ کا اسلام لانا حضور کی دعاوں کا ثمرہ اور معجزہ تھا۔
آپ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رْعب پڑ گیا۔ آپ کے اسلام لانے سے حضور نے بیت اللہ میں ”اعلانیہ“ نماز ادا کی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اللہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔
آپ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبہ کیلئے بہت کام کیا۔ خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی شخص نہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے انتخاب کیلئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ”خفیہ رائے شماری“ کا طریقہ اختیار کیا۔
صحابہ کرام کی ”اعلیٰ مشاورتی کونسل“ اور جلیل القدر صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ”جانشینی“ کا اعلان کیا۔ بعض مورخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرام نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا مزاج سخت ہے اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہو گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ عمررضی اللہ عنہ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمہ داری عائد ہو گی تو یقیناً جلال و جمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ! اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضور اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیضیاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہ کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہو گی۔ اسی خطبہ میں آپ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں ”سْنت نبوی“ اور ”سیرتِ صدیقی“ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے پھر دوبارہ آپ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپ بہت خوش ہوئے۔
”خلیفہ المسلمین “ بننے کے بعد آپ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پاوں رکھتے تھے صحابہ کرام نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا! میرے لئے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاوں رہتے ہوں۔
آپ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جو آپ کی ضرورت کیلئے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کئے۔ آ پ میں خشیت اور خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں ”آیت قیامت و آخرت“ کے ذکر پر بے ہوش ہو جاتے۔ زکوٰة و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ آخر ی عمر میں سوائے ”ایام ممنوعہ“ کے ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کیلئے راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرام جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال کرتے بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نہ جب کسی صوبہ یا علاقہ میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے۔ آپ مختلف علاقوں کا خود دورہ کر کے لوگوں کے مسائل وشکایات کو دور کرتے۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ”بیت المقدس“ کو فتح کرنے اور ”قیصر وکسریٰ“ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا۔
اپنے دور خلافت میں آپ نے بیت المال یعنی خزانہ کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔ ”جیل خانہ“ اور پولیس کا محکمہ بھی آپ نے ہی قائم کیا۔ ”تاریخ سن“ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ امیر المومنین کا لقب اختیار کیا فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ”دفتر مال“ قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کیلئے ”درہ“ کا استعمال کیا، مسافروں کے آرام کیلئے مکانات تعمیر کروائے، گم شدہ بچوں کی پرورش کیلئے ”روزینے“ مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قائم کئے۔
اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔یکم محرم الحرام 23 ہجری کوخلیفہ راشد، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔
حضرت عمر فاروق کی فتوحات کا اجمالی جائزہ
مسلمانوں نے اپنے جوش،ثبات اوراستقلال کے باعث حضرت عمر ؓ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم ایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ؛لیکن کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا اعظیم الشان انقلاب پیدا کردیاہو؟ بے شبہ سکندر،چنگیزاورتیمورنے تمام عالم کوتہ وبالا کر دیا؛لیکن ان کے فتوحات کو فاروق اعظم ؓ کی کشورستانی سے کوئی مناسبت نہیں،وہ لوگ ایک طوفان کی طرح اٹھے اورظلم وخونریزی کے مناظر دکھاتے ہوئے ایک طرف سے دوسری طرف کو گزرگئے،چنگیز اورتیمور کا حال تو سب کو معلوم ہے،سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ اس نے ملک شام میں شہر صورفتح کیا تو ایک ہزار شہریوں کے سرکاٹ کر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکادیئے اور تیس ہزار بے گناہ مخلوق کو لونڈی غلام بناکر بیچ ڈالا، اسی طرح ایران میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کرادیا،برخلاف اس کے حضرت عمر ؓ کے فتوحات میں ایک واقعہ بھی ظلم وتعدی کا نہیں ملتا،فوج کی خاص طور پر ہدایت تھی کہ بچوں، بوڑھوں،عورتوں سے مطلق تعرض نہ کیا جائے، قتل عام تو ایک طرف، ہرے بھرے درختوں تک کاٹنے کی اجازت نہ تھی، مسلمان حکام مفتوحہ اقوام کے ساتھ ایسا عدل وانصاف کرتے تھے اوراس طرح اخلاق سے پیش آتے تھے کہ تمام رعایا ان کی گرویدہ ہوجاتی اوراسلام حکومت کو خدا کی رحمت تصور کرتی تھی،صرف یہی نہیں ؛بلکہ وہ لوگ جوش امتنان میں مسلمانوں کی اعانت ومساعدت سے دریغ نہیں کرتے تھے،فتوحات شام میں خود شامیوں نے جاسوسی اورخبررسانی کی خدمات انجام دیں، حملہ مصر میں قبطیوں نے سفر مینا کا کام کیا،] اسی طرح عراق میں عجمیوں نے اسلامی لشکر کے لیے پل بندھوائے اورغنیم کے راز سے مطلع کرکے نہایت گراں قدرخدمات انجام دیں،ان حالات کی موجودگی میں حضرت عمر ؓ کے مقابلہ میں سکندر اورچنگیز جیسے سفاکوں کا نام لینا کس قدر بے موقع ہے، سکندر اورچنگیز کی سفاکیاں فوری فتوحات کے لیے مفید ثابت ہوئیں؛لیکن جس سلطنت کی بنیاد ظلم وتعدی پر ہوتی ہے وہ کبھی دیرپا نہیں ہوسکتی ہے؛چنانچہ ان لوگوں کی سلطنت قائم کی اس کی بنیاد عدل وانصاف اورمسالمت پر قائم ہوئی تھی،اس لیے وہ آج تیرہ سو برس کے بعد بھی اسی طرح ان کے جانشینوں کے قبضہ اقتدار میں موجود ہے۔ یورپین مورخین عہد فاروقی کے اس بدیع مثال کارنامے کی اہمیت کم کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت فارس وروم کی دونوں سلطنتیں طوائف الملوکی اورمسلسل بدنظمیوں کے باعث اوج اقبال سے گزرچکی تھیں؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی ایسی زیردست سلطنتیں بادشاہوں کے ادل بدل اورمعمولی اختلاف سے اس درجہ کمزور ہو گئی تھی کہ روم و ایران میں قسطنطین اعظم اورخرد پرویز کا جاہ و جلال نہ تھا، تاہم ان سلطنتوں کا عرب جیسی بے سروسامان قوم سے ٹکراکرپرزے پرزے ہوجانا دنیا کا عجیب وغریب واقعہ ہے اورہم کو اس کا راز ان سلطنتوں میں کمزوری میں نہیں ؛بلکہ اسلامی نظام خلافت اورخلیفہ وقت کے طرز عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔
شہادت
مغیرہ بن شعبہ ؓ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے جس کی کنیت ابولولوتھی،حضرت عمر ؓ سے اپنے آقا کے بھاری محصول مقررکرنے کی شکایت کی،شکایت بے جا تھی، اس لیے حضرت عمر ؓ نے توجہ نہ کی،اس پر وہ اتنا ناراض ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر لے کر اچانک حملہ کر دیا اور متواتر چھ وار کیے،حضرت عمر ؓ زخم کے صدمے سے گرپڑے،اورحضرت عبدالرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی۔ یہ ایسا زخم کاری تھا کہ اس سے آپ جانبر نہ ہو سکے، لوگوں کے اصرار سے چھ اشخاص کو منصب خلافت کے لیے نامزد کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو جس پر باقی پانچوں کا اتفاق ہوجائے اس منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے، ان لوگوں کے نام یہ ہیں، علی ؓ، عثمان ؓ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ ،سعد بن ابی وقاص ؓ، عبدالرحمن بن عوف ؓ،اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی جازت لی۔ س کے بعد مہاجرین انصار ،اعراب اوراہل ذمہ کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے صاحبزادے عبد اللہ ؓ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگروہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے،ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنااور اگر ان سے نہ ہو سکے تو کل قریش سے ؛لیکن قریش کے سوا اورکسی کو تکلیف نہ دینا۔ سیدنا عمرؓ بن خطاب پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا ، اور جمعرات کے روز جام شہادت نوش کرگئے ۔ ابن اثیرؒ کے مطابق “سیدنا عمرؓ کی وفات ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں یعنی 26 ذی الحج کو ، اور اتوار کے دن سیدنا عثمانؓ کی بیعت ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی ایک رات باقی تھی ، اسلئے صحیح یہی ہے کہ 26 یا 27 ذوالحجہ تاریخ شہادت ہے “

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں