501

سورۃ البقرہ کی آیت158کی تفسیر

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جس نے حج کیا بیت اللہ یا عمرہ کیا اس کے لیے کوئی گناہ والی بات نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان چکر کاٹے اور جس نے خوشی سے نیکی کی توبے شک اللہ اجر دینے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘۔
آیت کے استفہام میں دس نکات پر بحث کی جاتی ہے :
1۔آیت کا شان نزول
2۔ صفا کامعنیٰ اور تاریخ
3۔ مروہ کا مفہوم اور تاریخ
4۔ شعائر اللہ سے مراد کیا ہے ؟
5۔حج کا معنیٰ و مفہوم
6۔عمرہ اور اس کی ادائیگی
7۔سعی اور اس کی شرعی حیثیت
8۔ نیکی میں وسعت برتنا
9۔اللہ تعالیٰ کا قدردان اور جاننے والا ہونا
10۔ آیت کے اسباق
آیت کا شان نزول
زمانہء جاہلیت میں لوگ مناسک حج ادا کرنے کے لیے مکہ آتے تھے ۔ ابراہمی شعائر اور مشاعر اگرچہ موجود تھے لیکن مشرکین نے کچھ فالتو چیزیں اور آلودگیاں بھی ان شعائرمیں داخل کر دی تھیں ۔حضور ؐ کی آمد کے بعد احکام و مراسم میں کھوٹا کھرا الگ الگ کرکر دیا گیا ، صفا و مروہ پر چونکہ جہالت کے دور میں دو بت نصب تھے : ایک کا نام اساف تھا اور دوسرے کا نام نائلہ تھا ۔صحابہ کرام رضوان ؓ جن کی طبیعت میں توحید کا فیضان راسخ تھا وہ مشرکانہ استہانوں کو ناپسند کرتے تھے ، انہوں نے صفا و مروہ پر چڑھنے میں کراہت محسوس کی تو یہ بات سمجھائی گئی کہ صفا اور مروہ شعائر اسلام ہیں جن چیزوں کی طرف خیر و شر دونوں کی نسبت ہو خیر کو دیکھا جاتا ہے شرکو نہیں دیکھا جاتا یہ بات سمجھنے کی ہے (131)۔
صفا اور مروہ کی تاریخ
صفا اور مروہ مکہ شہر کی دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں ۔ بغوی نے لکھا (132)کہ ’’ صفا‘‘ ’’ صفاۃ‘‘ کی جمع ہے یہ سخت اورچکنے پتھر کو کہتے ہیں ۔ اس قسم کے پتھروں کو ’’حصاۃ‘‘ اور ’’نواۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ’’المروہ ‘‘ کا مطلب ایسی پہاڑی ہے جس میں قدرے نرم ، پتھر استعمال ہوا ہو ۔ مروہ کی جمع مروات ہے ۔ اردو کا لفظ مروت بھی اس مادہ سے ماخوذ ہے کمال انسانیت سے بھی اس لفظ کو سمجھا گیا ہے ۔ صاحب مروت وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی شہرت ، حقیقت ، عفت کومیلا نہیں ہونے دیتا۔ حافظ نے لکھا کہ نیکی کا وہ جذبہ انسان کو خلوت میں بھی وہ کام نہیں کرنے دیتا جو جلوت میں کرنے سے بندہ جھجھک محسوس کرتا ہو (133)۔
صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں ایک دوسرے سے تقریباً چار سو اور ستائیس میٹر کے فاصلے پر ہیں ۔ موجودہ صورت میں صفا پہاڑی تقریباً پندرہ میٹر اور مروہ آٹھ میٹر اونچی چھوڑ دی گئی ہے ۔ شیعہ مفسرسن نے ’’ صفا ‘‘ سے نرمی کا معنیٰ کیا ہے اور ’’ مروہ ‘‘ سے سختی اور مضبوطی کامعنیٰ لیا ہے (134) ۔ معنوی کشائش ، وسعت اور پھیلائو دراصل عربی زبان کی وسعت کی وجہ سے ہے اسے تضاد سے تعبیر نہیں کرنا چائیے بلکہ فصاحت اور بلاغت سے معبرّ سمجھنا چائیے۔ازرتی نے تاریخ مکہ میں ان پہاڑیوں کی طرح پہاڑیوں کے ناموں کو بھی قدیم الاصل جانا ہے (135)۔ واللہ اعلم
شعائر کی بحث
’’ شعائر ، شعیرہ ‘‘ کی جمع ہے اور اس کی اصل ’’ شعر‘‘ ہے ، یہ لفظ باب کرم اور نصر دونوں سے استعمال ہوتا ہے ۔ زیادہ تر معانی نصر سے آتے ہیں ۔ زبیدی حنفی اور راغب اصفہانی نے اس کے پندرہ مصدری معانی کا ذکر کیا ہے ۔ ابن منظور نے لکھا کہ حجم میں کسی چھوٹی چیز کو ’’ شعار یر ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ککڑی اگر چھوٹی ہو تو اسے ’’ شعرورہ‘‘ کہہ دیتے ہیں ۔ صفا اور مروہ کو ممکن ہے شعائر میں شامل کرنے کی مناسبت یہ ہو کہ مکہ کے باقی پہاڑوں کی نسبت حجم میں چھوٹے ہیں ۔ ’’ شعار‘‘ ان پودوں کو بھی کہتے ہیں جنہیں کاٹ کر ان کا تیل نکالا جاتا ہے ، کاٹنا اور پسنا بھی ’’ شعر ‘‘ کہلاتا ہے ۔ بالوں کو ’’ شعر ‘‘ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ کاٹ دئے جاتے ہیں ، ممکن ہے کہ شعر اور شعور دونوں کے متقارب ہونے کی وجہ سے موزوں کلام اور لطیف کلام کو ’’شعر ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے ۔ صحرا میں وہ ٹیلے جن پر ریت کی کثرت ہو وہ بھی ’’ شعائر ‘‘ کہلاتے ہیں۔ شعر کو شعر اس لئے بھی کہتے ہیں کہ کلام سے فالتو حروف کاٹ دئے جاتے ہیں ۔ گھنا جنگل جہاں درختوں کی کثرت زمین کو ڈھانپ لے وہ ’’ شعائر ‘‘ کہلاتی ہے ۔ بالوں کی کثرت کے لئے بھی ’’ شعر ‘‘ کا مادہ استعمال ہوتا ہے ۔ جن ائمہ لغت نے بغل اورز یر ناف بالوں کے لئے یہ مادہ نقل کیا وہ اس لئے کیا کہ بال کثیرہوتے ہیں اور ان کے گندہ ہونے کی وجہ سے انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ چھری کو عربی زبان میں ’’شعیرہ ‘‘کہہ دیتے ہیں مکن ہے ’’ جو ‘‘کے دانے کو بھی ’’ شعیرہ ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہیں کوٹ کر صاف کیا جاتا ہے ۔ جنگی علم کو ’’ شعیرہ ‘‘ کہہ دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ثبات کی علامت ہوتی ہے ۔ زبیدی حنفی نے ’’ شعیرہ‘‘ اس نشان کوکہا ہے جسے دیکھ کر کسی کی اطاعت کرنا یاد آ جائے ۔ وہ لکھتے ہیں کوٹ یا لباس کا نچلا کپڑا جو بدن کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے ’’ شعار ‘‘ کہلاتا ہے ۔ اونٹوں کے بدنوں پر نشان لگانا بھی ’’ الشیعر‘‘ کہلاتا ہے ۔ زعفران اور اس کی جملہ اقسام کو ’’ شعار ‘‘ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ ماحول کو پہلی حالت سے کاٹ کر خوشبو دار بنا دیتی ہیں اور زعفران کی پتیاں بالوں کی طرح چھوٹی اور لطیف ہوتی ہیں۔ ابو حنیفہ نے اس کا معنیٰ چھا جانا اور ڈھانپ لینا کیا ہے۔ صاغانی نے لکھا کہ صحرا کی وہ بوٹی ’’ شعر ‘‘ ہوتی ہے جسے اونٹ کھانے کی شدید حرص رکھتے ہیں۔ ابن منظور نے لکھا کہ درختوں کی چوٹیاں ’’ مشاعر ‘‘ کہلاتی ہیں۔ لطیف اور گداز ہونا بھی ’’شعر ‘‘کے مفہوم میں سمجھا گیا ہے ۔ وہ جگہ جہاں قربانیوں کے جانور ذبح کئے جائیں ۔ ناخن کے نیچے کا گوشت ’’ اشعر ‘‘ کہلاتا ہے ۔ ’ ’ شعیر ‘‘ اس شخص کو بھی کہہ دیتے ہیں جو دانا اور ذہین ہو ۔ ائمہ لغت نے ’’ شعور ‘‘ ہوتی ہے جسے اونٹ کھانے کی شدید حرص رکھتے ہیں۔ ابن منظور نے لکھا کہ درختوں کی چوٹیاں ’’ مشاعر ‘‘کہلاتی ہیں ۔ لطیف اور گداز ہونا بھی ’’ شعر ‘‘ کے مفہوم میں سمجھا گیا ہے۔ وہ جگہ جہاں قربانیوں کے جانور ذبح کئے جائیں۔ ناخن کے نیچے کا گوشت ’’ اشعر ‘‘کہلاتا ہے ۔ ’’ شعیر ‘‘ اس شخص کو بھی کہہ دیتے ہیں جو دانا اور ذہین ہو ۔ ائمہ لغت نے ’’ شعور ‘‘ کا معنیٰ لکھا کہ یہ عقل کی وہ قسم ہے جو انسان کے دل میں عمل کی تحریک پیدا کرے ۔ ’’ شعر ‘‘ میں معنوی ارتقاء ہوتا ہے استد بار نہیں ہوتا ۔ ’’ شعیر‘‘ کا معنیٰ منظم انداز میں پھینکنا بھی ہوتا ہے ۔ زلفیں دراز رکھنے والا شخص بھی ’’ شعیر ‘‘ کہلاتا ہے۔
لغت کی تمام کتب سے استفادہ کرتے ہوئے شعائر اور شعر ، شعور اور شعرور یا مشاعر کے مندرجہ ذیل معانی متعین کئے جا سکتے ہیں :
1۔ نشان یا نشانی
2۔ عقل اور سوچ کو تیز کرنے والی چیز
3۔محسوسات میں اتر جانے والا وسیلہ
4۔ جنگی نشان جو بہادری کی داستان بیان کرے
5۔موزوں کلام جس میں شعور کی بالا دستی ہو ا اور وہ کلام موزوں بھی ہو
6۔جو کے دانے
7۔ گھنے درخت
8۔ تیز خوشبوئیں
9۔کاٹنا اور قطع کرنا
10۔باطن اور روح کے ساتھ متعلق ہونا
11۔حیرت اور استعجاب
12۔ وہ سوچ جو عمل کی تحریک پیدا کرے
13۔ ڈھا نپ لینا
14۔مقام کی رفعت اور کسی بھی چیز کا چوٹی کا ہونا
15۔اقدار عالیہ کی حفاظت
16۔کسی عظیم مقصد یا زمانی لحاظ سے تاریخیت کی علامت
17۔گہرے جذبوں کی رسائی
18۔ لطیف خیالات کے لطیف اظہارات
19۔اشاروں میں دینی وسعت کو سمو دینا
20۔ذہین ہونا یا فطین ہونے کی علامت
21۔ایسی چیز جس کے پیچھے قوت، شعور اور تاریخ ہو
22۔ایسی علامت جس سے زندگی کا قبلہ درست کر لیا جائے
23۔اطاعت اجاگر کرنے والا نشان
24۔دقیق معانی تک رسائی
25۔وہ چیزیں جو بڑی ، خوبصورت، ضرورتیں پوری کرنے والی شخصیات سے وابستہ کر دیں
26۔وہ جن کے بغیر افکار بے معنیٰ ہیں
27۔ انسانی منفعت
28۔ظاہر سے زیادہ باطن میں کسی معنیٰ کا بلیغ ہونا
29۔موزونیت اور حسن کی علامت
30۔افکار عالیہ کی پہچان
31۔گندی اور اچھی چیز کا سامنے آنا اور پھر اچھی چیز کی طرف رجحان کا مئوثر ہو جانا
32۔جو کے دانے کی طرح امراض میں شفاء کا ذریعہ بن جانا
33۔با حوالہ ہونا
34۔ایسا نشان جس کا احترام کیا جائے
35۔ بغاوت کو روکنے والے ذرائع اور سرچشمے
36۔ اللہ کی پہچان کا سرچشمہ ہونا ۔
سعی کی شرعی حیثیت
آیہ کریمہ نے بتایا کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔ ’’ جُناح‘‘ کا معنیٰ گناہ ہوتا ہے۔ اسلوب آیت کا اگرچہ تاریخی اور تفسیری وضاحت ہے کہ طبیعتوں میں شرک سے نکارت کی بنا پر صفا اور مروہ ہی کو چھوڑ دینا کوئی فضیلت والی بات نہیں۔ آیت سے ضمنی طور پر سعی کا فقہی حکم بھی معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ ابوحنیفہ کے نزدیک سعی واجب ہے جبکہ باقی ائمہ فقہ کے نزدیک سعی فرض کا درجہ رکھتی ہے ۔
فکری تازگی کا ایک جھونکا
صفا او ر مروہ کے درمیان سعی کرنے والوں کو یہ مقامات خود زبان حال سے پیغام دیتے ہیں کہ ہم پہاڑیاں ہیں لیکن حق رکھتی ہیں کہ خود کو قابل رشک جانیں ۔ ہم حضور ؐ کی دعوات کی پہلی منزل ہیں ۔ ہم شعائر اس لئے ہیں کہ علم ملتا ہے ہم سے شعور ملتا ہے۔ ہما را اطواف کرنے والوں !تمہارے دل اور شعور میں ہمہ دم یہ چیز رہنی چائیے کہ ایک وقت ہمارے اوپر ہی حضور ؐ کھڑے ہو کر ہمیں اپنا منبر ہونے کا اعزاز بخشا اور حضور ؐ نے پہلی دعوت کے ہفت رنگ یہیں سے آغوش انسانیت کا سرمایہ بنائے ۔ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘کی آواز سب سے پہلے ہماری فضائوں ہی نے اپنے وجود میں جذب کی۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہماری زیارت کریں اور ’’ لا الہ الا االلہ ‘‘ کا ورد کریں تاکہ توحید کی پہلی مکانی اور زمانی شہادتیں تازہ ہوجائیں ۔
تطوع کا مفہوم
تطوع کا تفسیری اور لغوی مفہوم یہ ہے کہ کسی کی اطاعت قبول کر لی جائے اور احکام تسلیم کر لئے جائیں ۔ تطوع میں تین باتیں شامل ہوتی ہیں : حکم اور نہی کا تصور منصوص ہو ۔ دوسرا یہ کہ تعمیل اور اطاعت کامل ہو اور تیسری یہ کہ خوشی اور مرضی بھی شامل ہو ۔ یہاں حج اور عمروں کا فقہی وظیفہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی لحاظ سے خوشی ، مسرت ، حسین نیت اور کثرت کے مفہومات شامل ہیں ۔
شاکر اور علیم ہونے کی صفات
’’ شاکر ‘‘ کا معنیٰ قدر دان ہونا اور ’’ علیم ‘‘ کا مفہوم بہت زیادہ اور لطیف علم رکھنا ۔ یہاں جمیع طاعات کے جاننے اور ان کے قدر دان ہونے کا معنیٰ سمجھایا جا رہا ہے (137)۔ علامہ رازی بھی تفسیر کبیر میں اسی کو اوفق الحقیقت قرار دیا ہے (138)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں