392

سورۃ البقرہ کی آیت 164کی تفسیر


اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَائِ مِنْ مَّائٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ہ
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف اور ان جہازوں میں جو سمندر میں وہ وہ چیز یں لے کر چلتے ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے اتارا اور اس سے زمین کو مردنی کے بعد تازگی دے کر زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے جانور بسا دئے اور ہواؤں کے چلنے میں اور اُن بادلوں میں جو آسان اور زمین کے درمیان معلق ہیں ایک ایسی قوم کے لئے جو عقل استعمال کرتی رہتی ہے ایما ن آفرین نشانیاں ہیں‘‘۔
قرآن مجید کی اس آیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان مقاصد تک رسائی حاصل کی جائے جو نزول آیات کے ساتھ مربوط اور متعلق ہیں :
* قرآن مجید چاہتا ہے کہ انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو اور اس کا یقین اتم ہو جائے کہ ہرشئی اللہ کے ہاتھ میں سے اس پر کوئی محیط اور حاوی نہیں ۔
* قرآن مجید چاہتا ہے کہ انسان حقائق کا کھوج وحی کے ذریعے لگائے اور وہ حق ہی کے ساتھ چلے ۔ وہم پروری ، وسوسہ اندازی اور خیال پرستی اس کی زندگی میں اہمیت کے حامل نہ ہوں ۔
*قرآن مجید انسان میں عملی تحریکات کا نگہبان ہے وہ لوگوں کو جنگلوں، بیابانوں اور صحراؤں میں رلنے نہیں دیتا بلکہ اپنے بیان و دعوت سے ان کی زندگی کو کارآمد بناتا ہے ۔
* قرآن مجید انسانوں کے احساس وشعوراورعقل ومنطق کو بھر پور، زندہ اور اتم بنانے کے لئے’’مظاہر فطرت‘‘ کے پاکیزہ ماحول میں اتارتا ہے اور ان نوامیس کوسیر روحانی ،سیر فکری اور سیر عملی کے بعد اللہ کی پہچان کا عاشق اور گرویدہ بنادیتا ہے۔
*قرآن مجید دواعیات محبت کو ختم نہیں کرتا بلکہ ایسا حسین و جمیل ماحول دیتا ہے جہاںمحبت کے سرچشمے فیض بار ہو سکتے ہیں ۔
*قرآن مجید اچھے کردار ابھارتا ہے اور ان خوبصورت خاکوں کے لئے روشنائی مظاہر فطرت سے جمع کر کے اپنے قاری کے حوالے کر دیتا ہے۔
قرآن مجید کا دعوتی انداز جمالیاتی ہے ۔ وہ بندوں میں صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ میواؤں کےگھونٹ بھر یں فضاؤں میں تیریں، نا معلوم جہانوں کی تسخیر کر یں، بادلوں سے پانی نچوڑ یں، زمینی خزانوں سے دامانِ طلب بھریں ، آسمانوں پر کمند تسخیر ڈالیں ، سمندروں کی موجوں سے کھیلیں ، راتوں اور دنوں کے ٹکرانے سے سبق حاصل کریں ، ستاروں کی آتش بازی سے لطف اندوز ہوں لیکن ان کی اڑانیں، پروازیں،اکلیلیںاور اٹکھیلیاں تو حید فہمی اور رسول اللہ سلام کی قیادت میں مرشد وابستگی کے روحانی اور مقناطیسی مرکز سے دور نہ ہٹیں ۔
اب آیئے اور زیر تفسیر آیت میں جوفہم و ذکا کی گل افروشیاں ، انجم آرائیاں اور ضوفشانیاں ہیں ان کی حقیقتوں کے آسمانوں میں اترتے ہیں ، زمینوں میں کھوج ماری کرتے ہیں ۔ بادلوں کی وادیوں میں پرواز لیتے ہیں ۔ راتوں اور دنوں کی آنکھ مچولی سے مسحور ہوتے ہیں ۔ روحوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ سمندروں کی موجوں سے ٹکرائیں اور دلوں کو ملکوتی چشموں سے نہلاتے ہیں اور انسانی زندگی کی سرگرمیاں کسی منعفت یا کسی باوقار مقصد کی طرف سفر کر رہی ہیںیاریت کے گھروندے ہیں جنہیں بنایااجاڑ اجارہا ہے۔
قرآن مجید سب سے پہلے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کو موضوع بنا تا ہے ۔ یہ سب کچھ مٹی کا ڈھیلا تو نہیں جسے آپ ایک آن میں اٹھا کر گرہ بند کر لیں ، یا ایک وسیع جہاں ہے ، اس کی اپنی گہرائیاں ہیں ، وسعتیں ہیں ، اسرار سر بستہ ہیں ، شوخیاں ہیں ، رنگ میں جلوے ہیں، علوم ہیں، نظم وضبط کے سلسلے ہیں ، جمالیاتی اظہارات ہیں اور عقلیں اور دانشیں تیز کرنے کے ساماں ہیں ۔آسمانوں اور زمینوں کے ایک ایک گوشہ میں ایک معلم بیٹھا ہے جو اللہ کی توحید سکھا رہا ہے ۔ اس جہاں کے ایک ایک ستارے پر فطری کارکنوں کی جنتیں بھی ہیں اور جلا کر رکھ دینے والی دوزخیں بھی ہیں ۔ فطرت نے محتسب، قاضی اور دارد گیر کرنے والے فوجی بٹھا رکھے ہیں ۔اس جہاں کی اپنی تعزیریں ہیں اور عنایات و انعامات کا اپنا اندازہے ۔ بندہ بندہ بن کر سوچے تو سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے اور خالق ارض و سما تک پہنچ کر’الہٰ واحد‘‘ تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا۔ ہماری جدید دنیا سائنس کے گھوڑے پر بیٹھ کر چاند تک پہنچتی ہے لیکن ابھی تک چندمن مٹی کے سوا کوئی اور چیز انہیں ملی نہیں ۔ کیا اس میں سبق نہیں کہ دنیا ساری کوتسخیر کے لئے انداز کھپا لگا دیا جائے تو بھی خدا کے جہاں کا ایک گوشہ بھی مسخر نہیں کیا جا سکتا ۔ بہتر یہ ہے کہ اس کا ئنات کے دل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یقینا قلب کا ئنات حضور ؐ ہیں اور اس دل کی ددھڑ کن سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی ہے ۔
مقصد قرآن تو اسیفہم کامضبوط کرنا ہے:
لا اله الا ا لله
محمدرسول الله ؐ
یہ آیت بتاتی ہے کہ تو حید کے آفاقی دلائل ایک ایسی قوم ہی سمجھ سکتی ہے جس کے پاس عقل اور سوچ کا سرمایہ ہو ۔ عقل نہایت ہی خوش فکر واعظ ہے ۔ ایک باوفا رہبر ہے اور ایک دانشور وکیل ہے ۔ قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت میں عقل کی روشن قند یل رکھنے والوں کے سامنے رات اور دن کا اختلاف رکھا گیا ہے لیکن مقاصد فطرت کے خاکوں میں اس اختلاف نے خوب رنگ بھر رکھا ہے۔ دن کے جلوے اپنے ہیں اور رات کے راز اپنے ہیں ۔ دن کو دھوپ سے جو جلتے ہیں رات ان کو سکون کی مرہم پٹی کر دیتی ہے اور رات کو جو سو سو کے تھک جاتے ہیں دن روشنی انہیں حرکت اور زندگی کا تحفہ دے دیتی ہے ۔ بظا ہر رات اور دن دونوں میں آنے جانے کا ٹکراؤ ہے لیکن امعان نظر سے دیکھوتو دونوں مل کر انسان کی محرومیاں ختم کرنے کی خدمت میں لگے ہوئےہیں۔ظلمت اور روشنی کا یہ رازو نیاز اللہ کی توحید کی دلیل بن جا تا ہے لیکن سمجھ کے موتی عقلمند ہی کے حصے میں آ سکتے ہیں ۔
سوچنے والے ذہن دور جدید میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ سمندر دو طرح کے ہیں : ایک سمند روہ ہیں جوفضاؤں میں ہواؤں اور برقی لہروں کی صورت میں موجود ہیں اور دوسرے سمندر وہ ہیں جو زمین پر آبی ریلیوں اور موجوں کی صورت میں نظرآ تےہیں ۔ دونوں میں منفعتِ انسانی کے لئے بار برداری ہو رہی ہے۔ شمہ برابرعقل بھی اس نظام کے مطالعہ سے اس قابل ہوسکتی ہے کہ سمندروں کے خالق کی معرفت حاصل کر لی جائے ۔ دیکھنے والے سمجھتے ہیں اور سمجھنے والے دیکھ کر بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ سطح سمندر پر کچھ ہوا ئیں وہ ہیں جوزمین کے قطب شمالی اور قطب جنوبی سے خط استوا کی طرف اور خط استوا سے قطبین کی طرف چلتی ہیں انہیںآلیز ہ اور کاؤ نٹر آلیزہ کہتےہیں (148)۔
دوسرا یہ کہ پیدا کرنے والے نے کچھ خوشگوار اور فرحت بخش ہوا ئیں رکھی ہیں جن کی مدد سےتنفس سے لے کر کشتیوں کے چلنے میں سہولت تک ایک نظام رکھا ہے ۔ یہبھی تحقیق کی گئی ہے کہ زمین کے دونوں قطبوں پر ایسی غیر مبدل مقناطیسی خاصیت ہے جس کے مخصوص حساب سے قطبین کی سوئیاں حرکت کرتی ہیں ، پانی میں آمد ورفت انہیں کی مدد سے ممکن ہوتی ہے ۔ قرآن مجید سمجھا تا ہے کہ جہازوں پر نخروں اور شوخیوں سے سواری کرنے والوں کو اللہ کا یہ نظام بھی سمجھنا چاہئے اور اپنے اندر تسلیم، تعمیل اور شکر کی خو پیدا کرنی چاہئے ۔
وہ پانی جو اللہ بارش کی صورت میں آسمان سے اتارتا ہے سوچنے والوں کے لئے اس میں بھی اللہ کی توحید پران گشت دلائل موجود ہیں ۔
آیت میں نصاب فکر جب بیان ہوا تو ہواؤں کے منظم طریقے سے چلنے میں آیات کے جلوے روشن کئے گئے ۔
جلال الدین سیوطی درمنثور میں لکھتے ہیں :
’’ ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت ہیں اور چار عذاب کاعکس ہیں‘‘ (149)۔
مبشرات ،منشرات ، مرسلات اور خارحمت ہیں اورخشکیوں میںعقیم اور صرصر اور در یاؤں میںعاصف اور قاصف عذاب ہیں ۔اسی طرح آپ نے لکھا کہ مشرق سے چلنے والی ہو ئیں صبا، مغرب سےچلنے والی د بور، جنوب نام ہوائیں قبلہ کے بائیں طرف سے،شمال نامی ہوائیں قبلہ کے راست سے ، نکبا جنوب اور صبا کے درمیان سے ،خروق شمار اور د بور کے درمیان سے اور قائم وہ ہوائیں ہیں جو ذی تنفس مخلوق کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہیں ۔
رسول اللہ سلم نے فرمایا ( 150 ):
’’جنوب‘‘ جنت کی لطیف ہوا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ پانی اور ہوا اللہ کے لشکر ہیں ۔ قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت کی ایک اور نشانی بیان کی گئی کہ وہ بادل جو زمین اور آسمان کے درمیان معلق ومسخر ہیں ،اوراربوں ٹن پانی اٹھائے ہوئے ہیں ، جب تک اللہ نہ چاہے زمین کا قانون کشش ثقل بھی ان کے سامنے عاجز ہے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان بادلوں کے پانی سے سمندروں اور دریاؤں کا پیٹ بھرتا ہے اور انسانی ضرورتوں کی تکمیل بھی فرماتا ہے اور آیت ہمیں سبق دیتی ہے کہ اس عقل کے سرمایہ کو حصول ہدایت کے لئے خرچ کرو اور تباہی کے گڑھوں سے خود کو بچا ؤ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں