469

سورۃ البقرہ کی آیت166-167کی تفسیر

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابُ ہ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّئُ وْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْھِمْ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ ہ
’’ذرا ذہن میں لاؤ وہ کیفیت جب بیزاری ظاہر کر یں گے وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ان سے جوان کی غلامی کیا کرتے تھے عذاب تو وہ دیکھیں گے ہی لیکن ان کی حسرتوں کا حال کہ سارے اسباب بھی منقطع ہو جائیں گئے۔ ‘‘
قرآن مجید کی اس آیت کو سمجھنے کے لئے انسان کوخودشناسی کے مرحلے سے پہلے گزرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی نے تمام انسانوں میں سچائی کی تلاش اور سچائی تک پہنچے اور سچائی پر قائم رہنے کے لئے چند لطائف رکھے ہیں :
1۔ پہلا ہدایت کا سرچشمہ عقل ہے
2۔ دوسرا نفس نفیس ہے
3۔تیسرا محبت کرنے والا قلب سلیم ہے
4۔ اور چوتھافنفخت کو پھونک کا اثر ہے
انبیاعلیم السلام خدائی مقرر کردہ قائدین اور سادات ہیں ۔ ایسا انسان کا نصیبہ اس کا ساتھ دے اور ان لطاف سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور آخری نبی اور رسول حضرت محمد ؐ کے قدموں تک رسائی پا لیتا ہے ۔ ان سچائیوں سے محروم انسان سمجھیں ظلمات اور اندھیروں میں ڈوبا ہوتا ہے وہ ناقص عقل ، غلیظ نفس، ظلیم قلب اور شیطان کی شراتوں کے نتیجے میں باطل اور طاغوت کو اپنا لیڈر بنا لیتا ہے ۔ محشر کے میدان میں ان تاریک و دبیز کرداروں کی بے بسی قرآن حکیم بیان فرمارہا ہے ۔ ان کی حسرتوں اور پشیمانیوں کی تصویر کشی کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ مرشدین حق کی رہبری سے محروم ہوتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کی قرآنی تصویر ملاحظہ ہو کہ انہیں اپنی غلطیوں اور اشتباہ کا اندازہ ہو جائے گا ۔ یہ سہارا تلاش کرنے کے لیے اپنے جھوٹے معبودوں اور رہبروں کا دامن تھامنے کے لئے لپکیں گے مگر اس وقت ان کے باطل اور گمراہ رہبر ان کو پیچھے دھکیل دیں گے اور اپنی تباہی اور ویل کا اعلان خود اپنی زبان سے کریں گے ۔ اس طرح کوئی ایک حسرتوں کے ساتھ ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ کر بکھر جائیں گے ۔
وہ کتنا بدقسمت انسان ہوتا ہے جس کا انجام دریا کا شور یدہ لہروں کی طرح بے کنارہو جائے ۔ اب پچھتاووں کا کیا فائدہ، زندگی میں تو یہ بھٹکے انسان شیطانوں کے ہم نوا بنے رہے، پاکیزہ نفس قیادتوں سے منہ موڑے رکھا ۔ اپنے وجود کو ابلیس کے چرنوں میں قربان کرتے رہے، اللہ کے دوستوں سے بے وفائی کی ، پتھروں اور بتوں کو پوجتے رہے ۔مشرکین کے ساتھی بن کر مومنین کا مذاق اڑاتے رہے ۔ اب چیخنے کا کیا فائدہ؟ واویلا مچانے سے کیا حاصل ، بیچ ہونے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ۔ آج موقع ہے ، آج وقت ہے، آج اذان سننے کے لمحات میسر ہیں ، آج پہچان کے لئے آنکھیں اور کان سلامت ہیں ، آج ہی فیصلے کا موقع ہے کہ دنیا کی پرفریب دلکشیوںکو سراب آسا سمجھا جائے اور یہاں کی ناقص اور عیاشیوں بھری زندگی کو اس طرح نا پائیدار جانا جائے جیسے کنول کی پتی پرشبنم کا ایک قطرہ لرزاں ہوتا ہے۔ شیطان کے خلاف جنگ کا طبل بج چکا ہے ۔ پڑھو:
لا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم
اور دشمن کو دشمن سمجھ اور دوست کو دوست
اللہ اکبر
’’ اور جب تابعداری کرنے والے کہیں گے کاش! ہمیں دوبارہ موقع ملتا تو ہم بھی ان سے بیزار ہو جاتے جیسے ہم سے یہ روٹھے روٹھے پھرتے ہیں یونہی اللہ انہیں ان کے اعمال باعث حسرت بنا کر دکھائے گا اور نہیں ہوں گے وہ کہ نکلنے والے ہوں آگ سے‘‘۔
قرآن مجید کا یہ اسلوب فہمائش، انتباہ اور بیداری کے لئے سریع الاثر ہے۔ نظام حق کے باغی سر محشر جس نفسیاتی اور ہیجانی صورت حال سے دو چار ہوں گے، چونکا دینے والا ہے ۔ باطل اور طاغوتی مشن کے علمبردار اپنے قائدین سے مایوس ہو کر واپس پلٹیں گے ،جسم نوچیں گے، مایوسی سے ابل پڑیں گے اور ان کے اندر کی حسرتوں کا واویلا لفظوں کا روپ دھار لے گا کاش! ہم دنیا میں پلٹ کر جائیں تو ہم بھی ان جھوٹے اور غلط معبودوں اور ظلم کی راہ چلانے والوں سے بیزار ہو جائیں جیسے آج وہ بیزار ہو گئے ہیں لیکن بے وقت کے وادیلے کا کیا فائدہ دنیا کی طرف پلٹنا توممکن ہی نہ ہوگا ۔
قرآن مجید اپنے قارئین کے سامنے ان کی حسرتوں کی تصویر لاتا ہے اور خوب کھول کر یہ بیان کر دیتا ہے کہ وہ آگ سے ہرگز چھٹکارا پانے والے نہیں ہوں گے ۔ دعوت کا قرآنی اسلوب کتنا خوبصورت ہے کہ آج دنیا ہی میں ان محروم لوگ کی تصویرضمیروں ، روحوں ، دلوں اور دیکھنے والے انسانوں کےسامنے رکھ دی جاتی ہے اور پوچھا جا تا ہے کہ یہ تصویر کیا بولتی ہے؟ کہیں یہ تصویر تمہاری تو نہیں یا تمہارے کسی اپنے کی تو نہیں ۔ کل کی حسرتوں اور پشیمانیوں سے بہتر ہے کہ آج تو بہ کرلو اور قرآن تمہیںجس راہ چلانا چاہتا ہے اس راہ چلنے لگ جاؤ۔
قرآن مجید نے اس آیت اور پہلی آیت میں جن حسرتوں اور مایوسیوں کا ذکر کیا ہے مفسرین نے کیسے انہیں سمجھا ہے ملاحظہ ہو (153):
’’کافروں کو جنت دکھائی جائے گی اور کہا جائے گا کہ اگر وہ اطاعت کی روش اختیار کر لیتے تو جنت کے عالی مکان انہیں دے دئے جاتے لیکن وہ الٹی راہ چلتے رہے وہ اب ان مقامات سے محروم کر کے دوزخ میں ڈال دے جائیں گے‘‘۔
یہ ربیع اور ابن زید کا قول ہے کہ کافروں کو اللہ تعالی ان کے برے اعمال دکھلائے گا پھر انہیں حسرت اور پشیمانی ہوگی کہ انہوں نے برے اعمال کیوں کئے؟ اور اچھے عمل کیوں نہ بجالائے تا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پا لیتے (154)۔
ابن جریر کے نزدیک دوسری تعبیر زیادہ مناسب ہے ( 155 ) ۔ واللہ اعلم .

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں