399

قرون ِ وسطیٰ میں یورپ کی سیاسی ہیئت (قسط نمبر2)

ڈاکٹر غلام جیلانی برق
انتخاب از
یورپ پر اسلام کے احسانات
اس کتاب میں یورپ کے قدیم و جدید سلاطین و حکما کا بار بار ذکر آتا ہے ۔ اس لیے امور ِ ذیل کی وضاحت ضروری ہے۔
(ا) یورپ کے اصلی باشندے کون تھے ؟
(ب) وہاں ابتدائی حکومتیں کب قائم ہوئیں۔ اور موجودہ ریاستیں یعنی برطانیہ ۔ فرانس۔ سپین ۔ اٹلی ۔ جرمنی وغیرہ کیسے معرض ِ وجود میں آئیں؟
(ج) قرون ِ وسطیٰ میں یورپ کے تمدن ، تہذیب ، اخلاق اور علوم و فنون کی کیفیت کیا تھی ؟
یورپ کے اصلی باشندے
تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں یورپ مختلف و حشی قبائل کا مسکن تھا۔ بحیرئہ اسود کے شمال اور دریائے ڈنیپر DNIEPERکے دونوں طرف گاتھ آباد تھے۔ ذرا مغرب میں جہاں آج کل پولینڈ، رومانیہ ، ہنگری وغیرہ ہیں، ہنزرہتے تھے۔جرمنی تین خونخوار قبائل یعنی وینڈ لز، سیسکسنز اور اینگلز کا وطن تھا۔جنوبی جرمنی اور شمالی اٹلی میں لمبر ڈز سکونت پذیر تھے۔فرانس میں فرانک اور برطانیہ میں سلٹ (Celts)رہتے تھے۔یورپ کے باقی حصوں میں بھی اُجڈ قبائل آباد تھے ۔جن کا کام لڑنا ۔ بھڑنا اور ڈاکے ڈالنا تھا۔ جب رومہ کی غربی سلطنت کمزور ہو گئی تو ان قبائل میں سیاسی حرکت پیدا ہوئی ۔اور یہ اپنے اوطان سے نکل کر دور دراز علاقوں پہ چھا گئے۔کچھ قبائل پہلے ہی حرکت میں آ چکے تھے ۔مثلاً سیکسنز اور اینگلز جو صدیوں پہلے جزائر برطانیہ میں پہنچ چکے تھے۔پانچویں صدی میں غربی گاتھ اور وینڈل سپین تک پہنچ گئے۔شرقی گاتھ چیکو سلو اکیہ اور پھر اٹلی میں داخل ہوئے۔ہنز کی حکومت دریائے رائن سے ایشیا تک پھیل گئی ۔ اور لمبر ڈاٹلی کے بعض اضلاع پہ قابض ہوگئے تھے ۔

تاریخ یورپ کے تین دور
آٹھویں صدی قبل مسیح سے پہلے یورپ میں کیا ہو رہا تھا۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ قیاس یہ ہے کہ وہاں وحشی قبائل آباد تھے۔ جن کے سردار جدا جدا تھے۔ مذہباً ملحدیا بت پرست تھے۔ اور نوشت وخواند سے قطعاً نا آشنا تھے۔آٹھویں صدی کے بعد تاریخ یورپ تین دوروں میں بٹ گئی ۔
اول : ۔ دور ِ قدیم ۔ جو آٹھویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وہ زمانہ ہے ۔ جب رومہ کی عظیم سلطنت قائم ہوئی تھی ۔ اور یونان سے علوم و فنون کے دریا بہہ نکلے تھے۔
دوم :۔قرون ِ وسطیٰ ۔ یعنی وہ زمانہ جو زوال رومہ (476ء) سے شروع ہوکر یورپ کی حیات ثانیہ (سولہویں صدی ) پہ ختم ہوتا ہے۔
سوم :۔ عصر حاضر ۔ جو سولہویں صدی سے شروع ہوا۔
دوسرے دور کے پھر دو حصے ہیں۔ اس کے پہلے پانچ سو سال میں تاریکی ۔ جہالت وحشت اور انتہائی بربریت کے سوا اور کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔ گیارہویں صدی میں اسلامی تہذیب ، تمدن اور علوم و فنون مختلف راستوں سے یورپ میں پہنچے۔اور وہاں کی تاریکیوں میں ہلچل سی پیدا ہو گئی ۔ پانچ چھ صدیوں کے بعد وہاں اُجالا سا ہونے لگا ۔ جا بجا مدارس کھل گئے۔ تالیف و ترجمہ کے ادارے قائم ہو گئے ۔ عربی علوم کے تراجم ہونے لگے ۔ پاپائیت کا زور ٹوٹ گیا ، مذہبی ادہام و اباطیل کے محل مسمار ہو گئے ۔ جاگیر دارانہ نظام مٹ گیا۔ اسی دور میں برطانیہ (1688ء )فرانس (1789) اور امریکہ (1776) میں انقلابات آئے اور انسانی فکر شخصی حکومت اور کلیسائی بندشوں سے آزاد ہو گئی ۔ اور یہ تھا یورپ کا آغاز ِ عروج۔
رومہ اور اٹلی
اٹلی میں ایک دریا کا نام ٹائبر ہے۔ جو شمال کی طرف سے آتا ہے ۔ اور رومہ یا روم سے گزر کر پچیس میل نیچے بحیرئہ روم میں جا گرتا ہے ۔ یہ دریا کبھی شاہراہ تجارت تھا ۔ تاجر کشتیوں میں مال بھر کر فلورنس سے نیپلز اور دیگر مقامات تک آتے جاتے تھے اور اس دریا کے کنارے ایک مقام سر سبزی اور دلکشی کی وجہ سے بہت مشہور تھا ۔وہاں تاجر خیمے لگا کر راتوں کو ٹھہرتے اور صبح کو روانہ ہو جاتے ۔ ولادت مسیح سے ساڑھے سات سو سال پہلے ان تاجروں نے چندہ کر کے وہاں ایک سرائے بنا دی ۔ جہاں رفتہ رفتہ ایک شہر بن گیا ۔ یہی شہر روم کہلاتا ہے۔ جو اڑھائی ہزار برس سے اٹلی کا دارالخلافہ ہے ۔

تشکیل ِ رومہ
اس زمانے میں ہر خاندان کا سردار الگ تھا ۔جو خاندانی جھگڑے چکا تا ۔ شادیاں کراتا ۔ ہر معاملے میں حکم چلاتا اور اپنے قبیلے کی بستیوں کو ڈاکوئوں اور حملہ آوروں سے بچاتا تھا۔چھٹی صدی ق م میں ایشیا کا قبیلہ وہاں جا نکلا جس کے سردار Tarquinsکہلاتے تھے۔ ان کی قابلیت اور شجاعت سے متاثر ہو کر اہل روم نے انہیں اپنا سردار تسلیم کر لیا اور یہ صورت ِ حال سو سال تک باقی رہی ۔
509ق م میں وہاں ایک اسمبلی بھی تھی ۔ جس میں تمام اختیارات خواص کے نمائندوں (Patricians) کے پاس تھے۔صدر ، وزراء ، اور مجسٹریٹ ان ہی سے منتخب ہوتے تھے ۔ اور عوامی نمائندوں (Plebcians)کی کوئی تجویز اس وقت تک قانون نہیں بن سکتی تھی جب تک خواص اسے منظور نہ کرتے۔
اس جمہوریت نے رفتہ رفتہ گردو نواح کے تمام قبائل کو قابو کر لیا ۔ پھر مزید پائوں پسارے ۔ یہاں تک کہ 265ق م میں روم ایک خاصی طاقت بن گئی ۔ اب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 197ق م میں سپین ، ایک سال بعد شمالی افریقہ اور مقدونیہ ، 64ق م میں شام 50ق م میں فرانس اور بلجیم ، 9ء میں جرمنی ، 44ء میں برطانیہ ،105ء میں فلسطین ، 114ء میں آرمینیہ اور 117ء میں عراق سلطنت ِ رومہ کا حصہ بن گئے ۔
سُلاّ
کارنیلیس سُلاّ (78ق م) رومہ کا ایک قابل جرنیل تھا۔ یہ سیاست دانوں کی رقابتوں سے تنگ آ گیا ۔ اور اس نے 83ق م میں پارلیمان کو معطّل کر کے عنان حکومت خود سنبھال لی ۔ لیکن اس دور کے فلسفی سسرو (43-106ق م ) نے آمریت کی مخالفت کی ۔ چنانچہ 89ق م میں سُلاّ نے دوبارہ جمہوریت قائم کر دی اور خود سیاست سے کنارہ کش ہو گیا ۔
جولیس سینرر سینٹ کا ممبر تھا۔ اسے 58ق م میں فرانس کا گورنر مقر ر کیا گیا ۔ اس نے پہلے ارد گرد کے تمام علاقے فتح کیے۔ پھر برطانیہ پہ حملہ کر دیا اور دریائے ٹیمز تک نکل گیا۔مشرق میں جرمنی کو بھی شکست دی ۔سیزر کی ان کا میابیوں کو دیکھ کر سینٹ کوڈ ر پیدا ہوا کہ کہیں یہ آمرنہ بن جائے ۔چنانچہ 50ق م میں سینٹ نے حکم دیا کہ سیزر فوج کو منتشر کردے ۔ اس پر سیزر بگڑ گیا۔اور روم پہ قبضہ کر کے آمر بن بیٹھا ۔ اس وقت بحریہ کا کمانڈ ان چیف پمپی تھا۔وہ مخالف ہو گیا ۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پمپی شکست کھا کر مصر میں چلا گیا ۔
44ق م میں بروٹس نے سازش کی اور سیز ر کو قتل کر دیا ۔ اینٹنی (سیز ر کا دوست ) اور آکٹیوین نے بروٹس کا پیچھا کیا ۔42ق م میں مقدونیہ کے قریب جنگ ہوئی اور بروٹس مارا گیا۔اس کے بعد ان دونوں نے سلطنت بانٹ لی ۔ غربی حصے پہ آکٹیوین اور مشرقی خطوں پہ اینٹنی حکومت کرنے لگا۔کچھ دیر کے بعد اینٹنی قلوپطرہ کے دام ِ حُسن میں پھنس گیااور یہ دونوں مل کر سارے رومہ پر قبضہ کر نے کے خواب دیکھنے لگے۔جب سینٹ کو ان کے ارادوں کی اطلاع ملی تو اعلان ِ جنگ کر دیا ۔ ان دونوں کو شکست ہوئی اور ہر دو نے خودکشی کرلی ۔


غربی رومہ کے بادشاہ
جولیس سیزر سے رومی شہنشاہوں کا سلسلہ شروع ہوکر پانچ صدیوں تک جاری رہتا ہے ان کے نام اور دور ذیل میں ہے :
1۔ جولیس سیزر 44-50ق م
2۔ آکٹیوین 41 قم44-ء ۔ سینٹ نے شاہانہ اختیارات
1سے 27ق م میں دئیے تھے ۔
3۔ ٹامے بیبریس 14ء 37-ء
4۔کالی گولہ 41-37ء
5۔ کلاڈیس 54-41ء
6۔ نِیرو 68-54ء
7۔ وّیس پازین 79-68ء
8۔ٹِیٹس 81-79ء
9۔ ڈامی شن 96-81ء
10۔نِیروا 98-96ء
11۔ ٹراجن 117-98ء
12۔ہاڈرین 138-117ء
13۔ اینٹو نی یس 161-138ء
14۔ مارکس اریل یس 180-161ء
15۔ کموڈس 192-180ء
16۔ سپ ٹی می ٹس (Septimius ) 211-196ء
17۔کراکیلا 217-211ء
18۔ مکری نس 218-217ء
19۔ اِیلا گبلُوس 222-218ء
20۔ الیکز ینڈ رسیورّس 235-222ء
21۔ مکزی مس ۔ اوّل 238-235ء
22۔ گورڈین 244-238ء
23۔ فِلپ 249-244ء
24۔ ڈیسیس 251-249ء
25۔ گیلس 253-251ء
26۔ ایملی نُوس 260-253ء
27۔گیلی نُوس 268-260ء
28۔کلاڈیس ۔ روم 270-268ء
29۔ اریل ین 275-270ء
30۔ ٹاسی ٹس 276-275ء
31۔ پروبس 282-276ء
32۔ کیرس 284-282ء
33۔ ڈائیک لی ٹی ین 305-284ء
34۔ قسطنطین ۔ اوّل 337-305ء
اس نے 330ء میں ایک گائوں بائز نیٹ یم کو پایہ ء تخت بنا لیا جو بعد میں اسی بادشاہ کی نسبت سے قسطنطنیہ کہلانے لگا۔سلطنت رومہ کی یہ شاخ پندرہویں صدی کے وسط تک زندہ رہی ۔ 1453ء میں قسطنطنیہ کو سلطان محمد فاتح عثمانی نے فتح کر لیا اور یہ آج تک ہمارے قبضے میں ہے ۔
35۔ قاسطنطیئس 360-337ء
36۔ جولین 363-360ء
37۔ جودین 364-363ء
38۔ولِن ٹِین ین ۔ اوّل 375-364ء
39۔ولِن ٹِین ین ۔ دوم 395-375ء
40۔ ہونوریس 423-395ء
41۔ولِن ٹِین ین ۔ سوم 455-423ء
42۔ مکزی مس 455ء
43۔اوِیٹس 457-455ء
44۔ م جورین 461-457ء
45۔ سیورّس 467-461ء
46۔ اینتھی میس 472-467ء
47۔ البیریس 473-472ء
48۔ گلای سیریس 474-473ء
49۔ جُولیس 475-474ء
50۔ ربومُلس 476-47 ء
یہ تھے غربی رومہ کے سلاطین۔ آخری سلطان کو ایک جرنیل نے ، جس کا نام اڈوسر تھا، معزول کر دیا ۔ اور خود بادشاہ بن بیٹھا ۔ لیکن نالائقی کی وجہ سے نظم و نسق کو قائم نہ رکھ سکا ۔ جا بجا فوجی سرداروں اور گورنروں نے خودمختاری کا اعلان کر دیا ۔ یہاں تک کہ خود اٹلی میں کئی بادشاہتیں قائم ہو گئیں ۔ مثلاً وینس ، میلان ، فلورنس ، نیپلز اور پاپائے روم 3کی ریاست ۔ یہ ریاستیں 1848ء تک باقی رہیں ۔
نیپلز سے اڑھائی سو میل دور مغرب میں ایک جزیرہ سارڈینیا کے نام سے واقع ہے۔ 1848ء یہاں امانویل دوم کی حکومت تھی ۔ اس نے اپنے ایک فوجی جرنیل کائونٹ قمیلو کی ترغیب پر شاہانہ اختیارات ترک کر دیئے اور جزیرے میں جمہوریت قائم کر دی ۔ اس کا اثر اٹلی پہ یہ پڑا کہ وہاںبھی جمہوریت کی تڑپ پیدا ہو گئی ۔ اوروہاں کے ایک لیڈر گر یبالڈی نے رضا کاروں کی مد د سے سسلی نیپلز اور پاپائی ریاست پہ قبضہ کر لیا اور پھر ہر جگہ استصواب کرایا ۔ بالآخر یہ تمام چھوٹی چھوٹی جمہوریتیں متحد ہو گئیں اور انہوں نے سارڈ ینیا کے بادشاہ امانویل کو اپنا آئینی بادشاہ منتخب کر لیا ۔ اطالوی شاہوں کا یہ سلسلہ 1963ء میں باقی تھا ۔
قیصرائے رُوم
ہم عرض کرچکے ہیں کہ قسطنطین اوّل نے بعض مصالح کی بنا پر 320ء میں قسطنطینہ کو پایہء تحت بنا لیا تھا۔
اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں نے سلطنت تقسیم کرلی اور غربی شاخ کا فرمانروا الگ ہو گیا ۔ 353ء میں دونوں حصے پھر ایک بادشاہ کے تحت آ گئے ۔ لیکن پھر یہ وحدت عارضی ثابت ہوئی اور 364ء میں دونوں شاخیں مستقلاً جدا ہوگئیں ۔ غربی شاخ رومن امپائر اور شرقی بائز نٹائن امپائر کے نام سے مشہور ہوئی مسلم مئورخ ثانی الذکر شاخ کے سلاطین کا قیاصرہ کہتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:۔
1۔ قسطنطین ۔ اوّل 337-330ء (ولد الحرام )
2۔ قسطنطین ۔ دوم 340-337ء
3۔ قانسطنس ۔ اوّل 350-340ء
4۔ مِگ نِن ٹی یس 353-350ء
5۔ قانس طن لی یس 361-353ء
6۔جُولی ین 363-361ء
7۔ جودی ین 364-363ء
8۔ وے لنز 379-364ء
9۔تھیوڈوسی یس ۔ اول 395-379ء
10۔ آر کے ڈی یس 408-395ء
11۔ تھیوڈوسی یس ۔ دوم 450-408ء
12۔ مارشی نس 457-450ء
13۔ لیٹو ۔ اوّل 474-457ء
14۔ زنیو 491-474ء
15۔ انس طے سی یس 518-491ء
16۔ جس ٹی نس ۔ اوّل 567-518ء
17۔ جسٹی نی ین ۔ اوّل 565-567ء
18۔ جسٹی نس ۔ دوم 578-565ء
19۔ ٹائبری یس 582-578ء
20۔ ماری شش 602-582ء
21۔ فوقس 610-602ء
22۔ ہر قل یا قسطنطین ۔ سوم 641-610ء
اس کی طرف ہمارے حضور ؐ نے 630ء میں خط لکھا تھا ۔ اور اسے دعوت ِ اسلام دی تھی ۔
23۔ قانسطن طینس 652-641ء
24۔ قانسطنس ۔ دوم 668-642ء
25۔ قسطنطین ۔ چہارم 685-668ء
26۔ جسٹی نی ین ۔ دوم 695-685ء (تخت سے محروم کر دیا گیا )
27۔ لیو ۔ دوم 697-695ء
28۔ ٹائبری یس ۔ دوم 705-697ء
29۔ جسٹی نی ین ۔ سوم 711-705ء
30۔ فلپسی قس 713-711ء
31۔ انستاسیسی 715-713ء
32۔ تھیوڈوسی یس ۔سوم 717-715ء
33۔ لِیُو ۔ سوم 740-717ء
34۔ قسطنطین ۔ پنجم 775-740ء
35۔ لیو ۔ چہارم 779-775ء
36۔ قسطنطین ششم 797-779ء
37۔ آیرین 802-797ء
38۔ نایسیفورس ۔ اوّل 811-802ء
39۔ سٹاری سی یس 811ء
40۔ مائیکل ۔ اوّل 813-811ء
41۔ لِیو ۔ پنجم 820-813ء
42۔ مائیکل ۔ دوم 829-820ء
43۔ تھیو فِلس 842-829ء
44۔مائیکل ۔ سوم 868-842ء
45۔ باسل ۔ اوّل 882-867ء
46۔ لیو ۔ ششم 912-886ء
47۔ قسطنطین ۔ ہفتم 958-912ء
48۔ الیگزینڈر اور رومانس ۔ اوّل 945-912ء
تک یکے بعد دیگر ے ریجنٹ رہے ۔ کیونکہ قسطنطین ہفتم نابالغ تھا۔
49۔ رومانس ۔ دوم 963-958ء
50۔ باسِل ۔ دوم 1025-963ء
نابالغ تھا ۔ اس لیے 976تک نائیسیفورس دوم اور جان اوّل ریجنٹ رہے ۔
51۔ قسطنطین ۔ ہشتم 1068-1065ء
52۔ رومانس ۔ سوم 1034-1028ء
53۔ مائیکل ۔ چہارم 1042-1034ء
54۔ مائیکل ۔ پنجم 1042ء
55۔ قسطنطین ۔ نہم 1055-1042ء
56۔ تھیوڈور 1056-1055ء
57۔ مائیکل ۔ ششم 1057-1056ء
58۔ اسحاق ۔ اوّل 1059-1057ء
59۔ قسطنطین ۔ دہم 1067-1059ء
60۔ مائیکل ۔ ہفتم 1078-1067ء
61۔ نائیسیفورس ۔ سوم 1081-1078ء
62۔ الیک زی یس ۔ اوّل 1118-1081ء
63۔ جان ۔ دوم 1143-1181ء
64۔ مینوئل ۔ اوّل 1180-1143ء
65۔ الیک زی یس ۔ دوم 1183-1180ء
66۔ اینڈ رونی کس۔ اوّل 1185-1183ء
67۔ اسحاق ۔ دوم 1195-1185ء (معزول ہوا )
68۔ الیک زی یس ۔ سوم 1203-1195ء
69۔ اسحاق ۔دوم 1204-1203ء (دوبارہ )
70۔ الیک زی یس ۔ چہارم 1204ء
71۔ بالڈوِن ۔ اوّل 1205-1204ء
72۔ہنری 1216-1205ء
73۔ پیٹر 1219-1216ء
74۔ رابرٹ 1228-1219ء
75۔ بالڈون ۔ دوم 1261-1228ء
76۔ مائیکل ۔ ہشتم 1282-1261ء
77۔ اینڈرونی کس ۔ دوم 1328-1282ء
78۔ اینڈ رونی کس ۔ سوم 1341-1328ء
79۔جان ۔پنجم 1391-1341ء
نابالغ ۔ جان ششم ریجنٹ رہا ۔(جان سوم و چہارم بالڈون دوم کے زمانے میں بعض خِطّوں پر حکمران رہے )
80۔ مینوئل ۔ دوم 1425-1391ء
81۔جان ۔ ہفتم 1448-1425ء
82۔ قسطنطین ۔ یاز دہم 1453-1448ء
عثمانی ترکوں کے ایک فرما نروا سلطان محمد ثانی (1481-1451ء ) نے 1453ء میں قسطنیطنیہ پہ قبضہ کر لیا ۔ اور یہ سلطنت ختم ہو گئی ۔
یونان
ولادت ِ مسیح سے اندازاً تین ہزار سال پہلے آریوں کی ایک شاخ جنوبی روس اور ڈینوب کے ساحلوں سے یورپ کی طرف بڑھی ۔ اس وقت یورپ میں ایسے لوگ آبا د تھے ۔ جن کا نسلی تعلق مصریوں سے تھا ۔قیاس یہ ہے کہ مصری اپنے عہد عروج میں یورپ کے بعض حصوں پر بھی قابض رہے تھے ۔ اور ان کی نسلیں وسطی اور جنوبی یورپ میں آباد ہوگئی تھیں ۔ ان کے قد چھوٹے ، منہ گول اور سر لمبوترے تھے ۔ ان میں سے بعض قبائل آدم خور بھی تھے۔ آرئیے انہیں مغرب کی طرف دھکیلتے گئے ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بیشتر ہلاک ہو گئے اور کچھ بچ کر بحیرئہ روم کے جزائر اور شمالی افریقہ کی طرف نکل گئے ۔
یہی آریئے دووہزار رق م میں شمالی یورپ سے بلقان کی طرف بڑھے ان کے ساتھ ان کے ریوڑ بھی تھے ۔ ہومر ( 850ق م ) ان چرواہوں کو ہیلنیز ( Hellenese) کے نام سے یاد کرتا ہے ان کی زبان ایک تھی ۔ یہ لوگ ہر مُقاد مت کو توڑ کر بحیرہ ایجین تک پہنچ گئے اور بعد میں سسلی ،سارڈینیا ، اٹلی اور فرانس تک نکل گئے۔ یونان میں ان کے اہم شہر مقدونیہ ، ایتھنز اور سپارٹا تھے ۔ قبیلے قبیلے کی سرداریاں جدا تھیں ، یہ سردار عموماً آپس میں لڑتے رہتے اور کبھی کبھی ایرانی حملوں کا بھی شکار بنتے تھے ۔اس صورت حال سے اکتا کر یونانی سرداروں نے 600ق م میں ایک وفاق بنایا ۔ جو تمام ریاستوں کے نمائندوں پہ مشتمل تھا ۔ یہ نمائندے مجسٹریٹ کہلاتے اور تمام ریاستوں کے لیے قانون بناتے تھے ۔ فوج ، مالیات اور امور ِ خارجہ پر وفاق کا کنٹرول تھا ۔594ق م میں یونان کا ایک مشہور مقنن سولن ، (559-639ق م )نمائندہ منتخب ہوا ۔اس کی دانش ،علم اور انتظامی قابلیت سے متاثر ہو کر وفاقی کونسل نے اسے صدر منتخب کر لیا اور حکومت کے تمام اختیارات اس کے حوالے کر دیئے ۔ اس نے بر سر اقتدار آتے ہی تمام قرضے منسوخ کر دئیے ایک دارالعلوم بنایا جس میں نمائندوں کی تعداد چار سو تھی کئی دیگر اصلاحات نافد کیں ۔ یونان کا آئین قلم بند کیا ۔ ضابطہ ء قوانین ترتیب دیا ۔ اور باشندگان ِ یونان کو پیشہ کے لحاظ سے چار گروہوں میں تقسیم کیا ۔
حالات یو نہی چلتے رہے ۔ یہاں تک کہ 359ق م میں فلپ مقدونیہ کا سردار بنا ۔ اس نے پہلے ایتھنز اور پھر ایران کو شکست دے کر سپارٹا کے سوا باقی تمام یونانی ریاستوں پہ قبضہ جما لیا 336ق م میں فلسطین کے شہر غازہ اور لبنان کی بندر گاہ ٹایر پر قبضہ کیا تو آبادی کا ایک متنفس بھی زندہ نہ چھوڑا ۔ اس نے شام ، مصر، ایران ، بخارا اور ہندوستان کو دریائے جہلم تک روند ڈالا ۔ ان مہمات سے واپس آ رہا تھا۔کہ 323قم میں بابل کے مقام پر فوت ہو گیا ۔ اس کے بعد اس کے جرنیلوں میں پھوٹ پڑ گئی اور یونانی مقبوضات تین حصوں میں تقسیم ہو گئیں ۔ مقدونیہ اینٹی گونس کے حصہ میں آیا ۔ ایشیائی مقبوضات پر سلیو قس قابض ہو گیا ۔انطاکیہ اسی نے بنایا تھا ۔ اور مصر بطلیموس نے لے لیا ۔ مقدونیہ اور یونانی ایشیاء میں پھر جمہورتیں بن گئیں ۔146قم میں سلطنت رومہ (شرقی ) نے سارے یونان اور ایشیائے صغیر پہ قبضہ کر لیا ۔ البتہ مصر کا بطلیموسی خاندان ، جو تاریخ میں بطالسہ مصر کے نام سے مشہور ہے۔ تین صدیوں تک زندہ رہا ۔ اس کے بادشاہوں کے نا م یہ ہیں:۔
بطالسہ ء مصر
1۔ بطلیموس ۔ اوّل 309-323ق م
2۔ بطلیموس ۔دوم ۔فیلاڈل فس 246-309ق م
3۔بطلیموس ۔ سوم۔ ارگیٹ اوّل 221-246ق م
4۔بطلیموس ۔ چہارم ۔ فیلو پٹیر 204-221ق م
5۔بطلیموس ۔ پنجم ۔ اپی فینس 181-204ق م
06۔ بطلیموس ۔ششم ۔ فیلو میٹر 145-181ق م
07۔ بطلیموس ۔ہفتم ارگیٹ ۔ دوم 116-145ق م
08۔ بطلیموس ۔ہشتم ۔ سوٹر 80-116ق م
09۔ بطلیموس ۔نہم ۔ اسکندر ۔ اوّل 89-96ق م
یہ مصر پہ حکمران تھا اور سوٹر جزائر پر ۔89ق م میں لوگوں نے اسکندر کو معزول کر دیا ۔ اور سوٹر کو دونوں حصوں کا بادشاہ بنا دیا ۔
10۔ بطلیموس ۔ دہم ۔ اسکندر دوم 80ق م
11۔بطلیموس ۔ یاز دہم ۔ فیلو پٹیر ۔ دوم 51-80ق م
12۔ بطلیموس ۔دواز دہم ۔ فیلو پیٹر ۔سوم 47-51ق م
13۔ بطلیموس ۔سیز دہم ۔ فیلو پیٹر ۔ چہارم 44-47ق م
14۔ قلو پطرہ 30-44ق م
جیسا کہ اوراق گزشتہ میں بیان ہو چکا ہے ۔ غربی رومہ کے سیزر آکٹی دی ین نے مصر پہ حملہ کیا ۔ قلوپطرہ نے خودکشی کرلی ۔ اور مصر سلطنت رومہ کا حصہ بن گیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں