135

بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک عظیم خاتون

ضیاشاہد

1984 ء کے اوائل کی بات ہے میں نوائے وقت کراچی سے منسلک تھا اور سوسائٹی میں میری رہائش تھی۔ ہمارا دفتر ان دنوں مزار قائد اعظم کے بالکل سامنے تھا۔ ہفتے دس دن بعد میں لازماً مزار قائد پر حاضری کے لیے جاتا اور ان کے مزار کے بعد ان کے ساتھیوں کی قبروں پر بھی حاضری دیتا۔ میں نے متعد دلوگوں سے پوچھا کہ کیا رعنا لیاقت علی خان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ ہمارے رپورٹنگ سیکشن کے لوگوں نے مجھے ان کا ٹیلی فون نمبر دیا میں نے فون کیا تو ان کے پی اے بول رہے تھے جو سرکاری طور پر انہیں ملے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ بیگم صاحبہ سے بات کروا دیں ۔ پی اے نے کہا اس وقت وہ آرام کر رہی ہیں آپ شام چھ بجے فون کر لیجئے گا۔ چنانچہ شام چھ بجے میں نے پھر فون کیا تھوڑی دیر بعد بیگم صاحبہ کی آواز سنائی دی۔ وہ بہت آہستہ بول رہی تھیں ۔ میرے تعارف کروانے کے بعد انہوں نے مجھے اگلے روز 11 بجے صبح آنے کے لیے کہا۔ دوسرے دن میں مقررہ وقت پر ان کے پاس پہنچا۔ ڈرائیور نے رپورٹنگ سیکشن سے سارا پتا معلوم کر لیا تھا۔ نسبتًا خالی جگہ پر ایک پرانی پہلی سی عمارت تھی جس کی دیواروں سے سفیدی جھڑ رہی تھی ۔ فضا برای چھائی ہوئی تھی۔ لگتا تھا یہاں کوئی نہیں آتا۔ میرے بیل بجانے پر پی اے صا باہر آئے اور مجھ سے کارڈ طلب کیا۔ وہ میرا کارڈ لے کر اندر چلے گئے اور تھوڑی دیر بو سے ڈرائنگ روم سے ملتے جلتے کمرے میں لے گئے ۔ کھڑکیوں پر اڑی ہوئی رنگت کے پرانے بھاری پردے لٹک رہے تھے۔ فرنیچر بھی کافی پرانا دکھائی دیتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اندرونی دروازہ کھلا اور بیگم رعنا کمرے میں داخل ہوئیں۔ میں نے کھڑے ہو کر آداب کیا وہ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میں نے بھی بیٹھنے کے بعد اپنا تعارف دوبارہ کروایا۔ انہوں نے خیر مقدم کے رسمی الفاظ کہے۔ پھر پوچھا آپ کو یہاں آنے کا خیال کیسے آیا۔ میں نے بتایا کہ لاہور سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوں، مجھے قائد اعظم کی شخصیت سے بہت پیار ہے اور قائد ملت کا بھی میرے دل میں بہت اونچا مقام ہے جنہوں نے بانی پاکستان کے ساتھ مل کر ہمیں آزادی دلوائی۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے تھوڑا سا وقت عنایت فرمائیں۔ انہوں نے کہا مجھے بہت لوگوں نے کہا کہ آپ اپنی آٹو بائیو گرافی پر کام کریں مگر وقت ہی نہیں ملا۔ پوری کتاب کے لیے تو وعدہ نہیں کرسکتی آپ طویل انٹرویو کر لیں اور اپنے طور پر اسے آپ بیتی کی شکل دے سکیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ آپ جو کچھ لکھیں اس کی نقل مجھے دے جائیں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ کہتی کچھ ہوں لوگ لکھتے کچھ اور ہیں۔ چھپنے سے پہلے میں ایک ایک لفظ پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں نے فورا وعدہ کر لیا۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ کو روزانہ کون سا وقت سوٹ کرتا ہے۔ میں نے کہا جناب ! جو وقت آپ دیں گی میں باقاعدگی سے حاضر ہو جایا کروں گا۔ انہوں نے مجھے اگلے روز آنے کے لیے کہا اور بولیس میں اپنے خیالات جمع کرلوں کہ بات کہاں سے شروع کرنی ہے۔ کچھ دیر میں نے ملکی صورتحال کے بارے میں چند سوال پوچھے۔ وہ فوجی حکومت سے خوش نہ تھیں اور بار بار کہ رہی تھیں کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کو ز بر دتی ہٹانا انتہائی افسوسناک ہے۔کوئی پون گھنٹے کے بعد میں نے اجازت لی اور اگلے دن اسی وقت آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

دوسرے روز میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈر لکھنے کے کاغذ اور نرم مار کر لے کر گیا۔ خیال تھا کہ آج کام شروع کروں گا لیکن بیگم صاحبہ موڈ میں نہ تھیں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات سنانا شروع کیئے میں نے جب ٹیپ ریکارڈر آن کرنا چاہا تو ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور بولیس میں ابھی مائینڈ بنا رہی ہوں، میں ان کی باتیں سنتا رہا اور تیسرے دن کا وقت لے کر اجازت چاہی۔ اگلے روز میں نے جاتے ہی سوالات شروع کر دیے۔ میرے ذہن میں تھا کہ شاید وہ شروع سے بات کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں لہذا میں نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ میں نے پڑھا ہے کہ آپ قائد ملت جناب لیاقت علی خان کے ساتھ قائد اعظم کو بھارت واپس لانے کے لیے لندن گئی تھیں آپ کو تو یہ واقعہ بخوبی یاد ہوگا مجھے کچھ تفصیل بتائیں گی۔ بیگم صاحبہ نے گفتگو شروع کی لیکن ایک بار پھر میرا ٹیپ ریکارڈر بند کروادیا اور کہا میں اپنے بچپن سے لکھوانا شروع کروں گی تو آپ ریکارڈ کیجئے گا۔ انہوں نے لندن میں قائد اعظم سے ملاقات کا احوال سنانے کا آغاز کیا۔ ان کی اردو بڑی صاف تھی لیکن کبھی کبھی انگریزی کے الفاظ بھی اردو میں استعمال کر لیتی تھیں ۔ انہوں نے قائد اعظم جو اس وقت مسٹر جناح تھے کا ذکر بڑی بے تکلفی سے کیا جس سے لگتا تھا کہ لیاقت علی خان سے قائد کے تعلقات میں کوئی تکلف نہیں تھا۔ وہ قائد اعظم کے مخلص اور جانثار ساتھی تھے اور قائد بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ بیگم رعنا نے لندن کے موسم کا ذکر کیا، جس روز یہ ملاقات ہوئی تھی ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اتنی پرانی ملاقات کی یادوں میں کھوگئی ہیں۔ وہ ملاقات کی تفصیل بیان کرنے کی بجائے بڑے خوبصورت انداز میں منظر کشی کر رہی تھیں اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ کوئی متحرک تصویر (فلم) دیکھ رہی ہیں اور اس کا منظر نامہ انہیں اپنی طرف زیادہ کھینچ رہا ہے۔ میں نے پھر کچھ لکھنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر کہا میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ شروع سے اپنی داستان بیان کروں گی میرا خیال ہے اس طرح پیچ بیچ میں واقعات لکھیں گے تو ساری بات گڈمڈ ہو جائے گی۔ میں نے قلم رکھ دیا۔ اس ملاقات کے تذکرے ہی میں مسٹر جناح کی خوش پوشی کی تعریف شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے شوہر بھی انتہائی خوش پوش، نفیس اور مہذب انسان تھے، لیکن میں مسٹر جناح کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھ سے وہ خاص طور پر انتہائی شفقت کا سلوک کرتے تھےاور کبھی کبھی لیاقت صاحب کی کوئی بات مانے میں دیر کرتے تو مجھے یہ خوش نہی ہے کہ میں اصرار کرتی اور دلائل کے ساتھ بات کرتی تو فورا مان جاتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بیگم رعنانے کشمیر کا ذکر شروع کر دیا اور بولیں کہ جب قائد کچھ عرصے کے لیے چھٹیاں منانے کشمیر گئے تو مسٹر جناح کے ساتھ میں بھی اپنے شوہر سمیت وہاں پہنچی۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت خوش مزاج تھے درست نہیں ہے۔ دوستوں میں وہ انتہائی خوش کن گفتگو کرتے ۔ کوئی جوک سن کر مسکراتے اور خود بھی اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ سناتے بس ان کی رہائش ایک موٹر بوٹ میں تھی اور ہم تقریباً ہر روز انہیں ملنے جایا کرتے تھے۔ بیگم رعنا بار بار موضوع تبدیل کر رہی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ماضی کی یادوں نے ان پر ہلہ بول دیا ہے۔ وہ ماہ وسال کا خیال کیے بغیر متفرق واقعات کا ذکر کر رہی تھیں۔ میں نے بمشکل انہیں رضامند کیا کہ پلیز کل سے شروع سے بات کریں تا کہ ہم تسلسل کے ساتھ آپ کے حوالے سے کچھ لکھ سکیں۔ تیسرے دن میں نے حاضری دی مگر بیگم صاحبہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہیں رات فلو ہو گیا ہے وہ دو چار منٹ کے لیے ڈرائنگ روم میں آئیں۔ انہوں نے ناک پر ایک مظر لیا ہوا تھا اور بڑے نرم لہجے میں مجھ سے معذرت کی۔ میں نے کہا جس دن آپ کی طبیعت سنبھل جائے مجھے فون کروا دیجئے گا۔ اس دن کے بعد مجھے بھی یہ فون نہیں آیا اور میرے کئی بار معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ابھی تک ان کی طبیعت ناساز ہے۔ انہی دنوں اچانک میر اتبادلہ کراچی سے لاہور ہو گیا ( یہ کہانی پھر سہی) اور میری ان سے طویل انٹرویو کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ رعنا لیاقت علی خان کا تعلق ایک ہندو خاندان سے تھا وہ 13 جنوری 1905ء کو پیدا ہوئیں ان کا نام شیلا ارینی پنت تھا۔ ان کی جائے پیدائش المور اتھی جو اتر کھنڈ بھارت کا علاقہ ہے۔ ان کے والد میجر جنرل ہیکڑ پنت تھے جو ہندو پیدا ہوئے لیکن 1887ء میں عیسائیت قبول کر لی۔ شیلا نے نینی تال سے میٹرک اور لکھنو یو نیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ وہ اکنامکس اور ریچن سٹڈیز میں بی اے تھیں پھر انہوں نے ڈبل ایم ایس سی اکنامکس اور سوشیالوجی میں کی ۔ بعد ازاں ولی کے اندرا پر استھا کالج میں پروفیسر نہیں۔ قائدملت لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات 1931 ء میں ہوئی جب وہ قانون اور انصاف پر بکھر دینے کے لیے کالج آئے ۔ رعنا کی خوبصورتی، تعلیمی قابلیت اور حاضر جوابی نے انہیں متاثر کیا چنانچہ 1932ء میں یعنی ایک سال بعد نواب زادہ لیاقت علی خان نے ان سے شادی کر لی۔ اس سے پہلے 23 سال کی عمر میں لیاقت علی خان کی اپنی ایک کزن جہانگیر بیگم سے شادی ہو چکی تھی تاہم رعنا لیاقت علی بننے کے لیے شیلا نے با قاعدہ اسلام قبول کیا ۔ 1933ء میں دونوں میاں بیوی لندن پہنچے اور مسٹر جناح جو ابھی قائد اعظم نہیں بنے تھے سے ملاقات کی اور انہیں واپس انڈیا آکر سیاست کا آغاز کرنے کی درخواست کی۔ قائد اعظم نے انہیں کہا کہ آپ جا کر حالات کا جائزہ لیں اور پھر مجھے خط لکھئے گا۔ قائد انڈین سیاست سے بیزار ہو کر لندن چلے گئے تھے اور وہاں پریکٹس شروع کر دی تھی ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت کے اصرار پر واپس آئے اور مسلمانوں کی بہبود کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کے لیے کام شروع کیا۔ رعنا لیاقت علی خان نے 1942ء میں مسلم خواتین کو منظم کرنے کا آغاز کیا اور قیام پاکستان تک اس جدوجہد میں شوہر کے ساتھ دن رات ایک کر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ وزیر اعظم کی بیگم ہونے کے ناطے فرسٹ لیڈی نہیں ۔ انہوں نے پاکستان ویمنز نیشنل گارڈز کی بنیاد رکھی اور فوج سے درخواست کی کہ لڑکیوں کو انجیکشن لگانا سکھائیں۔ ان خدمات کے عوض انہیں فوج کا اعزازی عہدہ بریگیڈیئر جنرل دیا گیا اور آنریری یونیفارم بھی ملی۔ 1949ء میں انہوں نے اپوا یعنی آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کے لیے ملک بھر سے سوخو اتین کو دعوت دی گئی تھی ۔ اپوا نے لاہور میں اپوا کالج کی بنیاد رکھی ۔ 1951ء میں بیگم رعنا نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواتین کی بیداری کے لیے کام جاری رکھا۔ 1961ء میں انہیں نیدر لینڈ (ہالینڈ) میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب رعنا لیاقت کو بیرون ملک سفیر تعینات کیا گیا تو اس ملک کی ملکہ سے ان کی دوستی ہوگئی۔ و Chess کھیلتی تھیں ۔ ایک دن ملکہ نے کہا کہ اگر آج تم مجھ سے جیت گئیں تو میں اپنا محل آپ کے نام کر دوں گی ۔ حسن اتفاق کہ رعنا لیاقت اس روز جیت گئیں ۔ تو ملکہ نے کہا کہ میں اپنے وعدے کے مطابق یہی کل آپ کے نام کرتی ہوں۔ لیکن رعنا نے فوری انکار کر دیا اور کہا یہ کل آپ میرے بجائے میرے وطن کے نام کر دیں۔ چنانچہ ملکہ نے وہ چل پاکستانی حکومت کے نام کر دیا۔ یادر ہے آج بھی ہمارے وطن عزیز کا سفارتخانہ اسی محل میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ مارچ 1966 تک وہ تیونس میں بھی سفیر رہیں ۔ 1972 ء میں انہوں نے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور بھٹو حکومت میں وزارت خزانہ کی مشیر بھی رہیں۔ بھٹو صاحب نے ہی 1973 ء میں انہیں سندھ کی گورنر مقرر کیا اور 1976 ء تک وہ اس عہدے پر کام کرتی رہیں ۔ ضیاء الحق کی آمد پر وہ بہت پریشان ہوئیں اور بھٹو صاحب کی وفات پر وہ دو تین دن تک مسلسل روتی رہیں۔ وہ جمہوریت کے حق میں اور مارشل لاؤں کی سخت مخالف تھیں ۔ انہوں نے فوجی حکومت کے خلاف مہم چلانے کا بھی آغاز کیا لیکن جنرل ضیاء الحق نے سختی سے ہدایات جاری کیں کہ وہ قائد اعظم کے معتمد خاص نواب زادہ لیاقت علی خان کی بیگم اور خود تحریک پاکستان کی صف اول کی کارکن رہی ہیں لہذا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور کسی قسم کا ایکشن نہ لیا جائے۔ ان کے دو بیٹے اشرف لیاقت 13 اکتوبر 1937 ء اور اکبر لیاقت 19 اپریل 1941 ء کو پیدا ہوئے۔ میری کراچی سے لاہور واپسی کے چند سال بعد یعنی 13 جون 1990ء کو دل کا دورہ پڑنے سے بیگم رعنا کا انتقال ہو گیا۔ میں نے لاہور سے بھی دوبار ان سے فون پر بات کی اور ان کا طویل انٹرویودوبارہ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر وہ مسلسل دو ہفتے مجھے روزانہ تھوڑا سا وقت دے سکیں تو میں چھٹی لے کر کراچی آجاؤں گا اور ان کی خدمت میں روزانہ حاضری دوں گا۔ انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا لیکن ان کی طبیعت واقعی اچھی نہ تھی لہذا وہ یہی کہتی رہیں ذرا طبیعت سنبھل جائے توآپ کراچی آنا۔

میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے بہت کچھ پو چھنا چاہتا تھا کیونکہ وہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ ایک عمر وابستہ رہی تھیں۔ ان کے پاس بیشمار معلومات تھیں اور میری معلومات کے مطابق انہوں نے کوئی بائیو گرافی نہیں چھوڑی البتہ جن چند دنوں میں، میں ان کے پاس جاتا رہا ایک چھوٹی سی کتاب انہوں نے مجھے دی جس کا نام تھا ” ویمنز ان سلک ان پر کسی نے لکھا تھا لیکن اسے ہر گز سوانح عمری یا آپ بیتی نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم نہیں وہ اپنے بیٹوں کے پاس کیوں نہیں رہتی تھیں اور یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ آخری عمر میں براں تک ایک پرانی نیم مسمار عمارت میں ان کی رہائش کیوں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کی بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش ان کی سوانح عمری یا انہی کی زبان میں آپ بیتی لکھنے کا مجھے بے حد شوق تھا مگر بقول شاعر
اے بسا آرزو کہ خاک شده
بیگم رعنا لیاقت کئی حوالوں سے ایک متنازع شخصیت بھی تھیں۔ میرے لڑکپن میں عام طور پر ان کے خلاف یہ ریمارکس سنائی دیتے تھے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں وہ انتہائی آزاد خیال واقع ہوئی تھیں۔ دینی حلقے بالخصوص مولوی صاحبان انہیں پردے کا اہتمام نہ کرنے کے باعث تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ جب انہوں نے خواتین کی تنظیم ایوا قائم کی تو بھی مذہبی لوگوں نے اسکی سخت مخالفت کی اور کہا کہ وہ خواتین کو آزاد خیال اور مردوں کی اطاعت نہ کرنے کا سبق دے رہی ہیں۔ انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ الزامات کچھ درست نہ تھے۔ اپوا نے ہمیشہ خواتین کی بہود اور بہتری کیلئے کام کیا۔ ان کے لیے تعلیمی ادارے بنائے ان کے سماجی اور قانونی حقوق کیلئے جدوجہد کی جہاں تک بیگم رعنا کے پردہ نہ کرنے کا تعلق ہے۔ قائد اعظم کے گردو پیش شاید ہی کوئی خاتون پردہ کرتی ہو اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بیگم مولانا محمد علی جو ہر اور خدیجہ فیروز الدین کے علاوہ کوئی خاتون رہنما پردے کی پابند نہ تھی خود قائد اعظم کی بیگم رتی جناح سے لے کر ان کی صاحبزادی دینا جناح اور بہن فاطمہ جناح تک کبھی باوقار لباس پہنتی تھیں لیکن ان کا چہرہ کھلا ہوتا تھا اور انہوں نے کبھی برقعہ استعمال نہیں کیا لہذا بیگم رعنا پر تنقید پاکھ منصفانہ ہیں۔ ان پر ہندو ہونے کا طعنہ بھی بلا جواز ہے کیونکہ انہوں نے شادی کے وقت با قاعدہ اسلام قبول کیا اور ان کا نام شیلا سے رعنا ہو گیا۔ قائد اعظم کی اہلیہ بھی پاری مذہب سے تعلق رکھتی تھیں لیکن انہوں نے شادی کے وقت ہی اسلام قبول کیا۔ میں نے جتنا پڑھا اور سُنا بیگم رعنا کی تحریک پاکستان کیلئے خدمات بے شمار ہیں اور خاتون اول کے طور پر انہوں نے پاکستانی خواتین کیلئے دن رات کام کیا اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان پر کوئی سنجیدہ کتاب موجود ہے یا نہیں لیکن تحریک پاکستان کا یہ ورق ادھورا رہے گا جب تک ان کی خدمات کا تفصیلی ذکر اس میں شامل نہیں ہوگا، زندہ قومیں اپنے محسنوں کا احترام کرتی ہیں۔ ان کے کارناموں کو یا در رکھتی ہیں اور میری نظر میں بیگم رعنا کا شمار بھی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں ہوتا ہے۔ اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے بے پناہ کام کیا لیکن کاش مجھے ان کی زندگی کے واقعات مرتب کرنے کا موقع ملتا تو مجھے یقین ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بارے میں بے شمار ایسے واقعات سامنے آتے جو ان بانیان پاکستان کی شخصیتوں پر قابل قدر روشنی ڈالتے وہ معلومات کا ایسا خزانہ تھیں جن سے ہم ہر شعبہ زندگی میں قائد کی سوچ کے حوالے سے روشنی حاصل کر سکتے تھے ۔ اللہ تعالی ان کے مدارج بلند کرے۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان کے بارے میں اپنی یادداشتیں قلمبند کرتے ہوئے آخری مراحل میں تھا کہ کراچی کے ایک اہم اخبار روز نامہ قومی اخبار کے ایڈیٹر الیاس شاکر کا فون آیا۔ میں نے بتایا کہ رعنا لیاقت علی خان پر کچھ لکھ رہا ہوں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ حیرت ہوئی کہ محترمہ کی عمر 1984 ء میں 79 سال تھی اور وہ اکیلی رہتی تھیں جبکہ ان کے دونوںبیٹے اشرف اور اکبر کراچی ہی میں مقیم تھے آپ کسی پرانے مسلم لیگی سے پوچھ کر بتاؤ کہ کیا اکبر علی خان اور اشرف علی خان بیگم رعنا کے بطن سے تھے یا لیاقت علی خان کی پہلی بیوی جہانگیرا بیگم سے تھے۔ الیاس صاحب نے کہا کہ نوائے وقت کے کراچی کے دنوں میں آپ سے بھی بزرگ مسلم لیگی راہنما آزاد بن حیدر کا بہت آنا جانار ہا ہے ان سے معمر اور کوئی مسلم لیگی زندہ نہیں میں ابھی ان سے فون کر کے معلوم کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد الیاس صاحب نے پھر مجھے فون کیا اور کہا کہ بقول آزاد بن حیدر رعنا لیاقت علی خان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور ان کے دونوں بیٹے دراصل قائد ملت کی پہلی بیوی سے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ شاید یہی وجہ تھی کہ آخری عمر میں بھی وہ تنہا ر ہتی تھیں۔ میں اس واقعے کا ذکر کر چکا ہوں لیکن ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہالینڈ کی ملکہ سے جیتا ہوا شاہی محل بیگم رہنا خود بھی رکھ سکتی تھیں لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ یہ حل پاکستان کے نام منتقل کر دیا جائے جہاں آج تک پاکستانی سفارتخانہ موجود ہے۔ اس واقعے کی روشنی میں ذرا آج کے پاکستانی سیاستدانوں کا طرز عمل ملاحظہ ہو۔ لوٹ مار کے قصے تو سبھی کو معلوم ہیں لیکن انہیں جب کوئی غیر ملکی شخص یا حکومت کوئی تحفہ دیتی ہے تو بھی وہ کس قدر ڈھٹائی سے اسے سرکاری توشہ خانے میں جمع کروانے کی بجائے خود ڈکار جاتے ہیں اور تھنے میں ملی ہوئی عام یا بیش قیمت تحائف پر بھی محض اپنا حق تصرف گردانتے ہیں نمونے کے لئے ملاحظہ کیجئے ترک خاتون اول نے ہمارے ایک وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ایک نیکلس دیا جو موصوف نے قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے اپنی اہلیہ فائزہ گیلانی کے گلے میں ڈال دیا اس پر کافی ہاہا کار مچی تھی اخبارات میں ایک طوفان بھی بر پا ہوا اور بالآخر بہت ساری گرداڑنے کے بعد یہ ہار واپس دیا گیا۔ قارئین آج تک ہمارے پاکستانی حکمرانوں اور ارباب اقتدار کو ملنے والے بیرونی تحائف کی کوئی لسٹ مرتب کی جائے تو الا ماشاء اللہ حیرت انگیز انکشافات کی توقع کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں