540

سیدہ کائنات ـ؛بہترین نمونہ عمل :یہ عزوجلال اللہ اللہ ……. یہ اوج و کمال اللہ اللہ …….کسی کو نصیب ہوا نہ ہوگا


قارئین کرام !
عجیب کیفیت ہے،اپنی کم مائیگی کی ۔سراپا نیاز بنا ہوا ہوں ،قلم چلاوں بھی تو کیسے ؟کس زعم میں،کس یقین کے ساتھ ؟…….ایسا حساس مرحلہ اور ایسی جائے مقام و ادب کہ اس ہستی کی تکریم و توصیف میں خامہ فرسائی کی ہمت مجتمع کروں ، جبریل امین جن کے درِ دولت پہ دستک دیئے بغیر داخل نہ ہوا کرتے، ایسی عالی مرتبت بارگاہ، کریموں کی پاکیزہ و مطاہرہ نسل اور وہ لبچال گھرانہ کہ دنیا کیا آخرت میں بھی جس کو جو کچھ اور جتنا بھی ملےگا اسی در کی خیرات ہوگا۔تو پھر میں کیا اور میری بساط کیا کہ ان کی شان اقدس میں اپنی دلی عقیدت کو الفاط کے پیرہن اوڑھانے کی سعی کروں ، جن کی مدحت میں کلام اللہ اور امام الانبیا ﷺ ہی نہیں ان گنت محدثین و مفکرین بھی رطب اللسان ہیں ۔اللہ تعالیٰ رب العزت نے جن شخصیات کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ عمل اور رول ماڈل بنا کر خلق کیا ہے ، ان میں سے ایک نمایاں ہستی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کی ہے۔آج کے اس پر آشوب و پر فتن دور میں ضروری ہے کہ اس شخصیت کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے تا کہ اولادِ آدم آپ کی سیرت کو بطریقِ احسن سمجھ کر اس پر عمل کر کے مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکے۔ بصورت دیگر کوئی شخصیت کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو اگر اس کی سیرت پر عمل نہ کیاجائے تو معاشرے کو اس سے جو فائدہ پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ پاتا۔اگر ہم اپنے معاشرے کو انسانیت کی بلندیوں اور ملکوت کے اعلی ٰدرجات پر دیکھنا چاہتے ہیں توضروری ہے کہ ہم خود بھی حضرت فاطمۃ لزہرا ؑ کی عملی شخصیت اور حقیقی فضائل سے آگاہ ہوں اور اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس معظمہ بی بی ؑ کی سیرت و کردار سے متعارف کروائیں۔سیدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیھا سے میری غایت درجہ عقیدت اور اس کاوش کا مقصد محض یہ ہےکہ یہ تہنیت درجہ قبولیت پا کر میری اور میرے اہل خانہ کی بخشش کا سامان بن جائے ……. گر قبول افتد زہے عزوشرف ۔
……. ……. ……. ……. ……. ……. …….
یہ اعلان نبوت کے بعد کا دور ہے ۔نبی رحمت ﷺ حرم کعبہ میں سر بسجود ہیں، ابو جہل نے کہا، کوئی ہے ؟جو آلِ فلاں کے ذبح کئے جانے والے اونٹ کی اوجھڑی لاکر بحالت سجدہ میں حضور ﷺ کے درش مبارک پہ رکھ دے۔ عقبہ بن ابی معیط کافر اٹھا اور اس نے یہ گستاخی کر ڈالی، حضور ﷺ سجدہ میں تھے، دیر تک اوجھڑی کندھے اور گردن پہ پڑی رہی، کفار ٹھٹھا مار کر ہنستے اور ایک دوسرے پر گر گر پڑتےرہے ….آخر ایک کمسن بچی سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا تشریف لائیں، ان کافروں کو برا بھلا کہتے ہوئےاپنے ننھے ننھے نازک ہاتھوں سے اس اوجھڑی کو سرکار دوعالم ﷺ کے درش مبارک سے ہٹا دیا (بخاری ج 1)…………….. قارئین کرام!اب ذرا لمحہ بھر توقف کیجئے اور سوچیے کہ کیا کفار ناہنجار کی اس گستاخی کو صرف سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا نے دیکھا ،کیا اس وقت وہاں قریش موجود نہ تھے،قریش کے کسی حلیف قبیلے میں سے بھی کوئی نہ تھا اور بنو ہاشم کا بھی کوئی فرد نہ تھا ؟ واقعہ کی نوعیت تو یہی بتلاتی ہے کہ ہوں گے تو ضرور مگر بدمست کفار سے الجھنے کا حوصلہ شاید کسی نے نہ کیا ،ایسے میں سیدہ کائنات، جو ابھی کم سن ہیں ،استقامت و اسقلال کا گوہ ِگراں بن کر سامنے آتی ہیں ،نہ صرف اپنے بابا جان رحمت عالمیان ﷺ کے سر اقدس سے اوجھڑی ہٹاتی بلکہ اس جرات مندی سے ،جس میں فصاحت و بلاغت بدرجہ اتم موجود ہے ،کفار کو ملامت کرتی ہیں کہ عرب کے بڑے بڑے سرداروں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں ،سب کی نظریں جھک جاتی ہیں اور جھکتی بھی کیوں نہ کہ سامنے وہ ہستی ہیں جو کل پل صراط سے گزریں گی تو اہل محشر کو حکم ہو گا کہ نظریں جھکا لو فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت محمد مصطفٰےﷺ تشریف لے جاتی ہیں ۔کفار کےسامنے جرات مندانہ رویہ سیدہ کائنات کا وہ وصف ہے جس کی جھلک یزید پلید کے دربار میں بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے بے مثل خطاب میں نظر آتی ہے ۔ بہر کیف اپنے بابا جان کے نبی برحق ﷺ ہونے اور اعانت کی مذکورہ اولین مثال کے بعد آپکی شخصیت پر بطور ’’نمونہ عمل ‘‘نگاہ ڈالنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ خود رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’ فاطمہ سے بڑھ کر رسول اکرم سے مشابہہ اور کوئی نہیں ‘‘ …….ہم اس معظمہ خاتونؑ کی زندگی کا بطور اسوہِ حسنہ مطالعہ کرنے کے لئے ان کی زندگی کے ادوار کو چند مراحل میں تقسیم کر لیتے ہیںمثلاً بحیثیت بیٹی ؛بحیثیت بیوی ؛ بحیثیت ماں؛بحیثیت عابدہ و زاہدہ ؛ بحیثیت مدافع اسلام اور بحیثیت جامعِ اوصاف۔
رسول اکرمﷺ کی دخترِ گرامی ؑ آپ ﷺ کی بعثت کے پانچویں سال بیس جمادی الثانی کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن اطہر سے اس دنیا میں تشریف لائیں۔ یہ ولادت پھولوں کے حصار میں نہیں بلکہ کانٹوں کے محاصرے میں ہوئی، کفّار مکہ پیغمرِ خدا ﷺ کو ابتر یعنی بے نام و نشان اور بے نسل ہونے کے طعنے دیا کرتے تھے ، ایسے میں خدا نے اس بیٹی کو عطا کر کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا :’’بے شک ہم نے آپ کو کوثر(خیرِکثیر)عطا کر دی‘‘۔اس سورہ میں خداوند عالم نے اپنے حبیبﷺ کو تسلی دی ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے اور آپ کا دشمن ابتر ہے۔اس سورہ کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بی بی ، رسولِ دو عالم ﷺ کے لئے ؑ اپنی ولادت سے ہی خیر کثیر ہے ۔یعنی یہ فقط ایک بیٹی نہیں ہے بلکہ یہ بیٹی کے قالب میں اللہ کی طرف سے رسولﷺ کو خیر کثیر عطا کیا گیا ہے اور اس خیر کثیر کے ذریعے رسول ﷺ کو طعنے دینے والوں کا منہ بند کیا گیا ہے۔ بی بی سلام اللہ علیھا ابھی کم سن ہی تھیںکہ شعبِ ابی طالب میں مسلمانوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نبیﷺ کی یہ لاڈلی بیٹی انتہائی صبرو استقامت سے دیگر مسلمانوں کے ساتھ بھوک، افلاس ، مشکلات اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہیں ۔اس سخت اور کٹھن دور میں بی بیؑ کے خیر کثیر وجود کو دیکھ کر پیغمبر اسلام ﷺ کو کتنا حوصلہ ملتا ہوگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔بعثت کے دسویں سال جب رسولِ گرامیﷺ کی دختر نیک اخترؑ کی عمر فقط پانچ یا چھ سال تھی تو پیغمرِ اسلام ﷺ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ، اس سال جناب ابوطالب اور حضرت خدیجہ ؑ کا انتقال ہوگیا۔ ان دو شخصیات کے انتقال پر نبی رحمت ﷺ نے اس سال کا نام عامُ الحزن یعنی غم کا سال رکھا۔ سیّدہ زہرا سلام اللہ عیھاا کمال معنویت و بشریت کے اس درجے پر فائز تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:بے شک اللہ فاطمہؑ کے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور فاطمہؑ کی رضا سے راضی ہوتا ہےبلکہ رسولِ خدا ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :فاطمہ میرےجگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ۔یہ کسی عام باپ اور بیٹی کی محبت نہیں ،یہ رسولِ دوعالم ﷺ کی محبت ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخصیت بیٹی ہونے کے اعتبار سے بھی بے مثل اور نمونہ عمل ہے۔چنانچہ دنیا جہاں میں جتنی بھی بیٹیاں ہیں اگر وہ سعادت مند بننا چاہتی ہیں تو رسولِ اسلام کی بیٹی کے اسوہ حسنہ کامطالعہ کریں اور ان کی سیرت پر عمل کریں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہےکہ فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں، ذہن میں رہے کہ خود نبی کریم ﷺ عالمین کے لئے نبی اور رحمت ہیں اور آپ نے عالمین کی عورتوں کی سردار اس بی بی ؑ کو قرار دیا ہے۔پس سردار وہ ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور جس کے نقشِ قدم پر عمل کیا جاتا ہے۔بلا شبہ اسلامی معاشرے میں مسلمان خواتین کے پاس حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی اطاعت کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نجات ہی نہیں ہے۔
امام علیؑ کی تمام تر زندگی جدو جہد اور جہاد سے عبارت ہے، آپ جب بھی جنگوں سے لوٹتے تو بنتِ پیغمبرؑ آپ کے زخموں پر مرہم لگاتیں، آپ کی تلوار کو دھوتیں اور آپ کی ڈھارس بندھاتیں یہاں تک حضرت علی کرام اللہ وجہہ الکریم نے آپؑ کے بارے میںگواہی دی کہ خدا کی قسم اپنی ساری زندگی میں کبھی میں بی بی پر غضبناک نہیں ہوا اور نہ کبھی بی بیؑ نے مجھ پر غصہ کیا۔شادی کے بعد بی بیؑ نے محض ایک ناز و نعم سے بھرپور زندگی نہیں گزاری بلکہ امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی مثالی رفیقِ حیات ثابت ہوئیں۔آپ نے ایک مثالی بیوی ہونے کے ناطے مثالی بچوں کو پروان چڑھایا اور اپنے شوہر کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں بھرپور تعاون کیا۔
کتبِ تواریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے گھریلو امور کو نبی اکرم ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان تقسیم کردیا تھا، اندرونِ خانہ کا کام کاج آپ انجام دیتی تھیں اور بیرونِ خانہ کے کام امیرالمومنینؑ کے سپرد تھے۔ اگرچہ امیرالمومنینؑ بھی گھر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاتے تھے لیکن کام کرنے کی وجہ سے آپ کے مقدس ہاتھوں پر زخموں کے نشانات پڑ گئے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے کبھی امورِ خانہ داری کو اپنے لئے بوجھ نہیں سمجھا اور کبھی بھی امام علیؑ سے اس بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔آپ صرف ایک مثالی بیٹی ہی نہیں بلکہ ایک مثالی بیوی بھی ہیں، ایک ایسی بیوی کہ جن کی عظمت کا معترف امام علی ؑ جیسا عظیم انسان بھی ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ دنیا میں قوّت برداشت کے اعتبار سے انسان دو طرح کے ہیں، بعض چھوٹی چھوٹی مشکلات سے بھی بوکھلا جاتے ہیں اور بعض بڑی بڑی مشکلات کو صبر اور حوصلے سے سر کرجاتے ہیں۔ حضرت امام علیؑ کے صبر اور حوصلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو دنیا مشکل کشا کے لقب سے یاد کرتی ہے اور دنیا میں امام علی کے نام کو، عظمت ، شجاعت، بہادری اور آرام و سکون کا استعارہ سمجھا جاتا ہے لیکن امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ کے وصال مبارک کے موقع پر ارشاد فرماتے ہیں:اے دختررسول اللہﷺ ! اب مجھے کیسے سکون ملے ، میرا سکون آپ سے تھا، آپ کے بعد سکون کہاںیقیناً ایسی بیوی کائنات کی بیویوں کے لئے نمونہ عمل ہے جو امام علیؑ جیسے شجاع اور بہادر مرد کے لئے باعث آرام و سکون تھی۔
ہر انسان اپنے ظرف اور ہمت کے مطابق بے قراری کا اظہار کرتا ہے، حضرت فاطمۃ الزہراؑ جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو آپ کے شوہر یعنی حضرت امام علیؑ نے آپ کے ہجر اور فراق کے دکھ کو پیغمبر اسلامﷺ کی رحلت کے مساوی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی قسم آپ کے جانے سے میرے لئے رسولِ خدا کی موت کا دکھ تازہ ہو گیا ہے۔بحیثیت ایک بیوی ہونے کے آپ اس مقام و مرتبے پر فائز تھیں کہ امام علی ؑ جیسے شجاع انسان کے لئے اس دکھ کا سہنا محال تھا۔یہ فقط ایک بیوی سے محبت کی وجہ سے ایسا نہ تھا بلکہ اس لافانی و لاثانی محبت کے پیچھے دخترِرسولﷺ کا اللہ کی راہ میں وہ مجاہدانہ کردار موجزن تھا جس کی یاد امام علیؑ کو بے تاب کئے ہوئےتھی۔اب بھی مومنین کرام کی بیویاںاگراپنے لئے امیرالمونینؑ کی اس بیوی کو نمونہ عمل بنا لیں تو اسلامی معاشرہ عزت و عظمت اور عطوفت و مہربانی کی مثالیں آج بھی قائم کر سکتا ہے۔
ایک مثالی بیوی اور بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت فاطمہؑ ؑ ایک مثالی اور کامل ترین ماں بھی ہیں۔ایک نمونہ عمل بیٹی اور اسوہ حسنہ کی حامل بیوی ہونے کے ناطے آپ بطریقِ احسن جانتی تھیں کہ بہترین ، مثالی اور کامل ترین ماں کسے کہتے ہیں۔یوں آپ صرف ایک ماں ہی نہیں ہیں بلکہ کائنات کی ساری ماؤں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔آپ کی گود میں ایسے بچوں نے تربیت پائی ہے جن کے فضائل و مناقب سے زمین و آسمان کی وسعتیں پُر ہیں۔آپ کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہوئی جن میں سے دو بچے یعنی امام حسنؑ اور امام حسینؑ امام معصوم بنے اور دو بیٹیاں حضرت زینب ؑ اور حضرت کلثوم ؑ واقعہ کربلا کی سفیر ٹھہریں۔کتب تواریخ میں ایک اور بچے حضرت محسنؑ کا ذکر بھی ملتا ہے ، جن کے بارے میں شکم مادر میں ہی شہادت کے واقعات منسوب ہیں۔حضرت فاطمہؑ نے چار بچوں کو صرف پالا نہیں بلکہ اپنے حسنِ عمل سے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ خودآپ کے بچے بھی اہلِ عالم کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
ہم مختصراً فقط یہ عرض کریں گے کہ اگر بزبانِ رسالت ؐ، امام حسن اور امام حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں اور یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمانِ رسولﷺ ہی ہے کہ الجنۃ تحت اقدام الامہات، جنت ماوں کے قدموں تلے ہے ، حضرت امام حسن اور حسینؑ بھی کمالات کے جن مدارج پر فائز ہیں اُن کمالات کا دریا حضرت فاطمہؑ کے قدموں سے ہی اُبلتا ہے وہ چاہے شہادت کا دریا ہو یا کوثر کا۔اسی طرح آپ کی دونوں بیٹیوں کی زندگی میں بھی حق گوئی، بیباکی اور دین کی حفاظت کا جو پہلو نمایاں نظر آتا ہے اس میں بھی در اصل بی بی دو عالمؑ کی تربیت ہی چھلک رہی ہے۔آپ کی شخصیت آپ کے بچوں کے سامنے صرف کھلی ہوئی کتاب کی طرح نہیں تھی بلکہ ایک عملی مربّی کی سی تھی۔خدا پر توکل، خدا کے رسول کی اطاعت، شب و روز عبادت ، دوسروں کے لئے جانثاری، اعمال میں خلوص، سخت حالات کے باوجود سخاوت، ہر حال میں حسنِ نیت، گنہگاروں کے ساتھ عفو و درگزر ، آنے والوں کے ساتھ مہمان نوازی،اپنے پیکر میں خلقِ عظیم اور غیرت دینی جیسے تمام اوصاف آپ نے بچوں کو گھٹی میں پلائے تھے۔بے شک آپ کی اولاد نے اسلام اور توحید کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے لیکن بلاتردید ایسی اولاد کی تربیت کا سہرا دُخترِ رسول ؐکے سر جاتا ہے۔حضرت امام حسنؑ سے روایت ہے کہ ایک شب میری والدہ گرامی ساری رات عبادت کرتی رہیں، یہاں تک کہ سپیدہ سحر نمودار ہوگیا، میں سنتا رہا ساری رات میری والدہ ماجدہ ، ہمسایوں، عزیزو اقارب اور مسلمین کے مسائل کے حل کے لئے دعا کرتی رہیں، صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اے والدۂ گرامی آپ نے اپنے لئے کیوں دعا نہیں کی اس پر سیّدہ دوعالم ؐنے شہزادے کو جواب دیا
اے میرے نونہال!پہلے پڑوسی پھر گھر(23)
یہ ہے وہ نظریہ حیات، وہ سوچ ، وہ فکر اور وہ راہِ بندگی جس پر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کی۔اگر دنیا بھر کی مائیں سیدہ دوعالمؐ کو اپنا رول ماڈل اور نمونہ عمل جان کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو یقینا اس سے ہمارے معاشرتی و سماجی حالات سنور جائیں گے اور مسلمان دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہونگے۔
بحیثیت عابدہ و زاہدہ
ایک مثالی بیٹی، نمونہ عمل بیوی اور بہترین ماں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایسی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں کہ فرشتے بھی آپ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مدینہ رات کے وقت حضرت امام علیؑ کے گھر سے ایک نور کو بلند ہوتے دیکھتے تھے، انہوں نے اس نور کے بارے میں پیغمبرِ اکرمﷺ سے استفسار کیا تو پیغمبرﷺ نے فرمایاکہ جب میری بیٹی فاطمہؑ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے اس پر درودو سلام بھیجتے ہیں اوراسے عالمین کی عورتوں کی سردار کے لقب سے پکارتے ہیں (25)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جب بی بی دو عالم محرابِ عبادت میں کھڑی ہوجاتی تھیں تو آسمان پر ملائکہ ؑ کے لئے ایک ستارہ چمکنے لگتا تھا، اور خدا فرشتوں سے فرماتا تھا کہ اے فرشتو ! دیکھو میری بہترین عبد فاطمہ ؑ میری عبادت کر رہی ہے۔وہ میری بارگاہ میں کھڑی میری ہیبت سے لرز رہی ہے اور پورے خضوع و خشوع کے ساتھ میری عبادت کر رہی ہے۔سیرت کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بی بی صرف ذکر و اذکار اور نماز و دعا میں مشغول نہیں رہتی تھیں بلکہ آپ عبادت کو قربِ الٰہی کا وسیلہ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر مشکلات بھی عبادت کے ذریعے حل کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، جیساکہ سورہ انسان یا سورہ دہر کے بارے میں علمائے اسلام اورمفسّرین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ بی بی دو عالم کے صبر اور سخاوت کی وجہ سے اہل بیت رسول اور خصوصاً سیدہ دو عالم کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
اس سورہ کے نزول کے بارے میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسنؑ اورامام حسینؑ بیمار ہوگئے، اس موقع پر حضرت امام علیؑ، سیّدہ دو عالم ؑ اور ان کی کنیز فضہؓ نے منت مانی کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے شفا یاب ہونے پر وہ سب تین دن روزے رکھیں گے۔جب دونوں شہزادوں کو شفا مل گئی تو دونوں شہزادوں سمیت اہل بیت رسولﷺ نے روزہ رکھا، افطاری کے لئے حضرت فاطمہ ؑ نے پانچ روٹیاں پکائیں، عین افطار کے موقع پر سائل نے آکر روٹی کا سوال کیا، سب نے اپنے اپنے حصے کی روٹی سائل کو دیدی، اسی طرح تین دنوں تک ہوا۔تیسرے دن پیغمبر ؑ اپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے اور بیٹی کو مصلے پر مشغولِ عبادت پایا، اس وقت جبرائیل امین ، نبی اکرمﷺ پر سورہ انسان لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر سے فرمایا کہ خداوند عالم ایسے اہل بیتؑ کی وجہ سے آپ کو مبارکباد دیتا ہے۔حضرت فاطمہؑ کی خداوند عالم کی بارگاہ میں عبودیت اور بندگی بھی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ نے اپنے تمام اجتماعی وسیاسی امور کے ساتھ انفرادی زندگی کے فرائض اور خدا کے ساتھ دعا و مناجات کے فریضے کو بھی بطریق احسن ادا کیا۔
اپنی مختصر سی زندگی میں بی بی دو عالمؑ شعبِ ابی طالب سے لے کر میدان مباہلہ تک اور میدانِ مباہلہ سے لے کر اپنے آخری سانس تک مسلسل اسلام کا دفاع کرتی رہیں، ایک طرف تو آپ شعبِ ابی طالب میں دن کی شدید گرمی میں جھلس جاتی تھیں اور رات کی شدید سردی میں ٹھٹھرتی تھیں اور دوسری طرف ہر جنگ اور ہر غزوے میں کبھی اپنے والد کے زخم دھو رہی ہوتی تھیں اور کبھی اپنے شوہر کے زخموں پر مرہم لگا رہی ہوتی تھیں ، کبھی اپنے والد بزرگوار کی تلوار کو صیقل کرتیں اور کبھی اپنے شوہر نامدار کی شمشیر کو تیز کرتیں۔کبھی گھر کے امور انجام دیتیں اور کبھی مستورات کو احکام سکھاتیں ، کبھی اہلِ مدینہ کے دروازوں پر بیداری کے لئے دستک دیتیں اور کبھی دربار میں جا کر خطبہ ارشاد فرماتیں ۔المختصر یہ کہ آپ کی ساری زندگی ضرب و حرب، علم و عمل، جدوجہد، تحریک و حریت اور بیداری و شعور سے عبارت ہے۔ آپ صرف اہلِ اسلام کے درمیان رہ کر اسلام کی حفاظت نہیں کرتی تھیں بلکہ جب نجران کے عیسائیوں نے پیغمبرِ اسلام ﷺ کے ساتھ مباہلے کا فیصلہ کیا تو کائنات کی ساری مسلمان عورتوں میں سے صرف آپ کو رسولِ اسلام نے اسلام کے دفاع کے لئے منتخب کیا۔
مفسرین کے مطابق اللہ نے اپنے پیغمبرؐ کو حکم دیا:
پھر جو کوئی تجھ سے اس واقعہ میں جھگڑے بعد اس کے کہ تیرے پاس صحیح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔یہ حکم تب دیا گیا جب یمن میں نجران کے علاقے کے رہنے والے عیسائیوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پیغمبر اسلام سے کہا کہ آئیے ہم آپس میں مباہلہ کرتے ہیں، یعنی جھوٹوں پر لعنت کریں گے جو جھوٹا ہوگا وہ تباہ و برباد ہوجائے گا، اس کے بعد اللہ نے بھی اپنے حبیبؐ کو مباہلے کا حکم دیا۔اللہ کے رسولﷺ نے ’’ابناءنا‘‘ ہمارے بیٹوں کی جگہ فقط امام حسنؑ اورامام حسنؑ) کو ساتھ لیا اور’’ نساءنا‘‘ ہماری خواتین کی جگہ صرف حضرت فاطمہ زہراءعلہاج السلام کو ہمراہ لیا اور ’’انفسنا‘‘ ہمارے نفوس کی جگہ صرف اور صرف حضرت علیؑ کو اپنے ساتھ لیا۔یوں حضرت فاطمہ الزہراؑ نے اسلام کے دفاع کے لئے غیر مسلم دشمنوں کا بھی سامنا کیا اور میدان مباہلہ میں دشمنانِ اسلام کا سر جھکا کر واپس پلٹیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب پیغمبرِ اسلام کے بعد امورِ خلافت کو نمٹانے کے لئے بعض لوگوں نے سقیفہ بنی ساعدہ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہا تو بی بی دو عالم ؑ جس طرح مباہلے کے روز اسلام کی حفاظت کے لئے گھر سے نکلی تھیں اُسی طرح پیغمر اسلامﷺ کے بعد اپنے موقف کو بیان کرنے کے لئے گھر سے نکلیں اور ارباب اقتدارسے متعارض ہوئیں۔اگر جہانِ اسلام کی خواتین ، اس معظمہؑ بی بی کو نمونہ عمل سمجھ کر ان کی اطاعت میں اسلام کا دفاع کریں تو آج بھی معاشرے سے بدعات و انحرافات ا ور خرافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک شخصیت میں بہت زیادہ صفات خصوصاً متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں اور اگر ایسا کہیں ہوا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ حضرت امام علیؑ کے بارے میں یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ آپ میں متضاد صفات جمع تھیں، مثلا آپ بیک وقت ادیب بھی تھے اور جنگجو بھی، نرم دل بھی تھے اور عدالت میں سخت بھی ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ؑ کے علاوہ حضرت فاطمہ الزہراؑ نے بھی ایک ایسی مختصر اور بھرپور زندگی گزاری ہے کہ گویا کائنات کے تمام کمالات کو آپ نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ آپ جس طرح اپنی کم سنی کے باعث نوعمر ننھی سی بچی ہیں اُسی طرح اپنی لطافت و نزاکت اور فہم و شعور کے باعث اُمُّ ابیھا بھی ہیں،آپ جس طرح ایک گھریلو خاتون اور ماں ہیں اُسی طرح اپنے شوہر کی مشیر اور شریکِ جہاد بھی ہیں، آپ جس طرح شرم و حیا اور حجاب کا مجسمہ ہیں اُسی طرح دشمنانِ اسلام کے خلاف پیکرِ غضب ہیں، آپ جس طرح خواتین کے لئے اسوہ ہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی نمونہ عمل ہیں۔
آپ جس وقار کے ساتھ ، اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے لئے نجران کے عیسائیوں کا سامنا کرنے کے لئے نکلتی ہیں،آپ اسی طرح خلافت کے منصب کو بچانے کے لئے مدینے کے مسلمانوں کے دروازوں پر دستک دیتی ہیں، آپ جس طرح محرابِ عبادت میں کامل یکسوئی کے ساتھ مشغولِ حق ہو جاتی ہیں ، آپ اسی طرح مسلمانوں کے دربار میں کامل فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں۔
آپ ایک طرف جنگ و جدال میں مشغول اپنے والدِ ماجدﷺ اور اپنے شوہر نامدارؑ کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور دوسری طرف حسنین کریمین ؑ اور زینبؑ و کلثومؑ جیسی اولاد کی تربیت کرتی ہیں۔ہاں آپ سو فیصد علی ابن ابیطالبؑ کی ہم کفو اور ہم پلہ ہیں۔آپ صرف مختلف فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ آپ اپنے شوہر نامدار کی طرح عالم بشریت کے لئے ایک نمونہ عمل اور اعمال کی کسوٹی ہیں۔
دینِ اسلام اس لحاظ سے غنی ہے کہ اس کا دامن عظیم شخصیات سے بھرا پڑا ہے۔دینِ اسلام کے مطابق ہر دور میں انبیائے کرام کو بنی نوعِ انسان کے لئے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ سب سے آخر میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کو پورے عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل اور رول ماڈل قرار دیا گیا ہے۔امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر عمل پیغمبرِ اسلام کے اعمال کے مطابق ہو، اللہ نے پیغمبرِ اسلام کو مبعوث ہی اس لئے کیا ہے تاکہ لوگ اُنہی کے نقش قدم اور انہی کے راستے پر چلیں۔چونکہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ظاہری زندگی صرف تریسٹھ برس ہے جبکہ آپ قیامت تک کے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔ اس لئے پیغمبرِ اسلامﷺ نے اپنے بعد بھی کچھ ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دیا ہے جنہیں ہم اہل بیت ؑ کہتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام کا ارشاد ہے :
میرے اھل بیت سفینہ نوحؑ کی مانند ہیں جو اُس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ ہلاک ہوا۔ان اہلبیتؑ میں سے ایک ہستی حضرت فاطمۃ الزہراؑ بھی ہیں، آپ کی شان میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں اور آپ کے فضائل کے بارے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں، جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی اپنے والد ماجد ﷺ کی طرح عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں۔آپ کی سیرت اور تاریخ پر مختلف زاویوں سے تحقیق کرنے کی گنجائش ہر دور میں موجود رہی ہے تاکہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق آپ کی شخصیت سے استفادہ کیا جا سکے۔
اس تحقیق سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہت ہی کم عمر پانے کے باوجود حضرت فاطمۃ الزہراؑ اپنے اندر مختلف فضائل و مناقب اور اوصاف حسنہ کا سمندر لئے ہوئے تھیں اور آج کے مضطرب اور پریشان زمانے کو ضرورت ہے کہ وہ امن و سکون، تعلیم و تربیت، عدل و انصاف، مساوات و معنویت اور زہد و تقویٰ کے حصول کی خاطر آپ کی عملی زندگی اور جدوجہد سے آشنائی حاصل کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں