قسط 4
عبد الرزاق ساجد
مولیٰ علی علیہ السلام کی نجابت کی بات ہو رہی ہے تو لازم ہے کہ اس کا بیان کسی بھی پہلو سے تشنہ نہ رہے ۔چنانچہ اسے تھوڑاماضی سے شروع کرتے ہیں ۔جب چھ برس کی عمر میں امام المرسلین ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیھا اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو گئیں تو آپ کے داد احضرت عبدالمطلب نےآپ ﷺ کو اپنے دل و دامن میں بھر لیا ، کسی لمحہ خود سے جدا نہ کرتے ، حضرت عبد المطلب کی وفات (578ء) کے بعد حضرت ابو طالب نے ہی حضورﷺکی پرورش کی۔ آپ کی تقلید میں بنو ہاشم کی بڑی تعداد نبی اکرم ﷺ کی پشت پناہ بنی رہی اور حضور اکرم ﷺ کی خاطر بڑی سختیاں جھیلیں – ۔
دستورِدنیا ہے کہ جو شے جتنی قیمتی ہو اسے اتنے ہی ایماندار اور قوی کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ والوں کیلئے فیصلے بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے ۔چنانچہ یہ بھی مشیت ایزدی تھی کہ حضرت عبد المطلب نے اپنی وفات سے قبل نصیحتاً جناب رسالت مآب ﷺکی خاطرداری کی ذمہ داری حضرت ابو طالب کے سپرد کر دی تھی۔حضرت ابو طالب ، حضور ﷺکے والد حضرت عبداللہ رضی الله عنہ کے واحد سگے بھائی تھے چونکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔حضرت ابو طالب کا شمار حضرت خدیجہ ، حضرت علی ، حضرت فاطمہ بنت اسد اور حضرت ابو بکر رضی الله عنہم کے ہمراہ سرکار دوعالم ﷺ اولین رفقا میں ہوتا ہے۔ آپ نے تاحیات حضور ﷺ کا ساتھ دیا اور حضرت ابو طالب کی بت پرستی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی جبکہ سیرت ابن ہشام میں ان کے کلمہ پڑھنے کا ذکر ہے، ام المومنیںخدیجہ بنت خویلدرضی الله عنہا کے ساتھ رسول اللہﷺ کا نکاح بھی حضرت عبد المطلب نے ہی پڑھایا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا۔ بہت سے علمائے اہلسنت علما نے بڑے سکہ بند حوالوں کے ساتھ کتابیں تصنیف کی ہیں اور خوارج ودشمنان اہلبیت کے اعتراضات اور من گھڑت روایات کا جواب دیا ہے۔
ایک مستند روایت ہے کہ ’’حضرت عبد المطلب کے دس بیٹوں میں حضرت عبد اللہ آخری تھے۔ ان کا انتقال حضور ﷺ کی ولادت سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ جب ہاشمی خاندان میں آقاﷺ کی کفالت کا معاملہ اٹھا تو حضرت عبد المطلب نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان سب کے دلوں پر روحانی نظر دوڑائی اورحضرت ابو طالب کو اپنے پاس بلا کر فرمایا: اے میرے بیٹے میں نے تیرے دل میں اپنے پوتے محمدﷺ کی محبت کو دیکھا ہے اس لیے اس کی کفالت تمہارے ذمے ہے اس دن سے جناب ابوطالب نے سرور کائنات ﷺ کو اپنی کفالت میں لے لیا اور آقا ﷺ کی پرورش شروع کردی۔ آپ کسی بھی وقت اپنے بھتیجے کو خود سے الگ نہیں کرتے تھے۔ آپ کی زوجہ فاطمہ بنت اسد بھی آقا ﷺسے والہانہ محبت کرتی تھیں اور سرکاردوجہاں ﷺان کو والدہ کہا کرتے تھے۔ اس محبت کا ثبوت یہ ہے کہ جب فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنہا انتقال ہوا توآقا ﷺکی نورانی چادر ان کے کفن کے ساتھ لپیٹ کر ان کو دفن کیا گیا۔دین اسلام کی خدمت کا جووقیع و وسیع حصہ حضرت ابو طالب کو ملا کسی اور کو نصیب نہ ہوا ۔ رسول اکرم ﷺکے دفاع اور خدمت کیلئے حضرت ابو طالب نے اپنے تین جلیل القدر بیٹے پیش کیے، علی ابن ابی طالب کرم الله وجہ، حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ اور حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی الله عنہ۔
حضرت ابو طالبـ نے آپ ﷺکی کفالت فرمائی، بہترین تربیت کی یہاں تک کہ آپ جوان ہو گئے۔جب آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا توحضرت ابو طالب ـ آپ کی نصرت و حمایت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپ کی مدح وتعریف میںکئی قصائد انشاء فرمائے ملاحظہ کیجئے ،
’’نبی کریم ؐکے صدقہ سے اہل مکہ کو بارش نصیب ہو ئی ،اور وہ گورے رنگ والے جن کے چہرہ انور کے صدقہ سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کی جا ئے پناہ اور بیوائوں کے نگہبان ہیں‘‘
اور آپ کے قصیدے کا ایک شعر یہ ہے
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی اپنے اسم گرامی سے مشتق فرمایا پس وہ عرش پر محمود ہے اور یہ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ۔‘‘
حضرت ابو طالب حضور نبی کریم ؐﷺسے بے پناہ محبت کرتے اور اپنی اولاد سے زیادہ آپﷺ کو چاہتے تھے آپ ہی کے پہلو مبارک میں سوتے ،جب حضرت ابو طالب ؓ کیں باہر جا تے تونبی کریم ﷺکو اپنے ساتھ لے جا تے اور دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ آپ ۖ پر فر یفتہ و گرویدہ تھے ۔حضرت ابو طالب آپ ۖ سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کو ئی دشمن رسول اللہﷺ ۖکو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہٰذا حضرت ابو طالب ـ کا یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گز ر جانے کے بعد وہ نبی کریم ۖ ﷺکو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے اور اس جگہ اپنے بیٹے حضرت علی علیہ السلام کو سلا دیا کر تے تھے، ایک روز ایسے موقع پر حضرت علی ـ علیہ السلام نے کہا بابا جان ! کیا میں یہاں قتل کر دیا جائوں گا ۔حضرت ابو طالب ـ اپنے بیٹے کے اس سوال سے نہایت متاثر ہو ئے او ر فرمایا بیٹا ـ ہم نے تمہیں اس شدید ابتلا کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ ۖ کا فدیہ بنا دیا ہے ۔
حضرت ابوطالب تاجرانہ حیثیت سے ایک قافلے کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہو نے لگے تو حضور ۖ کو اپنے ساتھ ہی ہمسفر رکھا ان کی جدائی گوارا نہ کی ،دوران سفر کے معجزات ،ابر کے ٹکڑے کا سایہ فگن ہو نا ،درخت کی ڈالیوں کاآپ پر جھکنا تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں عام ملتا ہے نصرانی راہب کا لات وعزی کی قسم دے کر حضور ۖ سے یہ کہنا کہ جو بات میں پوچھوں بتائے جائیں اور آپ کا یہ جواب دینا کہ ’’لات وعزی کی قسم دے کر مجھ سے کو ئی بات نہ پو چھ ،خدا کی قسم مجھے ان دونوں سے جتنا بغض ہے اور کسی چیز سے کبھی نہیں رہا‘‘
آپ ۖ کا یہ جواب سن کر وہ ششدر ہو کر رہ گیا پھر اس نے آپ کی پشت مبارک دیکھی دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا نشان اس مقا م پرموجود تھا، جہاں نصرانی راہب کی کتاب میں اُس کا تذکرہ مرقوم تھا ،نصرانی نے حضرت ابو طالب ـ سے دریافت کیا ،اس لڑکے کا آپ سے کارشتہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا میرا بیٹا ہے راہب نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا اس لڑکے کا باپ زندہ نہ ہو نا چاہیے ،حضرت ابو طالب نے فرمایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے نصرانی راہب نے کہا پھر اس کا باپ کہاں ہے ۔آپ نے جواب دیا کہ اُن کا انتقال ہو چکا ہے تب راہب نے کہا آپ نے سچ کہا اپنے اس بھتیجے کو لے کر اپنے شہر کو واپس جائو اور یہودسے اس کی حفاظت کرو ،اگر انہوں نے دیکھ لیا اور وہ سب کچھ جان لیا جو میں نے سمجھ لیا ہے تو وہ اسے ضرور نقصان پہنچائیں گے ۔حضرت ابو طالب ؓ تجارت سے فارغ ہو تے ہی جلد مکہ چلے آئے ۔
حضرت خدیجہ رضی الله عنہا حسب ونسب میں اعلیٰ ترین قریش تھیں ،مال ودولت کے لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہ تھا متمول اور خوشحال قبائل کے بیشتر افراد آپ سے نکاح کرنے کے خواہش مند تھے مگر آپ نے ہر کسی کی خواہش کو ٹھکرایا اور اپنی خاص سہیلی نفیسہ کی وساطت سے سرور کائنات ﷺسے اس کا اظہار کیا ، آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب ـ سے اس کا ذکر فرمایا تو آپ نے اسے منظور کیا چنانچہ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی اور وقت مقررہ پر حضرت ابو طالب ـ اور تمام روسا ء خاندان جن میں حضرت حمزہ بھی تھے ۔حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لا ئے حضرت ابو طالب ـ نے خطبہ نکاح پڑھا ،خطبہ کی ابتدا بسم الله کے بعد ان الفاظ سے ہو تی ہے : ”تمام تعریف اس خدائے بزرگ وبرترکے لیے سزوار ہے جس نے ہمیں ذریت ابراہیم اور اولاد اسماعیل ـ ونسل معد اور صلب مضر سے پیداکیا اور ہم کو اپنے بیت (کعبہ )کا محافظ اور اپنے حرم محترم کا نگہبان مقرر فرمایا ، ہمارے لیے ایک ایسا گھر قرار دیا جس کا خلق خدا حج کر تی ہے اور ایسی متبرک زمین عطا کی جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق امن پاتی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا ‘‘اما بعد میرا یہ بھتیجا محمد بن عبد اللہ جن کا اگر کسی بھی شخص سے مقابلہ اور موازنہ کیاجائے تو ازروئے فضل وکمال اور بہ اعتبار شرافت ودیانت یہی گرامی تر نکلے گا۔ یہ مالداراور دولت مندی میں اگرچہ کم ہے مگر مال ایک ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے اور متغیر و مبدل ہوجانے والا حال ہے ۔محمد ۖوہ شخص ہے جس کی قرابت جوکچھ مجھ سے ہے آپ لو گ اس کو خوب جانتے ہیں، اس نے خدیجہ بنے خویلد سے تزویج کا ارادہ کیا ہے ۔ اور اس طرح میں نے اپنے مال سے (خدیجہ ) کے مہر موجل (رقم مقررہ )اور صداق موجل (رقم ،مہر جو بروقت ادا کی جا ئے)ادا کر دیا ،میں خدا کی قسم سے کہتا ہوں کہ محمد ۖ دہ شخص ہے جس کے لیے کو ئی خبر عظیم اور اعلیٰ ترین منصب نصیب ہونے والا ہے ۔
حضرت ابو طالب کے اس خطبے کو با ربار پڑھیے اور ایک ایک جُملہ پر غور فرمائیے کہ آپ کا ایمان بالتوحید والرسالت کس طرح ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے آبا ء واجداد کے ایمان پر بھی کس انداز سے فخر ومباہات فرما رہے ہیں اور اپنے مال سے حق مہر کی ادائیگی کر رہے ہیں سچ ہے کہ حضرت عبد المطلب کویقین کامل تھا کہ میرا یہ بیٹا ابو طالب موحد ہے اسی لیے دنیا سے رخصت ہو تے وقت حضور ۖکو کسی اور بیٹے کی نگرانی میںنہ دیا۔آقائے نامدار علیہ الصلوة والسلام پر نزول وحی ‘اِقْرَا بِاسِمِ رَبّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ‘کی آیت مبارکہ سے ہوا تو اس کا ذکر حضور ۖ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجة الکبریٰ سے فرمایا ۔حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی اس وقت آپ کے پاس ہی رہتے تھے،آپ نےجب قریش پر انکشاف کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی ہوں تو اعلان نبوت پر قریش میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں جو کو ئی ایک دوسرے سے ملتا ہے یہی کہتا ہوا نظر آتا کہ کچھ سنا ابو طالب ـ کا بھتیجا محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے یہ خبر پورے مکہ اور اس کے گردو نواح کی آبادیوں میں پھیل گئی ہر طرف سے تعجب کا اظہار ہو نے لگا کہ محمد ۖ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور وہ اس امر کی تلقین کر تا ہے کہ کہو ‘لا الہ الا اللہ ‘اعلان نبوت کے بعد حضرت ابو طالب نے جب دیکھا کہ قریش، حضور نبی کریم ۖ کی مخالفت پر تُل گئے ہیں تو آپ نے قریش پر جس جذبہ اور شجاعانہ انداز سے اپنے خاندان کی عظمت ایمان بالتوحید اور رسول اللہ ۖ کی حفاظت و نصرت کیلئے جان کی قربانی تک کی پروا نہ کرنے کا عرب کے ملکی رواج کے مطابق اشعار میں چیلنج فرمایا ۔تقریبا ًایک سو اشعار پر مشتمل یہ قصیدہ سیرة ابن ہشام میں ”ابو طالب کا مشہور قصیدہ ‘‘کے عنوان سے موجود ہے۔ اسے قصیدہ اس لیے کہاگیا کہ اس میں اپنے خاندان کی عظمت و برتری کے ساتھ سر و ر کائنات ۖﷺکے فضائل ومحاسن بھی شامل ہیں ۔حضرت ابو طالب ـ کی نبی کریم ﷺ ۖکی حفاظت و نصرت اور حمایت وتائید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ۔لہٰذا حضرت ابو طالب اعلان نبوت سے ہی آپ ۖ کے اس مقدس مشن میں برابر کے شریک تھے ۔
حضرت ابو طالب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی ﷺسے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجہ مکرمہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنھا اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ۔ اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے حضرت علی رضی الله عنہ کی حوصلہ افزائی کی ۔انھوں نے اپنےبیٹے علی رضی الله عنہ کو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر رضی الله عنہ سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں۔
حضرت ابو طالب نے رسول خدا ﷺ کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ ﷺکی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ حتیٰ کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔آئیے حضرت ابو طالب کی قریش کے نام وصیت پڑھتے ہیں۔
جب حضرت ابو طالب کا آخری وقت ہوا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا:’’اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلیﷺ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ ﷺان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔
خدا کی قسم! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حتیٰ دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ ﷺکی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپﷺ کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپﷺ کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں … اے گروہ قریش! آپ ﷺ تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہٰذا آپﷺ کے لئے یار و یاور اور آپﷺ کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔
خدا کی قسم! جو بھی آپﷺ کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپﷺ کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خو ش بختی پائے گا؛ اور اگر میری اجل میں تاخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ ﷺ کو درپیش تمام مشکلات بدستورجان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اور مصائب کے سامنےآپﷺ کا تحفظ کرتا۔حضرت ابو طالب نے بنو ہاشم کو وصیت کرتے ہوئے کہا’’: اے جماعت بنی ہاشم حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ۔
مشہور عالم دین ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں پر حضرت ابو طالب کا حق واجب ہے۔ اور متعدد اسناد سے ابن عباس و دیگر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوطالب دنیاسے رخصت نہیں ہوئے حتیٰ کہ انھوں نے شہادتین زبان پر جاری کردیں اور ایک اور مقام پر کہتے ہیں: اگر ابو طالب نہ ہوتے تو اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور مزید کہتے ہیں کہ اگر ابو طالب اپنا ایمان آشکار کرتے تو قریش کے ہاں اپنی عزت اور سماجی حیثیت کھو بیٹھتے اور قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺاور اسلام کا دفاع و تحفظ کرنے کے قابل نہ رہتے۔
حضرت ابو طالب کے بارے میں یہاں چند حقائق درج ہیں، فیصلہ انہیں پڑھنے والےپر چھوڑ دیتے ہیں۔
اسلام سے پہلے آپ دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے چنانچہ آپ کی بت پرستی کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔
آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح پڑھایا تھا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا تھا۔ اللہ کا نام وہ لوگ استعمال کرتے تھے جو دینِ ابراہیمی پر عمل کرتے تھے۔
ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنھانے اسلام قبول کیا تو ان کا نکاح فسخ نہ ہوا جبکہ اگر کسی مشرک یا کافر کی زوجہ اسلام قبول کرتی تو اس کی شادی فسخ ہو جاتی۔
آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مسلمان ہونے پر کچھ نہ کہا حالانکہ وہ سن و سال میں چھوٹے تھے۔
آپ کے اشعار جو سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ کے علاوہ عربی ادب میں عموماً ملتے ہیں، آپ کے ایمان پر سند ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے عمومی اعلان کے بعد بھی حضرت ابو طالب کے دسترخوان پر کھانا کھاتے جبکہ کسی مشرک و کافر کے ساتھ نہ کھاتے۔
جس سال حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بنت خویلد کا انتقال ہوا، حضور ﷺ کو شدید دکھ ہوا اور انہوں نے اس سال کا نام عام الحزن (یعنی غم کا سال) رکھا۔
حضرت ابو طالب نے ہمیشہ حضور ﷺ کی حفاظت کی یہاں تک کہ ان کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں خصوصاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلاتے تاکہ قریش حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی۔
سیرت ابن ہشام و سیرت ابن اسحاق کے مطابق وفات کے وقت ایک صحابی نے کان لگا کر سنا تو حضور ﷺ کو کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی کلمات کہہ رہے ہیں جو اس سے قبل آپ ان کو کہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا تھا۔
حضرت ابوطالب رضی الله عنہ نہایت فصیح شاعر تھے اور انکے بے شمار اشعار تاریخ میں ملتے ہیں۔ ان کی ایک نعت بہت مشہور ہے جس کا ابن کثیر نے تذکرہ و تعریف کی ہے۔ یہ سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے اور تمام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح و ثنا میں ہیں۔ ایک شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے : میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں محمد ( ﷺ) کا سچا جانثار ہوں۔ اور انہیں اللہ کا سچا رسول مانتا ہوں۔ خدا نے انہیں دنیا کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔ کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ان کا معبود ایسا ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ان سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ ایسا ممتاز ہے کہ ہر بلندی اس کے آگے پست ہے۔ اور اس کی حفاظت کے لیے ہم نے اپنے سینوں کو سپر بنا لیا ہے۔ خدا اس کو اپنی حمایت و حفاظت میں رکھے اور اس کے نہ مٹنے والے دین کو دنیا پر غالب کر دے۔
تاریخ ابوالفداء میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ مثلاً: بخدا کفارِ قریش اپنی جماعت سمیت تم (ﷺ) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں زمین میں دفن نہ ہوجاؤں۔ اے محمد (ﷺ) تم کو جو خدا کا حکم ہے اس کا بے خوف اعلان کرو۔ اے محمد (ﷺ) تم نے مجھ کو اللہ کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے تمہاری صداقت و امامت کا محکم یقین ہے اور تمہارا دین تمام مذاہبِ عالم سے بہتر اور ان کے مقابلے میں کامل تر ہے۔سیرت ابن ہشام میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔
علامہ امینیؓ نے اپنی مشہور کتاب الغدیر کی آٹھویں جلد می مندرجہ ذیل کتابوں سے جمع کر کے یہ ذخیرہ کیا ہے – تاریخ ابن کثیر، فتح الباری،بلوغ العرب،تاریخ ابو الفدا، سیرة النبوی، شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید وغیرہ۔
اس کتاب سے کچھ اشعار یہاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
’’قسم خدا کی (اے میرے بھتیجے) یہ کفّار تم تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میری پشت میری قبر کی مٹی سے نہ جا ملے اور مجھ کو زمین میں دفن نہیں کردیا جاے۔
پس تم اپنے کام کو مکمل کرو اور کسی کا خوف نہ رکھو۔ اپنی تبلیغ سے لوگوں کو بشارت دیتے رہو اور اس کے ذریعے سے آنکھوں کو سرور اور ٹھنڈک پہنچاتے رہو۔
تم نے مجھے (اسلام کی)دعوت دی جس کی میں تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم میری خیر چاہنے والے امین اور ناصح ہو۔
میں بخوبی جانتا ہوں کہ جتنے بھی دین انسانوں میں موجود ہیں ان سب سے بہتر دین- محمّدؐ کا دین ہے۔
(اے قریش!) کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ ہم نے محمد ﷺ کو ویسا ہی نبی پایا ہے جیسے نبی موسیٰ تھے، اور ان کا بھی ذکر گزشتہ کتابوں میں موجود ہے۔
اور یہ کہ ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ہے اور یہ محبت ہونا بھی چاہیے کیوں کہ الله نے ان کو اپنی محبّت کے لیے چن لیا ہے۔ ‘‘
ایک کتاب’ دیوانِ ابوطالب‘کے نام سے اردو زبان میں بھی موجود ہے جس کو ڈاکٹر محمد التونجی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے یہ شعر بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
’’ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ ہی رسول برحق ہیں،جسے خدا وند عالم نے مبعوث بہ رسالت فرمایا ہے اور اس عزت والے خدا نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے۔
اسی طرح دیگر مشہور کتابوں میں ان اشعار کا ذکر ہے۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ابن عرفطہ سے نقل کیا ہے:
مکہ میں قحط پڑا،قریش نے ابوطالب سے کہا کہ وادیاں سوکھ گئی ہیں ،ہم روٹی روٹی کو محتاج ہوگئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ آیئے تاکہ دعا کریں ۔ ابوطالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لئے ہوئے باہر آئے جو سورج کی طرح درخشاں تھا ۔ آپ کے گرد کئی بچے تھے، ابوطالب نے اس بچے کو گود میں لے کراس کی پیٹھ کعبہ سے چسپاں کردی ،بچے نے آپ کی انگلی تھا م لی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا کہیں پتہ نشان نہ تھا، اچانک اس قدر بارش ہوئی کہ تمام قرب وجوار اور وادیاں جل تھل ہوگئیں ۔
ایسے میں ابوطالبؑ نے یہ اشعار کہے:
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمالُ الیتامیٰ عصمة الارامل
یلوذبہ الہلاّک من آل ہاشم
فہم عندہ من نعمة فواضلِ
و میزان عدل لا یخیس شعیرةً
ووزان صدقٍ وزنہ غیر ہائلٍ
” وہ نورانی چہرہ جس کا واسطہ دے کر پانی طلب کیاجاتاہے ، وہ یتیموں کا فریادرس اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہے،بنی ہاشم کے فقراء اسی کی پناہ حاصل کرتے ہیں اوراسی کے پاس ناز و نعمت کے لئے زیادہ جاتے ہیں،وہ عدالت کی ایسی میزان ہے جس کا وزن ایک بال کے برابر بھی خطا نہیں کرتا اور اس کا وزن سچا وزن ہے جس میں جھوٹا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔
196