568

حیرتوں اور کیفیتوں بھرے روحانی سفر کی رو داد

مسرت قیوم
پیر 7 جون کا دھوپ بھرا گرم دن تھا ۔ جب ہمارا قافلہ المصطفے آئی ہسپتال لاہور سے حیرتوں اور کیفیتوں بھرے انوکھے روحانی سفر پر روانہ ہوا ۔ ہمارے قافلہ میں میرے علاوہ میو ہسپتال اور المصطفے آئی ہسپتال کے ایچ او ڈی ، صوفی مزاج پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری ، المصطفے کے کنٹری ڈائریکٹر تجمل گرمانی ، المصطفے آئی ہسپتال کی ایڈمن محترمہ نصرت سلیم ، المصطفے کے ڈائریکٹر میڈیا محمد نواز کھرل ، پی ٹی آئی کی راہنما سمیرا بتول ، معروف صحافی شعیب مرزا اور دوسرے افراد شامل تھے ۔ ہماری منزل دریائے چناب پر آباد گجرات شہر کا نواحی قصبہ کیرانوالہ تھی ۔ لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ گجرات پہنچ کر شاہین چوک فلائی اوور سے دائیں جانب ایک سڑک سرگردھا کی جانب روانہ ہوتی ہے ، جسے ڈنگہ روڈ کہا جاتا ہے ۔ سرسبز کھیتوں میں گھری اس سڑک پر پنتالیس منٹ کے سفر کے بعد قصبہ منگووال اڈہ سے ایک چھوٹی سڑک قریبی گاؤں کیرانوالہ سیداں پہنچ جاتی ہے ۔ فطرت کی آغوش میں آباد اس سادہ سے گاؤں کیرانوالہ پہنچے تو ایک جہان حیرت ہمارا منتظر تھا ۔ کیرانوالہ کی وجہ شہرت یہاں سنگ سفید سے تعمیر ہونے والی شاندار اور پُرشکوہ مسجد پاک وگھہ شریف ہے ۔ جسے دیکھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ ہو جاتی ہے ۔ فن تعمیر کی عظیم شاہکار یہ مسجد مستقبل قریب میں اسلامی دنیا کے عجائبات میں شامل ہو گی ۔ اس منفرد روحانی مرکز کی سحرانگیز فضا میں ہمارے میزبان اور اس تاریخی مسجد کے بانی صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ کے جانشیں صاحبزادہ احسن حفیظ اور ان کی ٹیم کی طرف سے دی گئی بریفنگ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مسجد پاک وگھہ شریف کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ ساڑھے تین سو سال پہلے معروف روحانی بزرگ حضرت میاں نور محمد چنابی کو اس جگہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ۔ اس مقدس و متبرک مقام کو زیارت گاہ کہا جاتا ہے اور یہاں زائرین نوافل ادا کر کے من کی مرادیں پاتے ہیں ۔ ہمیں بتایا گیا کہ میو ہسپتال کے سابق معروف آئی سرجن اور فری آئی کیمپوں کے ذریعے چار لاکھ سے زائد آنکھوں کے مفت آپریشن کرنے کا ریکارڈ بنانے والے معروف روحانی پیشوا صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ کو مدینہ منورہ میں روضہ رسول پر حاضری کے سعادت مآب لمحات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد پاک وگھہ شریف کو تعمیر کرنے کا حکم فرمایا اور جگہ کی نشاندہی بھی فرمائی ۔ اس تاریخی مسجد کا نام وگھہ شریف مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی میں نصف ایکڑ زمین ( چار کنال ) کو وگھہ کہا جاتا ہے اور اس مسجد کا احاطہ وگھہ پر مشتمل ہے ۔


اپنی زندگی میں کم و بیش ایک کروڑ افراد کو روحانی راستوں کا مسافر بنانے والے صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ نے اس مسجد کی تعمیر کا آغاز جمعہ 16 مارچ 2001 کو اپنے دست مبارک سے کیا ۔ ابتدا میں نقشہ ، تعمیراتی کام اور تعمیراتی سامان کے لئے دو معروف ماہرین ، نیشنل کالج آف آرٹس کے کامل خان ممتاز اور ماہر آثار قدیمہ شاہی قلعہ لاہور ملک مقصود احمد کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ لاہور ، کراچی ، اسلام آباد ، ملتان اور راولپنڈی سمیت ملک کے طول و عرض سے پتھروں کے ماہر ترین کاریگروں کو مسجد کی تعمیر کے لئے بلایا گیا لیکن آہستہ آہستہ سب افراد دور دراز گاؤں میں مسجد کی تعمیر کو ناقابل عمل منصوبہ قرار دے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن بلند عزم صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ اس اُجلے خواب کو تعبیر آشنا کرنے کے لئے اپنی لگن میں مگن رہے اور ان کے عزم و حوصلے نے مشکلات کی چٹانوں کو پاش پاش کر دیا ۔ اس باکمال انسان اور مرد باخدا نے مسجد کے ساتھ اپنا حجرہ بنایا اور خود ہی نقشہ بنایا اور اپنے حجرہ کی چٹائی پر بیٹھ کر مسجد کے لئے خطاطی ، سنگ تراشی اور نقاشی کے ایسے حیرت انگیز جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے ماہرین دنگ رہ گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر فرخ حفیظ کو ان تمام فنون پر روحانی راہنمائی میسر رہی ۔ اس عالی شان مسجد کے لئے سنگ مرمر پر قرآنی آیات ، احادیث رسول اور درود شریف اس طرح ابھارا گیا کہ اس منفرد خطاطی اور کشیدہ کاری کو حکومت پاکستان کے ادارے “ انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن “ نے شاندار قومی ورثہ قرار دیا ۔ پوری مسجد سفید سنگ مر مر سے تعمیر کی گئی ہے ۔ مسجد کے فرش ، دیواروں ، محرابوں ، گنبد اور چھتوں کے اندر اور اوپر قیمتی پتھروں کا جڑاؤ اور خطاطی کا کام اس طرح نفاست سے کیا گیا ہے کہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ پتھر نہیں موم پر کام کیا گیا ہے ۔ مستقبل میں عالم اسلام کا عظیم مرکز بننے کے روشن امکانات سے مالامال اس مسجد کی دیواروں ، محرابوں اور چھتوں پر آٹھ رسم الخط استعمال ہوئے ہیں ۔ مسجد میں استعمال ہونے والا سفید سنگ مر مر خیبر پختونخواہ کی مہمند ایجنسی سے ٹرکوں کے ذریعے مسجد پاک وگھہ شریف لایا جاتا ہے اور یہاں پر قائم کی گئی فیکٹری میں پتھروں کی تراش خراش اور پالش کا کام کیا جاتا ہے ۔ اس عظیم الشان مسجد کے بانی صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ نے ایک بار مسجد کے تعمیراتی کام کی مضبوطی کے لئے دریاؤں سے سنگریزے ( کنکر ) جمع کرنے کی اپیل کی تو چشم فلک نے دیکھا کہ تین ہزار افراد اس مرد درویش کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھروں سے جوق در جوق اور شوق در شوق نکل آئے اور مسلسل کئی ماہ کی محنت سے سنگریزوں کے اتنے ڈھیر لگا دیئے کہ پوری مسجد کی تعمیر میں بجری کی بجائے یہی مضبوط سنگریزے استعمال کئے گئے اور انہی قدرتی سنگریزوں کو پیس کر خاص طرح کا سیمنٹ بنایا گیا جو مسجد کے تعمیراتی کام میں اب تک استعمال ہو رہا ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس مسجد کی بنیاد کے لئے پانچ فٹ کھدائی کر کے زیر زمین کالے کیکر کے پائے دبائے گئے ۔ صدیوں پہلے عمارتوں کی بنیادوں کی مضبوطی کے لئے یہی طریقہ رائج تھا ۔ کیونکہ کالے کیکر کی لکڑی صدیوں میں بھی خراب نہیں ہوتی ۔ مسجد کے مرکزی محراب کے اوپر خط طغرل سے مماثل خط میں مسجد کا مقصد تعمیر لکھا گیا ہے جو سورت توبہ کی آیت نمبر 108 ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر پر ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک دس ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمیں مسجد کے آس پاس زنجیروں میں جکڑا اور تالوں میں بندھا کوئی چندے والا ڈبہ نظر نہیں آیا ۔ یہ شاید پہلی مسجد ہے جس کے لئے کبھی چندے کی اپیل نہیں کی گئی اور نہ کوئی فنڈ قائم کیا گیا ہے ۔ اس مسجد کے بانی صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ 2015 میں 59 برس کی عمر میں جمعہ کے بابرکت دن ہزاروں افراد کے بڑے اجتماع میں قصیدہ بردہ شریف سنتے ہوئے وصال فرما گئے ۔ ان کی زندگی میں مسجد کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا جبکہ حضرت پیر صاحب کے بعد ان کے بیٹے صاحبزادہ احسن حفیظ نے اس کام کو اپنے عظیم والد گرامی کی ہدایات کی روشنی میں جاری رکھا ۔ اس وقت مسجد وگھہ شریف کی تعمیر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ اس مسجد کے بانی صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ 25 نومبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے شعبہ امراض چشم سے اعلی ڈگریاں حاصل کیں اور سروسز ہسپتال لاہور اور میو ہسپتال لاہور سمیت دیگر ہسپتالوں میں شعبہ آئی میں کچھ عرصہ شاندار خدمات سرانجام دینے کے بعد سرکاری منصب سے استعفے دے کر خود کو غریب اور مستحق مریضوں کی آنکھوں کے مفت آپریشن کرنے کے لئے وقف کر دیا ۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ساڑھے چار لاکھ آنکھوں کے مفت آپریشن مکمل کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا ۔ اس وقت ڈاکٹر فرخ حفیظ کے قائم کردہ فلاحی ادارے فیضان ٹرسٹ کے زیراہتمام مسجد پاک وگھہ شریف اور ان کی مرکزی خانقاہ کدھر شریف کے علاوہ مختلف شہروں میں آنکھوں کے 30 ہسپتال وسائل سے محروم انسانوں کی بجھی آنکھوں کی روشنی بحال کرنے میں مصروف ہیں ۔ کاش ہمارے تمام روحانی آستانوں پر اسی طرح خیراتی ہسپتال بن جائیں تو کوئی غریب شخص علاج معالجے سے محروم نہیں رہے گا ۔ ہمارے پیران عظام کے لئے صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ کا کردار و عمل ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے ۔ مسجد پاک وگھہ شریف میں چار گھنٹے فیوض و برکات سمیٹنے کے بعد ہمارا قافلہ ضلع منڈی بہاؤالدین کے قصبہ کدھر شریف روانہ ہوا جہاں پر صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ کی آخری آرام گاہ مرجع خلائق ہے ۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے جب ہم عظیم روحانی درگاہ میاں صاحب ( کدھر شریف ) پہنچے اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد اس ولی کامل ( ڈاکٹر فرخ حفیظ ) کی مرقد مبارک پر فاتحہ خوانی کا شرف حاصل کیا جن کی عقیدت کی مقناطیسیت ہمیں اس دور آباد بستی میں کھینچ لائی ۔ یہاں پر ہمیں آنکھوں کا ہسپتال بھی دکھایا گیا جس میں آنکھوں کی بینائی بحال کرنے کا فلاحی مشن اخلاص کے ساتھ شب و روز جاری ہے ۔ رات گئے گھر واپس پہنچ کر سارے دن کی تھکن کے باوجود انوکھی طمانیت کا بادل دل میں اترتے محسوس کیا ۔ اس یادگار اور شاندار سفر کی خوبصورت یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں جگمگاتی اور ہماری روحوں کو مہکاتی رہے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں