138

یحییٰ خاں کے شب وروز


یحییٰ خاں ایک عجب انسان تھے۔ بیک وقت ان میں اتنی خوبیاں اور اتنی خامیاں تھیں کہ انسان غور کرے تو حیران رہ جا تا ہے۔سب سے پہلے ان کا ذکر اس حوالے سے سامنے آیا کہ وہ فوج کے ایسے چند جرنیلوں میں سے تھے جو انتہائی ایماندار سمجھے جاتے تھے اور رشوت یا لوٹ مار کا ان پر دور دور تک کوئی الزام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ایوب خان نے نئے دارالحکومت یعنی اسلام آباد پراجیکٹ کا انچارج بنایا اور کہا جا تا ہے کہ اتنے بڑے پراجیکٹ میں شاید ہی کسی جگہ پر کوئی کرپشن ہوئی ہولیکن دوسری طرف مشرقی پاکستان توڑنے سے لے کر ذاتی طور پر شراب نوشی ، بدکاری اور اپنے اقتدار کے لئے ہر شخص کو استعمال کرنا ، 90 ہزار سے زائد فوجی اور سویلین پاکستانیوں کو بھارت کے ہاتھوں قید کروانا اور اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہو رہی تھی تو بھی شراب میں ڈوبے رہنا اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جانا یحییٰ خان کے ایسے سیاہ کارنامے ہیں جو ان کے نام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر کی جنگ میں جب ایوب خان صدر تھے تو انہوں نے بڑی بہادری سے اپنے سیکٹر میں جنگ لڑی اور یہ بھی صحیح ہے کہ آج بھی ان کا بیٹا ایک معمولی سے گھر میں رہتا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے اور آخری حکمران تھے جنہوں نے تہران میں جاری ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سرعام پیشاب کر دیا کیونکہ انہوں نے بے تحاشا پی رکھی تھی ۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے اور نواب زادہ نصراللہ مرحوم جیسے سیاستدان ان انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے منصفانہ اورشفاف انتخابات قرار دیا کرتے تھے ۔ اور جیتنے والی پارٹی کے سر براہ شیخ مجیب الرحمن کا اعلان کر دیا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے لیکن یہ بھی درست ہے کہ بھٹو صاحب سے مل کر انہوں نے اسی وزیراعظم کو گرفتار کیا اور جیتی ہوئی پارٹی کے خلاف فوجی ایکشن کر دیا۔ جب ڈھا کہ میں جنرل اے اے کے نیازی نے جو ایسٹرن کمان کے انچارج تھے ہتھیار ڈال دیئے تھے تو یحییٰ خان قوم کو جھوٹی تسلی دے رہے تھے کہ شکست کی با تیں غلط ہیں اور ہماری جنگ جاری ہے ۔ اس مجموعہ اضداد شخصیت کے بارے میں میری ذاتی یادداشتیں بہت کم ہیں ۔ مجھے ان سے ذاتی ملاقات کا تو بھی کوئی موقع نہیں ملا البتہ صرف ایک بار جب وہ برسراقتدار آئے اور ڈیفنس ہال راولپنڈی میں طویل پر یس کا نفرنس کی تو میں دوسری قطار میں بیٹھا تھا اور پہلی صف میں مجھ سے آگے ’’جنگ ‘‘کے ایڈیٹر انچیف میرخلیل الرحمن مرحوم تھے ۔ میر صاحب نے بڑا مختصر اوربچاتلا سوال کیا تھا کہ جنرل صاحب! کوئی شخص ایک آدمی کوقتل کر دے تو اسے سزا ہوتی ہے کیا آپ انکوائری کروائیں گے کہ پورا ملک قتل کرنے والے سیاستدان کون کون سے ہیں اور ان کے خلاف کیا ایکشن لینا چاہئے ۔
سقوط ڈھا کہ ہوا تو اخبار والوں کی زبانیں کھل گئیں، اچا نک پتا چلا کہ جسے چند ہفتے تک جماعت اسلامی بھی نیا آئین لانے کی خبر میں سن کر’’ محافظ ملت ‘‘قرار دے رہی تھی وہ ایک دو نہیں بلکہ پوری 12 رانیوں کا چہیتا تھا۔ پھر ہمارے ’’آزاد‘‘ پریس نے ان 12 رانیوں کی تصاویر چھاپنی شروع کیں ۔ اس دور میں ملکہ ترنم نور جہاں کی ڈرنکس‘ لیتے ہوئے تین چار جرنیلوں میں تصویر نظر آئی۔ میڈم گانا سنا رہی تھیں اور یحییٰ خان اور ان کا ساتھی ٹولہ اٹھکیلیاکر رہا تھا۔ ان میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایڈوائزر میجر جنرل غلام عمر بھی نظر آتے ہیں جن کے ایک صاحبزادے اسد عمر تحر یک انصاف میں ہیں اور زبیر عمر نواز شریف کے ساتھی اور مشیر خصوصی ہیں ۔سب سے بڑی رانی کا نام اقلیم اختر رانی تھا اورجنہیں’’جزل رانی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ میں نے جب ان کی تصاویر پہلی مرتبہ دیکھیں تو مجھے حیرت ہوئی وہ کافی معمر اورفر بہ خاتون تھیں ۔ گجرات سے ان کا تعلق تھا میں نے جب اپنی حیرت رفع کرنے کے لئے کچھ سینئر فوجیوں اور سیاستدانوں سے پوچھا کہ صدر پاکستان کے عہدے پر ہونے کے باوجود کیا نہیں کوئی ڈھنگ کی عورت نہیں ملی توثقہ راویوں نے بتایا کہ ایک تو یحییٰ خان صاحب کوفر بہ خواتین پسند تھیں دوسرے ان کی دوستی بہت پرانی تھی شاید اس وقت اقلیم اختر عرف ’’جنرل رانی‘‘ سمارٹ ہوں لیکن اصل پس منظر پر روشنی ایک پرانے بیوروکریٹ نے ہی ڈالی جو بھی ایوان صدر میں رہا تھا۔ اس نے کہا جب سے میں جانتا ہوں جنرل رانی خود یحییٰخان کے دل کی رانی نہیں تھی بلکہ یحییٰ خان کے لئے’’ سہولت کار‘‘ تھیں ۔ ان کی بیٹی عروسہ عالم جرنلزم میں بھی آئیں اور ہمارے دوست زاہد ملک کے اخبار ’’پاکستان آبزورز‘‘ کی سپیشل کا رسپانڈنٹ بھی رہیں۔ مجھے ان کے ساتھ امریکہ، بھارت اور متعدد دوسرے ممالک میں اخبار نویسوں کے وفد میں ساتھ جانے کا اتفاق رہا ہے ۔ وہ بڑی ذہین اورسمجھدار خاتون ہیں اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے زیادہ ان کی فوجی حضرات سے سلام دعا ہے ۔ان کے صاحبزادے فخر عالم گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے بیٹے عدنان شاہد کے کلاس فیلو تھے اور دونوں انگریزی کی ڈرامیٹک سوسائی کے عہد یدار بھی تھے ۔ فخر عالم بعد میں ٹیلی ویژن کے گلوکار اور اینکر بنے اور بڑا نام کمایا۔ عروسہ عالم نے ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے سکھ وزیر اعلی کیپٹن امر سیندرسنگھ سے شادی کی اور مزید نام کمایا۔ چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلی تھے انہوں نے بتایا کہ عروسہ عالم کے کہنے پر پرویز مشرف نے ان کا خیال رکھنے کو کہا تھا۔ مسلمان کی شادی شرعا چونکہ سکھ یا ہندو سے نہیں ہوسکتی اس لئے آج کل عروسہ عالم کا تعلق کس مذہب سے ہے اس بارے میں مجھے کچھ معلومات نہیں ہیں کیونکہ شادی کے بعد میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی البتہ اسلام آباد کےکچھ دوستوں نے بتایا کہ اب وہ کم کم ہی پاکستان آتی ہیں ۔ شاید ان کے میاں صاحب نے انہیں دبئی میں کوئی رہائش گاہ تحفے میں دی ہے ۔اس اعتبار سے شاید وہ اپنی والدہ سے بھی زیادہ مشہور ہوئیں اور ان کی شہرت تادم تحریر قائم و دائم ہے ۔
یحییٰ خان کے بارے میں بڑے قصے مشہور ہوئے کچھ سچ کچھ جھوٹ ، پولیس کے ایک سابق سینئر افسر نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ یحییٰ خان صدر مملکت تھے کہ وہ اپنے قافلے کے ساتھ گجرات پہنچے جہاں ان کی قدیمی دوست اقلیم اختر رہائش پذیر تھیں لیکن جس سے یحییٰ خان صاحب ملنا چاہتے تھے اس کا بندوبست جنرل رانی نہ کرسکیں تھیں ۔یحییٰ خان خفا ہوئے اور پوچھا‘‘ وہ کہاں ہے؟ ‘‘اقلیم اختر رانی نے سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کا ایڈریس دیا۔ یحییٰ خان نے تختی کے ساتھ منع کیا کہ کوئی گاڑی ان کا پیچھا نہ کرے اور ڈرائیور سے کہا گوجرانوالہ چلو، ان کے منع کرنے کے باوجود ایک مسلح گاڑی کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے چلی تاہم گوجرانوالہ پولیس کو الرٹ کر دیا گیا کہ ذرا فاصلہ رکھ کر ان دو گاڑیوں کا پیچھا کر میں جو جی ٹی روڈ سے سیٹلائٹ ٹاؤن کو مڑ میں گی ۔ بالآخر یحییٰ خان کی گاڑی سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک گھر کے سامنے رکی اور صدر صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ اندر اطلاع کرے ۔ اس دوران میں خوف دامن گیر ہوا کہ سکیورٹی سٹاف بہت کم ہے ۔ لہذاپچھلی گاڑی سے لوگ اترے اور صدر صاحب کی گاڑی کا گھیراؤ کر لیا۔ صدر صاحب فل ٹن تھے ۔جس خاتون کے لئے دو آئے وہ باہر نکلنے کو تیار نہ تھی اس اثنا میں گجرات سے ان کا ذاتی سکیورٹی سٹاف بھی پانی گیا جو کچھ فاصلے پر خاموشی سے ان کا پیچھا کرتا رہا تھا۔ ان کے ذاتی خدمت گار نے دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ صدر صاحب نہ جانے ہوا میں کیا کشتی کر رہے تھے کہ ان کی بیلٹ کھل کر پتلون کمر سے نیچے آگئی تھی اور وہ نیم عریاں تھے لیکن مکمل طور پر ہوش وحواس سے عاری ہو چکے تھے۔ ایک کمبل ڈال کر انہیں لپیٹ دیا گیا اور سیٹ پر لٹادیا گیا۔ تب یہ قافلہ دوبارہ گجرات کی طرف روانہ ہوا جہاں صد ر صا حب عارضی طور پر ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں ۔ ان پر اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد کہانیاں چھینے گئیں تو ایک لسٹ بھی شائع ہوئی جوصرف ایک دن اور صرف ایک رات میں صدر صاحب کے ملاقاتیوں بالخصوص خواتین کے ناموں پر مشتمل تھی ، ایک سابق جرنیل جو یحییٰ خان کی کا مینہ میں تھے ان کی بیگم کا نام بھی ایک ہی دن میں ایوان صدر میں چار دفعہ آنے اور چار ہی دفعہ جانے کا اس فہرست میں شامل تھا۔ وہ سابق فوجی جرنیل بڑے باعزت آدمی تھے اس لئے ان کی بیگم صاحبہ کے جو خود معمر تھیں ایک ایک دن میں کئی کئی چکر لگانے پر بڑی حیرت ہوتی ۔ بعد ازاں کسی نے روشنی ڈالی کہ وہی جرنیل جو یحییٰ خان کی کابینہ میں وفاقی وزیربھی تھے کی بیگم ہیں در اصل صدیحیی ٰکے سہولت کاروں میں شامل تھی اور نئے نئے’’ مہمان ‘‘لے کر ایوان صدر جایا کرتی تھی ۔
خدا کی شان دیکھئے کہ پاکستان توڑنے کے اس مجرم کو حفاظتی نظر بندی میں لیا گیا اور ایبٹ آباد کے ایک گھر میں بند کر دیا گیا تو ان کے بیٹے نے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ کی کہ میرے والد کا کیا قصور ہے اور ان کو کس جرم میں پکڑا گیا ہے ۔ غالبا ًجناب ایس ایم ظفران کے وکیل تھے ۔حکومت نے جواب دیا کہ انہیں حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے کیونکہ لوگ اس قدر غصے میں ہیں کہ ڈر ہے کہ ان پر حملہ نہ کر دیں اور انہیں جان سے نہ ماردیں ۔ یحییٰ خان کے بعض ہمدردوں نے کوشش بھی کی کہ انہیں رہا کر دیا جائے لیکن اس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور عبوری آئین کے تحت صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو نہ مانے ۔ لاہور کے معروف وکیل جو مسلسل ہر مسئلے پر رٹ کرنے میں مشہور تھے اور جن کا نام ایم ڈی طاہر تھا نے بھی ان کی رہائی کیلئے رٹ دائر کی جس کے سلسلے میں انہیں اپنے موکل سے ملنے کی اجازت بھی دی گئی۔ تاہم یہ رٹ بھی بے نتیجہ رہی البتہ یہ افوا ہ ضرور پھیلی کہ یحییٰ خان کو اس لیے رہا نہیں کیا جا تا کہ وہ ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں جس سے خود بھٹو صاحب کے بارے میں بعض الزامات سامنے آنے کا خدشہ تھا۔یحیی ٰخان کو 1979 ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں گورنر سرحد جنرل فضل حق نے رہا کیا اور 1980 ء میں وہ گوشی شینی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے بیٹے علی یحییٰ خان عام سی زندگی بسر کر رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مالی طور پر ان کا دامن صاف تھا۔
حمود الرحمان کمیشن رپورٹ شروع میں تو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن جب شائع ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہ صرف فوجی شکست کا حصار کرتی ہے اور سیاستدانوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اس میں کوئی ذکر نہیں حالانکہ سقوط ڈھا کہ فوجی ہی نہیں بلکہ سیاسی شکست بھی تھی ۔ عجیب اتفاق ہے جسٹس حمود الرحمان کمیشن میں سقوط ڈھا کہ کے جن ذمہ داروں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ بعد ازاں بدقسمتی سے ان کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاسکی۔
اکلیم اختر عرف جنرل رانی ہی وہ خاتون ہے جس نے ملکہ ترنم نور جہاں کو یحییٰ خان سے ملوایا۔ رانی نے اس کی روداد کچھ لوگوں سے بیان کی ۔ ایک انگریزی اور ایک اردو کا مضمون اس روداد پر مبنی ہے ۔ اکلیم اختر کا کہنا ہے کہ میرا جنرل یحییٰ خان سے کوئی قریبی تعلق نہیں تھا۔ میرے شوہر ایک سخت گیر پولیس افسر تھے مجھ پر یہاں تک پابند یاں تھیں کہ مری کی مال روڈ پر اپنے شوہر کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے اپنے برقعے کا نقاب اٹھایا کیونکہ دھند کے باعث نظر نہیں آ رہا تھا کہ ساتھ چلتے ہوئے میرے شوہر نے برقعے کے نیچے سے ہاتھ لمبا کر کے مجھے گردن سے پکڑ لیا اور جھٹکے دیئے۔ میں نے کہا کہ نظر نہیں آتا اس نے کہا که نقاب گرائو اور گنتی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا کچھ عرصہ بعد اس نے مجھے طلاق دے دی میرے چھ بچے تھے۔ کلیم اختر نے خود تسلیم کیا کہ میں نے’’ سہولت کاری‘‘ کا پیشہ اختیار کیا اور میں پنڈی کلب میں کسی تگڑے گا ہگ کی تلاش میں تھی کہ مجھےیحییٰخان نظر آئے۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ انہوں نے بھی ہاتھ ہلایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میری میز پر آگئے ۔ ان دنوں وہ کھاریاں میں میجر جنرل تھے ۔ ہماری ملاقاتیں ہونے لگیں اور میں سہولت کاری کرتی رہی۔ ایک رات کوئی معمولی ہی گانے والی گانے کا ستیا ناس کر رہی تھی کہ میں نے ملکہ ترنم کا ذکر چھیڑا ان دنوں نور جہاں کا یہ گانا بہت مشہور تھا۔
میری چچی دا چھلا ماہی لاہ لیا
گھر جا کے شکایت لاواں گی
جزل صاحب نے حکم دیا اور تھوڑی دیر بعد ملٹری سیکرٹری اس گانے کی کیسٹ لے کر آیا اسے چلا کر بار بار سنا گیا اور خوب ہلہ گلہ رہا۔ جنر ل یحییٰ صاحب نے کہا اس گانے والی نور جہاں کا تو بڑا نام ہے اس سے ملاقات کراؤ۔ میں نے وعدہ کر لیا اور اگلے ہی دن جہاز سے لاہور پہنچی ۔ میں نور جہاں سے زیادہ واقف نہ تھی اور اس کی بھی مجھ سے پہلے کوئی ملاقات نہ تھی البتہ نامور عورتوں میں میرا نام یحییٰ خان کی دوست کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔ ان دنوں لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ایک سوٹ جو دو کمروں پر مشتمل تھا ہم لوگوں کیلئے مخصوص رہتا تھا۔ میں ہوٹل پہنچی اور وہاں سے نور جہاں کو فون

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں