205

سپین میں گزرے چند دن


اشتیاق گھمن
ہسپانیہ کے سینے میں ہماری تاریخِ عروج و زوال دفن ہے۔ یہاں ساتویں صدی کے اوائل سے چودہویں صدی کے اواخر تک اسلامی فتوحات، ایجادات، تہذیب کے احیا اور بالآخر پسپائی کا دور رہا ہے۔ طارق بن زیاد کے قافلے نے جہاں پہلا پڑاؤ ڈالا، الحمرا جیسے آباد ہوا اور اندلس و غرناطہ جیسے بسے، یہ سب ہماری تاریخ ہے اور اس تاریخ کے آثار مسافر کو اب بھی سفرِ سپین کے دوران مل جاتے ہیں، لیکن میں نے اپنے حالیہ سفر کے دوران ان حصوں کو نہیں دیکھا کہ جو یادِ ماضی کو آواز دے سکیں کہ جن سے میرا دل بھی حضرت اقبال کی طرح سی پارہ ہو جائے۔ میں لندن سے نکلا اور دو گھنٹوں کے ہوائی سفر کے بعد سپین کے شمال میں واقع شہر جیرونا (Girona) پہنچا۔ جیرونا ایک لاکھ کی آبادی والا اور بارسلونا سے سو کلومیٹر کی دُوری پر واقع تاریخی شہر ہے۔ اس شہر میں مجھے تین چیزیں دیکھنا تھیں: آئفل پُل، دیوارِ جیرونا اور وہ جگہ کہ جہاں مشہور فلم گیم آف تھرونز کی چھٹی قسط کی شُوٹنگ ہوئی تھی۔ دو مقامات تو واقعی بہت اچھے تھے یعنی جیسے سنے ویسے پائے، لیکن پُل کے متعلق مبالغہ زیادہ تھا یا پھر یار لوگوں نے زیبِ داستاں کے لیے زیادہ بڑھا لیا تھا، بہرحال پُل کو دیکھ کر ایک طرح کی مایوسی ہوئی۔ مظفر آباد میں جہاں دریائے نیلم و جہلم ملتے ہیں اس جگہ کو دومیل کہا جاتا ہے۔ جیرونا میں جہاں چار دریا ملتے ہیں وہاں آئفل ٹاور بنانے والے گُستیو آئفل (Gustave Eiffel) نے 1876 کو پہلے یہ آئفل پل اسی تکنیکی مہارت سے بنایا تھا کہ جو تکنیک اس نے بعد میں آئفل ٹاور بنانے میں استعمال کی۔ دیوارِ چین کی طرح اندرونِ جیرونا کے گرد بنی حفاظتی دیوار اب بھی اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھے ہوئے تھی۔ لاہور کے بھاٹی و موچی دروازوں کی طرح یہاں صدیوں پرانے لکڑی کے دروازے اب بھی موجود تھے۔ اداروں نے جو جو حصہ محفوظ ہو سکتا تھا اسے پوری کوشش کر کے بچانے اور عوام کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بارسلونا کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہزاروں سیاح روزانہ اس چھوٹے سے شہر کو دیکھنے آتے ہیں۔
ہالی وُڈ فلم گیم آف تھرونز کی شُوٹنگ نے اس شہر کی سیاحت کو بامِ عروج بخش دیا ہے۔ 2015 میں ہونے والی وہ شُوٹنگ یہاں جیرونا کے تاریخی چرچ کی لمبی اور چوڑی سیڑھیوں پر ہوئی تھی۔ شوُٹنگ کی اس لوکیشن کو دیکھنے کے لیےسالانہ لاکھوں لوگ اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ دو ہزار سال پرانا جیرونا جیرونا شہر ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا انتظام ایسا کہ لندن والوں کو بھی حیرانی ہو۔ سکون اور سکوت یکجا، زندگی رواں مگر ٹھہراو میں، لوگ مصروف مگر ملنسار و ہنس مکھ۔ میں نے ایک بھرپور دن یہاں گزارا۔ اگلے دن میں لورٹ (Lloret De Mar) گیا۔ عین سمندر کنارے واقع یہ چھوٹا سا ٹاون جیرونا سے چالیس کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ ساحل صاف ستھرا اور آباد ہے۔ تیراک یہاں سمندر میں نہا رہے تھے، فطرت کے دلداہ شیشے کے فرش والی کشتیوں سے پانی کے نیچے بسی سمندری مخلوق کو دیکھ رہے تھے اور میری طرح کے محتاط ریت پر اپنے گھروندے بنا اور خود ہی گرا رہے تھے۔ یہاں کے بس اور ٹرین سٹیشنوں کے ٹوائلس تک بھی صاف ستھرے تھے۔ سیاحوں کی سہولت کے لیے جگہ جگہ کاؤنٹرز موجود تھے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی عمدہ اور آرام دہ تھا۔
میں نے اپنا ایک دن توسا (Tossa De Mar) میں بھی گزارا۔ پہاڑیوں میں گری یہ خوب صورت وادی حیرت کدہ ہے۔ لورٹ سے گیارہ کلومیٹر دور، نتھیا گلی کی طرح بل کھاتی سڑک، ایک طرف پہاڑیاں اور دوسری طرف گہرا سمندر، ایک جانب پرندوں کی آوازیں اور دوسری سمت موت کا سا سکوت۔ توسا کی طرف مجھے ایوا گارڈنر (Ava Gardner) کھینچ کر لائی تھی۔ حسن کی اس دیوی نے 1951 میں یہاں پینڈورا اینڈ دی فلائنگ ڈَچ مین (Pandora and the Flying Dutchman) نامی فلم میں بطورِ ہیروئن کام کیا تھا۔ گارڈنر کے توسا میں پاؤں کیا پڑے کہ اس مٹی کی قسمت ہی بدل گئی۔ ساحلِ سمندر پر واقع قلعے کے اندر اداکارہ کا قد آدم مجسمہ 1998 کو لگایا گیا۔ حسن پرستوں اور فن کے قدر دانوں کی ایک لمبی قطار ہے کہ جو اس مجسمے کے ساتھ تصاویر بنوانا چاہتے ہیں۔ اس قطار کے آخری سرے پر میں بھی کھڑا سوچ رہا ہوں کہ دو انگریزی فلموں نے سپین کے دو غیر معروف و غیر اہم شہروں کی قسمت بدل دی، لیکن ہم نے “جناح” میں کام کرنے والے کرِسٹو فرلی کو ڈریکولا قرار دے کر لاہور جیسے تاریخی شہر کا ستیاناس کر لیا۔ ہم صرف ترقی اور اچھی فکر کے نہیں، بلکہ اپنی تہذیب، فن اور کلچر کے بھی دشمن ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں