244

ایٹم بم کے محافظ – غلام اسحاق خان


پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان بنیادی طور پر ایک بیوروکریٹ تھے جنہیں جنرل ضیاء الحق سیاست میں لائے تاہم میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر بڑے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں نہ بیورو کریٹس والا غرور تھا اور نہ ہی کرپشن کی طرف ذرہ برابر رجحان ۔ وہ اول و آخر انتہائی ایماندار اور ذاتی زندگی میں سادہ مزاج اور کفائت شعار واقع ہوئے تھے۔ میرے ان سے تعلقات بڑے رسمی تھے لیکن کافی برسوں پر محیط رہے۔ میں انہیں بہت پسند کرتا تھا اور آخری چند برسوں میں میرے بہت عزیز دوست سنیٹر طارق چودھری صاحب کے حوالے سے مجھے ان کے بارے میں بہت معلومات تھیں۔ طارق چودھری برسوں تک ان کے بہت قریب رہے اور جب وحید کاکڑ فارمولے کے تحت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے استعفی دیا تو غلام اسحاق خان صاحب بھی مستعفی ہو گئے ۔ وہ انتہائی با اصول انسان تھے ۔ اتنے برس تک پہلے سینٹ کے چیئر مین اور بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد آئین کی رو سے وہ صدر مملکت بنے۔ دووزرائے اعظم کو انہوں نے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا۔ بینظیر بھٹو کو بھی کرپشن کے الزام میں نکالا اور نواز شریف صاحب کو بھی اسی الزام میں اقتدار سے الگ کیا۔ برس ہا برس اقتدار اعلیٰ پر فائز رہنے کے باوجود حکومت سے علیحدگی کے بعد وہ پشاور منتقل ہو گئے ۔ میں نے کئی بار طارق چودھری صاحب کے ساتھ پروگرام بنایا کہ ان سے طویل ملاقات کے لیے جاؤں مجھے ان کا پیغام ملاکہ اخبار کے لیے کوئی انٹرویو نہیں دونگا۔ میں نے وعدہ کیا کہ ساری ملاقات ہی آف دی ریکارڈ ہوگی۔ ان کا پیغام آیا کہ آپ جب چاہیں آجا ئیں بہتر ہوگا کہ اپنے دوست طارق چودھری کو ساتھ لیتے آئیں۔ انہی دنوں طارق چودھری امریکہ چلے گئے جہاں نیو یارک میں ان کے چھوٹے بھائی مشتاق چودھری ٹریول ایجنسی چلاتے تھے۔ ان دونوں کے بڑے بھائی یا سین چودھری کے نام سے پڑھنے والے واقف ہوں گے کہ سید مودودی کے انتقال کے بعد وہ امریکہ سے ان کی میت ایک پرائیویٹ چارٹر جہاز سے لاہور لائے تھے۔ ان کے چوتھے بھائی رفیق چودھری برسوں تک خبریں” میں میرے اسٹمنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کی رہائش بھی میرے گھر ہوتی تھی۔ وہ امتنان صاحب کے کمرے میں ان کے ساتھ رہتے تھے اور میرے بیٹے کو بہت پیار کرتے تھے۔

Islamabad, PAKISTAN: (FILES) File photo dated 20 August 1988 shows Pakistani president Ghulam Ishaq Khan during his first press conference in Islamabad after the death of military ruler General Mohammad Zia ul-Haq. Former Pakistani president Ghulam Ishaq Khan died 27 October 2006 after a protracted illness, his family said. “He was suffering from a lung infection,” his son-in-law, Anwar Saifullah, told AFP. Ishaq Khan took over as president after the death of Zia ul-Haq in a plane crash on August 17, 1988. He remained president until 1993. AFP PHOTO TARIQ AZIZ (Photo credit should read DIEGO ZAPATA/AFP via Getty Images)

غلام اسحاق خان اس وقت کے صوبہ سرحد (کے پی کے ) کے شہر بنوں میں 20 جنوری 1915ء کو پیدا ہوئے۔ پشاور یونیورسٹی سے بی اے کیا اور انڈین سول سروسز میں چلے گئے۔ 1947ء میں پاکستان کی حکومت میں شامل ہوئے ۔ صدر ایوب خان نے 1961ء میں انہیں واپڈا کا پہلا چیئر مین مقرر کیا اور منگلا اور وارسک ڈیمز انہی کی نگرانی میں بنے۔ 1966 ء سے 1970 تک وہ وفاقی حکومت میں سیکرٹری فنانس رہے۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سٹیٹ بنک کا گورنر مقرر کیا۔ 1975ء میں سیکرٹری دفاع بنے ۔ اس حیثیت میں خصوصی طور پر انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی عمر انی سونپی گئی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں وزیر خزانہ مقرر کیا ۔ 1985ء میں سینٹ کے چیئر مین بنے ۔ 17 اگست 1988 ء کو جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں چل بسے تو انہیں 13 دسمبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بنایا گیا۔ صدر کی حیثیت سے وہ معمر ترین انسان تھے۔ کراچی میں نسلی فسادات ہوئے تو وہ صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں جب انہوں نے اپوزیشن لیڈر نواز شریف پر الزام لگایا کہ صدر غلام اسحاق ان کی خفیہ طور پر مدد کر
رہے ہیں۔ صدر غلام اسحاق نے آٹھویں ترمیم کے تحت 20 ماہ کے اندر بینظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کی بنیاد پر بر طرف کر دیا ۔ نواز شریف 1990ء میں وزیر اعظم بنے تو غلام اسحاق خان نے ایک بار پھر انہیں وزیر اعظم بنے تین سال گزرے تھے کہ فارغ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس برطرفی کو ناجائز قرار دیا اور 1993 ء میں فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کا کرنے میاں نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان دونوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ غلام اسحاق خان نے ریٹائرمنٹ کے بعد ” جی آئی کے انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر نگ سائنسز کے ریکٹر کی حیثیت سے کام جاری رکھا۔ 2006ء میں انہیں نمونیہ ہو گیا اور وہ انتقال کر گئے۔ تاریخی حوالے سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے تاہم ان دنوں چونکہ صدر کے پاس 58 ٹوبی کے اختیارات ہوتے تھے لہذا ایک بار بینظیر بھٹو اور ایک بار میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی کو ختم کرنے کا الزام سیاسی حلقے ان پر عائد کرتے ہیں۔
غلام اسحاق خان کا تعلق بنگش پشتون خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان میں سے داماد انو رسیف اللہ خان وفاقی وزیر بنے ۔ جبکہ دوسرے داماد عرفان اللہ مروت تھے جو سندھ اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کی پوتی ایوب خان کے بیٹے عمر ایوب خان سے بیاہی گئی ۔ غلام اسحاق خان نے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا لیکن بعد ازاں پشاور یونیورسٹی میں چلے گئے ۔ وہ انتہائی ذہین طالب علم تھے۔ انہوں نے کیمسٹری اور باٹنی میں ڈبل بی ایس سی کی ۔ 1941ء میں سول سروس میں گئے۔ شروع میں صوبائی حکومت میں کام کیا۔ 1947ء کے بعد کچھ دیر آبپاشی کے صوبائی سیکرٹری بھی رہے۔ 1956ء میں غلام اسحاق خان سندھ کے ہوم سیکرٹری رہے۔ بعد ازاں 1958ء میں وفاقی حکومت میں چلے گئے اور زراعت کے سیکرٹری بنے ۔ ڈیفنس سیکرٹری کی حیثیت سے پاکستان کے ایٹمی منصوبے کی دیکھ بھال بھی انہی کے ذمے تھی ۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مکمل پشت پناہی کی اور بعد ازیں لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر جو منصوبے کے ملٹری ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے۔ سلام اسحاق خان نے اس منصوبے کے لیے بے تحا شا جد و جہد کی اور فنڈز کی فراہمی کو کن بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مستقل صدارت کے لیے الیکشن میں انہیں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ نے بھی ووٹ دیئے اور وہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی رضامندی سے صدر منتخب ہوئے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان کے تین تفصیلی انٹرویو کیے جب وہ واپڈا کے چیئر مین تھے اور میں نیا نیا صحافت میں آیا تھا۔ دوسرا انٹرویو جب وہ چیئر مین سینٹ تھے اور چنبہ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ انٹرویو بہت طویل تھا جو اڑھائی گھنٹے جاری رہا۔ تیسرا انٹرویو اس وقت کیا جب دو صدر مملکت اور بینظیر بھٹو وز یر اعظم تھیں۔ یہ انٹر ویو ایوان صدر میں ہوا۔ صدارتی عشائیوں میں تین چار مرتبہ ان کی میز پر کھانے کے دوران گفتگو کا موقع ملا۔ تاہم ایسا برسوں میں ایک آدھ بار ہوتا تھا کیونکہ وہ انتہائی کفائت شعار تھے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کی صدارت کے دوران ایوان صدر کے کچن کے لیے روزانہ صرف پانچ کلو گوشت منگوایا جاتا تھا جبکہ میری معلومات کے مطابق ایسے متعد د صدر گزرے ہیں جن کے دور میں اڑھائی سے تین من گوشت صدارتی کچن کے لیے منگوایا جاتا رہا۔ انتہائی ضرورت کے وقت بھی وہ کم ہی کھانے پر لوگوں کو بلاتے تھے اور ون ڈش سے زیادہ کوئی چیز مہمانوں کو پیشنہیں کی جاتی تھی۔
صدر غلام اسحاق مرحوم کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے پورے کیریئر میں رشوت کا ایک الزام بھی ان پر نہیں لگا حالانکہ وہ انتہائی اہم مناصب پر فائز رہے۔ ایک اور اہم بات جو ان کے حوالے سے ذہن میں محفوظ ہے وہ ایٹمی پروگرام اور کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ کی یوں نگرانی کرتے تھے کہ آج بھی لاکھوں لوگوں کو یہ خبریں یاد ہوں گی کہ بینظیر بھٹو بطور وزیر اعظم کہوٹہ جانا چاہا لیکن انہیں انتہائی سختی سے روک دیا گیا۔ اس واقعہ کے پیچھے بھی صدر غلام اسحاق خان کا ہاتھ تھا کیونکہ خان صاحب بینظیر بھٹو کے بعض بیانات سے انتہائی محتاط ہو گئے تھے اور ان کے بارے میں یہ معلومات ملی تھیں کہ امریکی حکومت کے دباؤ پر وہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے حق میں تھیں۔ یونس حبیب کے مہران بنگ والے سکینڈل کے پیچھے بھی صدر کا ہاتھ بتایا جاتا ہے تاہم اس سکینڈل کا اصل ملبہ مرزا اسلم بیگ کے سر پر گرا جو اس وقت آرمی چیف تھے ۔ ہمارے دوست سابق صوبائی وزیر بلدیات آئی ایس آئی کے بر یگیڈیئر اور ”خبریں“ کے برسوں تک مستقل کالم نگار حامد سعید اختر نے سپریم کورٹ کے سامنے جو بیان دیا اس میں یہ ساری تفصیلات موجود ہیں جن کی اشاعت کورٹ نے مصلحتا روک دی تھیں ۔ صدر غلام اسحاق خان کو کسی حد تک یقین تھا کہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی وزارت عظمی ختم کرنا ایٹمی منصوبے کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بینظیر حکومت کے خلاف دراصل کرپشن اتنا بڑا سبب نہیں تھا جتنا بڑا سبب ایٹمی پروگرام کورول بیک کرنے کا امریکی حکومت سے کیا جانے والا وہ وعدہ ہے جس کا علم ایوان صدر کو ہو گیا تھا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس سے وابستہ ثبوت اور دستاویزات کبھی نہ کبھی ضرور سامنے آئیں گی۔ غلام اسحاق خان ساده مزاج کفائت شعار نام و نمود کی خواہش سے پاک انتہائی محبت وطن اور خوفناک حد تک کرپشن سے مبرا انسان تھے۔ اپنی پوری زندگی انہوں نے بڑی دیانتداری سے گزاری۔ ذوالفقار علی بھٹو سے ضیاء الحق تک ایٹمی منصوبے کے لیے سرمائے کی فراہمی کا کام انہیں سونپا گیا جسے خان صاحب نے بڑی محنت سے انجام دیا اور پورے پرا جیکٹ کی طرف اگر کسی غیر ملکی طاقت کی نیت پر انہیں شبہ ہوتا تو وہ ڈٹ کر اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور پاک فوج کی مدد سے ہمارے قومی اثاثوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا فریضہ اس طرح انجام دیتے کہ کانوں کان کسی کو اس کی خبر نہ ہو سکتی تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ میرے دوست بریگیڈیئر حامد سعید اختر اور دوسرے دوست سابق سینیٹر طارق چودھری اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے لکھ سکیں گے یا لکھواسکیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں