251

برصغیر میں خواتین کے وہ رسالے جنھوں نے تعلیمِ نسواں، پردے اور حقوق کی بات کی

وقار مصطفیٰ ,صحافی و محقق

ویں صدی کے شاعر میر تقی میر کی بیٹی بھی ’بیگم‘تخلص کے ساتھ شعر کہتی تھیں ۔مگر میر نے اس دور کے شاعروں کے حالات اور کلام پر مبنی اپنی کتاب ’تذکرہ نکات الشعرا‘ میں اپنی شاعر بیٹی کا ذکر محض اس لیے نہ کیا کہ عورتوں کے جذبات کو (خواہ وہ تخلیقی اور خیالی ہی کیوں نہ ہوں) بے نقاب کرنا سماج میں بُری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔‘
یہ بتاتے ہوئے ادب کے محقق مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں کہ ’دوسری طرف ہوس گیری کا یہ عالم ہے کہ حکیم فصیح الدین رنج نے جب 174 اردو شاعرات کا اوّلین تذکرہ ’بہارستانِ ناز‘ 1864میں لکھا تو اس میں اپنے زمانے کی شاعرہ مُنی بائی حجاب کا ذکر یوں کیا:’عمر میں ابھی انیسویں سال کی گرہ پڑی ہے۔ شاعری کے رستے میں قدم تو رکھا ہے مگر سنبھل کر چلیں، یہ منزل کڑی ہے۔ پہلے ہم گداختہ دلوں سے اپنا دل لگائیں۔ معشوقی کو بالائے طاق رکھیں، عاشق بن جائیں۔ آج کل کی شاعرات سے اب بھی بہتر ہیں۔ مشتری اور زہرہ کی ہم سر ہیں۔ پیمانۂ زندگی خوب بھر چکی ہیں، بس ایک ہم سے ہی ملاقات ہونا باقی ہے۔ یقین ہے کہ یہ آرزو بھر آئے گی، اگر سچی مشتاقی ہے۔‘

بیگ کے مطابق انگریزی عملداری میں 1864میں مدرسہ جات برائے خواتین اور عام سکول معرضِ وجود میں آئے۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے مسلم گھرانے اپنی لڑکیوں کو ان سکولوں میں داخلہ دلوانا کسرِ شان تصور کرتے۔ لڑکیوں کی کم سنی میں شادی بھی اس کی بڑی رکاوٹ تھی۔
ایسے سماجی ماحول میں، اردو اور ہندی زبانوں میں لکھنؤ سے پندرہ روزہ ’رفیق نسواں‘ خواتین کے رسالے کا پہلا تجربہ تھا۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں کہ مسیحی مشنری کے اس رسالے کی اشاعت کا آغاز پانچ مارچ 1884 کو ہوا۔ اس کے بانی پادری کریون تھے اور مسز ہیڈلی اس کی مدیر تھیں جنھوں نے لکھا کہ ’آپ اس پرچے کا کوئی مضمون اپنے گھر میں ان کو جو پڑھ نہیں سکتیں ہر روز سنایا کیجیے۔‘
اسی سال یکم اگست کو فرہنگ آصفیہ کے مؤلف مولوی سید احمد دہلوی نے ’اخبار النساء‘ دہلی سے شائع کیا۔ 350 کاپیوں کی تعداد میں ایک ماہ میں تین بار چھپنے والے اس رسالے میں ’عورتوں کی تعلیم، حیا اور شرافت‘ سے متعلق مضمون ہوتے۔ اخبار کے خلاف محاذ آرائی کے باوجود دہلوی نے رسالہ جاری رکھا مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔
پیسہ اخبار کے مدیر منشی محبوب عالم نے خواتین کی تعلیم کے لیے لاہور سے 1893 میں رسالہ ’شریف بیبیاں‘ جاری کیا۔
محقق ڈاکٹر تہمینہ عباس لکھتی ہیں کہ معاشرے کی عام ناراضی کی وجہ سے جلد ہی یہ رسالہ بھی بند ہو گیا۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے مطابق بیسویں صدی کے اوائل میں بھی ’کچھ خواتین اہل قلم فرضی ناموں سے یا مردانہ ناموں سے بھی لکھتی رہیں۔ کچھ نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے یا والد کے ساتھ اپنا رشتہ ظاہر کیا، مثلاً بنت نذر الباقر یا والدہ عبدالقادر نے اپنا اصل نام نہیں لکھا۔
کچھ نے اپنے نام کا صرف مخفف ہی لکھا۔ زاہدہ خاتون شیروانیہ جیسی بے مثل شاعرہ بھی ز۔خ۔ش کے قلمی نام سے شاعری کرتی رہیں۔‘
شمس العلما مولوی سید ممتاز علی کے ادارے دارالاشاعت لاہور کا رسالہ’تہذیبِ نسواں لاہور‘ ہندوستان کا سب سے پہلا زنانہ ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سر ورق پر درج ہے۔
مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی اور ڈرامہ انار کلی کے مصنف امتیاز علی تاج کی والدہ محمدی بیگم کی ادارت میں اس
رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 کو منظر عام پر آیا۔ انھوں نے ’مشیر مادر‘ کے نام سے ایک اور رسالے کی ادارت کی۔
ڈاکٹر تہمینہ عباس کے مطابق ’تہذیب نسواں‘ خواتین کا پہلا ہفتہ وار میگزین تھا، مگر پہلا رسالہ نہیں۔ اس رسالے کا پہلاشمارہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا۔
القاسمی لکھتے ہیں کہ مولوی ممتاز علی حقوق نسواں کے علم بردار تھے۔ محمدی بیگم نے انھیں نسوانی بیڑے کا ناخدا کہا۔
مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا۔
ریختہ میں بیگم کے تعارف میں لکھا ہے کہ ’ایک میم ان کو انگریزی سکھاتی تھی۔ ایک ہندو خاتون انھیں ہندی پڑھاتی تھی۔ ایک لڑکا انھیں حساب سکھاتا تھا اور خود ممتاز علی انھیں ایک روز عربی اور ایک روز فارسی پڑھاتے تھے۔ یوں وہ عورتوں کے اخبار کی ادارت کے قابل ہو گئیں۔‘
اس رسالے کے خریدنے والوں کی تعداد شروع میں بہت حوصلہ شکن تھی۔تاہم ’تہذیب نسواں‘ کو جاری کرنے کے ارادے میں ممتاز علی مستحکم رہے اور برصغیر کے متوسط تعلیم یافتہ گھرانوں میں ’تہذیب نسواں‘ نے اپنی جگہ بنانا شروع کر دی۔
سنہ 1901 میں ’تہذیب نسواں‘ کو خریدنے والوں کی تعداد 345 تھی، 1902 میں 417 اور 1903 میں 428 ہو گئی۔ شدید مخالفت کے باوجود یہ رسالہ طویل عرصے تک شائع ہوتا رہا۔
مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘
یہ صرف ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس رسالے میں تعلیم نسواں، امور خانہ داری کے علاوہ، پردہ، کثرت ازدواج اور طلاق جیسے مسائل پر مضامین اور مباحثے شائع ہوتے تھے۔
خبروں کے علاوہ، اس میں خواتین کی تنظیموں کی تقاریر کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے نام بھی شامل تھے جنھوں نے بی اے، ایم اے یا دیگر ڈگریاں حاصل کیں۔
تہذیب کی بعد کی جلدوں میں معاصر سیاسی منظر نامے، پہلی جنگ عظیم کے واقعات، عدم تعاون پر مضامین بھی آنا شروع ہوئے۔
’سکول کی لڑکیاں‘نامی رسالہ اس وقت کے رائج دقیانوسی تصورات کا ایک پرجوش جواب تھا۔ مضمون ’حکومت کوئی ہوا نہیں‘ خواتین قارئین کو اپنا خوف دور کرتے ہوئے مسائل کی صورت میں حکومت پر تنقید کی ترغیب دیتا ہے۔
اس رسالے نے نذر سجاد حیدریلدرم، حجاب امتیاز علی، سلطانہ آصف فیضی، صغرا ہمایوں مرزا، ز خ ش سمیت بہت سی خواتین قلم کاروں کو جنم دیا۔
محمدی بیگم نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ اپنے اکلوتے بیٹے امیتاز علی تاج کے لیے ان کے بچپن میں تاج گیت (بچوں کی نظمیں) اور امتیاز پچیسی (کہانیاں) کے نام سے کتابیں لکھیں۔
انھوں نے تاج کے لیے لوریاں بھی لکھیں جو ’خواب راحت‘ نامی لوریوں کے مجموعے میں شامل ہوئیں۔
ان تمام امور کے ساتھ ساتھ، محمدی بیگم ممتاز علی کی پہلی بیوی کے دو بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتیں۔ انھوں نے لڑکیوں کے لیے سکول اور لاہور میں خواتین کے لیے دکان بھی کھولی جہاں خواتین ہی دکاندار اور خریدار تھیں۔
اتنی سخت محنت نے محمدی بیگم کو شدید بیمار کر دیا اور دو نومبر 1908 کو صرف 30 سال کی عمر میں ان کا شملہ میں انتقال ہو گیا۔ انھیں لاہور میں دفن کیا گیا۔
محمدی بیگم کے بعد سید ممتاز علی کی بیٹی وحیدہ بیگم اور پھر امتیاز علی تاج نے اس کی ادارت سنبھالی۔ آخری شمارہ 1949میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر صبیحہ ناہید کی تحقیق ہے کہ شروع کے ادوار میں خواتین کی صلاحیتوں سے بے اعتناعی برتی گئی لیکن خواجہ الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، راشد الخیری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو تعلیم نسواں سے جوڑنے والے شیخ عبد اللہ عرف پاپا میاں جیسے دور اندیش اور بالغ النظر شخصیات نے ان کے حالت زار پر توجہ دی۔
انھیں احساس تھا کہ ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر میں عورتوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ پاپا میاں، شیخ محمد عبد اللہ اور ان کی بیوی وحیدہ بیگم کی ادارت میں یکم جولائی 1898 کو ماہنامہ ’خاتون‘ کا علی گڑھ سے اجرا ہوا۔ اس میں تعلیم نسواں کی حمایت میں مضامین شائع ہوتے تھے اور اسی رسالے کی وجہ سے علی گڑھ میں مدرسہ نسواں کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں عبداللہ گرلز کالج کی شکل اختیار کر گیا۔
ماہنامہ ’خاتون‘ کے ایک اداریے میں لکھا گیا کہ ’ہم نے بڑے تعجب سے سنا ہے کہ علی گڑھ کے کسی مولوی نے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد رسالہ خاتون کی مخالفت میں ایک وعظ کہا اور دورانِ وعظ میں اس بات پر زور دیا کہ رسالہ خاتون عورتوں کے حقوق کی وکالت کرتا ہے یہ بالکل خلاف شرع شریف ہے۔‘
ماہنامہ ’خاتون‘ میں تعلیمی مسائل، نصاب، خواتین کو انگریزی پڑھانے کے فائدے اور نقصانات، بہتر نصابی کتب کی ضرورت، طالب علموں کی تازہ ہوا اور ورزش کی ضرورت (اونچی دیواروں کے پیچھے تاکہ پردے کو برقرار رکھا جا سکے) پر بحث کی گئی۔
’معلم نسواں‘نامی رسالہ حیدر آباد سے مولوی محب حسین کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔وہ حقوق نسواں کے علم بردار تھے ۔ انھوں نے یہ ماہوار رسالہ اس مقصد سے شائع کیا کہ ’مسلمان عورتوں کی موجودہ پست و ذلیل حالت میں ترقی ہو اور علم و تعلیم کی روشنی پھیلے۔‘
مولوی محب نے ’سخت اور غیر شرعی رواجی پردے‘ کی مخالفت میں مضامین شائع کیے۔ اسی رسالے میں اس نوع کے مصرعے بھی چھپتے تھے کہ ’حامیان پردہ داری مبتلائے جہل ہیں۔‘ اس مجلے میں ’پردے کی مضرتیں‘ کے عنوان سے مضامین شائع کیے۔
ایک جگہ پردے کے ایک حامی کی طرف سے ایک مزاحیہ تحریر میں نشاندہی کی گئی کہ خواتین اپنی عزت کے تحفظ کے لیے پردے میں قید ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ بدقسمت خواتین کو بند کر دیا جاتا ہے کیونکہ مرد بدتمیزی کر سکتے ہیں۔
مصنف نے پھر کہا کہ ’مرد پردہ کیوں نہیں کرتے؟‘
مولوی محب حسین کا خیال تھا کہ ’مسلمان عورتوں کی تعلیم میں پردہ ایک سخت سنگلاخ پہاڑ کی طرح حائل ہے جب تک اہل ملک اس فولادی کوہ کے کاٹنے کی طرف متوجہ (نہ) ہوں گے اس وقت تک مسلمان عورتیں صحت و تعلیم دونوں سے محروم رہیں گی اور پھر ان کے اثر سے قومی اخلاق، تہذیب و تمدن بھی درست نہ ہوں گے۔‘
مولوی محب حسین موجودہ پردے کو عورتوں کے لیے ایک قسم کا حبس دوام قرار دیتے تھے۔ان کی مخالفت میں کئی علما و فضلا کی دانشورانہ تحریریں شائع ہوئیں۔
حقانی القاسمی کا کہنا ہے کہ اس رسالے کو بھی بند کرنا پڑا۔ ’مگر مخالفتوں کے باوجود بہت سے خواتین کے رسائل تعلیم و ترقی نسواں کے لیے کوشاں رہے۔ ان ہی رسائل کا فیض ہے کہ عورتوں کے مکاتب قائم ہوئے، ان کی تعلیمی راہ کی مشکلات دور ہوئیں اور وہ مختلف اصناف ادب میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار بھی کرنے لگیں۔‘
مدیر شیخ محمد اکرام اور نائب مدیر ان کی اہلیہ تھیں۔ اس میں مرد اور خواتین دونوں کی تحریریں ہوتی تھیں۔ مہرین قادر حسین کہتی ہیں کہ خواتین کو علم کی رغبت دلانے، ان کی تربیت کرنے اور ان کے اندر علمی و ادبی صلاحیتیں پیدا کرنے کی غرض سے علامہ راشد الخیری نے خواتین کے فرضی نام سے اس رسالے میں مضامین تحریر کیے۔
ماہنامہ عصمت کے اہم قلم کاروں میں راشد الخیری، رازق الخیری، محمد اکرام، بلقیس بیگم، عطیہ فیضی، حسن نظامی، اسمٰعیل میرٹھی، پریم چند، ایس آر بیگم، خورشید آرا بیگم، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، تلوک چند محروم، آمنہ نازلی، امام اکبر آبادی وغیرہ شامل تھے۔
ڈاکٹر نیلم فرزانہ کے مطابق رسالہ ‘عصمت’ میں خواتین کی افسانہ نگاری کا ابتدائی عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
لکھنو سے ’پردۂ عصمت‘ کے نام سے تاریخی ناول نگار مولانا عبد الحلیم شرر نے ایک رسالہ نکالا جس میں انھوں نے تعلیم نسواں کی حمایت اور غیر شرعی پردے کی سخت مخالفت کی۔دہلی سے 1908 میں مصور غم علامہ راشد الخیری نے ’ماہنامہ عصمت‘ کا اجرا کیا۔
مدیر شیخ محمد اکرام اور نائب مدیر ان کی اہلیہ تھیں۔اس میں مرد اور خواتین دونوں کی تحریریں ہوتی تھیں۔ مہرین قادر حسین کہتی ہیں کہ خواتین کو علم کی رغبت دلانے، ان کی تربیت کرنے اور ان کے اندر علمی و ادبی صلاحیتیں پیدا کرنے کی غرض سے علامہ راشد الخیری نے خواتین کے فرضی نام سے اس رسالے میں مضامین تحریر کیے۔
لکھنو سے ’پردۂ عصمت‘ کے نام سے تاریخی ناول نگار مولانا عبد الحلیم شرر نے ایک رسالہ نکالا جس میں انھوں نے تعلیم نسواں کی حمایت اور غیر شرعی پردے کی سخت مخالفت کی۔
اس رسالے کو بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مولوی صاحب مطعون اور معتوب بھی ہوئے۔
لاہور اور امرتسر سے شائع ہونے والا رسالہ ’سہیلی‘ خواتین میں بہت مقبول تھا۔سالگرہ نمبر کی 4500 اشاعت اس کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ اس رسالے میں خواتین کے پردہ اور تعلیم پر خاص زور تھا۔
تاہم ایڈیٹر نے امرتسر سے شائع ہونے والے ایک اور رسالے ’سہیلی‘ میں اپریل 1928 میں رواجی پردے کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس کی بدولت ہزاروں مائیں بہنیں ایسی ہوں گی جو علم جیسے قیمتی خزانے سے محروم ہوں اور سینکڑوں جانیں ایسی ہوں گی جو طرح طرح کے متعدد امراض کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر چکی ہوں۔
دق اور سل جیسے متعدد امراض نے آج جس سرعت سے بڑھنا شروع کیا ہے وہ اسی مقید زندگی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے۔‘
انھوں یہ بھی لکھا کہ ’میرا مدعا ہرگز نہیں کہ جسمانی صحت اور تعلیم کے لیے عصمت جیسی نایاب دولت کو قربان کر دیا جائے بلکہ پردے کے ناجائز استعمال سے عورتوں کے ان حقوق کی پامالی نہ کی جائے جو فطرت نے اس کو بخشی ہے۔‘
ڈاکٹر جمیل اختر نے ’اردو میں جرائدِ نسواں کی تاریخ ‘ میں لکھا ہے کہ آزادی سے قبل اردو میں خواتین کے تقریباً ایک سو رسائل و جرائد کا سراغ ملتا ہے اور آزادی کے بعد اب تک تقریباً ڈیڑھ سو اردو کے ایسے رسالے جاری ہوئے ہیں جو خواتین کے لیے ہیں۔ لیکن آزادی کے بعد انڈیا سے خواتین کے لیے صرف 40 کے قریب اردو رسالے نکلے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد ایک سو سے اوپر ہے۔ اس طرح کل تعداد 250 ہو جاتی ہے۔
حقانی القاسمی کہتے ہیں کہ ’اگر یہ رسائل نہ ہوتے تو خموشی کی زبان آوازوں میں تبدیل نہ ہوتی اور نہ ہی یہ اپنے زخموں کو زباں کر پاتی۔‘ خواتین کی صحافت کے بنیاد گزار بھی مرد ہی ہیں۔ مردوں ہی نے عورتوں کے خیالوں کو زمین اور خوابوں کو آسمان عطا کیا ہے اور ان کے حوصلوں کو نئی اڑان دی ہے۔‘
محقق حبا رحمٰن کا ماننا ہے کہ خواتین کے لیے میگزینز میں عام طور پر خواتین کی تعلیم پر مواد ہوتا تھا اور ان سماجی رسومات کی مذمت کی جاتی تھی جو خواتین کو محکوم رکھتی تھیں۔
اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ ’ان میں مثالی عورت کو ایک قابل بیوی، پرورش کرنے والی ماں کے طور پر پیش کیا گیا جو تعلیم یافتہ مگر مکمل پر گھریلو ہے اور متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ مردوں کی مددگار ہے۔ لیکن تب کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اشاعتیں ایک ایسے وقت میں خواتین کے کردار اور سماجی شعور کو فروغ دیتی ہیں جب ان پر سخت پابندیاں تھیں۔ ان رسالوں کا مواد اپنے وقت سے بہت آگے تھا اور آج بھی متعلقہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں