205

میرےبھائی میرے دوست… قاضی حسین احمد

ضیاشاہد
زمانہ طالب علمی ہی سے صحافی ہونے کے ناطے بے شمار سیاستدانوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا اور ساری زندگی کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے صف اول کے رہنماؤں سے میل ملاقات بھی رہی۔ میرے حالیہ سلسلہ ہائے مضامین یادوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کی یادداشتوں کا ذکر چھڑا ہے تو ان میں قاضی حسین احمد سرفہرست ہیں چونکہ ذاتی طور پر انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق وہ پہلی نظری میں مجھے اچھے لگے اور ان کی وفات تک میرے ان سے بہت خوشگوار تعلقات رہے۔ شاید یہ غلط نہیں نہ ہو کہ میری محبت یکطرفہ تھی قاضی صاحب بھی مجھ سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور دوستی سے کہیں بڑھ کر ہمارے تعلقات بھائیوں جیسے تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے خاص طور پر ان کے پہلے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی مجھ سے بہت سینئر تھے۔ علم تجر بہ عمر سماجی حیثیت کہ میں ان دنوں فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا۔ کبھی حیثیتوں میں وہ مجھ سے بہت سینئر تھے لہذا اگر چہ ان دنوں بھی اخبار نویس ہی کی حیثیت سے کہ میں راتوں کو اخبار میں کام کرتا تھا۔ مجھے ان سے بھی ملنے کا متعدد بار موقع ملا۔ موچی گیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کی تقریریں بھی سنیں ۔ یہ ان کی شفقت ہے کہ وہ مجھے نام سے جانتے تھے لیکن اس سے زیادہ میرا تعلق یا کوئی واسطہ ان کے ساتھ نہیں تھا۔
سید مودودی کے بعد میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے امیر بنے۔ ان سے بھی بے شمار ملاقاتیں ہوئیں تاہم وہ بھی مجھ سے عمر میں خاصے بڑے تھے اور میری گپ شپ ان کے بیٹے سے تھی کیونکہ جب ہم نے روزنامہ خبریں“ کے اجراء کے لئے لاہور میں وہ عمارت خریدی جوا روز نامہ جسارت کے لئے بنائی گئی تھی اور جو گنگا رام ہسپتال کے مزنگ روڈ والے گیٹ سے متصل ہے تو ” جسارت صرف کراچی سے شائع ہوتا تھالا ہور میں جہلم کی بنی ہوئی دو یونٹ کی چھوٹی سی ویب مشین پیمنٹ میں نصب تھی لیکن اس پر صرف چار صفحات چھپ سکتے تھے ۔ اس ویب مشین کے ساتھ ایک چھوٹی شیٹ فیڈ پرنٹنگ مشین بھی تھی جو میاں طفیل محمد کے صاحبزادے محسن فاروق کمرشل پر نٹنگ کے لئے چلاتے تھے۔ ہم نے چونکہ ” جسارت کی یہ بلڈنگ قسطوں پر جماعت اسلامی سے لی تھی اور لیاقت بلوچ، چودھری رحمت الہی سے معاہدہ کیا تھا کہ کچھ رقم پیشگی دے کر ہمیں پہلا فلور مل جائے لہذا ہم چھ یونٹ کی ویب روٹری خلیج ٹائمنٹ دبئی سے خرید کر لائے تھے اور چھ ماہ تک میاں طفیل صاحب کے صاحبزادے محسن فاروق سیمنٹ اور گراؤنڈ فلور پر اپنا پریس چلاتے تھے اور ہم فرسٹ فلور پر ”خبریں“ کا فرنیچر کمپیوٹر اور دیگر آلات نصب کروا ر ہے تھے۔ مجھے بہت مرتبہ میاں طفیل محمد صاحب کے گھر جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ تا ہم وہ بہت سنجیدہ اور کسی حد تک روکھے مزاج کے انسان تھے البتہ ان کے بعد قاضی حسین احمد امیر بنے جو پہلے سیکرٹری جنرل رہے تھے تو میرے ذاتی تعلقات برسوں نہیں مہینوں بلکہ ہفتوں میں قاضی سے یوں استوار ہوئے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ صحافتی مصروفیات تو ایک طرف رہیں قاضی حسین احمد لاہور میں ہوتے تو ہمیشہ ٹیلی فون پر اتوار کو منصورہ آنے کی دعوت دیتے اور برسوں تک اگر وہ اتوار کے دن لاہور میں ہوتے تو میں صبح 10 اور 11 بجے کے درمیان ان کے گھر کے بالتقابل بنے ہوئے گیسٹ ہاؤس (دار الضیافہ ) میں ان سے گپ شپ کے لئے ضرور جاتا۔ قاضی صاحب سے میری بے تکلفی تھی اور سیاست ہی نہیں ادب صحافت زمانہ طالب علمی کی باتیں دنیا بھر کے موضوعات پر گفت و شنید ہی نہیں لطیفے بازی تک بات چلتی تھی۔ ان کا علمی ذوق بہت عمدہ تھا۔ اقبال کے اشعار وہ اتنی روانی سے سناتے تھے کہ حیرت ہوتی حتی کہ دو چار اشعار نہیں پوری پوری نظمیں انہیں زبانی یاد تھیں۔ مسلمان ممالک کے حالات سے لے کر اسلامی دنیا کے معروف سکالرز سے ان کی ملاقاتیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلم ممالک کے سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ ان کے مزاج میں شگفتگی بھی تھی اور وہ طبعاً ہنس مکھ خوش اخلاق اور مخاطب کے دل تک پہنچنے والی گفتگو کے بادشاہ تھے پاکستان کے سیاسی حالات ہوں بھارت کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا ممالک کے حوالے سے تجزئیے ان کا مشاہدہ بھی تیز تھا اور وہ مطالعہ بھی بہت کرتے تھے۔ دنیا کے کسی موضوع پر آپ ان سے گفتگو کا آغاز کر دیں تو حیرت ہوتی تھی کہ جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت کے امیر ہونے کے باوجود وہ مختلف علوم وفنون کے حوالے سے بڑی گہری معلومات رکھتے ہیں البتہ وہ اول و آخر بچے انسان اچھے مسلمان محب وطن پاکستانی اور امت مسلمہ کے لئے درد دل رکھنے والے شخص تھے۔ میں اکثر مسلم سربراہوں سے ان کی ملاقاتیں تفصیل سے کرید کرید کر پوچھتا تھا کیونکہ ان کی معلومات فرسٹ ہینڈ ہوا کرتی تھیں، جماعت اسلامی تو بڑی حد تک جدید تعلیم سے آراستہ لوگوں کی پارٹی ہے تاہم قاضی صاحب اس پارٹی میں نستبا سب سے زیادہ لبرل، فراخدل اور کھلے مزاج کے انسان تھے ، تعصب، تنگ نظری، کدورت سے کوسوں دور، ان کے مزاج میں بچوں کی سی معصومیت تھی اور ان کے اس پیار نے مجھے اپنا گرویدہ بنارکھا تھا۔ میرا دعویٰ ہے کہ میں نے ان سے ایسے موضوعات پر بھی گفتگو کی ہے جن کا تذکرہ بھی کسی رسی مولوی سے نہیں کیا جا سکتا ، لیکن قاضی صاحب ہرگز ہرگز مولوی نہیں تھے اور اگر جماعت کے بہت سے دوست بُرا نہ مانیں تو مجھے کبھی اس جماعت میں قاضی صاحب سے زیادہ زندہ دل ، خوش مزاج ، خوش گفتار، باشعور، ذہین، کشادہ دل اور اپنے مقصد کے لیئےبڑی سے بڑی قربانی دینے والا شاید اور کوئی شخص نظر نہیں آیا۔
قاضی صاحب کے بغیر منصورہ میرے لئے ادھورا اور ایک خشک جگہ ہے حالانکہ میرے دوستوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بڑی اہم پوسٹوں پر موجود ہے۔ لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، امیر العظیم، حافظ محمد ادرلیس، عبدالغفار عزیز اور بہت سے لوگ مجھے پسند ہیں اور میں ان کو بہت عزیز رکھتا ہوں ۔ مگر میری دوستی بھائی چارہ اور پیار زندگی بھر صرف اور صرف قاضی صاحب کے لئے مخصوص رہا۔ سردیوں کے موسم میں ہم دار الضیافہ کے صحن میں پھیلی ہوئی دھوپ کا لطف اٹھاتے اور اتوار کی صبح سے نماز ظہر تک طویل نشست ہوتی ۔ بعض اوقات کچھ اور احباب بھی شامل ہو جاتے لیکن میں نے اکثر محسوس کیا کہ کسی تیسرے کی موجودگی میں ہم کچھ محتاط گفتگو پر مجبور ہو جاتے جبکہ قاضی صاحب میرے ایسے دوست تھے جن سے میں اور خود وہ بھی انتہائی صاف گوئی اور بے تکلفی سے گپ لڑا سکتے تھے۔ بھی اتوار کی ان ملاقاتوں میں قاضی صاحب کی اندرون ملک یا بیرون ملک مصروفیات کی وجہ سے زیادہ فاصلہ پیدا ہو جاتا تو پہل ہمیشہ ان کی طرف سے ہوا کرتی تھی اور وہ خود مجھے آگاہ کرتے کہ فلاں تاریخ کو میں لاہور میں ہوں گا اور ڈیڑھ دو گھنٹے نکال کر اتوار کے دن ضرور چکر لگائیے گا۔ قاضی صاحب نے انتہائی سادگی سے زندگی بسر کی لیکن اس سے پہلے کہ میں ان کے حوالے سے کچھ دلچسپ یادوں کو تازہ کروں آئیے ایک نظر قاضی صاحب کا بائیوڈیٹ دیکھ لیں۔ قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938 ء کو پیدا ہوئے جائے پیدائش نوشہرہ (کے پی کے) ہے ان کے گاؤں کا نام زیارت کا کا صاحب تھا۔ مولانا قاضی محمد عبد الرب کے بیٹے تھے ان کے والد جمعیت علمائے ہند سر حد صوبہ کے صدر بھی رہے۔ قاضی صاحب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمان اور مرحوم قاضی عطاء الرحمان بھی اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل رہے۔ 6 جنوری 2013ء کو اسلام آباد میں فوت ہوئے جب ان کی عمر 74 سال تھی۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے، ان کے بارے میں مقبول ترین نعرہ تھا۔17اکتوبر 1987ء کو امیر جماعت اسلامی کا منصب سنبھالا اور 29 مارچ 2009 ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ انہوں نے یہ عہد و میاں طفیل محمد کے بعد حاصل کیا تھا۔ ان کےبعد سید منور حسن امیر جماعت بنے۔
قاضی حسین احمد نے پشاور یونیورسٹی سے بی ایس سی اور ایم ایس سی کے امتحانات پاس کئے۔ قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی اسلامیہ کالج پشاور سے بی ایس سی کیا۔ پھر جامعہ پشاور سے جغرافیہ میں ماسٹر کیا۔ شروع میں جہاں زیب کالج سیدو شریف میں لیکچرار مقرر ہوئے اور 3 سال تک پڑھاتے رہے۔ پھر ملازمت چھوڑ کر پشاور میں کاروبار شروع کیا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے نائب صدر بھی رہے۔ 85ء میں 6 سال کے لئے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سینٹ کے رکن مقرر ہوئے۔ 92ء میں ایک بار پھر سنیٹر بن گئے ۔ 2002 ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے رکن منتخب ہوئے۔ شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد متحدہ مجلس عمل کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
قاضی صاحب نے 2007ء میں لال مسجد کے واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ قاضی صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ زندگی بھر وہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر کے رہائشی علاقے میں دو کمروں کے ایک سادہ سے گھر میں رہے۔ انہیں اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ انگریزی، عربی، اُردو اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ علامہ اقبال کے شیدائی تھے اور ان کا فارسی کلام تک قاضی صاحب کو ازبر تھا۔ ان کا بیٹا آصف لقمان ڈاکٹر اور ایک بیٹی سمیعہ راحیل قاضی اسمبلی کی رکن بھی رہی ہیں۔ اور مضمون نگار ہونے کے علاوہ ٹی وی ندا کروں میں بھی نقاب لے کر شرکت کرتی ہیں۔
میں قاضی صاحب کو اپنی برسوں کی دوستی اور بھائی چارے کی وجہ سے اتنے قریب سے جانتا ہوں کہ جب کوئی ان کے خلاف ذاتی الزام لگا تا تو میں آنکھیں بند کر کے حلف اٹھانے کو تیار ہو جاتا کہ یہ بات غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی جو اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی اور نواز شریف مسلم لیگ کی سربراہ کے ساتھ ساتھ آئی جے آئی کے بھی صدر تھے اور یہ اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں پر مبنی تھا۔ سیاسی دوستیوں اور دشمنیوں میں اونچ نیچ آہی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قاضی صاحب پر ایک الزام نہ صرف لگا بلکہ میرے بہت اچھے دوست اور پرانے صحافی نذیر ناجی نے جو میاں نواز شریف کے سب سے بڑے صلاح کا ر ہوتے تھے۔ ایک اشتہار کا مضمون بنایا جس میں جماعت اسلامی کے سر براہ قاضی حسین احمد پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مسلم لیگی قیادت سے 10 کروڑ روپے بطور مالی امداد طلب کئے ہیں۔ اشتہار کی عبارت میں بہت سی باتیں ایسی تھیں جن کے بارے میں ذاتی طور پر مجھے معلوم تھا کہ یہ سیاسی الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ جو شخص جماعت اسلامی کا سر براہ ہونے کے باوجود منصورہ میں دو کمرے کے فلیٹ میں رہتا ہو اور جو اپنے دفتر میں بھی گرمیوں کا پورا موسم کسی اے سی کے بغیر گزارتا ہو، جس کا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا انتہائی سادا اور درویشانہ ہو اس پر 10 کروڑ کی مالی لوٹ کھسوٹ کا الزام لگا نا ظلم عظیم تھا، اس اشتہار کی وجہ سے دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین تعلقات اور خراب ہو گئے ۔ دراصل جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ آئی جے آئی نے برسراقتدار آ کر نفاذ اسلام کے سلسلے میں اپنے کچھ وعدے پورے نہیں کئے یہی وجہ تھی کہ پیشکش کے باوجود جماعت اسلامی کے کسی ایم این اے نے یا سنیٹر نے وزارت قبول نہ کی تھی ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ 9/11 سے بہت پہلے کا دور ہے جب پاکستان کی بعض سیاسی اور مذہبی جماعتیں کھلم کھلا جہاد کشمیر کے لئے چندہ جمع کرتی تھیں۔
مظفر آباد کے گردو نواح میں مقبوضہ کشمیر میں بھیجے جانے والے نوجوانوں کی فوجی تربیت کی جاتی تھی اور ابھی انجینئر نگ یونیورسٹی کے سابق استاد حافظ محمد سعید کے سپرد مرید کے کا تربیتی سنٹر نہیں کھلا تھا چنانچہ جماعت اسلامی ہی عملنا نو جوانوں کو تیار کرتی اور مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لئے بھیجتی تھی 10 کروڑ کی یہ رقم واقعی جماعت اسلامی نے وصول کی تھی اور یہ قسطوں میں ادا کی گئی ۔ ایک قسط تو میرے دوست اور
نوجوانوں کی تنظیم پاسبان کے سربراہ اور بعد ازاں پرویز مشرف کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے بھی وصول کر کے منصورہ پہنچائی تھی لیکن مجھے ذاتی طور پر معلوم تھا کہ یہ رقم کشمیر فنڈ کے لئے مہیا کی گئی تھی لیکن یہ بات ایسی تھی جو جماعت اسلامی واضح کرسکتی تھی نہ اس کی تفصیل بتا سکتی تھی۔ میرے پرانے دوست نذیر ناجی ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے سخت ترین ناقدوں میں سے رہے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی کی زیر ادارت ہفت روزہ “شباب” نے ان کی ایڈیٹری کے دور میں الیکشن 70 ء سے پہلے فلم انورا کے پوسٹر میں سے اداکارہ نغمہ کی بیل باٹم میں تصویر لے کر ادا کارہ نغمہ کے چہرے کی جگہ مودودی صاحب کا چہرہ لگایا تھا۔ فلم بینوں کو یاد ہوگا۔ یہ تصویر معروف فلمی گانے ”سن وے بلوری اکھ والیا‘ سے لی گئی تھی۔ ناجی صاحب نے جماعت اسلامی کیخلاف بڑی قلمی جنگ لڑی۔ بے چارے جماعت اسلامی والے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جس بیچ پر ناجی صاحب لڑتے تھے اس کا جواب کوئی ” جماعتیہ نہیں دے سکتا تھا۔ وقت گزرتا چلا گیا اور پھر اچانک سیاست میں میاں صاحب کی حکومت ختم ہونے کے بعد میاں صاحب پھر لیڈر آف اپوزیشن بن گئے۔ میری میاں نواز شریف سے بھی نیاز مندی تھی اور قاضی صاحب سے بھی دوستی لہذا جب دونوں طرف یہ احساس پیدا ہوا کہ دوبارہ آئی جے آئی کے ٹائل میں جماعت اسلامی سے صلح ہونی چاہئے تو کچھ مشترکہ دوستوں نے قاضی صاحب سے میرے ذاتی تعلقات کے پیش نظر مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ انہی دنوں جماعت اسلامی کے دارالعروبہ کے انچارج مولا ناخلیل حامدی اچانک انتقال کر گئے ۔ ( آج کل اس شعبے کے انچارج عبدالغفار عزیز ہیں ) مولا ناخلیل حامدی بڑی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ جدید عربی میں گفتگو کر سکتے تھے اور عالم اسلام کے ساتھ جماعت کے روابط کا اہتمام ان کے سپر د تھا۔ سمن آباد منتقل ہونے سے پہلے جہاں میں قیام پذیر تھا وہ میرے پڑوس میں رہتے تھے اور صرف ایک دیوار درمیان میں تھی ۔ میں ہر شام ان کے پاس جدید عربی بولنے کی مشق کرنے جاتا تھا اور یہ انہی کا کمال تھا کہ انہوں نے عربی بولنا سکھایا جس کی وجہ سے بھٹو صاحب نے اسلامی کانفرنس منعقد کی تو میں نے با قاعدہ ٹیسٹ دے کر تین دن تک مختلف ممالک سے آئے ہوئے عرب ممالک کے وفود کے ساتھ ترجمانی کے فرائض ادا کئے حالانکہ میں اس وقت عربی زبان میں پنجاب یونیورسٹی اور تکمیل کالج سے بی اے آنرز کر رہا تھا۔
اپنے انتہائی مشفق استاد خلیل حامدی کی وفات پر میں نے تجویز دی کہ میاں نواز شریف صاحب کو قاضی حسین احمد کے ہاں منصورہ جا کر عالم اسلام کے لئے ان کے شعبہ دار العروبہ کے سابق انچارج خلیل حامدی کی تعزیت کے لئے جانا چاہئے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق میں نے میاں نواز شریف اور قاضی حسین احمد صاحب کی ملاقات کروائی۔ تعزیت کے بعد میاں صاحب سے قاضی صاحب کی دس کروڑ والے اشتہار کی شکایت کی میاں صاحب نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ یہ اشتہار ان کے علم میں لائے بغیر چھپ گیا جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔ قاضی حسین احمد نے یہ معذرت قبول کر لی اور دونوں جماعتوں کے ما بین دوبارہ سیاسی اتحاد کے لئے لیاقت بلوچ اور چودھری رحمت الہی پر مبنی کمیٹی قائم کر دی جبکہ میاں نواز شریف نے اس موقع پر میاں اظہر اور میاں خورشید محمود قصوری کے نام اپنی طرف سے مذکورہ کمیٹی کے لئے اناؤنس کئے جو اخبارات میں بھی چھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میری موجودگی میں قاضی حسین احمد نے پھر وہی بات دہرائی کہ نہ ہمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے کوٹے پر اصرار ہے نہ ہم دو یا تین وزارتیں چاہتے ہیں
۔ الیکشن کے بعد اگر کامیابی ہمارے حصے میں آئے تو وہی ہوگا جو پہلے تھا یعنی آئین میں درج آرٹیکلز پر عملدرآمد جو ملک میں مروجہ قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھال سکے۔ قارئین کرام! میں نے یہ واقعہ اس لئے تفصیل سے لکھا حالانکہ میرے پاس قاضی صاحب کی زندگی کے بے شمار واقعات امامنا محفوظ ہیں جن سے بہت بڑی بڑی خبر میں نکل سکتی ہیں لیکن یہ واقعہ میں نے اس لئے منتخب کیا کہ قاضی صاحب کی سچائی راست بازی اپنے دل کے میل کو صرف معذرت کے ایک جملے سے دھو ڈالنا اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد سے لے کر وزارتوں کی تقسیم کا ذکر تک نہ کرنا اور سارا زور اس بات پر دینا کہ آئین کے بہت سے آرٹیکلز پر جو قانون سازی اسلامی طرز حکومت کے لئے درکار ہے اس پر کام کیا جائے۔ یہ ان کی اپنے مقصد سے لگن کا گہرا اور بین ثبوت تھا۔ پھر مہینوں تک جاری رہنے والی سیاسی بیان بازی کے باوجود میاں نواز شریف کے خود چل کر منصورہ آنے اور تعزیت کے بعد متنازعہ اشتہار پر معذرت کرنے کے بعد اچانک قاضی صاحب ساری تلخیاں بھول گئے ان پر جس مالی امور کا الزام لگایا تھا میں اس کی تفصیل سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔ اس رقم کے کتنے حصے کئے گئے تھے کتنی رقم لندن میں قائم شدہ کشمیر سنٹر بھیجی گئی تھی، کتنی مجاہدین کی تربیت گاہوں پر صرف ہوئی تھی اور کس قدر ایسے نوجوانوں کے خاندانوں کی مالی اعانت کیلئے مخصوص کی گئی جو مقبوضہ کشمیر میں شہید ہو گئے تھے۔ اور جن کے بیوی بچوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری دانست میں جو کام بعد میں برسوں سے حافظ محمد سعید کے ذمے لگا اسے قاضی حسین احمد نے کس شفاف طریقے سے انجام دیا۔ کسی دوسرے شخص کے لئے قسم اٹھانا بڑا مشکل کام ہے لیکن میں اپنے بھائی اپنے دوست اور اپنے شفیق اور مہربان قاضی صاحب کی جگہ کسی بھی وقت حلف اٹھانے کیلئے تیار ہوں کہ قاضی صاحب پر بددیانتی کا الزام لگانے والے خود جب خدا کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو انہیں کیا جواب دینا ہے۔ اس پر وہ ابھی سے غور شروع کر دیں میں ان کی زندگی کے بے شمار واقعات سے آگاہ ہوں کہ روپیہ پیسہ طمع لانی دنیاداری حرص اور ہوس سے قاضی صاحب کوسوں دور تھے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے ان میں فرشتوں جیسی جو معصومیت تھی اس کی وجہ ان کا بے داغ طرز زندگی تھا۔ میں نے اوپر قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ برسوں تک مہینے میں دو ایک اتواروں کو ہونے والی گپ شپ کے بارے میں لکھا کاش میں ہر ملاقات کے بعد گھر واپس آ کر نوٹس بنالیتا کیونکہ روداد اس قدر دلچسپ بن سکتی تھی کہ شاید ہی کہیں سے معلومات مل سکتیں۔ ظاہر ہے کہ مجھے بہت سی باتیں اب یاد نہیں رہیں۔ تا ہم اتنا ضرور یاد ہے کہ اس گپ شپ میں قاضی صاحب نے اپنے بچپن، جوانی طالب علمی سے لے کر سیاسی نشیب وفراز کی بے شمار داستانیں بیان کی تھیں۔ ان میں لطیفے بھی تھے اور پھلجھڑیاں بھی۔ قاضی صاحب کی شخصیت کی طرح ان کا علمی مذاق بھی صاف ستھرا اور بلند سطح کا حامل ہوتا تھا۔ ان کے لطائف میں تہذیب ادب ہماری سماجی قدریں اور سب سے بڑھ کر انتہائی سستا اور مہذب الفاظ کا انتخاب ان کی گفتگو کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ ہمارے درمیان چھوٹی چھوٹی بحثیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک بار قاضی صاحب ڈنڈا لے کر میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے آپکا ذہن مشرقی اقدار کا حامل ہے، اچھا لکھتے ہیں اچھا بولتے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ہیں۔ سیاست میں بہتری چاہتے ہیں پاکستان کو اسلامی، فلاحی ریاست بنانا آپ کا بھی خواب ہے اور ہمارا بھی پھر آپ کیوں اسلامی جماعت میں شامل نہیں ہو جاتے ۔ میں اپنی نفسی منبط نہ کر سکا۔ قاضی صاحب بولے میں سمجھا نہیں اس میں بننے والی کون سی بات ہے۔ میں نے کہا قاضی صاحب میں دنیا دار آدمی ہوں۔ اپنے آپ کو ہمیشہ گناہگار سمجھتا ہوں۔ بچپن سے والدہ کی ڈانٹ کے باعث 24 گھنٹے میں صرف ایک نماز پڑھتا ہوں اور وہ بھی صبح کی۔ شرعی احکام کی پابندی بھی کم کم ہے۔ فلمیں بھی دیکھتا ہوں اور سٹیج ڈرامے بھی۔ پرانے گیتوں اور پرانی غزلوں کا شوق ہے۔
آپ سے مجھے دلی لگاؤ ہے اور یہ آپ کی محبت ہے کہ میری ہر قسم کی گفتگو اور نوک جھونک بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ میرا جماعت اسلامی میں کیا کام؟ نہ میں ٹخنوں سے اونچی شلوار پہن سکتا ہوں ۔ نہ میرے چہرے پر داڑھی ہے۔ نہ صرف سر پر نوبی پہنتا ہوں۔ چھوٹے موٹے جھوٹ سے بھی مشکل ہی سے بچتا ہوں۔ آپ مجھے کہاں کانٹوں کی وادی میں کھینچ رہے ہیں۔ قاضی صاحب نے مجھے ڈیڑھ دو گھنٹے بحث کی
انہیں یقین کامل تھا کہ میرے اندر ایک اچھا مسلمان چھپا ہوا ہے پھر انہوں نے اپنی زندگی کے بالخصوص جوانی کے دور کے واقعات سنائے اور بتایا کہ وہ کس طرح گندے پانی کے اس جو ہر میں بھی خود کو کنول کے پھول کی طرح شفاف شفاف رکھتے تھے۔ میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ میں ضیا شاہد ہوں، قاضی حسین احمد نہیں۔ قاضی صاحب ہنستے ہوئے بولے انسان خطا کا پتلا ہے کوئی بھول چوک ہو جائے تو اللہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگو البتہ اپنی کمزوریوں کا ڈھنڈورا مت پیٹو پھر وہ ہنسے اور بڑے پیار سے بولے اللہ پاک” ستار العیوب ہے۔ دل سے تو بہ کرو گے تو اللہ بخش دے گا۔ میں نے کہا قاضی صاحب مگر ابھی مجھے اس دنیا میں رہنا ہے جہاں جھوٹ اور مکر و فریب کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چلا جا سکتا جو سرکاری فارم پُر کرو جھوٹ لکھنا پڑتا ہے اور بچی لکھو تو کام نہیں چلتا، آپ لوگ اسلامی نظام کیلئے جلوس نکالا کرو ۔ میں سڑک کنارے کھڑا ہو کر شرکاء کی تعداد گنوں گا اور صحافی ہونے کے ناطے اس میں ڈنڈی ماروں گا کہ ہزارہ بندہ ہو گا تو پانچ ہزار رکھوں گا ہم جنتے رہے اور قاضی صاحب اپنے سامنے رکھے ہوئے سیبوں میں سے ایک ایک سیب اٹھا کر اور اسے چار یا آٹھ حصوں میں کاٹ کر مجھے پیش کرتے رہے وہ سیب کا چھلکا بھی نہیں اتارتے تھے اور ہمیشہ کہتے کہ سیب کو چھلکے سمیت کھانا چاہیے کیونکہ چھلکے اور سیب کے گودے کے درمیان بڑے طاقتو روٹامنز ہوتے ہیں۔
ایک اور واقعہ یاد آتا ہے تو ان کی محبت اور خلوص کی یادیں ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔ آج کل جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق اسلامی جمعیت طلباء کے کل پاکستان کے سر براہ ہوتے تھے اور ان کا زیادہ تر قیام پشاور میں رہتا۔ انہوں نے نو جوانوں کی تربیت کیلئے کچھ نشستوں کا اہتمام کیا اور آخری نشست میں قاضی صاحب کو دعوت دی کہ وہ صدارتی خطبہ دیں۔ اتفاق سے دعوت لاہور میں میرے سامنے دی گئی تھی اور میں بھی قاضی صاحب سے ملاقات کی غرض سے دار الضیافہ کے ڈرائنگ میں قاضی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا آپ ضرور پشاور آئیے گا پھر سراج الحق کی بہت تعریف کی اور کہا کہ اس نوجوان نے جمعیت کی بہت زبرست تنظیم کی ہے۔ میں نے تکلفا حامی بھرلی حالانکہ میرا کوئی پروگرام پشاور جانے کا نہیں تھا۔ کم و بیش ایک مہینے بعد مجھے اسلام آباد سے قاضی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے مجھے اپنا وعدہ یاد دلایا۔ میں نے کہا کوشش کروں گا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ آپ کل جہاز سے راولپنڈی آجائیں ہمارے نوجوان آپ کو ایئر پورٹ سے ساتھ لیں گے اور اسلام آباد میں ہمارے دفتر لے آئیں گے یہاں سے آپ میری گاڑی میں بیٹھ کر پشاور تک سفر کریں۔ راستے میں اچھی گپ شپ رہے گی میں نے پھر کہا کوشش کروں گا۔ انہوں نے اصرار کیا کوشش نہیں کل صبح کی فلائٹ سے چکلالہ ایئر پورٹ پہنچیں ہمارے لوگ آپ کو لینے کے لیے وہاں موجود ہوں گے۔ میں نے پھر آئیں بائیں شائیں کی۔ قاضی صاحب نے کہا بندہ خدا کل اتوار ہے اور آپ کا دفتر بھی بند ہو گا اور آپ کی ہفتہ وار چھٹی بھی ہے میں کوئی عذر نہیں سنوں گا بس صبح کی فلائٹ کی ٹکٹ منگوالیں۔ پروگرام کے مطابق اس شام مجھے واپس اسلام آباد آنا تھا کہ پیر کی صبح اخبارات کی مرکزی تنظیم کی وزارت اطلاعات کے دفتر میں وزیر اور سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ میٹنگ تھی۔ دوسری صبح لاہور ایئر پورٹ پہنچا تو یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ فلائٹ چار گھنٹے لیٹ ہے کیونکہ کوئی جہاز ٹیکنیکل طور پر خراب ہو گیا تھا اور اب کراچی سے آنے والی دو پہر کی فلائٹ کو لاہور کے مسافروں کو لے کر پنڈی پہنچنا تھا۔ یہ موبائل کا زمانہ نہیں تھا لہذا میں نے لینڈ لائن پر قاضی صاحب سے گفتگو کی جو اسلام آباد آفس میں میرے منتظر تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ اصرار نہیں کریں گے لیکن انہوں نے کہا میں نے آخری نشست میں اپنی تقریر سے پہلے آپ کا لکھوایا تھا اور جو دعوت ناموں اور پوسٹرز پر بھی چھپ چکا ہے۔ میں نے اعتراض کیا قاضی صاحب نہ میں جماعت اسلامی میں ہوں نہ اسلامی جمعیت طلباء میں۔ میں کیا تقریر کروں گا اور میری گفتگو کا کیا جواز ہے۔ وہ کہنے لگے میں نےنو جوانوں کو یہ بتانا ہے کہ ایک سیلف میڈ انسان کیا ہوتا ہے اور تمہیں نمونے کے طور پر پیش کرنا ہے کہ جو طالب علم چھٹی جماعت سے سکول سے آنے کے بعد محلے میں پینٹ کی دکان پر یومیہ اجرت کے عوض سائن بورڈ میں رنگ بھرتا تھا اور فرسٹ ایئر سے روزانہ اخبار کی نائٹ شفٹ پر ملازمت کر کے رات تین بجے گھر پہنچتا اور صبح آٹھ بجے کالج میں حاضری دیتا تھا۔ مالی وسائل کی کمی تعلیم کے حصول کے راستے میں رکاوٹ نہیں روکتی لہذا مجھے پیشاور میں ایک ضروری اجلاس دو پہر میں بھی بھگتانا ہے آپ کے لئے گاڑی اور ڈرائیور ایئر پورٹ پر موجود ہوں گے۔ آپ نے لازماً پشاور پہنچنا ہے، اب میرے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ موجود نہ تھا البتہ میں نے گاڑی کے لئے منع کر دیا کہ اخبار کے دفتر سے گاڑی اور ڈرائیور مجھے لینے آجائے گا۔ میں اپنی گاڑی پر پشاور پہنچوں گا کیونکہ تقریب کے بعد کھانے میں شامل ہو کر اسی وقت واپس اسلام آباد کے لئے چل پڑوں گا۔
فلائٹ چار کی بجائے چھ گھنٹہ لیٹ روانہ ہوئی اور اگر چہ چکلالہ ایئر پورٹ سے ہم سیدھے پشاور کی طرف روانہ ہوئے مگر وہاں سے اطلاع ملی کہ جلسہ شروع ہو چکا ہے اور ابتدائی تقاریر ہورہی ہیں ان دنوں موٹر وے تو تھی نہیں۔ پرانی سڑک اکثر مقامات پر بہت اچھی تھی مگر کئی کئی میل زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے رفتار بہت آہستہ ہو جاتی ، چھوٹے ہاتھ میں پکڑنے والے موبائل تو نہیں آئے تھے لیکن وائرلیس ٹیلی فون آگئے تھے اور اسلام آباد آفس والے پرانے ٹیلی فون کی شکل کا وائرلیس سیٹ گاڑی میں ساتھ لے آئے تھے جسے عرف عام میں بچہ ٹیلی فون کہا جاتا تھا چنانچہ بار بار ہم پشاور سے رابطہ کرتے اور نوشہرہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ عصر کی نماز بھی جلسہ گاہ ہی میں پڑھی گئی ہے اور چونکہ لائٹ کا خاطر خواہ انتظام نہیں کہ غالب خیال یہ تھا کہ مغرب سے پہلے اجلاس ختم ہو جائے گا لہذا الگتا تھا کہ میں جلسے میں تو شاید نہ پہنچ سکوں البتہ قاضی صاحب کو اپنی صورت دکھا کر معذرت کے قابل ہو جاؤں گا۔ پشاور کے نواح میں پہنچے تو فون ملا کہ قاضی صاحب تقریر کے لئے مائیک پر آچکے ہیں اور بار بار کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ میرا پتا کریں میں کہاں ہوں اور کتنی دیر میں پہنچوں گا ، ہم خوش قسمتی سے ڈرائیور پشاور کا رہنے والا تھا جو میں سیدھا جلسہ گاہ میں لے گیا کافی فاصلے پر اتر کر ہم نے سٹیج کی طرف پیدل مارچ شروع کیا۔ سٹیج کے قریب پہنچے تو کارکنوں نے جو پہلے سے میرے منتظر تھے سیڑھیوں کی بجائے جو عقبی حصے میں تھیں مجھے کندھوں پر اٹھا کر سٹیج تک پہنچا دیا، مجھے دیکھتے ہی قاضی صاحب نے اپنی تقریر بند کر دی۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگایا۔ میں نے معذرت کی کہ فلائٹ چار کی بجائے چھ گھنٹہ لیٹ تھی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مائیک کے سامنے لے گئے اور میں نے اپنی طویل صحافی زندگی میں یہ پہلا جلسہ دیکھا جس کی صدارت کرنے والے آخری مقرر نے اپنی تقریر روک کر پہلے چند جملوں میں میرا تعارف کروایا اور کہا کہ میں پہلے ہی ان کا ذکر کر چکا ہوں اور اب میں چاہوں گا کہ یہ کچھ الفاظ نو جوانوں سے مخاطب ہو کر براہ راست آپ سے بات کریں کہ تعلیم کے حصول میں جتنی مشکلات بھی پیش آئیں آپ کا فرض ہے کہ اپنا مشن جاری رکھیں ۔ میں اسلامی جمعیت طلبا کے زیر اہتمام اس سیمینار کے آخر میں اس نوجوان کو پیش کرنا چاہتا ہوں جس نے انتہائی مشکل مالی حالات میں بھی ہمت اور حوصلہ نہیں چھوڑا ۔ بورڈ لکھے۔ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پانی میں برف ڈال کر ٹھنڈا پانی بیچا، خربوزوں کے موسم میں پورا ٹرک خرید کر اسے ریڑھیوں پر لاد کر مختلف جگہوں تک پہنچایا۔ کتابت کی، پوسٹر لکھے۔ دیواری اشتہار لکھے۔ پھر رات رات بھر اخبارات کے دفاتر میں کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں نہ صرف ایم اے تک پہنچا بلکہ پوری یونیورسٹی میں اول آنے پر گولڈ میڈل لیا، قاضی صاحب کے الفاظ میں اتنی محبت اور اتنی شفقت چھپی ہوئی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو امنڈنے لگے میں نے بمشکل اپنے اوپر قابو پایا اور چند الفاظ ادا کئے ، قاضی صاحب نے میری کیفیت دیکھ کر دوباره مائیک سنبھالا اور اس طرح اپنی تقریر مکمل کی کہ ان کا ایک ہاتھ مسلسل میرے کندھے پر رہا۔ آج اتنے برسوں بعد یہ واقعہ لکھتے وقت مجھے بار بار قاضی حسین احمد کی یاد آتی ہے۔ ان کے اندر ایک محبت بھرا گداز دل تھا جس میں دور دور تک لالی طمع ، حرص، نفرت، بغض ، دنیا داری،بناوٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ اتنے معصوم انسان تھے کہ اگر اب میں ایک واقعہ ان کی استقامت، بہادری، جرات سرفروشی، ایمان پر غیر متزلزل یقین کے حوالے سے بیان نہ کروں تویہ قاضی حسین احمد کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔
جلوس بڑی حد تک چھٹ گیا تھا۔ پچھلے آنے والے لوگ ابھی تک بڑی مستقل مزاجی سے جلوس کا ساتھ دے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی۔ اچانک ہوائی فائرنگ کی آواز میں آئیں۔ شیخ صاحب نے مجھے کہا ضیا صاحب گاڑی میں بیٹھیں اور نکلیں یہاں سے میں نے کہا میں موٹر سائیکل پر آیا ہوں ابھی کچھ اور چکر لگاؤں گا۔ اتنے میں سیٹلائٹ ٹاؤن کی طرف سے شیخ رشید کے حامیوں کا ایک ٹولہ آیا اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ مری روڈ سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر لے جانے کیلئے ان پر زور دینے لگا۔ میں نے دوبارہ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ سنبھالی اور ڈرائیور سے کہا کوشش کرو کہ ہم قاضی صاحب کے ٹرک کے پاس پہنچ سکیں۔ اس نے بڑی ہمت کی لیکن راستے میں پولیس کی پیدل نفری کے علاوہ اتنی گاڑیاں تھیں کہ قاضی صاحب کے ٹرک تک پہنچنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ میرے پاس تو صرف گیلا تولیہ تھا، موٹر سائیکل چلانے والا بری طرح کھانسنے لگا تھا، اس نے کہا سر واپس چلیں آگے جانا ممکن ہی نہیں۔ آدھ پون گھنٹے بعد جب میں خبریں” کے اسلام آباد دفتر میں بیٹھا تھا اور میری حالت کچھ سنبھل چکی تھی میں نے لاہور آفس فون کیا۔ ان دنوں ادارہ خبریں موجودہ نیا اخبار کی جگہ صحافت“ کے نام سے ایوننگر شائع کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ صبح سے اس کا تیسرا ایڈیشن شہ سرخی تبدیل کر کے چھپ چکا ہے اور اب چوتھے کی تیاری ہے۔ ان دنوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نہیں ہوتے تھے۔ لاہور اور اسلام آباد دونوں مقامات پر ہر گھنٹے کے بعد نیا ایڈیشن چھپتا تھا جس میں پنڈی میں قاضی صاحب کے جلوس کی تازہ ترین صورتحال بتائی جاتی تھی۔ اس جلوس کے شرکاء میں سے آج بھی آپ کو سینکڑوں لوگ مل سکتے ہیں جو یہ بیان کریں گے کہ جہاں تک ٹرک پہنچ سکتا تھا قاضی صاحب سوا گھنٹے سے زیادہ بناوٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ اتنے معصوم انسان تھے کہ اگر اب میں ایک واقعہ ان کی استقامت، بہادری، جرات سرفروشی، ایمان پر غیر متزلزل یقین کے حوالے سے بیان نہ کروں تو یہ قاضی حسین احمد کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔
جلوس بڑی حد تک چھٹ گیا تھا۔ پچھلے آنے والے لوگ ابھی تک بڑی مستقل مزاجی سے جلوس کا ساتھ دے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی۔ اچانک ہوائی فائرنگ کی آواز میں آئیں۔ شیخ صاحب نے مجھے کہا ضیا صاحب گاڑی میں بیٹھیں اور نکلیں یہاں سے میں نے کہا میں موٹر سائیکل پر آیا ہوں ابھی کچھ اور چکر لگاؤں گا۔ اتنے میں سیٹلائٹ ٹاؤن کی طرف سے شیخ رشید کے حامیوں کا ایک ٹولہ آیا اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ مری روڈ سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر لے جانے کیلئے ان پر زور دینے لگا۔ میں نے دوبارہ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ سنبھالی اور ڈرائیور سے کہا کوشش کرو کہ ہم قاضی صاحب کے ٹرک کے پاس پہنچ سکیں۔ اس نے بڑی ہمت کی لیکن راستے میں پولیس کی پیدل نفری کے علاوہ اتنی گاڑیاں تھیں کہ قاضی صاحب کے ٹرک تک پہنچنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ میرے پاس تو صرف گیلا تولیہ تھا، موٹر سائیکل چلانے والا بری طرح کھانسنے لگا تھا، اس نے کہا سر واپس چلیں آگے جانا ممکن ہی نہیں۔ آدھ پون گھنٹے بعد جب میں خبریں” کے اسلام آباد دفتر میں بیٹھا تھا اور میری حالت کچھ سنبھل چکی تھی میں نے لاہور آفس فون کیا۔ ان دنوں ادارہ خبریں موجودہ نیا اخبار کی جگہ صحافت“ کے نام سے ایوننگر شائع کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ صبح سے اس کا تیسرا ایڈیشن شہ سرخی تبدیل کر کے چھپ چکا ہے اور اب چوتھے کی تیاری ہے۔ ان دنوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز نہیں ہوتے تھے۔ لاہور اور اسلام آباد دونوں مقامات پر ہر گھنٹے کے بعد نیا ایڈیشن چھپتا تھا جس میں پنڈی میں قاضی صاحب کے جلوس کی تازہ ترین صورتحال بتائی جاتی تھی۔ اس جلوس کے شرکاء میں سے آج بھی آپ کو سینکڑوں لوگ مل سکتے ہیں جو یہ بیان کریں گے کہ جہاں تک ٹرک پہنچ سکتا تھا قاضی صاحب سوا گھنٹے سے زیادہ بھیڑ ہے آپ کو یہاں سے فارغ ہونے میں بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگ جائے گا۔ میں ان دنوں کم ہی لکھتا تھا۔ ابھی ٹی وی چینل ۵ شروع نہیں ہوا تھا لیکن عدنان کے کالموں کے بارے میں وہ ہمیشہ مجھ سے تبادلہ خیال کرتے تھے۔ عدنان شاہد بنگلہ دیش گئے تو میرے مشورے پر وہ پلٹن میدان بھی گئے اور بہاریوں کی کالونی میں بھی۔ یہ کالم پڑھ کر قاضی صاحب نے انہیں بھی فون کیا اور مجھے بھی پھر بولے میرے پاس آ کر چائے پی کر جاؤ ۔ میں اور عدنان مرحوم ان کے پاس گئے مجھ سے تو انہوں نے صرف ہاتھ ملایا مگر عدنان کو گلے لگا کر پیار کیا اور دیر تک ان سے پلٹن میدان کے حوالے سے اس کی تحریر پر گفتگو کرتے رہے۔
اور پھر یوں ہوا کہ عدنان قاضی صاحب سے خفا ہو گئے ۔ قاضی صاحب اس زمانے میں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو سیاست کے میدان کی بڑی برائیاں کہا کرتے تھے اچانک جماعت اسلامی کی سیاسی قرابت مسلم لیگ سے بڑھنے لگی تو قاضی صاحب نے چھوٹی برائی اور بڑی برائی کی اصطلاحیں ایجاد کیں ۔ نواز شریف صاحب کو چھوٹی برائی اور آصف علی زرداری کو بڑی برائی قرار دیا۔ عدنان صاحب اپنی عمر کے اعتبار سے اپنے خیالات میں بہت انتہا پسند واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈٹ کر قاضی صاحب کی اس تبدیلی کے خلاف کالم لکھا۔ غالباً اس کالم کا عنوان کچھ اس قسم کا تھا قاضی صاحب جواب دیں قاضی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ یا آپ میرے پاس چائے پر آؤیا مجھے کھانے پر بلاؤ۔ عدنان صاحب سے بحث کرنی ہے۔ میں نے کہا قاضی صاحب وہ بہت ناراض ہیں۔ عید کے دن قریب تھے کہنے لگے اچھا عید کی نماز پر تو آپ لوگ آئیں گے تو میں ہرگز سوئیاں کھلائے بغیر جانے نہیں دوں گا اور عدنان کے سوالوں کا جواب آمنے سامنے بیٹھ کر دوں گا۔ میں ہنس کر خاموش ہو گیا، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے اصرار کے باوجود عدنان صاحب نے صاف انکار کر دیا کہ میں عید کی نماز پڑھنے منصورہ نہیں جاؤں گا اور نہ قاضی صاحب سے ملوں گا۔ میں اور امتنان بہر حال منصورہ پہنچے عید کی نماز ادا کی اور بعد ازاں قاضی صاحب سے گلے بھی ملے مگر عدنان کو نہ پا کر قاضی صاحب ملول ہو گئے کہنے لگے اتنی ناراضی اچھا میں خود اپنے بیٹے سے ملنے آؤں گا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ ابھی عدنان صاحب کافی غصے میں ہیں دو تین باران کا فون آنے کے باوجود تاریخ اور وقت مقرر کرنے سے گریز کیا۔
قدرت کو شاید یہ ملاقات منظور نہیں تھی اس لیے انہی دنوں اچانک مجھے سالانہ سرائیکی مشاعرے پر ملتان جانا پڑا جہاں رات کو پیٹ میں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔ ہسپتال پہنچایا گیا تو انہوں نے کہا آج ہی آپریشن نہ کیا گیا تو اپنڈکس پھٹ جائے گا۔ میں نے اپنی ڈاکٹر بیٹی سے لاہور فون پر بات کی انہوں نے کہا اگر ڈاکٹر مصر ہیں تو انکار نہ کریں۔ ڈاکٹروں نے اسی رات آپریشن کیا اور اپنڈکس کی بجائے میری بڑی آنت کا ایک حصہ غلطی سے کاٹ دیا۔ صبح مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنڈکس کا درد تھا ہی نہیں۔ ایک مزید رات رہنے کے بعد مجھے ساتھ لانے کے لیے عدنان اور میری بیٹی ملتان آگئے اور ہوائی جہاز پر ساتھ لے آئے۔ پہلے جناح ہسپتال پھر زید سلطان ہسپتال۔ دو اڑھائی ماہ کی بیماری کے بعد اچانک گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور میرے مرحوم دوست ڈاکٹر محمود علی چودھری نے جو زید سلطان ہسپتال کے انچارج تھے لندن کے ایک ہسپتال میں بات کر کے مجھ سے پوچھے بغیر اچانک مجھے وہاں بھیجوا دیا جہاں کئی ماہ ہسپتال میں رہا۔ اس طرح جب چار پانچ مہینے بعد پاکستان لوٹا تو بات پرانی ہو چکی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدنان شاہد دوسری بار مجھے ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن کے لیے امریکہ لے گئے اور واپسی پرلندن میں ایک رات کے قیام کے بعد وہ پی آئی اے کی لندن سے لاہور پرواز کے لیے ایئر ٹکٹ پر سیٹیں تبدیل کروانے کے لیے ٹریول ایجنسی کے دفتر گئے تھے کہ اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑے اور پہلی دفعہ ہونے والے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے 36 سال کی عمر میں اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ تا ہم اپنی وفات تک انہوں نے دوبارہ کبھی منصورہ جانے یا قاضی صاحب سے ملنے کے لیے آمادگی کا اظہار نہ کیا۔ وہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کو نا پسند کرتے تھے اور پاکستانی سیاست کو لوٹ مار کا ذریعہ قراردیتے تھے۔ قاضی صاحب نے ان کی وفات پر مجھ سے تعزیت کی تو بار بار اس خیال کا اظہار کیا کہ میں عدنان صاحب کی غلط انہی دور نہ کر سکا۔ قدرت نے اس کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ میرے تینوں بچوں کی شادیوں پر خود آئے بالا ہور یا پاکستان میں موجود نہ تھے تو ان کی بیگم اور بیٹی نے شرکت کی۔ ان کی بیٹی ہمارے خبریں کے دفتر میں بیشمار مرتبہ خواتین کے فورمز میں شامل ہوئیں اور ہمیشہ مجھ سے بڑے احترام اور عزت سے پیش آئیں۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ قاضی صاحب سے سیاست اور صحافت سے ہٹ کر بھی میرے ذاتی تعلقات تھے اور مجھے قاضی صاحب سے گھنٹوں جاری رہنے والی وہ ملاقاتیں کبھی نہیں بھولتیں جن میں ہم دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے اور گپ شپ بھی لڑاتے قاضی صاحب کی باتیں مجھے کبھی کبھی بہت یاد آتی ہیں ان کے دل میں اسلام کے نظام انصاف اور نظام معیشت کوپاکستان میں لاگو کرنے کی حسرت وہ اپنے ساتھ ہی دوسری دنیا میں لے گئے۔
قاضی صاحب سے میں نے بہت لوگوں کی بڑی اہم ملاقاتیں کروائیں۔ وہ مجھ پر اعتماد کرتے تھے یہ ان کی محبت تھی۔ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی آپس میں کیوں نہ مل سکے شاید ہی کوئی مجھ سے زیادہ اس حقیقت سے واقف ہو اور امریکہ کی وزارت خارجہ نے اس دوری کو مزید بڑھانے کے لیے کیا کیا کاوشیں کیں۔ میرے علاوہ سرتاج عزیز مشاہد حسین میاں اظہر اور خورشید محمود قصوری بھی اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ تفصیلات سے ضرور واقف ہیں، لیکن وہ بھی میری ہی طرح کبھی اس موضوع پر اظہار خیال نہیں کریں گے۔ ہم سب ایک سوپر طاقت کے بھیجے ہوئے ایک چھوٹے سے ہرکارے یا ہر کاری کے اس پیغام پر بھی بھی بات نہیں کریں گے جس میں مشاہد حسین کی پارٹی کو قاضی صاحب کی پارٹی سے الگ رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے آنے والی حکومت کی خوشخبری سنائی گئی۔ جماعت کے دوست بھی بالخصوص لیاقت بلوچ بھی اس بارے میں شاید ہی زبان کھولیں، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں شاید ہم میں سے ہر شخص اپنے ساتھ بہت سے حقائق لے کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگرانہیں آشکارا نہیں کرتا۔
میں قاضی صاحب کے حوالے سے بھی بہت سی باتوں سے واقف ہوں البتہ بڑے فخر سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس اللہ کے بندے میں کبھی کوئی جھوٹ مکر فریب منافقت سیاست کاری نہیں پائی۔ وہ اندر اور باہر سے ایک تھے۔ میری آخری ملاقات دار الضیافہ کے قریب ایک بڑے مکان کے گراسی گراؤنڈ میں ہوئی تھی جہاں ملکی دھوپ میں دو کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں ان کے صاحبزادے آصف لقمان آئے اور پوچھا آپ لوگوں کے لیے کھانے پینے کا کچھ سامان بھیجواؤں ۔ ہم اس زور شور سے بحث میں مصروف تھے کہ دونوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور وہ خاموشی سے واپس چلے گئے۔ قاضی صاحب کے گھٹنوں میں کچھ تکلیف تھی اور میرا خیال تھا کہ انہیں زیادہ دیر نہیں بیٹھنا چاہئے بار بار میں اجازت لیتا مگر وہ منع کر دیتے۔ ان کے ذہن میں اگلا کام کرنے کا ایک خاکہ تھا جس کے لیے وہ مجھ سے مشاورت کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا قاضی صاحب آپ ٹھیک ہو جا ئیں پھر ہم ایک طویل نشست رکھیں گے اور کچھ مزید دوستوں کو بھی بلائیں گے۔ قاضی صاحب نے شاید پہلی بار مجھے ان ریمارکس سے نوازا جو میرے لیے آج تک خوشی کا باعث ہیں۔ وہ بولے نہیں، پہلے میں آپ سے بات کروں گا۔ مجھے آپ کی ایک بات اچھی لگتی ہے کہ آپ کے جو جی میں آتا ہے وہ بغیر کسی تکلف کے زبان پر لے آتے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے مجھے مخالفت میں دلیل سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔ اس طرح میں اپنی سوچ یا طریق کار میں اگر کوئی خامی ہے تو اسے دور کر سکتا ہوں۔ پھر ہنس کر بولے جناب ! ویسے آپ بہت ظالم ہیں، کڑوی سے کڑوی بات اس قدر آسانی سے ادا کر دیتے ہیں کہ جسے کہنے کے لیے لوگوں کو کئی بار تمہید باندھنا پڑتی ہے۔ قاضی صاحب مجھے اٹھ کر رخصت کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے اصرار کیا کہ آپ کے گھٹنوں میں تکلیف ہے پلیز آپ بیٹھے رہیں ۔ تب انہوں نے اندر جاتے ہوئے ایک نوجوان کو آواز دے کر بلایا اور کہا ضیا صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آؤ۔
قاضی صاحب! آپ اچھے انسان تھے اچھے مسلمان تھے اچھے پاکستانی تھے۔ آپ نے پوری زندگی جس نظام کو قائم کرنا چاہتے تھے اس کے لیے کوشش کی یہ بہت بڑی بات ہے لیکن سیاستدان تو بہت ہیں جماعت اسلامی کے امیر بھی بہت دیکھئے سید مودودی اور میاں طفیل محمد کے سامنے تو میں ہمیشہ طفل مکتب رہا لیکن سید منور حسن اور سراج الحق سے ہمیشہ برادرانہ تعلقات رہے۔ مگر ساری جماعت اسلامی میں شروع سے اب تک دوستی صرف آپ سے رہی پیار صرف آپ سے رہا’ خلوص ہمیشہ آپ سے پایا شفقت ہمیشہ آپ نے دی گپ بازی صرف آپ سے ہوئی، دکھ سکھ صرف آپ سے شیئر کیے۔ اللہ آپ کو خوش رکھئے، آپ جہاں بھی ہیں خوش رہیں کم از کم مجھ ایسے معمولی سے ناقص گناہ گار سے مسلمان کی طرف سے خدا کے حضور کسی گواہی کی ضرورت ہوئی تو میں ہمیشہ آپ کی سچائی آپ کے ایمان، آپ کی نیکی آپ کی شرافت آپ کی اعلیٰ ظرفی آپ کی انسان دوستی کے بچے اور کھرے دل سے گواہی دوں گا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے بعد سے لے کر اب تک خیر اور شر کے مابین جو جنگ ہمیشہ جاری رہی ہے اس میں آپ نے اپنا حصہ خوب نبھایا، آپ کے ایثار آپ کی قربانی آپ کا مال و دولت سے اجتناب، آپ کی غرض اور خواہش انسانی سے یکسر دوری جماعت اسلامی کی امارت سے ہٹ کر آپ کی سیاست سے الگ ہو کر بھی ایک اچھے بچے کھرنے پیار کرنے والے اور پیار لینے والے انسان کی حیثیت سے میں آپ کو کبھی نہیں بھول سکوں گا اور میری دعا ہوگی کہ اللہ ! ہر دور میں قاضی حسین احمد کی طرح کے مخلص، بے غرض اور مضبوط کردار کے لوگوں کو پیدا کرتا رہے تاکہ ڈکشنری میں لکھے ہوئے وہ اچھے الفاظ کہیں تو کسی میں تو نظر آ سکیںجواب ہزاروں لاکھوں لوگوں میں کہیں دکھلائی نہیں دیتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں