181

ملک معراج خالد کی یاد میں

ضیاشاہد
ملک صاحب صحیح معنوں میں دور لیش انسان تھے۔ دنیا داری سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے زیادہ غریبوں کا ہمدرد سادہ مزاج پروٹوکول سے نفرت کرنے والا اور حقیقی سماجی انقلاب کا خواہش مند کوئی نہیں دیکھا۔ میری طرح وہ اور دوستوں سے بھی انتہائی محبت کرتے تھے اور جب انہیں کہا جاتا کہ آپ سے ملنے کیلئے آنا چاہتے ہیں تو دہ اصرار سے کہتے کہ آپ نہیں میں آؤں گا۔ کم وبیش چالیس برس پر مشتمل ہزاروں ملاقاتوں کی روداد میں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ کہیں سے بھی شروع کر کے چیدہ چیدہ واقعات سامنے لاؤں۔ ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ان کے جانشین اول مصطفیٰ کھر کو گورنر پنجاب بنایا گیا۔ ملک معراج خالد ممبر قومی اسمبلی تھے لیکن ان دنوں آئین میں اس امر کی گنجائش تھی کہ کسی ایم این اے کو صوبے کا وزیر اعلی بنایا جا سکتا تھا وہ بھی نچ ماہ کیلئے۔ پنجابی کھچر اور زبان کے حوالے سے عنایت حسین بھٹی جو گلو کار اداکار کے طور پاشہور تھے ملک صاحب کے بہت چاہنے والے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا انہیں مبارکباد اپنے چلتے ہیں۔ میں اخبار نویس تھا اس لئے میری معلومات بھٹی صاحب سے کچھ زیادہ تھیں۔ میں نے کہا اصل حکومت کھر صاحب کی ہے اور سارے احکامات گورنر ہاؤس سے باری ہوتے ہیں۔ معراج خالد صاحب شریف آدمی ہیں اوپر سے دنیا داری سے سخت نفرت کرتے ہیں، یوں سمجھ لو ان کے پاس حکومت نام کی کوئی چیز نہیں لیکن بھٹی صاحب مصر رہے۔ مال روڈ پر جی او آر میں 7 کلب روڈ ان کی سرکاری رہائش گاہ تھی ۔ جب ہم بغیر وقت لئے اچانک وہاں پہنچے تو عمارت پر اداسی چھائی ہوئی تھی ۔ نہ ملنے والوں کا ہجوم نہ سیاسی ورکروں کی بھیڑ میں چونکہ اکثر وہاں جاتا رہتا تھا اس لئے گیٹ پر ہمیں کسی نے نہ روکا اور ہم عمارت کے سامنے ان سیڑھیوں تک پہنچ گئے جہاں سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے لاؤنج میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں بھی کوئی شخص موجود نہ تھا۔ میں نے خود ہی دروازہ کھولا اور وزیر اعلیٰ کے کمرے میں جھانکا۔ دروازہ کھولنے کی آواز سے ان کے سرکاری پی اے دوڑتے ہوئے آئے اور بولے آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں، میں ملک صاحب کو اطلاع کرتا ہوں۔ ہم واپس آکر وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں ملک معراج خالد آگئے ۔ انہوں نے معذرت کی کہ صبح اپنے گاؤں ڈیرہ جال گیا تھا، ابھی واپس آیا ہوں گاڑی کا اے سی ٹھیک سے نہیں چلتا اس لئے بہت گرمی لگ رہی تھی میں نے سوچا نہالوں تا کہ ذرا فریش ہوں جاؤں۔ کچھ دیر ہم باتیں کرتے رہے۔ بھٹی صاحب نے انہیں مبارکباد دی۔ ملک صاحب بولے میں گھومنے پھرنے والا آدمی ہوں۔ دوستوں سے گپ شپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے تو 7 کلب روڈ جیل خانہ لگتا ہے۔

عمارت کے درودیوار سے حسرت ٹپک رہی تھی۔ دیواروں سے پیلا رنگ جھڑ رہا تھا۔ مجھے بخوبی معلوم تھا کہ مصطفیٰ کھر کی حکومت میں معراج خالد صاحب کو جان بوجھ کر تنگ کیا جاتا ہے۔ چند روز پہلے میری موجودگی میں ” کمپٹر ول، جس کے ذمہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی دیکھ بھال تھی سے ملک صاحب کے پی اے نے کہا کہ آپ 7 کلب روڈ میں رنگ وروغن ہی کروا دیں۔ وہ زمانہ شناس سرکاری افسر تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا نام منظور ملک تھا۔ انہوں نے کہا میں نے کئی بار لکھ کر اجازت لینا چاہی مگر گورنر صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔
ملک معراج خالد نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا مگر میں نے بحث شروع کر دی۔ میں نے کہا آپ سرکاری افسر ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب کو سفید رنگ کی جو پرانی گاڑی دی ہے میں نے خود اس میں کئی بار سفر کیا ہے۔ اس کی بریک جھٹکے سے لگتی ہے۔ اے سی کام نہیں کرتا آئے دن خراب ہو جاتا ہے۔ ایک دن ملک معراج خالد صاحب رکشے میں سول سیکرٹریٹ گئے تھے جہاں ان کا دفتر ہے کیا سرکاری بیڑے میں کوئی نئی گاڑی نہیں ہے۔ اس پر کمپر ولر صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ تو گورنر ہاؤس جاتے رہتے ہیں۔ گورنر صاحب سے خود بات کر لیں لیکن ملک معراج خالد اول و آخر دنیا وی سہولتوں سے گریز کرنے اور اپنے لئے کوئی سہولت نہ مانگنے والے انسان تھے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ ضیا صاحب ۔ جانے دیں۔ میں کسی سے شکایت نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کسی کو خود ہی خیال آ گیا تو یہی گاڑی مرمت کروادے گا۔
اس دن ہم گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گپ شپ کرتے رہے۔ بھٹی صاحب نے کہا سر پیاس لگی ہے ٹھنڈا پانی پلوادیں۔ ملک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں متعدد ملازمین موجود تھے لیکن معراج خالد صاحب نے کہا میں آپ کو پانی پلاتا ہوں۔ وہ اٹھے تو ہم بھی ان کے پیچھے ہولئے۔ ساتھ والے کمرے میں جو ڈائننگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا ایک پرانا لیکن بہت بڑا فریج رکھا تھا۔ ملک صاحب نے کسی ملازم کو نہ بلایا خود ہی فریج کھولا۔ اگر ان کے پیچھے ہم دونوں نہ کھڑے ہوتے تو بجلی کا جو جھٹ کا انہیں لگا تھا اسی کے باعث وہ فرش پر گر پڑتے۔ بھٹی صاحب نے شور مچانا شروع کیا تو ایک ملازم آیا۔ بھٹی صاحب نے اسے ڈانٹا کہ فریج کے ہینڈل میں کرنٹ آ رہا ہے خدا کا خوف کرو۔ جو کھولے گا اسے جھٹکا لگے گا۔ ملازم بولا جی کئی مرتبہ لکھ کر دیا ہے کوئی سنتا ہی نہیں ۔ معراج خالد صاحب کے کہنے پر ملازم دو گلاس لے آیا اور پھر فریج کھولنے لگا تو ہم نے منع کیا اس نے کہا جناب میں نے ربر کے جوتے پہن رکھے ہیں مجھے جھٹکا نہیں لگے گا۔ پانی پی کر ہم دوبارہ ڈرائینگ روم میں آگئے اور میں نے ملک صاحب سے بحث شروع کر دی۔ میرا موقف تھا کہ حکومت جس راستے چل رہی ہے وہ سراسر غیر آئینی ہے۔ وزیراعلیٰ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے لیکن غلام مصطفیٰ کھر صاحب سارے اختیارات غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کو آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے اختیار واپس لینے چاہئیں۔ ملک صاحب بولے میں نے بہت طویل عرصہ سیاست میں گزارا ہے۔ کھر صاحب ابھی جوان ہیں اور انہیں حکومت کرنے کا شوق بھی ہے ۔ جلد ہی شوق پورا ہو جائے گا تو اختیارات اپنی اصل جگہ واپس آجائیں گے۔

یہ تھے ملک معراج خالد ۔ جب سے میں انہیں جانتا تھا وہ اسی طرح کے انسان تھے۔ ایفرو ایشیائی تنظیم کے مال روڈ والے دفتر میں جاتا تو بھی اکثر وہ اپنے مہمانوں کو خود پانی پلاتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں درویش صفت انسان تھے۔ غرور اور اکڑ پن ان کے قریب سے نہ گزرے تھے۔ بہر حال جلد ان کی آزمائش کے دن پورے ہوئے اور وہ مرکز میں وزیر زراعت بن گئے۔ میرا خیال ہے کہ اگر دنیا کی سب سے زیادہ تنخواہ والی ملازمت یعنی اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل شپ بھی انہیں مل جاتی تو بھی ان میں غرور کا شائبہ تک نہ آتا۔ وہ لاہور آتے تھے۔ تو ہمیشہ دوستوں کو خود ملنے جاتے یا شیزان لارڈ زیا بیڈن روڈ پر واقع کیری ہوم یا گیری آن میں کھانے کی دعوت دیتے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ان کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔
ملک معراج خالد 20 ستمبر 1916ء کو ضلع قصور کے ایک گاؤں کوٹ رادھا کشن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ معراج خالد پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور لاہور کے نواحی علاقہ برکی کے ایک چھوٹے کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں انہوں نے سیاست کا آغاز کیا اور کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔ وہ ہمیشہ اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ تعلیم کے دنوں میں، میں ساتھ ساتھ دودھ بھی فروخت کرتا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے حکومت کی غلطیوں پر ایک پمفلٹ لکھا جس کا عنوان ضمیر کا بحران تھا۔ جب ذوالفقار بھٹو نے ایوب خان حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو وہ لاہور میں ملک معراج خالد کی بنائی ہوئی تنظیم ” ایفرو ایشین پیپلز سالیڈیریٹی کے پلیٹ فارم سے پہلی بار حزب مخالف کے رہنما کے طور پر عوام کے سامنے آئے۔ ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں بھٹو صاحب کے ساتھ شامل ہوئے اور بڑے خلوص کے ساتھ پارٹی کے فیصلوں پر عمل کیا۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو صاحب کی حکومت کے آغاز ہی میں انہوں نے وزیروں، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے لئے یونیفارم بنوائی۔ جب ملک معراج خالد سرکاری یونیفارم پہن کر اور بیڈن روڈ کے واحد ایئر کنڈیشنڈ ریسٹورنٹ کیری آن میں بیٹھے تھے تو میں نے ان کی وردی کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ میں نے کہا جناب یہ تو بینڈ بجانے والے کی وردی لگتی ہے۔ ملک صاحب ہنستے رہے میرے بہت اعتراض کرنے پر بولئے مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے، لیکن پارٹی لیڈر کا حکم ہے میں نے کہا دعا کریں پارٹی لیڈر کہیں لنگوٹی پہن کر سرکاری اجلاسوں میں جانے کا حکم نہ دے دے۔ اس پر ملک صاحب کے گرد بیٹھے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے مجھ پر چڑھائی کر دی۔ ملک صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بولے میرے دوست ضیا شاہد اخبار نویس ہیں، آپ کو ان کی تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کرنی چاہئے ۔ آپ مزید ایک لفظ بھی نہ بولیں۔ 1977 ء کے الیکشن ہوئے تو ملک معراج خالد ایک بار پھر بطور ایم این اے کامیاب رہے اور مختصر وقت رہنے والی قومی اسمبلی کے سپیکر بنے ۔ انہوں نے جہاں تک ہو سکا پی این اے اور پیپلز پارٹی کے جھگڑے میں خاموشی اختیار کی حتی کہ ضیاء الحق صاحب نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں ایم آرڈی کی موومنٹ میں ملک معراج خالد نے بڑی جدوجہد کی وہ فوجی آمریت کیخلاف تھے اور ضیا دور میں انہوں نے جیل بھی کائی ۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو پہلی بار بطور پارٹی سربراہ کے وطن واپس آئیں تو دوسرے سینئر ارکان کی طرح انہوں نے ملک معراج خالد کو بھی پرانے دور کے انکل سمجھتے ہوئے پارٹی سے اور اپنی ذات سے دوررکھا۔ 1988ء میں نئے الیکشن کے بعد بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو ملک معراج خالد کو ایک بار پھر قومی اسمبلی کا پیکر بنایا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان نے فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کے ساتھ مل کر بینظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کیا تو ملک معراج خالد کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی تو انہوں نے معذرت کر لی۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے ان کے فاصلے مزید بڑھ گئے ۔ 1993 کے الیکشن میں بینظیر بھٹو نے معراج خالد کو پارٹی ٹکٹ نہ دیا۔ سیاست سے وقتی علیحد – باعث انجمن اخوان اسلام کے نام سے تعلیمی اور معاشرتی تنظیم بنائی جس کے ماتحت لاہور کے بارڈر کے ایریا میں سکول بنائے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹربھی مقرر ہوئے۔
جب صدر فاروق احمد خان لغاری نے 28-58 کے تحت بینظیر بھٹو کی حکومت دوسری بارختم کی تو ملک معراج خالد کو جو گھر بیٹھے ہوئے تھے راتوں رات بلا کر تین ماہ کے لئے نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ہمارے دوست اور خبریں کے آج کل کے مستقل کالم نگار قسور سعید مرزا ایوان صدر میں فاروق لغاری کے میڈیا انچارج تھے تو ملک معراج خالد نے پیپلز پارٹی کے معروف صوبائی وزیر تعلیم اور پاکستان موومنٹ کے سیاسی ورکر ملک غلام نبی کے بیٹے شاہد نبی ملک کو اسلام آباد میں اپنا پریس سیکرٹری مقرر کیا۔ اتفاق سے شاہد نبی ملک بھی روز نامہ ” خبریں“ کے مدتوں کا لم نگار رہے۔ ملک معراج خالد کے نگران وزارت عظمی کے دور میں انہوں نے متعدد بار مجھے اسلام آباد بلایا۔ میں نے کہا جناب آپ تین ماہ میں کیا تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ بولے مجھے حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں، وہ بھی عارضی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نگران ہی سہی لیکن وزیر اعظم کے طور پر میں سیاست کے لئے صحیح رخ متعین کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں اور عوام کو اس امر کے لئے تیار کرنا میرا فرض ہے کہ وہ صحیح نمائندوں اور صحیح پارٹی کو ووٹ دیں ۔ میری موجودگی میں متعدد لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تین ماہ بعد الیکشن نہ ہوں اور آپحکومت کرتے رہیں، تو ملک صاحب اتنے بھلے انسان تھے کہ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ اگر الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو میں نگران وزارت عظمی چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا اور ایک دن بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ انہی دنوں میرے دوست محمد علی درانی اور ”خبریں“ کے پرانے کالم نگار حسن نثار میرے علاوہ ان کے بہت چہیتے تھے۔ حتی کہ جس دن الیکشن ہورہے تھے وہ سارا دن مال روڈ پر سرکاری قیام گاہ کے ایک کمرے میں ہم تینوں کیساتھ بحث کرتے رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ آپ نے تین ماہ ضائع کئے ہیں کیونکہ تین ماہ میں آپ کی تقریریں اور بیانات قوم کا ذہن تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ملک معراج خالد مطمئن تھے کہ انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ روزانہ کوئی تقریر بیان یا مضمون لکھیں اور ووٹر کا ذہن تبدیل کریں۔ انہی دنوں بعض دوستوں نے عمران خان کے گرد گھیرا ڈالا کہ وہ سیاست میں آئیں۔ ان کی سیاست میں آمد کا فیصلہ زمان پارک میں ان کے گھر ہونے والے دوستوں کے اجلاس میں ہوا۔ البتہ جب عمران خان کو سیاست میں آمد کا اعلان کرنا تھا تو روزنامہ خبریں کے دفتر میں رات دو بجے سے صبح چھ بجے تک کچھ دوستوں کو پوائنٹس لکھوائے۔ اسے ایک بیان کی شکل میں نے دی۔ ابھی نام تجویز نہیں ہوا تھا تا ہم بعد ازاں تحریک انصاف کا نام رکھنے میں حسن شار نے اہم کردار ادا کیا۔ اس رات تین بجے سے چھ بجے تک عمران کی پہلی تقریرکمپوز ہوئی۔ اس پر بحث کر کے بار بار تبدیلیاں کروائی گئیں اور 6 بجے یہ مشق سخن مکمل ہوئی۔ اسی روز دو پہر گیارہ بجے ایوان اقبال سے قریب ہالی ڈے ان ہوٹل میں پریس کانفرنس کے لئے جگہ حاصل کی گئی اور عمران خان نے سیاست میں آمد کا اعلان کر دیا۔ میری معلومات کے مطابق ان کی سیاست میں آمد کے پیچھے ملک معراج خالد کے مشورے بھی شامل تھے۔ ایک بار شاہد نبی ملک کے گھر ملک معراج خالد سے عمران خان کی ملاقات بھی ہم لوگوں نے کروائی۔ اس موقع پر دونوں کی طرف سے مجھے بطور خاص مدعو کیا گیا۔ ہمیشہ دوستوں کو خود ملنے جاتے یا شیزان کارڈ زیا بیڈن روڈ پر واقع کیری ہوم یا کیری آن میں کھانے کی دعوت دیتے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ان کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ الیکشن میں میاں نواز شریف صاحب کامیاب ہوئے تو ملک معراج خالد نے فاروق لغاری صاحب سے مل کر اقتدار مسلم لیگ ن کے سپرد کیا اور لاہور واپس آگئے ۔ ملک معراج خالد نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان بھی نہیں کیا تا ہم وہ خاموشی سے ایک طرف ہو گئے۔
ملک صاحب انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی بار خود یہ بتایا کہ وہ علی الصبح تین بجے نیند سے بیدار ہوتے ۔ بھینسوں کا دودھ اپنے ہاتھ سے دو ہتے ، پھر بازار بیچنے جاتے۔ مقامی سکول کے بعد اسلامیہ کالج سے بی اے آنرز کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ کالج میں پڑھتے تھے تو بیان کیا ہے کہ ان کے اور ان کے والد کے پاس ایک ہی جو تا تھا۔ کالج جاتے وقت والد سے جوتا لیتے اور واپس آکر انہیں واپس کر دیتے۔ شام سے رات تک ملک صاحب بغیر جوتے کے چلتے پھرتے۔ انجمن اخوان اسلام کے تحت اخوان ہائی سکول شروع کیا اور جب حکومت نے سارے سکول قومیا لیے تو ان کے سکول کا بندوبست بھی تباہ ہو گیا۔ برسوں بعد وہ خود نگران وزیر اعظم بنے تو کوشش کر کے یہ سکول انجمن کو واپس دلوایا۔ برکی میں ایک کالج بھی بنایا جس کے افتتاح کیلئے صدر فاروق لغاری کو بلایا ان کی بیگم نے جو استانی تھیں ایک تقریب میں اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ ملک صاحب کی وزارت اعلیٰ، وزارتیں اور سپیکر شپ تو عارضی ہے میں اپنی مستقل نوکری کیوں چھوڑوں ۔ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک فریج ہے جس کا پانی مہمانوں کیلئے ہے خود ہم نے دو گھڑے رکھے ہوئے ہیں جن کا پانی پیتےہیں ۔ ملک صاحب کو پروٹو کول سے سخت نفرت تھی۔
نگران وزیر اعظم کے طور پر بھی وہ ایئر پورٹ پر وی آئی پی راستے سے جہاز تک نہیں جاتے تھے بلکہ عام مسافروں کے ساتھ جہاز پر سوار ہوتے ۔ مگر وزارت عظمی کے بعد میں نے انہیں
بے شمار مرتبہ اپنی گاڑی خود چلاتے دیکھا۔ میں نے ”خبریں بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر سوسائٹی فار ہیومن رائٹس کا دفتر بتایا تو انہیں پیشکش کی کہ جب چاہیں اس خالی دفتر میں آکر بیٹھ جایاکریں۔ ایک پی اے موجود ہوگا، دو ٹیلی فون تھے اور ٹھنڈا پانی میسر تھا۔ دونوں کمروں میں اے ی لگے ہوئے تھے۔ ڈیڑھ دو سال تک ملک صاحب ہمیشہ مجھے بتائے بغیر جس روز جی چاہتا وہاں آکر بیٹھ جاتے او سختی سے منع کرتے کہ ضیاصاحب کو نہ بتا ئیں وہ اپنا کام چھوڑ کر نیچے آجا ئیں گے۔ ایک بار مجھے ملنے آئے تو میں کہیں باہر گیا ہوا تھا میرے کمرے کے سامنے عدنان شاہد مرحوم کا کمرہ تھا۔ انہوں نے ملک صاحب کو دیکھا تو ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ میں آیا تو میں نے معذرت کی ملک صاحب بولے مجھے بہت اچھی کمپنی مل گئی تھی ۔ پھر عدنان مرحوم کی بہت تعریف کی اور کہنے لگے بڑا خوش مزاج اور ذہین لڑکا ہے۔ اس دن کے بعد میں جہاں ملتا خود جاتا یا وہ تشریف لاتے تو عدنان کا ضرور پوچھتے۔ انہوں نے عدنان مرحوم کی رائٹنگ دیکھی تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے میں نے اپنی زندگی کی یادداشتیں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور عدنان شاہد سے طے ہوا ہے کہ میں بولتا جاؤں گا اور وہ لکھتے جائیں گے۔ پھر کمپوزنگ کے بعد اس کے پروف بھی وہ خود پڑھیں گے۔
ملک صاحب وقت کے بہت پابند تھے۔ لاہور میں جتنی شادیوں کے دعوت نامے انہیں ملتے وہ کارڈ پر لکھے وقت کے مطابق پہنچ جاتے ۔ خود میری بیٹی اور دونوں بیٹوں کی شادیوں پر آئے جب گھر کے دو چار لوگوں کے سوا کوئی نہیں پہنچا تھا وہ ہمیشہ ایک ہی جملہ بولتے کہ ابھی سارے مہمان نہیں آئے۔ میں علاقے میں چکر لگا کر اور کچھ دوستوں سے مل کر آتا ہوں ۔ اس طرح دوسری بار گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آکر شادی کی تقریب میں آخر تک شرکت کرتے ۔ ملک صاحب ہمیشہ ذہنی انقلاب لانے کے خواہشمند ہوتے تھے لیکن پہلے عملی نمونہ بن کر دکھاتے پھر کسی کو نصیحت کرتے ۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ میرے ساتھ چلو میں آپ کو ایک ایسے شخص سے ملاتا ہوں جس کے دل میں انسانیت کا درد ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ بہت ترقی کرے گا۔ میں گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا وہ خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈیفنس کی مین روڈ پر لے گئے۔ پھول والوں کی دکانوں کے پاس ایک چھوٹی سی بلڈنگ کی بالائی منزل پر ملک ریاض صاحب کا دفتر تھا۔ ابھی بحریہ ٹاؤن کا وجود سامنے نہیں آیا تھا ملک صاحب نے میرا تعارف ان سے کروایا اور پھر بولے ان سے بہت زیادہ امیر لوگ اس ملک میں موجود ہیں لیکن وہ دل کے غریب ہیں یہ شخص بظاہر پراپرٹی ڈیلر ہے لیکن آؤٹ آف دی وے جا کر غریبوں مظلوموں ، بیواؤں اور قیموں کی مدد کرتا ہے۔ پھر کہنے لگے ضیا صاحب اگر اس نے یہی وطیرہ جاری رکھا تو اللہ اس کو اتنا کچھ دے گا کہ اس سے سنبھالا نہیں جائے گا۔ کیونکہ اللہ نے اس کے رزق میں سے بے شمار غریبوں اور محروموں تک مدد پہنچانی ہے۔ بہت برس بعد جب بحریہ ٹاؤن کا آغاز ہو چکا تھا اور اسلام آباد کا پہلا پراجیکٹ مکمل ہو چکا تھا تو ملک ریاض نے راولپنڈی میں عسکری کالونی کے قریب دفتر میں مجھے ناشتے پر بلایا جب میں وہاں پہنچا تو مجھے بتایا کہ ملک معراج خالد نے بحریہ ٹاؤن کی چیئر مینی قبول کر لی ہے۔ پھر انہوں نے ملک صاحب سے فون پر بات کروائی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ملک صاحب سے کہو کہ آپ کو اپنی تعمیراتی معیار سے آگاہ کریں۔ پھر خود بھی ملک ریاض سے بات کی میں نے اپنی گاڑی و ہیں چھوڑی اور ملک صاحب کے ساتھ ان کی پہلی کالونی میں جا کر چند مکانات جوزیر تعمیر تھے ان کا مشاہدہ کیا اور جو انتہائی دیدہ زیب اور ان کا بڑا مضبوط میٹریل لگایا گیا تھا اس پر انہیں مبارکباد دی۔ مجھے یقین ہے کہ ملک معراج خالد کی تربیت اور مشوروں ہی کے سبب ملک ریاض صاحب نے ان کے بڑے بڑے خیراتی منصوبوں پر رقم لگائی۔ وہ کام جو حکومتیں نہیں کر سکتی تھیں ملک ریاض نے کر دکھائے۔ ایک بار ان کے خیراتی پراجیکٹ دیکھ کر میں نے ان پر ایک کالم لکھا کہ ملک صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کے باعث اور انسان دوستی اور غریب پروری کے سبب انہیں پاکستان کا آئندہ صدر ہونا چاہیے۔ یہ چند سال پہلے کا ذکر ہے ملک معراج خالد دنیا سے جاچکے تھے لیکن ملک ریاض صاحب سے گفتگو کریں تو وہ ہر دوسرے تیسرے جملے میں ملک معراج خالد کو یاد کرتے تھے۔
ملک معراج خالد نے بھی کوئی گھر نہیں بنایا۔ ان کی اپنی اولاد نہیں تھی ۔ انہوں نے اپنے عزیزوں کا ایک بچہ لے کر پالا جس کا نام ملک زبیر تھا۔ عمر بھر انہوں نے ملک زبیر کیلئے بھی کوئی نا جائز کام نہیں کیا حتی کہ ان کے روز گار، رہائش اور زندگی کی دیگر سہولتوں کیلئے بھی کوشش نہیں کی ۔ ملک صاحب خود ہال روڈ کو بیڈن روڈ سے ملانے والی چھوٹی سڑک کے گر دو پیش فلیٹوں میں رہائش پذیر رہے۔ لیکن جس فلیٹ میں انہوں نے زندگی کے آخری برس گزارے وہ بھی ان کی ملکیت نہیں تھے۔ ایک بہت پرانا واقعہ سنا کر میں پڑھنے والوں سے اجازت چاہوں گا کیونکہ میں نے ملک معراج خالد کے ساتھ زندگی کا بہت بڑا حصہ گزارا ہے اور میں ان واقعات کو لکھنا شروع کروں تو شاید کئی سو صفحات کی کتاب تیار ہو جائے ۔ بھٹو صاحب نئے نئے حکومت میں آئے میں ان کی پارٹی میں شامل ہوا نہ ان کا چاہنے والا تھا۔ لیکن میرے بہت سے دوست پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن تھے۔ حنیف رائے راجہ منور ایم کے خاکوانی کوثر نیازی ملک معراج خالد اور بہت سے دوسرے۔ ملک معراج خالد کو معلوم تھا کہ ان دنوں میری ایئر مارشل اصغر خان سے بہت دوستی تھی، اس کے باوجود معراج خالد اس قدر نفیس انسان تھے کہ میرے ساتھ انہوں نے مدتوں دوستی اور بھائی چارہ نبھایا۔ ایک دن وہ ہفت روزہ ” صحافت کے زمانے میں میری رہائش گاہ 38 ملتان روڈ پر آئے اور بولے میرے ساتھ چلو مجھے آپ کو ایک جگہ دکھانی ہے۔ بڑے مزے کی جگہ ہے چھپ کر بیٹھنا ہو یا کچھ لکھنا لکھانا ہو بڑی پرسکون اور الگ تھلگ ہے۔ حسب معمول وہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے۔ کہنے لگے میں آپ کو واپس بھی چھوڑ جاؤں گا۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ان دنوں شیر پاؤ برج نہیں بنا تھا اور ہم بازار سے گزر کر ریلوے پھاٹک پر رکتے ہوئے دوسری طرف پہنچے اور دوبارہ ایئر پورٹ کو جانے والی سڑک پر پہلے ہی چوک میں بائیں طرف ایک دفتر کے سامنے رکے۔ دفتر پر ریٹائرڈ فوجیوں کی بہبودی کا ادارہ لکھا ہوا تھا۔ ملک معراج خالد نے بتایا کہ میرے ایک دوست اس کے نگران ہیں اور انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ آپ جب چاہیں میرے کمرے میں بیٹھ کر کچھ لکھیں یا لکھوائیں۔ ہم اندر کمرے تک پہنچے۔ کچھ ملازموں نے ہماری بہت آؤ بھگت کی ۔ ملک صاحب بولے میں نے ایک تفصیلی پمفلٹ لکھواتا ہے اور آپ اسے لکھیں گے۔ میں نے کیا ملک صاحب میرے خیال میں مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کرنے میں اندرا گاندھی کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو یکی خان اور شیخ مجیب الرحمن کا بڑا ہاتھ تھا۔ ابھی حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی اس لئے ہم سب حقائق سے بے خبر ہیں تاہم فرنٹیئر گارڈین ویکی کے ایڈیٹر اور معروف کارٹونسٹ وائی ایل جن کا اصل نام یوسف لودھی ہے کی رٹ کا ترجمہ آپ نے ضرور پڑھا ہوگا۔ میں نے اسے اردو میں ترجمہ کیا اور میں نے ہی چھاپا ہے۔ اس کتا بچے کا نام بھٹو نے پاکستان توڑا ہے لہذا آپ نے پمفلت کا جو عنوان بتا یا وہ پیپلز پارٹی کی نظریاتی بنیادیں ہیں۔ جس پارٹی کے سیاسی کردار سے متفق ہی نہیں ہوں لہذا میں شاید بہتر نہیں لکھ سکوں گا۔ آپ کا حلقہ احباب اتنا وسیع ہے کہ آپ پیپلز پارٹی کے مداح لکھاری سے اسے لکھوائیں۔ میرے جواب پر ملک صاحب نے بحث شروع کر دی اور بولے کہ مجھے سب معلوم ہے لیکن میرے جاننے والے دوستوں عزیزوں میں اس کام کیلئے آپ سب سے موزوں ہیں۔ انہوں نے کہا جب آپ مجھے لکھواتے ہوئے سنیں گے تو میری ہر بات سے آپ کو اتفاق کرنا پڑے گا۔ قصہ مختصر ملک صاحب کی محبت، شفقت اور خلوص سے میں ہمیشہ بہت متاثر رہا لہذا مجھے حامی بھرنا پڑی۔ انہوں نے کہا نیا صاحب روزانہ صرف دو گھنٹے درکار ہوں گے۔ آدھ گھنٹہ آنے کا اور جانے کا اس کے علاوہ ہے۔ اگلے روز سے میں نے وہاں جاتا شروع کر دیا۔ ملک صاحب مجھ سے پہلے ہی پہنچ جاتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے جن نظریاتی بنیادوں کی تشریح کی تھی وہ ایک فلاحی مملکت کی نشاندی کوتی تھیں ۔ ملک صاحب بولتے جاتے اور میں لکھنے کے بعد ایک بار پھر انہیں سنا تا۔ روزانہ جو میٹر تیار ہوتا وہ میں اپنے دفتر میں کاتب حضرات کے سپرد کر دیتا کیونکہ اس وقت تک کمپیوٹر پر نوری نستعلیق ایجاد نہیں ہوا تھا۔ کا تب حضرات اسے اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ ایک دن دوران تالیف میری ان سے پھر بحث ہوگئی۔ میں نے بھٹو صاحب کے سیاسی رول پر نکتہ چینی شروع کردی۔ میں نے اپنی زندگی میں بھی معراج خالد صاحب کو اپنے کسی کٹر مخالف کے بارے کے گالی دیتے یا برا بھلا کہتے نہیں سنا لیکن اس روز بحث میں وہ میری بعض باتوں سے متفق اک ہوگئے۔ انہوں نے کہا حمود الرحمن کمیشن آنے دیں اس الزام کی بھی تحقیق ہو جائے گی۔ وہ کی بول رہے تھے اور میں لکھ رہا تھا کہ اچانک ان کے منہ سے ایک جملہ نکلا ذوالفقار علی بھٹو ہمارے قائد ظلم جہالت اور استحصال کے اندھیروں میں روشنی کا ایک مینار ہیں۔ تب وہ اچانک رکے اور ان کے منہ سے بھٹو صاحب کیلئے اس قدر خوفناک الفاظ نکلے جنہیں میں کسی بھی طرح دہرا نہیں سکتا۔ میرے پاؤں تلے سے زمین سرکنے لگی۔ میں نے کہا ملک صاحب یہ آپ کہہ رہے ہیں۔ ملک صاحب کا دل بہت دکھی تھا۔ کہنے لگے آپ ٹھیک کہتے ہیں، میں شاید زیادہ دیر ان لوگوں کے ساتھ نہ چل سکوں۔ پیارے قارئین! اللہ جانتا ہے اور میں حلف اٹھاتا ہوں کہ ملک صاحب نے روشنی کے مینار کیلئے خوفناک الفاظ بھی استعمال کئے تھے جو کسی طرح گالی سے کم نہیں تھے اور بعد میں یہ بھی کہا تھا کہ میں شاید زیادہ دیر ان لوگوں کے ساتھ نہ چل سکوں۔ میں نے انہیں چھیڑا اور کہا کہ ملک صاحب یہ تبرکات اور مغلظات بھی لکھ لوں وہ بولے پلیز ابھی نہیں لیکن شاید قسمت مجھے ایک دن یہاں بھی لے جائے کہ جن لوگوں کیلئے میں نے برسوں قربانیاں دی ہیں، ان کے خلاف زبان کھول سکوں۔ میں نے مزید کریدنا چاہا تو انہوں نے کہا ضیا صاحب بس کریں مجھے کچھ باتیں یاد کر کے بھی دکھ ہوتا ہے۔ چشم فلک نے بہر حال یہ دیکھا کہ معراج خالد واقعی ان کے ساتھ نہ چل سکے اور جس لوٹ مار کی وجہ سے فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی تھی
انہیں صدر اغاری صاحب کے ساتھ نگران وزیر اعظم بننا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک معراج خال صاحب لغاری صاحب کے اس فیصلے سے متفق تھے ورنہ اللہ جانتا ہے کہ وہ تین ماہ کی حکومت کیلئے ہر گز ہر گز آمادہ نہ ہوتے ۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ انتہائی دکھی اور ڈپریشن کا شکار تھے اور اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے ملک وقوم کی بہتری کیلئے بھٹو صاحب کو لیڈ ر مانا تھا۔ ان کی بیٹی کو او پر آنے کا موقع دیا تھا شاید ہم سے غلطی ہوئی تھی اور ہمیں اس کی پاداش میں طویل دکھ برداشت کرنے پڑے۔ ملک معراج خالد لوٹ کھسوٹ خاندانی بادشاہت، پروٹوکول والی حکومت سیاسی کرپشن اور مسٹر ٹین پرسنٹ کے ریمارکس سے بہت رنجیدہ ہوتے تھے۔ وہ اکثر کہتے سنے گئے کہ بھٹو صاحب نے ایک عظیم موقع گنوا دیا۔ لوگ ملک ٹوٹنے کے بعد تیار بیٹھے تھے کہ اگر بھٹو قوم سے یہ اپیل کرتے کہ ایک وقت کھانا چھوڑ دے تو نوے پچانوے فیصد عوام اس کیلئے بھی تیار ہو جاتی مگر انہوں نے نظریاتی کارکنوں کا ساتھ چھوڑ کر نوابوں جاگیر داروں، پیسے والوں اور اقتدار میں آکر پیسہ بنانے والوں کی سر پرستی کی ۔ بھٹو واقعی ایک ہیرو تھے جو کیچڑ میں گر کر ضائع ہو گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں