158

حنیف رامے فور ان ون

ضیاشاہد

سیاست کی دنیا میں بے شمار لوگوں سے ملاقات رہی لیکن کسی نے مجھے ذاتی طور پر متاثر نہیں کیا ، سوائے حنیف رامے کے۔ رامے صاحب کا پہلا روپ اس وقت کی سرکاری مسلم لیگ یعنی ایوب خان کی کنونشن لیگ کے سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے افسر کا تھا۔ انہوں نے اپنے اخبار’’ ماہنامہ ” نصرت کا بنیادی جمہوریت نمبر بھی چھاپا۔ خاندان میں سب کے کاروبار الگ الگ ہو گئے تھے اور مکتبہ جدید سے کئی شاخیں پھوٹیں ان میں بشیر چودھری صاحب کی ” میری لائبریری‘‘ جو سستی کتابوں کے نیوز پرنٹ ایڈشنوں پر مشتمل تھی ۔ رامے صاحب کے بڑے بھائی رشید احمد چودھری کے حصے میں مکتبہ جدید پریس آیا اور رامے صاحب’’ ماہنامہ ” نصرت اور کتابوں کے’’ پبلشرز البیان ‘‘کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے نظر آئے۔ حنیف رامے صاحب کے بھانجے محمد اکرام اں دکان پر بیٹھتے تھے۔ میری رامے صاحب سے ملاقات اسی دکان پر ہوئی پھر پیپلز پارٹی کا طوفان اٹھا اور حنیف رامے نے ’’ نصرت‘‘ کا اسلامی سوشلزم نمبر نکالا اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ انہی دنوں ’’پاکستان ٹائمنز‘‘ میں اسلامی سوشلزم پر بحث چلی تو کراچی کے صنعت کا راے کے سومار نے اسلامی سوشلزم کے خلاف مورچہ سنبھالا جس کا جواب حنیف رامے دیتے رہے۔ اے کے سومار پریس ٹرسٹ کے چیئر مین بھی رہے اور مودودی صاحب کے کیمپ کی طرف سے سوشلزم کے خلاف لکھے جانے والے پمفلٹس کی اشاعت بھی کرواتے رہے جو بالکل فری تقسیم کیے جاتے تھے۔ بعد ازاں اخبار’’ مساوات‘ نکلا جس کے پارٹی کی طرف سے رامے صاحب ایڈیٹر مقرر ہوئے اور بے شمار اخبارات کے مقابلے میں مساوات نے روز ناموں میں اکیلے ہونے کے باوجود بڑی جنگ لڑی۔ رامے صاحب کی تعلیم اکنامکس میں ماسٹرتھی۔ شاید اور بھی بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ زمانہ طالب علمی ہی میں انہوں نے شاہین کو پسند کیا جو ابھی رائے نہیں بنی تھیں ۔ ” مساوات کے دفتر میں میری بیسیوں مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ مساوات کے ٹولے میں شاید واحد شخص تھے جو بائیں بازو کے نظریات سے مختلف اور پارٹی کو اسلامی سوشلزم کے راستے پر استوار کرنا چاہتے تھے جبکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ سیدھے سیدھے بائیں بازو کے لوگ تھے جو مذہب سے خاصے دور تھے اور ان کا سوشلزم کمیونزم سے بہت قرب تھا۔ الیکشن سر پر آئے تو رامے صاحب لاہور کی ایک نشست سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور پنجاب کی پہلی کا بینہ بنی تو عبوری آئین کے تحت ملک معراج خالد وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے جبکہ غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر بنے ۔ وہ چونکہ بھٹو صاحب کے بہت قریب تھے اور بھٹو صاحب مصطفی کھر کو اپنا جانشین قرار دیتے تھے اس پر مستزاد یہ کہ آئین بھی عبوری تھا اور ملک معراج خالد کو عارضی طور پر وزیراعلی بنایا گیا تھا لیکن تمام اختیارات مصطفیٰ کھر استعمال کرتے تھے اس کابینہ میں حنیف رامے کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ اس دور میں بھی میری ان سے بہت ملاقاتیں رہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے مہذب انسان تھے جبکہ پیپلز پارٹی میں ہلے گلے کا دور تھا۔ ملک غلام نبی اپنی سخت گفتگو بلکہ گالم گلوچ کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ افتخار تاری کو پنجاب کا بینہ کے بدمعاش کا رول کس نے دیا تھا۔ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تا ہم سیکرٹری حضرات کی گوشمالی کے علاوہ ان کے گھر پر جاؤ تو پچاس ساٹھ ورکرز ہر وقت بیٹھے ہوتے تھے اور ان کیلئے کھانے اور چائے وغیرہ کا بندوبست ہوتا تھا۔ میں افتخار تاری کو بہت مدت سے جانتا تھا متوسط گھر کا نو جوان تھا اور پیپلز پارٹی کا فل ٹائم ور کر بننے سے پہلے ان کے پاس ایک سکوٹر ہوتا تھا اور وہ کسی دوا ساز ادارے کے میڈیکلریپ تھے جب ان کی فتوحات حد سے بڑھنے لگیں تو میں ان سے ملنے گیا۔ حسب معمول دھما چوکڑی مچی ہوئی تھی۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا کہ جو بھی کام ہے حکم کریں۔ میں نے کہا مجھے اکیلے میں بات کرنی ہے وہ مجھے ڈرائنگ روم سے اٹھا کر ایک کمرے میں لے گئے جو بظاہر کوئی بیڈ روم لگتا تھا اور کہنے لگے یا بھائی ! حکم کریں۔ میں نے کہا میں لاہور سیکرٹریٹ سے آپکے کچھ کارنامے سن کر آیا ہوں جس سے مجھے بہت افسوس ہوا۔ تاری صاحب آپ تو ایک شریف آدمی کے بیٹے ہیں لیکن یہ حکومت آپ کو بدمعاش بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے۔ مجھے پہلے بھی بتایا گیا تھا کہ آپ کے گھر پر سو پچاس لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں تا کہ کسی کی گوشمالی کرنی ہو تو کر سکو۔ میرا فرض ہے کہ ایک دوست کی حیثیت سے تمہیں سمجھاؤں کہ باقی وزیروں کو یہ ڈیوٹی کیوں نہیں سونپی گئی۔ یہ تمہارے گھر میں ہر وقت سو پچاس بندے کیوں پالے جا رہے ہیں اور تمہیں سیکرٹریوں کی بے عزتی کرنے کا کام کیوں سونپا گیا ہے۔ وہ وضاحتیں کرتے رہے کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا وہ بنیادی طور پر محنت کش اور شریف آدمی تھے۔ میں نے کہا آپ کو جو رول دیا جا رہا ہے اس کا نتیجہ بہت خوفناک نکلے گا۔ جب آپ سے کافی کام کروالیا جائے گا جس کے سب ثبوت بھی حکمرانوں کے پاس ہونگے تو آپ خود بھی پکڑے جاؤ گے۔ افتخار تاری سے میرا تعلق ان کی زندگی کے آخری سانس تک رہا۔ وہ ہمیشہ میری طرف آتے رہے اس لیے میری بہت عزت کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ آئندہ خیال رکھیں گے لیکن جو کہانیاں وہ سنا رہے تھے اس سے لگتا نہیں تھا کہ وہ اپنی روش بدل سکیں ۔ یہ ایک الگ داستان ہے بس حنیف رامے کے ذکر میں یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ بہت آگے چل کر جب حنیف رامے اور مصطفیٰ کھر نے بھٹو صاحب سے بغاوت کی تو کھر صاحب کی محبت میں تاری صاحب بھی باہر نکلے اور گوجرانوالہ کے ارشاد اور لاہور کے میاں اسلم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ایف ایس ایف نے انہیں اٹھایا اور آزاد کشمیر میں مظفر آباد سے ذرا پہلے ولائی کے مقام پر بند کر دیا۔ اس زمانے کی عام روش یہ تھی کہ کسی کو پکڑتے تو ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی ضلع عدالت میں بیان دیتے کہ یہ شخص ہمارے پاس نہیں ہے۔ یوں عرف عام میں یہ پتہ چلنے کے باوجود کہ تاری اینڈ کمپنی کسی دلائی کیمپ میں ہونگے جو پاکستان کی سرزمین پر ہی نہ ہو اور معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا۔ یہ تین لوگ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جس میں لاہور کے باب وارث بھی تھے یہ سب مہینوں کیا برسوں تک وہاں نظر بند رہے۔ اس قید سے رہا ہو کر لاہور پہنچنے سے اگلے روز افتخار تاری میرے پاس آئے۔ میاں اسلم سے الگ ملاقات ہوئی اور بابو وارث سے بھی تفصیلی واقعات سے۔ واقعی یہ ایک معجزہ ہے کہ انہیں ختم نہیں کیا گیا جبکہ کئی بار انہیں ایسا ہی لگا کہ آج ان کی زندگی کا آخری دن ہے۔ بد معاش تراشنے والے ہمیشہ آخر میں اپنے بنائے ہوئے آلہ کار کو خود ہی ختم کر دیتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی حنیف رامے کی ۔ رامے صاحب کو مصطفیٰ کھر کے خلاف جو ابھی وزیر اعلی تھے راجہ منور احمد ایم اے خاکوانی اور یعقوب مان وغیرہ کی سرکردگی میں 12 ایم پی اے حضرات کی بغاوت کے نتیجے میں تبدیل کیا گیا تو نرم مزاج اور شائستہ اطوار حنیف رامے کو وزیر اعلی بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سنجیدہ اور نسبتا مار کٹائی سے بھاگنے والے لوگوں نے اس تبدیلی کو پسند کہا۔ رامے صاحب کا دور رواداری اور شرافت و شائستگی کا مختصر پیریڈ تھا۔ اس پیریڈ میں مصطفی کھر مسلسل ان کی حکومت کے خلاف مشکلات پیدا کرتے رہے۔ راجہ منور م کے چیف ایڈوائزر اور آج کے معروف اینکر افتخار احمد ( عرف فتنہ ) حنیف رامے کے او میں ڈی تھے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنے ہر دوست کو جو حکومت میں رہا نیک نیتی سے کسی غلط کام سے کھل کر روکا۔ متحدہ اپوزیشن کا جلسہ موچی دروازے میں ہونا تھا کہ لاہور کے ایم پی اے مرزا طاہر بیگ اور افتخار احمد نے پولیس اور سرکاری اہلکاروں کے ذریعے گندگی کے بے تحاشا ٹرک ایک دن پہلے موچی دروازے کی جلسہ گاہ میں پھینکوا دیئے۔ میں چیف منسٹر ہاؤس پہنچا معلوم ہوا رائے صاحب کہیں باہر جانے والے ہیں ۔ راجہ منور احمد اپنے کمرے میں مل گئے ۔ میں نے ان کی توجہ دلائی کہ آپ وہی کام کر رہے ہیں جس کام کی وجہ سے کھر صاحب کی حکومت کو ہٹایا گیا تھا۔ اپوزیشن والوں کی تقریب سے کوئی قباحت نہیں آجائے گی۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ابھی ایک رات باقی ہے یا تو گراؤنڈ صاف کراؤ یا اپوزیشن سے بات کر کے کوئی اور کھلی جگہ ان کیلئے مختص کرو تا کہ وہ وہاں اپنا جلسہ کر سکیں ۔ راجہ منور کہنے لگے کہ یہ تو اوپر سے حکم آیا ہے آپ چاہو تو رامے سے خود بات کرلو۔ میں نے پی اے سے پوچھا تو کہنے لگا باہر آرہے ہیں۔ اتنے میں حنیف رامے صاحب جنہیں میں ہمیشہ حنیف صاحب ہی کہتا تھا باہر نکلے مجھے دیکھ کر بولے خیریت ہے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیون کلب کے روڈ کے سامنے گھر کے اندر جو سمن ہے وہاں لے گیا پھر میں نے موچی دروازے میں جو کچھ ہو اس پر احتجاج کیا اور کہا ہم نے تو اپنے اخباروں میں یہ لکھا تھا کہ آپ شرافت کی سیاست کرنے آئے ہیں کیا اس کو شرافت کی سیاست کہتے ہیں۔ رامے صاحب بولے ضیا! میں مجبور ہوں میں نے کہا کیا مجبوری ہے جو آپ سے یہ گندا کام کراتی ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ وہ آپ کو اس سے بھی زیادہ غیر قانونی کام کرنے کو کہے گی ۔ حنیف صاحب مجھے آپ ان کے ساتھ زیادہ دیر چلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ حنیف رامے کچھ دیر خاموش رہے اور بولے اچھا جو اللہ پاک کو منظور۔ آپ میرے لیے دعا کرو۔ پھر وہ سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر تین چار اور گاڑیوں کے جلو میں باہر نکل گئے۔ میں کچھ دیر راجہ منور احمد کو برا بھلا کہتا رہا اور پھر غصے میں منور سے کہا کہ تم زیادہ دیر تک ایف ایس ایف کی سیاست کے ساتھ نہیں چل سکتے اور یاد رکھنا کہ جو کچھ تم سے کروایا جارہا ہے
وہی ایک دن تمہارے سامنے آئے گا۔ بھٹو صاحب کو حنیف رامے بطور وزیر اعلی پنجاب اچھے نہ لگے، انہوں نے ایک ڈرامہ کیا ۔ انہیں ایک خط لکھا جسے میں نے بھی بیسیوں مرتبہ پڑھا ہے۔ محل کا مضمون یہ تھا کہ میں آپ کو سینیٹ کا رکن بنا کر زیادہ اہم ذمہ داری دے رہا ہوں ۔ رامے صاحب کا خیال تھا کہ شاید انہیں وفاق میں وزیرخزانہ بنایا جا رہا ہے لیکن دوستوں کی مجلس میں جس میں جداگانہ رائے سننے کے لئے اکثر مجھے دعوت دی جاتی تھی اور عام طور پر میری رائے سب سے مختلف ہوتی تھی۔ میں نے بار بار کہا کہ میرا خیال ہے آپ نہ تو سینیٹ کے رکن بنو گے اور نہ ہی آپ کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔ حنیف صاحب اللہ پاک سے دعا کریں کہ بظاہر جو جنگ شروع ہونے والی ہے اس میں آپ کو کامیابی ہو حالانکہ ایسا نظر نہیں آتا بھٹو صاحب نے جو پنجاب پر بھی اپنی سوچ کے مطابق حکومت چلانا چاہتے تھے اور وزیر داخلہ اور ایف ایس ایف کے مسعود محمود کے ذریعے اور کسی تگڑے چیف سیکرٹری کے ہاتھ سے براہ راست صوبے پر حکومت کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انہوں نے کا بینہ کے سب سے نا اہل اور نکھٹور کن نواب صادق حسین قریشی کو وزارت اعلیٰ سونپ دی۔ مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے کے بعد پنجاب کو براہ راست وفاق کے کنٹرول میں لینے کا اس سے بڑھیا اور کوئی طریقہ نہ تھا۔ پھر مصطفی کھر بھٹو صاحب کے خلاف میدان میں نکلے اور مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر بن گئے جس کے صدر پیر پگاڑا تھے ۔ اس سے پہلے ایک بہت بڑا واقعہ ہوا تاج پورہ لاہور میں مصطفیٰ کھر اپنی انتخابی مہم چلارہے تھے۔ یہ سیٹ خالی ہوئی تھی کہ خالصتاً ایف ایس ایف سٹائل میں جلسے میں چار پانچ سانپ چھوڑ دیئے گئے اور مجمع خوفزدہ ہو کر بھا گا تو مصطفیٰ کھر کے بقول پانچ یا چھ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صفر لوگ مارے گئے۔ میں ان دنوں ”صحافت“ نکال رہا تھا۔ میکلوڈ روڈ چوک میں یوبی ایل کے اوپر راجہ منور کے دوست حفیظ اللہ حسن کا فلموں کا دفتر خالی پڑا تھا۔ وہ فلمیں بنانا بند کر چکے تھے۔ ”باجی تیرے شہر میں اور پاکیزہ کی فلمیں اور خالی ڈبے چار کمروں کے اس دفتر کے ایک کمرے میں بند کر دیئے گئے اور باقی جگہ مجھے صحافت“ کے لئے دے دی گئی۔ تاج پورہ کے جلسے میں ” مساوات کے سابق فوٹو گرافر مجید میر نے ایسی تصویر میں لاکر رامے صاحب کو دیں جس میں لوگ تین چار افراد کی الگ الگ نعشیں اٹھائے باہر نکل رہے تھے عین اس وقت ڈپٹی کمشنر لاہور کا آرڈر مجھے بھیجا گیا جو ظاہر ہے دوسرے اخباروں اور رسالوں وغیرہ کو بھی ارسال کیا گیا ہوگا کہ جلسے کی کوریج کے سلسلے میں کوئی تصویر یا خبر ایسی شائع نہ کی جائے جس سے مرنے والوں کی تعداد ظا ہر ہو سکے۔ میں نے حنیف رامے صاحب سے کہا کہ آپ نے تصویریں بھجوائی ہیں لیکن پنجاب حکومت ہوم سیکرٹری کی طرف سے یہ آرڈر دستخط کروا چکی ہے اگر ہم نے یہ تصویر میں شائع کیں کہ ہلاکتیں ایک سے زیادہ ہیں تو ہمارا پر چہ بند کر دیا جائے گا۔ حنیف صاحب اور خود مصطفی کھر بھی پر یقین تھے کہ بھٹو کی حکومت جانے والی ہے۔ لہذا حنیف رامے نے کہا آپ یہ تصویریں سرورق پر چھاپیں میں نے کہا ٹھیک ہے لگتا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ صحافت“ بند ہو جائے اور میں آپ سے پہلے ہی گرفتار ہو جاؤں، وہ کہنے لگے ہم سب تمہارے لئے لڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ صوبائی حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ میں نے وہ تصویریں من وعن چھاپ دیں بعد ازاں صحافت“ کے صرف تین شمارے چھپ سکے پھر پرنٹر سے معذرت نامہ لکھوا کر عملاً میرا اخبار بند کر دیا گیا۔ میں نے نقیب ملت“ کے نام سے کسی سے ڈیکلریشن لے کر چوتھا شمارہ شائع کیا لیکن اس کے پرنٹر کو بھی قابو کر لیا گیا۔ ایک گاڑی آئی بی والوں کی مجھے تھے میں ملی کہ صبح سے رات بارہ ایک بجے تک میری گاڑی کا پیچھا کرتی تھی اور میری حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتی تھی۔ کئی بار میری گاڑی راستے میں بند ہوگئی یا پٹرول ختم ہو گیا تو پچھلی گاڑی بھی ظاہر ہے رک جاتی تب میں اپنے ڈرائیور سے کہتا کہ انہیں بلالا ؤ تا کہ یہ مجھے فلاں جگہ پر لے چلیں لیکن تب مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے میں قدرتی طور پر صلح ہوگئی کیونکہ دونوں اب بھٹو صاحب کی نظر میں راندہ درگاہ تھے ۔ مصطفی کھر صاحب گلبرگ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم شہرزاد کھر تھیں جو شادی سے پہلے کسی ڈینٹسٹ کے کلینک میں استقبالیہ پر بیٹھتی تھیں ۔ ان کے والد محبوب الحق ایسی جی ولی جی کی فرم میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ یادر ہے کہ محبوب الحق کا تک نیم بوبی حق تھا۔ یہ ہند و پاکستان کی مشہور فلم ایکٹرس بیگم پارہ کے بھائی تھے ۔ بیگم پارہ کی چھوٹی بہن سعدیہ پیرزادہ حفیظ پیرزادہ کی بیگم تھیں۔ یہاں یہ بھی بتادوں کہ مصطفیٰ کھر اور شہرزاد کی بیٹی بڑی ہو کر باپ کی بجائے اپنے نانا کے نام کے ساتھ مشہور ہیں اور اس نے اپنا نام آمنہ کھر کی بجائے آمنہ حق رکھا جو آج تک مستعمل ہے اور وہ مختلف ڈراموں اور پروگراموں کے علاوہ چینل ۵ کے سلسلہ وار پروگرام یوتھ پارلیمنٹ کی اینکر بھی رہیں ۔ کھر صاحب کے گھر اپوزیشن کے اجلاس ہوتے تھے ۔ بالآخر حنیف رامے صاحب بھی مسلم لیگ پگاڑا میں شامل ہو گئے اور نئے عزم کے ساتھ اپوزیشن پارٹی بنانے کا کام شروع کر دیا۔ انہوں نے کئی ایک پمفلٹ اور عوام کے نام ایک کھلا پیغام لکھا اور لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کرنا شروع کیا ۔ پمفلٹ کا نام تھا ” بھٹو بہن بھٹو اس قسم کے لٹریچر کی طباعت اور تقسیم کے بعد بہت سی گرفتاریاں ہوئیں جن میں حنیف رامے صاحب کے بڑے بھائی رشید احمد چودھری ، راجہ منور احمد ایم کے خاکوانی خود حنیف رامے، ایم کے خاکوانی کے چھوٹے بھائی اسحاق خاکوانی جو ان دنوں ریلوے کے بڑے افسر تھے اور بعد ازاں مرتضی بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ میں شامل ہو کر غنویٰ بھٹو کے ہاتھ مضبوط کرنے لگے ۔ پرویز مشرف کے دور میں وزیر بھی بنے اور آج کل تحریک انصاف میں ہیں ۔ اسحاق خاکوانی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میں بھی اس وقت تک گرفتار ہو چکا تھا۔ کچھ دیر اسحاق خاکوانی کے کمرے میں مجھے بھی ڈال دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ ان کے ریلوے کے سرکاری دفتر میں موجود سائیکلوسائل مشین بھی کچھ پمفلٹ چھاپنے کے کام آتی ہے۔
جیل سے روزانہ ہمیں پیشل ٹربیونل لایا جا تا جہاں کارروائی تو کچھ نہ ہوتی تھی صرف اگلی تاریخ دے دی جاتی ۔ مجھے بذریعہ شاہی قلعہ یہاں آنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ شاہی قلعے میں ہماری خوب ” تواضع کی گئی جس کے نتیجے میں ہم نے بھٹو حکومت کو دعائیں دیں۔ جیل میں ہماری مجلسیں ٹربیونل کے احاطے میں لگتی تھیں جو موجودہ چلڈرن کمپلیکس کے ایک حصے میں واقع عدالت کے سبب سارا دن گراسی گراؤنڈ پر گزرتا تھا۔ یہ واقعہ تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگیا۔ اس دوران میں پی این اے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ نو ستارے شاید پہلے بنادیئے گئے تھے اسلئے کھینچ کھانچ کرنو کی تعداد پوری کی گئی۔ میں نے حنیف رامے کو جیل میں کبھی شکایت کرتے یا بڑی سے بڑی تکلیف پر دکھ کا اظہار کرتے نہیں پایا۔ میری طرح وہ بھی شاہی قلعے میں کافی دن کاٹ کر آئے تھے اور ظاہر ہے کہ وہاں کی مہمانی کا ایک ایک دن کا شنا مشکل تھا۔ اس کے برعکس وہ سب کو حوصلہ دیتے۔ دلچسپ بات یہ کہ عام زندگی میں انہیں شہری بابو اور نسوانی انداز میں بولنے والا ایک کمزور شخصیت کا مالک انسان سمجھا جاتا تھا لیکن جب مشکل آئی تو انہوں نے واقعی ” شیر پنجاب کا ٹائٹل مصطفی کھر سے چھین لیا۔ ان کی قید کیلئے کچھ یادیں آپ سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مصطفے کھر کے قریبی ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان کے کھل کر سامنے نہ آنے کی وجہ یہ تھی که افتخار تاری، چودھری ارشاد، میاں اسلم اور متعدد دوسرے لوگ جو کھر کے جانثار سمجھے جاتے تھے دلائی کیمپ میں بند تھے اور مصطفے کھر کو ایک طرح سے پیغام دیا گیا تھا کہ اگر وہ بھٹو صاحب کے خلاف کوئی تحریک چلائیں گے تو ان کے ساتھی جو کاغذوں میں پہلے ہی گم ہو چکے ہیں کو واقعی قتل کر دیا جائے گا اور کسی کو کانوں کان پتا نہیں چلے گا لیکن رامے صاحب کی ایسی کوئی مجبوری نہ تھی ۔ وہ کھلے عام مسلم لیگ کے نئے دفتر بنانے اور بھٹو کے خلاف تحریک کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ پہلے کینٹ میں علاؤالدین روڈ پر راحت بیکری کے پاس کرائے کے گھر میں منتقل ہوئے پھر گارڈن ٹاؤن میں معروف قانون دان راجہ اکرم کے گھر کے بالائی حصے میں منتقل ہو گئے ۔ ایک دن صبح سویرے ان کا فون آیا کہ وہ شاہدرہ میں مسلم لیگ کے نئے دفتر کے افتتاح کے لئے جا رہے تھے کہ ایف ایس ایف نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ میں مسلم لیگ کے ڈیوس روڈ والے بڑے دفتر میں غلام حیدر
وائیں کے پاس کسی کام کے سلسلے میں گیا تھا۔ چودھری ظہور الہی مرحوم بھی وہاں بیٹھے تھے۔ رامے صاحب نے پہلے میرے گھر پر فون کیا اور معلومات لے کر مسلم لیگ ہاؤس میں مجھے ٹریس کر لیا۔ وہ پہلے ہی غلام حیدر وائیںکو یہ واقعہ سنا چکے تھے وائیں صاحب فطرتا شریف انسان تھے لیکن چودھری ظہور الہی کا انداز ہمیشہ جارحانہ ہوتا تھا۔ چودھری صاحب نے کہا چلیں چل کر پتا کرتے ہیں۔ ہم چودھری صاحب کی گاڑی میں بیٹھے اور راجہ اکرم کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے گھر کے دونوں طرف سادہ کپڑوں میں پچاس ساٹھ لوگ کھڑے تھے جنہوں نے گاڑی روک لی۔ چودھری صاحب نے شیشہ نیچے کر کے پوچھا کیا بات ہے۔ ہمیں راجہ اکرم کے گھر جانا ہے۔ شلوار قمیض میں ملبوس ایک طویل القامت شخص سامنے آیا اور کہا چودھری صاحب معاف کرنا آپ وہاں تک نہیں جا سکتے ۔ چودھری صاحب نے کہا ہم رائے صاحب سے ملنے آئے ہیں۔ مجھے جانتے ہو ۔ اس نے کہا جی جناب ! جلدی بھول جانے والے تو سیاستدان ہوتے ہیں میں تو ایف ایس ایف کا معمولی افسر ہوں ۔ پھر اپنا نام بتایا جو مجھے اب یاد نہیں آرہا لیکن اس کے ساتھ لفظ ” چیمہ لگا ہوا تھا۔ ظہور الہی صاحب نے کہا چیمہ صاحب! ہماری آپ سے کوئی لڑائی نہیں لیکن تمہارے پاس حنیف رامے کے وانشن میں تو انہیں گرفتار کریں نہیں تو درمیان میں سے ہٹ جائیں ۔ آپ کے بندوں کے پاس پولیس کی وردیاں بھی نہیں ہیں۔ اس طرح بد معاشی نہیں چلے گی۔ میں گاڑی سے اتر کر اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل راجہ اکرم کے گھر تک جاؤں گا اگر آپ کے پاس میرے اور میرے ساتھیوں کے وارنٹس ہیں تو بخوشی ہمیں گرفتار کر لیں لیکن اگر نہیں ہیں تو میری چھلی گاڑی میں میرے گارڈز اپنی حفاظت کے لئے گن ضرور چلائیں گے۔ کچھ دیر بحث مباحثے کے بعد چیمہ صاحب نے کہا جناب آپ دو آدمیوں کے ساتھ اندر جاسکتے ہیں۔ ہم چودھری صاحب کی قیادت میں پیدل چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو صحن میں پچیس تمیں افراد جمع تھے۔ راجہ اکرم خود بھی موجود تھے جو سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔ رامے صاحب معمول کے خلاف غصے میں تھے اور جذباتی ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کون سے قانون کے تحت مجھے گھر میں بند کیا جارہا ہے اور سڑک پر دونوں طرف جو لوگ موجود ہیں وہ پولیس کی وردی میں بھی نہیں بلکہ نامعلوم بدمعاش ہیں۔ چودھری ظہور الہی جسے اور بولے رائے صاحب بھی نئی اپوزیشن شروع کی ہے ہم تو برسوں سے اس سلوک کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم صحن میں بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور ادھر ادھر کی گپ شپ کرنے لگے۔ رامے صاحب بار بار بھٹو صاحب کے دور کو فسطائیت کا دور قرار دے رہے تھے۔ میں نے مذاق میں کہا کہ اس فسطائیت کے دور میں آپ چند ماہ پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور اصغر خان کو دریا کے ہر پل پر روکا جار ہا تھا اس لئے اب ذرا صبر کریں اور ٹریلر دیکھیں کہ ہمارے ملک میں جمہوری حکومتیں کیسی ہوتی ہیں۔ کچھ دنوں بعد رامے صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی رشید احمد چودھری ان کے دوست راجہ منور احمد اور ایم کے خاکوانی بھی تھے درجن بھر دوسرے ساتھی حتیٰ کہ منور کے ڈرائیور تک پکڑ لئے گئے۔ انہی دنوں پیشل ٹربیونل نے الطاف حسن قریشی اور اعجاز حسن قریشی کو گرفتار کیا۔ فیصلہ ہوا کہ آئین میں کی گئی اس ترمیم کو چیلنج کیا جائے جس کے تحت کسی بھی مخالف کو پکڑا جا سکتا تھا اور چھ ماہ تک بغیر مقدمہ چلائے گرفتار رکھا جاسکتا تھا۔ وکلاء کے پینل میں ایس ایم ظفر، رفیق احمد باجوہ اور مظفر قادر وغیرہ شامل تھے۔ ادھر قریشی برادران نے مجھے عدالت میں بلایا اور کہا کہ آپ فارغ ہیں اور آپ کے لئے بہتر ہوگا کہ دوبارہ اردو ڈائجسٹ میں ذمہ داری سنبھالیں اس سے قبل بھی میں سات برس تک اُردو ڈائجسٹ کا معاون مدیر رہ چکا تھا۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر میں نے فورا حامی بھر لی کیونکہ میرا اپنا ویکلی اخبار ” صحافت بند ہو چکا تھا۔ اب میری ذمہ داری اردو ڈائجسٹ بھی تھی اور رامے صاحب وغیرہ کے علاوہ الطاف حسن قریشی اور اعجاز حسن قریشی جو خود ای آئینی ترمیم کے تحت گرفتار تھے ۔ جس کے تحت رامے صاحب اور ان کے ساتھی پکڑے گئے تھے کے مقدمات کی دیکھ بھال بھی تھی۔ رامے صاحب نے رٹ میں بڑی تفصیل سے ذوالفقار علی بھٹو کے آمرانہ اقدامات کا ذکر کیا اس رٹ پر ان سب نے دستخط کئے اور اعجاز حسن قریشی کے بیٹے فاروق اعجاز اور رفیق باجوہ کے بیٹے شوکت رفیق کے ساتھ ایک گاڑی میں فائلوں اور ریفرنس کے لئے قانونی کتابوں کو لے کر ہم اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ با جو وہ صاحب اور ایس ایم ظفر پہلے ہی اسلام آباد میں تھے اور طے پایا تھا کہ باجوہ صاحب ظفر صاحب سے بھی رہنمائی لیں گے۔
جسٹس یعقوب علی خان پاکستان کے چیف جسٹس ہوتے تھے، سپریم کورٹ کی پرانی عمارت پشاور روڈ پر واقع تھی ۔ رات کو فلیش مین ہوٹل میں بھٹو صاحب کی سکھا شاہی پولیس یعنی ایف ایس ایف نے چھاپے مارے اور فائلیں اور کہتا ہیں وغیرہ جو ہمارے ساتھ تھیں لے کر غائب ہو گئے ۔ باجوہ صاحب کسی اور جگہ ٹھہرے تھے اور ہمیں پروگرام کے مطابق سپریم کورٹ میں صبح آٹھ بجے ملنا تھا۔ ہم وہاں پہنچے اور کیفے ٹیریا میں ان کا انتظار کرتے رہے۔ ظفر صاحب کا کوئی اور مقدمہ بھی تھا البتہ باجوہ صاحب نے چیف جسٹس صاحب کے حضور اپنی داستان الم بیان کی کہ کچھ نامعلوم سفید پوشوں نے ان کے بیٹے اور موکلان کے نمائندے اور اردو ڈائجسٹ کے قائم مقام ایڈیٹر ضیا شاہد سے فائلیں اور کتابیں ہوٹل کے کمرے سے چھین لی ہیں اور وہ انہیں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ جج صاحب نے اجازت دے دی لیکن اٹھ کر کمرہ عدالت سے ریسٹ روم میں چلے گئے ۔ ہمیں وہیں پیش کیا گیا۔ میری کئی مرتبہ چیف جسٹس سے ملاقات ہو چکی تھی ان کے بھائی ایم اے کے چودھری جو انٹیلی جنس کے سربراہ تھے اور آخری دنوں میں مشرقی پاکستان میں بھی ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ دوسرے بھائی سجاد حیدر جو روس میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔ اس کے باوجود کہ میں تینوں بھائیوں کو فردا فردا جانتا تھا یعقوب علی خان نے ظاہر کیا جیسے وہ مجھ سے واقف نہیں اور تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی پنجابی نما اُردو میں بولے آپ کو
معلوم ہے یہاں سے وزیر اعظم ہاؤس کتنی دور ہے ۔ میں نے کہا جی ہم پشاور روڈ پر ہیں اور ظاہر ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس ہم سے چند کلو میٹر دور ہوگا۔ وہ بولے تو آپ یہاں سے ریلیف لینے آئے ہیں۔ اوہ خدا کے بندے آپ تو ریلیف لے کر لاہور چلے جائیں گے مگر ہمیں راولپنڈی میں رہنا ہے۔ میں نے کہا جناب میں سمجھا نہیں ۔ اگر ہمیں انصاف چاہیے تو ظاہر ہے کہ یہی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ انہوں نے اشارے سے باجوہ صاحب کو پاس بلایا اور خفیف سی آواز میں کچھ کہا جو میں ذرا دور ہونے کے باعث سن نہ سکا۔ پھر جسٹس صاحب نے کہا میں نے بتا دیا ہے آپ درخواست دو کہ ہم تیاری نہیں کر سکے ہمیں انگلی تاریخ دی جائے۔ میں نے کہا جناب ہم تو تیار ہیں ۔ آپ ہمارا مقدمہ تو سنیں ۔ کچھ کہے بغیر وہ اٹھے اور عدالت میں چلے گئے۔ باجوہ صاحب نے انہیں جھک کر سلام کیا اور ہمیں کیفے ٹیریا میں لے آئے۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے درخواست لکھی اور میرے دستخط بھی کروائے۔ اس کے بعد ہمیں انتظار کرنے کو کہہ کر وہ درخواست دینے اندر چلے گئے ۔ جب وہ لوٹے تو میں ان سے الجھ پڑا۔ میں نے کہا جناب انصاف ملے یا نہ ملے آپ کو بات تو کرنی چاہیے۔ وہ بولے میں رامے صاحب اور قریشی برادران کو خود
سمجھاؤں گا آپ واپس جائیں۔ ی تھی وہ جمہوریت جس کا مقابلہ کرنے کی کوشش رامے صاحب اور قریشی برادران کر رہے تھے۔ ان کی رٹ درخواست کا ترجمہ کرنا میرے ذمہ لگایا گیا۔ میں نے پچپیس تمہیں صفحات پر مبنی ترجمہ کیا پھر باجوہ صاحب کو چیک کرایا اور اردو ڈائجسٹ کے اس شمارے میں شائع کیا جو کبھی مارکیٹ میں نہیں آیا بلکہ لوہاری گیٹ کے بالکل سامنے جسارت پرنٹرز سے ضبط کر لیا گیا اور پولیس بنڈلوں کے بنڈل ٹرکوں میں اٹھا کر وہ ڈائجسٹ لے گئی ۔ اگلی صبح اس واقعہ سے لاعلم کیونکہ پریس میں ابھی تک پولیس کا غلبہ تھا اور ہمیں رات کے پچھلے پہر پر چہ اٹھانے کی کوئی اطلاع نہ تھی میں کار میں بیٹھا اور سمن آباد اردو ڈائجسٹ کے دفتر پہنچا۔ ابھی میری کار کی ہی تھی کہ دونوں طرف سے پولیس نے گھیر لیا پھر مجھ پر ایک کمبل ڈالا گیا اور میری کار کا دروازہ کھلا ہی رہ گیا اور مجھے ایک گھڑی بنا کر پولیس کی جیپ کے پچھلے حصے میں ڈال دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کمبل میں سے چہرہ باہر نکالا۔ ہم بھائی گیٹ میں داتا صاحب کو جانے والی سڑک کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ ہماری منزل لاہور کا شاہی قلعہ ہے جس کے بارے میں
میں نے دسیوں مضمون لکھے تھے کہ وہاں سیاسی مخالفین پر بدترین ٹارچر ہوتا ہے۔ پہلے پہل رامے صاحب کو ساتھیوں سمیت کیمپ جیل میں رکھا گیا۔ ان دنوں بلوچستان کے نواب شیر محمد مری پورے ایک وارڈ میں سے سب حوالاتیوں کو نکال کر تن تنہا بند کیے گئے تھے۔ جیل میں انہیں سب جنرل شیروف کہتے تھے کیونکہ انہوں نے حکومت پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ان کے ساتھ ہی بی کلاس تھی جس میں کل چھ الگ الگ کمرے تھے۔ کچھ دنوں بعد حنیف رامے اور ساتھیوں کو ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت تبدیل کر دیا گیا اور میں شاہی قلعے میں 14 روز گزارنے کے بعد حال پھر کبھی لکھوں گا، کیمپ جیل میں آیا تو مجھے بھی بی کلاس ملی اور میں انہی چھ کمروں میں سے پہلے کمرے میں اسحاق خاکوانی کے ساتھ رہا۔ اسحاق خاکوانی ضمانت پر رہا ہوئے تو میرے ساتھ راولپنڈی کے نامور وکیل اور روز نامہ ” ندائے حق کے ایڈیٹر حبیب الوہاب الخیری آگئے ۔ کمرہ نمبر 2 میں رشید احمد چودھری تھے جو رامے صاحب کے بڑے بھائی تھے ان کے ساتھ نواب اکبر بگٹی کے بیٹے طلال بگٹی تھے جن کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا ہے پھر بنک کے ایک افسر ملک نواز تھے اور آخر میں بیوی کا قتل کرنے والے میجر ضیا تھے۔ ادھر ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت میں رامے صاحب کو اس احاطے میں رکھا گیا تھا جس کو پیشل وارڈ کہتے تھے۔ یہاں ایک بڑے کمرے میں راجہ منور احمد تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی کمرہ ہے جس میں بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹور ہے۔ خاکوانی صاحب، الطاف حسن قریشی اور اعجاز حسن قریشی بھی وہیں تھے لیکن میرے جیل جانے سے پہلے ہی الطاف حسن قریشی اپنی جلد کے زیادہ حساس ہونے کے سبب بیمار پڑ گئے تو سیکرٹری صحت ڈاکٹر افتخار احمد کے مشورے پر ہوم سیکرٹری نے انہیں میوہسپتال کے ایک کمرے میں منتقل کر دیا بقیہ قید انہوں نے وہیں گزاری جو دو سال تھی لیکن اعجاز حسن قریشی کوٹ لکھپت جیل ہی میں رہے۔ رامے صاحب پر بھٹو صاحب کی خاص نظر کرم تھی سب سے پہلے شدید گرمیوں میں صرف ان کے کمرے کی بھی بند کی گئی۔ اس موقع پر بجلی ٹھیک کرنے والے آئے اور اس کمرے کو جانے والی تار کو کاٹ کر دوسرے کمروں سے الگ کر دیا۔ اب رامے صاحب کے کمرے کا بجلی کا کنکشن کہیں اور سے بند ہوتا کھلتا تھا چنانچہ یہ نظارہ دیکھنے میں آتا کہ سب کمرے روشن ہیں اور یکھے چل رہے ہیں جبکہ اے کلاس ملنے کے باوجود رامے صاحب کے کمرے میں بھجلی ہوتی تھی نہ پنکھا چلتا تھا۔ سرشام رائے صاحب اپنے مشقتی سے ( وہ پرانا قیدی جو ہراے اور بی کل اس کے ملزم یا مجرم کو ذاتی کام کیلئے ملتا ہے) کہتے کہ میرے کمرے میں پہلے سے موجود تینوں گھڑے پانی سے بھر کر رکھ دو۔ پانچ بجے شام کو جبکہ ابھی دھوپ ہوتی تھی ملزموں کو کمروں میں بند کر دیا جاتا اور باہر سے تالا لگا دیا جاتا۔ گرمی بہت زیادہ ہونے کے باعث عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد دائیں بائیں کمروں والے سونے لگتے تو رامے صاحب ایک کھلا سا کچھا انڈرویئر ) پہن لیتے اور بجلی کی بندش کی وجہ سے انتہا درجے کی گرمی کا مقابلہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد گھڑوں میں سے پانی لے کر نہاتے اور جسم کو کچھ ٹھنڈا کرتے ۔ انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے بہت احتجاج کیا جس کا نام حمید اصغر تھا اور اسے عرف عام میں پستول کہتے تھے۔ حمید اصغر کا کہنا تھا کہ جناب کئی دفعہ بجلی ٹھیک کروائی ہے لیکن آپ کے کمرے کی بجلی بڑی ڈھیٹ ہے وہ کسی کا کہا نہیں مانتی دیر تک جیل میں رہیں تو اہلکاروں سے بھی دوستی ہو جاتی ہے۔ جیل کے کمپوڈر قاضی صاحب نے رامے صاحب کو مشورہ دیا کہ یہ شرارت نہیں سازش ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو بطور خاص ہدایت کی گئی ہے کہ خفیہ سونچ باہر
لگوائیں اور رات کو رامے صاحب کے کمرے کی بجلی بند کر وا دیا کریں۔ بیگم شاہین رامے نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ کی ۔ عدالت نے حکم دیا کہ جا کر بچی چیک کی جائے۔ بیلف مکینک لے کر ساتھ آیا اور بلی کے تار وغیرہ چیک کیے لیکن اس وقت بجلی آ رہی تھی لہذا اس نے یہی رپورٹ دی۔ شام کو ان کے کمرے کی بھلی پھر بند کردی گئی۔ میں اگر چہ کیمپ جیل میں تھا لیکن روزانہ ہماری سب سے ملاقات یوں ہو جاتی کہ چلڈرن کمپلیکس کے پہلو میں واقع سپیشل ٹربیونل کی عدالت میں انہیں بھی لایا جاتا اور ہمیں بھی یہ ایک اچھا موقع تھا۔ ٹربیونل کے چیئر مین غلام حسین صاحب ایک ریٹا ئر سیشن جج تھے۔ دوسرے ممبر خواجہ افضل تھے جو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر خواجہ آصف اور مشہور میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور کے چھوٹے بھائی تھے ان کا پس منظر ایسا تھا کہ وہ کھل کر بات کرتے ۔ انہوں نے ہمیں کہہ رکھا تھا کہ دیکھو بھائی ! چھ ماہ گزر جائیں گے تو نئی ترمیم کے مطابق مزید چھ ماہ کیلئے آپ کی قید میں توسیع کر دی جائے گی۔ جب تک بھٹو صاحب موجود ہیں آپ کی رہائی تو ایک طرف آپ کا مقدمہ بھی شروع نہیں ہو گا اس لیے روزانہ باہر آنے اور دوستوں سے گپ شپ کرنے کیلئے ہم آپ کو بلا لیتے ہیں ورنہ مقدمہ کیا ابھی تک تو پولیس کا چالان اور الزامات کی فہرست بھی نہیں آئی۔ ہم تو آپ کی سہولت کیلئے روزانہ اگلے دن پھر پیشی رکھ لیتے ہیں۔ ایک دفعہ عدالت میں حاضری لگائیں اور شام چار بجے تک مزے سے گپ لڑا ئیں بس اس سے زیادہ ہم آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے ۔ خود میرے خلاف کیس کو پمفلٹ کیس کہا جاتا تھا حالانکہ میں نے صرف رٹ کا اردو ترجمہ کیا اور اردو ڈائجسٹ میں چھاپا تھا الگ سے کوئی پمفلٹ نہ لکھا نہ چھاپا۔ بعد ازاں پی این اے کی انتخابی مہم شروع ہوگئی اور سیفٹی کی خاطر رامے صاحب کو سڑک کے ذریعے عدالت تک لانا خطرناک سمجھا گیا کیونکہ وہ خود بھی ایم این اے کی سیٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے اس لیے اب ہمیں کیمپ جیل کے سیاسی قیدیوں کو پیشل ٹربیونل میں جو عارضی طور پر ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت کی ڈیوڑھی کے او پر خصوصی عدالت میں پیش کیا جانے لگا۔ اب ہمارا پورا دن ڈسٹرکٹ جیل میں گزرتا اور چار بجے ہم کیمپ جیل واپس آتے۔ یہ زندگی پہلی والی زندگی سے تھوڑی مشکل تھی کہ ایک جیل سے دوسری جیل کے علاوہ ہم کہیں نہیں جاسکتے تھے جبکہ چلڈرن کمپلیکس کے بہانے تو ہم گھر والوں اور دوستوں سے کھلے عام ملتے تھے اور ٹربیونل کے ارکان ہم پر کوئی خاص حتی نہیں کرتے تھے۔ تب ایک رات شور مچا کہ کچھ لوگ راجہ منور کو جیل سے اغوا کر کے لے گئے ۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جیل میں سے بندہ غائب ہو جائے اور سپرنٹنڈنٹ کو علم نہ ہو لیکن تیسرے دن سپر نٹنڈنٹ نے ہی بتایا کہ راجہ صاحب نے ان کے ذریعے ہی ایوان وزیر اعظم اسلام آباد تک سرنگ لگائی تھی۔ دوسرے لفظوں میں انہیں جیل سے لے جا کر بھٹو صاحب سے ملوادیا گیا اور خدا جانے کاغذوں پر کیار پورٹ بنی لیکن بھٹو صاحب کے ملنے کے بعد وہ واپس جیل نہیں آئے۔ تاہم رامے صاحب اور خاکوانی جیل ہی میں رہے اور بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہی ہمیں اچانک ٹربیونل کی طرف سے ضمانت کے کاغذات جمع کرانے کیلئے کہا گیا۔ ٹربیونل کے تینوں افراد ہم سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ خدا کا شکر ہے آپ کے ساتھ ہمیں بھی چھٹی ملی ۔ جیل کے دوران حنیف رامے صاحب کے ساتھ خصوصی طور پر بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ملاقات کی سہولتوں سے لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں انتہا درجے کی تختی کی جاتی لیکن رامے صاحب بڑے صبر واستقلال کے ساتھ وقت کاٹتے رہے۔ آخری دنوں میں جیل کا عملہ خود اپنی زبانی بتا تارہا کہ انہیں کیا کیا خصوصی ہدایات ملتی تھیں کہ رامے صاحب کو توڑ ومطلب یہ تھا کہ ان کے ساتھ اتنی بدسلوکی کرو کہ گھبرا کر معافی مانگ لیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل سے بار بار پوچھا جاتا تھا کہ وہ ” بندا نہیں بنا اور پھر کوئی نیا منصوبہ بنایا جاتا کہ انہیں مانگنے پر کیسے مجبور کیا جائے۔ علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کا منصوبہ جیل ہی میں بنا جہاں سارا دن ہمیں گپ لگانے کی آزادی ہوتی تھی جبکہ ٹربیونل کے جج ایک دفعہ حاضری لگا کر ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ رامےصاحب نے بھٹو صاحب کے آخری دنوں میں ٹی پارٹی کیلئے ملت“ کا نام چنا لیکن جب ہم رہا ہوئے تو ایک دن علاؤ الدین روڈ کوٹھی میں شامیانے لگے ۔ قریشی برادران رہا ہو چکے تھے لیکن میں ابھی تک اردو ڈائجسٹ سے منسلک تھا اور اپنا ویکلی اخبار شروع کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ اخبار اور مجھ پر سارے مقدمات ختم ہو چکے تھے۔ جب رامے صاحب نے مساوات پارٹی کا اعلان کر دیا۔ ایک دن میں انہیں ملنے گیا تو انہوں نے مجھے ایک لیٹر دیا کہ میں کچھ دوستوں کو اپنے طور پر یہ جان کر کہ وہ ناں نہیں کریں گے پارٹی میں شامل کیا ہے اور آپ کو، نذیر ناجی کو اور مظفر قا در ایڈووکیٹ کو پارٹی کی سنٹرل ایگز یکٹوکمیٹی میں جگہ دی ہے۔
جیل میں لوگوں سے بہت زیادہ ملاقاتیں رہی تھیں ۔ شام اور رات کو چھوڑ کر بقیہ وقت عملاً ایک ساتھ گزرتا تھا۔ اس کے باوجو دحنیف رامے سے میں نے کہا کہ آپ کوئی اچھا کام کریں گے تو ہم ضرور آپ کے مددگار ہوں گے لیکن کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت کا میں نے کبھی سوچا نہیں۔ جیل کے دنوں کے بہت سے لطیفے ہیں۔ ایک لطیفہ یاد کر کے ہم ہمیشہ رامے صاحب کو چھیڑتے تھے۔ ایک بار ان کے بڑے بھائی رشید احمد چودھری نے کہا حنیف! تو کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ یہ دو بوتلیں لو اور فورا صبح شام پینا شروع کر دو۔ رامے صاحب نے پوچھا یہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ماء الحم“ ہے اصلی والا۔ اس پر لکھا ہے کہ بوڑھے کو بھی جوان بنا دیتا ہے۔ ہم بہت ہنسے۔ رامے صاحب دونوں بوتلیں اپنے ساتھ چلڈرن کمپلیکس سے کوٹ لکھپت جیل لے گئے۔ سات آٹھ دن بعد وہ کپڑے میں لپٹی ہوئی دونوں بوتلیں واپس لائے اور رشید چوھری صاحب سے بولے بھائی جی! یہ ٹا تک تو بہت خطرناک ہے۔ آپ کی بڑی محبت اور شفقت کہ آپ نے میری صحت کا خیال رکھا لیکن یہ راہنمائی نہیں کی کہ جیل میں ٹانک پی کر میں کروں کیا اور جاؤں کہاں؟ کھانے پینے کا رامے صاحب کو شوق نہیں تھا میرا خیال ہے بمشکل اتنا کھاتے جس سے گزارا ہو سکے۔
پانچوں وقت باقاعدگی سے نماز پڑھتے اور صبح ناشتے کے بعد دو پہر کے کھانے تک دوتین تھنے قرآن پاک مختلف تفسیروں کی مدد سے ضرور پڑھتے ۔ ذاتی طور پر وہ شریف النفس ، مہذب اور وضعدار انسان تھے۔ جیل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں رہنے والے ایک دوسرے کو بخوبی طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اچھے بھائی اچھے باپ اور اچھے شوہر تھے۔ دوستوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے لیکن عام لوگوں سے بھی بہت کسر نفسی سے ملتے اور بے تکلف دوستوں سے جو تعداد میں بہت کم تھے کھل کر اپنے دل کی بات کرتے تھے۔ اپنی نسوانی آواز اور نرم خو ہونے کی وجہ سے بظاہر وہ کمزور اور شہری بابو لگتے تھے لیکن اپنے نظریات کے بارے میں اپنے موقف پر جم کر کھڑے ہوتے اور بڑے سے بڑے ذہنی اور جسمانی صدمے کو برداشت کرتے ۔ کبھی کبھار وہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے کہ کاش بھٹو صاحب صحیح راستے کو چھوڑ کر ڈکٹیٹر نہ بنتے اور ایک ایک کر کے اپنے اصل دوستوں کو جو انہیں کوئی تعمیری مشورہ دے سکتے تھے پارٹی سے انتہائی بے رحمی سے نہ نکالتے ۔ وہ ایک ایک کر کے سب کا نام لیتے تھے۔ خورشید حسن میر، جے اے رحیم معراج محمد خان اور بہت سے دوسرے۔ اس کے برعکس بھٹو صاحب کا یہ کمپلیکس تھا کہ وہ نوابوں ،سرداروں، اور تمن داروں کو پاس بلاتے اور انہیں بڑے بڑے عہدے دیتے۔ اس ضمن میں نواب آف بہاولپور نواب آف جونا گڑھ حیات محمد خان ٹمن کے نام ضرور لیتے ، رامے صاحب اس افسوس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو ایک ہی دن میں مغربی پاکستان کے لوگوں کے ذہن اس طرح کے بن گئے تھے کہ بھٹو صاحب کچی گندھی ہوئی چکنی مٹی کی مانند جس طرف چاہتے انہیں موڑ سکتے تھے وہ کاغذ پر حساب لگا کر کہتے کہ بھٹو صاحب کو الیکشن میں کسی دھاندلی کی ضرورت نہیں تھی وہ صاف ستھرے اور دھاندلی سے پاک الیکشن میں بھی حکومت سازی کے لئے کافی سیٹیں حاصل کر سکتے تھے لیکن جو شخص صرف جس کے سارے چیف منسٹر بھی اپنے مقابلے میں امیدواروں کو کھڑا نہ ہونے دیں اس سے آپ جمہوری نظام کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ حنیف رامے نے احمد رضا خاں قصوری کے بارے میں کہا کہ وہ جب پارٹی میں تھا تو تب بھی جذباتی اور بڑبولہ تھا جتنا پارٹی سے نکل کر، اس ایک آدمی کو دبانے، کچلنے یا مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسمبلی کی اکثریت بھٹو صاحب کے پاس تھی لیکن وہ ان ولا غیری کی پالیسی پر چل رہے تھے پھر رامے صاحب خود ہی انا ولا غیری کا پنجابی ترجمہ کرتے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے وہ بار بار افسوس کرتے کہ بھٹو صاحب اس قوم کو دوبارہ کھڑا کر سکتے تھے۔ لوگ یہاں تک تیار تھے کہ ملک کی بہتری کے لئے انہیں حکم دیا جاتا کہ آپ نے ایک وقت کھانا ہے اور دوسرے وقت بھوکے رہنا ہے تو لوگ اس سے بھی انکار نہ کرتے۔ رامے صاحب کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بول سکتے تھے۔ کبھی وہ کہتے کہ بھٹو صاحب نے پنجاب میں تو خاص طور پر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کو جنہیں ان کے محلے میں کوئی نہ جانتا تھا اسمبلیوں تک پہنچا دیا لیکن وہ اس کام کو آگے بڑھانے کی بجائے مفت کاریں دے کر بالائی طبقے میں گھسیٹ لائے ۔ گاڑیاں پلاٹ پر مٹ ٹریکٹر کے لائسنس دے کر جو بآسانی بازار میں بک جاتے تھے انہوں نے سب کو لوٹ مار کا عادی بنادیا اور جلد سے جلد امیر بننے کی خواہش میں مبتلا کر دیا ، بعض اوقات رامے صاحب کو یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ وہ رکے بغیر گھنٹہ بھر سے بھٹو صاحب نے کیا کیا اور انہیں کیا کرنا چاہئے تھا کے موضوع پر بول رہے ہیں۔ وہ بھٹو صاحب کے خلاف چند تقریریں کر کے اور کچھ پمفلٹس چھاپ کر جیل میں بند تھے لیکن میں ہمیشہ انہیں ٹوکتا اور کہتا کہ رامے صاحب آپ نے ایک دن پھر پیپلز پارٹی میں چلے جانا ہے کیونکہ آپ کی گفتگو سے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی آپ کی فرسٹ کو یعنی پہلی محبت ہے اور آپ کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ واپس پیپلز پارٹی میں جائیں یا پھر دونمبر پیپلز پارٹی بنائیں جس میں کوئی اس لئے نہیں جائے گا جبکہ اصل پیپلز پارٹی موجود ہے۔ تو پھر دونمبری کی کیا ضرورت ۔ آپ بھٹو صاحب کے خلاف نہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ جو تصور آپ کے ذہن میں ہے بھٹو صاحب اس پر پورا اتریں۔ جیل سے نکلنے کے بعد انہیں لاہور ہائیکورٹ میں کسی ایسے مقدمے میں پیش ہونے کا سمن آیا جو بھٹو صاحب کے خلاف جاسکتا تھا غالبا یہ بھٹو صاحب کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ تھا علاؤ الدین روڈ ( کینٹ پر مجلس جھی ہوئی تھی جب اچانک رامے صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ بھٹو صاحب کے خلاف ہر گز گواہی نہیں دیں گے۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ جیل کے دنوں میں میں نے بتایا تھا کہ آپ بھٹو صاحب سے محبت کرتے ہیں اور اپنے پہلے پیار کے خلاف کبھی نہیں جاسکتے۔ رامے صاحب کہنے لگے ضیا! تمہیں معلوم نہیں کہ میری طرح بے شمار دوسرے لوگوں نے بھی بھٹو صاحب کو ” گریٹ بھٹو بنانے کے لئے کتنی قربانیاں دی
ہیں۔ ہم چاہتے ہیں وہ صیح راستے پر چلیں لیکن ہم اس کا خاتمہ برداشت نہیں کر سکتے۔ رام صاحب نے اپنی دوسری سیاسی جماعت کے لئے آنے والے الیکشنوں میں ایم این اے کی سیٹ پر اپلائی کیا۔ نواز شریف صاحب اس مسلم لیگ کے سربراہ تھے جس کے لئے حنیف رامے ٹکٹ مانگ رہے تھے۔ شروع میں انہیں اثبات یعنی OK کے اشارے ملے لیکن عین وقت پر پیراشرف مقابلے میں آگئے ۔ جماعت اسلامی سے منحرف ہونے والے پیرا شرف جو منصورہ ہی میں رہائش پذیر تھے۔ جماعت کے باغی تھے جو مسلم لیگ کو حکومتی پارٹی سمجھ کر اس میں شامل ہو گئے یوں بوجوہ حنیف رامے صاحب کا پتا مسلم لیگ سے بھی کٹ گیا۔ رامے صاحب نے ” مساوات پارٹی کا منشور بہت دلچسپ بنایا یعنی ”رب، روٹی تے لوک راج بہت سے لوگ پنجاب کے شہروں سے اس میں شامل ہوئے اور اچھی رونق لگ رہی تھی۔ ہر جلسے میں شرکا کو دیگ میں پکی ہوئی چنے کی دال ایک روٹی کے اوپر رکھ کر کھانے کو دی جاتی اور خوب مذاق بنتا۔ ایک بار ہم پرانے زمیندار خاندان کے سابق ایم این اے اور اوکاڑہ کے میاں عبد الحق کے ڈیرے پر گئے وہاں مساوات پارٹی کا جلسہ عام تھا۔
ان دنوں پنجاب مساوات پارٹی کے سربراہ سیال صاحب ہوتے تھے جو خود بڑے زمیندار تھے۔ حنیف صاحب میں اور راجہ منور ان کی مرسڈیز میں بیٹھے حنیف صاحب ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر تھے اور سیال صاحب خود ڈرائی کر رہے تھے باقی گاڑیوں کا قافلہ ہمارے پیچھے تھا۔ اوکاڑہ پہنے تو تقریر کے بعد روٹی پیش کی گئی۔ حنیف صاحب پیج پر تھے اور ہم جلسہ گاہ سے ہٹ کر درختوں کے جھنڈ کے نیچے کھڑے تھے جب کچھ ورکرز نے ہمیں بھی ایک ایک روٹی دی جس پر چنے کی دال تھی ورکر چلا گیا تو منور نے بنتے ہوئے کہا مبارک ہوراے صاحب ہمیں دال روٹی تک تو لے آئے ہیں اب جسم پر کپڑے ہی ہیں جلد ہی انہیں اتار کر لنگوٹی پہنے کا حکم مل جائے گا۔ سیال صاحب بولے ہماری تو خیر ہے۔ ہم لنگوٹی میں بھی گزارا کرلیں گے مگر خواتین ارکان کا کیا بنے گا۔ منور نے پھر نقطہ نکالا وہ دوسروں کی جگہ اپنا مذاق اڑانے کے ماسٹر تھے۔ کہنے لگے پارٹی کا نعرہ اچھا ہے رب روٹی تے لوک راج“۔ رب کا تو ذکر نہیں آیا نہ راستے میں نہ یہاں، روٹی مل گئی ہے دیکھنا جلدی ختم ہوگئی تو وال ہاتھوں پر گرے گی۔ لوک راج کا نمائندہ پنجاب کا سب سے بڑا زمیندار ہمارا لیڈر پاس کھڑا ہے جس کی شاندار اور نئی مرسڈیز میں ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ سیاستدانوں کے انٹرویوز پی ٹی وی پر شروع ہوئے تو راجہ منور نے جنرل مجیب الرحمن کو تیار کر لیا جو ضیاء حکومت کے سیکرٹری انفارمیشن تھے کہ سب سے پہلا انٹرویو حنیف رامے صاحب کا ہو۔ ہر شہر میں اچھے جلسے ہونے لگے زیادہ تر لوگ پیپلز پارٹی سے آئے تھے لیکن کچھ نئے بھی تھے۔ شاید کچھ دال دلیہ بن جا تا لیکن ضیاء الحق نے تمام سیاسی جماعتوں اور سرگرمیوں پر پابندی لگا دی الیکشن ملتوی کر دیئے لگتا تھا سیاسی جماعتوں اور انتخابات کے بغیر ہی کام چلے گا۔ رامے صاحب مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور مساوات پارٹی رفتہ رفتہ غائب ہوگئی۔ برسوں بعد رامے صاحب آئے تو صحافی اور اینکر چودھری غلام حسین نے ان کی ضیاء الحق سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ واپسی پر حنیف صاحب مجھے روداد سنانے میرے گھر آئے کہنے لگے میں نے ضیاء الحق کو بتایا ہے ۔
رب روٹی اور لوک راج کا کیا فلسفہ ہے وہ بہت متاثر ہوئے اور کچھ نوٹس بھی لیتے رہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد انہوں نے مجھ سے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا ہفتے دو ہفتے میں میں آپ کو بلاؤں گا اور کوئی اہم ذمہ داری دوں گا۔ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے میں بے شار مرتبہ ضیاء الحق سے مل چکا تھا۔ میں نے کہا حنیف صاحب میری مانیں تو اس بات کو بھول جائیں کہ آپ ضیاء الحق سے کبھی ملے تھے اور اپنے بارے میں جو فیصلہ بھی کریں وہ مائنس ضیاء الحق ہونا چاہیے۔ حنیف صاحب بچے اور معصوم آدمی تھے اور سب کو اپنی طرح سمجھتے تھے، مجھے سے پوچھنے لگے کیوں، ضیاء الحق نے تو مجھے اہم ذمہ داری کے لئے کہا ہے۔ میں نے کہا جی! جانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کرتے تو میں آپ کو اہم ذمہ داری لینے کا طریقہ بتاتا کہنے لگے وہ طریقہ آپ کی نظر میں کون سا ہے میں نے کہا آپ یہ کہتے کہ ساری عمر جمہوریت جمہوریت کرتے گزاری لیکن اب آ کے پتا چلا کہ انسان چاہے اور نیت نیک ہو تو کسی بھی حیثیت میں عوام کی خدمت کر سکتا ہے اور ملک کو ترقی دے سکتا ہے جیسے آپ نے دی ہے۔ میں دل سے آپ کے ساتھ ہوں۔ مجھے حکومت کا تھوڑا بہت تجربہ بھی ہے۔ اگر کسی جگہ میری ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اپنے خلوص کا یقین ضیاء الحق کو دلاتے اور ان کی صلاحیت کا اعتراف کرتے تو وہ ضرور کسی خدمت کے لئے بلا لیتے۔ آپ نے اپنا فلسفہ بتانا شروع کر دیا اور وہ دل میں سوچتا ہوگا کہ میں نے بھٹو جیسے تگڑے سیاستدان کو ناکوں چنے چبوا دیے اور یہ مجھے فلسفہ بتا رہا ہے۔ رامے صاحب بہت آزردہ ہوئے کہنے لگے اچھا دیکھتے ہیں۔ قارئین! یاد رہے انہیں یہ بلاوا پھر کبھی نہ آیا۔ رامے صاحب کی فرسٹریشن کا اس بات سے پتا چل جاتا تھا کہ جب وہ اپنی نئی کتاب جس کا نام انہوں نے دوسرا عدم رکھا تھا جسے بعد میں انگریزی ناول Again کا نام دے دیا پر کام شروع کرنے کی باتیں کرتے یا دھڑا دھڑ مصوری کا شاہکار ان کے برش سے ٹپکتے تو ہم سمجھ لیتے تھے کہ سیاست سے مایوس ہو گئے ہیں۔ حنیف صاحب سیاستدان نہ
ہوتے اور مصور ہوتے یا زیادہ سے زیادہ مصنف اور مترجم تو زندگی میں بہت کام کرتے۔ ان کی کتابوں کے نام ذیل میں دیئے جارہے ہیں : 1 اقبال اور سوشلزم 2۔ پنجاب کا مقدمہ 3- باز آؤ اور زندہ رہو 4- دب اکبر 5- اسلام کی روحانی قدریں : موت نہیں زندگی ، 6- دن کا پھول ، (شعری مجموعہ ) جو ان کی فوتیدگی کے بعد ان کے صاحبزادے ابراہیم رامے نے شائع کی جبکہ ان کی ساتویں کتاب جو Again کے نام سے ایک ناول ہے جو امریکہ میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار مضامین لکھے اور ان کے
انگریزی سے اردو میں تراجم کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ رامے صاحب کی بیگم (ابراہیم اور مریم کی والدہ) شاہین رامے فوت ہو گئیں تو کافی برسوں بعد اچانک سنا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ میں بھی اس ” اچانک سانحے کی خبر لینے گیا کیونکہ ان کی شادی کی عمر نہیں تھی عرف عام میں اللہ اللہ کرنے کا وقت تھا۔ میں نے جاتے ہی الفاظ سے حملہ کیا کہ حنیف صاحب یہ تو ایسی ہی اطلاع ہے جیسے کسی شریف آدمی کی لڑکی گھر سے بھاگ جائے۔ یہ آپ کو کیا ہوا۔ حنیف صاحب یکدم سنجیدہ ہو گئے پھر اس کی وجوہ بتائیں کہا میرے دونوں بچے شادی میں شریک تھے۔ میری بیوی بہت پڑھی لکھی اور ذہین امریکی خاتون ہیں۔ یہ ان کی بھی دوسری شادی ہے اور میری بھی۔ تم جو اس سے ملو گے تو خوش ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد میری نئی بھابھی سے ملاقات ہوگئی اونچی لمبی اور قدرے فربہ ہنس مکھ اور بہت ہی نرم آواز میں بات کرنے والی جو اس نے بعد میں لاہور کے ہجویری کالج میں پڑھایا بھی اور حنیف صاحب کا انتخاب اس لحاظ سے بہت بہتر تھا کہ اتنے صدمے انہیں پہنچے تھے اور جیسے شا کس سے وہ گزرے تھے جو اس نے کچی دوست کی طرح انہیں سنبھالا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اور مساوات پارٹی کے فلاپ ہونے اور طویل خود ساختہ جلاوطنی کے بعد جس میں رامے صاحب بہت عرصہ امریکہ میں رہے واپسی پر اچانک انہوں نے بینظیر بھٹو صاحبہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور پیپلز پارٹی نے انہیں دوبارہ ایم پی اے کی اس سیٹ کا ٹکٹ دے دیا جہاں سے وہ پہلی بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ یہ بہت بہتر جگہ تھی کہ اب پیپلز پارٹی میں ان جیسا کوئی سینئر موجود نہیں تھا لیکن غالباً انہوں نے اس پر اکتفا کیا۔ الیکشن ہوئے اور وہ جیت گئے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک اور انکل کو کھنڈے لائن لگانے کے لئے پنجاب اسمبلی کا پیکر بنادیا میں ان سے ملنے گیا۔ اسمبلی ہال کے سامنے مال روڈ پر سپیکر ہاؤس تھا کچھ دیر ان کے پاس مہمان بیٹھے رہے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے انہیں کریدنا شروع کیا۔ وہ بے چینی سے پہلو بدلتے رہے۔ میں نے کہا اتنے برسوں کے بعد بذریعہ جیل آپ نے جس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے اس کے خلاف آپ کی تقریروں، تحریروں اور پریس کانفرنسوں کا ایک پلندا میرے پاس پڑا ہے آپ بتا ئیں اس تاریخی ریکارڈ کا کیا کروں ۔ وہ افسردگی سے کہنے لگے۔ ضیا! اس کو جلا دو۔ میں نے پھر دو چار فقرے کے وہ مزید آزردہ ہوئے کہنے لگے چائے پیو گے؟ میں نے کہا نہیں آپ سے بحث کروں گا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر مجھے لگا وہ رونے والے ہیں۔ انہوں نے آنکھیں بند کر کے کرسی سے ٹیک لگالی۔ میں خاموش رہا پھر میں نے کہا رامے صاحب! آپ تو شاہی قلعے اور جیل کی مشقتوں کے بعد برسوں پہلے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود پنجاب اسمبلی کے پیکر بن کر بھی کسی نہ کسی جگہ پہنچ گئے ہیں مگر یچھے مڑ کر دیکھیں تو اپنی جدوجہد کے دوران آپ نے کتنے لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیا ہے اور انہیں حکومت یا سیاست میں کوئی جگہ بھی نہیں ملی ۔ اے قائد مساوات پارٹی ! ان کے لئے کیا پیغام ہے۔ رامے صاحب نے آنکھیں جھکا لیں ۔ پھر کہنے لگے لمبی بحث ہے۔ میں نے کہا آپ جو از تلاش کر رہے ہیں کیا اس کے لئے وقت چاہیے۔ وہ کہنے لگے ایک پرانے دوست ہونے کے ناطے ایک درخواست ہے۔ جانے دو ضیاء ! میں خوش نہیں ہوں اور میرا مزید دل نہ دکھاؤ۔ رامے صاحب اچھے مصور تھے لیکن پاکستان کی وہ تصویر جو وہ بنانا چاہتے تھے ان سےنہ بن سکی ۔ جو نظام وہ لانا چاہتے تھے اسے اپنوں اور غیروں کبھی نے مستر د کر دیا۔ وہ اچھے دانشور تھے ، غضب کے مقرر تھے، بہت اچھے مترجم تھے اور سب سے بڑھ کر ایک گداز دل
والے انسان تھے لیکن سپیکر بننے اور اس ملاقات کے بعد میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ ابھی تک میرا سوال ان کے سر پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ میں اپنے دوست کو دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا لہذا کئی بار ان کے گھر جا کر ملا۔ متعدد مرتبہ وہ میرے گھر تشریف لائے لیکن میں نے کبھی سیاست یا حالات حاضرہ پر اخبار میں ان کے حوالے سے ان سے گفتگو نہیں کی ۔ ہمیشہ میں ان سے اس طرح ملتا جیسے کسی اجنبی سے پہلی بارل رہا ہوں ۔ انسان مرنے سے پہلے بھی تو مر جاتا ہے۔ ڈیفنس ہسپتال کے ایک کمرے میں تھے ان کی بیٹی اور بیٹا دونوں ان کے پاس تھے تو فون پر اطلاع ملنے کے بعد میں اپنے دفتر سے اٹھا اور بغیر وقت لئے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہی کے پاس پہنچا، باہرہی مجھے صوفی مل گیا جو ظہور الہی خاندان کا سب سے پرانا فرد بن چکا ہے۔ میں نے کہا فور ملنا ہے اور ضروری ملنا ہے۔ اس نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر لے گیا۔ دو تین لوگ چودھری صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے فورا ہی کہا پرویز صاحب ! حنیف رامے سخت بیمار ہے اور حالت اچھی نہیں۔ میرا خیال ہے چودھری ظہور الہی سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ پرویز الہی نے بات کاٹ کر کہا میرے بھی ان سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ میں نے کہا میں چاہتا ہوں آپ پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ سے ملنے خود جائیں۔ کچھ ہسپتال والوں سے کہیں اور اگر ضروری ہو تو سرکاری طور پر ان کے علاج کے لئے میڈیکل بورڈ بنوائیں۔ پرویز الہی نے کہا آپ میرے پاس بیٹھیں میں 10 منٹ میں فارغ ہولوں۔ پھر انہوں نے ساری مصروفیات ختم کیں اور اپنے عملے کو چلنے کے لئے کہا جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہیں فارغ کیا اور ہم کوئی ایک گھنٹے بعد ڈیفنس ہسپتال میں موجود تھے۔ حنیف رامے کمرے کے دروازے کے باہر ہی مجھے ان کے صاحبزادے ابراہیم را سے مل گئے۔ میں نے حال احوال پوچھا وہ خاموش رہے اور پرویز الہی کو دیکھ کرہوئے اندر آجائیں۔ رامے صاحب کو شاید بولنے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی۔ پرویز الہی صاحب نے حال پوچھا اور پھر مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے ابراہیم سے کہا کہ میں ابھی سینئر ڈاکٹر کا بورڈ بنواتا ہوں اور خود بھی انچارج سے بات کرتا ہوں سیکرٹری ہیلتھ میرے ساتھ آئے ہیں۔ مزید خدمت ہو تو بتا ئیں۔ ابراہیم صاحب نے شکر یہ ادا کیا اور ہم باہر آ گئے ۔ یہاں میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ چودھری خاندان کی یہ بات مجھے ہمیشہ سے بہت اچھی لگی اور مجھے یاد آیا کہ عدنان شاہد کی لندن میں اچانک وفات کے بعد ان کی میت و ہیں چھوڑ کر کہ ابھی کئی دن میں قانونی کارروائی مکمل ہونی تھی میں یاسمین کے ساتھ لاہور پہنچا اور جہاز رکنے پر دروازے سے باہر آیا تو چودھری شجاعت حسین میرے سامنے کھڑے تھے۔ انہوں نے میرے گلے لگ کر افسوس کیا اور میت کا پوچھا میں نے بتایا چھ دن بعد ملے گی۔ وہ میرے ساتھ ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں کی بجائے لفٹ سے نیچے آئے اور پھر اصرار سے مجھے لینے کے لئے جو لوگ ائیر پورٹ آئے تھے ان کی بجائے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور کہنے لگے ہم آپ کے گھر چلیں گے۔ سیاسی اتفاق ہو یا عدم اتفاق اس خاندان میں آنکھ کی مروت اور جینے مرنے پر حاضری دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے بھی ہمیشہ تعلقات کی آبیاری کی۔ عدنان شاہد مرحوم کا ذکر آیا تو بتادوں کہ ان کا انتقال لندن میں ہوا تھا جہاں ہم ایک رات کے لئے ٹھہرے تھے ۔ ڈاکٹر سعیدہ قریشی کے ہاں صبح سب سے پہلے گھر تلاش کر کے پہنچنے والے میاں محمد شہباز شریف تھے۔ ان کے ہمراہ پرویز رشید بھی تھے۔ وہ اڑھائی تین گھنٹے میرے پاس رہے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے اور میری ڈھارس بندھاتے رہے پھر عدنان کے جسد خاکی کے بارے میں پوچھا کہ لاہور لے جانے کے حوالے سے اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میں نے کہا نہیں سارا بندوبست صبح سے ہی کیا جا چکا ے۔ جسد خا کی پانچویں دن دیں گے تو میرے عزیز اور دوست جنازے کے بعد یہاں سے پاکستان روانہ کر دیں گے ۔ شام کو ہماری فلائٹ تھی اور ہم واپس پاکستان جارہے تھے کیونکہ عدنان کی والدہ کو سنبھالنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ فلائٹ سے پہلے آخری فون جو مجھے ملا وہ میاں محمد نواز شریف کا تھا جو دبئی سے بول رہے تھے۔ انہوں نے بھی فون پر تعزیت کی اور کہا کہ میں خود حاضر ہوتا گر میں لندن میں نہیں ہوں ۔ حنیف رامے صاحب ہوں یا میرے بیٹے عدنان سب کو ان کی طرح اللہ کے حضور ایک دن پیش ہونا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف باتیں رہ جاتی ہیں اور ملاقاتیں۔
قارئین واضح رہے کہ میری ایک کتاب جمعہ بخیر کا ٹائٹل بھی حنیف رامے نے بنایا اور قرآنی آیات طغروں کی شکل میں فریم شدہ ان کے ہاتھوں سے بنی ہوئی میرے دفتر میں بھی ہیں اور میرے گھر پر بھی۔ میں سوچتا ہوں حنیف رامے میں کیا کمی تھی۔ وہ کیوں بڑا حکمران بن سکا نہ بڑی سیاسی جماعت بنا سکا۔ شاید اس لئے کہ وہ خود دولت مند نہیں تھا اور نہ ہی اس نے اقتدار کے زمانے میں دولت اکٹھی کی۔ وہ ایک متوسط درجے کا شہری تھا اور ہمارے ہاں متوسط طبقہ ہی اپنے طبقے کے کسی انسان کو اپنا لیڈر نہیں مانتا۔ حنیف رامے ایک بچے
کھرے انسان اور سیاستدان تھے۔ حنیف رامے !Overto you

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں