1,044

یزید بن معاویہ سے لیکر میر جعفر تک ،مسلمانوں کی حکمرانی کے 12سو سال(قسط1)

رپورٹ : وجاہت علی خان

اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی خوشحالی اور دنیا پر چھا جانے کی شروعات عہد نبوی ؐکے غزوات یعنی فتح مکہ 10 جنوری630 عیسوی کو ہو چکی تھیں لیکن عملی طور پر مسلمانوں کا عرب سے باہر حکمرانی کا آغاز 23 اگست634ء میں حضرت عمر بن خطاب کے خلیفہ بنتے ہی شروع ہوا اور ان کے دور خلافت میں عراق مصر لیبیا شام ایران خراسان اناطولیہ کے مشرقی حصے آرمینیا وغیرہ فتوحات کے بعد مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 51 ہزار میل تک پھیل گیا اسی دور میں پہلی مرتبہ یوروشلم فتح ہوا اسی طرح ساسانی اور باذنطینی سلطنتوں کا ایک تہائی حصہ بھی اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا ۔723ء تک مسلمانوں کی فتوحات فرانس تک پہنچ چکی تھیں اور پھر یہ نہ رکنے والا سلسلہ آنے والے ہزار سال تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ تک جاری و ساری رہا پیغمبر اسلام ؐ کی 623 ء میں وصال کے تقریبا ًتیس سال بعد 661 ء میں خلفائے راشدین کی سلطنت 30 لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی اور دنیا کے کل رقبے کا 6 فیصد مسلمانوں کے تسلط میں تھا ۔بنو امیہ کا دور 720-750ء تک 52 لاکھ مربع میل اور دنیا کے کل رقبے کا 8 فیصد مسلمانوں کے پاس تھا یعنی اس وقت دنیا کی 30 فیصد آبادی پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ بنو امیہ کے دور میں اسلامی حدود ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں گوکہ 1492ء تک یہ حکومت قائم رہی لیکن درمیان کے تقریباً سات سو سال میں کیا کیا سازشیں ہوئیں اس پر آگے چل کر بات کریں گے لیکن اس عظیم الشان خلافت امویہ کا خاتمہ بھی غیروں نے نہیں بلکہ مسلمانوں نے ہی کیا جب دمشق پر عباسیوں نے قبضہ کر لیا اس وقت خلافت امویہ کے دسویں خلیفہ ہشام بن عبدالمالک کا پوتا عبدالرحمن واحد فرد تھا جو اس قتل عام میں بچ گیا وہ اور اس کا بھائی محل سے فرار ہوکر جان بچانے کے لیے دریائے دجلہ میں کود گئے تو عباسی سپاہیوں نے انہیں واپس آنے پر جان کی امان دینے کا وعدہ کیا ۔عبدالرحمن کا بھائی یحیٰ ان پر یقین کر کے باہر نکل آیا لیکن عباسیوں نے اسے فوراً ہی قتل کر دیا جبکہ عبدالرحمن تیر کر دریا عبور کر کے عباسیوں کی دسترس سے باہر چلا گیا جو بعد ازاں اندلس میں امارات امویہ کا بانی بنا۔ اس کی حکومت یہاں 756ء سے 788ء تک قائم رہی وہ عباسیوں کو نظر انداز کرکے امارات قرطبہ کا خودمختار حکمران رہا ۔

عباسی خلافت خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے قائم کی جو 750 سے 1258ء تک قائم رہی یہ حکومت ایک تحریک کے نتیجے میں قائم ہوئی یقیناً جو بنوامیہ کے خلاف تھی لیکن افسوس کہ یہ حکومت بھی امویوں کی طرح شخصی اور موروثی تھی اور ولی عہد منتخب کرنے کا بھی وہی طریقہ تھا جو امویوں کا تھا ۔ عباسیوں نے اپنا دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا دو سو سال تک عباسیوں کو مکمل عروج حاصل رہا لیکن جب زوال آیا تو آغاز پر ہی مملکت کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی جس میں ایران کے مقامی امرا ء نے اقتدار حاصل کیا اور اس کے ساتھ ہی مصر اور فریقہ کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے علاقے فاطمیوں کے زیر اثر آگئے اور پھر ان تمام مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں بھی جاری رہیں ۔ سازش و قتال کا سلسلہ بھی جاری رہا ، عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں ہوا تو یہ بھی مسلمانوں کی اندرونی جدال و قتال کی وجہ سے ہی ہوا ۔جب منگول فاتح ہلاکو خان کے حملوں نے کشتوں کے پشتے لگا دیے لیکن اس کے باوجود خلیفہ کی حیثیت سے ان کا دبدبہ پھر بھی قائم رہا اورمملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہو گئی تاہم یہ صرف ظاہری خلافت تھی تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے ۔ اب مملکوں کی کہانی بھی سن لیں۔ مملوک قرون و سطی ٰمیں مسلمان خلفاء کیلئے خدمات انجام دینے والے مسلمان سپاہی تھے وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ دفعہ حکومتوں میں بھی رہے جن میں طاقتور ترین حکومت مصر میں 1250ء سے 1517ء تک اُن کی حکومت تھی بلکہ مملوک تو ہندو ستان تک بھی پہنچے، قطب الدین ایبک 1206ء میں سلطان ہند بنے اور خاندان غلاماں کی بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1290ء تک قائم رہی ، مملوکوں کو عباسی خلفاء اپنی حفاظت کیلئے بھرتی کرتے تھے۔ انہیں کاروبار سلطنت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا ان کی ذمہ داریوں میں فوجی دستوں کی حکمت عملی کی تربیت، تیر اندازی ، شہسواری اور ابتدائی طبی امداد جیسی تربیت شامل تھیں، مملوک فوجی چھاؤنیوں میں رہے جہاں وہ تربیت اور صحت مند مصروفیات میں مصروف رہتے ۔تربیت مکمل ہو جانے کے بعد وہ غلام نہیں رہتے تھے۔ غلاموں کیساتھ مسلمانوں کے اعلیٰ سلوک کی واضح مثال ان کا اونچے عہدوں تک پہنچناہے جن میں سپہ سالاری تک شامل ہے ۔مصر میں مملوک سلطنت نے ایوبی سلطنت سے جنم لیا جسے 1174ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے تشکیل دیا جس نے دمشق کے زنگی سلطان نور الدین زنگی کو شکست دی مصر فتح کیا اور 1198ء میں بیت المقدس کی فتح کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنی گرفت مضبوط کر لی لیکن صلاح الدین کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی جنگ میں مملوک فوج دھڑوں میں تقسیم ہو کر آمنے سامنے آگئیں ، آخر کار مملکوں اور عباسیوں کو بھی مسلمانوں ہی کی ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے عثمانیوں نے شکست دی تو خلافت مکمل طور پر عثمانیوں کو منتقل ہو گئی ۔

ابھی تک ہم نے اُمویوں اور عباسیوں کی سلطنت سے متعلق یعنی ان کے ادوار حکومت سے متعلق اختصار سے جاناہے لیکن اصل میں ان دونوں گروہوں کا تنازع کچھ یوں تھا کہ خاندان بنو اْمیہ کے دورِ حکومت کے زوال سے ہر جگہ بغاوتیں شروع ہو گئی تھیں جن میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی بنی ہاشم کیونکہ اسی خاندان سے تھے جس سے رسول اللہ ؐ تھے اس لئے وہ خود کو خلافت کا حقدار بنو اُمیہ سے زیادہ سمجھتے تھے، بنو ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہو گئے تھے ایک وہ جو حضرت علیؓ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا یہ گروہ شعیان علی کا طرفدار کہواتا تھا بعد میں اسی گروہ میں کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی بنیاد یا شکل اختیار کر لی اور وہ اثنا عشری کہلائے ، دوسرا گروہ رسول اللہ ؐ کے چچا حضرت عباس کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا، پہلے بنو اُمیہ والے حکمران بنے پھر بنو عباس غالب آ گئے ۔ بنو عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے صاحبزادے زین العابدین کو پیش کی لیکن جب انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے حضرت علیؓ کے غیر فاطمی بیٹے محمد بن خنیفہ کوامام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہو گیا، محمد بن خنیفہ کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبداللہ جانشین ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی 100ہجری میں انہوں نے وفات پائی تو ان کے خاندان میں سے کوئی ان کے پاس نہیں تھا، مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے محمد بن علی وہاں موجود تھے اس لئے ابو ہاشم نے ان کو جانشین مقرر کر کے منصب امامت ان کے سپرد کر دیا چنانچہ اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں کو منتقل ہو گئی 126ہجری میں محمد بن علی کا انتقال ہوا تو اس کے بڑے بیٹے ابراہیم بن محمد ان کے جانشین ہوئے ان کے دور میں اس تحریک نے انتہائی زور پکڑا تو مشہور ایرانی ابومسلم خراسانی عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا اور اس نے ایک طرف تو عربوں کو آپس میں لڑایا دوسری طرف ایرانیوں کو عربوں کے خلاف ابھارا چنانچہ اس دور میں ایران میں عربوں کو چن چن کر قتل کیا گیا اسی دور میں ابراہیم بن محمد کو عربوں کی طرف سے قتل کر دیا گیا تو اس غم میں سیاہ لباس اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا گیا۔
عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کے حکمران خلفائے راشدین کی اصولوں پر نہ چلے ، ایرانیوں کو بھی حکومت سے شکایات بڑھتی چلی گئیں کیونکہ اب وہ مسلمان ہو چکے تھے اور عربوں کے برابر حقوق بھی چاہتے تھے جب ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگے اور اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔ اسی دور میں خود عربوں کے اندر قبائلی عصبیت اور اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے چنانچہ مسلمانوں کی یہ بدقسمتی تھی اسلام جس رنگ و نسل کے اختلافات مٹانے کے لئے آیا تھا یہ ختم نہ ہو سکے اور عربوں کی قوت کمزور ہوگئی ۔چنانچہ امویوں کا سب سے بڑا سہارا چونکہ عرب تھے اس لئے امیہ کی سلطنت کمزور پڑ گئی ۔ اسلامی دنیا کی حالت یہ تھی کہ بنو ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے خراسان میں بغاوت کر دی ۔ ہشام کے نااہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کر سکے اور دارالخلافہ دمشق پر بنو ہاشم کا قبضہ ہو گیا چنانچہ اس طرح بنو ہاشم کی شاخ بنو عباس کی حکومت یہاں قائم ہو گئی اور پھر خاندان عباسیہ کی یہ حکومت 500سال سے زائد عرصہ تک قائم رہی اور ان کے 37خلفاء برسر اقتدار آئے۔
عباسی سلطنت کے تقریباًاختتامی دور میں 300ہجری یا 900عیسوی تھا جب سلطنت فاطمیہ کا دور شروع ہوا جس کے بانی عبیداللہ مہدی چونکہ حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد میں تھے (اگرچہ بعض محققین اس سے اتفاق نہیں کرتے)اس لئے اسے فاطمی دور کا کہا جاتا ہے ، عبیداللہ تاریخ میں مہدی کے لقب سے معروف ہیں۔اس دور حکومت کو اسماعیلی دور بھی کہا جاتا ہے اور مہدی کا تعلق یا شجرہ اثنا عشریہ شیعہ کے چھٹے امام جعفر الصادق سے بتایا جاتا ہے جن کے بڑے بیٹے اسماعیل سے یہ فرقہ منسوب ہے۔شمالی افریقہ کے شہر فیروان میں قائم ہونیوالی یہ سلطنت بھی کوئی اڑھائی سو سال تک قائم رہی۔ابو القاسم ، ابو طاہر اسماعیل المنصور باللہ ، ابو تمیم معدالمعز الدین اللہ اس سلطنت کے مشہور خلفاء تھے 335ہجری میں اس سلطنت پر عروج آیا مصر کے حکمران اخشید محمد کا انتقال ہو گیا تو ایک حبشی غلام کا فور نے مصر پر بڑی دانائی سے حکومت کی یہ دور مصر کا زریں دور کہلاتا ہے 357ھ میں اس کا انتقال ہو ا امن و امان کی حالت بگڑی تو فاطمی خلیفہ منصورنے مصر کے ساتھ دمشق اور دیگر علاقے بھی فتح کر لئے لیکن خُلفاء راشدین کے بعد کی اُمیہ اور عباسی خلافتوں کی طرح فاطمی سلطنت کا خاتمہ بھی آپسی سازشوں اور لڑائیوں کے نتیجہ میں ہوا۔549 ہجری فاطمیوں کی عظیم الشان حکومت کا آخری سال تھا بہت سے فاطمی خلفاء کے قتال کے بعد سلطنت انتہائی کمزور ہو چکی تھی ، فوج میں بھی دھڑے بندی اور پھوٹ پڑ چکی تھی باپ بیٹے کو زہر دے دیا رہا تھا اور بیٹا باپ کو قتل کروا رہا تھا آہستہ آہستہ اس عظیم الشان فاطمی سلطنت کا شیرازہ بھی بکھر گیا اور یہ اپنے اختتام کو پہنچی ، فاطمی دور میں اہل سنت کیساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا اور لوگوں کو شیعہ مذہب قبول کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا رہا، قاضیوں کو شیعہ عقیدے کے مطابق فیصلے کرنے کی زبردستی کی جاتی ، عہدوں اور منصبوں کے لالچ میں بھی بہت سے لوگوں نے شعیت اختیار کر لی۔خلفاء نے نماز تراویح کی نماز ممنوع قرار دے دی آذان میں ’’حیی علیٰ خیرالعمل ‘‘ کا اضافہ کر دیا، صلواۃ الضحیٰ پڑھنے پر پابندی لگا دگئی ، دکانوں ،مکانوں اور قبرستانوں پر سب السلف لکھوا دیا گیا۔اہلسنت رنگین اور منقش تحریروں میں اپنے مکانوں پر اپنے بزرگوں پر لعنت ملامت لکھوانے پر مجبور کئے گئے اکثر لوگ جبراً دعوت اسمعیلیہ میں شامل کئے گئے اور ان کی تربیت کیلئے دارالحکومت بنایا گیا، اذان میں ’’اُصلوۃ خیرمن النوم ‘ ‘ کے بجائے ’’حی علی خیرالعمل ‘‘ کا اعلان کیا گیا،رمضان کیلئے حکم دیا گیا کہ رویت ہلال پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ حساب سے روزے شروع اور ختم کئے جائیں۔اہل کتاب کیسا تھ رواداری کا سلوک بھی چھوڑ دیا گیا ان پر بے جا سختیاں کی جانے لگیں انہیں مجبور کیا گیا کہ 1۔ اسلام قبول کر لیں یا سلطنت فاطمیہ سے نکل کر دوسرے ملکوں میں چلے جائیں۔2۔ اگر نصاری ہوں تو کالا لباس پہنیں اور اپنی گردنوں میں وزنی صلیب ڈالیں اور یہ صلیب واضح نظر آنی چاہیے۔3۔ اگر یہودی ہوں تو پیلے رنگ کے عمامے پہنیں اور اپنے گلے میں ایک لکڑی کی بنی گائے کے بچھڑے کی شکل لٹکائیں ۔ علاوہ ازیں ان کے حمام بھی علیحدہ کر دیئے گئے۔

لیکن دور فاطمیہ میں بہت سے نامور مشاہیر ، شعراء اور محقیقن بھی پیدا ہوئے جن میں مشہور سائنس دان، ہیت دان اور طبیب ابو علی حسن الہیثم بھی ہیں جنہوں نے ریاضی ، ہیت ، فلسفہ اور طب پر ایک سو سے زیادہ کتابیں لکھیں ان کی کتاب ’’المناظر ‘‘ نے بہت شہرت پائی۔ المحنار المسجی محمد بن قاسم نے بہت سی کتابوں کے ساتھ ساتھ ’تاریخ الکبیر ‘ لکھی۔ علی بن یونس نے چار جلدوں میں زریح حاکمی لکھی، عمر بن الموصلی نے’المنتحب فی علاج العین تصنیف کی جو آنکھوں کے علاج پر ایک عمدہ تصنیف سمجھی جاتی ہے۔حکیم ناصر خسرو کے سفر نامے مشہور ہیں۔اسماعیلی دور میں ابن ہانی ، علی تونسی ، الامیر تمیم معروف شعرا ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اس دور میں کتابوں کا ایسا ذخیرہ کسی بادشاہ کے پاس بھی نہیں تھا جیسا کہ فاطمیوں کے پاس تھا۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں موجود تھیں جن میں قرأت ، حدیث ، فقہ، نخوحساب ، نجوم ، منطق اور فلسفہ کی کتب شامل تھیں۔ صنعت و حرفت اور معماری میں بھی فاطمی یکتا تھے۔فاطمی عہد کی عمارتوں میں سب سے قدیم عمارت جامع ازہر کی ہے جو 359ہجری میں تعمیر ہوئی تھی بہت سے رد وبدل کے باوجود اس کے بیچ کا حصہ قدیم ہے۔اور صدیاں گذر گئیں فاطمیوں کی بنائی گئی یونیورسٹی میں آج سنی طرز اسلام پر تعلیم دی جاتی ہے۔دولت و ثروت میں بھی فاطمی خلفاء اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ان کی دولت سے متعلق جو کچھ تاریخ میں لکھا گیا ہے ہو سکتا ہے اس میں مبالغہ آرائی ہو لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ مصر ہمیشہ اپنی زرخیزی میں مشہور رہاہے۔
فاطمیوں کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ؐ کو اپنا رسول بنایا اور انہیں حُکم دیا کہ علیؓ کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علی ؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی لہٰذا ہم (فاطمی) اللہ کے خلیفہ ہیں اور دنیا میں مذہبی اور سیاسی حکمران ہیں۔ اسمبلیوں نے اپنی سیاسی عمارت کی بنیاد بھی مذہب پر رکھی۔شیعیوں کے دیگر فرقوں کی طرح اسماعیلی بھی بادشاہوں یا خلفاء کے خدائی حق کے قائل تھے ان کا یقین تھا کہ آدم ؑ کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا اور آدم کو حکم دیا کہ وہ اپنا جانشین مقرر کرے لہٰذا ان کا قائم مقام بھی خدا کا خلیفہ کہلاتا ہے اور خدا کی خلافت ہمیشہ زمین پر قائم رہی ہے۔بہر کیف دنیا کے سٹیج پر دوسری بڑی سلطنتوں کی طرح دولت فاطمیہ بھی جلوہ افروز ہوئی اور غائب ہوئی اور تمام جاہ وجلال اور ان کی نشانیاں سب گردش ایام میں گم ہو گئیں۔فاطمیوں کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل کسی دوسرے مذہب والے نہیں بلکہ ایک سنی العقیدہ مسلمان حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی نے ٹھونکی جب مصر میں آخری فاطمی خلیفہ عاضد کی حکمرانی تھی تو یہاں محلاتی سازشیں بھی عروج پر تھیں۔ سلطان نور الدین زنگی جو عباسی خلافت کے ماتحت تھا اس نے اپنے سپہ سلار اسد الدین شیر کو اس کے بھتیجے صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ مصر روانہ کیا جہاں انہوں نے مصر کو فتح کیا، بعد ازاں خلیفہ عاضد نے صلاح الدین ایوبی کو اپنا وزیر اعظم مقرر کر دیا جو امام شافعی کا عقیدت مند تھاانہوں نے مدرسہ شافیعہ اور مدرسہ مالکیہ کی بنیاد رکھی، اب صورتحال یہ تھی خلیفہ تو اسماعیلی شیعہ تھا اور وزیر اعظم سنی تھاچنانچہ خلیفہ عاضد کے انتقال کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی یہاں کا حکمران بن گیا چنانچہ اس طرح یہاں ایوبی سلطنت کی شروعات ہوئی۔
سلجوقی سلطنت
فاطمیوں کے دورمیں ہی آس پاس سلجوک حکمران وسط ایشیا، خلیج فارس کے کئی علاقوں‘ مغربی ترکی اور ہندوکش کے کئی علاقوں میں موجود تھے۔
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا ًاوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
طغرل بے اور چغری بیگ
طغرل بے سلجوق کا پوتا تھا جبکہ چغری بیگ اس کا بھائی تھا جن کی زیر قیادت سلجوقیوں نے غزنوی سلطنت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ابتداء میں سلجوقیوں کو محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ خوارزم تک محدود ہوگئے لیکن طغرل اورچغری کی زیرقیادت انہوں نے 1028ء اور 1029ء میں مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ ان کے جانشینوں نے خراسان اور بلخ میں مزید علاقے فتح کئے اور 1037ء میں غزنی پر حملہ کیا۔ 1039ء میں جنگ دندانیقان میں انہوں نے غزنوی سلطنت کے بادشاہ مسعود اوّل کو شکست دے دی ۔مسعود سلطنت کے تمام مغربی حصے سلجوقیوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ 1055ء میں طغرل نے بنی بویہ کی شیعہ سلطنت سے بغداد چھین لیا۔
الپ ارسلان
سلجوقی سلطنت نے اپنے عروج کے زمانے میں آرمینیا اور جارجیا کو سلطنت میں شامل کر لیا۔ وہ ایک بہت بیدار مغز اور بہادر حکمران تھا ۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور ماوراء النہر کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی قلمر و میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔ بازنطنیوں نے حملہ کیا تو 26 اگست 1071ء کو ملازکرد کے مقام پر ان کو عبرتناک شکست دی۔ اور قیصر روم رومانوس چہارم کو گرفتار کر لیا۔ قیصر روم نے نہ صرف تاوان جنگ ادا کیا اور خراج دینے پر رضامند ہوا۔ بلکہ اپنی بیٹی سلطان کے بیٹے سے بیاہ دی اور آرمینیا اور جارجیا کے علاقے اس کو دے دیئے ۔ خوارزمی ترکوں کے خلاف ایک مہم میں قیدی بناکر لائے گئے خوارزمی گورنر یوسف الخوارزمی کی تلوار سے شدید زخمی ہوا اور 4 دن بعد 25 نومبر 1072ء کو محض 42 سال کی عمر میں انتقال کرگیا ۔ الپ ارسلان کو مرو میں ان کے والد چغری بیگ کی قبر کے برابر میں دفن کیا گیا۔
ملک شاہ
الپ ارسلان کے جانشیں ملک شاہ اوّل اور ان کے دو ایرانی وزراء نظام الملک اور تاج الملک کی زیر قیادت سلجوق سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کی مشرقی سرحدیں چین اور مغربی سرحدیں بازنطینی سلطنت سے جاملی تھیں۔ ملک شاہ نے دار الحکومت رے سے اصفہان منتقل کر دیا۔ اس دوران میں نظام الملک نے بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی۔ ملک شاہ کے دور حکمرانی کو سلجوقیوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ 1087ء میں عباسی خلیفہ نے ملک شاہ کو “سلطان مشرق و مغرب” کا خطاب کیا۔ ملک شاہ کے دور میں ہی ایران میں حسن بن صباح نے زور پکڑا جس کے فدائین نے کئی معروف شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
سلطنت کی تقسیم
1092ء میں ملک شاہ اول کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں اور 4 بیٹوں کے درمیان میں اختلافات کے باعث سلطنت تقسیم ہوگئی۔ اناطولیہ میں قلج ارسلان اوّل ملک شاہ اوّل کا جانشیں مقرر ہوا جس نے سلطنت سلاجقہ روم کی بنیاد رکھی۔ شام میں اس کا بھائی توتش اوّل حکمران بنا جبکہ ایران میں اس کے بیٹے محمود اوّل نے بادشاہت قائم جس کی اپنے تین بھائیوں عراق میں برکیارق، بغداد میں محمد اوّل اور خراسان میں احمد سنجر سے تصادم ہوتا رہا۔
توتش اوّل کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں رضوان اور دوقق کو بالترتیب حلب اور دمشق وراثت میں ملا اور ان دونوں کی نااتفاقی کے باعث شام کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا جن پر مختلف امراء کی حکومتیں تھیں۔
1118ء میں احمد سنجر نے سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھتیجے اور محمد اول کے بیٹے محمود ثانی نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور بغداد میں دار الحکومت قائم کرتے ہوئے اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا تاہم 1131ء میں بالآخر احمد سنجر نے اسے ہٹادیا۔
صلیبی جنگیں
سلجوقی سلطنت کے سیاسی زوال کے آغاز اور ملک بھر میں پھیلی خانہ جنگی اور طوائف الملوکی سے مسلم امہ کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے والی آخری قوت کا بھی خاتمہ ہونے لگا تو اہلیان یورپ نے اس کو بھرپور موقع جانا اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس طرح اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال مسلمانوں پر مسلط رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز پر یورپ سے بیت المقدس کے راستے میں عیسائیوں کا سب سے اولین ٹکراؤ اناطولیہ کی سلجوقی مسلمانوں کی حکومت سلاجقۂ روم سے ہوا۔ عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس جنگ سے قبل ہی سلجوق فاطمیوں کے ہاتھوں فلسطین گنواچکے تھے۔ صلیبیوں اور منگولوں کے حملے سے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور بالآخر 1260ء کی دہائی میں منگولوں کی اناطولیہ پر چڑھائی کے ساتھ آخری سلجوق سلطنت (سلاجقہ روم) کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
سلجوقیوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی یوں لگا کہ کرہ ارض کے اس علاقے میں اب مسلمانوں کا ہمیشہ کیلئے بستر گول ہو چکا ہے اور عیسائی سلطنت کے علاوہ اب یہاں کسی کا راج نہیں ہو گا ‘ لیکن بہت جلد ہی دنیانے دیکھا کہ عثمانی خلافت منصۂ شہود پر آئی اور آنے والی تقریبا ًسات دہائیوں تک اپنے پورے جاہ وجلال سے 1922ء تک قائم رہی۔
عثمانی خلافت کی شروعات
1299ءسے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر
سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔
1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اس کی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اوّل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اس کی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اوّل کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
عثمان اوّل نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اوّل ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔
یہ عثمان اوّل کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔
سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اوّل کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں “محمد چلبی” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی (سلطان محمد فاتح) کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔
عثمانی تاریخ کا یہ دور دو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک 1566ء تک علاقائی، اقتصادی اور ثقافتی نمو کا دور جس کے بعد عسکری و سیاسی جمود کا دور۔
جنگ موہاکز (1526ء) اور عثمانیوں کی جانب سے فتح ہنگری
1453ء میں فتح قسطنطنیہ نے جنوب مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرنے کی بنیاد رکھی اور پھر 1566ء تک یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں فتوحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ ان فتوحات کا سبب فوج کا معیاری نظم و ضبط اور جدید عسکری قوت تھی جس میں بارود کے استعمال اور مضبوط بحریہ کا کردار بہت اہم تھا۔ ریاست کی معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا کیونکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان میں تجارت کے تمام زمینی و سمندری راستے عثمانی سلطنت سے ہو کر گذرتے تھے۔ ایک کے بعد دیگر عظیم سلاطین نے سلطنت کی سرحدیں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا جن میں سلیم اوّل کا نام نمایاں ہے جنہوں نے مشرقی و جنوبی جانب توجہ کی اور صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل صفوی کو جنگ چالدران میں شکست دی اور مصر میں عثمانی حکومت قائم کی۔ سلیم کے جانشیں سلیمان عالیشان (1520ء تا 1566ء) نے مغرب میں سلطنت کو توسیع دی اور 1521ء میں بلغراد کی فتح کے بعد 1526ء میں جنگ موہاکز کے ذریعے ہنگری اور دیگر وسطی یورپی علاقوں میں عثمانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد انہوں نے 1529ء میں ویانا کا محاصرہ کیا لیکن سرد موسم اور شہر کے باسیوں کی زبردست مزاحمت کے باعث یہ محاصرہ ناکام ہو گیا اس طرح عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ گئیں اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں وسطی یورپ کے اس شہر سے آگے کبھی نہ بڑھ سکیں۔ سلیمان کے ادوار میں ٹرانسلوانیا، ولاچیا اور مالدووا سلطنت عثمانیہ کے باجگذار بنے۔ مشرق میں عثمانیوں نے ایران سے بغداد دوبارہ حاصل کر لیا اور بین النہرین پر قبضہ کر کے خلیج فارس تک بحری رسائی حاصل کر لی۔
سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلاف تیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔
بغاوتیں اور احیاء (1566ء-1683ء)
خیر الدین پاشا باربروسا نے 1538ء میں جنگ پریویزا میں یورپ کے متحدہ بحری بیڑے کو بدترین شکست دی ۔
1566ء میں سلیمان کا انتقال، علاقائی فتوحات کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ مغربی یورپ کی سلطنتوں کا بطور بحری قوت ابھرنا اور یورپ سے ایشیا کے لیے متبادل راستوں اور “نئی دنیا” (امریکہ) کی دریافت نے عثمانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطنت عثمانیہ کو بیدار مغز حکمرانوں کی ضرورت تھی بدقسمتی سے اسے نالائق حکمرانوں کے طویل دور کو سہنا پڑا جس نے داخلی و عسکری محاذ پر مملکت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1683ء میں جنگ ویانا تک سلطنت کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس جنگ کے بعد یورپ میں سلطنت کی توسیع کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ مغربی یورپ کی جانب سے نئے تجارتی راستوں کی تلاش و دریافت کے علاوہ “نئی دنیا” سے اسپین میں بڑی مقدار میں چاندی کی آمد عثمانی سکے کی قدر میں تیزی سے بے قدری کا باعث بنی۔ سلیم ثانی کے دور میں صدر اعظم محمد پاشا صوقوللی نے معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے سوئز نہر اور ڈون وولگا نہر کی تعمیر کے منصوبہ جات پیش کیے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
جمود اور اصلاحات (1699ء-1827ء)
جمود کے دور میں بلقان کے کئی علاقے آسٹریا کے قبضے میں آ گئے۔ ریاست کے متعدد علاقے، جیسے مصر اور الجزائر، مکمل طور پر خود مختار ہو گئے اور بالآخر سلطنت ِبرطانیہ اور فرانس کے قبضے میں چلے گئے۔ 17 ویں سے 19 ویں صدی کے دوران میں روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان میں کئی جنگیں بھی لڑی گئیں جنہیں ترک روس جنگیں کہا جاتا ہے۔ عثمانیوں کے جمود کے اس طویل دور کو مورخین نے ناکام اصلاحات کا دور بھی قرار دیا ہے۔ اس دور کے اواخر میں ریاست میں تعلیمی و تکنیکی اصلاحات بھی کی گئیں اور استنبول تکنیکی جامعہ جیسے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ لیکن قدیم سوچ کے حامل مذہبی و عسکری طبقے نے اصلاحات کی شدید ترین مخالفت کی حتٰی کہ چھاپہ خانوں تک کو “شیطانی ایجاد” قرار دیا گیا جس کے باعث 1450ء میں یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد 43 سال تک سلطنت عثمانیہ چھاپے خانوں سے محروم رہی لیکن 1493ء میں اسپین سے بے دخل کیے گئے یہودیوں نے استنبول میں پہلا چھاپہ خانہ قائم کیا۔ دور لالہ سلطان احمد ثالث کے پرامن دور اور گل لالہ سے محبت کے باعث دور لالہ کہلاتا ہے۔ 1712ء میں روس کے خلاف پرتھ مہم میں کامیابی اور اس کے بعد معاہدۂ پاسارووچ کے باعث 1718ء سے 1730ء تک کا دور پرامن رہا۔ اس دور میں سلطنت نے یورپ کی پیشقدمی کے خلاف مضبوط دفاع کے پیش نظر بلقان کے مختلف شہروں میں قلعہ بندیاں کیں۔ دیگر اصلاحات میں محصولات میں کمی، عثمانی سلطنت کے بیرون ممالک میں تصور کو بہتر بنانا اور نجی ملکیت و سرمایہ کاری کی اجازت شامل ہیں۔ عثمانیوں میں عسکری اصلاحات کا آغاز سلیم ثالث (1789ء-1807ء) کے دور میں ہوا جنہوں نے یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔ حالانکہ ان اقدامات کی مذہبی قیادت اور ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں ینی چری نے بغاوت بھی کی۔ اور سلیم کو اپنی اصلاحات کا خمیازہ حکومت اور جان دونوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں اٹھانا پڑا لیکن اس کے جانشیں محمود ثانی نے ان تمام اصلاحات کو نافذ کر کے دم لیا اور 1826ء میں ینی چری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔
محمود ثانی نے 1839ء میں تنظیمات کے ذریعے ترکی میں جدید دور کی بنیاد رکھی
دور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظور شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution) ۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئی ۔ سلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: برنجی مشروطیت دوری) مختصر رہا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمان نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 1876ء میں فوجی تخت کے ذریعے سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) مراد پنجم کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ مراد پنجم ذہنی معذور تھا اور چند ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے ممکنہ جانشین عبد الحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو تسلیم کریں گے جس پر انہوں نے 23 نومبر 1876ء کو عمل بھی کیا۔ لیکن پارلیمان صرف دو سال قائم رہی اور سلطان نے اسے معطل کر دیا اور بعد ازاں پارلیمان کو طلب کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ تاہم قانون اساسی کے اثرات کافی حد تک کم ہو گئے۔ اس عرصے میں سلطنت کو بیرونی جارحیت اور قبضہ گیری کے خلاف اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خطرات کا سامنا رہا۔ 1798ء میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 1877ء کی روس ترک جنگ میں شکست کے بعد برلن کانگریس میں حمایت کے صلے میں 1878ء میں ایالت قبرص پٹے پر برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔ سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے “یورپ کا مرد بیمار” کہا گیا لیکن معاشی طور پر سلطنت کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پزیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا۔ اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور ابھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے۔
جنگ عظیم اوّل
مصطفٰی کمال اتاترک 1915ء میں جنگ گیلی پولی کے دوران میں ایک خندق میں پہلی جنگ عظیم میں بغداد ریلوے پر جرمن اختیار بین الاقوامی طور پر کشیدگی کا ایک مسئلہ اہم تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے مشرق وسطیٰ میدان میں حصہ لیا جس کا سبب ترک جرمن اتحاد تھا۔ عثمانیوں نے جنگ کے ابتدائی دور میں دو اہم فتوحات، جنگ گیلی پولی اور محاصرۂ کویت حاصل کیں لیکن اسے کئی دھچکے بھی پہنچے جیسے روس کے خلاف تباہ کن قفقاز مہم۔ 1917ء کے روسی انقلاب نے عثمانیوں کو شکست کے داغ دھونے اور کھوئے ہوئے علاقے حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور عثمانی افواج جنگ کے اختتامی مراحل میں آذربائیجان کے حصول میں کامیاب ہو گئیں لیکن جنگ عظیم کے اختتام پر اسے ان فتوحات سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس تنازعے میں پیش آنے والا ایک متنازع اور اہم واقعہ صوبہ وان میں ترک حکام، عثمانی افواج اور کرد جنگجوؤں کے ہاتھوں لاکھوں آرمینیائی باشندوں کا مبینہ قتل عام اور ملک بدری اور اس کے خلاف آرمینیائی باشندوں کی مزاحمت تھی۔ ایک مرکزی آرمینیائی مزاحمتی گروہ نے مئی 1915ء میں آزاد عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا اور عثمانیوں نے اسے مشرقی اناطولیہ پر جارحیت کرنے والی روسی افواج کا ساتھ دینے کی کوشش سمجھا۔ 1917ء کے اختتام تک آرمینیائی انقلابی وفاق نے جمہوریہ آرمینیا قائم کر دی جو آرمینیائی قتل عام سے بچ جانے والے باشندوں پر مشتمل تھی۔ واضح رہے کہ ترک حکومت آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر یقین نہیں رکھتی۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آرمینیائی قتل عام پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے شکست کے دو اہم اسباب ایڈمنڈ ایلنبائی کی زیر کمان برطانوی افواج کی اہم اہداف پر حملے اور عرب بغاوت تھے۔ ان میں عرب بغاوت سلطنت عثمانیہ کی شکست کا سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ مدینہ کے عثمانی کماندار فخری پاشا نے محاصرہ مدینہ میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔
عثمانی سلطنت کے آخری سلطان محمد ششم کی آمد، 1922ء
جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان، اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں “قومی مجلس اعلیٰ” (ترک زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء) 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلیٰ نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
عثمانی ترکوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تین سو سال میں دنیا کی وسیع ترین اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کا روپ اختیار کر لیا اور اس میں بنیادی کردار ترک قوم کی شجاعت اور تنظیمی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جیسی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم ہوئی۔ چونکہ عثمانی سلاطین نے سلجوقیوں کے نظام کو اپنایا تھا اس لیے فرمانروا کا انتخاب اہل خاندان کرتے تھے اور خاندان کا سربراہ ہی بادشاہ ہوتا تھا۔ عملی سیاست کے تعلق تک بادشاہ مطلق العنان اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہوتا تھا تاہم اس کے تمام اقدامات و افعال اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتے تھے۔ وہ قانون، نظام اور رسم و رواج کا پابند تھا اور شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ اسلامی قوانین کو تقریباً تمام معاملات میں برتری حاصل تھی اور بادشاہ شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے حق و طاقت کا استعمال کر سکتا تھا۔ چونکہ بادشاہ کی حیثیت مطلق العنان فرمانروا کی تھی اس لیے جب کمزور سلطان آئے تو سلطنت کے امور وزراء انجام دینے لگے لیکن پھر بھی احکامات سلطان کی جانب سے صادر ہوتے تھے۔ ابتداء میں عثمانی حکمران خود کو بیگ اور غازی کہلواتے تھے۔ بایزید اول پہلا عثمانی حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا اور سلیم اول فتح مصر کے بعد پہلا عثمانی خلیفہ بنا۔ سلطان سلیمان قانونی کے زمانے تک فوج کی اعلیٰ کمان سلطان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وہ خود جنگ میں شرکت کرتا تھا لیکن بعد کے حکمرانوں میں یہ طریقہ نہ رہا جس سے سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔
اس کی اصل حیثیت فوجی منصف کی تھی اور شیخ الاسلام کے بعد اس کا درجہ آتا تھا۔ قاضی عسکر کو سلطان خود مقرر کرتا تھا۔ قاضی عسکر دو تھے ایک یورپی اور دوسرا ایشیائی مقبوضات کے لیے جو بالترتیب قاضی عسکر رومیلیا اور قاضی عسکر اناطولیہ کہلاتے تھے۔
1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی اور 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں اور 1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران میں بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کے عروج کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان میں بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا تھا۔ یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر قیادت تھا۔ 1585ء میں عثمانی امیر البحر مراد رئیس نے جزائر کناری میں لانزاروت کو فتح کیا۔ 1617ء میں عثمانی افواج نے مدیرہ پر بھی قبضہ کیا اور بعد ازاں اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران میں آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سلطان عبد العزیز اوّل (دور حکومت: 1861ء تا 1876ء) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا جو 194 بحری جہازوں پر مشتمل تھا لیکن زوال پزیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ اصلاح پسند مدحت پاشا اور 1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمان کی حمایت کے بعد سلطان عبد الحمید ثانی (دور حکومت: 1876ء تا 1908ء) کا اعتبار بحریہ پر سے اٹھ گیا۔ اور روس کے خلاف جنگوں میں کوئی استعمال نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اکثر بحری جہاز شاخ زریں میں بند کر دیے گئے جہاں وہ اگلے 30 سالوں تک سڑتے رہے۔ 1908ء میں نوجوانان ترک انقلاب کے بعد اتحاد و ترقی جمعیتی نے ملک کا نظم و ضبط سنبھالنے کے بعد بحریہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی اور عوامی چندے سے عثمانی بحریہ فاؤنڈیشن تشکیل دی گئی اور عوامی رقم سے ہی بڑے بحری جہازوں کی خریداری شروع کی گئی۔
(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں