38

میڈیا پرغزہ سے متعلق جھوٹ


میڈیا کسی بھی ملک کا ہو وُہ معاشرے کی آنکھیں اور آواز ہوتا ہے عمومی طور پر میڈیا کی کسی خبر کو لوگ من و عن درست سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں ، یقینا بین الاقوامی سطح پر کئی ایک ایسی نیوز ایجنسز اور اخبارات و ٹیلی ویژن چینل موجود ہیں جن کی خبر کو درست سمجھا جاتا ہے لیکن گزشتہ کوئی ساڑھے چار مہینے سے غزہ میں حماس / اسرائیل جاری جنگ سے متعلق کئی قسم کی خبریں عالمی میڈیا پر گردش میں ہیں جن پر عام لوگ آنکھ بند کر کے یقین کرتے ہیں یقینا ان کے پاس دوسری کوئی آپشن بھی نہیں ہے لیکن اس ضمن میں بعض انڈیپینڈنٹ اداروں نے اپنی رپورٹس مرتب کی ہیں جن کے مطابق غزہ سے متعلق بعض حقائق غلط بتائے جا رہے ہیں مثال کے طور پر غزہ میں مارے جانے والے افراد کی تعداد کو ہی لے لیں تو اس بارے بھی نادرست معلومات یوں ہیں کہ ۲۰ فروری تک ۲۹ ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں ۱۳ ہزار بچے ، ۹ ہزار خواتین اور کوئی ۹ ہزار سے زیادہ جوان لوگ شامل ہیں حالانکہ بعض تھنک ٹینکس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مرنے والوں کی کم از کم تعداد اس سے دوگنا ہے اور غزہ کی تقریبا تمام آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔اور سچ تو یہ ہے کہ سچ سے ہم کوسوں دور ہیں۔پچھلے دسمبر میں اسرائیلی فوج کے ایک سابق جنرل یتزاک برک نے کہا تھا کہ میری باوثوق معلومات کے مطابق غزہ میں حماس کے ہزاروں جنگجوؤں کی حلاکت کی جھوٹی خبریں دی جا رہی ہیں حالانکہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے لیکن اسرائیلی فوج کے ترجمان اور اعلی دفاعی حکام جنگ کی دھول چھٹ جانے اور حقیقی تصویر واضح ہونے سے قبل اس جنگ کو اپنی ایک عظیم فتح کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد میں خود دو دفعہ مصر جا چکا ہوں اور بہت سے زمینی حقائق اور وُہ صریح جھوٹ جو میڈیا / سوشل میڈیا پر پڑھے سُنے یا دیکھے جا سکتے ہیں ان کی اصلیت سے متعلق بڑی حد تک باخبر ہوں لیکن بعض حدود و قیود کے باعث ان کی حقیقت اشارتا بھی بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
حال ہی میں مصر کی جامع الازہر آبزرویٹری نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ میڈیا دُنیا بھر کے تنازعات کو، کور کرنے میں اہم کردار ضرور ادا کرتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے پیشہ ورانہ معیارات پر عمل پیرا ہو، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا دنیا بھر کے تنازعات کو چھپانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، بشرطیکہ وہ واقعات اور تنازعات کو پیش کرنے میں اپنے پیشہ ورانہ معیارات کی پابندی کرے۔
جو شخص بھی غزہ کی پٹی میں جاری نسلی تطہیر کے بارے میں انصاف کے ساتھ عالمی میڈیا کی کوریج کو مشاہدہ کرتا ہے وہ یہ آسانی کے ساتھ ادراک کر سکتا ہے کہ مختلف قومیتوں کے لاکھوں پیروکاروں والے میڈیا آؤٹ لیٹس بہت سے اپنے پیشہ ورانہ معیارات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس میڈیا معیار کی خلاف ورزی کا سب سے واضح ثبوت بڑی تعداد میں امریکہ کے انتہائی معتبر خبر رساں اداروں کے 750 سے زائد صحافیوں کا وہ دستخط شدہ خط ہے جس میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں صحافیوں کے قتل کی مذمت کی گئی ہے ، رپورٹ کے مطابق اس خط میں اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو بیان کرنے کے لیے نسل کشی جیسی اصطلاحات کے استعمال پر زور دیا گیا ہے اور غزہ میں میڈیا کی کوریج پر اس پر پابندی جیسے نتائج کی دھمکی اور اس اخبار کی ساکھ کو خطرہ میں ڈالنے وغیرہ کے لیے خبردار کیا گیا ہے۔ الازہر آبزرویٹری کے مطابق یہ خط بلاشبہ غزہ اورفلسطین کے واقعات سے متعلق میڈیا کی ہیرا پھیری کو ثابت کرتا ہے اور اسی لیے یہ بڑے واضح طریقہ سے کہا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں بین الاقوامی میڈیا غزہ میں ہونے والی تباہی میں خطرناک کردار ادا کر رہا ہے۔
اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ غزہ جنگ کے مظالم جیسی آشکار حقیقت کو چھپانا اور جھوٹ بولنا بعض میڈیا ہاؤسز کی فطرت میں شامل ہے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر ایسے کئی انفلوئنسرز اسرائیل اور غزہ کی جنگ سے متعلق غلط معلومات اور دل خراش مناظر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کر کے فلسطینیوں کی تکلیف سے پیسا کما رہے ہیں ! گزشتہ سال اکتوبر، نومبر میں انگریزی زبان میں ان کا شائع کردہ مواد سب سے زیادہ دیکھا اور شیئر کیا گیا ہے ، یہ انفلوئنسرز مشرق وسطیٰ کے ماہر نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایڈیٹ کی ہوئی یا مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے بنائی ہوئی تصویروں سے موجودہ واقعات کی تصویر کشی کر کے لاکھوں فالوورز حاصل کیے حالانکہ اس میں ۱۰% بھی سچائی نہیں تھی اور ایسے “قبیح کھیل” میں بہت سے دیگر “ کھلاڑی “بھی شامل ہیں ۔ اس قسم کی معلومات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اکاؤنٹس رکھنے والے اشتعال انگیز اور اکثر غلط مواد پوسٹ کر کے رقم کماتے نظر آتے ہیں۔ اس مواد سے ایسے اکاؤنٹس کو ایکس کے ریوینیو شیئرنگ سکیم کے تحت سبسکرائبرز اور آمدن ملتی ہے جس وجہ سے یہ جھوٹ پھیلانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں
اسرائیل اورغزہ میں تشدد کے بڑھنے کے بعد سے ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ جسے جیکسن نامی ایک شخص چلاتا ہے اس اکاؤنٹ پر اس کے فالورز چارگنا بڑھ کر 20 لاکھ ہو گئے اور اس جنگ کے موضوع پر ایکس پر پوسٹ کرنے والے تمام اکاؤنٹس میں سے اسے سب سے زیادہ ویوز، ری ٹوئٹس، لائکس اور جواب ملے۔ اس سب کی وجہ بعض خاص قسم کی ٹوئٹس ہیں جو وہ کر رہے ہیں وہ مسلسل غلط اور گمراہ کن دعوے کر رہے ہیں اور زخمی بچوں اور تباہ شدہ گھروں کی دلخراش ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں۔ یہ ٹویٹس کافی پریشان کن ہوتی ہیں لیکن یہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کرتی ہیں اور انھیں بڑے پیمانے پر شیئر کیا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے گمراہ کن معلومات کو مانیٹر کرنے والی ٹیک کمپنی لاجیکیلی کے تجزیہ کے مطابق جیکسن کی پوسٹ کو ایکس پر سات اکتوبر سے دو کروڑ مرتبہ شیئر کیا گیا ہے۔
ایکس پر اسرائیل/غزہ جنگ سے متعلق سب سے زیادہ شیئر ہونے والی پوسٹ میں سے 75 فیصد جیکسن کی ہیں یعنی 20 پوسٹس میں سے 15 اس کی ہیں۔
اس پیمانے کا اثرورسوخ رکھنے والے جیکسن اس موضوع کے ماہر نہیں ہیں اور حماس کے حملے سے پہلے وہ شازو نادر ہی فلسطین اور اسرائیل کے موضوع پر کچھ ٹویٹ کرتے تھے، اس سے قبل وہ اپنے دیگر خیالات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
نوجوانی میں وہ ایک ماحولیاتی کارکن تھا، اُس نے انٹرنیٹ پر مقبولیت ’ماگا کمیونسٹ‘ بن کراور روس کے پراپیگنڈا کو بار بار فروغ دے کر حاصل کی۔ مثال کے طور پر یوکرین پر نازی حکومت اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے منشیات کا عادی ہونے کا دعویٰ ! اُس نے کہا تھا کہ جنیٹکس غلط سائنس ہے اس کے علاوہ اس نے سٹالن کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور شام میں بشار الاسد حکومت کی حمایت کی پھر جب سات اکتوبر کو حماس / اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو اس نے اپنے معمول کے موضوعات سے ہٹ کر ٹویٹس کرنا شروع کیں۔ اس نے ہر روز درجنوں کے حساب سے اسرائیل مخالف پوسٹ کرنا شروع کیں، اس نے اسرائیل کو نام نہاد دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے ساتھ غلط تشبیہ دی جسے برطانوی حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔
عموما بھی ایسا نہیں ہے اور خصوصی طور پر بھی حماس / اسرائیل جاری جنگ کے بعد محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ادھر اُدھر کی ناقدانہ تاویلات تو ڈھونڈتے ہیں لیکن “اسلام کے قلعے” پاکستان سمیت مسلمان دُنیا کے امیر ترین ممالک کا ایسا کوئی بھی میڈیا دکھائی نہیں دیتا جو صحیح معنوں میں بین الاقوامی ہو جو اس حالیہ جنگ اور عموما بھی تصویر کا دوسرا رُخ کم از کم مسلمان دُنیا کو تو دکھا سکے۔ ہاں ! “الجزیرا ٹیلی ویژن “ اس ضمن میں تھوڑا یا بہت اپنا حصہ ضرور ڈال رہا ہے جو یقینا کافی نہیں ہے !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں