43

زکوٰة غزہ کے لئے


غزہ جنگ کو پانچ ماہ گزر چکے ہیں، سات اکتوبر کو شروع ہونے والی اس جنگ میں فلسطین اتھارٹی کے محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر تیس ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ خواتین اور معصوم بچے شامل ہیں،جنگ میں زخمیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے، اس جنگ میں غزہ کی تمام ۲۲لاکھ آبادی بے گھر ہوچکی ہے اور صرف رفاہ بارڈر پر پندرہ لاکھ افراد پناہ گزین ہیں، یہ پناہ گزین پلاسٹک کے خیموں میں زندگی بسر کررہے ہیں، پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے اور معصوم بچے پلاسٹک بوتلیں اٹھائے پانی کی تلاش میں دربدر دھکے کھاتے رہتے ہیں، پیاس کی شدت کی وجہ سے وہ سمندر کا نمکین پانی، بارش اور جوہڑ کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں،انھیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے،فضائی حملوں اور فائرنگ کی وجہ سے گھروں سے راشن بھی اٹھانے کی مہلت نہ ملی اور سال بھر کے لئے جمع گندم اور اناج کا ذخیرہ ملبے تلے دب گیا، بچوں کو دودھ کی ضرورت ہے لیکن شیر خوار بچوں کے لئے دودھ بھی موجود نہیں، بھوک، پیاس، بیماری اور کمزوری کی وجہ سے مائوں کی چھاتی کا دودھ بھی خشک ہوگیا اور دودھ پینے والے بچے ان کی گود میں بلک بلک کر مررہے ہیں،زخمیوں کو علاج کی ضرورت ہے لیکن فضائی اور زمینی حملوں کی وجہ سے ہسپتالوں کی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں، بجلی کی سپلائی بند ہے،جنریٹروں سے عارضی بجلی مہیا ہورہی تھی لیکن پٹرول ختم ہونے کے بعد جنریٹر بھی بند ہوچکے ہیں، بجلی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں نصب مشینیں نے کام بند کردیا ہے اور مصنوعی سانس مہیا کرنے والے وینٹی لیٹرز بھی بند ہوگئے ہیں، جان بچانے والے ادویات ختم ہوچکی ہیں حتی کہ نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار کی گولیاں اور شربت بھی نہیں مل رہا، بچے اور خواتین سڑکوں، گندگی کے ڈھیروں اور کوڑے کرکٹ سے خوراک تلاش کر کے کھانے پر مجبور ہیں، فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں جانوروں کی خوراک کھارہے ہیں،زہریلی اور غیر صحت مند خوراک کھانے کی وجہ سے انسانی امراض خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں اور سینکڑوں انسان علاج کے بغیر مررہے ہیں۔ غزہ میں موت میں زندگی کا تعاقب کررہی ہیں، آسمان سے طیارے بمباری کررہے ہیں،پائلٹ کے بغیر ہوا میں اڑنے والے ڈرون پہلے کیمروں کی مدد سے روپوش انسانوں کے ٹھکانے ڈھونڈتے ہیں پھر میزائل پھینکتے ہیں اور جہاں میزائل اور زہریلی گیس والے بم پھینکتے ہیں وہاں انسان، جانور اور پرندے بھی دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں،زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے والی ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے زخمی افراد طبی امداد ملنے سے پہلے دم توڑ دیتے ہیں، غزہ میں مظلوموں کی مدد کرنے والے رضا کار بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں اور انھیں بھی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ دنیا غزہ کے حالات سے بےخبر رہے، غزہ میں ظلم وستم اپنی تمام حدیں پار کرچکا ہے،میتوں کی تدفین کے لئے دو گز جگہ بھی دستیاب نہیں،ملسمان میتوں کی بے حرمتی ہورہی ہے اور میتوں کو پلاسٹک کے تھیلوں میں غسل، کفن اور دفن کی اسلامی رسومات کی ادائیگی کے بغیر اجتماعی قبریں کھود کر دفن کردیا جاتا ہے۔زخمی، معذور،دماغی، ذہنی، نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد موت کے منتظر ہیں، غزہ ملبے کا ڈھیربن چکا ہے، غزہ جل رہا ہے جہاں ہر طرف دھواں ہے،غزہ کی مٹی میں بارود کی بدبو ہے اور فضا میں ٹینکوں کا شور اور فضا گرد الود ہے۔ ۔یہ ایک ایسے ملک اور قوم کے حالات ہیں جہاں زیتون کی شاخ امن کی علامت تھی مگر وہاں زیتون کے باغ اجڑ گئے اور باغبان مر گئے۔
غزہ میں صرف دو ممالک کے راستے غذائی اور امدادی سامان کی سپلائی جاری ہے جن میں مصر اور اردن شامل ہیں، ان ممالک سے روانہ ہونے والے امدادی ٹرکوں کے قافلے رفاہ بارڈر اور کرم ابو سالم بارڈرکے ذریعے غزہ کے اندر پہنچتے ہیں۔ امدادی سامان میں خوراک، کپڑے، خیمے، ادویات، پٹرول، پینے کے صاف پانی، بچوں کا خشک دودھ، بسکٹ، گرم کمبل اور خشک راشن سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔برادر ملک اردن ہنگامی بنیادوں پر امدادی سامان مہیا کررہا ہے اور رفاہ میں فضائی امداد بھی مہیا کررہا ہے،جہازوں کے ذریعے امداد کےلئے پیرا شوٹ استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ امدادی سامان کے تھیلے بحفاظت پناہ گزین خاندانوں تک پہنچ جائیں اور زمین پر خوراک کے تھیلے پھٹ نہ سکیں، یہ فضائی امداد پہنچانے کاسب سے محفوظ طریقہ ہے کیونکہ افغانستان، شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں یہ مسائل پیدا ہوئے تھے کہ جہازوں کے ذریعے امدادی سامان پھینکنے کے بعد خوراک کے تھیلے پھٹ کر ضائع ہوجاتے تھے۔یار لوگ افوہیں پھیلارہے ہیں کہ غزہ میں امدادی سامان نہیں پہنچ سکتا، یہ دراصل ایک گھنائونی سازش ہے تاکہ ہمارے مسلمان بہن بھائی مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہ کرسکیں ، یہ سازش خدمت انسانیت میں مصروف ان اداروں کے خلاف بھی ہے جو غزہ میں امدادی سامان بھیج رہے ہیں تاکہ مسلم امہ ان اسلامی اداروں سے مایوس ہو جائیں اور امدادی سامان جمع نہ ہوسکے۔یہ افواہیں سوشل میڈیا پر بھی پھیلائی جاتی ہیں اور مساجد،فنڈ ریزنگ تقریبات میں بھی ایسی باتیں عام سننے کو ملتی ہیں، ہمیں ایسی باتیں کرنے والوں کو حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا ایک طبقہ بائیکاٹ کی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے، اشیا کا بائیکاٹ نہ کریں بلکہ اپنی رقوم ان فلاحی اداروں کو عطیہ کر دیں جو غزہ میں امداد بھیج رہے ہیں، برگر، سیندوچ،پیزا،بسکٹ، کولا ڈرنکس، مشروبات،چاکلیٹ، چپس، چیونگم، کافی، گارمنٹس، کمپویٹر کا بائیکاٹ چھوڑیں اور آئیے غزہ جنگ تک اپنا مال و اسباب صرف فلسطینیوں کی امداد کے لئے وقف کردیں۔المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ مسلمان فلاحی اداروں میں سب سے زیادہ سبقت لے گیا ہے۔ المصطفیٰ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد سات اکتوبر۲۰۲۳کے بعد مسلسل غزہ کی امداد میں مصروف ہیں، وہ دو مرتبہ اپنے وفود کے ہمراہ مصر گئے جہاں انھوں نے ریڈ کریسنٹ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرکے وہاں ریڈ کریسنٹ اور المصطفیٰ کے درمیان غزہ میں امدادی سامان بھیجنے کا معاہدہ کیا، اقوام متحدہ کا واحد ادارہ یونائیٹڈ نیشن ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین، جو فسلطین میں امدادی سامان تقسیم کرنے والا واحد بین الاقوامی ادارہ اور اسے مکمل رسائی حاصل ہے، ریڈ کریسنٹ فلسطین اور اردن کے شاہی خاندان کا الہاشمی ٹرسٹ، یہ تمام مستند ادارے ہیں جو کسی شک و شبہ کے بغیر غزہ امداد بھیج رہے ہیں، المصطفیٰ ان بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام میں مصروف ہے۔المصطفیٰ کی غزہ میں امدادی سامان کی کھیپ بھیجنے کی تصویریں، ویڈیو اور دیگر سرگرمیاں انٹر نیٹ میں سرچ ہو سکتی ہیں، لہذا ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ المصطفیٰ کو مالی امداد دے کر حوصلہ افزئی کی ضرورت ہے۔ اے مسلمان بہن بھائیوں، رمضان کا بابرکت مہینہ مبارک ہو،رمضان کی عظمت اور شان ہے کہ اللہ تعالی رمضان المبارک میں کئے ہوئے عمل کا ثواب بھی بڑھا چڑھا کر دیتا ہے،رمضان المبارک میں ایک نیکی کی تعداد دس گنا سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، رمضان المبارک کی برکت ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان اپنے مال کی پاکیزگی کے لئے زکوة، صدقہ، خیرات، عطیات، فطرانہ، کفارہ دیتے ہیں، آئیے ہم سب ایک نعرہ لگائیں کہ “زکوة غزہ کے لئے” اور غزہ کے لئے نہ صرف خود زکوة دیں بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں