31

غزہ میں المصطفیٰ


منصور آفاق
ابھی تھوڑی دیر پہلے غزہ کی وزارت صحت نے کہاہے کہ خان یونس کے طبی مراکز کا اسرائیلی محاصرہ جاری رہنے کے باعث ناصر اور الامال اسپتالوں میں خوراک ختم ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ گریفتھس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ غزہ کیلئے امداد بدستور روکی جا رہی ہے۔چند دن پہلےتقریباً 24 ملکوں میں کام کرنےوالی برطانوی چیریٹی ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین عبدالرازق ساجد سے بات ہوئی تھی۔وہ اس وقت مصر میں رفاہ کراسنگ پر موجود تھے اور کامیابی سےلاکھوں پاؤنڈ کے سامان کی دوسری کھیپ بھی غزہ بھجوا چکے تھے ۔میں نے صورتحال جاننے کیلئے انہیں آج پھر فون کیا ۔وہ امریکہ کے کسی ایئرپورٹ پر ابھی ابھی اترے تھے۔انہوں نے بتایا کہ میں امریکہ اسی سلسلے میں آیا ہوں ،ابھی تک غزہ میں امداد پہنچانا انتہائی مشکل اور خطرناک ہے،واحد زمینی راستہ جہاں سفر ممکن ہے وہ رفاہ بارڈر ہے جہاں مصر کی طرف سے غزہ جانے کیلئےامدادی سامان سے بھرے سینکڑوںٹرک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں ۔
چیریٹیزکو اتنی اجازت تو ہونی چاہئے کہ وہ اپنے ڈونرز، جن میں مساجداور فلاحی ادارے بھی شامل ہیں ، کی دی گئی امانتیں غزہ کے مستحقین تک با آسانی پہنچا سکیں، جہاں کبھی 20لاکھ آبادی کا ہنستا بستا ایک شہر تھا جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے ۔جہاں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہیں ، شہیدوں کی لاشیں ۔میں نے پوچھا کہ المصطفی ٰ ٹرسٹ دومرتبہ پہلے سامان پہنچانے میں کیسے کامیاب ہواتوانہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی تنظیم ہلال احمر اورالمصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے درمیان مصر کے شہر قاہرہ میں غزہ میں مل کر امداد بھجوانے کا ایک معاہدہ ہوا ہے ۔جس کے تحت ہم امداد بھجوا رہے ہیں مگروہاں ضرورت بہت زیادہ ہے اورامدادی سامان بھیجنے کی رفتاربہت سست ہے ۔اسے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ امداد کے سو ٹرک جا رہے تھے ۔اب کئی کئی روز بعد انتہائی محدود تعداد میں ٹرکوں کو وہاں جانے کی اجازت مل رہی ہے۔غزہ میں دہائیوں سے کام کرنے والی’’یونائٹڈ نیشن ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘‘نے بھی غزہ ایمرجنسی سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے بیس لاکھ اور سترہ لاکھ فلسطینی ریفیوجی بہت بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ عبدالرزاق ساجدہمارے ان دوستوں میں سے ہیں جن کے سینے میں پتھر نہیں دل دھڑکتا ہے ۔وہ انسانوں کے عالمی خاندان کے فرد ہیں اورہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ ہمیں مذاہب کی قید سے آزاد ہو کر انسانیت کے لئے سوچنا چاہئے ۔جنگ زندگی کی تباہی ہے ۔قبر کی تاریکی ہے ۔دونوں طرف مرنے والے انسان ہوتے ہیں ۔
غزہ میں فوری جنگ بندی انتہائی ضروری ہے تاکہ’’ المصطفیٰ‘‘ جیسے فلاحی ادارے وہاں مظلوم خاندانوں کیلئے ایمرجنسی ریلیف کا کام تیز تر کر سکیں ۔مجھے عبدالرازق ساجد کے پختہ عزم پر خوشی ہوئی ہے ۔کہہ رہے تھے ہم فلسطین میں اس وقت تک فلاح و بہبود کام جاری رکھیں گے جب تک غزہ میں زندگی کی رونقیں بحال نہیں ہو جاتیں ۔اُنہوں نے مجھےلندن سے اپنے کچھ ڈونرز کے ساتھ رفاہ کراسنگ تک کےبہت ہی مشکل سفر کا احوال سنایا۔ان کے خیال میں شہری آبادی پربمباری فوری طور پر بند کروائی جائے تاکہ رفاہ بارڈر سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ٹرک وہاں پہنچ سکیں ،تب ہی زخمیوں کو طبی امداد اور خیموں سمیت کم از کم ہی سہی کھانے پینے کی بنیادی اشیا اور طبی سامان کی فراہمی ممکن ہو گی۔
مجھے یاد ہے میں کسی زمانے میں ایک چیریٹی آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرتا تھا ۔برطانیہ سے ایک شخصیت تشریف لائی۔انہوں نے ٹیلی ویژن چینل پر ایک بہت بڑی مسجد کی تعمیر کیلئے فنڈنگ ریزنگ کا آغاز کیا تھا۔مختلف اوقات میں اس چیئریٹی نے اس مقصدکیلئے تقریباً دو ملین پونڈ جمع کیے ۔جواس وقت کے حساب سے تقریبا ً چھتیس کروڑ بنتے تھے ۔میں جب پاکستان آیاتو میں نے سوچا کہ جس مسجد پر چھتیس کروڑروپیہ لگایا گیا تھا اسے جاکر دیکھوں تو سہی ۔دیکھنے گیا اتقاق سے میرے ساتھ ایک انجینئر بھی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے حساب لگا کر بتائے کہ اس پر کتنی رقم خرچ ہوئی ہوگی تو وہ کہنے لگامیرے حساب سے اس وقت تک اس مسجد پر زیادہ سے زیادہ چار پانچ کروڑ لگے ہونگے ۔میں حیران رہ گیا۔جن لوگوں نے مسجد کی تعمیر کیلئے فنڈ دیا تھا انہیں تو اس کا ثواب ملا ہوگا مگر جنہوں نے مسجد کے مال سے اپنے اکاونٹس بھر لئے ، ان کا بھی کچھ علاج ہونا چاہئے۔لوگوں کیلئے مشورہ یہی ہے کسی کو فنڈ دیتے سے پہلے یوکے کے چیریٹی رجسٹر پر چیریٹی کا نام اور رجسٹریشن نمبر چیک کریں ۔ اچھی طرح جانچ پڑتال کرکے خیرات کریں تاکہ ضرورت مندوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ا
ٓپ کویہ جاننا چاہئے کہ آپ کی دل کھول کر عطیہ کی گئی رقم اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچی ہے یا نہیں ۔اگرچہ اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے بہت سختی کی ہوئی ہےمگر ہمارے پاکستانی بھی بڑے کمال کےلوگ ہیں ۔فراڈ کے ایسے ایسے راستے نکالتے ہیں کہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے ۔بہر حال میں عبدالرازق ساجد کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ جو فنڈ جس مقصد کیلئے ملا اسی پر خرچ کیا۔انہیں اگر فلسطینیوں کیلئے فنڈنگ ملی تو انہوں نے انتہائی مشکل سفر کرکے غزہ تک یہ امداد پہنچائی۔ یقیناً اس کا اجر انہیں اللہ تعالی ہی دے گا۔ انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے یوکے میں المصطفیٰ ٹرسٹ بنایا اور پھر اسے بہت کم وقت میں بلندیوں پر لے گئے۔ وہ میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی کے ساتھ انجمن طلبائے اسلام میںکام کیا کرتے تھے۔ جب شروع شروع میں برطانیہ آئے تو ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں رہتی تھیں ۔اس وقت وہ نوٹنگھم میں رہا کرتے تھے ۔پھر وہاں سے لندن چلے گئے اور چیریٹی ورک شروع کر دیا۔ اس وقت دوچار لوگ ہی انکے ساتھ تھے مگر رفتہ رفتہ قافلہ بنتا چلا گیا۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اور بلندیاں عطا فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں