قسط ۳
عبد الرزاق ساجد
امیر المومنین سیدنا علیؓ بن ابی طالب عمر میں حضور ﷺ سے تیس برس چھوٹے تھے ۔آپ کے والد محترم کا نام عبدمناف تھا جو ابوطالب کی کنیت سے مشہور تھے ۔ابوطالب ،حضرت زبیر اور حضور ﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ آپس میں ماں اور باپ دونوں کی طرف سے سگے بھائی تھے ۔ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی والد ہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت اسدؓ تھا یہ بھی بنوہاشم سے ہی تعلق رکھتی تھیں اور ان سے پہلے بنو ہاشم کی کسی لڑکی کی شادی اپنی ہی برادری میں نہیں ہوئی تھی۔اس لحاظ سے سیدنا علیؓ ہاشمی ہونے میں نجیب الطرفین تھے ۔
جب حضور ﷺ کے دادا کا انتقال ہوا تو انہوں نے آٹھ سال کے محمد ﷺ کو ان کے سگے چچا ابوطالب کی کفالت میں دیا۔ اس موقع پر فاطمہ بنت اسدؓ نے حضورﷺ کو ماں جیسا پیار دیا،ان کے اسی محبت بھرے سلوک کی وجہ سے حضورﷺ انہیں ماں کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ مسلمان ہوئیں اور مدینہ میں ان کا انتقال ہوا جب کہ ابوطالب حضورﷺ کی کوشش اور چاہت کے باوجود اسلام سے محروم رہے۔ سیدنا علیؓکے والد ابوطالب بن عبدالمطلب کثیر العیال اور معاشی طور پر مفلوک الحال تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ جعفر طیارؓ کی پرورش آپ کریں اور علیؓ کی کفالت میں کرتا ہوں، اس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عمر مبارک تین سال تھی۔ اس طرح آپ کا دامن صحبتِ نبوی کے باعث بچپن ہی سے جہالت و مفسدات کی آلودگیوں سے پاک رہا۔
بڑے ہوئے تو سفر و حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے،گھر کے جملہ معاملات میں ہاتھ بٹاتے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی معاونت کرتے۔ اسی وجہ سے آپؓ کے اخلاق و عادات پر اخلاقِ نبوی کی گہری چھاپ تھی۔ بعثت کے بعد جب رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب آلِ بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اپنی نبوت پر ایمان لانے کا کہا، تواس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا: ’’گو میں عمر میں چھوٹا ہوں، میری ٹانگیں کمزور ہیں اور آشوبِ چشم میں مبتلا ہوں، مگر میں آپ کا مددگار بنوں گا۔‘‘ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال تھی۔
مکی زندگی کے پر آشوب دور میں آپؓ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، خود فرماتے ہیں کہ: ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔‘‘ تبلیغی اسفار میں بالعموم آپ ہی رفیقِ سفر ہوتے۔ تین سالہ شعبِ ابی طالب کے جاں گسل دورمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ ہجرت کے موقع پر آخری رات آپ ہی بسترِنبوی پرمحوِ استراحت ہوئے، یہ گویا موت کا بستر تھا اور آپؓ نے حکمِ نبوی کے سامنے جان کی پروا بھی نہ کی۔ اگلے دن امانتیں لوٹا کر عازمِ مدینہ ہوئے۔
’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔‘‘’’اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادئ نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کہ کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب اس سعادت کے حصول کے انتظار میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کو میرے پاس لائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، اس وقت وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیجئے آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور کہا : اے اللہ! یہ میرا کنبہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ امام علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کا معنی پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، بزار اور ابویعلی نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو(واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے بیان کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرہ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ اس حدیث کو ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا : لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ ’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ اس کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا انہیں شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا سو ہم باہر آگئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا : جعفر، علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے : یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ، انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خُلق تمہارے خُلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی! تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جا سکتا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستے میں بہت سخت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ ’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے اور حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
’’حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل تم سے راضی ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔