417

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی؟

رپورٹ
عبدالرزاق ساجد
[email protected]
بریگزٹ کے معاملے پر ہونے والے حالیہ برطانوی انتخابات نے نہ صرف برطانوی و یورپی عوام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ایک عالم ان انتخابات کے نتائج پر انگشت بدندان ہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی آواز اس جمہوری عمل کے خلاف بلند نہ ہونے کا مطلب جمہوریت پر ایمان و ایقان ہے۔ اسے روشن خیالی پر قدامت پسندی کی فتح قرار دینے اور برطانیہ کے دنیا میں اجنبی بن کر رہ جانے کی پیش گوئیاں کرنے والوں کے پاس اپنی تاویلیں‘ تاہم برطانوی عوام کے اس فیصلے کے نتائج وقت سامنے لائے گا‘ وقت جس کی فطرت میں کسی سے رورعایت کرنا شامل ہی نہیں اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا بریگزٹ کا یہ عمل تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے؟
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی یونین سے کنارہ کشی کا معاملہ نہ ہوتا تو 19دسمبر 2019ء کوانتخابات نہ ہوتے بلکہ حسبِ دستور مئی 2022ء کو انعقاد پذیر ہوتے۔ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ انتخابات کو تین سال قبل کروا لیا گیا اور یہ بریگزٹ ہے کیا جس نے برطانوی جمہوری روایت ہی بدل ڈالی؟ دوسری عالمی جنگ نے یورپ کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا اور کروڑوں انسان لقمہ اجل ہو گئے۔ تو جنگ کے سب سے متاثرہ خطے یورپ میں امن و آشتی اور تعمیر نو کی تحریکیں شروع اور مقبول ہوئیں۔ اس حد تک کہ دشمن ممالک انسانی ترقی اور بقائے باہمی کے جذبے کے تحت قریب آنے لگے۔ اہم اوربنیادی وجوہات دو تھیں‘ اول یورپ کوکسی تیسری جنگ سے بچانا اور ثانیاً امریکہ کے برابر اقتصادی قوت بننے کے لئے مشترکہ اقتصادی قوت تخلیق کرنا۔ 1952ء میں مغربی جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ بیلجیئم‘ نیدرلینڈ اور لکسمبرگ نے یورپی کمیونٹی تشکیل دی۔ 1992ء میں معاہدہ ماسٹر چٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا جس کے کم و بیش سبھی یورپی ممالک کی سرحدیں نہ ہونے کے برابر جبکہ کرنسی یورو ہے جو دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں امریکی ڈالر سے بھی آگے ہے۔
برطانیہ نے 1993ء میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی جسے 1995ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے قانونی شکل دی گئی۔ یونین کا حصہ بننے کے باوجود برطانیہ کی تاریخی حیثیت برقرار رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور برطانوی کرنسی سٹرلنگ پائونڈ بھی اپنی قدروقیمت منوائے رہا۔ تاہم برطانیہ کے ہی چند حلقے یونین میں شمولیت کو اپنی انفرادیت کیلئے بہتر قرار نہ دیتے تھے جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو برطانیہ کی عظمتِ رفتہ کے محافظ کہلواتے ہیں اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ میں انتہائی اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔ گاہے بگاہے ان کی آواز یورپی یونین میں شمولیت کے خلاف بلند ہوتی لیکن ان کا حلقہ اثر اتنا وسیع نہ تھا۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ان لوگوں کے مطالبات میں اکثریتی آواز شامل ہوتی دکھائی دی تو 2016ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہی 41 سالہ یونٹی کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ یورپی یونین میں شمولیت گھاٹے کا سودا تھا۔ لہٰذا اب اس یونین سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون اس حق میں نہ تھے چنانچہ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے مستعفی ہو گئے۔ پارلیمنٹ نے یہ ذمہ داری تھریسامے کو سونپ دی کہ وہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے ایسا معاہدہ تشکیل دیں کہ جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لئے نقصان دہ نہ ہو۔ چنانچہ ان کی سربراہی میں مشن بریگزٹ شروع ہوا جس کے نتائج برطانوی انتخابات کی صورت میں سامنے آگے۔
برطانوی انتخابات حیران کن اس لئے ہیں کہ برطانوی مزاج کے برعکس ان میں دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی کو برطانوی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر کی 1987ء کی فتح کے بعد واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کم و بیش چار دہائیوں کے بعد ایسی کامیابی کہ وہ تن تنہا حکومت بنا سکتی ہے۔ اسے 650میں سے 364 نشستوں کا مینڈیٹ ملا ہے جبکہ حکومت سازی کیلئے محض326 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان نتائج پر جیری کوربن کا مستعفی ہو کر انہیں لیبر کیلئے ’’مایوس کن رات‘‘ قرار دینا بے جا دکھائی نہیں دیتا۔ لیبرپارٹی کی شکست کو جیری کوربن کے سوشلسٹ نظریات‘ ہائوس آف لارڈ کی تاحیات ممبرشپ کی مخالفت اور امریکہ کی دنیا بھر میں منہ زوری پر ناپسندیدگی کے جذبات کا منطقی انجام قرار دینے والے بھی کوئی ایسے غلط نہیں۔ ان کے دلائل بھی صرفِ نظر نہیں کئے جا سکتے۔ اب ہو گا کیا؟ آیا برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کا کوئی ایسا نسخہ تلاش کرے گا جس سے اس کی معیشت اور سکیورٹی کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اگرچہ یہی کنزرویٹو پارٹی کا امتحان ہے لیکن اس میں کامرانی کے آثار کچھ نمایاں دکھائی نہیں دیتے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ یورپی یونین میں ایک اہم مقام رکھنے والا برطانیہ اس یونین سے بچھڑا تو نہ صرف بین الاقوامی معاملات میں اس کا اثرورسوخ کرکٹ کے کھیل کے بارہویں کھلاڑی جیسا رہ جائے گا کہ اس کی حمایت و تائید کرنے والے لگ بھگ دو درجن یورپی ممالک جن میں جرمنی‘ فرانس‘ بیلجیئم اور اٹلی جیسے طاقتور ممالک بھی شامل ہیں‘ اس کے ہمنوا نہ ہوں گے۔ آئرلینڈ جو 1921میں برطانیہ سے الگ ہوا اس کی برطانیہ کے راستے سے ہونے والی 5.3 ارب یورو کی تجارت ہی متاثر نہ ہو گی بلکہ دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک یعنی یورپی یونین سے بھی اس کے اقتصادی تعلقات متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں گے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے قریب ہونے کے باوجود برطانیہ اپنے خطے میں اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ یہ رائے بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ برطانیہ کا عالمی کردار یورپی یونین کا حصہ بن کر ہی اہم ہے۔
کون اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ عہدِ حاضر میں دنیا بھر کے ممالک کے باہمی تعلقات نظریات نہیں اقتصادیات کی بنیادوں پر استوار ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یورپی یونین اور یورپی کرنسی امریکہ کو کسی بھی صورت ایک آنکھ نہیں بھاتی! یہ بھی امریکہ سے برطانوی قربت برطانوی وقار اور معیشت میں اضافے اور مضبوطی کاکیونکر باعث بنے گی؟ کیا ان اقدامات سے برطانیہ امریکہ کا مکمل تابع ہو کراپنے دوستوں کی تعداد بڑھائے گا یا دشمنوں کی؟ خیر دشمن نہ بھی بڑھیں‘ دوستوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی جس کا عہدِ حاضر میں دنیا کا کوئی ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن یورپی یونین سے علیحدگی بارے کوئی فیصلہ کر چکے ہوں جس کا انہیں مینڈیٹ ملا ہے۔ تا ہم برطانیہ کو یورپی یونین کے ان جذبات کو بھی بنظر عمیق دیکھنا ہو گا کہ ’’یورپی یونین بریگزٹ کے بعد بھی برطانیہ کو یونین میں واپسی کے لئے ہمیشہ خوش آمدید کہے گی‘‘۔ یورپی یونین سے برطانوی علیحدگی کا عوامی فیصلہ نظرانداز کرنا ممکن نہیں‘ تاہم اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ اگر قطعی انداز میں نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ فیصلہ اس انداز میں ہو کہ ایک دوسرے کیلئے دل اوربانہیں کشادہ رکھی جائیں‘ سب دروازے بند کرنا تو سفارتی آداب اور ہمسائیگی کی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں