589

ایوب خان سے آخری ملاقات

محترم ضیا شاہد صاحب پاکستان کے مایہ ناز صحافی اور ’’چینل فائیو‘‘ و ’’خبریں گروپ‘‘ آف نیوز پیپرز کے مالک اور چیف ایڈیٹر ہیں ۔ میرا ضیا شاہد صاحب سے تعلق دوستی اور احترام کا رشتہ کو 30سال پرانا ہے ہی باہمی احترام و محبت ہمارے درمیان آج بھی قائم ہے وہ تیس سال پہلے جب ’’ روز نامہ جنگ لاہور ‘‘ کے ڈپٹی ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے اور اس کے بعد انہوں نے اپنا اخبار ’’ روزنامہ خبریں‘‘ شروع کیا تو جنگ سے لیکر خبریں تک مجھے ان کے زیر سایہ صحافت کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا، لندن آنے کے بعد بھی میں ایک عرصہ تک ’’خبریں‘‘ کیلئے برطانیہ میں بیورو چیف کے عہدہ پر رہا، ’’ باتیں سیاستدانوں کی‘‘ خبریں میں لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے ’’یادیں اور ملاقاتیں ‘‘ کے عنوان سے تحریر کئے ، انہی کالمز کو ’’ایمز انٹرنیشنل ‘‘ میں سلسلہ وار شائع کیا جا رہا ہے ، امید ہے پاکستان کی 72سالہ تاریخ کے سیاسی اُتار چڑھائو کی تاریخ ہمارے قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہو گی۔
وجاہت علی خان

سن اور تاریخیں مجھے کبھی یاد نہیں رہتیں۔ غالباً 69کا ذکر ہے ۔ ایوب خان اپوزیشن پارٹیوں کے مخالفانہ مہم کے نتیجے میں صدارت چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے تھے البتہ انہوں نے آئین پاکستان کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی قومی اسمبلی عبدالجبار خان کو جو بنگالی تھے صدارت نہیں سوپنی تھی بلکہ ایک خط کے ذریعے کمانڈر انچیف پاک فوج جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے اختیارات سپرد کر کے چیف مارشل لاء ایڈ منسٹر بنا دیا تھا۔ میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ میں سات سال مدیر معاون رہنے کے بعد اپنا ذاتی ہفت روزہ ’’ کہانی ‘‘ نکال رہا تھا کہ نامورقانون دان اور ایوب خا ن کے خلاف مہم میں صف اول کے لیڈر ایم انور بارایٹ لا کا انٹرویو شائع کیا جس کا ٹائٹل تھا ایوب خان ک سزائے موت دی جائے۔ کنور دلشاد جو آج کل سیکرٹری ریٹائر ڈ الیکشن کمیشن میڈیا میں بڑے ان ہیں۔ ایوب خان کی مسلم لیگ کے طلبا و نگ کے سربراہ تھے اور عہدے کے اعتبار سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کر رہے تھے۔ ہر ہفتے ایک سیاسی یا قومی شخصیت کا انٹرویو کرنے کے بعد میں اس کا پوسٹر تیار کرتا اور لاہور کی سڑکوں پر لگوا دیتا۔ایم انور بارایٹ لا کے انٹرویو کی سرخی والا پوسٹر بھی لاہور اور دوسرے شہروں میں دیواروں کی زینت بنا تو میرے دوست کنور دلشاد کا فون آیا۔ انہوں نے کہا یہ ایوب خان کے خلاف تم پوسٹر لگوائے ہیں۔ میرے جواب پر وہ بولے میرے ساتھ اسلام آباد چلو۔ ایوب خان نے کہا ہے کہ جس نے پوسٹر لگوائے ہیں اس رسالے والے کو میرے پاس لائو ۔
قدرتی طور پر پہلے تو میرے ذہن میں آیا کہ ظاہر ہے کہ وہ مجھے برا بھلا کہیں گے۔میں نوجوان تھا لیکن پھر اخبار نویس والی خواہش میرے دل میں پیدا ہوئی کہ ایوب خان جو اقتدار سے الگ ہو کر گوشتہ نشین ہو گئے تھے اور کسی اخبار نویس سے نہیں ملتے تھے مجھ سے بات چیت کریں تو یہ ایک زبردست سکوپ ہو گا اور میں ان کی باتوں کو چھاپ کر اپنے جریدے کو شہرت سے ہمکنار کر سکوں گا۔ میں فوراً مان گیا۔ البتہ احتیاطاً اور انتظاماً یہ کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں گے کیونکہ چند تقاریب میں دور سے دیکھنے یا ایک آدھ بار ہاتھ ملانے سے زیادہ میری ایوب خان سے کبھی ون ٹو ون ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ لاہور سے ہم بذریعہ فوکر طیارہ اسلام آباد روانہ ہوئے جس کی سیٹیں بڑی تنگ ہوتی تھیں اور چھت بھی کافی نیچی تھی۔اسلام آباد ایئر پورٹ سے اتر کر ہم سیدھے ایوب خان کے گھر پہنچے۔ یہ مکان آج بھی موجود ہے اور پرل کانٹی نینٹل کے مالک ہاشوانی صاحب اس میں مقیم ہیں کیونکہ انہوں نے بعد ازاں یہ مکان خرید لیا تھا ۔ چھوٹی سی پہاڑی نما بلندی پر واقع ہم مکان میں داخل ہوئے اور اپنی آمد کی اطلاع دی ۔ کنور دلشاد یہاں بیسیوں مرتبہ آ چکے تھے اور ملازمین تک ان سے بخوبی واقف تھے ، ہمیں اندر لے جایا گیا تو اندرونی دروازے پر ایوب خان نے خود ہمارا استقبال کیا۔میں دبلا پتلا اور زیادہ صحت مند نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے میری طر ف ہاتھ بڑھایا ۔ سفید شارٹ سکن کی پورے بازوئوں والی بشرٹ اور اسی کپڑے کی پتلون میں سر پر ٹوپی لئے وہ بہت بار عب نظر آ رہے تھے ۔میں نے ہاتھ ملایا تو سب سے پہلا تاثر مجھے یہ ملا جس کا اظہار کرتے ہوئے میں نے فوراً ہی کہا جناب ماشاء اللہ آپ تو بالکل بیمار نہیں لگتے ۔ واضح رہے کہ انہوں نے بیماری کے عذر پر حکومت سے استعفیٰ دیا تھا لیکن ان کے ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مجھے بے ساختہ اظہار کرنا پڑا۔ایوب خان ہنسے پھر کنور دلشاد سے ہاتھ ملایا اور ہمیں اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے گئے ۔ چند ہی منٹ بعد ان کی شفقت اور وضعداری اور شرافت کی وجہ سے میری اجبنیت دور ہونے لگی۔ میں ایسے شخص کے سامنے بیٹھا تھا جن کے خلاف میں نے پوسٹر لگوائے تھے کہ انہیں سزائے موت دی جائے ۔ انہوں نے جلد ہی میری حیرت دو ر جر دی اور کہا کہ میں کسی اخبار نویس سے نہیں ملتا آپ سے گفتگو بھی آف دی ریکارڈ ہو گی اور آپ اپنے اخبار میں ایک لفظ بھی شائع نہیں کریں گے ۔ ایوب خان کہنے لگے میں نے لاہور میں اپنے دوستوں سے پوچھا تھا کہ یہ کون شخص ہے جو مجھے موت کی سزا دلوانا چاہتا ہے ۔ معلوم ہو ا ایک نوجوان ہے جو کچھ دیر مختلف اخباروں اور جرید وں میں کام کرنے کے بعد خود اپنے پرچے کا ایڈیٹر اور مالک بنا ہے ۔ میں چاہتا تھا کہ اسے ملوں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اپنی صدارت اور اس سے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر کا دور نیک نیتی سے پاکستان کی خدمت میں گزارا ہے لیکن اب جبکہ سارے اپوزیشن سیاستدان جیل میں قید شیخ مجیب الرحمن کو زبردستی اور اصرار کر کے مذاکرات میں شمولیت کیلئے پیرول پر رہا کروا کے اسلام آباد لے آئے ہیں جس نے یہاں پہنچ کر چھ نکات کا اعلان کر دیا ہے میں اپوزیشن کے سیاستدانوں کے سامنے سرنڈر نہیں کر سکتا اور چھ نکات کو تسلیم کر کے پاکستان کو ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا لاہور میں جسٹس ایس اے رحمان سے پوچھنا کہ ان کی معلومات کے مطابق اگر تلہ سازش کیس صحیح تھا یا غلط ۔ جس میں ملوث ہونے کے باعث مجیب کو گرفتار کیا گیا اور ساری اپوزیشن اسے رہا کروانے پر تل گئی ۔مجھے کوئی شبہ نہیں کہ مجیب انڈین ایجنٹ ہے اور پاکستان توڑنا چاہتا ہے کچھ دیر ایوب خان اپوزیشن پر برستے رہے پھر اچانک مجھ سے پوچھا یہ آپ کے دل میں مجھے سزا دلوانے کا خیال کیسے آیا۔میں نے جواب دیا جناب !یہ ایم انور بار ایٹ لا کا انٹرویو تھا ۔ایوب خان نے کہا میں ایک منٹ میں آتا ہوں آپ لوگ انتظار کریں ۔ چار پانچ منٹ بعد وہ اوپر جانے والی سیٹرھیوں پر واقع اپنی لائبریری سے اترے تو ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔انہوں نے اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا ایم انور کی تحریری سفارش آئی تھی کہ انہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائے ۔

ابھی مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ ایک خوفناک خبر مجھے ملی۔ ملٹری انٹیلی جنس نے یہ اطلاع دی کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ ریس کورس لاہور کی ذیلی سٹرک پر واقع ایم انور کی کوٹھی کے نیچے ایک تہہ خانے میں ایک عورت بند ہے جسے عملاً قید کیا ہوا ہے ۔ اس نے کسی ملازم کے ذریعے آپ کو ایک خط لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ صدر ایوب خان اسے پڑھ لیں کہ جس شخص نے اپنی سگی ماں کو گھر کے تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے کہ وہ اصرار کرتی ہے کہ انور اپنے چھوٹے بھائی کیپٹن سرور شہید کی پراپراٹی پر قبضہ نہ کرے جس کی بیوی ریحانہ سرور ہے اور جسے خاندانی جائیداد سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔ خاتون نے خط میں لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے آپ اسے ہائیکورٹ کا جج بنا رہے ہیں جو شخص اپنی ماں اور سگے بھائی سے انصاف نہیں کر سکتا وہ لوگوں سے کیا انصاف کرے گا۔ میں نے انور کی فائل پر یہی ریمارکس لکھ کر اس کی بطور ہائی کورٹ جج سفارش کو نامنظور کر دیا ۔ پھر مجھ سے ایوب خان نے کہا کہ آپ ابھی نوجوان ہو کسی پر اتنا بڑا الزام چھاپنے سے پہلے خود تحقیق کر لیا کرو کہ الزام میں کتنی صداقت ہے ۔ انہوں نے بعد ازاں یہ تفصیل بھی بیان کی کہ ایم آئی کے مقامی سپاہیوں اور ان کے انچارج آفیسر نے اس طرح انور صاحب کی ماں کو باقاعدہ کمانڈر و ایکشن کر کے ان کے گھر سے آزاد کروایا تھا۔
قدرتی طور بات چیت سیاست کی طرف مڑ گئی ۔ میں نے کہا کہ جناب مشرقی پاکستان میں محرومی کا احساس آپ کے دس سالہ دور کی وجہ سے شروع ہوا۔ایوب خان نے اپنے دفاع میں بڑے دلائل دیئے
۔ انہوں نے جنرل اعظم خان کے دور اقتدار میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے حکومتی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ میں بہت کچھ کرنے والا تھا اور کر رہا تھا لیکن انڈیا نام نہاد محرومی سے فائدہ اٹھا کر عوامی لیگ کو اکسانے میں مصروف تھا اور اگر تلہ سازش انڈیا کی پاکستان کے خلاف مہم جوئی کا ایک حصہ تھی۔ بھٹو صاحب کا ذکر چلا جو ان کے دور اقتدار ہی میں الگ ہو کر خود حقیقی اپوزیشن کے طور پر منوانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ایوب خان نے کہا کہ بھٹو سے آپ ملے ہیں۔میں نے کہا کئی بار ۔ ہمارے زیادہ تر نوجوان ان کو ہیرو سمجھتے ہیںا ور فلیٹیز ہوٹل میں جب وہ آکر ٹھہرتے ہیں تو بے شمار لوگ ان سے ملنے جاتے ہیں ۔ بڑی تعداد نوجوانوں اور طالب علموں کی ہوتی ہے ۔ انہوں نے پوچھا آپ نے کیا تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نے کہا جی عربی زبان میں بی اے آنرز کیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں اول آنے پر مجھے گولڈ میڈل ملا ہے۔ ایم اے عربی میں بھی فرسٹ آیا تھا اور اس میں مجھے گولڈ میڈل ملا۔ ایوب خان نے مجھے مبارک باد اور خوش ہوئے۔
پھر ایوب خان نے کہا کہ الف لیلیٰ میں آپ نے سند باد جہازی کے سات سفر پڑھے ہیں میںنے کہا جی ہاں۔ وہ بولے کس نمبر کے سفر میں آیا ہے مجھے یاد نہیں تاہم ایک سفر میں سند باد جہازی جزیرے میں تنہا رہنے پر مجبور ہے اور اسے ایک منحنی قد کا شیطان صفت آدمی ملتا ہے جو کہتا ہے مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ مجھے اپنی کمر پر سوار کر لو اور تھوڑی دور میرے گھر تک چھوڑ آئو۔ سند باد جہازی یہ نیکی کمانا چاہتا ہے اس لیے اسے کندھے پر سوار کرلیتا ہے ۔ وہ شیطان شخص اس کی گردن کو دبوچ لیتا ہے اور دونوں ٹانگوں سے اس کی کمر کو جکڑ لیتا ہے۔ پھر وہ جزیرے میں اسے بھگائے پھرتا ہے اور اس کی جان نہیں چھوڑتا۔اس بھٹو کی مثال بھی اس شیطان جیسی ہے تم ان کی چکنی چپٹری باتوں میں آ کر اسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہو اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تماری گردنوں پر مسلط ہو گیا تو تم برس ہابرس روتے رہو گے کیونکہ وہ تمہاری جان نہیں چھوڑے گا ۔
زلفی مجھے ڈیڈی کہتا تھا اور وہ تاشقند کے راز کیا بتائے گا۔ وہ مداری ہے جو تاشقند کی گڈگی بجاتا ہے ۔ پہلے یہ تحقیق تو کرو کہ 1975ء جنگ اور بھارتی حملہ انوائٹ کرنے میں اس کا اور اس کے سیکر یٹری خارجہ عزیز احمد کا کتنا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے یہ جھوٹی یقین دہانی کروائی کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ فوج بھی داخل کر دے ۔ انہیں امریکہ اور دوسری طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ جنگ کشمیر تک محدود رہے گی اور انڈیا پاکستانی بارڈر پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہی تاشقند کا راز ہے اور اپنے مجرم ضمیر کو تسلی دینے کیلئے بھٹو نے ساری قوم کو بیوقوف بنایا ہوا ہے۔ اس تھیلے سے کوئی بلی برآمد نہیں ہو گی ۔ یہ یاد رکھنا۔
ایوب خان دیر تک بھٹو صاحب کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے سوشلزم کا مذاق اڑایا۔ ان کی جمہوریت کے دعوئوں کی تردید کی اور کہا کہ اگر وہ حکومت میں آگیا تو پورے ملک کو جیل بنا دے گا اور کسی بڑے سے بڑے فوجی ڈکٹیٹر سے بڑا سول ڈکٹیٹر ثابت ہو گا ۔ میں نے دس سال میں جو صنعتیں لگائی ہیں اور زراعت کو پروموٹ کیا ہے وہ یہ سب کچھ برباد کر دے گا۔غریب کے نام پر وہ روس کی طرح ایسی حکومت بنائے گا جس میں سیاسی مخالفوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا میں تو سیاست چھوڑ چکا ہوں لیکن آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ جسے آپ سونا سمجھ رہے ہو وہ گٹھیا قسم کا پتیل بھی نہیں۔آپ لوگ سر پر ہاتھ رکھ کر روئو گے مگر سند باد پر سوار اس مکار اور شیطان سے آپ کو رہائی نہیں ملے گی۔
میں نے کہا جناب!آپ نے قرضے لے کر پاکستان میں 22گھرانے مالدار بنا دیئے ۔ صنعتکار مزدور کا خون چوس رہا ہے۔ کچھ تقریروں سے اندازہ ہوا ہے کہ بھٹو صاحب اس نظام کو تبدیل کر دیں گے اور غربیوں کو صنعتکار اور سرمایہ دار کے چنگل سے بچائیں گے ۔ ایوب خان پھر مسکرائے اور ہنسنے لگے جتنا قرضہ باہر سے آیا تھا اگر اسے پاکستان کے عوام میں برابر برابر تقسیم کر دیا جاتا تو کوئی ایک پراجیکٹ بھی نہیں بن سکتا تھا اور ملک صنعتیں نہیں لگ سکتیں تھیں۔ میری سوچ یہ تھی کہ دنیا میں ہر جگہ صنعتیں اس طرح بنی اور پھلی پھولی ہیں جس طرح میں نے کوشش کی ۔ ہم تھوڑا بہت سرمایہ رکھنے والوں کو بلاتے تھے زمین دیتے تھے کہتے کہ کچھ پیسے تم لگائو اور زیادہ قرضہ ہم دیں گے یہ لاہور سے گوجرانوالہ اور لاہور سے شیخو پورہ تک فیصل آباد کے اطراف میں جتنی انڈسٹری لگی ہے وہ اس طرح سے لگوائی گئی اور آج بے شمار لوگوں کو روز گار میسر ہے اور پاکستان تیزی سے صنعتی ملک بن رہا ہے لیکن بھٹو صاحب ان صنعتوں کو تباہ کردیں گے اور صنعتی ترقی کے رکنے سے ملک میں بیروز گاری پھیل جائے گی ۔
اس دور میں ایوب خان کی پالیسیوں کے خلاف جلسوں جلوسوں میں حبیب جالب کی نظمیں بڑے شوق سے پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جن میں 22گھرانوں کی لوٹ مار کا ذکر تھا ۔ ایوب خان بولے برطانیہ میں بھی صنعتی ترقی اس طرح سے ہوئی تھی ۔ پہلے مرحلے پر لوگوں کو صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جاتی تھی اور حکومت بھی مدد کرتی تھی اور قرضہ دلواتی تھی بعد ازاں مزدور یونینوں کو مضبوط کیا گیا۔ سوشل سکیورٹی کے نام پر صحت اور تعلیم کے ادارے کھلوائے گے اور سرمایہ داروں کو مجبور کیا گیا کہ اپنے منافع میں سے اس دوسرے مرحلے پر مزدور کیلئے اور فیکٹری کے گردوپیش کے رہنے والوں کیلئے رہائش صحت اور تعلیم کی ضرورتیں پوری کریں۔ میں بھی اس پالیسی پر گامزن رہا ہوں ۔ صنعتوں کو پھلنے پھولنے دو رفتہ رفتہ مزدور کیلئے انہی صنعتوں سے مراعات حاصل کرو۔ ایوب خان کو زراعت کی ترقی میں بہت دلچسپی تھی۔انہوں نے گندم کی نئی اور زیادہ جھاڑ دینے والی اقسام کو روشناس کروایا ۔ سیب کے اتنے باغات لگوائے کہ کبھی پاکستان میں سیب صرف بیمار کیلئے مجبوراً خریدا جاتا تھا لیکن اب آسانی سے دستیاب ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ر فتہ رفتہ میں صنعت اور زراعت دونوں شعبوں کی ترقی کے بعد عوام کو خوشخالی اور سہولتیں بہم پہنچانا چاہتا تھا لیکن بھٹو اپنے روس برانڈ سوشلزم کے ذریعے صنعتوں کو تباہ اور پارٹی کو ہر چیز پر قابض کروانا چاہتا ہے اور خود تمام بڑے صنعتی اداروں پر قبضہ کرنے کا خواہشمند ہے ۔ اس ملاقات میں میرے ساتھی کنور دلشاد جو آج بھی اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔ زیادہ تر خاموش رہے کہ وہ مسلم لیگ (سرکاری ) کی طلبا تنظیم کے صدر تھے۔ ایوب خان نے میری کم و بیش ہر بات کا جواب دیا اور میری باربار کی درخواست کے باوجود یہ کہا کہ یہ سب آف دی ریکارڈ ہے ۔ اسے لکھنا اور چھاپنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی حکومت کر چکا ہوں اور کسی نئی سیاسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا ۔ انہوں نے اپنی تنہا زندگی کو گشتہ نشینی قرار دیا اور کہا کہ میں نے عبدالجبار خان کو حکومت دینے کی بجائے یحییٰ خان کو حکومت اس لئے دی ہے کہ چھ نکات کے شور میں کسی بنگالی کا صدارت کے عہدے پر فائز ہنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔ شاید فوجی حکومت الیکشن کروانے کے باوجود خراب ہوتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو بچانے کا کوئی راستہ تلاش کر سکے۔ جب میں نے کہا کہ جناب !یہ مسائل زیادہ تر آپ کی دس سالہ حکومت کا تحفہ ہیں اتنی طویل مدت تک بنگالی قوم اسلام آباد میں اختیارات کے ارتکاز کو ہضم نہیں کر سکتی تھی۔ الیکشن بنگالی قوم کی اس سوچ پر مہر لگادیں گے اور ہم پہلے سے زیادہ مشکلات میں پھنس جائیںگے۔ آخر آپ نے دس سال تک حکومت کو اسلام آباد میں کیوں قید رکھا۔ معلوم ہوتا تھا ا ن کے پاس اس کو کوئی جواب نہیں تھا یا وہ دینا نہیں چاہتے تھے لہٰذا میں جب یہ سوال کرتا وہ گھما پھرا کر موضوع تبدیل کر دیتے۔ میں نے کہا کہ آپ نے اچانک اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا آپ تو ماشاء اللہ صحت مند ہیں یہ بیماری والی بات کچھ جچتی نہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی دانست میں ملک کی بڑی خدمت کی ۔میرے عہد سے پہلے کا پاکستان دیکھیں اور آج کے ملک کاجائزہ لیں لیکن جب مجھے شیخ مجیب جو انڈین ایجنٹ تھا کو پیرول پر رہا کر کے اسلام آباد بلانا پڑا اور ساری سیاسی جماعتوں کو اس کیلئے لڑتے ہوئے دیکھا تو مجھے سخت پریشانی ہوئی۔انہی دنوں انٹیلی جنس ذرائع نے مجھے ایک رپورٹ بھیجی کہ لاہور میں ایک جلسوس میں ایک کتے کے گلے میں ایوب خان لکھ کر اسے مال روڈ پر چلایا گیا اور جلوس میں شا مل لوگوں نے مجھے اتنہائی بیہودہ گالیاں دیں تو میرا دل ڈوب گیا اور میں نے اقتدار چھوڑنے کا خود فیصلہ کیا ۔ اڑھائی تین گھٹنے گزر چکے تھے آخر میں ایوب خان نے کہا کہ میری باتیں یاد رکھئے گا اور اگر کبھی بھٹو برسراقتدار بھی آگیا تو وہ معیشت کو تباہ کرے گا ۔ اس ملاقات کے بارے میں آپ کو پوری اجازت ہے کہ لکھئے ایوب خان نے اس خطرے کے بارے میں آپ کو کن الفاظ میں خبردار کیا تھا ۔ کتنی لوٹ مار میں نے اور میرے بیٹوں نے کی تھی او ر میرے بعد یہاں کس طرح لیٹرا راج اپنی خفاکیوں سمیت سامنے آئے گا ۔ جب ہم ان سے اجازت لے کر اندرونی دروازے کی طرف آنے لگے تو میں نے دیوار پر لیاقت علی خان کی ایک بڑی تصوری کو آویزاں پایا۔ کنور دلشاد نے تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ ایوب خان لیاقت علی خان کو بہت پسند کرتے تھے۔آج 45برس گزرنے کے بعد میں ایوب خان کی باتیں لکھ رہا ہوں ۔ وہ فرشتہ نہیں تھے ۔ سول حکومت کو ختم کر کے مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آئے اور مستعفی ہو کر نیا مارشل لا دے کر چلے گئے لیکن پاکستان میں تعمیر و ترقی کا ذکر جب بھی چھڑے گا ایوب خان کو بھلانا ممکن نہیں ہو گا اور سچ تو بہ ہے کہ انہوں نے کچھ کام اتنے اچھے کئے آج بھی کتنے لوگ ہیں جن کے دلوں کے کسی نہ کسی حصے میں ایوب خان کی یاد تازہ ہو گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں