434

جرمنی میں نسل پرستی کا جن بوتل سے باہر، مسلم تارکین وطن کے لئے خطرہ

مشتاق مشرقی
یورپ کے مختلف ملکوں میں مسلم تارکین وطن کے خلاف نسلی حملوں میں تشویشناک اضافہ ہوگیا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں نسل پرستی کو جڑ سے اکھاڑنے کی سرکاری پالیسی اپنائی گئی تھی گزشتہ ستر برسوں سے جرمن ریاست نے فار رائیٹ کے نسل پرستوں کے خلاف سخت ترین قوانین بنائے اور اقدامات کئے جن سے نسل پرست عناصر مین سٹریم پالیٹیکس سے باہر ہو گئے تھے۔ نسل پرست عناصر چھوٹے چھوٹےگروپس بنا کرایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ان کی مشکلیں آسان کر دی ہیں۔انیس فروی کو فرینکفرٹ کے نزدیکی شہروہانو میں دو شیشہ بارز پر تینتالیس سالہ جرمن شہری ٹوبائیس راتھجین نے فائرنگ کرکے نو ترک اور کرد تارکین وطن کو ہلاک کر دیا اور بعد میں اپنے گھر میں خود کو بھی شوٹ کر لیا۔ ٹوبائیس کے گھر سے پولیس کو نسل پرستانہ میٹیریل ملا ہے اس کا مینی فیسٹو بھی تھا ٹوبائیس سوشل میڈیا پر بھی بہت ایکٹیو تھا اس نے اپنے بلاگز میں لکھا تھا کہ جرمنی کی معیشت تارکین وطن کی آمد سے تباہ حال ہو گئی ہے جب تک جرمنی سے مسلمانوں کو بے دخل نہیں کیا جاتا اس وقت تک جرمنی کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ ٹوبائیس نے ایک اور پوسٹ میں لکھا تھا کہ ترکی اسرائیل اور دیگر بیس ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ضروری ہو گیا ہے ۔ بائیس جولائی دو ہزار چھ میں ناروے کے دارلحکومت اوسلو میں اکتالیس سالہ نسل پرست اینڈریو پہرنگ بریوک ناروے کے وزیراعظم کے آفس قریب ٹاور بلاک پر بم دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں آتھ افراد مارے گئے تھے پھر بریوک وہاں سے بھاگ کر نزدیک جزیرے اوٹایا گیا جہاں اس نے ورکرز یوتھ لیگ کی کیمپ سائٹ پر ایک اونچی بلڈنگ سے آٹو میٹک گن سے ایک گھنٹے تک مسلسل فائرنگ کی جس نتیجے میں انسٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جب پولیس نے بریوک گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تو اس نے اعترف جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے حملے کا مقصد مسلمانوں کو ناروے سے آزاد کروانا ہے بریوک نے کہا کہ حکمران لیبر پارٹی ناروے پر مسلمان کے قبضے کی زمہ دار ہے۔ بریوک القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ کے خود کش حملوں کا بہت بڑا مداح ہے اور اس کی خواہش ہے کہ سفید فام نسل پرست بھی مسلم انتہا پسندوں کا سٹائل اپنائیں۔ بریوک بھی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھا اس نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ یورپ کے نسل پرست گروپوں کو مسلم دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی کاپی کرنی چاہیے اور خود کش حملے کرکے زیادہ سے زیادہ سے مسلمانوں کو قتل کرنا چاہیے تاکہ ان میں خوف و ھراس پیدا ھو اور وہ عدم تحفظ کا شکار ھو کر ناروے چھوڑ جائیں۔
سنٹرل لندن میں ایجویئر روڈ اور دیگر علاقوں میں شیشہ بارز موجود ھیں جن پر ممکنہ حملوں کے پیش نظر پولیس کو الرٹ کر دیا گیا ھے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں مسلم تارکین سوشلائز کرنے لئے اکثر شیشہ بارز میں جاتے ھیں حالیہ حملے سے تارکین میں عدم تحفظ بڑھ گیا ھے اب لوگ ایسی بارز میں جانے سے کتراتے ھیں۔ جرمنی میں نسل پرست کا حملہ یورپ میں نسل پرستی کی بڑھتی ھوئی لہر کی نشاندھی کرتا ھے ۔ برسلز میں قائم تنظیم یورا ایکٹ کی رپورٹ کے مطابق سال دو ھزار اٹھارہ میں سترہ فیصد دھشت گرد حملے سفید فام نسل پرستوں نے کئے تھے اس کے مقابلے میں مسلم انتہا پسندوں کے حملوں کا تناسب صرف چھ فیصد رہا جبکہ باسٹھ فیصد حملوں میں نامعلوم افراد ملوث تھے۔ یورا ایکٹ نے یورپ میں مسلم تارکین کے خلاف نسلی حملوں میں تین سو فیصد اضافے کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ نسل پرست عناصر کی مانیٹرنگ بڑھاکر ممکنہ دھشت گرد حملوں کی روک تھام کریں۔ امریکی حکام کو بھی سفید فام گروپوں کی سرگرمیوں پر تشویش ہے امریکی ان کو مسلم انتہا پسندوں سے بڑا خطرہ تصور کرتےہیں.ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق یورپ کے مختلف شہروں میں القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ کے ہشت گرد حملوں کی وجہ سے رد عمل کے طور پر یورپ میں آباد مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بہت اضافہ ہو گیا ھے۔ اب عالم یہ ہے کہ مغربی یورپ کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی نسل پرستوں کے اینٹی امیگریشن اور اینٹی مسلم بیانیئے کو اپنے مینی فیسٹوز میں شامل کر چکی ہیں۔ سن دو ہزار میں آسٹریا کی انتہا پسند فریڈم پارٹی کی کامیابی نے یورپ کے انتہا پسندوں کے حوصلے بلند کر دیئے تھے وہ کھل کر سنٹر لیفٹ اور سنٹر رائیٹ کی پالیٹیکس کرنے والی بڑی جماعتوں کو چیلنج کر رہے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے باری باری حکمرانی کرتی رہی ہیںنسل پرستوں کی مقبولیت میں اضافے سے بڑی ماڈریٹ پارٹیز بھی انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو اپنے اپنے منشوروں میں شامل کرنے لگی ہیں اس ماحول میں انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف کرنے کے اصول بھلائے جا رہے ہیں۔ آسٹریا میں فریڈم پارٹی کی کامیابی کے بعد جرمنی، اٹلی، سپین، ہنگری اور پولینڈ میں دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا ہےجو یورپ سے مسلمانوں کو باہر نکالنا چاہتی ہیں۔ جرمن انٹیلی جینس کے مطابق دوہزار سولہ میں پولیس کی جانب سے بائیس خطرناک انتہا پسند نسل پرستوں کی مانٹرنگ کی جا رہی تھی لیکن اب یہ تعداد ترپن ہو گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کھلم کھلا مسلم تارکین کو قتل کرنے کے ارادے ظاہر کرتے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ان سفید فام نسل پرستوں سے جو خاموش رہ کر حملوں کی پلاننگ کرتے ہیںجنہیں لون وولف بھی کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر ہوجانے کے ڈر سے اکیلے آپریٹ کرتے ہیں۔ ایک سو اڑسٹھ ممالک پر مشتمل تنظیم گلوبل اینٹی ٹیررازم انڈیکس کی دوہزار انیس کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات سے متاثرہونے والے ممالک کی لسٹ میں برطانیہ تیسویں نمبر پر ہے جوکہ فرانس جرمنی بیلجیئم سپین سری لنکا روس اور اسرایئل سے اوپر ہے۔ برطانیہ میں آئی آر اے کا ایک گروپ پھر سے متحرک ہوگیا ہے اس کے علاوہ القاعدہ اور داعش کے حامی بھی سرگرم ہیں اوپر سے بریگزٹ کی وجہ سے برطانیہ میں دہشت گردی کا حقیقی خطرہ موجود رہتا ہے اب دہشت گرد نیٹ ورک کمزور ہو رہےہیں اس لئے اب گمراہ جہادی عناصر القاعدہ اور داعش کی ہدایت پر کبھی چاقو زنی کرتے ہیں تو کبھی نہتے شہریوں پر وین یا ٹرک چڑھا دیتے ہیں۔ برطانوی حکام وقتا فوقتا ملک میں جرمنی یا ناروے سٹائل کے بڑے حملے کی پیشن گوئی کرتے رہتے ہیں نائن الیون کے بعد سے سینکڑوں ممکنہ دہشت گرد حملے ناکام بنا دیئے گئےہیں۔ برطانیہ کے ریٹائرڈ سیکورٹی ماہرین یہ سوال نہیں کرتے کہ کیا برطانوی سر زمین پر بڑا دہشت گرد حملہ ہوگا بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ حملہ کب ہوگا۔ مسلم تارکین وطن کی تنظیموں کے رہنماوں کو نسل پرستوں کے حملوں میں اضافے کی وجوہات پر غور کرنا چاہیئے اور ان سے بچاو کی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے اس حوالے سے مسلمانوں کو دیگر کمیونٹیز کے لیڈروں سے انٹر ایکشن بڑھانا چاہیے تاکہ برطانوی حکومت انہیں تحفظ دینے کے لئے اقدامات کرے۔ برطانیہ میں آباد مسلمان برطانوی سوسائیٹی میں انٹیگریٹ ہونے سے کتراتے ہیں کئی پاکستانی تارکین اپنے ہمسایوں کا نام تک نہیں جانتے نہ ان کو ہیلو کہتے نہ یہ لوگ انگلش زبان سیکھتے ہیں یہ تارکین اپنے بچوں کو گلی محلے کے بچوں سے ملنے نہیں دیتے جب ان کے بچے سکولوں سے گھر واپس آتے ہیں تو انہیں دینی مدرسوں میں چھوڑ آتے ھیں جس کی وجہ سے پاکستانی بچے اپنے ہم عصر بچوں سے واقف نہیں ہوتے ان سے دور دور رہتےہیں۔ مسلم والدین اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور کلچر سے جوڑ کر رکھنا چاہتےہیں لیکن بچوں کو برطانوی معاشرے سے الگ تھلگ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچے جوان ہو کر انگریزوں کے لئے اجنبی بن جاتے ہیں اور انہیں ملازمتوں میں مشکلات کا سامنا رہتا ھے۔کئی مسلم نوجوان انتہا پسند سوچ رکھنے والے مولویوں کے ہتھے چڑھ کر دھشت گرد گروپوں میں شامل ہو جاتے ھیں۔ برطانیہ سے گذشتہ پانچ برسوں میں سینکڑوں مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شام میں اسلامک سٹیٹ یا داعش میں شامل ہو کر اپنی زندگیاں برباد کر چکے ان گمراہ نوجوانوں کو جہاد کی راہ پر لگانے والے عناصر نے ان بچوں کے مستقبل تباہ کر دیئے ہیںبرطانوی عوام میں ان جہادیوں کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتاہے لیکن برطانوی عوام کی اکثریت سمجھتی ھے کہ مسلم نوجونوں کو انتہا پسندوں نے ورغلایا ہے اور انہیں برطانوی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی ھے۔ انتہا پسند برٹش مسلمز کے رویوں کے جواب میں سفید فام نسل پرست تنظیموں نے برطانوی نوجونوں کے جذبات کو بھڑکا کر انہیں مسلمانوں پر حملوں کی ترغیب دینا شروع کر دی ہے نسل پرست گروپوں نے یہی طرز عمل یورپ میں بھی دہرایا ہےجس کی وجہ سے کئی نسل پرستوں نے لون وولف اٹیک کئے ہیں یورپ میں ابھی تک کسی نسل پرست تنظیم کی جانب سے کسی بڑے حملے کی نشاندہی نہیں ہوئی لیکن ایسے حملے کسی بھی وقت ہو سکتےہیں جب کسی بڑی نسل پرست تنظیم نے مسلمانوں پر حملوں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا تو پھر بہت خون خرابہ ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں