514

شیخ مجیب الرحمن سے خصوصی انٹرویو


1970 کے الیکشن ہونے والے تھے تاہم مشرقی پاکستان سے جو خبریں آ رہی تھیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ مسلم لیگ جماعت اسلامی جیسی جماعتیں جو مغربی پاکستان میں مضبوط سمجھی جاتی تھی ان کے جلسوں پر حملے ہو رہے تھے ۔ مولانا بھاشانی پیچھے ہٹ گئے تھے اور شیخ مجیب الرحمٰن کے قبضے میں ڈھاکہ اور دوسرے شہروں کی سیاست آ گئی تھی۔ عام خیال یہی تھا کہ مغربی پاکستان کی سیاست قو ت پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ہے۔عوامی لیگ مغربی پاکستان میں نہ ہونے کے برابر تھی اور پیپلزپارٹی کے بارے میں یہہی معلومات سامنے آرہی تھی کہ شاید وہ مشرقی حصے میں سرے سے کوئی امیدوار بھی کھڑا نہ کر سکے ۔ملک رفتہ رفتہ سیاسی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوا تھا اور اس وقت سوچا یہ جا رہا تھا کہ شاید آنے والے الیکشن اس خلیج کو مزید وسیع کر دے ہم بڑی تیزی سے تباہ گڑھے کی طرف جا رہے تھے ۔جب شیخ مجیب الرحمٰن آخری مرتبہ مغربی پاکستان آئے قدرتی طور پر ایک اخبار نویس ہونے کی حیثیت سے اور ایک سیاسی ہفت روزہ کے ایڈیٹر پبلشر ہونے کے ناطے میری خواہش تھی کے پریس کانفرنسوں اور تقریبات میں ہاتھ ملانے سے یا ایک آدھ سوال کر لینے سے آگے جاکر ان سے تفصیلی گفتگو کر سکو ں لہذا میں نے کوشش کی کہ ملاقات کا انتظام ہو جائے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کا مغربی پاکستان میں نام و نشان نہ تھا لیکن رسما ًمشرقی پاکستان سے ایک جیتنے والی پارٹی کے ساتھ بعض لوگ اپنے اپنے طور پر اپنی دانست میں شیخ صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ لاہور سے ملک حامد سرفراز پرانے سیاسی ورکر تھے پشاور سے ماسٹر خان گل، عوامی لیگ کے نائب صدر تھے لاہور ہی سے فوجداری مقدمات کے مشہور وکیل برکت علی سلیمی ڈھاکہ گئے ۔شیخ صاحب سے مل کر پارٹی کی سینئر صدارت کا عہدہ لے کر پلٹے حالانکہ سیاست میں ان کا پہلی بار داخلہ ہوا تھا۔ سلیمی صاحب کے نوجوان بھانجے شاکر سلیمی کو بعد ازاں بلکہ برسوں بعد خبریں ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بننے والے ہمارے دوست علیم چوہدری مرحوم نے مجھے ملایا اور ہم تینوں دوست بن گئے۔ میں نے شاکر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے شیخ صاحب لاہور آ رہے ہیں اور میرے انکل سلیمی صاحب ایڈوکیٹ کے گھر شادمان میں ٹھہریں گے۔ میں آپ کو ساتھ لے جاؤں گا اور ان سے الگ تفصیلی ملاقات کروا دوں گا ۔دس پندرہ روز میں شیخ صاحب کے آنے کی اطلاع ملی۔ میں نے شاکر سلیمی کو فون کیا۔ انہوں نے سیاسی حلقوں کے لالچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا یار پنجاب میں تو کوئی شیخ مجیب الرحمان کا نام نہیں لیتا تھا لیکن جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ان کی جماعت سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی بنے گی ہمارے گھر کو سینکڑوں لوگوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک شیخ صاحب سے تعارف چاہتا ہے کیونکہ افواہ یہ ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہوکر وہ لازما ًپاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ ہم شادمان پہنچے تو کم از کم 40,30 لمبی لمبی کاریں کھڑی تھیں اور اچھرے سے نہر کو جانے والی سڑک پر جسے شاہ جمال روڈ کہتے تھے، مزار کو مڑنے والی سڑک کے بالکل سامنے اور سلیمی صاحب کے گھر کے باہر 40،30 ملاقاتیں سڑک پر اور کوٹھی کے صحن میں موجود تھے۔ شاکر سلیمی مجھے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے اور کہا آپ یہیں ٹھہریں میں شیخ صاحب کا پتہ کرتا ہوں ۔سلیمی صاحب کا ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خوشامدی مہمان بار بار انہیں مبارکبادیں دے رہے تھے کہ عوامی لیگ برسراقتدار آئے گی تو سلیمی صاحب لازما گورنر ہاؤس میں ہونگے اور گورنر کے عہدے پر ان کا تقرر لازمی ہے کیونکہ عوامی لیگ پاکستان کے سینئر نائب صدر ہونے کی حیثیت سے گورنر ی انکا حق بنتا ہے جبکہ وہ الیکشن بھی نہیں لڑ رہے ۔ شیخ صاحب نے ابھی ملاقاتیں شروع نہیں کی تھی اور وہ اپنے کمرے میں تھے جب شاکر صاحب لوٹے اور مجھے ساتھ لے کر کئی کمروں سے گزرتے ہوئے شیخ صاحب کے بیڈ روم تک لے گئے ۔شیخ صاحب اپنے پلنگ پر تہمد بنیان زیب تن کیے بیٹھے تھے اور ایک ملازم کسی ٹیوب سےکریم نکال کر ان کی گردن اور کندھوں پر لگا رہا تھا ۔ شاکر صاحب نے یہ کہہ کر کہ یہ ضیاء صاحب ہیں جو میرے بہترین دوست ہیں تعارف کروایا۔ شیخ صاحب کی رسمی گفتگو بدل گئی۔ انہوں نے ایک بار پھر مجھ سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا سلیمی صاحب ہمارے دوست نہیں بھائی ہیں۔ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ میں نے مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کروایا اور بات شروع ہوئی۔ میں نے پوچھا آپ تو اب کم ہی مغربی پاکستان آتے ہی کہنے لگے میں الیکشن کی تیاری میں مصروف ہوں ۔میں نے پوچھا کمپین کیسی جارہی ہے۔انہوں نے کہا الیکشن میں اب صرف ووٹ ڈالنے باقی ہیں ۔آپ نے خبریں پڑھ لی ہونگی۔ عوامی لیگ اس قدر مقبول ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو عام لوگ اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیتے۔ میں نے کہا لیکن کسی مخالف پارٹی کو جلسہ نہ کرنے دینا تو جمہوریت کے خلاف بات ہے کیا یہ طرز عمل نامناسب نہیں ؟ انہوں نے کہا وہ۔ وقت دور نہیں جب عوامی لیگ کے مخالفین کے لئے گھر سے نکلنا مشکل ہو جائے گا ۔میں تو بہت سمجھاتا ہوں لیکن لڑکے خاص طور پر سٹوڈنٹس بہت غصے میں ہے وہ میری بھی نہیں سنتے ۔میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ جناب آپ عوامی لیگ کی سربراہ ہیں لوگ آپ کی بات کیوں نہیں مانتے۔انہوں نے کہا جو طوفان وہاں اٹھ رہا ہے آپ کو یہاں بیٹھ کر اس کا اندازہ نہیں عوامی لیگ سب سے مضبوط جماعت ہے اس کا لیڈر بھی میں نہیں بلکہ وہ نوجوان ہیں جو اسلام آباد کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے ۔میں نے کہا یہاں جو خبریں چھپ رہی ہیں ان سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو استادوں نے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف بڑھکایا ہے اور بات اب چھ نکات سے بھی آگے نکل چکی ہے۔انہوں نے تسلیم کیا کہ تعلیمی شعبے میں بہت سے قابل ٹیچرز موجود ہیں جو ہندو ہیں لیکن وہاں شرط ہندو و مسلمان کی نہیں بنگلہ دیشی اور غیر بنگلہ دیشی کی ہے۔ مسلمان ہو یا ہندو یا عیسائی بنگلہ دیشی سب ایک ہیں اور برسوں سے اسلام آباد کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے ہیں اب ان کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ شیخ مجیب نے قدرے توقف سے کہا یہ جو بڑے بڑے ناموں والی پارٹیاں آپ کو نظر آتی ہیں ان میں سے ایک بھی ڈھاکہ یا کسی اور شہر میں جلسہ عام نہیں کرسکتیں۔ نوجوان اتنے غصے میں ہے کہ ان کے شامیانے اکھاڑ دیتے ہیں اور وہ کسی مقرر کی بات سننے کو تیار نہیں۔ شیخ صاحب کا لہجہ بہت پرجوش تھا ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان قائم رہے تو بنگالیوں کو ان کا حق دینا پڑے گا ۔ یہ پیر ٹی جیسے قانون کہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود مغربی پاکستان سے زیادہ نمائندگی نہیں ملے گی اب نہیں چل سکتے۔

اگر ہمیں ہمارا حق نہ ملا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ۔یہ بوٹوں والے زبردستی ہمارے علاقے پر اسلام آباد کا قبضہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ میں نے کہا جناب میں نے پڑھا ہے کہ آپ پاکستان موومنٹ کے سرگرم کارکن تھے اور علامتی طور پر کلکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان سائیکل پر سفر کیا تھا۔ شیخ مجیب نے کہا ہمیں بعد میں احساس ہوا کہ ہمیں دو نمبر شہری شمار کیا جاتا ہے پھر وہ تھوڑا جذباتی ہوئے اور بولے پہلے اردو کو قومی زبان بنا کر ہماری زبان کو پیچھے دھکیلا گیا جس کے نتیجے میں جو مظاہرے ہوئے ان کا انجام بنگالی نوجوانوں کی شہادت ہے ۔ اس مقام پر جو شہید مینار بنا وہاں اسے ہماری تاریخ شروع ہوتی ہے کچھ دیر مزید گفتگو کرنے کے بعد شیخ صاحب بڑے جذباتی لہجے میں بولے ہمارا نیا خون یونیورسٹی اور کالجوں کے نوجوان اب مزید زیادتی برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیکھو مسٹر! تم جو بھی کہو شاید اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان آخری رشتہ میں ہوں گا ۔ میرے بعد آپ کو ڈھاکہ سے یہاں آنے والا کوئی دوست نہیں ملے گا ۔ہم الیکشن میں کلین سویپ کرنے جا رہے ہیں آپ جسے مشرقی پاکستان کہتے ہیں وہاں سے عوامی لیگ کے سوا شاید ایک بھی سیٹ اسلام آباد کا طواف کرنے والوں کو نہ مل سکے گی۔آپ لوگوں ہمیں سمجھنے کی کوشش کرو، اب نہیں تو کبھی نہیں۔الیکشن کے بعد جیتی ہوئی عوامی لیگ ہمارے حساب سے متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوگی اس کا راستہ روکنے والے کوئی حرکت کی گئی تو اسلام آباد کے بجائے ڈھاکہ بنگالیوں کا مرکز ہوگا ۔ اگر تم کچھ لکھ سکتے ہو تو لکھو بتا سکتے ہو تو بتاو اب سازشیں کی گئیں تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا ۔وہ بہت دیر تک بولتے رہے ۔مستقبل کا نقشہ کم از کم ان کی نظر میں واضح تھا۔ میں نے کہا جناب اگر آپ کی پارٹی کی سیٹیں سب سے زیادہ ہویں تو آپ ہمارے وزیراعظم ہوں گے ۔انہوں نے کہا میں آپ کو دعوے سے کہتا ہوں کہ قومی اسمبلی میں ہماری سیٹیں سب سے زیادہ ہوں گے لیکن ہمیں وزارت عظمیٰ ملتی ہوئی نظر نہیں آتی اور اگر یہ زیادتی کی گئی تو آپ ڈھاکہ سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ہماری یہ گفتگو کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی ۔شیخ مجیب الرحمٰن نے ہمارے سامنے کرتا پہنا ڈرائنگ روم سے بار بار بڑے سلیمی صاحب آ رہے تھے اور کہہ رہے تھے شیخ صاحب باہر آئیں ڈرائنگ روم تو کیا باہر صحن بھی بھر چکا ہے لوگ ملاقات کے لئے بے چین ہیں ۔ جب دوسری مرتبہ انہوں نے آکر اصرار کیا تو شیخ صاحب نے کہا میں شاکر کے نوجوان دوست سے بات کر رہا ہوں جو جرنلسٹ ہے شاید میری بات اس کی سمجھ میں آ سکے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ ہمارے خلاف بیان ہو رہا ہے وہ ہمیں دھکیل کر دیوار سے لگا دے گا پھر میں بھی کچھ نہ کر سکوں گا اور سب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔آج اتنے برس گزرنے کے باوجود ان کی باتیں مجھے اچھی طرح یاد ہے بعد میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔الیکشن میں نورالامین اور تری دیوارا دو ارکان قومی اسمبلی کے سوا عوامی لیگ جیت گئی ‘پھر بھٹو صاحب نے ڈھاکہ جانے سے اپنے ارکان کو منع کردیا “ادھر ہم ‘ادھر تم “کی اصطلاح سامنے آئی ، پھر مجیب کے خلاف فوجی ایکشن ہوا ۔ بعد ازاں بھٹو صاحب نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب کو میانوالی جیل سے اسلام آباد بلا کر باعزت لندن بھیج دیا، جہاں سے بنگلہ دیش کا بابائے قوم بن کر بنگلہ بندھو ڈھاکہ پہنچا اور انڈیا کے حملے کے نتیجے میں بننے والی آزاد ریاست کا صدر بنا ۔کئی برس بعد سارک کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم شوکت عزیز کے ساتھ اخبار نویسوں کے وفد میں شامل میں ڈھاکہ پہنچا تو بیگم خالدہ ضیا حکمران تھیں جو میجر ضیاء الرحمان کی بیوی تھیں اور عوامی لیگ کے سخت خلاف تھیں ۔میں بطور خاص “پاکستان آبزرور” کےایڈیٹر زاہد ملک کے ہمراہ شیخ مجیب کے گھر پہنچا۔ دھان منڈی کے علاقے میں میں اپنے دوست زاہد ملک کے ساتھ شیخ صاحب کے مکان کے سامنے کھڑا تھا سڑک خالی تھی مکان کے سامنے صرف ایک چھوٹا سا لکڑی کا بنا اسٹال تھا جس پر ٹھنڈے مشروبات اور سگریٹ موجود تھے لیکن گاہک کوئی نہ تھا۔ ہم نے سٹال والے سے پوچھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی آخری یادگار دیکھنے زیادہ لوگ نہیں آتے ؟اس نے کہا ہر سال برسی والے دن یہ سڑک بھارت جاتی ہے یا پھر ہفتہ وار چھٹی کے روز اکا دکا لوگ آتے ہیں بہت زیادہ نہیں ہوتا ۔ شیخ صاحب سے آخری ملاقات جو لاہور میں ہوئی تھی آج برسوں بعد میں ان کی رہائش گاہ میں داخل ہوا تو ماضی کے واقعات میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ شیخ صاحب لیفٹینینٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کی مہربانی سے اور پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے۔ جلد ہی اپنی مقبولیت کھونے لگے۔ ان کی حکومت پر بے تحاشہ کرپشن کے الزامات تھے ۔کچھ عرصے بعد وہ صدارتی نظام کو چھوڑکر پارلیمانی نظام کی جانب آگئے اور خود پہلے وزیراعظم بنے ۔ کرپشن بڑھتی رہی اور نوزائیدہ ملک کا نظام بگڑتا چلا گیا ۔بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی کم و بیش انڈیا کی بغل بچہ ریاست کی تھی جسے بنگلہ دیش آرمی پسند نہیں کرتی تھی ۔ عوام میں بنگلہ بندھو کی غیر مقبولیت کے باعث فوج زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئی اور بالآخر فوج کے سربراہ میجر جنرل ضیاء الرحمن کے دور میں فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ بنگلادیش کے بابائے قوم کا فوجیوں نے گھیراؤ کر لیا اور پھر گھر میں داخل ہو کر شیخ مجیب الرحمٰن کو بیوی، بچوں بیٹی اور داماد سمیت فائرنگ کر کے موقع پرہی مار ڈالا۔ ڈھاکہ کے شہریوں پر خوف مسلط تھا ‘ شیخ مجیب اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں تین دن تک اس مکان میں سڑتی رہیں بلآخر کچھ لوگوں نے ہمت کرکے اور فوجی کمانڈروں سے خصوصی اجازت لے کر نہیں اٹھایا اور ان کے آبائی گاؤں میں لے جا کر دفن کر دیا ۔ صرف حسینہ واجد اپنے شوہر کے ساتھ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے زندہ بچ نکلیں ۔ پہلے میجر ضیاء الرحمان اور بعد ازاں ان کی بیگم خالدہ ضیا بنگلہ دیش میں حکمران رہے اور جب ہم شیخ مجیب الرحمن کے گھر پہنچے تو خالدہ ضیاء ہی وزیر اعظم تھیں اور حسینہ شیخ کی پارٹی عوامی لیگ کو الیکشن میں ہروا چکی تھی ۔شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کو اب ایک یادگار کی شکل دی جا چکی ہے۔ ایک کمرے میں اس یادگار کی حفاظت کرنے والی کمیٹی کا دفتر ہے ۔ان کے پاس کچھ کتابیں شیخ صاحب کی زندگی کے بارے میں موجود تھیں جو قیمت مل سکتی ہیں۔ ایک پمفلٹ البتہ کسی معاوضے کے بغیر وہ آنے والے خاص مہمانوں کو دیتے ہیں جس میں شیخ صاحب کے ان تمام رشتہ داروں کی تصویریں ہیں جو اس مکان میں رہتے تھے اور فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ پھر وہ ہمیں سیڑھیوں میں لے گئے جہاں شیخ صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے رسل کو مارا گیا تھا۔ یہ ٹین ایجر فائرنگ کی آوازیں سن کر بھاگا مگر سپاہیوں نے پیچھا کیا دیوار پر خون کے دھبےدیکھے جا سکتے تھے ۔ بنگالی قوم کے “نجات دہندہ” کو خود انکی “قوم” نے بنگلہ بندھو یعنی بنگالیوں کے باپ کا خطاب دیا اور پھر مشرقی پاکستان کو انڈین آرمی کی سرپرستی میں بنگلہ دیش آرمی نے پہلے “آزاد ” کروایا پھر اس “بنگالیوں کے باپ” کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی سڑکوں پر نکلا۔ جلسہ نہ جلوس نہ کوئی تحریک یوں لگتا تھا کہ بنگالی قوم نے فوجیوں کے ہاتھوں اس کے رشتہ داروں سمیت بہیمانہ قتل کو قبول بلکہ ہضم کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت نواز شیخ مجیب انہیں قبول نہیں ہے اور پھر برسوں تک اس کی بیٹی حسینہ شیخ بھی حکومت میں نہ آ سکیں۔ میں ان کی باتیں یاد کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ ایک بابائے قوم ہمارے بھی ہیں جن کا مزار کراچی میں ان کی سب سے بڑی یادگار ہے ۔ہم لاکھ نااہل سہی مگر پاکستان کے خالق حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پیار کرتے ہیں اور ان کا مزار ہر وقت آباد و شاد رہتا ہے۔ بلکہ سینکڑوں تقریبات میں ہزاروں پاکستانی وہاں جمع ہوتے ہیں اور ان کے لیے فاتحہ کہتے ہیں۔ جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی قبر تک پہنچنا تو ویسے ہی مشکل ہے کیونکہ ڈھاکہ سے کافی فاصلے پر ہے لیکن یہ مکان جسے ان کی یادگار کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے پر بھی عام دنوں میں لوگ کم ہی آتے ہیں۔ اس یادگار کا عملہ ہمیں ان کے مختلف کمرے دکھاتا رہا کہ یہاں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی بیگم قتل کئے گئے ‘ یہاں ان کی بیٹی اور داماد مارے گئے ، ان کمروں میں ان کے دوسرے رشتے داروں کو گولیوں سے بھونا گیا، رسل اس کمرے سے بھاگ کر سیڑھیوں تک پہنچا ہی تھا کہ دھر لیا گیا ۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے معروف فلسفی برٹرینڈ رسل کے نام پر بیٹے کا نام رکھا تھا ۔ گھر پر اداسی کی ایک فضا تھی۔ جہاں مزار بھی نہ تھا کہ کوئی فاتحہ ہی پڑھ سکے ۔ میں نے ان سے آخری ملاقات کو بار بار یاد کیا ۔ اگر بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے لوگوں کو ڈھاکہ جانے سے نہ روکتے جہاں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا اگر بھٹو صاحب مذاکرات کے لئے ڈھا کہ جاکر شیخ مجیب الرحمان سے طویل ملاقات نہ کرتے جن کے آخر میں پیپلز پارٹی کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، اگر باقی آدھا نکتہ بھی تاریخ کی سب سے بڑی بجھارت نہ بنتا کہ وہ کیا تھا اور ساڑھے پانچ نکات کون سے تھے جن پر بھٹو سب متفق ہوگئے تھے، اگر مغربی پاکستان کے دیگر جماعتیں جنہیں پیپلزپارٹی کے مقابلے پر کم سیٹیں ملی تھیں، کی قیادتیں بشمول شاہ احمد نورانی اور خان عبدالولی خان شیخ مجیب سے مذاکرات کے بعد بھٹو صاحب کو منانے میں کامیاب نہ ہو جاتیں ، اگر یحیی خان جو یقین دہانیاں شیخ مجیب سے چاہتے تھے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی نہ کرتے جس پر بھٹو صاحب نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ “خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا” شاید بھٹو صاحب کی مراد مغربی پاکستان سے نئے پاکستان سے تھی ۔ اگر شیخ صاحب کو وزیراعظم قرار دینے والے یہی خان انہیں اسلام آباد بلاکر وزارت عظمی سونپ دیتے تو شاید 1947ء میں بننے والا پاکستان بچ سکتا تھا لیکن ہمارے مرحوم دوست عباس اطہر نے روزنامہ آزاد میں بطور نیوز ایڈیٹر ” ادھر ہم ادھر تم” کی جو سرخی جمائی تھی بھٹو صاحب کی پالیسی کا ایک حصہ نہ بن جاتی اور اگر مجیب اور بھٹو کی افہام و تفہیم سے پاکستان کا اقتدار زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو مل جاتا تو شاید ہمارا ملک قائم رہ سکتا تھا اور زیادہ آبادی والا صوبہ مشرقی پاکستان ہم سے ہمیشہ کے لئے الگ نہ ہو جاتا ۔حسینہ شیخ آجکل بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہے اور جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے بڑے لیڈروں پر برسوں پہلے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر وطن دشمنی کے مقدمے چلا رہی ہیں اور 90/90, 95/95 سال کے “پاکستانی” لیڈروں کو پھانسیاں دے رہی ہیں ۔ پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آج ان بزرگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے شاید پھندے پر جھولنے سے پہلے یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ جس ملک کے لیے ہم نے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا وہاں کی کسی سڑک پر تو ہمارے لئے جلوس تک نہیں نکلا تھا ۔ آج پاکستان کی مسلم لیگ بھی خاموش ہے اور جماعت اسلامی بھی ۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی اپنے باپ اور اہل خانہ کی لاش تین دن تک بے گور و کفن پڑی رہنے کا بدلہ لے رہی ہیں اور جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے پاکستانی جرنل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تصویروں کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے میں تحفے کے طور پر پیش کر کے اپنے خبث باطن کو ظاہر کر رہی ہیں۔ قرآن پاک کی ایک آیت بار بار یاد آتی ہے اور پاکستانی حکومت کی مجرمانہ خاموشی سے اس دکھ کو اور دو چند کر دیتی ہے کہ یہ وہ سچائیاں ہیں جو جو دل کو ہلا دیتی ہے ۔شیخ مجیب بھی کامیاب رہے اور خود کو بنگلا بندھو بنا دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی کامیاب رہے کہ نئے پاکستان کے سربراہ بن کر سامنے آئے لیکن تاریخ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں ۔ المیہ مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے تینوں کردار غیر طبی موت مرے ۔ اندرا گاندھی جس کا کہنا تھا کہ ہم نے قائداعظم کے دو قومی نظریے کو بحر ہند میں ڈبو دیا اپنے ہی تنخواہ دار محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنیں، ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گئے اور شیخ مجیب الرحمٰن کو ان کے اپنے فوجیوں نے خاندان سمیت بھون ڈالا ۔ یہ داستان عبرت ہے اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں