650

اصغر خان ایک معصوم سیاستدان


جس طرح میں زیر نظر سیریز کی ابتدا میں لکھ چکا ہوں کہ سن اور تاریخیں مجھے یاد نہیں رہتیں، ’’ اُردو ڈائجسٹ‘‘ سے منسلک تھا ، الطاف حسین قریشی صاحب نے ایک فکری اور سماجی پلیٹ فارم بنا رکھا تھا جس کا نام ’’ ایوان افکار ‘‘ تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ایئر پورٹ جائیں اور ایئر مارشل اصغر خان کو لے کر ایوان افکار کے اجلاس میں پہنچیں جس میں وہ خطاب کر یں گے ۔ ایئر مارشل ابھی سیاست میں نہیں آئے تھے لیکن پرتول رہے تھے ۔ ان کی شہرت ایک نہایت محنتی ایماندار اور قابل ایئر فورس کے افسر اعلیٰ اور معمار کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی انتہائی انتھک سربراہ کی تھی لیکن جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں و ہ پی آئی اے سے بھی فارغ ہو چکے تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ سیاست میں آ رہے ہیں ۔ان کی عام شہرت بہت اچھی تھی میں ایئر پورٹ پر پہنچا تو وہ راولپنڈی سے آ رہے تھے لیکن پی آئی اے کے سابق سربراہ اور سابق ایئر چیف ہونے کے باوجود وہ اکیلے تھے اور انتہائی سادگی کے ساتھ وہ مجھ سے ملے اور بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا ۔ انہیں لینے کیلئے ایئر پورٹ پر کوئی اور شخص نہیں تھا ، حالانکہ ہر دوسرا تیسرا آدمی انہیں بڑے ادب سے سلام کر رہا تھا ۔ کسی کرو فر کی بغیر وہ ایئر پورٹ سے باہر آئے ،چاہتے تو اپنے جاننے والوں کو اپنے استقبال کیلئے بلا سکتے تھے اور نہیں تو دس ، بیس ذاتی دوستوں کو زحمت دے سکتے تھے مگر جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا ۔

میں نے ایئر مارشل کی شخصیت میں وقار کے ساتھ ساتھ منکسر المزاجی او اعلیٰ اخلاقیات کی جھلک دیکھی ۔ وہ نمود و نمائش سے کوسوں دورتھے ۔ ہم لوگ پرل کانٹی نینٹل پہنچے جو اس زمانے میں انٹر کانٹی نیٹنل کہلاتا تھا، تقریب میں شامل ہوئے ایئر مارشل نے خطاب کیا ۔ ان کی باتوں میں گھن گھرج نہیں تھی ، سادگی اور خلوص تھا ۔ میرے ذمے ان کی تقریر کے نوٹس بنانا تھا اور بعد میں انہیں آرٹ پیپر پر تقریر کی شکل میں کتابت کروا کر اسے ڈاک کے ذریعے بجھوانا تھا ۔ 23کچہری روڈ ایبٹ آباد کا ایڈریس مجھے اصغر خان نے لکھوایا ۔ دراصل وہ مضمون کی شکل میں اپنے خیالات کو اخبارات میں چھپوانا چاہتے تھے ۔
اس دن سے آج تک میری نیاز مندی ان سے جاری ہے ۔ چند ہی ماہ کے اندر اندر وہ مجھ سے بے تکلف ہو گئے۔ اکثر ان کا فون آتا ، میں بھی ان سے مسلسل رابطہ رکھتا تھا میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے ہی سے آپ کے مداحوں میں شامل ہوں لیکن اس ملاقات اور بعد ازاں ٹیلی فونک رابطے سے یہ پسندیدگی اور بڑھ گئی۔ انہوں نے مجھے ایبٹ آباد آنے کی دعوت دی، چنانچہ میں دفتر اور کالج سے چھٹی لے کر ایئر مارشل سے ملنے گیا۔ابتدائی ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے گھر کے قریب ہی ایک اچھے ہوٹل میں میرے لئے کمرہ بک کروایا ۔میں روزانہ صبح تیا ہو کر ان کے گھر پہنچتا اور پھر ان کی شفقتوں اور محبتوں سے لطف اندوز ہوتا ۔ وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ میں یونیورسٹی پڑھائی کے سا تھ ساتھ اردو ڈائجسٹ میں آٹھ گھنٹے کام بھی کرنا ہوں۔ دن میں انہیں بہت سے لوگ ملنے آتے تھے لیکن وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بٹھائے رکھتے ۔ اس دوران میں مجھے ان کی زبانی بے شمار باتیں سننے کا موقع ملا۔وہ ایک محب وطن پاکستانی ، بہادر سپاہی ،بہترین منتظم اور اخلاقیات کی بلندیوں پر فائز نہایت عمدہ انسان ہیں ۔

میں نے ایئر مارشل کے متعدد مضامین کا جو انگریزی میں تھے ، اردو ترجمہ کیا ہے۔ انہوں نے تحریک استقلال بنائی تو میں ان کی محبت کی وجہ سے ان کے صلاح کاروں اور مشیروں میں شامل تھا، حالانکہ میری عمر اس وقت شاید ان کے سارے مشیروں اور قریبی ساتھیوں سے کم تھی۔انہی دنوں یہ فیصلہ ہوا کہ تحریک استقلال اپنا ایک ہفتہ وار جریدہ شائع کرے گی۔ لاہور کے رہنے والے ایک سیاسی کارکن اور اہل قلم ابوسعید انور کو اس میگزین کا ایڈیٹر نامزد کیا گیا لیکن میں اس رسالے کا پرنٹر تھا یعنی اس کے ڈیکلریشن میں میرے پریس کا سرٹیفکیٹ داخل کیا گیا تھا اور ابتدا میں ایڈریس بھی میرے ہی گھر واقع لاہور کا تھا۔اس رسالے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایئر مارشل بے شمار مرتبہ میرے گھر آئے ، کیونکہ ابھی تک رسالے کا دفتر نہیں لیا گیا تھا۔اس رسالے کیلئے سرمایہ فراہم کرنا سب سے پہلا قدم تھا۔ایئر مارشل نے ایک فرم بنائی ، اس کے ڈائر یکٹروں میں وہ خود تھے ، ان کے ایک عزیز اے بی اعوان بھی تھے ۔سردار شیر باز خان مزاری جو آزاد رکن قومی اسمبلی تھے اور کرنل عابد حسین کی بیگم نے اپنی جگہ اپنی بیٹی اور آج کی بیگم عابدہ حسین کا نام دیا تھا ۔اس زمانے میں عابدہ حسین کے قریبی جاننے والوں میں وہ ’’ چندی ‘‘ کے نام سے مشہور تھیں اور ابھی سیاست میں نہیں آئی تھیں۔میرے نزدیک ایئر مارشل پاکستانی سیاست کیلئے جو جھوٹ اور فریب سے عبارت ہے ،ہر گز موزوں نہیں، میں نے دو ایک مرتبہ ان سے درخواست بھی کی کہ مجوزہ فرم کے اجلاس کے نوٹس بنتے ہیں اور پھر انہیں انگریزی میں ٹائپ کر کے ہر ممبر بورڈ کو بھیجے جاتے ہیں۔بھٹو کا دور تھا اور آزادی صحافت کے راستے میں بڑی پابندیاں تھیں۔ ایئر مارشل صاحب بھٹو صاحب کے مخالف سیاستدان شمار ہوتے تھے۔ان کے ساتھ ایئر فورس کے ریٹائرڈ گروپ کیپٹن تھے، جو ہر فیصلے ہر تجویز کے نوٹس عام ڈاک سے شرکاء کوروزانہ کر دیتے تھے، چنانچہ مجھے بھی لاہور پولیس کی سپیشل برانچ سے ایک اہلکار ہر تیسرے دن پوچھنے آتا تھا کہ اصغر خان کا اخبار کب نکلے گا اور کون کون اس میں پیش پیش ہے۔میری معلومات کے مطابق ایئر مارشل صاحب کی طرف سے عام ڈاک میں جانے والے خط سے پکڑے اور پڑھے جاتے تھے ۔چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ایک ایک کر کے آٹھ دس افراد پر دبائو ڈالا جانے لگا کہ وہ سرمایہ لگانے سے باز رہیں۔اے بی اعوان انٹیلی جنس بیورو کے خود بھی افسر اعلیٰ رہے تھے،انہوں نے بھی اس طرف توجہ دلائی کہ چھوٹی سے چھوٹی بات متعلقہ حکام تک پہنچ رہی ہے۔
مجھے آخری میٹنگ یاد ہے تحریک استقلال نام کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں پھر سرمایہ فراہم کرنے والوں کو منع کیا گیا۔فائنل سین میں میرے ہی گھر کے ڈرائنگ روم میں ایئرمارشل صاحب کو میرے ہی ٹیلی فون پر ، کہ اس زمانے میں موبائل نہیں ہوتے تھے اور گفتگو کا واحد ذریعہ لینڈ لائن ہوتا تھا،ایک ہی دن میں اورٹھیک میٹنگ کے وقت تین سرمایہ فراہم کرنے والوں نے معذرت کی ، چوتھی معذرت بیگم عابدہ حسین کی والدہ ، کرنل عابد حسین کی اہلیہ نے کی میرے سامنے فون آیا اور میں نے ہی ریسیور ایئر مارشل کو دیا۔جب ایئر مارشل نے فون سن کر بند کیا تو وہ تھوڑے سے پریشان لگ رہے تھے ، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بیگم کرنل عابد حسین نے کہا ہے کہ پیسوں کا ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن عابدہ کو پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے لہٰذا ہم اس پراجیکٹ میں نام نہیں لکھوا سکتے۔ چار لوگ معذرت کر چکے تھے ،باقی تیسرے خود ایئر مارشل اصغر خان تھے ،اے بی اعوان تھے جو اصغر خان کے رشتہ دار تھے اور شیر باز مزاری تھے۔کچھ اور لوگ بھی سرمایہ فراہم کرنے کا وعدہ کر چکے تھے لیکن انہو ںنے بھی معذرت کر لی لیکن مجھے نام اب یاد نہیں۔اصغر خان نے ہفت روزہ ’’تحریک استقلال ‘‘ کے مجوزہ ایڈیٹر ابو سعید انور سے کہا میں کچھ اور لوگوں کا انتظام کرتا ہوں،کم از کم دس ڈائر یکٹرز ہونے چاہئیں تا کہ پراجیکٹ کیلئے مناسب سرمایہ جمع کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ہی میٹنگ ختم ہو گئی اور یوں ویکلی تحریک استقلال شائع نہ ہو سکا ۔میں نے البتہ یہ درخواست ضرور کی آئندہ کسی بھی اہم میٹنگ کے کمنٹس بذریعہ ڈاک بے شمار لوگوں کو نہ بھیجے جائیں۔بھٹو صاحب کی حکومت آسانی سے ہر مرحلے پر تحریک استقلال کی عزائم کو ناکام بنا دے گی ۔
اصغر خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن معاملات ان کی گرفت سے باہر تھے۔بھٹو صاحب کے مقابلے میں تحریک استقلال نے بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کیا ۔ اصغر خان ایک بار لاہور آئے تو اپنے بھائی بریگیڈیئر اسلم کے گھر جو ایئر پورٹ کے قریب تھا، انہوں نے فون پر مجھے طلب کیا ۔ میں پہنچا تو وہ بولے آپ حکومت سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں، تحریک استقلال کے نام سے ہم ویکلی پرچہ نہ نکال سکے لیکن آپ کے پاس تو ہفت روزہ اخبار ہے ۔آپ اسے تحریک استقلال کا ترجمان بنا دیں ۔ میں نے کہا میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوں، آزاد ہوں اور آزاد ہی رہنا چاہتا ہوں۔ ایئر مارشل معصومیت سے بولے بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہونے والی ہے اور عنقریب ہمارا دوور شروع ہو گا،بس چند ماہ کی بات ہے ۔ میں نے کہا مجھے تو ایسا نظر نہیں آتا مجھے سمجھائیں آپ کے ذہن میں کیا ہے ، وہ بڑے لاہٹ موڈ میں تھے کہنے لگے پاکستان جیسے ملکوں میں تبدیلی ووٹ سے نہیں آیا کرتی ۔ پھر اپنے ایک ہاتھ کے اوپر کچھ فاصلے پر دوسرا ہاتھ رکھا اور کہنے لگے کہ حکومت ِ وقت کی سب سے مئوثر اپوزیشن بن جائو اورتبدیلی کا انتظار کرو، یہاں جو فورسز تبدیلی لاتی ہیں جب وہ ایسا کریں گی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ نمبر ون کوہٹا دیا جائے تو نمبر ٹو کی باری آنی چاہیے۔یہ کہہ کر اپنا اوپر والا ہاتھ اٹھایا اور نیچے والے ہاتھ کو کھڑا کر دیا ۔میں نے بتایا کہ میری عمر اور تجربہ ان سے بہت کم تھا ، اس کے باوجود وہ مجھے انتہائی معصوم اور بچوں کی طرح سادہ لوح نظر آئے ۔ میںنے کہا وہ قوتیں جو ایسی تبدیلی لاتی ہیں وہ خود نمبر ون کیوں نہیں بنیں گی؟آپ کو ایبٹ آباد سے لاکر پہلے نمبر پر کیوں اٹھائیں گی ؟وہ مسکرائے اوربولے دیکھتے جائو۔
یہ تھا ایئر مارشل کی سیاست کا مرکزی نقطہ یعنی ’’ حکومت جو کہتی ہے اس کی ڈٹ کر مخالفت کرو اور جس کی مخالفت کرتی ہے اس کی جم کر حمایت کرو ‘بنگلہ دیش بنا تو ایئر مارشل کا مئوقف تھا کہ فوراً اسے تسلیم کیا جائے اس سے پیشتر کہ وہ آپ سے بہت دور چلا جائے اسے اپنے سینے سے لگا لو چنانچہ سب سے پہلے بنگلہ دیش کو تسلیم کرو کا مطالبہ ایئر مارشل نے ہی کیا لیکن کچھ عرصہ بعد جب بھٹو صاحب جو اس وقت باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ تھے نے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی حامی بھری تو مجھے حیرت ہوئی کہ تحریک استقلال کے لیڈر نے سب سے پہلے نعرہ بلند کیا کہ بنگلہ دیش نامنظور ، گویا اب اس کی مخالفت کر رہے ہیں انہی دنوں میں نے ایک ملاقات میں ایئر مارشل سے کہا کہ آپ تو بنگلہ دیش کو خود تسلیم کرنے کے حامی تھے اب آپ نے اچانک پٹڑی تبدیل کیوں کر لی تو وہ بڑی معصویت سے بولے اب بھٹو صاحب اسے تسلیم کرنا چاہتے ہیں ۔ہم ان کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔بھٹو صاحب کی مخالفت میں انہوں نے ہر میدان اور ہر مسئلے پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے جو بھی خلاف ہوتا وہ تحریک استقلال میں آ جاتا ۔ کتنے لوگ تحریک میں آئے مگر زیادہ دیر نہ چلے۔ یوں لگتا تھا کہ تحریک استقلال کنڈ ر گارٹن سکول ہے اور لوگ تربیت کیلئے اس میں آتے ہیں اور ذرا ہوش آتا ہے تو آگے نکل جاتے ہیںاورکسی دوسری طاقت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔اعتزاز احسن سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک بے شمار لوگ تحریک استقلال میں آئے اور پھر نکل گئے مگر اصغر خان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی البتہ جب مسلم لیگ ن کنگز پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور قومی سیاست میں نئی محاذ آرائی شروع ہوئی تو ایک مرحلے پر پیپلزپارٹی اور تحریک استقلال کو اکٹھے ہونا پڑا۔شاید کنگز پارٹی کا مقابلہ کرنا مقصود تھا ۔مسلم لیگ (ن) کو ضیاء الحق کی مکمل حمایت حاصل تھی یہاں تک کہ ضیاء الحق یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ میری سوچ کے جانشین نواز شریف ہو نگے اور ان کا کلہ قائم رہے گا۔ایک مرحلے پر تو باقاعدہ جنرل ضیاء الحق نے میاں نواز شریف کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ میری عمر بھی انہیں لگ جائے۔پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال دونوں پی ڈی اے (پیپلزڈیموکریٹک الائنس ) کا حصہ تھے اور میاں خورشید محمود قصوری جو ان دنوں ایئر مارشل کے ساتھ تھے۔پی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل بنے الیکشن سر پر تھا پاکستان ٹیلی ویژن نے تمام بڑے سیاسی رہنمائوں کے انٹرویو ریکارڈ کیے اور دکھائے۔ولی خان ، الطاف حسین، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، اصغر خان، میاں نواز شریف سبھی کے انٹرویوز اخبار نویسوں کے ایک ہی پینل نے کیے جس میں اتفاق سے میں بھی شامل تھا۔میرے ساتھ برادرم مجیب الرحمان شامی اور نذیر ناجی بھی تھے ۔ایئر مارشل کا انٹرویو شروع ہوا تو تعارف کے بعد میں نے ان سے پہلا سوال کیا کہ آپ تو پی این اے (قومی اتحاد ) کے دنوں میں یہ تقریر کر چکے تھے کہ بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دیں گے ۔اب آپ ان کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔ایئر مارشل نے جواب دیا کہ جمہوریت کو بچانا ضروری ہے اور فوجی ڈکٹیٹر کی بنائی ہوئی پارٹی کی مخالفت لازم ہے۔سوال جواب آگے چلے تو ان سے پوچھا گیا کہ پی ڈی اے کے ٹکٹ پر تحریک استقلال نے بھی دو امیدوار کھڑ ے کیے ہیں۔ایک آپ اور دوسرے آپ کے صاحبزادے عمر اصغر خان ( جو کافی سال پہلے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ) کہا آپ کی پارٹی میں آپ کے علاوہ صرف آپ کا بیٹا ہی شامل ہے تو اصغر خان پھنس گئے۔بعد ازاں ناجی صاحب نے انہیں گھیر لیا اور ایسے نوک دار اور پیچ دار سوال کیے کہ اصغر خان بڑی بری طرح چکرا گئے لیکن وہ مسلسل جواب دیتے رہے ۔ سوال کرنے والوں کا پلڑا بھاری نظر آتا تھا لیکن انٹرویو ختم ہوا تو ایئر مارشل نے اپنی روایتی سادگی کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے بہت عمدہ سوال کیے۔ اگلی صبح تک سامعین میں سے اکثر کا خیال تھا کہ کرکٹ کی اصطلاح میں وہ کلین بولڈ ہو گئے ہیں۔’’ مساوات‘‘روزنامہ ہی نہیں پی ڈی اے کا آرگن بھی تھا اس نے ایئر مارشل کی حمایت میں پینل کے تینوں ارکان کی خوب خبر لی ۔ہمارے خلاف ایک کارٹون چھاپا گیا جس میں تین بوہلی کتے دکھائے گئے جو میز کے ایک طرف اور ایئر مارشل دوسری طرف بیٹھے تھے۔حملہ کافی سخت تھا تاہم ہم نے انجوائے کیا۔وقت گزرتا گیا ۔ ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے ۔ ایئر مارشل ذاتی طور پر انتہائی نیک نفس، وضعدار اور سرتاپا شرافت کا مجسمہ ہیں۔ وہ تو کسی کو گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ لیکن گورنر ہائوس میں ملک غلام مصطفی کھر براجمان تھے اور ڈیوس روڈ ’’جنگ ‘‘ کے دفتر سے ذرا آگے بائیں طرف ایک چھوٹی سی کوٹھی میں رہائش پذیرتھے ۔ ٹی وی کی نامور اداکارہ طاہرہ مسعود تحریک استقلال میں شامل ہو گئیں اور ان کا گھر عملاً ایئر مارشل کا دفتر بن گیا۔ پریس کانفرنسیں اب ان کے ہاں منعقد ہوتی تھیں کیونکہ یہ پریس کلب کے قریب تھا اور اخبار نویسوں کے لئے وہاں جانا بہت آسان تھا ،طاہرہ مسعود بہاولپور سے منتخب ہونے والے معروف سیاستدان میاں نظام الدین حیدر کی صاحبزادی تھیں۔تعلیم یافتہ اور سیاسی پس منظر کے باعث دانشور سمجھی جاتی تھیں۔میرے ہفت روزہ میں بھی وہ وقتاً فوقتاً کالم لکھتی تھیں۔ ان کے سیاسی تجزیئے محترم برنی صاحب کے انگریزی ہفت روزہ ’’آئوٹ لُک ‘‘ میں چھپتے تھے اور بہت پسند کئے جاتے تھے ۔ ایئر مارشل ان کے ہاں بہت جاتے تھے ۔ ان کے شوہر مسعود صاحب قومیائی گئی صنعتوں میں سے کسی صنعت میں انجینئر تھے تاہم تفصیل سے مجھے یاد نہیں کہ کہاں ملازم تھے ۔ایک دن دھماکہ ہوا کہ مسعود صاحب نے اپنی بیوی اور اصغر خان پر مقدمہ دائر کر دیا کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اصغر خان سے ناقابل برداشت حد تک قریب ہو گئی ہیں۔عام خیال یہ تھا کہ منصوبہ مصطفی کھر نے بنایا ہے اور وہی مسعود صاحب کے پیچھے ہیں،بتلانے والے بتلاتے ہیں کہ ان دنوں مسعود صاحب کا گورنر ہائوس میں بہت آنا جانا تھا ،ایئر مارشل کی شرافت نیک نامی اور وضعداری کے باعث مقدمہ عدالت میں جانے کے باوجود عوامی حلقوں نے اس الزام کو قبول نہیں کیا ۔میں ایئر مارشل صاحب سے بھی بہت واقف تھا اور اکثر طاہرہ سے ملنے بھی ان کے گھر جاتا تھا ۔ہم نے بہت سے مضامین اکٹھے تیار کئے کہ وہ بولتی جاتی تھیں میں لکھتا جاتا تھا ۔ایئرمارشل سے برسوں سے رفاعت رہی تھی ۔خود میں قسم کھا کر کہ سکتا تھا کہ یہ الزام جھوٹا ہے کیونکہ ایئر مارشل کردار کے بہت مضبوط انسان تھے ۔کافی مہینوں تک یہ سکینڈل پھیلانے کی بہت کوشش کی گئی خود حکومت نے اسے بہت اچھالا لیکن بالآخر یہ داستان بھی قصہء پارینہ بننے لگی البتہ بعدازاں طاہرہ اور مسعود کے مابین طلاق ہو گئی ۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعد طاہرہ نے پنجاب کی یونیورسٹی کے طالب علم رہنما حفیظ خان سے شادی کر لی اور یوں وہ طاہرہ خان بن گئی ، وہ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی بنیں لیکن جلد ہی منظر سے غائب ہو گئیں مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ ایک بہت ذہین خاتون اس بے ہودہ سکینڈل کے باعث سیاست میں سردائیو نہ کر سکیں۔یار لوگ اس بات پر بہت ہنستے تھے کہ ایئر مارشل کی پارٹی میں ہمیشہ ایک نہ ایک ٹی وی ایکٹرس ضرور شامل رہیں اور طاہرہ کے بعد مہناز رفیع جو ہمارے دوست یحییٰ کی مسز تھیں تحریک استقلال میں آئیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس بار کوئی سکینڈل نہ بنا بعد ازاں خورشید محمود قصوری کے ساتھ آپا مہناز نے بھی تحریک استقلال کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں پناہ لی۔خورشید نائب صدور کی طویل فہرست میں شامل ہو گئے ا و ر مہناز رفیع کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کارکن نامزد کیا گیا۔میاں نواز شریف کے سعودی عرب جانے کے بعد مہناز رفیع کو مسلم لیگ ق میں پناہ ملی اور وہ ایم این اے بھی بنیں، آج کل ق والوں کی طرح وہ بھی گہنا جاتیں تاہم انہوں نے پھر خورشید محمود قصوری کا تعاقب کیا اور دونوں عمران کی پارٹی میں شامل ہو گئے گو یا تحریک استقلال سے تحریک انصاف کی زنیت بن گئیں،اب نئے لوگ خاص طور پر نوجوان مردوں اور عورتوں نے بے تحاشا تحریک انصاف کا رخ کر لیا تھا لہٰذا طویل سیاسی تجربہ رکھنے کے باوجود مہناز رفیع کو آگے آنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ سیاسی گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ایئر مارشل نے بہت مشکل زندگی گزاری ۔سیاست میں اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے وہ تحریک استقلال کو کبھی صف اول کی جماعت نہ بنا سکے حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور میں ان کے بیٹے جو اپنی این جی او کے ساتھ بہت پروگیسو سمجھے جاتے تھے وفاقی وزیر بنا دیئے گئے اور انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنالی جس میں قدرتی طور پر انگریزی بولنے والے این جی اوز زدہ لڑکے لڑکیاں شامل تھے اس طرح ایئر مارشل گمنامی کی نذر ہو جاتے اگر وہ اصولوں پر مستقل طور پر جدوجہد نہ کرتے ۔انہوں نے غلام اسحاق خا ن کے دور میں آئی ایس آئی کے ذریعے پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو کمرشل بینکوں سے زبردستی لئے جانے والے پیسے کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایت دائر کی ۔اس فہرست میں بہت لوگ ملزم قرار پائے ۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لفٹینینٹ جنرل (ر) اسد درانی ہمارے دوست اور ’’ خبریں ‘‘ کے مضمون نگار اور تجزیہ کار بریگیڈیئر حامد سعید اختر جو نگران حکومت میں پنجاب کے وزیر بلدیات بھی رہے نے تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کس کس سیاستدان کو پیسے دے چکے ہیں۔سیاستدانوں میں سے جناب میاں نواز شریف ، شہباز شریف، سیدہ عابدہ حسین اور دیگر سیاسی لوگ شامل تھے ۔یہ مقدمہ اب تک چل رہا ہے ۔کیونکہ سپریم کورٹ نے ملزموں کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا یہ معاملہ اسی طرح آج تک لٹک رہا ہے۔ (اس سے ہماری عدلیہ کی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تفتیش کی سست رفتاری بھی عیاں ہوتی ہے )جنرل اسلم بیگ جو آرمی چیف تھے یونس حبیب جو مہران بنک کے سربراہ تھے کے علاوہ چونکہ سب نے یہی بیان دیا کہ انہوں نے غلام اسحاق خا ن کے کہنے پر رقوم جمع کیں اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں اور لیڈروں میں تقسیم کیں لیکن بدقسمتی سے غلام اسحاق خان کا انتقال ہو چکا ہے اور باقی جنرل مرزا اسلم بیگ کے خلاف ابھی تک تحقیق و تفتیش نہیں ہو سکی۔

2015ء میں جب تحریک انصاف کے رہنما کنٹینروں پر تھے ایئر مارشل اصغر خان نے تحریک انصاف کی حمائت کی بعد ازاں انہوں نے اس حمایت کا رسمی اعلان بھی کیا گویا آخری خبر آنے تک تحریک استقلال (اگر وہ کہیں ہے ) تو تحریک انصاف میں مدغم ہوچکی ہے یا دونوں جماعتوں کا اتحاد ہو چکا ہے تاہم عملاً تحریک استقلال اب کہیں بھی پائی نہیں جاتی اور ایئر مارشل جن کے بیٹے عمر اصغر خان نے بھی تحریک استقلال چھوڑ کر اپنی پارٹی بنا لی تھی لیکن باپ بیٹا دونوں کی پارٹیاں اب اپنا وجود نہیں رکھتیں اور ان کا بنیادی سٹرکچر بھی زیر زمین جا چکا ہے ۔اصغر خان کے حوالے سے اب کوئی ستارہ نہیں ابھرتا البتہ طویل العمری کے باوجود ان کی رائے کی ا ہمیت دی جاتی ہے اور انہیں بزرگی اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔اصغر خان کی زندگی کے بہت سے پہلو میرے سامنے آئے لیکن ہر پہلو سے میں نے انہیں ایک ایماندار اور محب وطن پاکستانی پایا ۔ ان کی ناکامی کی شاید ایک یہی وجہ تھی کہ وہ روایتی سیاست کے مکرو فریب سے آگاہ نہ تھے ۔ ایک زمانے میں وہ ایبٹ آباد سے آ رہے تھے کہ ’’ جنگ ‘‘راولپنڈی کے دفتر کے سامنے ان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ایبٹ آباد کے لطف اللہ جدون ان کے ہمراہ تھے۔ایئر مارشل اصغر خان نے لاہور آنا تھا تاہم میرے پاس پی آئی اے کا واپسی ٹکٹ تھا ۔میں نے بتایا تو اصغر خان نے کہا ضیا صاحب چھوڑیں ہمارے ساتھ چلیں راستے میں گپ شپ رہے گی ۔میں نے حامی بھر لی ۔ایئر مارشل کو بڑی گاڑیوں اور شان و شوکت کا کوئی شوق نہیں۔ییلو کلر کی فیٹ 1100ان کے پاس تھی ۔میں اور لطف اللہ جدون پیچھے بیٹھ گئے اور ایئر مارشل ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر ، اس زمانے میں موٹر وے تو تھا نہیں جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور پہنچنے میں چھ ساڑھے چھ گھٹنے لگتے پھر ایئر مارشل ڈرائیور کو بار بار تاکید بھی کر رہے تھے کہ تیزی مت دکھائو ۔ہماری منزل گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جانا اور چند گھٹنے رکنے کے بعد لاہور پہنچنا تھا ۔سیاست کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی ایئر فورس کے بعد پی آئی اے کی واقعات میں موقع سے فائدہ اٹھا کر بار بار انہیں کریدتا رہا ۔وہ اپنی روائتی سادگی کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ میرے سوال کے ہر جواب سے ان کی شخصیت اجاگر ہوتی چلی گئی ۔حسب سابق ان کی گاڑی کے ساتھ دوسری کوئی اور گاڑی نہ تھی اور یہ پروٹول لینے اور دینے کی رسم بدا بھی شروع نہ ہوئی تھی ۔گوجرانوالہ سے ہم نے جی ٹی روڈ چھوڑی اور شیخو پورہ جانے والے چھوٹی سڑک پر سفر شروع کیا ۔معلوم نہیں کس طرح تحریک استقلال کے چند مداحوں کو علم ہو گیا تھا کہ شیخوپورہ میں ایک جلسے میں شرکت کے لئے ایئر مارشل یہاں سے گزریں گے پچاس ساٹھ افراد سٹرک کے گرد جمع تھے ۔شاید انہوں نے تفصیلات تحریک استقلال کے شیخوپورہ میں راہنما نوجوان وکیل ناگرا صاحب سے لی تھیں اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ وہ ییلو کلر کی چھوٹی گاڑی میں آ رہے ہیں۔چنانچہ ہم ایک موڑ پر پہنچے تو ہماری گاڑی دیکھ کر کچھ لوگوں نے زور و شور سے ہاتھ ہلائے ہمارے رکنے پر انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور اصرار کیا کہ کچھ دیر انہیں بھی دیں۔تھوڑے فاصلے پر درختوں کے جھنڈے کے نیچے چار پائیاں بچھی تھیں ایئر مارشل کو بٹھایا گیا اور لوگ جمع ہوتے گئے جلد ہی سو سوا سو کا مجمع لگ گیا ۔ لوگ ایئر مارشل سے سوال جواب کرنے لگے ۔ دس پندرہ منٹ بعد کرتے اور تہمد میں ملبوس ایک دیہاتی نے پنجابی زبان میں کہا جناب !بھٹو بادشاہ ہے فوج اس کے پاس ہے پولیس اس کا حکم مانتی ہے سرکاری ملازم اس کے تابع ہیں آپ بتائیں کہ حکومت کا مقابلہ کیسے کریں گے اور آپ بھٹو کو کیسے نکال سکتے ہیں۔ایئر مارشل نے تسلی دی اور اُردو میں بولے کہ عوام کی طاقت سے ہی جمہوری نظام میں کوئی پارٹی کامیاب ہوتی ہے اور عوام کی طاقت ہی سے کوئی دوسری جماعت آگے نکل سکتی ہے۔انشاء اللہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ آپ عوام کی طاقت ہے۔روٹی کپڑا مکان کوئی بھی وعدہ بھٹو صاحب نے پورا نہیں کیا۔جمہوریت کے نام پر آنے والی پارٹی خود جمہوریت کا نام بدنام کر رہی ہے اور ملک میں بدترین بادشاہت ہے ۔وہ کچھ دیر بولتے رہے پھر خاموش ہوئے تو اس دیہاتی نے کہا معاف کرنا جناب ہم تو ان پڑھ لوگ ہیں کھیتی باڑی کرتے ہیں تو اللہ پاک دال روٹی دے دیتا ہے ۔آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ ہمارے دیہاتوں میں تو نمبر دار بدلنا ہو تو پندرہ بیس برس لگ جاتے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں دوچار قتل بھی ہو جاتے ہیں۔ جناب آپ فرمائیں کہ اتنی لڑائی اور مارکٹائی کے بغیر ہم کس طرح بھٹو کو اتار سکتے ہیں۔ایئر مارشل نے پھر چھوٹی سی تقریر کی لیکن وہ دیہاتی نہ مانا اس نے کہا جی آپ بڑے آدمی ہیں مگر آپ کی بات ہم جاہلوں کے پلے بالکل نہیں پڑی۔چلو اللہ خیر کرے۔اس مکالمے کے بعد ہم نے اجازت لی اور دوبارہ کار میں بیٹھ کر شیخوپورہ روانہ ہوئے۔ راستے میں یہی موضوع زیر بحث رہا۔ایئر مارشل کا خیال تھا کہ لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس نہیں لیکن میں مُصر رہا کہ دیہاتی ٹھیک کہتا ہے ، عملی صورت حال یہی ہے۔
شیخو پورہ پہنچ کر ہم ناگرا صاحب کے گھر گئے۔ جلسہ گاہ جانے کے لئے کچھ دیر آرام کیا ۔ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔یہ رمضان کا مہینہ تھا۔میں کم از کم روزہ نہیں رکھا تھا۔راستے میں چونکہ ہم نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا لہذٰا میرے ذہن میں یہی تھا کہ ایئر مارشل بھی روزے سے ہوں گے تاہم احتراماً میں نے بھی پانی تک نہ پیا تھا۔ناگرا صاحب نے ہمیں دو کمرے دیئے ایک میں ایئر مارشل صاحب ٹھہرے اور دوسرے کمرے میں میں اور جدون صاحب ، پیاس کے مارے میری بری حالت تھی لیکن کھلے عام کچھ پینے یا کھانے سے میں نے گریز کیا تھا لہٰذا میں نے ناگرا صاحب سے صاف کہا کہ میرا روزہ نہیں لیکن صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں اور اب بُری حالت ہے وہ خود فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لائے اور گلاس میرے ہاتھ میں تھمایا ، میں نے پانی پیا تو محسوس ہوا کہ پیٹ خالی ہے ۔میں نے کہا کچھ کھانے کو مل جائے تو وہ کہنے لگے کھانا تیار ہے لیکن اجلاس کے بعد اور روزہ افطار کے وقت پر مل کر کھائیں گے۔میں نے کہا جو کچھ ہو لادیں رات سے پیٹ خالی ہے اور پانی پینے سے بھوک اور چمک اٹھی ہے،وہ دوبارہ گھر کے اندر گئے اور ایک پلیٹ میں کچھ سالن اور ڈبل روٹی کے چند سلائس لے کر آئے۔ان کے جانے کے بعد ایئر مارشل درمیانی دروازہ کھول کر اندر آئے۔میں بڑی تیزی سے کھا رہا تھا وہ مسکرائے اور بولے بھائی روزہ میرا بھی نہیں لیکن میں رمضان المبارک کے احترام میں راستے میں بھی چپ رہا۔میں نے کہا کم از کم آپ پانی لیں کھانے کو کچھ اور منگوا لیتے ہیں ، میری حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب ایئر مارشل نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیاجب ہمارے میزبانوں کا خیال ہے کہ میرا روزہ ہے تو اب کچھ کھانے کے لئے مانگنے پر انہیں تعجب ہو گا، کوئی بات نہیں۔افطار میں ڈیرھ پونے دو گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہے۔ انشاء اللہ افطار پر ہی کچھ کھائیں گے۔میں نے کہا اچھا پھر تھوڑا پانی لے لیں ، وہ بولے فوج میں ہماری بہت تربیت ہوتی ہے میں بھوکا رہ سکتا ہوں ناگرا صاحب سے اس بات کا ذکر نہ کیجئے گا وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مجرم سمجھیں گے ،میری نظر میں ان کی وقعت اور بڑھ گئی۔دوسروں کی دل شکنی ہو یہ انہیں گوارانہ تھا۔ایئر مارشل کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی روداد بہت لمبی ہے۔بے شمار واقعات ہیں، ہر واقعے سے ان کی سچائی، شرافت اور نیک نیتی چھلکتی ہے۔بھٹو کی حکومت میں ناصر باغ لاہور میں تحریک استقلال کا جلسہ ہو رہا تھا۔تحریک کے نائب صدر اور ملتان سے تعلق رکھنے والے انصاری برادری کے رہنما بابو فیروز دین انصاری تقریر کر رہے تھے لیکن وہ اتنے سادہ لوح انسان تھے کہ بار بار کرسی صدارت پر بیٹھے ہوئے اصغر خان کی طرف اشارہ کر کے کہتے اے میری قوم اصغر خان شاہین پاکستان ہیں انہوں نے ایئر فورس کو مضبوط بنایا لیکن تم نے اے جاہلو ان پر انڈے پھینکے انہیں آلو خان کہا،ان کے منہ پر تھوکا،وہ مسکراتے رہے اور برداشت کرتے رہے۔ تم نے پھر ان کے منہ پر تھوکا ۔میں روسٹرم کے ساتھ ہی لکڑی کے تختے پر بچھے ہوئے قالین پر بیٹھا تھا اور نوٹس لے رہا تھا ۔اتنے میں بابو صاحب پھر بولے ، تونے اے چاہلو بار بار ان کے منہ پر تھوکا ۔میں نے فوراً کاغذ کی سلپ پر جلدی سے لکھا بابو صاحب !کافی لوگوں نے تھوک لیا ہے اب مزید ذکر نہ کریں اور اٹھ کر روسٹرم پر یہ سلپ ان کی نظروں کے سامنے رکھ دی جلسہ ختم ہونے کے بعد میں نے انہیں گھیر لیا اور کہا خدا کا خوف کریں اتنا تو ساری قوم نے مل کر نہیں تھوکا ہو گا جتنا آپ نے اپنے لیڈر پر لُعاب پاشی کردی ۔ جتنے لوگ قریب کھڑے تھے سب ہنسنے لگے لیکن ایئر مارشل نے بابو صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا آپ نے بہت اچھی تقریر کی ۔
ایئر مارشل کی پہلی کتاب ’’ صدائے ہوش ‘‘ اور دوسری Lighter side of Power gameمیں نے ’’ جنگ ‘‘ پبلشرز کے لئے چھاپی ۔جب میں ’’جنگ ‘‘ لاہور سے منسلک تھا۔بطور انسان وہ مخلص دوست اور بطور دانشور وہ سچے کھرے اور معصوم انسان ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں خوش رکھے۔پاکستان کی صدارت کے لئے ان سے موزوں شخص میری نظر میں اور کوئی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں