372

بزعم ِ خود مرد حق ۔ ضیا الحق

ضیاء شاہد
سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق یقینی طور پر ایک متنازعہ شخصیت ہیں وہ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ملنے کے باوجود انہیں آج تک شہید کہتے ہیں ، جنرل ضیاء الحق سے شدید نفرت کرتے ہیں انہیں ضیاء الحق صاحب کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی ۔ ضیاء الحق کا نام سن کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر لاہور کے اردو بازار میں ایک غریب جیالے نے خود پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگائی اوکاڑہ میں تصور نامی نوجوان بھی خود پر تیل پھینک کر جل مرا ۔ بھٹو صاحب کے یہ جیالے ان پر قربان ہو گئے لیکن بڑے لیڈر ، عہدیدار ان ، سینٹرز ، ایم ان ایز اور ایم پی ایز گھروں سے نہیں نکلے ۔ البتہ وہ آج تک بھٹو صاحب کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور ہر سال چار اپریل کو ان کی برسی کے موقع پر نوڈیرو ضلع لاڑکانہ ضرور جاتے ہیں ، دوسری طرف جن لوگوں نے بھٹو صاحب کی حکومت کے تحت الیکشن 1977ء میں دھاندلی کے سبب گلیوں ، سڑکوں میں اینٹی بھٹو مظاہرے کئے تھے ان کی اکثریت نو پارٹیوں میں سے کسی نہ کسی پارٹی کے ہمدرد ہونے کے باوجود ضیاء الحق کو اپنا لیڈر مانتے ہیں جنہوں نے بھٹو صاحب کو حکومت سے اتارا تھا اور ان کے خلاف دوسری مختلف کارروائیوں کے علاوہ احمد رضا خان قصوری ایم این اے کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں بھٹو صاحب پر مقدمہ چلایا ۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق حسین نے انہیں پھانسی کی سزا دی اور سپریم کورٹ میں جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں ان کی سزا تین ججوں کے مقابلے میں چار ججوں کے رائے سے بحال رکھی جس کے خلاف بھٹو صاحب کی پہلی بیوی امیر بیگم نے صدر مملکت کے پاس رحم کی اپیل کی جسے ضیاء الحق نے مسترد کر دیا اور بھٹو صاحب کو جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔ اس سے بہت پہلے تین ماہ بعد الیکشن کروانے کے دعوے کے خلاف ضیاء الحق نے قومی اتحاد کی اکثر جماعتوں سے تین وزیر فی جماعت اپنی حکومت میں شامل کئے۔ جاوید ہاشمی صاحب براہ ِراست نامزد ہوئے۔ اس طرح قومی اتحاد کا نعرہ کہ ہم نظام مصطفیٰ لائیں گے ضیاء الحق نے چھین لیا ۔ بھٹو صاحب کی گرفتار ی کے ساتھ ہی پورا ملک دو مکاتب فکر میں تقسیم ہو گیا ۔ پروبھٹو ز جس میں پیپلز پارٹی اور دوسرے بہت سے عام لوگ شامل تھے دوسرا اینٹی بھٹو جن کی نمائندگی قومی اتحاد کی جماعتوں سے چھین کر ضیاء الحق اس کلاس کے لیڈربن گئے اور انہوں نے کم و بیش 11سال ڈٹ کر حکومت کی ۔
قارئین واضح رہے کہ اگر 17اگست 1988ء کو بہاولپور کے علاقے بستی لال کمال میں جنرل ضیاء کا طیارہ کریش نہ ہوتا تو شاید وہ مزید کئی برسوں تک حکومت کی جان نہ چھوڑتے ، میں ضیاء الحق کی سوانح عمری نہیں لکھنا چاہتا نہ دوچار کالموں میں یہ کام مکمل ہو سکتا ہے ۔ میں نے موجودہ سلسلہ ہائے مضامین کی بنیاد کسی نہ کسی شخصیت سے اپنے انٹرایکشن پر رکھی ہے یعنی ضیاء الحق جیسا کہ میں نے دیکھا جو مجھے لگایا جیسا کہ مجھ سے بات چیت ہوئی۔ضیاء الحق فوج میں تھے تومیری کبھی ان سے ملاقات نہ ہوئی البتہ مجھے معلوم ہے کہ جب انہیں کئی ایک جرنیلوں سے سپر سیڈ کر کے فوج کا سربراہ بنا یاگیا تو سیاسی حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ بھٹو صاحب کو اطمینان تھا کہ یہ مولوی زیادہ نمازی اور بظاہر اسلام کا لیوا لگتا ہے۔ لہٰذا اس سے میرے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ ان دنوں اسلام آباد میں یہ واقعہ مشہور تھا کہ بھٹو سے ان کے کسی لیڈر نے کہا کہ ضیاء الحق سے بچ کر رہنا ۔ بھٹو صاحب ہنسے اور بولے کس سے بچ کر رہوں ۔ ’’ کیا اس مونکی سے ‘‘ یوں قدرت نے دیکھا کہ جسے بھٹو صاحب بندر سمجھتے تھے۔ اس کے ہاتھوں غیر طبعی موت سے ہمکنار ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بات انہوں نے ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی سے کہی تھی جو اپنی بیگم فرح پہلوی کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ انہیں بھٹو صاحب نے ضیاء الحق سے ملوایا تو اچانک رضا شاہ پہلوی نے ان کے جانے کے بعد بھٹو صاحب کو خبردار کیا کہ اس شخص سے بچ کر رہنا ۔

83_1D2_10_1.tif
12/7/1982 President and Bill Clark meeting with President Mohammad Zia Ul Haq of Pakistan in the oval office

ضیاء الحق کی شکل و صورت معمولی تھی مونچھیں لمبی تھیں۔ ایک آنکھ دوسری سے تھوڑی چھوٹی تھی مخالف لوگ اسے ’’ کانی سرکار ‘‘ بھی کہا کرتے تھے، یونیفارم میں جنرل ضیاء الحق کی تصویر دیکھ کر بعض لوگ انہیں بینڈ ماسٹر کا خطاب بھی دیتے تھے۔ ملتان میں جہا ں وہ کور کمانڈر رہے تھے بہت ان سے واقف تھے۔ انہیں پڑھنے کا شوق تھا اور واقفان حال جانتے ہیں کہ مذہبی کتابوں میں سے وہ بطور خاص سید مودودی کی تصانیف پڑھتے تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ ہر صبح اخبارات کو پڑھتے نہیں بلکہ چاٹتے ہیں اور صدر بننے کے بعد بھی مذاق میں کہا کرتے تھے کہ میں سب اخبارات اور تمام رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتا ہوں ۔ ملتان ہی سے ان کے ایک قریبی ملنے والے نے بہت پہلے مجھے بتایا کہ وہ پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار ہیں اور ہر صبح قرآن پاک بالخصوص مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہیں۔
میری جنرل ضیاء الحق سے پہلی ملاقات راولپنڈی میں اس وقت ہوئی جب میں سیاسی ہفت روزہ ’’ صحافت ‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک دن ڈیلی اخبارات کے ایڈیٹروں کو بلایا جن کی تعداد پندرہ سولہ کے لگ بھگ تھی ۔ اگلے دن ہفت روزہ اخبارات کی باری آئی ۔ مجھے یاد ہے کہ میرے علاوہ مجیب الرحمن شامی، ’’ اخبار جہاں ‘‘ کے ایڈیٹر ، نثار احمد زبیری ’’ افریشیا ‘‘ کے ایڈیٹر عبدالقادر حسن ، ’’ زندگی ‘‘ کے ایڈیٹر الطاف حسن قریشی اور ’’ تکبیر ‘‘ کے صلاح الدین کے علاوہ کراچی کے اخبار نویس میجر (ر) ابن ِ حسن بھی تھے ۔ یہ ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی جو آرمی سربراہ کی سرکاری قیام گاہ تھی۔
لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے جائیں تو پرانے آرمی ہائوس کی عمارت ابھی تک دائیں ہاتھ نظر آتی ہے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے کہ ضیا ء الحق آ گئے ۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے اور ان کے ہاتھ میں دو تین رنگوں کے مارکر تھے جن کی وجہ سے ان کی انگلیوں پر مختلف رنگ لگے ہوئے تھے ۔ انہوں نے باری باری ہم سے ہاتھ ملایا اور پھر بات چیت شروع ہو گئی ۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک ملاقات جاری رہی ۔
پہلی ملاقات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صاف گو اور کھلے ذہن کے مالک ہیں۔ انہیں مکمل تسلی اور اعتماد تھا کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر کے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہو ں نے کئی بار یہ جملہ دہرایا کہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو حکومت میں آکر دیکھا ۔ سیاستدانوں نے اتنا گند مچایا ہوا تھا جس جگہ ہاتھ مارتا ہوں میرا ہاتھ آلودہ ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ اسی طرح چلتے رہتے تو ملک کی بربادی یقینی تھی۔ ان کی گفتگو کے مخاطب او ل تو ہم تھے لیکن دراصل وہ اپنے تیئں ملک بھر میں پھیلے ہوئے اینٹی بھٹو عناصر سے گفتگو کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا خدا کا شکر ہے کہ ملک بچ گیا ہے ۔ الیکشن کے بارے میں ان کا مئوقف تھا کہ گر د ذرا بیٹھ جائے تو ضرور کروائوں گا مگر سابق حکمران کے جو جوکارنامے میرے سامنے آ رہے ہیں ان سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آوے کا آواہی بگڑا ہو ا ہے۔ لہٰذا پہلے مجھے گند صاف کرنا ہو گا ۔ انہوں نے قومی اتحاد کی تعریف کی مگر یہ کہا کہ ان میں سے بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ وہ نظام اسلام یا نظام مصطفیٰ ؐ لائیں گے سیاسی نعرہ تھا اور اب وہ رفتہ رفتہ پیچھے ہٹ رہے ہیں مگر میں عوام کا یہ مطالبہ پورا کروں گا ۔ اتفاق سے مجلس میں کوئی بھی صحافی بھٹو صاحب کا جیالانہ تھا کچھ اینٹی بھٹو تھے اور کچھ نیوٹرل ۔ ٗضیاء الحق صاحب سابقہ حکومت کی لوٹ مار کے قصے سناتے رہے ۔
انہوں نے کہا میں آپ لوگوں کے رسائل خصوصاً سیاسی جریدوں کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ سے واقف نہیں ہوں بالخصوص پیپلز پارٹی کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف جنگ لڑنے والے صحافیوں کے لیے میرے دل میں بہت احترام ہے اور میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں ۔ہم آرمی ہاؤس سے نکلے تو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ملک میں اینٹی بھٹو زکی کمان کریں گے اورپرو بھٹوز کے لئےمشکل اور ابتلا کے دن شروع ہونے والے ہیں ۔میں نے اپنے ساتھیوں سے گپ شپ میں اپنا خیال ظاہر کیا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ الیکشن کروائیں گے البتہ جلد ہی وہ قومی اتحاد کے لیڈروں کو حکومت میں ضرور شامل کر لیں گے۔باقی دوستوں کا بھی خیال اسی قسم کا تھا کہ جنرل ضیاء نرے مولوی نہیں بہت ذہین انسان ہیں اور قوم کی سیاسی نبض پر ان کے ہاتھ ہیں۔
وقت گزرتا گیا چند ہفتے بعد مجھے ایوان صدر سے ایک پیغام ملا کہ جنرل مجیب الرحمان سیکرٹری اطلاعات جو فوج کے حاضر سروس جرنیل بھی تھے لاہور آ رہے ہیں ۔وہ فین روڈ پرپاک جمہوریت کے دفتر میں فلاں تاریخ کو صبح 11 بجے کچھ دوستوں سے ملیں گے آپ کا نام ایوان صدر سے تجویز کیا گیا ہے ۔آپ ضرور ان سے ملاقات کریں ،جب میں مقررہ تاریخ اور وقت پر پہنچا تو جنرل مجیب الرحمان سے ملاقات ہوئی ،مصطفی صادق صاحب پہلے سے موجود تھے ۔جنرل مجیب باری باری سب سے تنہا مل رہے تھے تاہم ہر ملاقات میں محترم مصطفی صادق کی موجودگی ظاہر کرتی تھی کہ حسب توقع وہ اس حکومت کے بھی سرکاری مشیر ہیں ۔میری باری آئی تو جنرل مجیب الرحمن نے کچھ کاغذات پلٹتے ہوئے کہا ضیا صاحب !پاکستان میں بھٹو دور میں سب اخبارات بند ہوئے اور ایڈیٹروں کو جیل جانا پڑا لیکن ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ آپ واحد ایڈیٹر ہیں جو جیل جانے سے پہلے 14 دن لاہور کے شاہی قلعے میں بھی رہے ۔ ہم نے ٹیلی ویژن پر ظلم کی داستان کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے آپ چونکہ شاہی قلعہ میں جسمانی تعذیب جھیل چکے ہیں لہذا ٹی وی اسٹیشن جاکر پروگرام ریکارڈ کروائیں ۔محمد صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی صاحب سے پروگرام ریکارڈ ہوچکے ہیں ۔
میں یہاں وضاحت کرتا ہوں کہ میں نے بھٹو حکومت کے خلاف بڑی طویل جنگ لڑی ان کے غیر جمہوری رویوں پر صحافتی پابندیوں کا مسلسل مقابلہ کیا لیکن میں ضیاء الحق کے دور میں بھی اپنی ہر بریفنگ ہر ملاقات اور ہر انٹرایکشن میں حکومت پر تنقید کرتا رہا۔یہی وجہ ہے کہ اینٹی بھٹوز کاسرکردہ صحافی ہونے کے باوجود میں کبھی ضیاء الحق کا پسندیدہ اخبار نویس نہیں رہا حتی کہ میں اپنا ہفت روزہ اخبار بھی شروع نہ کر سکا اور دس گیارہ سال تک مسلسل نوائے وقت یا جنگ میں ملازمت کر کے وقت گزارا ۔میں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں اس سے آپ میری سوچ کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔میں حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا،اس سے سہولتیں حاصل کرتا تو دوبارہ پریس کا مالک اور ہفت روزہ اخبار کا ایڈیٹربن سکتا تھا لیکن میں نے اپنا آپ کبھی کسی حکومت کے ہاتھوں فروخت نہیں کیا میرے بعض ساتھی اعلی مدارج تک بھی پہنچے بعض امیر کبیر بنے تو بعض نے حکومتی عہدہے حاصل کیئےمگر میرے جیسا شخص جو پہلی ملاقات میں ہی وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق سے بھی زیادہ پاور فل سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمان سے بھڑ گیا وہ حکومتی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتا تھا ۔ بڑے اطمینان سے میں نے جنرل مجیب کی فرمائش کا جواب نفی میں دیا اور کہا جناب ! ہم بھٹو دور کی خرابیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اگر وہی خرابی ضیا دور میں بھی پائی جاتی ہے تو میں بے ضمیر ہو کر آپ کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں کیونکہ بھٹو حکومت اپنے مخالفین کو شاہی کے بھیج کر ان کی مارپیٹ سے”تواضع”کرتی تھی تو آپ نے آج بھی میری معلومات کے مطابق خاور نعیم ہاشمی سمیت کتنے دوسرے لوگوں کو قید کر کے شاہی قلعے میں رکھا ہوا ہے جو اتنا ہی بڑا جرم ہےجتنا بھٹو شاہی میں مجھے شاہی قلعہ میں بند کرنا,. ۔میں ضرور گزشتہ حکومت کے مظالم ٹیلی ویژن پر بیان کرتا اگر میں یہ کہنے کے قابل ہوتا ہے کہ اب وہ ظلم کا ادارہ بند کیا جا چکا ہے ۔ میری گزارش ہے کہ اب جبکہ تفتیش کے سائنسی طریقے دنیا بھر میں سامنے آ چکے ہیںیہ اٹھارہویں صدی کے عقوبت خانے بند کریں ،جنرل مجیب الرحمان نے مجھ سے بحث شروع کی۔
میں ان ان کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا ۔ میں نے اس کے زمانے میں شاید آج شاہی قلعے میں موجود پیپلزپارٹی کے جیالوں نے احتجاج نہ کیا ہو لیکن اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو میں اس غلطی کا اعادہ کیوں کروں ۔ ہماری میٹنگ بہت تلخی کے ماحول میں ختم ہوئی اور اگرچہ کئی بار مجھے مصطفیٰ صادق نے سمجھانے کی کوشش کی مگر میں اپنی بات پر ڈٹا رہا نتیجہ ظاہر ہے کہ جنرل مجیب سے بے شمار اور ضیاء الحق سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں مگر میں ان کا چہیتا کبھی نہ بن سکا یوں مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ضیاء الحق کے بعد جنرل مجیب الرحمن بھی میری بہت عزت کرتے تھے ۔ ہر بات سن لیتے تھے اور کبھی جواب دینا پڑے تو ہمیشہ یہ کہتے ضیا صاحب !یہ آپ کا نقطہ نظر ہے اب ہمارا نقطہ نظر بھی جانیں۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ سن اور تاریخیں مجھے یاد نہیں رہتیں اور نہ ہی ان کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کیونکہ میرا منشا سوانح عمری لکھنا یا سن وار تاریخ مرتب کرنا نہیں بلکہ اپنی یادداشتیں مرتب کرنا اور تاثرات قلمبند کرنا ہے ۔ قومی اتحاد کے وزراء حکومت میں شامل تھے کہ مجھے صدر ضیاء الحق کے ساتھ کھانے کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ زیادہ تر لوگ ان کے رفقائے کار تھے اورچونکہ میں ان کی طرف سے دعوت پر اسلام آباد پہنچا تھا اورکئی گھنٹے وزارت اطلاعات میں جنرل مجیب الرحمن کے ساتھ بحث مباحثے میں مصروف تھا کہ جنرل صاحب نے ہی مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی کہ میں نے صدر صاحب سے آپ کے لئے اجازت لی ہے۔ آپ سات بجے میرے پاس آ جائیں میں آپ کو آرمی ہائوس لے چلوں گا۔ جب ہم کھانے کے لئے پنڈی میں آرمی ہائوس پہنچے تو مجلس گرم تھی ۔ ضیاء الحق نے اخلاقاً میری خیریت دریافت کی اور اس کے بعد اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ملاقات میں مجھے کچھ زیادہ بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کیونکہ دس بارہ لوگ موجود تھے جن میں زیادہ تر فوجی تھے البتہ میرے علاوہ صدر کے وزیر دفاع میر علی احمد تالپور شاید واحد سویلین تھے جو کھانے میں شامل ہوئے ۔ یہ کھانا میرے لئے بہت فائدے مند ثابت ہوا کیونکہ مجھے بہت سی اندرونی باتوں کا پتا چلا ۔ ضیاء الحق جب پوری فارم میں تھے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بعض وزراء کے لطیفے بیان کئے ۔ پھر گفتگو کارخ جماعت اسلامی کی طرف مڑ گیا ۔ یاد رہے کہ جماعت کے تین وزیر اورڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن کے طور پر پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے ۔ ضیاء الحق نے کہا میں مودودی صاحب کی تصانیف پڑھ چکا ہوں اور ان سے متاثر بھی تھا لیکن مجھے حیرت ہوئی جب میں بار بار جماعت کے وزراء اور پروفیسر صاحب سے کہا کہ اسلامی نظام لانے کے لئے اقدامات کرنے ہیں ، مجھ سے ڈسکس کریں تو وہ ہر بار یہ کہتے کہ ہمیں کچھ وقت دیں ہم نے پورے نظام کا خاکہ بنانا شروع کر دیا ہے ۔ پھر ضیاء الحق ہنسے اور بولے عجیب بات ہے کہ اسلام کا نظام حکومت کیا ہونا چائیے اس کا کوئی بلیو پرنٹ ان کے پاس موجود ہی نہیں۔ میں شکل سے ان فوجیوں کے نام نہیں جانتا تھا جو گفتگو میں شریک ہوئے لیکن کچھ لوگ جماعت کے خلاف بھی تھے اور ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ضیاء الحق صاحب نے واقعہ سنایا کہ میں نے ایک پریس کانفرنس بلائی (میں بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھا )جس میں یہ اعلان کردیا کہ آج سے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو گا۔ اگلے دن ملک بھر کے عدالتی نظام میں شور مچ گیا ۔ قتل کے مقدمات میں چند وکلاء نے ملزموں کی سزائیں چیلنج کر دیں کہ برٹش لاء جو ہمیں ورثے میں ملا قرآن و سنت کے خلاف ہے لہذا عمر قید ہو یا سزائے موت اس قانون کے تحت قبول نہیں کیونکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر کے اعلان کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔ بنکوں والوں نے شور مچایا کہ ان سے قرضے لینے والوں نے فورا ً درخواستیں دے دی ہیں کہ اسلام میں سود نہیں ہے لہٰذا ہم واجب الادا اصل رقم تو دیں گے اس پر اضافہ شدہ سود ہرگز ادا نہیں کریں گے ۔ شور اس قدر زیادہ تھا کہ سارا سسٹم رک گیا تھا مجبوراً مجھے قانونی ماہرین کے مشورے کے مطابق اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ کیونکہ جماعتی ورزاء اور پروفیسر خورشید احمد سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود مجھے کسی بھی مروجہ قانون کا کوئی متبادل اسلامی حل نہ ملا۔ ضیاء الحق کے اس انکشاف پر بحث شروع ہوئی تو مجلس میں شامل ایک فوجی نے جن کا میں نام نہیں جانتا تھا یہ کہا کہ جماعتی وزیروں سے جب پوچھو شروع میں وہ یہی جواب دیتے تھے کہ ہمارے سب سے بڑے محقق پروفیسر خورشید احمد صاحب ہیں۔ انہوں نے برسوں تحقیق کی ہے اور وہ جلد ہی پورا سسٹم آپ کو بنا دیں گے پھر اس نے کہا جناب !ان تلوں میں تیل نہیں ہے ۔ہر وزارت میں سوائے اس کے کہ فلاں ملازم بائیں بازو کا ہے اسے نکالیں اور اس کی جگہ دائیں بازو بلکہ جماعت اسلامی کا تجویز کردہ بندہ رکھیں اور ان سے کچھ نہیں نکلے گا۔
اچانک ضیاء الحق صاحب کو خیال آیا کہ میرا تعلق پریس سے ہے اور اگر چہ میں خاموش بیٹھا تھا تاہم انہوں نے مجھے بڑے نرم لہجے میں اپنا مئوقف سختی سے آشکار کیا کہ ضیا شاہد صاحب !آپ ہمارے دوست ہیں اور ہم نے جنرل مجیب صاحب کے کہنے پر آپ کو بھی کھانے پر بلایا ہے لیکن میں تاکید کرتا ہوں کہ یہاں ہونے والی کسی گفتگو کو آپ اپنے رسالے میں شائع نہیں کریں گے ۔ ابھی کوئی بات میچور نہیں ہوئی ۔ ہم تو صرف ڈسکس کر رہے ہیں میں نے وعدہ کیا اور واقعی آج کے دن سے پہلے میں نے بھی جماعت اسلامی سے ضیاء الحق صاحب کی مایوسی بارے کچھ نہیں لکھا تاہم بعد ازاں بھی مجھے بہت دفعہ یہ معلوم ہوا کہ اپنے پہلے تاثر کے برعکس وہ جماعتی دوستوں سے کافی نالاں تھے ۔ اس کھانے کے آخر میں بھی ضیاء الحق نے کہا ہمیں دنیا بھر سے سکالرز بلانے پڑیں گے یا ان سے رابطہ کرنا ہو گا ۔ کیونکہ جو بھی قانون اور نظام رائج ہے اس میں تھوڑی بہت چھڑ چھاڑ سے کچھ حاصل نہ ہو گا ہمیں تو سرے سے اوورہالنگ کرنا ہو گی ۔ کھانے کے بعد وہ لوگ ابھی بیٹھے تھے کہ جنرل مجیب نے مجھ سے کہا مجھے ایک ضروری میٹنگ میں جانا ہے میرا خیال ہے میرے ساتھ ہی نکل چلیں میں نے اجازت لی تو ضیاء الحق صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ آپ عربی زبان میں ایم اے گولڈ میڈلسٹ ہیں اور آپ نے قرآن و حدیث کا خود بھی غور سے مطالعہ کیاہے، پاکستا ن میں یا پاکستان سے باہر آپ کی اس مضمون میں کسی سکالر کا علم ہو تو مجھے آگاہ کیجئے گا ۔ شاید ہمیں عالم اسلام کے سکالروں سے کچھ رہنمائی مل سکے ۔ میں راستے میں جنرل مجیب سے باتیں کرتا رہا ۔ ہم دونوں کا خیال تھا کہ پہلے بھی جلد بازی میں صدر صاحب نے اعلان کر دیا تھا کہ آج سے اسلامی قانون نافذ لیکن متبادل نظام کا خاکہ جب تک تیار نہ ہو یہ کام پورا نہیں ہو سکتا ۔ لاہور واپسی پر میں نے جماعت اسلامی کے بعض سینئر لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اسلامی نظام کا مکمل اور جامع پراجیکٹ تیار کر رہے ہیں اور جلد ہی ضیاء الحق صاحب کو پیش کر دیں گے ۔ میں بڑی معذرت سے لکھوں گا کہ شاید یہ کام نہ اس وقت ہو سکا اور نہ آج تک ہو سکا ہے ۔
ملک میں مارشل لا پر دبی دبی تنقید شروع ہو گئی تھی حتیٰ کہ حکومتی وزراء کے پاس بھی الیکشن نہ کروانے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یوں بھی سیاسی جماعتوں سے آنے والے لوگ صدر صاحب سے بھی عوامی احساسات کا تذکرہ ضرور کرتے تھے ۔ لہٰذا سوچ بچار کے بعد جنرل ضیاء الحق صاحب نے ملک میں عام الیکشنز کا اعلان کر دیا ۔ سیاسی جماعتوں سے آئے ہوئے وزراء نے الیکشن میں حصہ لینے کے خیال سے استعفے دے دیئے اور اپنے اپنے حلقوں میں جا کر الیکشن کی تیاری شروع کر دی۔ مجھے بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم نے ورکنگ لنچ پر بلایا ان کا کمرہ ایوان صدر راولپنڈی میں صدر صاحب کے کمرے کے ساتھ واقع تھا۔ ان کے بالمقابل ایک ہی وفاقی وزیر ایوان صدر میں بیٹھتے تھے اور درازے پر میر علی احمد خان تالپور وزیر دفاع کی تختی لگی ہوئی تھی۔ کچھ دیر گپ شپ ہوتی رہی پھر صدیق سالک نے اپنی آنے والی کتاب ’’ پریشر ککر ‘‘ کے بارے میں تقریب رونمائی کے حوالے سے گفتگو شروع کر دی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیروں کے آسامیاں خالی ہو چکی ہیں صرف سندھ سے تعلق رکھنے والے اور پیپلزپارٹی کے باغی میر علی احمد تالپور نے صدر کو آگاہ کیا ہے کہ وہ الیکشن لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ جب میں نے رخصت چاہی چونکہ ہم ورکنگ لنچ سے بھی فارغ ہو چکے تھے تو سالک صاحب نے کہا تالپور صاحب سے ملو گے ؟میرے اثبات میں جواب دینے سے وہ بغیر اجازت لئے ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر مجھے بھی اندر آنے کا اشارہ کیا ، میں تالپور صاحب کو پہلے سے جانتا تھا وہ واحد رکن قومی اسمبلی تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کی طرف سے نیا آئین پیش کرنے پر ایک دھواں دھار تقریر کی تھی۔ میں بھی اس روز قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود تھا ۔ تالپور صاحب نے سپیکر کے پیچھے لگی ہوئی قائداعظم کی تصویر کی طرف دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا اے میرے قائد !میں آپ کی تصویر کو گواہ بنا کر یہ کہتا ہوں کہ موجودہ آئین آمریت کے ہاتھ مضبوط کرے گا اور ملک کو جمہوری راستے سے دور لے جائے گا ۔ انہوں نے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا اور اسمبلی ہال سے باہر چلے گئے تھے۔ بعد ازاں بھی ان سے ملاقاتیں رہیں۔ ان کے بھائی میر رسول بخش تالپور نے بھی پیپلز پارٹی سے بغاوت کر کے حیدر آباد سندھ میں قومی کنونشن بلایا تھا۔ اس کنونشن کی رپورٹنگ برادرم الیاس شاکر نے ہفت روزہ ’’ صحافت ‘‘ کے لئے کی تھی اور اتنی عمدہ تھی کہ میں نے انہیں ’’ صحافت ‘‘ کے کراچی دفتر کے انچارج بننے اور بیورو چیف کی ذمہ داری لینے کی دعوت دیدی ۔
الیاس شاکر نے صحافت کے بعد میرے نوائے وقت جوائن کرنے پر کراچی میں اسی اخبار کے سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور بہت محنت کی ۔ بعد ازاں میں بھی نوائے وقت کراچی کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن کر وہاں پہنچا اور 1984ء تک چار سال یہ خدمت انجام دی۔ میرے واپس لاہور آنے کے بعد الیاس شاکر نے جن کا تعلق میمن برادری سے ہے دوپہر کا روز نامہ قومی اخبار شروع کیا جو آج تک چل رہا ہے ۔ میر علی احمد تالپور سے اس روز کافی گپ شپ رہی البتہ سالک صاحب واپس اپنے کام کیلئے رخصت ہو گئے ۔ میں نے تالپور صاحب سے پوچھا آپ نے الیکشن نہیں لڑنا ۔ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے پتہ نہیں الیکشن ہونے بھی ہیں یا نہیں۔ میں بلاوجہ اتنی اہم وزرات کیوں چھوڑ دوں ۔ جب میں واپس لاہور پہنچا تو اگلے ہی روز برادرم جاوید ہاشمی جن سے میری اچھی دوستی تھی، اسلام آباد سے بائی ملتان جاتے ہوئے ملتان روڈ پر میرے گھر کے سامنے رکے۔ وہ بڑے پر جوش تھے ۔ میں نے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی اور کہا یار الیکشن ہو نگے ؟وہ کہنے لگا آپ کو کیا شک ہے ؟ میں نے کہا شک نہیں یقین ہے۔ پھر میں نے تالپور صاحب سے ہونے والی ملاقات کا واقعہ سنایا اورکہا لگتا ہے ضیاء الحق صاحب آپ سے خوش نہیں۔ جاوید ہاشمی بولے وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ میں چونکہ سیاستدان ہوں لہٰذا الیکشن سے باہر کیسے رہ سکتا ہوں۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر الیکشن نہ ہوا تو پھر تحریک انقلاب آئے گی ۔ یہ کہہ کر کہ مجھ سے رخصت ہوئے ۔ دراصل میرے دوست اور بھائی طارق چودھری سابق رکن سینٹ نے تحریک انقلاب کے نام سے ایک دھانسو قسم کا پریشر گروپ بنانے فیصلہ کیا تھا۔ اس کا تعارفی پمفلٹ 50ہزار کی تعداد میں میرے ہی پریس سے چھپا ۔ جاوید ہاشمی صاحب اس کے متوقع صدر اور طارق چودھری سیکرٹری جنرل بننے والے تھے۔جاوید ہاشمی کا اشارہ اسی طرف تھا۔
میرے خدشات صحیح ثابت ہوئے الیکشن پھر ملتوی ہو گئے بلکہ یوں سمجھیں کہ اب اس کا انعقاد دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ بے چارے جاوید ہاشمی مفت میں ملی وزارت چھوڑآئے ۔ میں انہیں ہمیشہ مذاق میں چھیڑتا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ ضیاء الحق صاحب آپ سے کچھ خفا ہیں ورنہ وہ آپ کو استعفے دینے سے منع ضرور کر دیتے ۔ میں نے کہا اب دوسروں کی طرح تم بھی گھر بیٹھو اور بھگتو۔
1981ء جب ہفت روزہ صحافت چھوڑ کر کہ پری سنسر شپ آنے کے سبب سیاسی ہفت روزے نہیں نکالے جا سکتے تھے کہ پریس میں کاپی بھیجنے سے پہلے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے مہر لگوانا پڑتی تھی ۔ سیاسی جماعتیں کالعدم ہو چکی تھیں اس لیے میں نے روزنامہ نوائے وقت بطور میگزین ایڈیٹر جوائن کیا ۔ ڈیڑھ دو سال بعد مجھے ترقی دے کر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر بناکر کراچی بھیج دیا گیا اور 1981ء سے 1984ء تک میں کراچی رہا۔ اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد ہے کہ ایک دن سندھ کے گورنر جنرل عباسی کی بیگم یاسمین عباسی نے پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی رہائی کیلئے گورنر ہائوس سے ایک جلوس نکالا ۔ پندرہ بیس خواتین ان کے ساتھ تھیں۔ گیٹ پر ان کی اخباری تصاویر فوٹو گرافروں نے بنائیں۔ ایک تصویر بہت ہی شاندار تھی اوپر نیم دائرے میں درج تھا گورنر ہائوس اور اس کے نیچے بینظیر کور رہا کرو کا بینر اٹھائے یاسمین عباسی باہر آ رہی تھیں۔ یہ دلچسپ بات تھی کہ یاسمین کے شوہر مارشل لاء کے گورنر تھے اور انکی بیگم بینظیر کے حق میں سرکاری رہائشگاہ سے جلوس نکال رہی تھی ۔ جب خبر اور تصویر میری میز پر آئے تو میں نے مجید نظامی صاحب کو جو لاہور میں تھے فوراً فون پر بتایا ۔ مجید صاحب ہنس پڑے۔ میں نے کہا جی اسے تو فرنٹ پیج پر چھاپنا چاہیے۔ کہنے لگے ضرور چھاپیں مگر شام کو سات بجے جب سرخیاں لکھی جا چکی تھیں اور تصویر اور خبر کاپی پر پیسٹ کر دی گئی تھی ، مجھے سندھ کے سیکڑٹری اطلاعات کا فون آیا جو ٹی وی کے معروف اداکار اور فنکار انور مقصود کے بڑے بھائی تھے ، فاطمہ ثریا بجیا بھی ان کی بہن تھی، انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ یہ تصویر اور خبر ہرگز نہ چھاپی جائے۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ میں چیف ایڈیٹر مجید نظامی کے احکامات کا پابند ہوں ان سے فون پر بات بھی ہو چکی ہے لہٰذا تصویر اور خبر ہم صبح کے اخبار میں پہلے صفحے پر چھاپ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سندھ کے وزیر اطلاعات احد یوسف کا فون آیا۔ میری ان کی بہت گپ شپ تھی اور وہ قومی اتحاد کی تحریک میںحیدر آباد شہر کے جلوسوں میں پیش پیش رہے تھے ۔ میں نے ان مذاق اڑانا شروع کیا کہ جناب اتنی زبردست خبر اور ایسی دیلآویز تصویر ہے اسے آپ کیوں رکوا رہے ہیں۔ جب میں نے ان کی بات ماننے سے یکسر انکار کر دیا تو کم وبیش آدھ گھنٹے کے بعد اسلام آباد سے جنرل مجیب الرحمان کا فون آیا جو وفاقی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ یوں نام کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق ہوتے تھے جو خود کو ضیاء الحق کی ٹیم کا اوپننگ بٹسمین کہتے تھے۔ (باقی آئندہ )
مگر وزارت کے کام کاج حاضر سروس جرنیل مجیب کے سپرد تھے ۔ مجیب صاحب سے میرے برسوں کے تعلقات تھے مگر میں نے معذوری کا اظہار کیا اور کہا آپ جناب مجید نظامی سے لاہور بات کر لیں ۔ وہ مجھے جو حکم دیں گے میں اس پر عمل کروں گا ۔ اگلا گھنٹہ جناب مجید نظامی صاحب سے رابطہ کرنے میں گزر گیا۔ وہ دل کے آپریشن کے بعد بہت احتیاط کرتے تھے اور جلد بستر پر چلے جاتے تھے ان کے بعد وہ کال نہیں اٹھاتے تھے ۔ جنرل مجیب نے مجھ سے پھر رابطہ کیا اور کہا ضیا صاحب مجید نظامی صاحب کال نہیں اٹھا رہے آپ خبر اور تصویر میرے کہنے پر روک دیں میں کل نظامی صاحب سے بات کر لوں گا۔ اگر وہ اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہے تو آپ پرسوں یہ شوق پورا کر لینا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام اخبارات سے بات کر چکے ہیں اور کوئی اخبار تصویر نہیں چھاپے گا ۔ میرے جوانی کے دن تھے پھڈے بازی میں مجھے مزا آتا تھا ۔ میں نے کہا مجیب صاحب سوری !!!رات دس بجے وزیر اطلاعات احد یوسف سیکرٹری اطلاعات حمیدی اور چیف سیکرٹری سندھ میرے دفتر آن پہنچے کچھ دیر بحث مباحثہ ہوا ۔ احد یوسف مجھ سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا وہ چپ ہو گئے۔ سیکرٹری اطلاعات اصرار کرتے رہے۔ البتہ چیف سیکرٹری نے ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ انہوں نے کہا جی ہم پانچ منٹ میں دفتر پر قبضہ کر سکتے ہیں اور حکماً خبر اور تصویر رکوا سکتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور اس شکل میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن میرے پاس جواز پیدا ہو جائے گا کہ دفتر پولیس کی حراست میں تھا اور صبح کا اخبار انہی کی نگرانی میں نکلا ہے۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ اگر ہم ایسا نہ بھی کریں اور آپ اخبار چھاپ لیں تو بھی صبح چار بچے آپ کے دفتر اور پریس کے باہر پولیس کا پہرہ ہو گا اور ہم اخبار کی ایک بھی کاپی باہر نہیں نکالنے دیں گے ۔ میں نے کہا جناب آپ کی مرضی۔ آپ کے پاس حکومت ہے اس شکل میں بھی اپنے چیف ایڈیٹر کے حکم کی پاسداری کر چکا ہوں گا کہ میں نے خبر یا تصویر نہیں روکی لیکن اس کا جو نتیجہ ہو گا اور مجید نظامی صاحب براہ راست ضیاء الحق سے جو مکالمہ کردینگے اس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہو گی ۔ احد یوسف نے کہا اچھا یار !لڑائی چھوڑ و چائے پلائو میں نے انہیں چائے کے علاوہ بسکٹ بھی پیش کیے ۔رات کے پونے بارہ بجے تک یہ ٹیم میرے دفتر موجود رہی اور اِدھر اُدھر فون کرتی رہی پھر مکمل طور پر مایوس ہو کر انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب کے پاس چل کر مشورہ کرتے ہیں ۔ احد یوسف صاحب نے مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہا ۔ میں نے کہا میری ڈیوٹی کا ٹائم ہے میں گورنر صاحب سے کل مل کر آئوں گا ۔ چیف سیکرٹری نے غصے میں کہا کہ کل وہ ضرور آپ سے ملیں گے ۔ میں نے کہاجی میں تو عاجز سا بندہ ہوں وہ ساری عمر نہ ملیں تو بھی میرا گزارہ ہو جائے گا ۔ وہ اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو لے کر رخصت ہو گئے ۔ صبح کے اخبارات میں نوائے وقت واحد روزنامہ تھا جس میں یہ خبر اور تصویر پہلے صفحے پر شائع ہو ئی تھی۔دس بجے میں دفتر آیا تو پہلے جنرل مجیب الرحمان صاحب کا فون آیا کہ وہ دوپہر تک کراچی پہنچ جائیں گے پھر مجید نظامی صاحب نے فون کیا اور مجھے ہلکی سی فہمائش کی کہ ضیاء صاحب !اگر وہ لوگ اتنے مُصر تھے تو کچھ آپ ہی نرم پڑ جاتے ۔اخبار کل بھی نکلے گا اور پرسوں بھی۔زیادہ پریشر ہو تو بات مان جاتے ہیں۔ پھر وہ ہنسے اور بولے میں آپ کی طرح کبھی جیل نہیں گیا اور نہ ہی جانا چاہتا ہوں۔میں نے پوچھا کیا آپ ناراض ہیں ؟مجید صاحب بولے نہیں مگر آئندہ کے لیے احتیاط کریں ، شام چار بجے تک لاہور سے ہمارے دفتر کراچی میں مجید نظامی بھی پہنچ چکے تھے اور جنرل مجیب الرحمن بھی۔میں نیچے بیٹھتا تھا اور نظامی صاحب کا کمرہ بالائی منرل پر تھا ۔ انہوں نے ہیلپر کو بھیج کرمجھے بلایا ۔ میرا خیال تھا کہیں جنرل مجیب صاحب کے سامنے ہی مجھے ڈانٹ ڈپٹ نہ شروع کر دیں کیونکہ گزشتہ رات میں ان سے بہت بحث و مباحثہ کیا تھا مگر میں اس امر کی داد دیتا ہوں کہ نظامی صاحب نے مجھے فون پر جو کہنا تھا کہہ دیا جنرل صاحب کے سامنے وہ مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم رہے۔
جنرل صاحب نے نظامی صاحب کو ایک ٹیلی فون نمبر لکھ دیا کہ آپریٹر سے کہیں کہ صدر صاحب سے اسلام آباد بات کروا دے ۔ ان دنوں موبائل فون ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے لہٰذا لینڈ لائن پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا ۔ تھوڑی بعد گھنٹی بجی اور جنرل ضیاء الحق صاحب کی پی اے نے کہا جی صدر صاحب بات کریں گے ۔ مجید نظامی صاحب نے ریسیو اٹھایا اور کچھ دیر جنرل صاحب کی بات سنتے رہے جو میں نہیں سن سکا ۔ پھر نظامی صاحب کہنے لگے جنرل صاحب آپ اپنے گورنر بدلیں جو گورنر اپنی بیویوں کو قابو نہیں رکھ سکتے وہ صوبے کی حکومت کیا چلائیں گے ۔ پھر انہوں نے کچھ دیر تک صدر صاحب کی گفتگو سنی اور بعد ازاں ریسیور رکھ دیا ۔ جنرل مجیب نے بتایا کہ ہم رات آپ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے ۔ نظامی صاحب نے معذرت کی کہ مجھے ڈاکٹروں نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ رات اتنے بجے تک بستر پر لیٹ جائیں اور ہرگز ہرگز کوئی کال نہ سنیں۔ جنرل مجیب نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے لاہور میں پی آئی ڈی کے افسروں کو کار پر آپ کے گھر بھیجا کہ وہ ہم سے رابطہ کرواسکیں مگر چوکیدار نے بات سنتے ہی انکار کر دیا کہ اب نظامی صاحب نہیںمل سکتے ۔
یہ واقعہ میں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں انتہائی سختی سے پریس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے لکھا ہے ۔ مجھے ہمیشہ اطمینا ن رہے گا کہ میں نے اپنے ادارے کے برسراہ سے ملنے والی اجازت پر ہمت و جرأت کے ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومت حتیٰ کہ صدر صاحب کے دبائو کا بھی مقابلہ کیا صدر صاحب نظامی صاحب کا بہت ادب کرتے تھے ۔ مجھے نہیں معلوم کوئی دوسرا ایڈیٹر ہوتا تو اس حد تک صدر صاحب کو کھری کھری سنا سکتا ، کچھ دنوں بعد زکوٰۃ کانفرنس کے موقع پر ضیاء الحق کراچی آئے ، ایڈیٹر حضرات کو بھی اس کانفرنس میں بلایا گیا تھا ۔ خاتمے پر چائے کا اہتمام تھا۔ صدر صاحب چائے کا کپ تھامے ہم اخبار والوں کی طرف آئے۔ انہوں نے چند لوگوں سے ہاتھ ملایا اور پھر اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑی کہناے لگے ضیا صاحب !آپ تو بڑے خطرناک آدمی ہیں۔ میں ہنس پڑا جنرل صاحب بھی مسکرائے پھر بولے بھئی آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ گورنر ہو یا صدر ہوم گورنمنٹ کی بات ماننی پڑتی ہے ۔ پھر وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھ گئے ۔
1984ء میں ، میں واپس لاہور آ چکا تھا اور روز نامہ ’’ جنگ ‘‘ سے منسلک ہو گیا تھا جب ہمارے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمن کراچی سے لاہور آئے۔ ان کی محبت اور شفقت تھی کہ وہ عام طور پر اپنے بیٹے میر شکیل الرحمن کے کمرے میں بیٹھنے کی بجائے منیجنگ ڈائریکٹر میر عبدالرب ساجد کے کمرے میں نشست کرتے یا میرے کمرے میں بیٹھ کر دفتر بھر کے لوگوں کو وہاں بلایا کرتے تھے ۔ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا میرے ساتھ چلو، میں نے یہ بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہاں جانا ہے اور خاموشی سے ان کے پیچھے سیڑھیاں اتر کر ان کے ساتھ کار میں جا بیٹھا ۔ وہ مجھے سیدھا گورنر ہائوس لے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ہم جنرل جیلانی کے پاس تھے ۔ ان کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر میاں نواز شریف صاحب بیٹھے ہوئے تھے جن کی تصویر یں میں دیکھ چکا تھا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔جیلانی صاحب نے میر صاحب سے کہا نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ نوجوان وزیرہیں۔آگے چل کر انہیں بڑی ذمہ داریاں ملنے والی ہیں۔ آپ تو کراچی میں ہوتے ہیں میں نے کہا تھا کہ کسی تجربہ ار اسسٹنٹ کو ساتھ لائیں ۔ میر صاحب نے میرا نام بتایا اور کہا فرمائیں ۔ جنرل جیلانی نے مختصر بات کی اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے اخبار میں اپنے مذاکروں میں اپنے انٹرویوز میں نواز شریف صاحب کو پروجیکٹ کریں۔الیکشن کے بعد سول حکومتیں بنیں تو یہ پنجاب کے وزراعلیٰ ہوں گے ۔ میر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔نواز شریف نے پہلے میر صاحب سے اور پھر مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگے میں خود آپ کے دفتر آ کر سب سے ملوں گا ۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔ 1985ء کے الیکشن تک ہماری سلام دعا نواز شریف صاحب سے بہت اچھی طرح ہو گئی تھی ، وہ الیکشن کے دوران بھی گوالمنڈی کی گلیوں میں آسانی سے جانے کے لئے ایک چھوٹی گاڑی استعمال کرتے اور ہمیں اس میں بٹھا کر انتخابی مہم میں لے جاتے ۔ کبھی کبھی وہ ہمارے فورم میں بھی آتے اور میز پر بحث مباحثہ کرنے والوں میں شریک ہوتے ۔ اپنے ساتھ باہر لے جانے کے دوران وہ بڑی محبت سے سردیوں میں سبز چائے اور گرمیوں میں پرانی انارکلی لے جا کر دودھ میں مکس کیا ہوا فالودہ کھلاتے تھے۔ الیکشن ہوا اور وہ منتخب ہو گئے۔ پھر حلف اٹھانے کے بعد جس میں ہم لوگوں نے بھی شرکت کی وہ پہلی بار سول سیکرٹریٹ میں اپنا دفتر دیکھنے گئے تو میں اور برادرم اسد اللہ غالب ان کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے ۔ سیکرٹریٹ میں وہ پہلی بار کمرے میں داخل ہوئے تو بڑے اچھے موڈ میں تھے ۔ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے بڑی سادگی اور معصومیت سے کہ کرسی تو اچھی ہے مگر مشکل ہی سے وفا کرتی ہے ۔
دن گزرتے چلے گئے حتیٰ کہ چودھری پرویز الہٰی صاحب کی نواز شریف صاحب سے بغاوت کا زمانہ آ گیا ۔ انہوں نے مجھے اسمبلی میں سپیکر کے کمرے میں بلایا اور کہا میں روزانہ ایک انٹرویو دوں گا اور نواز شریف پر نئے نئے الزامات لگائوں گا، آ پ ایک ایک لفظ چھاپیں گے ۔میں نے خوشنوعلی خان جو چیف رپورٹر تھے سے کہا جناب ہمارے ایڈیٹر میر شکیل الرحمن صاحب سے بات کر لیں شاید وہ چیف منسٹر کے خلاف کچھ چھاپنے کی اجازت نہ دیں۔پروپز الہٰی صاحب نے کہا کہ آپ روزانہ رپورٹر بھیج دیا کرنا آپ کے ایڈیٹر صاحب سے شجاعت صاحب خود بات کر لیں گے ۔ یاد رہے کہ شجاعت صاحب ان دنوں وفاقی وزیر تھے۔ پرویز الہٰی صاحب کے الزامات دو دن ہی چھپے تھے کہ ان کا سلسلہ رک گیا۔ میری معلومات کے مطابق جنرل ضیاء الحق صاحب نے انہیں ڈانٹ پلائی تھی ۔ غالباً جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی بچی کی شادی کے موقع پر ہم بھی شامل تھے کہ محکمہ اطلاعات کا ایک افسر مجھے تلاش کرتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ کو صدر صاحب یاد کر رہے ہیں ۔ جب میں وہاں پہنچا تو صدر ضیاء الحق کے ساتھ نواز شرف بھی کھڑے تھے اور چودھری پرویز الہٰی بھی ۔ صدر صاحب نے کچھ قابل اعتراض الفاظ چھپنے پر مجھے کہا۔ کیا پرویز الہٰی صاحب نے یہ کہا تھا ۔ میں نے کہا جی روزانہ رپورٹر جاتے تھے لیکن اتفاق سے اس روز تو میں بھی اسمبلی ہال میں تھا ۔ ہم عجیب مشکل میں تھے ایک طرف ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے دوسری طرف چودھری شجاعت صاحب وفاقی وزیر اطلاعات بار بار ہمارے اعلیٰ افسران کو فون پر تاکید کر رہے تھے کہ پرویز صاحب کا کوئی لفظ کاٹا نہ جائے ۔ ضیاء الحق صاحب نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ باقی اخبارات والوں کو بھی بلائوں تھوڑی دیر بعد ان کے گرد گھیر ا سا بن گیا ۔ ضیاء الحق نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف صاحب میرے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے پیچھے میں کھڑا ہوں اور صبح اخباروں میں چھاپنا کہ میں نے کہا کہ نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے میں ان کے ساتھ ہوں اور ہمیشہ ساتھ کھڑا رہوں گا ۔ اگلے دن اخبارات کی یہی لیڈ تھی ۔ ’’ نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے : ضیاء الحق ‘‘ ۔
وقتی طور پر صلح ہو گئی لیکن یہ پتا چل گیا کہ نواز شریف صاحب کو جنرل ضیاء اپنا سیاسی وارث قرار دے چکے ہیں۔ وہ ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ ہوتے تھے ۔ بعد کے واقعات نے مزید ثابت کر دیا کہ نواز شریف صاحب نے بھی جونیجو دور میں انہیں چھوڑ کر ضیاء الحق کا کھل کر ساتھ دیا ۔ جنرل ضیاء الحق کے اپنے بیٹے اعجاز الحق کی سیاست میں انٹری باپ کی وفات کے بعد ہوئی۔ یہ دبئی کے کسی بنک میں کام کرتے تھے اور ان کو پاکستان آنے کی اجازت بھی دو چار دن کے لیے ملتی تھی۔ضیاء الحق نے اپنی سیاسی وراثت مکمل طور پر نواز شریف کے سپر د کر دی تھی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں