778

یورپ پر اسلام کے احسانات

ڈاکٹر غلام جیلانی برق:
ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم اسلامی اسکالر تھے، وہ اٹک کے ایک گائوں بسال میں 1901ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1940ء میں پی ایچ ڈی مکمل کی انہوں نے اپنی زندگی میں 40کتابیں لکھیں، وہ تاریخ دان بھی تھے اور ماہر تعلیم بھی ۔ دو قرآن دو اسلام ’رمز ایمان ‘ حرف محرمانہ ، مصجم البدان ‘ امام ابن تیمیہ ‘ میری داستان حیات ، یورپ پر اسلام کے احسانات وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ِ وقت کے بہترین نباض تھے انہوں نے عالم ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اپنا کوئی علیحدہ فرقہ نہیں بنایا بلکہ کسی بھی مستند فرقے سے خود کو الگ رکھ کے صرف اللہ کے فرمان کو یعنی قرآن کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا اور فقط مذہبی رواداری کا درس دیا لیکن کیونکہ بعض فرقہ پرستوں کو ان کا یہ انداز پسند نہیں آیا لہٰذا انہوں نے ان کے پیغام کو عام مسلمانوں تک پہنچنے نہیں دیا اور انہیں مختلف حیلے بہانوں اور القابات سے بدنام کیا ۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق شاید وہ واحد مسلم سکالر تھے جومدارس سے پڑھ کر یونیورسٹی تک پہنچے اور عربی زبان میں عالم ہونے کا گولڈ میڈل حاصل کیا لیکن اپنا ’’پی ایچ ڈی ‘‘ کا تھیس انگریزی زبان میں لکھا جس کی تصدیق آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی شہرہ آفاق یونیورسٹیوں نے کی ۔لیکن صد افسوس کہ ملائوں اور جعلی پیروں نے بڑھ چڑھ کر ان کی مخالفت کی کیونکہ ڈاکٹر صاحب ’’اسلام ‘‘ کو خانقاہوں سے نکال کر عملی میدان میں لائے جانے پر زور دیتے تھے اور سائنسی تعلیم کے حصول پر زور دیتے تھے ان کا پیغام تھا کہ اللہ تعالی محنت اور تحقیق کرنے والوں کو پسند کرتا ہے چاہے وہ ٹام ہو یا عبدالرحمن ، ڈاکٹر صاحب نے شیعہ سنی اختلافات کا حل اپنی ایک چھوٹی سے کتاب ’’بھائی بھائی ‘‘ میں دیا تھا ۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’ یورپ پر اسلام کے احسانات ‘‘ کے مندر جات ’’ایمز انٹرنیشنل ‘‘ میں سلسلہ وار شائع کررہے ہیں جس کی پہلی قسط نذر قارئین ہے۔ ایڈیٹر

حرف ِ تعارف
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
آج مشرق ِ کا نادار ، صید استعمار ، بھولا بھالا اور فریب مغرب کا شکار انسان جاگ اٹھا ہے۔ وہ اپنے ماحول کا جائزہ لے رہا ہے۔ لٹیروں کو گھر سے نکال رہا ہے ۔ اور متاع بردہ کی فہرست بنا رہا ہے ۔ ان لٹے ہوئوں میں مسلمان بھی ہیں ۔ پیشتر اس کے کہ اگر ہوا مسلمان اپنے حریف کے سامنے دوبارہ آئے ، اسے معلوم ہونا چاہیے۔ کہ وہ کون تھا اور دوبارہ کیا بن سکتا ہے ؟مغرب سے ایک شور بلند ہے کہ :
’’ تم کچھ نہیں ہو ۔ تمہارے آباء کچھ نہ تھے تم وہم پرست ہو تمہارا کردار پست ہے ۔ تم بے ہمت ہو۔ تمہاری آب و ہوا خراب ہے ، تمہاری عظمت ایک جھوٹا خواب تھا ۔ تمہارے بادشاہ اوباش، تمہارے عالم جاہل اور تمہارے رہنما ناکارہ اور ٹھگ تھے ۔ اپنے آپ کو پہچانو اور ہماری ذہنی و سیاسی غلامی سے نکلنے کا خیال تک دل میں نہ لائو ۔ تم اسی قابل ہو کہ تماری مائیں ، بہنیں ،بیٹیاں اور بچے تنکہ تنکہ چن کر جانوروں کا چارہ جمع کریں ۔ سر پہ اٹھا کر گھر لائیں اور ڈھوروں کے آگے ڈالیں ۔ تم ہل چلائو ، کپاس چنو ، مٹی کھو دو ، پٹ سن اگائو اور ہمیں ایسے نرخوں پر بھیجو کہ ہم امیر سے امیر ترین بنتے جائیں ۔ اور تمہیں دو وقت کا کھا نابھی نہ مل سکے۔ تماری یہ فولاد بنانے او ر بھاری صنعت لگانے کی سکیمیں جہالت ، جلد بازی اور حماقت کا نتیجہ ہیں ۔ احمق نہ بنو ۔یہ لو دس روپے ، اور اپنا وقت مٹی کھودنے اور فصلوں کو پانی دینے میں صرف کرو‘‘۔

آج مسلمان کا حریف بضد ہے کہ جنگ ِ شرق و غرب کو صحیح و مستند تاریخ وہی ہے جو خود حریف نے لکھی تھی۔یہ ایسا ہی ہے کہ دارا کو قتل کرنے کے بعد سکندر داراکے بیٹے سے کہے۔ کہ تمہارے باپ کو قتل کی صحیح رپورٹ مجھی سے مل سکتی ہے۔ رہے تمہارے مؤرخین ، تو ان کی اطلاعات یا تو اصلاً غلط ہیں اور یا مبالغہ آمیز ، آئو میری لکھی ہوئی تاریخ پڑھو کیونکہ سچائی اور تحقیق صرف میرے پاس ہے۔
آج جن کتابوں کا ایک بے پناہ طوفان مغرب سے اٹھ کر مشرق کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ان میں سے کوئی یہ نہیں بتاتی کہ وہ راجر بیکن جسے انگلستان میں با بائے سائنس سمجھا جاتا ہے عربوں کا شاگرد تھا ۔اور وہ اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا ۔ کہ صحیح علم حاصل کرنا ہے تو عربی پڑھو ۔ مورخین مغرب یونانیوں کو علم کا سر چشمہ بتاتے ہیں ۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کی کتابیں چھ سو برس تک اسکندریہ ، ایتھنز اور قسطنطنیہ میں مقفل پڑی رہیں عربوں نے انہیں نکالا ، عربی میں ترجمہ کیا ، اور یہی تراجم مسلمانوں کے ساتھ یورپ میں پہنچے ۔
یورپ میں سائنس اڑھائی سو برس میں اسحاق نیوٹن سے آئن سٹائین تک جا پہنچی ۔ لیکن عربوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہزار سال تک یونانیوں کا ترجمہ ہی کرتے رہے ۔ اور انہوں نے علوم و فنون میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں کیا ۔ چنانچہ آج کے یہودی و عیسائی مؤرخ اسلامی علوم و فنون کا ذکر نہیں کرتے ۔ اور نہ دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ گلیلیو، کپلر، برونو جیٹررڈ اور راجر بیکن عربوں کے نقال تھے ۔ آ ج کا طالب علم ان اثرات سے نا آشنا ہے جو یورپ پر عربی تہذیب نے ڈالے تھے ۔ یہ اثرات قدم قدم پہ یوں نمایاں ہیں ۔ جیسے ریت میں کندن کے ذرے۔ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ انگریز ی زبان کا MEASURE َْمعیار کا انفلو انزا انزال ُ الانف (ناک بہنا ) کا اور ارتھ ارض کا بگاڑ ہے۔
ہمارے مدارس کے بچوں کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ امریکہ کولمبس نے اور افریقہ لونگ سٹون نے دریافت بلکہ ایجاد کیا تھا۔ زمین و آسمان تبھی پیدا ہوئے جب کسی یورپی نے اشارہ کیا تھا ۔ آسمانی طاقتیں ہمالہ کی ایک چوٹی کو کروڑوں سال سے بنا رہی تھیں۔ لیکن اس کی تکمیل اسی وقت ہوئی جب مسٹر ایورسٹ کی نظر اس پر پڑی ۔ ان بچوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کولمبس نے بحر پیمائی کی تعلیم اسلامی درس گاہوں میں حاصل کی تھی ۔ اس کے پاس رہنمائی کے لیے کمپاس تھا ۔ جو عربوں نے ایجاد کیا تھا ۔ اور افریقہ جانے والوں کے پاس وہ نقشے تھے ۔ جو عرب بحیرہ روم ، بحیرہ قلزم ، بحر ہند اور بحر االکاہل کے سفر میں صدیوں سے استعمال کر رہے تھے ۔
جو قوم اپنی کہانی غیروں کی زبانی سنتی ہے ان کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ وہ غیر کا مقابلہ تو رہا ایک طرف ، اس کے سامنے تک آنے کی جرأت نہیں کر سکتی ، وہ ایسی قوم سے اپنے حقوق کیا لے گی ۔ جس سے وہ اپنا وجود تک تسلیم نہیں کرا سکتی ۔

یہ ہے کشاکشِ حیات کا بنیادی مسئلہ ۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی کتاب لکھے،جس میں اپنے آپ کو اوّل درجے کا اور آپ کو دوسرے درجے کا انسان قرار دے اور پھر اس کتاب کو آپ کے مدارس کا نصاب بنا دے ۔ تو آپ کو بہت جلد یقین آ جائے گا ۔ کہ اللہ نے آپ کو دوسرے درجے کی مخلوق بنایا ہے ۔ اور آپ درجہ ء اوّل کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس بنیادی حقیقت سے سرد جنگ کا فلسفہ شروع ہوتا ہے۔کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے ۔ کہ وہ آپ کے خلاف فوج کشی کرے ۔ اور ظالم و غاصب کہلائے ۔ کیوں نہ وہ اپنا فلسفہ آ پ کے ذہن میں راسخ کر دے ۔تا کہ خون ریزی کے بغیر ہی کائنات میں آپ کا مقام متعین ہو جائے۔ یعنی وہ مرکز ہو اور آپ دائرہ ، وہ اعلیٰ ہو آپ ادنیٰ وہ آقا ہو اور آپ غلام ۔
یہ ہے سرد جنگ ، اس کے ہتھیار ہیں۔ کتابیں ، فلمیں ، ریڈیو ، اخبارات ، رسائل تصاویر اور سب سے زیادہ مؤثر تاریخ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یہ احسان قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی کہ انہوں نے سوسال کی غلامی کے بعد اپنی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا تہیہ کیا اور آ ج ان کی یہ محنت آپ کے سامنے ہے ۔ آپ نے اس کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔ کہ ہمارے جلیل و عظیم اسلاف کے علمی کارنامے کیا تھے ؟وہ کیسے یورپ میں پہنچے، اور وہاں کے وحشیوں کو کس طرح انسان بنایا ۔ ڈاکٹر برق نے عشق کی دبی ہوئی چنگاری کو زور سے پھونک ماری ہے ۔ اور قوم کو پھر منزل کی طرف پکارا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ عیسیٰ نفس استاددیر سے قم باذن ِ اللہ کی صدائیں لگا رہا ہے۔ الحمد اللہ کہ آج قوم جاگ اٹھی ہے اور منزل کی طرف روانہ ہے۔
مجھے یہ کتاب اس لیے بھی عزیز ہے کہ اس میں علامہ برق اور راقم الحروف کی شش سالہ رفاقت کے نشانات ملتے ہیں۔ میں یہاں 1958ء میں آیا تھا ۔ اس وقت سے اب تک اقوام عالم کے فلسفہ عروج و زوال تہذبیوں کے تصادم ۔ نصاب تعلیم کے اثرات ، تاریخ کی اہمیت اور فرنگ کہ دسیسہ کاری پہ لمبی بحثیں ہوئیں ۔ اور یہ کتاب اسی طویل تبادلہ ء خیالات کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کی تصنیف میں سید خالد محمود ڈپٹی کمشنر اٹک کا بھی ہاتھ ہے ۔ سید صاحب نوجوان ہونے کے باوجود مقام ِ خبر سے نکل ِ کر عالم نظرمیں داخل ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے یہاں ایک علمی سوسائٹی بنائی تھی ۔ڈاکٹر صاحب کو فکر معاش سے آزاد کر کے اسلامی علوم کے احیا پر لگا دیا تھا ۔ پچھلے آٹھ ماہ میں ڈاکٹر صاحب کی یہ دوسری تخلیق ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ فاضل مصنف اور سید موصوف ہر دو کو جزائے خیر دے اور قوم کو توفیق دے ۔ کہ وہ اس علمی مجلس کو زندہ رکھے ۔
(اشفاق علی خان )
حرفِ اوّل
آپ نے یہ کہانی سنی ہو گی ۔ کہ ایک گڈریئے کو جنگل میں شیر کا ایک بچہ مل گیا ۔ وہ اسے اٹھالایا ۔ اور بکریوں میں رکھ کر اسے پالنا شروع کر دیا ۔ برسوں گزر گئے اور شیر کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ شیر ہے ۔ وہ بکریوں کی طرح ممیاتا ، گھاس کھاتا اور شام کو باڑے میں آ کر آرام سے سو جاتا ۔ ایک دن وہ ایک جھیل پر جا نکلا ، پانی پینے کے لیے گردن بڑھائی تو اُسے اپنا عکس نظر آیا ۔ معاً اُس کی شیریت جاگ اٹھی اور وہ بکریوں کو چیر پھاڑ کر جنگل میں چلا گیا ۔
صحیح تاریخ جھیل کا وہ شفاف پانی ہے ۔ جس میں قومیں اپنے اصلی خدوخال دیکھتی ہیں ۔ مکار اقوام کا یہ دستور ہے کہ جب کسی قوم پہ سیاسی غلبہ حاصل کر لیتی ہیں تو اس کے ذہنوں کو مسخر کر نے کے لیے اس کی تاریخ بگاڑ دیتی ہیں ۔ وہ اس کے ابنیا کوساحر ، اولیا کوٹھگ ، سلاطین کو اوباش اور علما و حکما کو جاہل لکھتی ہیں۔ ساتھ ہی اپنے بڑے بڑے لٹیروں اور چوروں کوہیرو بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ہم مسلمانا ن ِہندو پاک کو سوبرس تک یہ پڑھایا گیا ، کہ اسلام بزور ِشمشیر پھیلا تھا ۔ غزنوی لٹیرا تھا ۔ اور نگ زیب متعصب اور محمد شاہ رنگیلا تھا ۔ کہ کلائیو ، ڈک ٹرپن اور کپٹن ڈریک جیسے چور انسانیت کے سب سے بڑے محسن تھے ۔ اس قسم کی خرافات آج بھی ان کتابوں میں موجود ہیں، جو پاکستان کے پبلک سکولز میں پڑھائی جا رہی ہیں۔

یورپ میں کائنات کے محسن ِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صدیوںیہ تاثر رہا ۔ کہ وہ ایک بت ہے ۔ جس کی اہل عرب پرستش کرتے تھے ۔ 1697ء میں ناروچِ یونیورسٹی کے ڈِین Predeaux نے حضورؐ پرنور ؐ کے سوانح The Nature of Imposture کے عنوان سے شائع کیئے اس میں حضور ؐ کی ذات اقدس پر نہایت ناپاک حملے کیے ۔ بے اندازہ بہتان تراشے اور جتنی غلاظت اُچھال سکتا تھا ۔ اُچھالی۔ سترھویں صدی کے آغاز میں کیمبرج اور آکسفورڈ نے عربی علوم کے شعبے قائم کیے۔باقی یونیورسٹیوں نے تقلید کی ۔ اور قبل ازاں صدیوں سے ابن رشد، غزالی ، سینا ، رازی اور فارابی کے تراجم اٹلی ، فرانس اور سپین کی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جا رہے تھے ۔ لیکن حضور ؐ کے متعلق ایک بھی کلمہ ء خیر کسی عیسائی کے قلم سے نہیں نکلا تھا۔ 1712ء میں ایڈین ری لینڈ نے جو UTREACHTیونیورسٹی میں عربی کا پروفیسر تھا، اپنی ایک کتاب میں ہمارے متعلق یہ پہلا کلمہء خیر لکھا :
’’ مسلمان اتنے پاگل نہیں جتنا انہیں سمجھا جاتا ہے ‘‘
1734ء میں جارج سیل نے قرآن شریف کا نگریزی ترجمہ نکالا جس میں گالیاں نسبتاً کم تھیں ۔ کار لائل غالباً پہلا عیسائی مصنف ہے۔ جو حضور ؐ کی انقلابی شخصیت سے متاثر ہوا۔اپنی مشہور تصنیف ہیر وز اینڈ ہیر و ورشپ میں ان کے متعلق چند تعریفی کلمات کہے۔ لیکن ساتھ ہی بار بار لکھا کہ :
’’ قرآن ایک غیر مربوط کلام ہے جو کسی دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا ہے ۔ انیسویںصد ی کے آخر اور بیسویں صدی میں ہٹی ، نکلسن اور برائون جیسے قدرے کشادہ ظرف علما سامنے آئے۔ انہوں نے ہماری علمی و ثقافتی خدمات کا تو اعتراف کر لیا ، لیکن ہمارے حضور کے متعلق ان کی روش ِ میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہ آئی ۔
یہ ایک نا قابل ِ انکار حقیقت ہے ۔ کہ اگر عرب نہ ہوتے ۔ تو آج یورپ کا حال افریقہ سے بھی بدتر ہوتا ۔ ہم نے یورپ کے باشندوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا ، نشست و برخاست کے آداب بتائے ، کھانے ، پہننے اور نہانے کا سبق دیا ۔ ان کے ذہنوں کو اوہام و اباطیل کی گرفت سے آزاد کیا ۔ اور ان کی درسگاہوں میں علوم و فنون کے دریا بہائے ۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے ۔ کہ ان کے بیشتر تاریخ نگار یورپ کی ذہنی و ثقافتی تاریخ لکھتے وقت ہمیں کوئی مقام ہی نہیں دیتے ۔ 1922ء میں امریکہ کی اورینٹل سوسائٹی کے ایک اجلاس میں پروفیسر SHMIDTنے ’’ یورپ میں مشرقی علوم ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پڑھا اور مسلمانوں کا نام تک نہ لیا ۔ 1938ء میں ایک امریکی پروفیسر واٹر مین نے ’’مشرقی علوم ‘‘ یہ چھ لکچر دیئے اور اسلامی علوم کا ذکر تک نہ کیا ۔
اسلام کے مشہور مورخ ابو الفدا (1331ء ) نے اپنے سے پہلے ساٹھ جفرافیہ دانوں کے نام لیے تھے ۔ لیکن موسیو Vivien Dest Martin کا کمال دیکھیے کہ اپنی علمی تاریخ میں کسی عرب جغرافیہ دان کا ذکر تک نہیں کیا ۔
کیمبرج مڈیول ہسٹری پانچ ہزار صفحات کوایک مبسوط تاریخ ہے۔ جس میں اسلام کی چودہ سوسالہ سیاسی ، علمی اور ثقافتی تاریخ کو صرف پچیس ورق دیئے گئے ہیں۔ جیمز ہنری رابن سن کی تاریخ مڈیول اینڈ ماڈرن ٹائمز آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے اور مشرق و مغرب کی درسگاہوں میں بطور ِ نصاب رائج ہے لیکن اس میں اسلام کا کوئی ذکر نہیں ، صرف ’’ بدھ راہبوں ‘‘ کے تحت مسلمانوں کا نا م ضمناً لیا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بارود ، قطب نما ، الکحل ، عینک اور دیگر بیسیوں اشیاء کے موجد تھے لیکن :
’’ مؤرخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور ہر انکشاف کا سہرا اس یورپی کے سر باندھ دیا ہے۔ جس نے پہلے پہل اُس کا ذکر کیا تھا ۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلو یو گوجہ کی طرف منسوب کر دی ۔ ولے ناف کے آرنلڈ کو الکحل اور بیکن کو بارود کا موجد بنا دیا ۔ اور یہ بیانات وہ خوفناک جھوٹ ہیں۔جو یورپی تہذیب کے مآخذ کے متعلق بولے گئے ہیں ‘‘
صرف یہی نہیں۔بلکہ بعض اوقات عربوں کی تصانیف پر اپنا نام بطور مصنف جڑ دیا ۔ انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں لفظ ’’ جیبر‘‘(جابر ) کے تحت ایک ایسے مترجم کا نام دیا ہوا ہے جس نے اسلام کے مشہور ماہر کیمیا جابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمہ کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا ۔ یہی حرکت سلر نو کالج کے پر نسپل قسطنطین افریقی (1060ء )نے بھی کی تھی ۔ کہ ابن الجزار (1009) کی زاد المسافر کا لاطینی ترجمہ Viaticumکے عنوان سے کیا ۔اور اس پر اپنا نام بطور ِ مصنف لکھ دیا ۔
وہ کون سا ظلم ہے۔ جو یورپ نے ہم پر نہیں کیا ۔ ہمارے حضور ؐ پرنور کی ذات مقدس پہ حملے کیے ہمیں بد نام کیا ۔ ہماری تاریخ میں تحریف کی ۔ ہماری ساٹھ لاکھ کتابیں جلائیں۔ ہم پر سسلی اور سپین میں وہ مظالم توڑے کہ کائنات کا کلیجہ لرز گیا ۔ ہم سے ہزار برس تک تہذیب و تمدن کا درس لینے کے بعد ہمارے ہی منہ پر تھوکا ۔ اوربقول ِ موسیولبیاں :
’’ہمیں اسلام اور پیروان اسلام سے تعصب وراثت میں ملا ہے ۔ جو اب ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے ۔ ہماری کم بخت تعلیم نے ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی ہے کہ ہمارے تمام علوم و فنون کا ماخذ یونان ہے ۔ اور یورپ کی تہذیب میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہم میں سے بعض کو یہ بات کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہماری ترقی و تہذیب کا باعث ایک کافر ِ قوم تھی ۔‘‘(ملخص )
’’ یورپی مورخ مسلمان کو کافر کتا سمجھتا ہے اور اس کا احسان ماننے کو تیار نہیں۔۔۔ یورپ کے احیائے نو کی تاریخیں برابر لکھی جا رہی ہیں۔ لیکن ان میں عربوں کا ذکر موجود نہیں ۔ اس کی مثال یوں ہے ۔ کہ شہزادہ ڈنمارک کی تاریخ میں ہمیلٹ کا ذکر نہ آئے۔۔۔ ڈاکٹر اوزبرن ٹیلر نے تو کمال ہی ک دیا کہ ’’ قرون ِ وسطیٰ میں ذہنی ارتقا‘‘ پر دو جلدیں لکھیں ۔ اور اسلامی تہذیب کی طرف اشارہ تک نہ کیا ۔ ‘‘ (ملخص)
مفکرین یورپ کو اس بات کا یقین ہے ۔ کہ اگر کوئی تہذیب مغربی تہذیب کو پچھاڑ سکتی ہے۔ تو وہ صرف اسلامی تہذیب ہے ۔ جو علم و اخلاق سے آراستہ اور عشق جیسی توانائی سے مسلح ہے۔مصرو بابل کی تہذیبیں مر چکیں۔ یونان ختم ہو گیا چین کی قدیم تہذیب عصرِ رواں کا ساتھ نہیں دے سکتی اور ہندو تہذیب ادہام و خرافات کا مجموعہ ہے ۔صرف اسلامی تہذیب ہی وہ قوت ہے جو دنیائے انسانی کو تمام آلام سے نجات دلا سکتی اور بھٹکتی ہوئی زندگی کی رہ ِ منزل بتا سکتی ہے ۔ اسلام استعمار ، زر اندوزی ، دھوکہ ، مکرو فریب اور لو ٹ کھسوٹ کو برداشت نہیں کر سکتا ۔اور یورپی تہذیب کی بنیاد ہی میکا ولی کی ابلیسی سیاست ہے۔اس لیے ان دونوں میں تعاون کی کوئی صورت موجود نہیں ۔ یہی وجہ ہے۔ کہ یورپ ہم پر مسلسل ۔ پیہم اور تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔و ہ ہماری تاریخ کومسخ کر رہا ہے۔عریاں فلمیں بھیج کر ہمیں اوباش بنا رہا ہے ۔ اس کے مصور رسائل مثلاً ٹائم ریڈرز ڈائجسٹ لائف ، وومین ، پوسٹ وغیرہ یورپ کے کھوکھلے اقدار کی تبلیغ کر رہے ہیں، ہماری درسگاہوں میں انہی کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں۔وہ ہمارے قابل ِ نوجوانوں کو وظائف دے کر اپنی درسگاہوں میں بلا رہا ہے ، اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنی روایات ، تہذیب ، تاریخ ماضی اور اسلاف سے متنفر ہو کر یورپ کا مداح و نقال بن جائے اور مجھے اعتراف ہے کہ یورپ کے یہ اقدامات نہایت کامیاب رہے۔آج ہمارا نوجوان اپنی تہذیب کے خلاف مجسم بغاوت بن چکا ہے۔یہ بغاوت اس درخت کا پھل ہے ، جو1857ء میں انگریز نے اس سرزمین میں لگایا تھا ۔حاکم اور محکوم دونوں نے مل کر اس کی آبیاری کی ۔اور آج یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔اس میں ہمارے نوجوان کا کوئی قصور نہیں۔حکومت نے کہا کہ قابلیت انگریزی زبان میں مہارت کا نام ہے۔ والدین نے اسے انگریزی رسائل پڑھنے اور انگریزی فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیا ۔ بے عمل اساتذہ نے اسے اسلامی تہذیب سے مزید بدظن کیا ۔ ہمارے ادیب و شاعر نے اسے مے نوشی و عیاشی کا سبق دیا، کلبو ںاور ہوٹلوں نے اسے رقص و قمار بازی کا عادی بنایا ۔ارکان حکومت نے اس کے سامنے غیر اسلامی زندگی کا افسوس ناک نمونہ پیش کیا ۔ جوکسر باقی تھی وہ ان لاتعداد مشیروں اور غیر ملکیوں نے نکال دی ۔ جو ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے پہ مسلط ہیں جو ان خام ان تمام اثرات کا مقابلہ کیسے کر سکتا تھا ۔چنانچہ وہ باغی ہو گیا ۔ لیکن مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
}ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
تقسیم ہند سے پہلے ہمارے نوجوان کو دو مخلص رہنما ملے۔ حکیم مشرق ؒ ، جس نے انہیں منزل کا پتہ دیا اورحضرت قائداعظم جنہوں نے کاروانِ جادہ پیما کی قیادت سنبھالی ۔ بس پھر کیا تھا ۔ جو انان ِ ملت طوفان کی طرح بل کھا کراٹھے ۔ دریائوں کے مہیب دھاروں کی طرح آگے بڑھے اور ہندو فرنگ کی متحدہ طاقت کو روندتے ہوئے آزادی کی منزل تک جا پہنچے ۔ میرے نوجوان کی فطرت میں بڑی صلاحیت ہے۔وہ بڑا نڈر ، وطن پرست ، بہادر اور جانباز واقع ہوا ہے ۔ اگر وہ قائداعظم کے اشارے پہ سردے سکتا ہے ۔ تو رقص و نغمہ کی محفلوں کو بھی برہم کر سکتا ہے۔جس روز اسے یقین ہو گیا کہ قومی بقا کے لیے شراب زہر ہلا ہل ہے اور گناہ سم قاتل ، کہ کائنات کی سب سے بڑی توانائی عشق یعنی اللہ سے رابطہ ء محبت ہے ،اور اللہ سے فرارموت ہے۔کہ قوموں میں استحکام پاکیزگی ء اخلاق ، احترام ِنسواں ، مساواتِ آدم اور بے پناہ علم سے پیدا ہوتا ہے اور اسلام کی عظیم و جلیل تہذیب انہی عناصر کا مجموعہ ہے۔تو وہ اپنی ثقافت کی طرف یوں لوٹ آئے گا ۔
} جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں