398

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒ

دلی نے ان جیسا بادشاہ نہیں دیکھا جس نے دلوں پر حکمرانی کی اور ناخدائوں کو خدا یاد دلایا
نامور ناول نگار خوشونت سنگھ کے شہرہ آفاق ناول ـ’’دلی‘‘ سے اقتباس

نوٹ ـ:
خوشونت سنگھ ہڈیالی ضلع خوشاب میں 1915ء میں پیدا ہوئے ۔گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی ۔لاہور میں وکالت کرتے رہے ،تقسیم کے بعد فارن سروس میں چلے گئے ۔بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بنے اور کئی بڑے اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ان کے دو ناول بہت مشہور ہوئے ـ’’ٹرین ٹو پاکستان ‘‘ اور ـ’’دلی‘‘۔ زیر نظر اقتباس ان کے ناول دلی سے لیا گیا ہے جسے لکھنے میں خوشونت سنگھ نے25 سال صرف کئے۔ ناول اگرچہ فرضی واقعات پر مبنی ہوتے ہیں مگر خوشونت سنگھ نے ا س ناول کے ذریعے دلی کی تاریخ بیان کی ہے جس کے لئے حقیقی واقعات سے استفادہ کیا گیا ہے ۔اس میں ایک باب، ایک ہندو مسدی لال کی زبانی بیان کیا گیا ہے جو خواجہ نظام الدین اولیا ء کے مریدین میں سے ہوتا ہے ۔ خواجہ نظام الدین اولیاء کی حیات و تعلیمات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر جو اسلوب دلی میں بیان کیا گیا ہے وہ شاید ہی کہیں اور بیان میں آیا ہو ۔مکمل باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے تاہم یہاں بعض واقعات کو حذف کر دیا گیا ہے ۔یہ ناول 1990ء میں انگریزی زبان میں چھپا تھا جس کے تراجم اب دنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔( ایڈیٹر )

مُسدّی لال
میں یعنی مسدی لال ولد لالہ چگن لال ، ہندو کا ئیستھ دلی شہر کے علاقے مہر ولی کا رہنے والا ہوں۔ میری ایک آنکھ موتیا بند کی وجہ سے ضائع ہو چکی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ دوسری آنکھ کا بھی یہی انجام ہونے والا ہے۔ ذیل میں میں خود پر بیتنے والے کچھ واقعات درج کر رہا ہوں۔ میں ایشور اور اللہ، رام اور رحیم کو حاضر ناظر جان کر حلفاً کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے، وہ سچ ہے اور میں نے کچھ بھی چھپایا نہیں ہے۔ میں 633ہجری بمطابق 1265عیسوی میں پیدا ہوا۔ اسی سال سلطان غیاث الدین بلبن تخت نشین ہوا۔ میرے آبائو اجداد دلی کے حکمرانوں کی خدمت بجا لاتے رہے تھے۔ انہوں نے راجپوت راجہ اننگ پال کی خدمت کی ، جس نے لال کوٹ بسا یا اور شہر کے درمیان وشنو بھگوان کا آہنی ستون نصب کروایا ۔ انہوں نے راجہ پرتھوی راج چوہان کی بھی خدمت کی ، جس نے شہر کوقلعہ رائے پتھورا کا نام دیا ۔ جب محمد غوری نے راجہ پرتھوی راج کو شکست دے کر قتل کر دیا اور دلی کا حکمران بن گیا تو میرے آبائو اجداد نے ترکی، عربی اور فارسی کا علم حاصل کیااور نئے حکمران کی خدمت کرنے لگے۔ میرے پڑ دادا نے سلطان قطب الدین ایبک کی خدمت کی ۔ اس نے جامعہ مسجد کو اپنی آنکھوں کے سامنے تعمیر ہوتا دیکھا۔ بعد ازاں اس مسجد کو قوت الاسلام کا نام دیا گیا۔ اس نے فتح کے مینار ’’ قطب مینار ‘‘ کو بھی تعمیر ہوتے دیکھا۔ میرے دادا نے قطب الدین کے داماد اور جانشین سلطان التمش کی خدمت کی ۔ میرے دادا نے شمسی تالاب کے لیے مزدوروں کی طرح زمین کھودی اور قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھوئے ۔اس نے 1220ء میں قطب مینار کی تعمیر مکمل ہوتے دیکھی ۔میرے دادا نے شمسی تالاب کے پاس وہ گھر تعمیر کروایا تھا، جس میں میں نے جنم لیا اور اپنی بیشتر زندگی بسر کی ۔ اس نے التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ کی بھی خدمت کی تھی جو ہندوستان پر ساڑھے تین سال تک حکمران رہی تھی ۔ میرا باپ لالہ چگن لال غیاث الدین بلبن کے دور میں مہرولی کی کوتوالی میں محرر تھا۔ اس نے 1265ء سے 1287ء تک ملازمت کی ۔
اپنے کائیستھ آبائو اجداد کی طرح مجھے بھی وقائع نگاری کی تربیت دی گئی تھی۔ ایک پنڈت نے مجھے سنسکرت اور ہندی پڑھائی۔ میرے والد کے اثر رسوخ کی وجہ سے مجھے ایک مدرسے میں داخلہ مل گیا، جہاں میں نے عربی ، ترکی اور فارسی پڑھی۔ پہلے پہل توترک لڑکوں اور نو مسلم ہندوئوں کے بیٹوں نے میرے ساتھ برا سلوک کیا، تاہم جب میں نے ترکی بولنا اور ترکوں کے جیسا لباس پہننا سیکھ لیا تو انہوں نے مجھے تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ مولوی صاحب نے مجھے ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کی خاطر میرا ایک مسلم نام ، عبداللہ ، رکھ دیا ۔ لڑکے مجھے عبدل کہتے تھے۔

میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ میری منگنی متھرا میں رہنے والے سات افراد مشتمل خاندان کی ایک لڑکی سے کر دی گئی۔ جب ہماری شادی ہوئی تو میری عمر صرف نو سال تھی جبکہ میری بیوی رام دلاری کی عمر صرف سات سال تھی ۔
مجھے نہیں علم کہ کیا تھا ، بہر حال کچھ تھا، کہ جس نے مجھے تبدیلی ء مذہب سے روکے رکھا۔ میرا خیال ہے کہ میری بیوی کے والدین نے اسے میرے پاس بھیجنے سے اس وجہ سے انکار کردیا تھا کہ افواہ پھیل چکی تھی کہ میرے والدین نے مسلمانوں والے طور طریقے اپنا ہوئے ہیں۔ اگر میں مسلم ہو جاتا تو وہ کہتے ’’ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ؟ ہم اپنی بیٹی کسی ملیچھ کے حوالے کیسے کر سکتے تھے؟‘‘
مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت مجھے توکبھی سمجھ نہیں آئی ۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو فتح کیا۔ ہمارے دیوتائوں نے ہمیں ان سے کیوں نہیں بچایا؟ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔۔ ایک، دو نہیں سترہ۔ اس نے سومناتھ کا مندر فتح کیا ۔ کہا جاتا تھا کہ سمندر چوبیس گھنٹوں میں دو مرتبہ سومناتھ کے چرن چھونے آتا ہے، لیکن سمندر بھی سومناتھ کو محمود غزنوی سے بچانے نہ آیا۔

مسلمان ہندوستان کے حکمران بن گئے۔ انہوں نے ہم ہندوئوں کو ہماری مرضی کے مطابق جینے کی آزادی دی ۔ تاہم ہندو احمقانہ تفاخر رکھتے تھے ۔ وہ کہتے :’’ یہ ہمارا دیش ہے ۔ ہم ان گائے کا گوشت کھانے والوں کو یہاں سے نکال دیں گے ۔‘‘ وہ اسلام قبول کرلینے والے ہندوئوں کی خصوصاً تذلیل کرتے اور ان کے ساتھ اچھوتوں سے بھی برا سلوک کرتے تھے۔ ہندو ماضی کی شان و شوکت کی یادوں میں جیتے تھے ۔ وہ جب اکٹھے ہوتے تو ماضی کے ہندو حکمرانوں کو یاد کرتے ۔
میں نے اپنے ہندو دوستوں سے سینکڑوں مرتبہ کہا : ’’ ارے بھائی !کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے پُرکھے عظیم نہیں تھے !لیکن ہمیں آج کا بھی تو سوچنا ہے۔ ہم مسلمانوں سے لڑ تونہیں سکتے ،وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں، بہت مضبوط ہیں اور ہم سے زیادہ جنگجو ہیں۔ ہمیں ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے ان کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہیے ۔ ‘‘لیکن ہند و کی کھوپڑی میں عقل نہیں ہوتی ۔ہر شخص جانتا ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں چاروں وید اور دوسرے پلڑے میں عقل سلیم کو رکھا جائے تو عقل سلیم والا پلڑا بھاری ہو گا۔ تاہم ہندو اسے نہیں مانتے ۔ وہ مجھے حقارت سے دیکھتے اور مسلمانوں کا ایجنٹ قرار دیتے ۔ ان کا عظیم ہیرو پرتھوی راج چوہان ، جس نے 1191ء میں ترائین میں غوری کو شکست دی تھی۔ تاہم اگلے ہی سال اسی میدان جنگ میں غوری کے ہاتھوں پرتھوی راج نے شکست کھائی اور مارا گیا۔میرے ہندو دوستوں کے پاس اس کا بھی ایک جواب تھا۔ وہ کہتے تھے : ’’ پرتھوی راج کی واحد غلطی ملیچھ غوری کو شکست دینے کے بعد اسے ہلاک نہ ک کرنا تھا ۔‘‘ پرتھوی راج کے بارے میں حقائق کا علم کسی کو نہیں ہے۔ بس ایک شاعر چاند بردائی نے اس کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی ۔اس کے مطابق عظیم سورما پرتھوی راج نے بے شمار عورتوں کے ساتھ شادیاں کی تھیں۔ اس نے ایک پڑوسی راجہ کی بیٹی کو اغوا بھی کرلیا تھا۔ بہرحال آپ ہندوئوں کے سامنے پرتھوی راج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتے ۔ وہ سری رام چندر جی کے بعد اس کی دیوتائوں کے مانند پوجا کرتے ہیں۔
مجھے اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ میں نہ تو ہندوئوں میں سے ہوں نہ مسلمانوں میں سے ۔ میں اپنی بیوی کو کس طرح سمجھاتا کہ برہمن دیوتائوں کو چڑھائے جانے والے چڑھا ووں پر گزر بسر کرتے ہیں، راجپوت اور جاٹ زمینوں کے مالک ہیں، اہیروں اور گجروں کے پاس مویشی ہوتے ہیں، بنیوں کے پاس دکانیں ہوتی ہیں جبکہ بے چارے کائیستھوں کے پاس صرف دماغ اور سر کنڈے کی قلمیں ہوتی ہیں اور صرف حکمران ہی، جو کہ مسلمان ہیں، ان کے دماغوں اور قلموں کی قیمت ادا کر سکتے ہیں !
ہندوئوں نے مجھے قبول نہیں کیا او ر میری بیوی نے مجھے دھتکار دیا ۔ مسلمانوں نے میری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا، حالانکہ وہ بھی میری صحبت کو ناپسند کرتے تھے ۔درحقیقت میری حالت کسی ہیجڑے جیسی تھی ، جو نہ تو یہ ہوتا ہے ، نہ وہ لیکن ہر کوئی اس کے ساتھ بدسلوکی کرسکتا ہے۔

پھر میں نے نظام الدین ؒ کے بارے میں سنا ۔ لوگوں نے کہا: ’’ دریائے جمنا کے کنارے خیاث پور کے درویش کے پاس جائو ۔ تماری ساری مشکلات حل ہو جائیں گی ۔‘‘ لوگ انھیں خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کہتے تھے ۔ بعض فاضل مسلمان ان پرانگشت نمائی بھی کرتے تھے ۔ میں نے ایک اچھے کائیستھ کی طرح اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا اور خاموشی سے انتظار کرتا رہا کہ دیکھئے کیا ہو ۔
آخر سلطان نے نظام الدین اولیاؒ کو بلا بھیجا کہ وہ خود پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیں۔جس دن اس مقدمے کی کارروائی ہونا تھی ، میں نے نوکری سے رخصت لی اور محل چلا گیا۔
غیاث الدین بلبن کا دبدبہ ایسا تھا کہ اس کا نام سنتے ہی لوگوں کے پیشاب خطا ہو جاتے تھے۔ وہ بڑے خوفناک مزاج کا مالک تھا اور مشہور تھا کہ اگر کوئی اس کی جانب آنکھ اُٹھا کر دیکھ لے تو وہ اسے ہلاک کر وا دیتا ہے ۔دو حبشی ہمیشہ اس کے پیچھے کھڑے رہتے تھے۔ سلطان جسے سزائے موت دیتا ، وہ اس کا سرکاٹ دیتے تھے۔
کیا نظارہ تھا وہ بھی !سلطان تخت پر بیٹھا تھا ، اس کے دائیں بائیں حبشی محافظ تلواریں تانے کھڑے تھے۔داڑھیوں والے سینکڑوں ترک جرنیل بھی موجود تھے۔ تخت کے ایک طرف پانچ علما عمدہ ریشمی ملبوسات پہنے کھڑے تھے ۔ ان کے سامنے ایک نوجوان کھڑا تھا، جس کی عمر تقریباً میرے برابر تھی۔ اس نے کالی اون کی کھردری لمبی قمیض پہنی ہوئی تھی اور سر پر سبز رومال باندھا ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ اس کے تین مرید بھی تھے، جن کے لباس اس کے لباس کی طرح سادہ تھے۔ وہ غیاث پور کے درویش نظام الدین ؒ تھے۔
سلطان پہلے نظام الدین ؒ سے مخاطب ہوا : ’’ درویش !علما ء نے شکایت کی کہ ہے کہ تم مسلمانوں اور کافروں میں فرق روا نہیں رکھتے ہو، تم خود کو خدا اور انسان کے مابین وسیلہ قرار دیتے ہو، تم ایسے لفظ استعمال کرتے ہو کہ انسان اور اس کے بنانے والے میں فرق مٹ جاتاہے، تمہارے مرید مسجد کے احاطے میں رقص و موسیقی میں غلطاں رہتے ہیں۔ چنانچہ تم شریعت کی خلاف ورزی کر رہے ہو ۔ تم اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہتے ہو ؟‘‘
نظام الدین ؒ نے مسکرا کر جواب دیا : ’’ سلطان ِ معظم !یہ سچ ہے کہ میں مسلمانوں اور ہندوئوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا کیونکہ میں دونوں کو خدا کی مخلوق تصور کرتا ہوں۔علما آپ سے کہتے ہیں کہ کافروں کو ہلاک کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ اللہ کو خوش کرنے کا بہترین طریقہ اس کی مخلوق سے محبت کرنا ہے۔ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ میں خود کو انسان اور اس کے بنانے والے کے مابین وسیلہ قرار دیتا ہوں تو عرض یہ ہے کہ ہم صوفی اس اصول پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیں کہ جس کا شیخ نہیں ہوتا، وہ دین سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ علما کو علم نہیں کہ اللہ کو کتابی علم یا منطق کے ذریعے جانا نہیں جا سکتا ہے۔ ‘‘
سلطان نے علماء کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا یا ۔ ان کے سربراہ نے جھک کر تخت کے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور بولا : ’’ جہاں پناہ !آپ تمام بادشاہوں سے زیادہ دانا اور انصاف پسند ہیں۔ آپ کو ضرورت نہیں کہ ہمارے جیسے حقیر لوگ آپ کے سامنے مقدس قانون کی توضیح کریں ۔ جہاں پناہ ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ شخص نظام الدین سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے محبت کی بات کرتا ہے ۔‘‘
سارا مجمع بولا : ’’وہ ، واہ ، سبحان اللہ !‘‘
سلطان نے درویش کی طرف رخ کیا اور اس سے پوچھا کہ خدا سے اتصال کے دعوے کی وضاحت کرے۔نظام الدین ؒ نے بڑے شاعرانہ انداز میں جواب دیا ، ’’ اے سلطان !اے قانون کے جاننے والے عالمو!اور اے یہاں موجود لوگو !کیا تم محبت کرنا اور محبوب ہونا جانتے ہو؟ شاید آپ سب عورتوں کی محبت سے آشنا ہیں اور اسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ہم صوفی لوگ صرف اور صرف خد ا سے محبت کرتے ہیں ۔ جب ہم پر الوہی روح حاوی ہوتی ہے تو ہم ایسے الفاظ بولتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کو خدائی کا دعویٰ لگتے ہیں۔ تاہم ایسے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چائیے۔ ـ‘‘
لوگ واہ واہ کرنے لگے۔
سلطان نے علما سے موسیقی کے حوالے سے سند مانگی ۔ علما نے ایک کتاب کھولی (وہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری کتابیں لائے ہوئے تھے )۔ان کے سربراہ نے عر بی میں کچھ پڑھا اور پھر ترکی میں اس کا ترجمہ کیا ۔ اس نے پیچھے مڑ کر مجمعے کو دیکھا ، کچھ لوگوں نے واہ واہ کی ۔

سلطان نے پھر نظام الدین ؒ کی طرف رخ کیا۔ درویش کوئی کتاب نہیں لایا تھا۔ اس نے اپنی یادداشت سے رقص اور موسیقی کے حوالے سے ایک حدیث کا حوالہ دیا ۔
سلطان نے اس معاملے پر کچھ دیر غور کیا۔ اس نے انگلیاں ڈاڑھی میں پھیر یں اور ہاتھ میں آنے والے بالوں کو جھاڑا ۔ خاموشی خوفناک ہو گئی ۔ آخر اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور واضح بلند آواز میں بولا: ’’ہم غیاث پور کے درویش نظام الدین ؒ کو علما کے لگائے ہوئے الزامات سے بری قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘
سارا مجمع سلطان کی انصاف پسندی کی داد دینے لگا ۔ بہت سے لوگ درویش کی طرف بڑھے اور اس کی کھر دری اونی قمیض کا دامن چومنے لگے۔
اگلی صبح میں نے کوتوال صاحب سے نظام الدین کے بارے میں پوچھا ۔ انھوں نے کہا : ’’ وہ بے شمار کافروں کو سیدھے راستے پر لے آئے ہیں۔ کسی جمعرات یا چاند کی پہلی تاریخ کو ان کے پاس جائو اور دیکھو کہ وہ کیا معجزے دکھاتے ہیں ۔ ‘‘
اگلی جمعرات میں نے ایک تانگا لیا اور مہر ولی سے ایک کوس دور واقع غیاث پور روانہ ہو گیا ۔ میں نے درگاہ پہنچ کر وہاں موجود خادم سے پوچھا کہ کیا میں خواجہ نظام ِ الدین ؒ سے مل سکتا ہوں۔ اس نے بتایا : ’’ وہ اپنی کوٹھڑی میں مراقبہ کر رہے ہیں۔ وہ صرف شام کے وقت لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ آپ لنگر خانے جا کر کھانا کھا لیں ۔‘‘
میں لنگر خانے چلا گیا۔ وہاں بے شمار ہندو ، مسلمان، امیرو غریب دال روٹی کے لیے موجود تھے ۔ مجھے ایک چپاتی حاصل کرنے کے لیے ایک بڑے ہجوم سے گزرنا پڑا۔ میں باہر آ کر صحن میں بیٹھ گیا جہاں قوالوں کی ایک ٹولی ہندی میں گا رہی تھی ۔ کسی نے مجھے بتایا کہ یہ گیت خواجہ نظام الدین ؒ کے مقرب خاص ابوالحسن نے لکھا ہے اور اس کی دھن بھی انہی نے بنائی ہے ۔
سہ پہر کو دیر گئے پتا چلا کہ درویش اپنی کوٹھڑی سے باہر آ چکے ہیں ۔ لوگ ان کے گردیوں جمع تھے جیسے مٹھائی کے گرد مکھیاں ۔ میں ہجوم میں سے راستہ بناتا آگے گیا اور ان تک پہنچ کر ان کی قمیض کے دامن کو بوسہ دیا ۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ درویش نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ایک لہر سی دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسے مشک کی خوشبو میرے ہر طرف پھیل گئی ہو ۔ انہوں نے میرا آنسوئوں بھرا چہرہ اوپر کیا اور بولے : ’’جس طرح اللہ نے تمہارے آنسو میرے دامن میں بھر دئیے ہیں ، اُسی طرح وہ تمہارے غم مجھے دے دے ۔ ‘‘ ان کے یہ لفظ سنتے ہی مجھے اپنا آپ بے حد ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔
وہ بو لے : ’’ عبداللہ !میرے فرزند !تم تو حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار کے نزدیک رہتے ہو۔ ہر صبح وہاںجا کر اللہ کے ننانوے ناموں کا ورد کیا کرو۔ تمہاری ہر خواہش پوری ہو جائے گی ۔ جب کبھی تمہارا دل بوجھل ہو تو یہاں آجایا کرو۔ ہمارے غریب خانے کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں ۔ ‘‘
میں نے مہر ولی واپس جاتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھا : انھیں کس طرح پتا چلا کہ میں بختیار کاکی ؒ کے مزار کے قریب رہتا ہوں ؟انہیں کس طرح پتا چلا کہ میرے مسلم دوست مجھے عبداللہ کہتے ہیں؟اگر انہیں میرے ہندو ہونے کا علم کیوں نہیں اور انہیں یہ کیوں نہیں علم کہ ہو سکتا ہے مجھے اللہ کے ننانوے ناموں کی جانکاری نہ ہو ؟‘‘
میں خود پر ضبط نہ کر سکا۔ چونکہ ایسا کوئی نہیں تھا، جس کے سامنے میں دل کا بوجھ ہلکا کر سکتا اس لیے میں نے جو گزرا تھا اپنی بیوی کو سب سنا دیا ۔ جب میں اپنی رام کہانی سنا چکا تو اس نے ڈرتے ڈرتے کہا : ’’ آپ کسی روز مجھے وہاں کیوں نہیں لے چلتے ؟ ‘‘ میں اتنا پر جوش ہو گیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کا ہاتھ میری گرفت میں ڈھیلا پڑ گیا۔
اسلامی قمری تقویم کے مطابق نئے مہینے کی پہلی تاریخ کو میں رام دلاری کو غیاث پور لے گیا۔کچی سڑک پر ہمارے تانگے کے علاوہ بے شمار تانگے رواں تھے۔ ہم عورتوں اور بچوں سے بھری بیل گاڑیوں کے پاس سے گزرے جبکہ مرد جوتے لاٹھیوں سے لٹکائے ننگے پائوں ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے ۔
وہاں بہت ہجوم تھا۔ چوڑیاں ، مٹھائیاں ، کپڑے اور ادویات بیچنے والوں نے بازار لگایا ہواتھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ رام دلاری خواجہ صاحب کا درشن نہیں کر سکے گی ۔میں اسے لنگر خانے نہیں لے گیا کیونکہ وہ مسلمانوں کی پکائی ہوئی کسی شے کو نہیں چھوتی تھی ۔ ہم نے کھوکھوں کے گرد چکر لگایا ، رقاصوں اور کرتب بازوں کو اور ناچنے والے ریچھ اور بندروں کو دیکھا۔ ہم ایک درخت تلے بیٹھ گئے۔مجھ پر مایوسی طاری ہونے لگی تھی۔ سورج غروب ہونے میں ایک گھنٹہ رہ گیا تھا۔ تانگے والا اصرار کر رہا تھا کہ اندھیرا چھانے سے پہلے مہر ولی واپس چلیں۔ میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ ایک درویش آیا اور مجھ سے بولا : ’’ کیا تمہارا نام عبدل یا عبداللہ ہے ؟ خواجہ صاحب تمہیں بلا رہے ہیں ؟ وہ ہمیں مسجد کے عقب میں واقع ایک دروازے سے ایک صحن میں لے گیا ، جہاں خواجہ صاحب لوگوں کو شرف ملاقات بخش رہے تھے ۔ درویش ہمیں اپنے پیچھے پیچھے ہجوم سے گزار کر آگے لے گیا۔
میں نے خواجہ صاحب کی قمیض کے دامن کو بوسہ دیا۔ رام دلاری ان کے سامنے جھک گئی ۔ خواجہ صاحب نے ہاتھ پھیلا کر اسے دعا دی : ’’ بیٹی !اللہ تمہارے من کی مراد پوری کرے۔ اگر اس نے چاہا تو تمہاری کوکھ ہری ہو جائے گی۔ جائو سکون سے رہو ۔‘‘
کوکھ ہری ہو جائے گی ؟ کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب لوگوں کے ذہن پڑھ لیتے ہیں ، تو کیا انہوں نے رام دلاری کا ذہن نہیں پڑھا ؟ رام دلاری نے جس طرح منہ پھیرا تھا ، میں بتا سکتا تھا کہ وہ شرمندہ تھی ۔
رام دلاری اور میں اس برادری میں شامل ہو گئے تھے ، جو ہند ئووں کے مندروں میں پوجا کرتی اور صوفیا کی درگاہوں پر حاضری دیتی تھی ۔ ہم ہندوئوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تہووار بھی مناتے تھے ۔ دسہرے پر ہم رام لیلا دیکھنے جاتے ، دیوالی پر اپنے گھر کی منڈیروں پر دیے جلاتے اور ہولی پر اپنے ہندو دوستوں پر رنگ اچھالتے ۔ عید پر ہم اپنے مسلمان شنا سائوں کو تحفے دیتے اور مسلم صوفیا کے عرسوں میں شرکت کرتے مہینے میں کم ازکم ایک مرتبہ ہم غیاث پور جاتے۔
مریدوں کے لیے کیا معنویت ہوتی ہے ۔ وہ ان کے لیے ماں باپ سے سوا ہوتے ہیں ۔ چیلا اپنے گرو کی اطاعت اور احترام اپنے باپ سے زیادہ کرتا ہے۔ وہ اپنی ماں سے زیادہ اپنے گرو سے وابستہ ہوتا ہے ، وہ گرو کی چھاتی سے محبت کا دودھ پیتا ہے اور اس کی گود میں یوں ہمکتا ہے جیسے بچہ ماں کی گود میں ہمکتا ہے ۔ جتنا پیار دلہا دلہن سے کرتا ہے درحقیقت چیلا گرو کو اس سے زیادہ پیار کرتا ہے ، کیونکہ وہ اسے اپنا تن، من اور دھن سب کچھ سونپ دیتا ہے ۔ گرو زمین پر بھگوان کی تجسیم ہوتا ہے ۔ گرو دور ہو جائے تو کیا ہوتا ہے ؟یہ ہم پر خوب واضح ہو گیا ۔ ہوا یہ کہ خواجہ صاحب پنجاب چلے گئے ۔ دلی کے تمام چھوٹے چھوٹے قصبوں کا حال اس عورت جیسا ہو گیا جس کا خاوند پردیس چلا گیا ہو ۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی ۔ ایک کے بعد دوسری مصیبت نازل ہونے لگی۔
سلطان غیاث الدین بلبن کا سب سے بڑا بیٹا شہزادہ محمد مغلوں سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ہندوستان پر بائیس سال سے آہنی ہاتھ سے حکومت کرنے والا عظیم سلطان عورتوں کی طرح رویا ۔ اس نے کھانا پینا اور سلطنت کے امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا۔ وہ بیمار ہو گیا لیکن اس نے شاہی طبیب کو اپنی نبض نہ دیکھنے دی ۔ چند ہی دنوں میں وہ ڈھانچہ بن کر رہ گیا اور بالآخر فوت ہو گیا۔
ہماری دعائیں رنگ لائیں ۔ ایک صبح پنجاب سے آنے والے ایک درویش نے ہمیں اطلاع دی کہ خواجہ صاحب ؒ مہرولی سے صرف دو دن کے فاصلے پر ہیں ۔ اسی سہ پہر قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر شہریوں کا احتجاع ہوا ، جس میں خواجہ صاحب ؒ کے شا یان ِ شان خیر مقدم کے انتظامات کئے گئے۔
جب وہ عظیم دن آیا تو سینکڑوں شہری خواجہ صاحب ؒ کے خیر مقدم کے لئے شہر کے دروازوں سے باہر چلے گئے ۔
خواجہ صاحب ؒ کا رنگ زرد تھا اور وہ تھکے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں تھا ، کیونکہ انہوں نے گرم کچی سڑکوں پر سینکڑوں کوس سفر ننگے پائوں کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے دامن کو چومنے یا پیروں کو چھونے والوں کو مسکراہٹ اور دعا سے نوازا ۔ انہیں ہجوم سے بچانے کے لئے دریشوں کو ان کے گرد حلقہ بنانا پڑا۔
بازاروں کو خوش آمدید کے بینروں سے سجایا گیا تھا ۔ عورتوں نے چھتوں پر سے ان پر گلابوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔ ایک بہت بڑا جلوس ، جس کے آگے آگے قوالوں کی ٹولیاں تھیں ، مہر ولی کے مرکز ی بازار سے گزرتے ہوئے قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر پہنچا ۔ خواجہ صاحب ؒ نے درخواست کی کہ انہیں خلوت دی جائے ۔ انہوں نے اولیاء مسجد کی زیر زمین کوٹھڑیوں میں سے ایک میں جا کر اندر سے دروازے کی کنڈی چڑھا دی ۔
رات کو ہم نے بادلوں کی گڑگڑاہٹ سنی ۔ مہرولی میں مون سون کے موسم میں بارش کا ایک قطرہ نہیں برسا تھا، اب وہاں خزاں کے موسم میں چھا جوں مینہ برسا۔ یقین نہ کرنے والوں کے منہ میں خاک !
میں اگلی جمعرات کمل اور رام دلاری کو خواجہ صاحب ؒ کے درشن کروانے لے گیا۔ میں نے غیاث پور میں اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا تھا۔ موسم بہت گرم تھا۔میرا حلق پیاس سے سوکھ گیا تھا۔خواجہ صاحب ؒ کی باتیں انتہائی رسیلی تھیں ۔ آپ نے فرمایا !’’ خدا ایک ہی ہے ، حالانکہ ہم اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ اس تک پہنچنے کے لاتعداد راستے ہیں ۔ ہر شخص کو اپنے خیال کے مطابق بہترین راستے پر چلنے دو۔ تم جو راستہ چنتے ہو، وہ اہم نہیں ہوتا ، اہمیت اس امر کی ہے کہ تم اس پر کس انداز سے چلتے ہو ۔ اگر تمہارے دل میں محبت نہیں ہے تو بہترین راستہ بھی تمہیں دھوکے کی بھول بھلیاں میں لے جائے گا ۔ ‘‘
آپ نے حضرت موسیٰ ؑ کا ایک واقعہ سنایا ۔ حضرت موسی ٰ ؑ نے ایک موڑھے چرواہے کو دعا مانگتے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا : ’’ اے خدا !تو کہاں ہے ؟ آ میں تیری خدمت کروں ۔تیرے جوتے صاف کروں، تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تجھے اپنی بکریوں کا دودھ پلائوں ۔ ‘‘ حضرت موسی ٰ ؑ نے چرواہے کو خدا سے اس انداز سے بات کرنے پر ڈانٹا ۔ حب حضرت موسیٰؑ خدا سے ملنے گئے تو خدا نے کہا ’’ موسیٰؑ !تم نے میرے ایک سچے بندے کو دھتکارا ہے ۔ ‘‘
اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کو سچے مذہب کا جوہر بیان کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ’’ میں بیمار تھا، تم میری عیادت کو نہیں آئے ۔ میں بھوکا تھا ، تم نے مجھے کھانا نہیں دیا ۔ ‘‘
حضرت موسیٰؑ نے پوچھا : ’’ اے اللہ !کیا آپ بھی بیمار اور بھوکے ہو سکتے ہیں ؟‘‘ اللہ نے جواب دیا : ’’ میراں فلاں بندہ بیمار اور فلاں بندہ بھوکا تھا ۔ اگر تم ایک کی عیادت کرتے اور دوسرے کھانا کھلاتے تو تم مجھے ان کے ساتھ پاتے ۔‘‘
خواجہ صاحب ؒ نے ہمیں صوفیانہ سوال جواب کے ذریعے تعلیم دی :
سب سے زیادہ عقل مند انسان کون ہے ؟
جو دنیا کو رد کر دیتا ہے۔
سب سے بڑا ولی کون ہے ؟
جو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا ۔
سب سے امیر انسان کون ہے ؟
جو قناعت پسند ہوتا ہے ۔
سب سے زیادہ ضرورت مند کون ہے؟
جو قناعت نہیں کرتا ۔
قناعت کیسے کی جائے ؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا ۔ خواجہ صاحب ؒ نے یہ سوال سن لیا ، جو کہ میں نے دل ہی دل میں پوچھا تھا۔ انہوں نے فرمایا : ’’ اپنی خواہشات کو کم سے کم کر دو ، اپنے نفس کو تسخیر کرو۔ ‘‘
ہم باہر آئے تو سورج درگاہ کی دیواروں کے پیچھے چھپ چکا تھا۔ کمل میری گرد میں سو گیا تھا ۔ تانگے والے مہر ولی واپس جانے کے لئے صدائیں لگا رہے تھے ۔
وہ وقت خطرناک تھا۔ ہمیں جاٹوں اور گجروں کی بستیوں سے گزرنا تھا، جو کہ بدنام ڈاکو تھے ۔ ہم نے دس بارہ تانگوں کو اکٹھا کر لیا اور دونوں طرف دو درجن مرد تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہوکر چلنے لگے۔ ہم بخیریت مہر ولی پہنچ گئے۔
سکندر ِ ثانی کا خطاب اپنانے ، دلی کو اپنا دارالخلافہ قرار دینے ، ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ہونے والے منگولوں کو موت کے گھاٹ اتار نے ، ایک نیا شہر بسانے اور حوض ِ علاقی کے پاس ایک بہت بڑا مدرسہ قائم کرنے اور قطب مینار سے دگنا اونچا مینار تعمیر کروانے کا منصوبہ بنانے والا سلطان علائو الدین خلجی بھی ہمارے خواجہ صاحب ؒ کے سامنے آنکھ اٹھانے کی جرــات نہیں رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے غیاث پور کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو خواجہ صاحب نے فرمایا: ’’ بادشاہوں سے ہمیں کیا سروکار ؟ اگر سلطان ہماری درگاہ میں ایک دروازے سے داخل ہو گا تو ہم دوسرے دروازے سے نکل جائیں گے۔‘‘
میں ایک روز کوتوالی میں اپنے خواجہ صاحب ؒ کی ستائش کر رہا تھا کہ ایک بد گومنشی نے اونچی آواز میں کہا : ’’ اجی !آپ کے بھی کیا کہنے ، ایک طرف آپ مسدی لال کائیستھ ہیں، دوسری طرف شیخ عبداللہ ۔ کچھ لوگوں کو آپ رام رام کہتے ہیں اور کچھ کو سلام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ آپ کعبہ کی طرف جھکتے ہیں او ر ہندو کے ساتھ شیو کو چومتے ہیں۔ کوتوال میں درباری ہیں، خانقاہ میں درویش ۔ ایک پائوں خانقاہ میں ہے اور دوسرا چار پائی پر۔ آپ دونوں دنیائوں کے مزے لوٹتے ہیں۔ واہ بھئی !آپ کی جتنی تعریف کی جائے ،کم ہے ۔‘‘
میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کوتوالی واپس نہیں گیا ۔ میں صحن میں چارپائی پر لیٹ کر خاکستری آسمان کو تکتے ہوئے منشی کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ اگر میرا بس چلتا تو میں اس شخص کو بازار میں لے جا کر ننگا کر دیتا اور ہرشہری کو اس کے مقعد میں تھوکنے کا حکم دیتا ۔
رام دلادی نے میرے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا : ’’ کیا بات ہے ؟‘‘
’’ کچھ نہیں۔ ‘‘
’’ آپ کے چہرے پر لکھاہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے ۔ کیا آپ مجھے بھی نہیں بتا سکتے ؟ ‘‘
میں نے اسے سارا واقعہ سنایا ۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی ۔ میں واقعہ سنا چکا تو وہ دیوار کو تکنے لگی، میں آسمان کو تکنے لگا۔ میں نے اسے بتایا : ’’ ہمارے جیسے لوگ اوربہت سے ہیں ۔ شاعر ابو الحسن ہے، جو خود کو سلطانی اور امیر خسرو کہلاتا ہے ۔ اس کا باپ مسلمان تھا اور ماں ہندو ۔ وہ ہندوئوں کے لئے ہندی میں لکھتا ہے ، مسلمانوں کے لئے فارسی میں ۔ وہ سلطان اور خواجہ صاحب ؒ دونوں کا قصیدہ گو ہے اور دونوں ہی کا پسندیدہ شخص ہے ۔ کوئی اسے برا نہیں کہتا ۔ فقط ہم بیچاروں پرہندو مسلمان دونوں تھوکتے ہیں ۔ وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے ہیں، جیسے ہم ہیجڑے ہوں ۔ ‘‘
ہم اپنے مہر ولی والے گھر کی نسبت زیادہ وقت خواجہ صاحب ؒ کی غیاث پور والی خانقاہ میں گزارنے لگے۔ پھر ہم نے غیاث پور میں کمرے کرائے پر لے کر وہیں رہنا شروع کر دیا ۔ ہم مہینے میں ایک مرتبہ اپنے بیٹے اور بہو سے ملنے مہر ولی جاتے تھے ۔ کمل ہر جمعرات اپنی بیوی کے ساتھ ہمیں ملنے آتا تھا۔
ہم خواجہ صاحب ؒ کو روز دیکھتے تھے ۔ خسرو اب وہاں پہلے سے زیادہ وقت گزارنے لگا تھا ۔ وقت نے اس سے اس کا طنطنہ چھین لیا تھا ۔ وہ میرا دوست بن گیا اور ر ام دلاری کو بھابھی کہنے لگا ۔ ہم ایک دوسرے کے گھر اکثر آنے جانے لگے۔
انسان بڑھاپے میں اور کیا مانگ سکتا ہے ؟ شانتی، عبادت، تحفظ ، دوست ۔ سب کچھ ایک برگد کے گھنے درخت کے سائے تلے موجود تھا ۔۔۔ اور ہمارے خواجہ صاحبؒ محبو ب ِ الہٰی و محبوب ِ آدم!ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے الگ تھے ۔ ہم ایسے لوگوں جیسے تھے ، جوکچھ خریدنے کی خواہش کئے بغیر بازار میں گھومتے پھرتے ہیں۔
دنیا ہمارے محدود جہان میںشاذ ہی داخل ہوتی تھی۔ ایسا ایک موقعہ علائو الدین خلجی کی موت تھی ۔پہلے پہل ہم نے سنا کہ وہ نیند میں ہی موت کی آغوش میں چلا گیا ہے اور امرا کی جانب سے اس کے جانشین کے چنائو تک ملک کا فور حکمرانی کرے گا ۔ ملک کا فور غلام تھا ، جسے مرحوم سلطان نے سپہ سالار کے عہدے پر ترقی دے دی تھی ۔ پھر ہم نے سنا کہ ملک کا فورنے اپنے آقا کی بیوہ سے شادی کر لی ہے، دو شہزادوں کی آنکھیں نکلوا دی ہیں اور باقی کو قتل کروا دیا ہے۔ خواجہ صاحب ؒ نے ، جو کہ سلطانوں کے آنے جانے کی شاذ ہی پروا کرتے تھے ، کانوں پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا : ’’ توبہ !‘‘ حد تو یہ ہے کہ امیر خسرو نے بھی ملک کا فور کی ہجو لکھی اور غیاث پور میں ایک اجتماع میں سنائی ۔ ہم جانتے تھے کہ ہمارے خواجہ صاحبؒ جس شخص کے خلاف کچھ کہتے ہیں، اسے سزا یقینا ملتی ہے ۔ پس ایسا ہی ہوا ۔ محل کے خدام ملک کا فور کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوںنے اپنے خنجروں کی پیاس اس کے گندے خون سے بجھائی ۔
نیا سلطان قطب الدین مبارک شاہ تھا۔ وہ ہمارے خواجہ صاحب کو پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس کے حاشیہ برداروں نے اس کے سینے میں سلگتے نفرت کے شعلوں کوہوا دے کر الائو بنا دیا ۔ انہو ں نے کہا : ’’ نظام الدین ‘‘ کہتا ہے آ پ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتے ۔ وہ رعایا کی نگاہوں میں آپ کی شان کم کرنے کے لئے شاہی احکامات کی تعمیل سے روگردانی کرتاہے۔(ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ خواجہ صاحب ؒ مسجد ِ قوت الاسلام میں جمعے کی نماز نہیں پڑھتے تھے )۔ وہ حضور ِ والا اور خسرو خان کے بارے میں افواہیں پھیلاتا ہے۔ ‘‘
یہ خسرو خان کون تھا ؟ وہ ایک ہندو پوار لڑکا تھا ، جسے گجرات سے ایک مہم کے دوران پکڑا گیا تھا ۔ گجرات کے مرد نسوانی حسن رکھتے تھے ، اور گجراتیوں میں پوار انتہائی خوب صوب اور انتہائی نسائیت کے حامل ہوتے تھے۔ میں نے کبھی اسے دیکھا نہیں تھا لیکن سنا تھا کہ اس کا رنگ صاف، آنکھیں ہرنی جیسی، ابرو کمانوں جیسے اور کولھے عورتوں کی طرح بڑے بڑے ہیں۔ سلطان جوعورت پرستی کے حوالے سے مشہور تھا، اپنے حرم میں موجود ہندو ستان ، ایران اور ترکستان کی حسینائوں سے نفور ہو کر گجرات کے اس لڑکے کی محبت میں مبتلا ہو گیا۔لڑکا ہونٹوں کو رنگین کئے اور سیاہ آنکھوں میں سرمہ لگائے اس کے پاس رہتا ۔ وہ ایک ہی ساغر سے شراب پیتے ۔ مسلمان اس معاملے پرہندوئوں سے زیادہ مضطرب تھے ۔ سلطان نے سوچا کہ مسلمان شاید اس لئے ناخوش ہیں کہ اس کا محبوب ہندو ہے۔ اس نے لڑکے کومسلمان ہونے کا حکم دیا اور اس کا نام خسرو خان رکھ دیا۔ بازاروں میں گجراتی گھوڑے اور ترکی گھوڑی کے قصے عام سنے جا سکتے تھے ۔ یہ قصے سلطان کے کانوں تک بھی پہنچ گئے۔ خواجہ صاحب ؒ سے نفرت کرنے و الے علما نے سلطان سے کہا کہ اس کے اور خسرو خان کے حوالے سے سارے گندے قصے قیاث پور کی خانقاہ سے پھیلائے جا رہے ہیں۔
سلطان نے ان کی بات پر یقین کرلیا۔ اس نے خانقاہ کو اشیائے ضرورت کی فراہمی روک دی ۔ لوگوں کی آمدورفت پر نظر رکھنے کے لئے غیاث پور میں ایک پولیس چوکی بنا دی گئی ۔ خدا کے کام نرالے ہوتے ہیں !ہمارے خواجہ صاحب ؒ نے ، جو کہ سلطانوں کے سلطان تھے ، کاغذ کی ایک پرچی پر صرف اللہ کا نام لکھ کر اسے خانقاہ کے داخلی دروازے پر لگا دیا۔ انہوں نے لنگر خانے میں پکائے جانے والے لنگر کی مقدار دگنی کرنے کا حکم دے دیا۔ اللہ گواہ ہے کہ ہمیں آٹے ، دالوں ، نمک اور گھی کی قلت کبھی نہیں ہوئی۔ اگرچہ امرا خانقاہ سے دور رہے ، تاہم غربیوں کی آمد میں اضافہ ہو گیا ۔
سلطان کے غصے کی آگ مزید بھڑک اٹھی ۔ اس نے خانقاہ کو بند کرنے کا حکم دیا ۔ تاہم اللہ کے کام نرالے ہوتے ہیں !اس نے اپنے محبوب دوست کو مصیبت میں دیکھا توسلطان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔ سلطان اور ا س کے معشوق لڑکے کی گناہگارانہ ہم بستری کے ہولناک نتائج نکلے۔ سلطان کے قضیب پر پھوڑے نکل آئے اور اس کے لئے پیشاب کرنا بھی نا ممکن ہو گیا ۔ طبیبوں کی تمامتر کوششوں کے باوجود نہ تو پھوڑے ٹھیک ہوئے ، نہ پیشاب کا ایک قطرہ نکلا۔ خد ا کے نازل کردہ عذاب کا علاج بھلا کون کر سکتا ہے !اور انسان پیشاب کئے بغیر کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہے ؟چند گھنٹوں میں سلطان درد سے تڑپنے اور اللہ سے رحم کی التجائیں کرنے لگا۔ اس کی ماں اپنے بال نوچتے ، روتے اور سر میں خاک ڈالتے ہوئے غیاث پور آئی ۔اس نے خواجہ صاحب ؒ کے پائوں پکڑ لئے اور اس وقت تک نہیں چھوڑے جب تک انہوں نے اس کے بیٹے کو معاف نہیں کر دیا ۔ خواجہ صاحب ؒ نے کہا : ’’ اپنے بیٹے سے کہو تخت چھوڑ دے اور اپنی سلطنت ہمیں دے دے ۔‘‘ہم جانتے تھے کہ محبوب الہیٰ ؒ کچھ دوسری کرامات دکھانا چاہتے ہیں۔
سلطان کی ماں فورا ً محل واپس گئی۔ سلطان شدید اذیت میں تھا ۔ اس نے کہا کہ جو نہی وہ پیشاب کرنے کے قابل ہو گا ، اپنی سلطنت کو چھوڑ دے گا ۔
’’ نہیں ۔‘‘ ہمارے خواجہ صاحب ؒ نے قاصد سے کہا : ’’ پہلے وہ تخت چھوڑے گا ، پھر اس کا پیشاب کھلے گا ۔ اپنے ہاتھ سے تخت چھوڑنے کی دستاویز لکھو اور اس پر شاہی مہر لگائو ۔‘‘
سلطان نے جس وقت تخت چھوڑنے کی دستاویز پر دستخط کئے، وہ اس وقت حقیقتاً لب مرگ تھا۔ جو نہی اس نے مہر لگائی ، اس کے مثانے نے، جو کہ پھٹنے کے قریب ہو رہا تھا ، زہریلا مواد خارج کر دیا ۔ سلطان کی ماں اپنے بیٹے کے پیشاب سے بھرا مرتبان اپنے سر پر اٹھائے ننگے پائوں غیاث پور پہنچی ۔ شاہی حرم کی عورتیں ، خواجہ سرا اور محافظ اس کے پیچھے پیچھے تھے ۔ وہ خواجہ صاحب ؒ کے سامنے جھکی اور دستاویز ان کے قدموں میں رکھ دی۔ خواجہ صاحب ؒ نے مہر کھولی اور سلطان قطب الدین مبارک شاہ کی طرف سے سلطنت ہندوستان غیاث پور کے درویش حضرت خواجہ نظام الدین ؒ کے حوالے کئے جانے کا بیان با آواز بلند پڑھا ۔ پھر انہوں نے اس دستاویز کے پرزے پرزے کر کے اسے پیشاب کے مرتبان میں ڈال دیا۔ ’’ ہم درویش لوگ دنیا وی سلطنتوں کو بس اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں۔ ‘‘ وہ یہ کہہ کر عبادت کرنے کے لئے اپنے حجرے میں چلے گئے۔
جو انسان فطرتاً برا ہوتا ہے ، وہ وقتی طور پر نادم ہوا کرتا ہے اور اپنے ساتھ بھلائی کرنے والوں کے احسانات جلد فراموش کر دیتا ہے ۔جو نہی سلطان صحت یاب ہوا، اس نے پہلے والی حرکتیں دوبارہ شروع کر دیں۔چونکہ ہندوستان کی بادشاہی کو پیشاب کے مرتبان میں ڈالے جانے کی کہانی عام ہوچکی تھی ، اس لئے سلطان کا غصہ اس کی ممنونیت پر غالب آ گیا ۔ اس نے مسلمانوں کے لیے حکم جاری کیا کہ وہ چاند کی پہلی تاریخ کو مسجد قوت الاسلام میں جمع ہوکر اس کی اطاعت کا اظہار کریں۔ وہ جانتا تھا کہ ہمارے خواجہ صاحب ؒ نے مہینے کا وہ دن اپنی مرحومہ والدہ کی مقدس یاد کے لئے وقف کر رکھا ہے خواجہ صاحب نے یہ حکم سنا تو ہدایت کے لئے اپنی والدہ کے مزار پر تشریف لے گئے ۔ فاتحہ خوانی کے بعد وہ وہیں لیٹ کر سو گئے ۔ جب وہ جاگے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے خواب میں ایک دیو قامت بیل کو خود پر حملہ آور ہوتے دیکھا ہے۔ انہوںنے بتایا کہ انہوںنے بیل کو سینگوں سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا ۔ ہمیں خواب کی تعبیر جاننے کے لئے کسی سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔
وہ منحوس دن آ پہنچا اور عصر کی نماز کے بعد بے شمار لوگ خواجہ صاحب ؒ کے حضور جمع ہو گئے ۔ جب مغربی دیوار کا سایہ مسجد کے صحن میں پھیل گیا تو خواجہ صاحب ؒ نیا چاند دیکھنے کے لئے ہم میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ چھت پر چلے گئے ۔ جو نہی سورج کانچلا سرا شہر ِ نو کی فصیل کے پرے غروب ہوا، ہمیں پیلا ، نقرئی ہلال دکھائی دیا۔ خواجہ صاحب ؒ نے مختصر سی دعا کی ، اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں اور ڈاڑھی پر پھیرا اور فارسی کا ایک شعر پڑھا ، جس کا مفہوم کچھ یوں تھا:
اے لومڑی !تو اپنے غار میں کیوں نہیں رہی ؟
تم شیر سے جھگڑا کیوں مول لیااور اپنے انجام کو پہنچی ؟
ہم شام کو تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چھت پر ہی ٹہلتے رہے۔ اچانک مغربی افق پر شعلے سے بھڑکنے لگے ۔ ہم نے گھوڑوں کے سموں کی آوازیں سنیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی فوج مشعلیں اٹھائے ہماری طرف بڑھی چلی آ رہی ہو۔ کیا یہ خواجہ صاحبؒ کو گرفتار کرنے کے لئے بھیجی گئی شاہی فوج ہے ؟ کوتوال خود آیا تھا۔ وہ محبوب الہٰی کو گرفتار کرنے نہیں بلکہ یہ خبر سنانے آیا تھا کہ سلطان کو قتل کر دیا گیا ہے اور شہر میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔
اب دلی کا نیا بادشاہ !ایک کی جگہ دوسرے لوطی نے لے لی۔خسرو خان کا نام پانے والے گجرات کے ہندو پوار راجپوت نے سلطان نصیر الدین محمد کے خطاب کے ساتھ اپنے آپ کو ہندوستان کا شہنشاہ قرار دے دیا ۔ ہم سوچتے تھے کہ کیا خواجہ صاحبؒ قاتل اور لوطی خسرو خان کو اس کے گناہوں کی سزا نہیں دیں گے ۔ نصیر الدین نے امرا کی وفاداری جیتنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس نے دور افتادہ صوبوں کے گورنروں کو خلعتیں بھیجیں ۔ بیشتر نے انہیں قبول کر کے جوابی تحائف بھیجے ۔ تاہم منگولوں کے خلاف مغربی سرحدوں کا تحفظ کرنے والے غیاث الدین تغلق نے خلعتوں کے طشت ٹھکرا دیئے ۔ اس نے کہا کہ کوئی ترک کسی دہرے چہرے والے ہیجڑے کو بادشاہ تسلیم نہیں کر سکتا۔
ہندوستان کے مسلمان نصیر الدین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس نے مدد کے لئے راجپوتوں اور جاٹوں سے رابطہ کیا۔ اس نے انہیں شہر نو کے دفاع کے لئے بلایا ۔ جنگ شہر کے مضافات میں لڑی گئی۔جب ترکوں کو شکست ہونے لگی توشہر کے مسلمان جاٹوں اور راجپوتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور جنگ کا پانسہ اپنے ہم مذہبوں کے حق میں پلٹ دیا۔ غیاث الدین تغلق نے نصیر الدین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کی لاش کو فصیل سے نیچے پھنکوا دیا۔ ہزاروں شہریوں کو تہِ تیغ کر دیا گیا ۔ رام دلاری اور میں اپنے بیٹے اور بہو کی حفاظت کے لئے ساری رات دعائیں کرتے رہے۔ (تاہم انہوں نے ذہین کائیستھوں کی طرح خود کو ایک کمرے میں مقفل کر لیا اور دروازے پر 786لکھوا دیا، تا کہ اسے مسلمانوں کا گھر سمجھا جائے۔ یوں وہ خون کے پیاسے ترکوں سے بچ گئے۔
کسی دانا نے کہا ہے کہ رعایا کو اپنے حکمران کی خامیاں نہیں بلکہ اس کی خوبیاں دیکھنی چاہئیں۔ غیاث الدین تغلق خاندانی شخص تھا۔ اس نے ایک ہند وعورت سے شادی کی تھی اور اپنے بیٹے شہزادہ جونا کی شادی ایک ہندو عورت سے کی تھی ۔ ہندو ملکہ اور ہندو بہو کی موجودگی میں ہمیں سلطان سے توقع تھی کہ وہ اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ بہتر سلوک کرے گا ۔ ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ سلطان غیاث الدین تغلق ایک جابر حکمران نکلا۔ اس کے خوشامدیوں نے اس کے اور خواجہ صاحبؒ کے درمیان غلط فہمی پیدا کر دی۔ انہوں نے کہا : ’’ کیا یہ درست ہے کہ یہ بوڑھا درویش وہ عزت حاصل کرے ، جو کہ زمین پر خدا کے نائب کی حیثیت سے صرف جہاں پناہ کا حق ہے ؟ ‘‘
غیاث الدین نے مہر ولی اور غیاث پور کے درمیان سنہری اینٹوں سے ایک نیا شہر تعمیر کروایا اور اس کے گرد اونچی فیصل بنوائی ۔ اس شہر کا نام تغلق آباد رکھا گیا۔ وہ توقع کرتا تھا کہ ہر شخص آ کر اس سے عقیدت کا اظہار کرے اور اس کے کارنامے کی تعریف کرے۔ ہمارے خواجہ صاحبؒ کے علاوہ ہر شخص نے ا یسا ہی کیا۔ جب غیاث الدین نے ہمارے خواجہ صاحب ؒ سے وضاحت طلب کی تو آپ نے پیشگوئی کی کہ نیا شہر ویرانہ بن جائے گا اور اس میں گجر ڈاکو رہا کریں گے ۔
جب سلطان کو اس پیشگوئی کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے قسم کھائی کہ وہ خواجہ صاحب ؒ کو ضرور سبق سکھائے گا ۔ وہ احمق شخص نہیں جانتا تھا کہ خدا اپنے محبوب ولی نظام الدینؒ کے وسیلے سے بات کرتا ہے۔ خدا نے سلطان کو کسی پاگل ہاتھی جیسی حرکتیں کرنے پر مائل کیا ۔ اس نے اسے مشرقی علاقوں میں فتح دلوائی اور اس میں اپنے ناقابل تسخیر ہونے کے گمان پیدا کئے ۔ باقی کام دربار یوں نے کیا ۔ انہوں نے کہا : ’’ اے عظیم سلطان !آپ نے تو اپنے ہزاروں دشمنوں کے سر ایسے قلم کر دئیے ہیں ، جیسے کسان گندم کاٹتا ہے، کیا آپ اس معمولی سے درویش کو فنا نہیں کر سکتے ؟ ‘‘غیاث الدین تغلق نے ، جوکہ دلی سے تھوڑے فاصلے پر تھا، حکم دیا کہ اس کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے غیاث پور والی خانقاہ کو مسمار کر دیا جائے۔
کوتوال آنکھوں میں آنسو لئے آیا۔ اس نے شاہی حکم نامہ خواجہ صاحب ؒ کے پیروں میں رکھ دیا ۔ خواجہ صاحب ؒ نے اسے تسلی دی : ’’ بیٹا ، میں نے بہت سے سلطانوں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔ جب میں پہلی بار دلی آیا تو غیاث الدین بلبن سلطان تھا۔ اس کے بعد کیقباد اور جلال الدین فیروز آئے، پھر علاء الدین اور قطب الدین خلجی اور نصیر الدین آئے۔ اب غیاث الدین تغلق آیا ہے ۔کُل ہوئے سات سلطان ۔ بادشاہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اللہ کی مرضی ابد تک رہنی ہے۔ ‘‘
کوتوال خواجہ صاحب ؒ کے الفاظ میں پوشیدہ مفاہیم نہیں سمجھا ۔ اُس نے پوچھا ’’ محبوب ِ الہٰی !آپ میرے لئے میرے ماں باپ سے زیادہ ہیں۔ سلطان دلی سے صرف تین کوس دور ہے ۔ میں کیا کروں ؟ ‘‘
خواجہ صاحب نے کہا : ’’ سکون سے گھر جائو ۔ ہنوز دلی دو راست ۔ ‘‘
جونہی کوتوال شہر نو پہنچا اسے خبر ملی کہ سلطان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا ہے ۔ اگلی صبح ہر کار ے خبر لائے کہ سلطان ایک محراب کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ محراب اس پر گر گئی اور سلطان مر گیا۔ یہ 1325ء کا واقعہ ہے۔ بے شک اللہ کمزوروں کی طاقت ہے۔ جیسا کہ خواجہ صاحب ؒ نے پیش گوئی کی تھی ، غیاث الدین کا بنوایا ہوا عظیم قلعہ جلد ہی ویران ہو گیا، دریائے جمنا اس کی فیصل سے پرے ہٹ گیا اور سارے کنوئیں سوکھ گئے ۔ اس میں گیڈر ، الو ، چمگادڑ اور گجر رہنے لگے۔ اس کی شہری فیصل گرنے لگی۔صرف غیاث الدین تغلق کا مزار باقی رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اللہ اسے دکھانا چاہتا ہو کہ اس کے شان و شوکت کے خوابوں کے ساتھ کیا گزری ۔
خد ا قسمت کی کتاب کا لکھنے والا ہے ۔ اس کتاب میں ماضی ، حال اور مستقبل لکھے ہوئے ہیں۔ خدا نے ہمارے خواجہ صاحب ؒ کو رونما ہونے والے واقعات پڑھنے کی اجازت دی ہوئی تھی ۔ ایک روز خواجہ صاحب ؒ نے اپنے وعظ میں کہا کہ کسی کو موت سے خوفزدہ نہیں ہونا چائیے کیونکہ یہ محبت کرنے والے کا اپنے محبوب سے وصال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا : ’’ میں نوے برس اللہ سے دور رہا ہوں ، لیکن میں ان نوے برسوں کے ہر دن اور ہر پل میں اس سے وصال کا آرزو مند رہا ہوں ۔ ‘‘
ان کے الفاظ نے غیاث پور کو ملول کر دیا ۔ میں نے خواجہ صاحب ؒ سے ملنے کی درخواست کی ۔ میں ان کے سامنے پہنچ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ انہوں نے کہا : ’’ اگر تم ہمارے لئے رو رہے ہو تو یقین رکھو کہ تم جلد ہمارے پیچھے آنے والے ہو ۔ تمہاری بیوی تمہارے بعد اس کا روان سرائے میں زیادہ عرصہ نہیں رہے گی ۔ ‘‘
میں نے روتے ہوئے کہا : ’’ اے محبوب ِ الہٰی !ہمیں اپنے ساتھ ہی لے جائیے تا کہ جنت میں آپ کی خدمت کریں ۔ ‘‘
میں بہت اداس رہنے لگا۔ میں خود کو بہت کہتا کہ میں اتنا بوڑھا ہو گیا ہوں کہ بمشکل دیکھ اور چل سکتا ہوں سو اب تو میرے لئے موت بڑھاپے سے رہائی کا پروانہ ہو گی ۔ اس کے باوجود میں موت سے ڈرتا تھا۔میں یم کی خوفناک سلطنت میں جانے کی بجائے بیمار اور دکھی رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ مجھے محبوب سے وصال کی آرزو نہیں تھی ، میرے لئے تو میری بغیر دانتوں والی بوڑھی رام دلاری ہی کافی تھی ۔
725ہجری بمطابق 1325ء ربیع الثانی کے مہینے میں خواجہ صاحب ؒ نے ہمیں بتایا کہ وہ فرشتوں کے خیر مقدمی گیت گانے کی آواز سن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دنیا چھوڑنے سے پہلے اپنے دنیاوی کھوٹ والے جسم کو چالیس دن روزے رکھ کر پاک صاف کریں گے ۔ ہم نے ان سے التجا کی : ’’ اے محبوب الہٰی !حکیموں کا کہنا ہے کہ آپ کے جسم کو غذا کی ضرورت ہے اور ایک ہفتے کے روزے بھی آپ کے جسم کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوں گے ۔ ‘‘
انہوں نے ہمیں جھڑکتے ہوئے کہا : ’’ کیا تم نے مجھ سے یہی کچھ سیکھا ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ عبادت اور روزے زمینی زندگی سے بہتر زندگی کے لئے غذا ہوتے ہیں ؟ ‘‘
غیاث پور کو دکھ نے گھیرے میں لے لیا ۔ خواجہ صاحب ؒ نے ہماری پریشانی بھانپ لی۔ انہوں نے ہمیں بتایا : ’ ’ میں جمعرات تک تمہارے ساتھ ہوں۔ مجھے اس صحن میں دفنانا ۔ خسرو کو میری قبر پر مت آنے دینا (وہ اس وقت لکھنوتی میں تھا) کہیں ایسا نہ ہو کہ میں فطرت کے قوانین کو توڑنے پر مائل ہوئوں اور اٹھ کر اسے گلے لگا لوں ۔اور اس کے پیغمبر ؐ کا پیغام میرے خلیفہ مخدوم نصیر الدین کے ذریعے تم تک پہنچتا رہے گا ۔وہ اس تاریک دنیا میں تمہارے رہنما ہوں گے ،کیونکہ وہ روشن چراغ ِ دلی ہیں ۔ ‘‘
خواجہ صاحب ؒ کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ 18ربیع الثانی 725ھ (3اپریل 1324ء)بروز جمعہ بوقت صبح خواجہ صاحب ؒ کی روح جنت کو روانہ ہو گئی۔ لوگوں نے آہ و زاری شروع کر دی ۔ نو حہ گری کی صدائیں آسمان تک جارہی تھیں۔ قریبی شہروں سے سینکڑوں ہزاروں لوگ غیاث پور آگئے۔عورتیں یا اللہ !یا اللہ !یا اللہ !کہتی ہوئیں چھاتیاں پیٹ رہی تھیں۔حضرت روشن چراغ نے ، جنہیں خواجہ صاحب ؒ نے اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا ،باہر آ کر اشک آلود آواز میں کہا کہ غم کا ایسا اظہار شریعت کی رو سے منع ہے۔انہوں نے غمگساروں کو الگ الگ ٹولیوں میں بانٹ کر انہیں قرآن کی تلاوت کرنے بٹھا دیا ۔
خواجہ صاحب ؒ کی نعش کو غسل دیا گیا ۔ نماز ِ جنازہ مسجد کے صحن میں پڑھائی گئی ۔ پھر جنازہ غیاث پور سے باہر لے جایا گیا ۔ قوال ساتھ ساتھ قوالیاں گاتے جارہے تھے۔
کسی نے چیخ کر کہا کہ خواجہ صاحب ؒ نے ہاتھ کفن سے باہر نکالا تھا۔ جنازہ زمین پر رکھ دیا گیا اور لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو گئے ۔ نظم بحال ہوتے ہوتے وقت لگ گیا ۔ جنازہ برداروں نے کہا کہ انہوںنے خواجہ صاحب ؒ کو قوالوں کی قوالی کا جواب دیتے سنا ہے۔حضرت روشن چراغ نے خواجہ صاحب ؒ کے کان میں کہا: ’’ اے محبوب الہٰی !کیا آپ کا فقیر آپ کو یاد دلائے کہ موت کے بعد بولنا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ؟اپنی ملاقات کے لئے سکون سے جائیے۔‘‘انہوں نے خواجہ صاحب ؒ کا ہاتھ دوبارہ کفن کے اندر کیا اور جنازہ آگے روانہ ہوا ۔
خواجہ صاحب ؒ کی معطر خاک کو مسجد کے صحن کے وسط میں دفنایا گیا۔کچھ لوگوں نے قبر پر چراغ رکھے۔ لوگ قبر سے کان لائے اندر سے آنے والی آوازیں سننے کے لئے کوشاں تھے ۔ خسرولکھنوتی سے واپس آچکا تھا۔ ایک بہت بڑا ہجوم یہ دیکھنے کے لئے اکٹھا ہو گیا کہ وہ اپنے آپ کو کسی طرح سنبھالتا ہے اور یہ کہ خواجہ صاحب ؒ اسے گلے سے لگانے کے لئے اپنی قبر سے اٹھتے ہیں کہ نہیں ۔ خسرو کسی ایسی عورت کی طرح روتا اور چھاتی پیٹتا خانقاہ میں آیا ، جس کا خاوند مر گیا ہو ۔ حضرت روشن چراغ نے اسے گلے سے لگا کر زور سے بھینچ لیا ۔ جب وہ رو رو کر دل کا بوجھ ہلکا کر چکا تو حضرت روشن چراغ نے اسے بتایا کہ خواجہ صاحب ؒ نے اسے اپنی قبر پر آنے سے روک دیا ہے۔خسرو نے خواجہ صاحب ؒ کی قبر سے چند گز دور کیوڑے کے ایک پودے کے پاس کھڑے ہو کر نظر یں اس جگہ پر گاڑ دیں جہاں اس کا مرحوم دوست سویا ہوا تھا ۔آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر ڈاڑھی میں جذب ہو رہے تھے ۔ وہ ماں کے لئے رونے والے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہا تھا ۔ اس نے روتی ہوئی آواز میں دوہا پڑھا :
گوری سووے سیج پر ، مکھ پر ڈالے کیس
چل خسرو گھر آ پنے ، شام بھئی چوندیس
خسرو نے اپنا سر اسی طرح منڈوا لیا جس طرح ہندو اپنے والدین کی وفات پر منڈواتے ہیں۔ اس نے اپنی املاک خیرات کر دیں۔ اس نے صوفیوں والا سیاہ اونی کھردرا لبادہ پہننا شروع کر دیا ۔ جیسا کہ اس نے اپنے متعلق پیشگوئی کی تھی، وہ چند ہفتوں بعد گھر کو روانہ ہو گیا۔ ہم نے اسے کیوڑے کے پودے کے پاس دفنا دیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں