1,265

سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سیرت وکردار کے آئینے میں


تحریر۔ شمامہ لطیف
سیدنا ابوبکر صدیقؓ، ایمان ، اطاعت محبت اوروفا کا روشن باب ہیں بنی کریم ؐسے والہانہ عشق آپ کی سیرت کا سب سے غالب پہلو ہے آپ سب سے پہلے ایمان لائے اور اس کے بعد امن اورجنگ ہر حال میں آپ ؐکے ساتھ رہے اپنے جان و مال ہمیشہ اسلام کی راہ میں پیش کیے۔
1۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کا نام و لقب کیا تھا؟
2۔آپ کب ایمان لائے ؟
3۔نبی اکرم ؐ کی وفات کے وقت آپ نے کس طرح مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی ؟
4۔ فتنہ ارتداد میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کیا کردار رہا ؟
نام و نسب
زہری سے روایت ہے کہ آپ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لئوی بن غالب بن فہر تھا آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے اور مرہ تک دونوں کے آباء کی تعداد برابر ہے آپ کی کنیت ابو بکر ہے آپ کے والد حضرت ابو قحافہ عثمان بن عامر اور والدہ کا نام حضرت سلمی بنت صخر ہے ۔
آپ کی ولادت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً دو سال تین ماہ قبل ہوئی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا شمار معززین قریش میں ہوتا ہے اہل مکہ اپنے دیت اور تاوان کے مقدمات کا فیصلہ آپ سے کرواتے تھے نہایت فصیح و بلیغ تھے فن شعر میں بھی اچھی مہارت رکھتے تھے آ پ نے زمانہء جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہیں پی اور نہ کبھی بت پرستی سے اپنے قلب و ذہن اور دامن کو آلودہ کیا یہ وہ دور تھا جس میں بدکاری اور بے حیائی کا چلن تھا لیکن آپ ان سب چیزوں سے نفرت کرتے تھے شروع ہی سے ذہین تھے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا اس لیے آپ کے والد حضرت ابو قحافہ نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی قریش کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شامل تھے ۔
حلیہ مبارک
حضرت ابوبکر صدیق موزوں قد کے دبلے پتلے آدمی تھے رنگ گندمی تھا رخساروں پر بہت کم گوشت تھا اور چہرے کی ہڈیاں نمایاں تھیں پیشانی بلند اور کشادہ تھی جو عرق آلود رہتی تھی کمر میں ذرا خم تھا امام زھری کی روایت کے مطابق بال گھنگریالے تھے بالوں میں مہندی اور کسم کا خضاب لگاتے تھے ۔ کمال حیا سے آنکھیں ہمیشہ جھکا کر رکھتے تھے آواز پر سوز تھی اور بہت کم گو تھے انداز گفتگو بہت سنجیدہ اور متین تھا جوانی میں حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی بہت بوڑھے معلوم ہوتے تھے ۔
غذا، لباس اور ذریعہ معاش
سادہ ترین غذا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے طبیعت میں انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنی بکریاں جنگل میں خودچراتے ۔رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اوردن کو اکثر روزہ رکھتے تھے کامیاب تاجر تھے امام نووی لکھتے ہیں طلوع اسلام سے قبل ہی آپ کا شمار قریش کے رئو ساء میں ہوتا تھا آپ اکثر تجارت کے لیے شام اور یمن کا سفر کرتے اپنے حسن معاملہ اور شائستگی کی بنا پر پورے عرب میں جانے جاتے تھے سنن ابن ماجہ میں خود آپ کی یہ روایت موجود ہے۔
’’میں قریش میںسب سے بڑا اور مالدار تاجر تھا ‘‘
ہجرت مدینہ کے بعد ان کی مالی حالت کمزور ہوئی لیکن جلد ہی دوبارہ تجارت چلی نکلی ۔
تاریخ میں آپ اپنے نام عبداللہ بن عثمان کی نسبت ان القاب سے زیادہ مشہور ہیں۔
عتیق
ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے۔
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا !
تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ سے آزاد ہو’’ پس اس دن سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عتیق رکھ دیا گیا ۔
صاحب اور ثانی اثنین
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سفر ہجرت کی تعریف فرمائی اور حضرت ابوبکر صدیق کو صاحب اور ثانی اثنین کے معزز لقب سے سرفراز فرمایا ۔
’’ (اس وقت ) دو ہی تھے جن میں ایک (ابوبکر )تھے اور دوسرے (خود رسول اللہ ) جب دونوں غار ثور میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو۔(توبہ 40)
صدیق
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے مشہور لقب جو قرآن کریم میں مذکورہ ہے ’’ صدیق ‘‘ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ اور جو سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے اس کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔ (زمر: 33)
اس آیت کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں
’’ سچائی لانے والے حضور ہیں جو بظاہر اعلان نبوت سے پہلے ہی صادق الوعد الامین مشہورتھے یہ لقب نہ پہلے کسی کو ملا تھا نہ ہی قیامت تک کسی کو ملے گا، اورسچائی کی تصدیق کر نے و الے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓنے اسلام قبول کیا اور کوئی معجزہ یا دلیل طلب نہیں کی او ر جب آپ معراج پر تشریف لے گئے اور جنت و دوزخ کے عجائبات کا مشاہدہ کیا اتنا طویل سفر رات کہ ایک مختصر عرصے میں طے ہوا جسے آپ نے صبح اہل قریش سے اس سفر کا تذکرہ کیا تو کوئی نہ مانا صرف حضرت صدیق اکبر ؓنے اس کی تصدیق کی اور صدیق کہلائے ۔
سیدنا ابوبکر ؓ کا عشق رسول
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ بچپن کے رفیق تھے ہم عمر اور ہم مزاج ہونے کے وجہ سے وقت کے ساتھ وہ رشتہ گہری رفاقت اور لازوال محبت میں بدل گیا اور زندگی کی آخری سانس تک قائم و دائم رہا حا فظ ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ ایک محفل میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!
’’مجھے تین چیزیں بہت محبوب ہیں، خوشبو، نیک بیوی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ فوراً بول اٹھے،اے اللہ کے محبوب مجھے بھی تین چیزیں بہت محبوب ہیں آپ ؐ کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا اور دوسرا آپ پر اپنا مال خرچ کرنا اور تیسرا یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے ‘‘ ۔
اعلان اسلام کے ساتھ ہی کفار نے آپ ؐ اور اہل ایمان کو تکلیف پہنچانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا حضرت ابوبکر ؓہمیشہ اسلام کی حمایت میں کھڑے رہے ہر تکلیف کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا قریش نہ صرف طعن و تشنیع سے کام لیتے بلکہ جسمانی تکلیف دینے سے بھی باز نہ رہتے ایسے میں سب سے آگے بڑھ کر سیدنا صدیق اکبر ؓہی مدد کرتے جب امیہ بن خلف کا جبرو ظلم حضرت بلال پر حد سے بڑھ گیا تو بنی رحمت ؐنے انہیں آزاد کروانے کا حکم دیا حضرت ابوبکر ؓنے دس گنا قیمت دے کر آزاد کروایا ۔
آپ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کے منتظر رہتے کہ کب جان و مال پیش کرنے کا موقع ملے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہجرت مدینہ ہوئی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہمراہی کا شرف آپ ہی کے حصہ میں آیا تین دن تک غار ثور میں رہے جہاں حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھانا پہنچاتی تھیں یہ وہ وقت تھا جب اہل مکہ نعوذ باللہ آپ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے تھے لیکن حضرت ابوبکر وفا شعاری اور جان سپاری کا حو صلہ لیے ایک پروانے کی طرح شمع رسالت پر فدا ہونے کو بیتاب تھے۔
جب جنگ تبوک کے موقع پر نبی اکرم ؐنے حکم فرمایا کہ جہاد کیلئے اپنا مال پیش کرو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر کا آدھا مال لے آئے اور دل میں سوچتے رہے کہ آج میں ابوبکر صدیق سے اس نیکی میں بڑھ جائوں گا لیکن جب حضرت صدیق اکبر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ابوبکر !آپ بیوی بچوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہیں تو عرض کیا ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔
آپ کی وارفتگی اور محبت کا اعتراف حضرت ابوہریرہ ؓکی اس روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !’’ جتنا نفع مجھے ابوبکر کے مال نے دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا میرے اوپر کس کا احسان نہیں سب کا اتار دیا البتہ ابوبکر کے احسان کا بدل قیامت کے روز اللہ ہی عطا کرے گا ‘‘ (ترمذی )
غزوات میںشرکت
بعثت رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے دن ہو یا رات ، جنگ ہو یا امن ۔ برے حالات ہوں یا مصائب و آلام کے کوہ ِ گراں ، آپؓ ہر وقت اور ہر لمحہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور شجاعت و جرات سے دشمن کا مقابلہ کیا غزوئہ احد اور غزوئہ حنین میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے لیکن اس نازک موقعے پر بھی سیدنا ابوبکر صدیق حضور کی حفاظت کے لیے ساتھ موجود تھے ۔غزوئہ بدر میں آپ کے صاحب زادے عبدالرحمن مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک تھے جب عبدالرحمن مسلمان ہوئے تو اپنے والد سے عرض کیا !اے ابا جان!آپ بد ر کے روز کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ ‘‘آپ ؓ نے جواب دیا اے جان پدر !واللہ اگر تو میرے نشانے پر آ جاتا تو میں کبھی بھی نشانہ خطا نہ کرتا ۔ ‘‘ (ابن عساکر )۔
رسول اللہ کے سب سے زیادہ محبوب ۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ ’’ میں نے رسول اللہ سے پوچھا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟آپ نے فرمایا ’’ عائشہ ؓ‘‘ پھر میں نے پوچھا ’’ مردوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ ‘‘ حضور ؐ نے فرمایا ۔ ’’ عائشہ کے والد ابوبکر ‘‘۔(بخاری )
وصال رسول اور نائب رسول ۔
رسول اللہ نے صدیق اکبر ؓ کو اپنی زندگی میں ہی اپنا نائب بنا دیا تھا نماز میں بھی اور حج میں بھی نو ہجری کو اسلام کے پہلے حج کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو حاجیوں کا امیر بنا کر مکہ روانہ کیا وصال سے قبل مرض الموت میں شدت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ’’ ابو بکر ؓ سے کہو نماز پڑھائیں ’’سیدہ عائشہ ؓ نے کہا !یا رسول اللہ میرے والد رقیق القلب ہیں وہ آپ کی جگہ نماز نہ پڑھاسکیں گے ‘‘لیکن چوں کہ حکم ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا اس لیے سیدنا صدیق اکبر نے پہلی نماز عشاء کی پڑھائی پھر وصال کی صبح تک سترہ نمازوں کی امامت کرائی ۔
جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اہل ایمان کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا حضرت ابوبکر صدیق نے اس موقع پر کمال فہم و فراست اور صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا آپ کو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی امام اور نائب بنایا تھا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست اقدس پر بیعت کر لی آپ پہلے خلیفہ راشد تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ اس قدر گہرا تھا کہ اسے خود برداشت کر لینا اور آپ کے بعد آپ کی غمگین امت کو درست سمت میں لے کر چلنا ایسا کارنامہ تھا جو حضرت ابوبکر ؓ ہی انجام دے سکتے تھے ۔
فتنہ ارتداد اور لشکر اسامہ ۔
خلافت کا منصب سنبھالتے ہی آپ کو مرتدوں کے فتنے اور اسامہ کے لشکر کی مشکل پیش آئی مرتد اصطلاح میں اس شخص کو کہتے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایمان لا کر دوبارہ کافر ہو جائے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہوگئی وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہوکر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کی تیاریاں کرنے لگے بعض قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور کچھ افراد اے نبوت کا دعوی کر دیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام معاملات کو فہم و فراست اوربردباری سے حل فرمایا ۔
دوسری طرف اسامہ کے لشکر کا مسئلہ بن آیا اور اس لشکر کو خود نبی اکر م نے شام کی سرحد پر مومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔لیکن اب بعض صحابہ اس لشکر کی روانگی کے خلاف تھے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کے اس لشکر کو روانہ ہونے سے نہیں روک سکتا ۔
زمانہ خلافت اور اسلامی فتوحات
حضرت ابوبکر صدیق کے مختصر دور خلافت میں اسلامی لشکر نے شاندار فتوحات حاصل کی اسلامی سلطنت میں دو سال کے مختصر عرصے 75800مربع میل کا اضافہ ہوا صوبوں کے انتظام و انصرام کے لیے قابل گورنروں کا تقرر ہوا ۔
تدوین قرآن و تحقیق حدیث ۔
قرآن کریم کی تدوین سیدنا ابوبکر صدیق کا امت مسلمہ پر احسان ِ عظیم ہے آپ کا شمار کاتبین وحی میں ہوتا ہے جنگ ِ یمامہ میں ستر سے زائد حفاظ و قراء شہید ہو گئے تھے ، چنانچہ قرآن کو کتابی صورت میں یک جا کر کے محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی سید عمر فاروق نے حضرت ابوبکر صدیق کو مشورہ دیا کہ جلد از جلد اس کام کو مکمل کیا جائے حضرت ابوبکر نے حضرت زید بن ثابت کو یہ ذمے داری سونپی حضرت زید کہتے ہیں کہ ’’ شروع میں تو مجھے تامل رہا لیکن پھر اللہ کی رضا سے قرآنی آیات کو ڈھونڈ کر جمع کر نے کا کام شروع کیا جو مجھے مختلف لوگوں اور صحابہ ؓ سے اونٹ ، بکریوں کے شانوں کی ہڈیوں ، درخت کے پتوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھی ہوئی ملیں میں نے یہ سب جمع کر کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خدمت میں پیش کر دیں حضرت علی فرماتے ہیں کہ ’’ قرآن شریف سے متعلق سب سے زیادہ اجرحضرت ابوبکر ؓ کو ملے گا کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کتابی صورت میں جمع کیا’’ امام بن حزم نے لکھا کہ ’’ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں کوئی شہر ایسا نہ تھا ، جہاں لوگوں کے پاس قرآن موجود نہ ہو۔
دادی کے وراثت کے متعلق براہ راست حکم قرآن کریم سے نے ملنے پر جب حضرت ابوبکر نے نبی کریم اللہ علیہ وسلم کا عمل جاننے کے لیے دو صحابہ کی گواہی کو لے کر چھٹا حصہ دیا ۔
بیت المال کا قیام
باقاعدہ بیت المال آپ کے عہد میں تعمیر کیا گیا جب منصب خلافت کے بعد آپ تجارت کے لیے نکلے تو حضرت عمر نے روک لیا اور کہا مسلمانوں کے معاملات اور تجارت ایک ساتھ کیسے ہو گئی ؟آپ کو اتنا وظیفہ ملنے لگا جو مدینہ منورہ کا ایک مزدور کماتا تھا آپ خرچ میں بہت محتاط تھے آپ نے وصیت کی تھی کہ میری زمین بیچ کر وہ تمام رقم ادا کر دی جائے جو میں نے بیت المال سے بطور وظیفہ وصول کی ہے ایک دفعہ آپ کی اہلیہ روانہ کے آٹے میں سے ایک مٹھی رکھ لیتیں تاکہ حلوہ تیار کر سکیں جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے ایک مٹھی بیت المال سے کم آٹا لینا شروع کر دیا ۔
جنت کی بشارت ۔
آپ ؓ عشرہ مبشرہ اصحاب کرام سے ہیں آپ کو مختلف مواقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !’’ اے ابوبکر میری امت میں تم سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے ۔ (ابودائود )
وصال خلیفہ اوّل ۔
حضرت ابوبکر صدیق بیمار ہوئے تو آپ نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کر دیا 22جمادی الثانی کو آپ نے اس عالم فانی سے رحلت فرمائی اور حجرہ عائشہ صدیقہ میں اپنے محبوب و رفیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں