390

قرون وسطیٰ میںپورپ کی سیاسی حیثیت (قسط 4)

ڈاکٹر غلام جیلانی برق
جرمنی
جرمنی میں مختلف و حشی قبائل مثلاً وینڈل ، سیکسنز، اینگلز وغیرہ آباد تھے۔ ان کے سردار جدا جدا تھے ۔ غربی رومہ کے خاتمہ کے بعد جرمنی کئی حصوں میں منقسم ہو گیا۔ شمال میں فرانکس کا غلبہ تھا۔ جنوب میںبویر یا ذرا اوپر تھر مگیا اور شمال مشرقی علاقوں پر سیک سنز کا تسلط تھا۔ ان میں سے ایک سردار کلاوس نے بویریا ۔ تھرنگیا اور چند دیگر علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ جب 511ء میں اس کی وفات ہو گئی ۔ تو بعض سرداروں نے اس کے لڑکے تھیوراڈک (548-511ء) سے کچھ علاقے چھین لئے۔ اس کے بعد کوئی کام کا آدمی تخت نشین نہ ہوا اور چھوٹے بڑے سردار تین سو برس تک آپس میں لڑتے رہے۔ جب 768ء میں شارلیمان فرانس کا بادشاہ بنا تو اس نے جرمنی کے بیشتر علاقوں پہ قبضہ کر لیا ۔ اس کے اخلاف اندازاً سو برس تک جرمنی پہ حکمران رہے۔ آخری بادشاہ لوئیس دی چائلڈ تھا ۔ جو 911ء میں فوت ہوا۔ اس کی وفات پر جرمن امرانے فرینکو نیا کے ایک ڈیوک کانرڈ کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ اور اس وقت سے جرمنی ایک الگ ریاست بن گئی ۔ جو آج تک قائم ہے ۔ جدول سلاطین یہ ہے :۔
1۔ کانرڈ 918-911ء
2۔ہنری ۔ اوّل 926-918ء
3۔ آٹو ۔ اوّل 973-936ء
4۔ آٹو ۔ دوم 983-973ء
5۔ آٹو ۔ سوم 1002-983ء
6۔ ہنری ۔ دوم 1024-1002ء
7۔ کانرڈ ۔ دوم 1039-1024ء
8۔ ہنری ۔سوم 1056-1039ء
9۔ہنری ۔ چہارم 1107-1056ء
10۔ کانرڈ ۔ سوم 1152-1107ء
11۔ فریڈرک ۔ اوّل (بار بروسہ )1187-1152
12۔ ہنری ۔ ششم 1197-1187ء
ہنری پنجم 1125ء میں مر گیا تھا۔
13۔ آٹو ۔ چہارم 1212-1190ء
14۔ فریڈرک ۔ دوم 1250-1212ء
15۔ کانرڈ ۔ چہارم 1254-1250ء
اس کے بعد اینس برس تک جرمن سردار آپس میں لڑتے رہے۔ آخر پورپ نے مداخلت کی اور روڈلف بادشاہ بنا۔
16۔ روڈ لف ۔ اوّل 1291-1272ء
17۔ روڈ لف ۔ دوم 1298-1291ء
18۔ البرٹ ۔ اوّل 1308-1298ء
19۔ہنری ۔ ہفتم 1313-1308ء
20۔ لُوئس 1346-1313ء
21۔ چارلس ۔ چہارم 1376-1346ء
یہ دراصل بوہمیمیا کا بادشاہ تھا۔ جرمنی نے بھی اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا ۔
22۔ وِنزل 1400-1376ء
23۔ رُوپرٹ 1410-1400ء
24۔ سگمنڈ 1437-1410ء
25۔ البرٹ ۔ دوم 1439-1437ء
26۔ فریڈرک ۔ سوم 1486-1439ء
27۔ میکز ی ملیان ۔ اوّل 1519-1486ء
28۔ چارلس ۔ پنجم 1558-1519ء
29۔ فرد ینان ۔ اوّل 1564-1558ء
یہ آسٹریا کا بادشاہ تھا۔ پوپ کی مدد سے جرمنی کا بھی بادشاہ بن گیا ۔
30۔ میکزی ملیان ۔دوم 1572-1564ء
31۔ رُوڈ لف ۔ سوم 1612-1576ء
32۔ منٹ وہیاس 1619-1612ء
33۔ فرد ینان ۔ دوم 1637-1619ء
34۔ فرد ینان ۔ سوم 1657-1637ء
35۔ لیُو پولڈ۔ اوّل 1705-1657ء
36۔ جوزف ۔ اوّل 1711-1705ء
37۔ چارلس ششم 1740-1711ء
38۔ ماریا تھریسا 1742-1740ء
39۔ چارلس ۔ ہفتم 1748-1742ء
40۔ فرانسس ۔ اوّل 1765-1745ء
41۔ جوزف ۔ دوم 1791-1765ء
42۔ لیُو پولڈ۔ دوم 1792-1790ء
43۔ فرانسس ۔ دوم 1804-1796
44۔ نپولین (شاہ فرانس ) 1813-1804ء
45۔ فیڈریشن بن گئی 1848-1813ء
46۔فریڈرک ۔ چہارم 1861-1848ء
دور ِ جمہوریت کا آئینی بادشاہ
47۔ ولیم ۔ اوّل 1888-1861ء
اس کا وزیر اعظم بسمارک تھا۔
48۔ ولیم ۔ ثانی 1918-1888ء
اس نے پہلی جنگ عالمگیر شروع کی تھی۔
49۔ البرٹ 1925-1918ء صدر جمہوریہ
50۔ ہنڈن برگ 1933-1925ء
51۔ ہٹلر 1946-1933ء
یہ دوسری جنگ عظیم کا باعث تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی اور مغربی ۔ مشرقی روس کے زیر اثر ہے اورمغربی نسبتاً آزاد ہے۔ مغربی جرمنی کا چانسلر ایدینار (1963-1946)1963ء میں مستعفی ہوا تھا اور اس کی جگہ پروفیسر ار ہر ڈ نے لی تھی ۔

برطانیہ
عہد قدیم میں برطانیہ وحشی قبائل کا مسکن تھا۔ ساتویں صدی قم میں یورپ سے چند نئے قبائل جو سیلٹس (Celts) کے نام سے مشہور تھے۔ ان جزائر میں داخل ہوئے اور اصلی باشندوں کو پہاڑوں میں دھکیل دیا۔ 55قم میں جولیس سیزر نے ، جو اس وقت فرانس کا گورنر تھا۔ برطانیہ کو فتح کر لیا۔ لیکن مال ِ غنیمت اور کئی ہزار غلام لے کر واپس چلا گیا ۔ 43ء میں کلاڈی ئس (54-41ء ) نے برطانیہ کو فتح کر لیا اور یہ جزائر انداز اً چار سو برس تک رومہ کے زیر نگیں رہے۔ رومہ کے بعد جرمنی کے تین قبائل یعنی اینگز۔ سیکسنز اور جُوٹس برطانیہ پہ چھا گئے۔ یہ لوگ نہایت جاہل ۔ اُجڈ ۔ مُفلس اور جنگ پسند تھے۔ گارے کے گھروں میں رہتے ، کھالیں پہنتے اور آپس میں لڑتے رہتے تھے ۔ ان کے سردار جدا جدا تھے ۔ دو اڑھائی صدیوں کے بعد ان میں الفریڈ نامی ایک سردار اٹھا۔ جس نے مختلف قبائل کو مطیع کر کے ایک باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ یہ صاحب علم بھی تھا۔ اس نے لاطینی کی چند کتابوں کو انگریزی میں منتقل کیا۔ برطانوی سلاطین کا سلسلہ اسی سے شروع ہوتا ہے۔
1۔ الفریڈ 901-871ء
2۔ ایڈورڈ ۔ اوّل 925-901ء
3۔ اتھلسٹن 940-925ء
4۔ ایڈمنڈ ۔ اوّل 946-940ء
5۔ ایڈرڈ 955-946ء
6۔ ایڈوی 958-955ء
7۔ ایڈگر 978-958ء
8۔ ایڈورڈ ۔ دوم 979-975ء
9۔ اِیتھل ریڈ 1016-979
10۔ ایڈمنڈ ۔ دوم 1017-1012ء
11۔ قینوط 1035-1017ء
12 ہیر لڈ ۔ اوّل 1040-1035ء
13۔ ہارڈی ۔ قینوط 1042-1040ء
14۔ ایڈورڈ ۔ سوم 1066-1046ء
15۔ ہیر لڈ ۔ دوم 1022۔ اسی سال نارمنڈی (فرانس ) کے ولیم نے برطانیہ پر قبضہ کر لیا۔ موجودہ شاہی خاندان اسی ولیم کی اولاد ہے۔
16۔ ولیم اوّل (فاتح) 1087-1066
17۔ ولیم ۔ دوم 1100-1087ء
18۔ ہنری ۔ اوّل 1135-1100ء
19۔ سٹیفن 1154-1135ء
20۔ ہنری ۔ دوم 1189-1154ء
21۔ رچرڈ ۔ اوّل 1199-1189ء
22۔ جان 1612-1199ء
23۔ ہنری ۔ سوم 1672-1216ء
24۔ ایڈورڈ ۔ اوّل 1307-1272
25۔ ایڈورڈ ۔ دوم 1327-1307ء
26۔ ایڈورڈ ۔ سوم 1377-1327ء
27۔ رچرڈ۔ دوم 1399-1377ء
28۔ ہنری ۔ چہارم 1413-1399ء
29۔ ہنری ۔ پنجم 1422-1413ء
30۔ ہنری ۔ ششم 1461-1422ء
31۔ ایڈورڈ ۔ چہارم 1483-1461ء
32۔ ایڈورڈ ۔ پنجم 1483ء
33۔ رچرڈ ۔ سوم 1485-1483ء
34۔ ہنری ۔ ہفتم 1509-1485ء
35۔ ہنری ۔ ہشتم 1547-1509ء
36۔ ایڈورڈ ۔ ششم 1553-1547ء
37۔ میری 1558-1553ء
38۔ایلزبتھ 1603-1558ء
39۔ جیمز ۔ اوّل 1625-1603ء
40۔ چارلس ۔ اوّل 1642-1625ء
41۔خانہ جنگی 1649-1642
42۔ کرامویل ۔اوّل 1658-1649ء
43۔ کرامویل ۔ دوم 1660-1658ء
44۔ چارلس ۔ دوم 1658-1660ء
45۔ جیمز ۔ دوم 1688-1685ء
46۔ میری اور ولیم ۔ سوم (ہردو) 1694-1688ء
47۔ ولیم سوم (تنہا) 1702-1694ء
48۔ ملکہ اینی 1714-1706ء
49۔ جارج ۔ اوّل 1727-1714ء
50۔ جارج ۔ دوم 1760-1727
51۔ جارج ۔سوم 1788-1760ء
یہ پاگل ہو گیا تھا ۔ چنانچہ پرنس آف ویلز کی ریجنٹ مقرر کیا گیا ۔
52۔ پرنس آف ویلز (ریجنٹ ) 1860-1788ء
53۔جارج ۔ چہارم 1830-1820ء
54۔ ولیم ۔ چہارم 1837-1830ء
55۔ وکٹوریا 1901-1837ء
56۔ ایڈورڈ ۔ ہفتم 1901-1901ء
57۔ جارج ۔ پنجم 1936-1910ء
58۔ ایڈورڈ ۔ ہشتم 1936ء
اس نے خلاف دستور ایک عورت مسز سمپسن سے شادی کا ارادہ کیا۔ پارلیمنٹ نے اجازت نہ دی ۔ اور اس نے تخت چھوڑ دیا۔
59۔ جارج ۔ ششم 1954-1936ء
60۔ ایلز بتھ 1954ء (1963ء میں زندہ تھی )
رُوس
ہر چند کہ روس ہماری تہذیب و ثقافت سے بہت کم متاثر ہوا اور اس کی تاریخ سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ملک صدیوں سے اسلامی ممالک کا ہمسایہ چلا آتا ہے ۔ اس کے جنوب میں افغانستان ، بخارا۔ ایران و عراق واقع ہیں۔ اور جنوب مغرب میں ٹرکی ۔ افغانستان کے سوا باقی تمام ممالک بارہ سو سال تک علم و ثقافت کے مرکز رہے ہیں۔یہ نا ممکن ہے کہ روس ان ممالک کی تہذیب سے غیر متاثر رہا ہو۔ دریائے والگا کے دونوں طرف لاکھوں مسلمانوں کا وجود ہی اس امر کی ناقابل تردید شہادت ہے۔ کہ اسلامی اثرات غربی روس کے اندرونی خطوں تک پہنچے۔ پھر بحیرئہ اسود کے شمالی ساحل پر مسلمانوں کاایک خاندان 1420ء سے 1783ء تک حکمران رہا۔ یہ سلاطین خانانِ قُرّم کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی حکومت کریمیا سے کیف تک پھیلی ہوئی تھی اور شاہوں کی تعداد باسٹھ تھی۔ انہوں نے اپنی وسیع سلطنت میں لاتعداد مدارس و مساجد قائم کیں ۔ جن میں صد ہا علما علوم و فنون کا درس دیا کرتے تھے ۔ مقام تاسف ہے کہ ان سلاطین کے ثقافتی و علمی کارنامے کسی مسلم مئورخ نے قلم بند نہیں کیے ۔ ممکن ہے کہ اس موضوع پر روسی زبان میں کوئی کتاب مووجود ہو۔ لیکن میری نظر سے نہیں گزری ۔
روس کارل مارکس (1883-1818) کا پیرو ہے۔ یہ فلسفی جرمنی میں پیدا ہوا تھا۔ اس ملک میں اسلامی علوم و فنون کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جرمنی میں قرآن حکیم کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ قرآن حکیم۔ ذخیرہ اندوزی ۔ سرمایہ داری اور جمع دولت کا دشمن ہے۔ زائد ز ضرورت اشیاء پا س رکھنے سے روکتا ہے اور تقسیم دولت کے لئے میراث ، زکوٰۃ ، صدقات اورعشر کا بار بار حکم دیتا ہے کارل مارکس کے معاشی فلسفے کا مقصد بھی دولت کو بانٹنا اور سرمایہ داری کو روکنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مارکس نے یہ فلسفہ کہاں سے لیا ؟گوہم کوئی علمی شہادت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن اس امر کا قوی امکان ہے کہ قرآن کی آواز مارکس کے کانوں تک بھی پہنچی ہو۔ اور اس نے کچھ نہ کچھ تاثر لیا ہو۔
بہرحال یہ تھا وہ جزوی تعلق ، جس کی بنا پر مجھے یہاں روس کی تاریخ بھی مختصراً لکھنی پڑی ۔
نویں صدی عیسوی سے پہلے روس سے میں کیا ہو رہا تھا۔ ہمیں معلوم نہیں۔ صرف اتنا ہی علم ہے کہ وہاں وحشی قبائل آباد تھے۔ جن کے سردار جدا جدا تھے۔ سرداروں کا یہ سلسلہ تیرہویں صدی تک جاری رہا۔تیرویں صدی کے آغاز میں چنگیز خان (1667ء ) روس کے بیشتر حصوں پر چھا گیا ۔ ان کے اخلاف نے وہاں ریاستیںبنالیں۔جواڑھائی سو برس تک زندہ ہیں۔ 1380ء میں ماسکو کے سردار آئیون دوم نے تاتاریوں کو پہلی شکست دی۔ جس سے ان کے پائوں اکھڑ گئے ۔ اور چند سال بعد اس کے جانشین آئیون ۔سوم (1505-1462) نے انہیں روس کی سرزمین سے باہر دکھیل دیا۔ زار کا لقب سب سے پہلے آئیون سوم نے اختیار کیا تھا۔ زاروں کا یہ سلسلہ 1918ء تک جاری رہا۔ پھر اشتراکی نظام قائم ہو گیا۔ جس کا پہلا سربراہ لینن (1924) دوسرا سٹالن (1953) تیسرا بلگا نین (1958) اور 1962ء میں خرد شیف تھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں