311

مسلم امہ کے لیے شرمناک سوال


دید و شنید میں بہت تفاوت ہے ۔ آسان الفاظ میں یہ کہ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی میںبہت فرق ہوتا ہے ۔ شنید ادھورا سچ جبکہ دید مکمل حقیقت ہے ، ورنہ کسی گواہی کے لیے دید کو لازم قرار نہ دیا جاتا اور محض شنید سے کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں۔ مثال پیش خدمت ہے کہ ایک بار امام باقر علیہ السلام نے اپنے والد گرامی قدر امام زین لعابدین علیہ السلام سے عرض کیا ۔ ابا حضور کیا وجہ ہے جب بھی آپ کو پانی پیش کیا جاتا ہے ۔ آپ کی مبارک آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں ؟ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ، اے جاں پدر میں نے کربلا کو بچشم خود دیکھا ہے آپ نے نہیں کہ کر بلا تو دنیا میں ایک ہی برپا ہوئی ، جس میں آل رسول ؐ نے ایسی تابناک تاریخ رقم کی کہ رہتی دنیا تک ظالموں کے لیے عبرت اور مظلوموں کے لیے حوصلوں کے چراغ روشن کرتی رہے گی ۔ کربلاکی منظر کشی ممکن نہیں۔ تاہم گلشن زہرا سلام للہ علیہا کے مہکتے پھولوں کے مقام تسلیم و رضا کی بلندیوں پر فائر ہو کر قربان ہو جانے کو دیکھتے ہوئے بجا طور کہا جا سکتا ہے کہ
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
حوصلوں کی ایک نئی تاریخ فلسطین کی وہ مائیں بچے ، نوجوان اور بوڑھے رقم کر رہے ہیں ، کوئی گھر ایسا نہ ہو گا جہاں مظالم کے ایسے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں گے کہ انسانیت بھی شرمسار ہو کر منہ چھپاتی پھرتی ہو گی ۔ ایسی بے شمار مائیں ملیں کہ اپنے جگر گوشوں کو قربان کر کے بھی جن کے حوصلوں میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی بلکہ آل رسول ؐ سے بے پناہ عقیدت رکھنے والی ان مائوں کا کہنا ہے کہ ’’ ہم بچے پیدا ہی اسی لیے کرتی ہیں کہ وہ قبلہ اوّل کے تحفظ کے لیے قربان ہوں ‘‘۔ایک خاتون جس کاجوان بچہ شہید ہوا انہوںنے بڑے حوصلے سے کہا ‘‘ آپ نے کربلا میں حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا کردار نہیں دیکھا کل وہ ظالموں کے خلاف کوہ استقامات بن کر کھڑی ہوئی تھیں آج ان کی باندیاں اور کنیزیں کھڑی ہیں ، یہ طاقت کے نشے میں چور دیوانے اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے حوصلے توڑ سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے ۔ یہاں فرعون ، نمرود اور بزید نہ رہے تو یہ کیا ہیں ؟ہاں ہاں آج دنیا کے سارے وسائل اور طاقت ور قومیں انکے ساتھ ہیں لیکن فرعون کی طرح ان شااللہ یہ بھی نشان عبرت بنیں گے ۔ یہ جتنی چاہیں طاقت آزمالیں لیکن مت بھولیں کہ یہ نہ کل ہمارے حوصلے ٹوٹے تھے ، نہ آج ٹوٹے ہیں اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں یہ نسل فرعون ہمارے جذبوں کو مسمار کر سکے گی ، یہ جانتے نہیں کہ ہم حسینی ہیں اور ہماری رگوں میں غیرت مند لہو موجزن ہے ۔ ہم سرزمین انبیا کے وارث ہیں۔ قبلہ اوّل وہ مقدس مقام ہے جسے ہمارے آقا مولا حضرت محمد مصطفی ؐ کی نورانی جبین کو بوسے دینے کا شرف حاصل ہے ۔ سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تشریف لا کر اسلام کی منور تعلیمات کا وہ مظاہر ہ کیا کہ غیر بھی اس پر انگشت بد نداں رہ گئے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی للکار آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے ۔ ہم کسی سے بعض و عناد نہیں رکھتے اور صلے میں یہی کچھ چاہتے ہیں ۔ ہمارا کہنا ہے کہ جیسے دوسروں کو سکون سے زندگی گزارنے کا زندگی کا حق ہے ہمیں بھی اسی طرح زندہ رہنے کا حق فراہم ہونا چاہیے ، ہم امن پیارے رہنے کے متمنی ہیں ، ہم کسی سے بھی جنگ نہیں چاہتے تو پھر ہمیں کیوں اپنے گھروں سے نکالا جا رہا ہے ، ہماری زمنیوں ، ہمارے ابا واجداد کی جائیدادوں سے ہمیں بے دخل کرنے کا کیا مطلب ؟ ہمارے بچوں کی نسل کشی آخر کیوں ؟ اس کیوں کا جواب نہ اقوام عالم کے پاس ہے اور نہ مسلم حکمرانوں کے پاس کیونکہ طاقت کی آواز ہر کسی کو سنائی دیتی لیکن مظلوم کی سسکیاں سننے کو کوئی آمادہ نہیں !جن کو طاقت کا نشہ ہوتا ہے ان کے پاس شاید ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی انکے کان بہرے اور زبانیں غالباً گنگ ہو جاتی ہیں۔ آخری بات امت مسلمہ سے کہ 75سال سے زائد عرصہ گزر گیا عالمی طاقتوں کے در پر دستک دیتے ہوئے اور کوئی جواب نہ ملا تو کیا پھر بھی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ، آخر مسلمان ہیں کہاں وہ فلسطینیوں کی آواز میں آواز کیوں نہیں ملاتے ؟کیا فلسطین میں مرنے والے بچے انکے بچوں کی طرح نہیں ہیں، ان کی آہیں تمہیں سنائی نہیں دیتیں؟ آپ کہتے تو ہو کہ ہم فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ ہیں تو پھر مسلم ممالک کے حکمران کسی اور کی زبان کیوں بولتے ہیں وہ مسلم اُمہ ّ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے تو پھر کیا یہ بہتر نہیں کہ پہلے انہیں دریائے نیل، جدہ کے سمندر اور نہر فرات میں انکو بہا دیا جائے ؟57اسلامی ممالک کے حکمران تبدیل کرنے کے لیے باہر سے تو کوئی نہیں آئے گا یہ کار خیر خود ہی انجام دینا ہو گا اگر نیکی کرنے کی بھی ان میں طاقت جرات ہمت اور غیرت نہیں تو پھر خود مسلمانوں کو میدان عمل میں آنا ہو گا ورنہ ’’ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘۔
طاقتور و مت بھولو کہ اصل طاقت میرے اللہ کے پاس ہے ، فلسطینیوں کی آہ تم نہیں سنتے تو نہ سہی اللہ تو سن رہا ہے ،اصل اور اٹل فیصلے تو اسی مالک نے کرنے ہیں ۔ فلسطینی پوری امت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور کیا قبلہ اوّل صرف فلسطین والوں کا ہے امت کا نہیں ؟ ہر طرح کا ظلم سہنے کے بعد بھی وہ اس مقدس سرزمین کوچھوڑنے پر تیار نہیں۔ القدس کے جن گھروں میں وہ رہتے ہیں انہیں گھر کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اگر وہ چاہیں تو ان دڑبہ نما گھروں کی منہ مانگی قیمت وصول کر کے کسی بھی ملک میں جا کر آرام و آسائش کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ فلسطین کے حق میں یورپ ، برطانیہ ، امریکہ جو مظاہرے ہوئے وہ مسلم ممالک میںنہیں دیکھے گئے جو امت مسلمہ کے لیے ایک شرمناک سوالیہ نشان ہے ۔ کیا مسلم امہ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں