297

واقعہ کربلا اورعہد حاضر کے چیلنج


میدان کربلا شاید دنیا کا واحد وہ میدان ہے جہاں پرایک رفیع الشان عظیم باپ علیہ السلام نے اپنے لخت جگر اور دیگر عزیز و اقارب کو بے دردی کے ساتھ شہید ہوتے ہوئے دیکھا ۔یہ وہ واحد میدان ہے جہاں پر بہنوں نے اپنے عظیم بھائی علیہ السلام کو اپنی نگاہوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا ۔ یہ وہ واحد میدان ہے جہاں پر خواتین نے اپنے سہاگ اجڑتے ہوئے دیکھے ۔یہ وہ واحد میدان ہے جہاں محسنِ انسانیت ؐ کی آل کو ان کےنام نہاد امتیّوں نے بےدردی سےشہید کیا۔60ھ میں پیش آنیوالے اس اندوہناک سانحے کی تفصیل اور جزئیات بیان کرنے کی نہ مجھ میں ہمت ہے نہ یارا۔ہاں اس مظلوم شہید علیہ السلام کی شہادت امتِ مسلمہ کے لیے ایک مشعل راہ ہے ،راہنمائی ہےاور قافلہ حق کے لیے ایک ابدی حوصلہ۔
مجھے قلق اس بات کا ہے کہ عشروں سےملک خداداد میں جو سیاست ہو رہی ہے اس میں یزیدی ہوسِ اقتدار کارنگ نمایاں ہے، بہت سے کردار جو حسینی سیاست کا دعویٰ کرتے ہیں وقت کی کڑی آزمائشوں کے معمولی جھٹکوں کے بعد وہ بھی اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ یزید صرف اسلئے ناپسندیدہ نہیں کہ وہ بدکردار اور بدقماش تھااور شعائر اسلام کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا بلکہ اس کی بدبختی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس نے اس گلستان آرزو کو پائمال کردیا جسے محبوب خدا ؐ اور انکے بعد ابوبکر و عمر اور عثمان و علی ؓنے اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ اس نے ان اصول و نظریات کا مذاق اڑایا جن کی پرورش، غار حراءکی خلوتوں سے شروع ہوکر کفار مکہ کی ایذا رسانی، ہجرت مدینہ،بدرو حنین کے معرکوں فتح مکہ اور حجۃ الوداع کی جلوتوں تک آغوش نبوت میں ہوتی رہی۔ یزید نے ایثار صدیقی عدل فاروقی، امانت عثمانی اور دانش وشجاعتِ حیدری کے تاریخ ساز پیغمبرانہ تسلسل کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ خلافت کے ثمر بار درخت کو جڑوں سے اکھاڑنے کی کوشش کی اور اس کی جگہ اس شہنشاہیت کا بیج بو گیاجس کے چنگل سے چھڑانے کے لئے پیغمبرانِ ؑ نے کاوشیں فرمائی تھیں۔
آج بعض بے خبر لوگ معرکہ کربلا کو’’دو شہزادوں کی جنگ‘‘ قرار دے کر یزیدکو امام حسین علیہ السلام کے برابر لا بٹھانے کی احمقانہ سعی کرتےہیں، یہ لوگ اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن زہر تو زہر ہے اسکا ایک قطرہ بھی ماحول کی بے برکتی اور تلخی کے لئے کافی ہے۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ کہاں آغوشِ نبوت محمدی کے انوار، سیدنا علی المرتضیٰ کے جلال اورخاتون جنت سیدہ کائنات فاطمۃالزہراءکے وقار میں ڈھلا ہوا حسینی کردار اورکہاں انتقامی سیاست و عصبیت کی زہر آلود فضاؤں میں ابھرنے والا یزیدی خمار؟
امام حسین کی سربراہی میں اہل بیت سمیت 72 افراد کی تاریخ سازقربانی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان عظیم المرتبت شہداءکے خون نے منافقت کے چہرے سے پردہ چاک کردیا۔ واقعہ کربلا سے قبل اسلام کی مدمقابل قوت کو صرف کفر سے تعبیر کیا جاتا تھالیکن اسوہ شبیری نے اسلام کو نقصان پہنچانے والی دوسری بڑی قوت یعنی منافقت کو بھی طشت از بام کردیا۔ اس قربانی نے یہ بھی واضح کردیا کہ آئین حق اور اسوہ رسول ؐکو دربار شاہی کی رعونت و تکبر کی بھینٹ چڑھانے والے بھی اسی منافقت میں لت پت ہیں چاہے ان کا تعلق بنو امیہ کے بادشاہوںکے ساتھ ہو یاآج کے مطلق العنان مسلمان حکمرانوں کے ساتھ۔
شہادت امام حسین یوں تو ہر دور کے مسلمانوں کے لئے مینارہ نور رہی ہے اور اہل حق اس سے عشق و ایمان کے اسباق حاصل کرتے آئے ہیں مگر آج پھر کافر اور منافق حقیقی اسلام کے خلاف یکجا ہوچکے ہیں۔ منافقت کفر کی آلہ کاربن کر خرمن اسلام کو آگ دکھانے کے درپے ہے۔ عالم کفرکا سرغنہ انہی گماشتوں اورایجنٹوں کے ذریعے اسلام کو موثر سیاسی قوت بننے سے روک رہاہے۔ بیشتر مسلمان ممالک کے مطلق العنان حکمران ’’بادشاہت‘‘ کو قائم رکھنے کے لئے اسی عالمی استعمار کا سہارا لے رہے ہیں۔دور کیوں جائیں وطن عزیز کی سیاسی، معاشی اور تعلیمی ابتری کے اسباب پر ہی غور کریں توقدم قدم پر وہی کردار نظر آئیں گے۔ ریاست مدینہ کے بعد اعلائے کلمۃ الحق کی خاطرمعرض وجود میں آنے والی عظیم سلطنت پاکستان کو پہلے دو لخت کرنے اور اس کے وسائل لوٹنےوالےکیا یزیداور ابن زیاد سے کم ہیں؟ حریت و شہادت حسین کو اپنی پہچان سمجھنے والوں میں سے کتنے ہیں جو آج بھی ان ملت فروش سیاسی کرداروں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی جگہ کسی باکردار قیادت کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہی حال تمام اسلامی ممالک کا ہے۔ باطل طاغوتی قوتوں کے آلہ کار جگہ جگہ اقتدار پر براجمان ہیں اور ایسے براجمان ہیں کہ ان کی زندگی میں کسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر ان کے وزیرمشیر اور عوام کا لانعام ہیں کہ صبح و شام ان کے گرد محوِ طواف ہیں۔
آج پاکستان طالبان کے کابل فتح کرنے کے بعد بہت سے خطرات و خدشات اور چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔مشرقی و مغربی سرحدوں پر ہی نہیں اندرون ملک بھی فتنے سر اٹھا رہے ہیں ،عالمی سیاست میں بھی پاکستان کی سبکی سب پر عیاں ہے ۔انجمن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل عالمی تنازعات کے حل کے لیے وجود میں لایا جانے والا کلیدی بین الاقوامی ادارہ ہے۔ آج دنیا کے بڑے تنازعات والے علاقوںمیں فلسطین، کشمیر اور افغانستان سرفہرست ہیں۔ ہلاکت خیزی کے لحاظ سے افغانستان کی صورت حال سب سے زیادہ سنگین ہے جہاں طالبان اور سرکاری فوجوں میں جاری جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ان حالات میں سلامتی کونسل سے توقع تھی کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے خاطر سرگرم پاکستان اور دیگر ممالک کے تعاون سے اپنا کردار منصفانہ اور غیرجانبدارانہ طور پر ادا کرے گی تاکہ پائیدار امن کا ہدف جلد ازجلد حاصل کیا جاسکے۔لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ فلسطین اور کشمیر کی طرح افغانستان کے معاملے میں بھی سلامتی کونسل کا کردار امید افزاء نہیں ۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب میں اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ سرحد پار سے ہر قسم کی غیرقانونی آمد و رفت روکنے کیلئے پاکستان نے حفاظتی باڑلگائی ہے اور ویزا کی پابندی عائد کی ہے ۔ افغان امن کیلئے پاکستان کی کوششوں سے پوری دنیا واقف ہے اور اس کا بھرپور اعتراف کیا جاتا ہے۔ تاہم سلامتی کونسل کے بھارتی صدر نے افغان نمائندے کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا موقع دے کر اور پاکستانی مندوب کی درخواست کو مسترد کرکے اس پورے معاملے کو ایک سوچی سمجھی سازش کی حیثیت دے دی لیکن در حقیقت پاکستان کو بولنے کا موقع نہ دینا افغان نمائندے کے الزامات کے بے بنیاد ہونے کا کھلا ثبوت ہے، جھوٹ سچ کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا لہٰذا کوشش کی گئی کہ سچ کوسامنے ہی نہ آنے دیا جائے۔ دنیا میں امن و استحکام کے ذمہ دار سلامتی کونسل جیسے کلیدی ادارے کی اس روش کا انتہائی تشویشناک اور مایوس کن ہونا بالکل واضح ہے۔سلامتی کونسل کے دیگر ارکان خصوصاً ان پانچ ملکوں کو جو اس ادارے کے مستقل رکن ہیں، کونسل کا اعتبار اور وقار بحال کرنے کی خاطر موجودہ صدر کے اس رویے کا فوری نوٹس لینا اور اس کا ممکنہ ازالہ کرنے کیساتھ ساتھ آئندہ اس رویے کا سدباب یقینی بنانا چاہئے۔ دراصل موجودہ حالات میں صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو اسوہ شبیر علیہ السلام اپنانے کی ضرورت ہے ۔اسوہ شبیر علیہ السلام کیا ہےحق اور سچ کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دینا…….. خواہ وہ آل اولاد اور اپنی جان ہی کیوں نہ ہو ۔مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ دنیا بھر کو اسوہ شبیر علیہ السلام سے روشناس کرائےکہ اس دنیا کے تمام جھگڑوں،فسادات اور نفرتوں کو ختم کرتے کی دوا اسوہ شبیر علیہ السلام ہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں