404

فرانس میں لاہور کی پان دائے کیوں مشہور ہے ؟


دنیا میں کسی بھی شخص کو تب تک ارب پتی تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک ا س کی کشتی فرانس کے شہر سینٹ ٹروپاز(جسے فرانسیسی میں ساں تھوپا کہتے ہیں ) پر لنگر انداز نہیں ہوتی ۔اس شہر میں کوئی بھی گھر ایک ارب روپے سے کم کا نہیں اس لئے یہاں کا ہر شخص ہی ارب پتی ہے ۔لیکن یہاں کا پہلا ارب پتی ایک فرانسیسی جنرل الارڈ تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی “فوجِ خاص ” کا جنرل تھا ۔ 20 کمروں اور 20 سوٹ پر مشتمل ا س کا بنایا ہوا محل جسےاس نے اپنی ہندوستانی بیوی کے نام پر پان دائےمحل کا نام دیا تھا اب اس شہر کا فائیو سٹار ہوٹل ہے جہاں ہر ارب پتی ایک رات ضرور گزارنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ وہ فرانس اور پنجاب کے درمیان پروان چڑھنے والی محبت کی اس لازوال داستان کا لمس محسوس کر سکے ۔اس کی دیواروں پر اب بھی وہ پینٹنگز موجود ہیں جو جنرل الارڈ کےا نارکلی والے گھر کی ہیں۔

جنرل الارڈ اور پان دائےکی کہانی کیا ہے ؟ وہ پنجاب پہنچ کر رنجیت سنگھ کی فوج میں کیسے ملازم ہوا ؟ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے جس میں رومان بھی ہے ،ہیجان بھی ہے اور ہجرت کا پورا جہان بھی ہے ۔
جنرل الارڈ سینٹ ٹروپاز میں 1785ء کو پیدا ہوا جو تب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔1803ء میں جب وہ 18سال کا ہوا تو اس نے نپولین کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ا س کی خداد ادصلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نپولین نے اسے خاص اعزاز سے نوازا ۔ جب 1815ء میں واٹر لو کی جنگ میں نپولین کوشکست ہوئی اور اسے قید کر لیا گیا تو نپولین کے قریبی رفقاء کو بھینظر بند کر دیا گیا جن میں الارڈ بھی شامل تھاوہ نپولین کا نظریاتی ساتھی تھا ۔تین سال بعد جب اسے رہائی ملی تو فرانس میں نا مساعد حالات کی وجہ سے وہ اٹلی اپنے ماموں کے پا س چلا گیا جنہوں نے اسے نوکری کے لئے ایران کے ولی عہد عباس مرزا کے پاس حلب بھجوا دیا ۔الارڈ کچھ عرصہ ولی عہد کے خصوصی دستے میں رہا مگر الارڈ چونکہ برطانیہ کی نظروں میں تھا اس لئے عبا س مرزا نے برطانیہ کی مخالفت کے خطرے کے پیش نظر الارڈ سے معذرت کر لی ،جس کے بعد اس نے کابل کا رخ کیا جہاں نپلولین کا ایک اور جنرل وینچورا بھی موجود تھا ۔ الارڈ اور وینچورا نے کابل میں رہنے کی بجائے لاہور جانا مناسب سمجھاکیونکہ اینگلو افغان جنگ کی وجہ سے کابل میں بھی خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا ۔ایران میں رہ کر الارڈ نے فارسی سیکھ لی تھی اور جب مارچ 1822ء میں وہ جنرل وینچورا کے ہمراہ لاہور آیا تو دونوں نے رنجتم سنگھ کے وزیرخارجہ اور مشیر خاص فقیر عزیز الدین کی معرفت دربار تک رسائی حاصل کی ۔مہاراجہ اس وقت اپنی سرحدوں پر انگریز فوج کا خطرہ محسوس کر رہا تھا اس لئے اس نے پنجابی فوج کو یورپی خطوط پر استوار کرنے کے لئے انہیں نعمت خداوندی سمجھا ۔ دوسری جانب اسے یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں یہ جاسوس نہ ہوں اس لئے اس نے کوئی فیصلہ نہ کیا لیکن حکم دیا کہ انہیں لاہور سے نکلنے نہ دیا جائے ۔ تین مہینے ان کا مشاہدہ کرنے اور کافی سوچ بچار کے بعدرنجیت سنگھ نے ان کو ملازمت پر رکھ لیا دونوں کی تنخواہ 2500 روپیہ ماہانہ رکھی گئی ۔ جنرل ونچورا کو پیدل فوج اور جنرل الارڈ کو رسالہ کاجرنیل بنایا گیا ۔ فوج میں شمولیت پر رنجیت سنگھ تمام غیر ہندوستانی افراد سے حلف لیتا تھا کہ وہ یورپی طاقت کے حملے کی صورت میں پنجاب کے وفادار رہیں گے ،دربار کی اجازت کے بغیر وہ کسی یورپی حکومت کے ساتھ خط و کتابت نہیں کر یں گے ،انہیں داڑھی رکھنی ہو گی ، گائے کا گوشت نہیں کھائیں گے ،تمباکو نوشی نہیں کریں گے اور اگر شادی کریں گے تو ہندوستانی عورت کے ساتھ کریں گے ۔

جنرل الارڈ نے 40 ہزار پنجابی فوج کو تربیت دی اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا ۔اس کی تربیت اتنی سخت جان تھی کہ کئی فوجی بھاگ جاتے تھے اس نے کمانڈوز پر مشتمل ایک پلٹن خاص اور دوسری گھورکھا پلٹن قائم کی جن کی تعریف برطانوی جنرل ایڈورڈ نے بھی کی کہ یہ ایشیاء کی سب سے بہترین فوج ہے ۔1825ء میں پشاور اور ڈیرہ جات میں اور پھر 1827ء سے 1830 ء کے درمیان سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کے خلاف اس نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ جمرود پر افغان بادشاہ دوست محمد کے حملے میں خالصا فوج کا سربراہ ہری سنگھ نلوہ مارا گیا تو ا س کے بعد جنرل الارڈ نے ہی پشاور کی حفاظت یقینی بنائی ۔وہ ہمالیہ سے ملتان تک انگریز فوج کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا رہا ۔وہ جب تک زندہ رہا انگریز فوج پنجاب میں داخل نہیں ہو سکی ۔ اس نے پنجابی فوج کی وردینپولین کی فوج کی طرز پر بنوائی ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ جنرل الارڈ پر ا س حد تک اعتبار کرتا تھا کہ اس نے اپنے کمانڈودستے کی سالاری جنرل الارڈ کو دی جس کی تعداد 6000 تھی ۔ جنرل الارڈ مہاراجہ کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا ۔
مہاراجہ اور جنرل الارڈ کی قربت اس وقت رشتہ داری میں بدل گئی جب مہاراجہ نے اپنی رشتہ دار اور چمبا کے راجہ مینگا رام کی 12 سالہ بیٹی بانو پانڈے سے جنرل الارڈ کی شادی کرا دی ۔مارچ 1826ء میں ہونے والی یہ شادی دراصل اس دور میں شاہی خاندانوں میں دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے والی ایک شاہی روایت کا تسلسل تھی۔بانو پانڈے جسے فرانسیسی میں پان دائےکہتے ہیں وہ 1814ء میں پیدا ہوئی اور محض بارہ سال کی عمر میں بیاہی گئی ۔ اگلے آٹھ سالوں میں اس سے جنرل الارڈ کے سات بچے ہوئے ۔ پان دائےشہزادی تھی اور وہ پوری مشرقی تہذیبی روایت کے ساتھ جنرل الارڈ کے گھر آئی تو مغرب کے اس جرنیل کے دل کو ایسی بھائی کہ اس نے فارسی میں پان دائےکی محبت میں نظمیں تک لکھ ڈالیں ۔

الارڈ کی پہلی شادی سے ایک بیٹی میری شارلوٹ تھی جو اسے بہت عزیز تھی جسے اس نے اپنے پاس ہندوستان بلو الیا ۔میری شارلوٹ فرانس میں ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی مگر دوسری طرف وہ باپ تھا جس کی اس نے آٹھ سال سے شکل تک نہیں دیکھی تھی ۔کہتے ہیں کہ شارلوٹ ہندوستان آنے سے پہلے ایک راہبہ سے ملی جس نے اسے بتایاکہ تمہیں محبت نہیں ملے گی ہندوستان میں موت تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔یہی ہوا وہ ہندوستان آ ئی مگر 5 اپریل 1827ء کو اچانک انتقال کر گئی ۔ جرنل الارڈ کو ا س کی اچانک موت کاازحد صدمہ ہو ا اور اس نے 48 کنال کے احاطے میں مغل شہزادیوں کی طرح اپنی بیٹی کی قبر پرشاندار مقبرہ بنوایا جہاں شاندار باغ لگوایا جسے لاہور میں آج بھی کڑی باغ کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔الارڈ اپنی بیٹی کی اچانک موت پر سخت صدمے کا شکار ہوا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو اس کی نوجوان بیوی کو بھی ا س کے ساتھ ستی کر دیا جائے گا ۔اس لئے اس نے 1834ء میں اپنی بیوی بچوں کو فرانس منتقل کرنے کا پروگرام بنایا ۔ جنرل الارڈ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اجازت لی کہ وہ فرانس میں اپنے بچوں کی تربیت عیسائی کے طور پر کرنا چاہتا ہے ۔مہاراجہ راضی نہیں تھا اسے خدشہ تھا کہ الارڈ واپس نہیں آئے گا ۔ تاہم الارڈ نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف واپس آئے گا بلکہ فرانس سے جدید ہتھیار اور انگریزوں کے خلاف فرانسیسی بادشاہ کی مدد کا پروانہ بھی لائے گا جس پر مہاراجہ نے جانے کی اجازت دے دی ۔ جنرل الارڈ جب فرانس گیا تو ا س کی آؤ بھگت شاہی مہمان کے طور پر کی گئی ۔ فرانس میں الارڈ اور پان دائےکی شادی کی رسومات مذہبی طریقےسے چرچ میں ادا کی گئیں ۔ الارڈ نے فرانس میں پان دائےکے لئے ایک عالی شان محل بنوایا جس میں نہ صرف ہندوستانی طرز تعمیر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا بلکہ ا س میں ہندوستان سے لائے گئے فن مصوری کے شاہکار بھی آویزاں کئے گئے اس دور میں یہ سینٹ ٹروپاز کا سب سے شاندار محل تھا ۔ جنرل الارڈ نے دسمبر 1835ء میں فرانس کو الوداع کہا اور پھر دوبارہ وہ اپنے خاندان کو دیکھ نہیں سکا ۔

1938ء میں اسے پشاور میں جنرل اوتیبل کی مددکے لئے بھیجا گیا جہاں 23 جنوری 1839ء کو دل کا دورہ پڑنے سے اس کا انتقال ہوگیا۔مہاراجہ چونکہ خود بھی بیمار تھا اس لئے اسے یہ افسوسناک خبر نہیں دی گئی ۔ اس کی لاش لاہور میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لائی گئی ۔پشاور سے لاہور تک ہر فوجی چھاونی میں اسے گارڈ آف آنر دیا گیا ۔ جب اس کی لاش لاہور پہنچی تو شاہدرہ سے انار کلی تک تمام راستے میں فوجی کھڑے تھے جنہوں نے فائرنگ کر کے اپنے بہادر جرنیل کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اسے کری باغ میں وہیں دفن کیا گیا جہاں اس کی دو بیٹیاں دفن تھیں ۔
ادھر فرانس میں پان دائےکو ایک ہندوستانی شہزادی اور جنرل الارڈ کی بیوی ہونے کی حیثیت سے خصوصی رتبہ حاصل تھا وہاں کی اشرافیہ میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔کہتے ہیں کہ جب اسے جنرل الارڈ کے انتقال کی خبر ملی تو وہ ا س پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوئی ۔وہ بہت کھوئی کھوئی رہنے لگی ۔ ذہنی سکون کے لئے وہ چرچ جانے لگی اور پھر عیسائیت قبول کر کے رومن کیتھو لک فرقے میں داخل ہو گئی ۔ فرانس کے بادشاہ اور ملکہ نے اسے ایک خصوصی تقریب میں اپنی بیٹی کا خطاب دیا جس میں جنرل الارڈ کے دوست جنرل ونچورا بھی تشریف لائے ۔ 25 جولائی 1845ء کو پان دائےکی چھوٹی بیٹی فلس جس کی عمر دس سال تھی وہ بھی فوت ہو گئی ۔ اپنے خاوند اور بیٹی کی پے در پے موت کے صدموں کی وجہ سے پان دائےکا دل اب اس محل میں نہیں لگتا تھا جس کے ایک ایک پتھر پر جنرل الارڈ کی یادیں نقش تھیں ۔وہ ساحل سمندر پر بنے ایک اور گھر میں منتقل ہو گئی جہاں باقی عمر ا س نے جنرل الارڈ کو یاد کر کے گزار دی ۔ کہتے ہیں کہ وہ روزانہ شام کو ساحل سمندر پر بیٹھ جاتی اور آتی جاتی لہروں سے سوال کرتی کہ کسی نے جنرل الارڈ کا جہاز سمند ر میں ہندوستان سے آتے ہوئے دیکھا ہے ۔جب کوئی جواب نہ آتا تو سر شام آنسوؤں کی مالا لئے لوٹ جاتی اور پھر ساری رات سمندر کی طرف کھلی ہوئی کھڑکیوں میں بیٹھے تارے گنتے گزار دیتی ۔وہ چاہتی تو ہندوستان لوٹ سکتی تھی مگر الارڈ کی خواہش کے مطابق اس نے بچوں کی پرورش عیسائی طریقے سے کی ۔اس کے بچوں کی شادیاں فرانسیسی اشرافیہ کے خاندانوں میں ہوئیں ۔ بالآخر 13جنوری 1884ء کو سینٹ ٹروپاز میں ہندوستان کی یہ بے چین روح پرواز کر گئی مگر اس کے مقبرے پر جانے والے محبت کا وہ کرب محسوس کرتے ہیں جو لاہور سے فرانس تک پھیلا ہوا تھا ۔فرانسیسی حکومت نے شہر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ ، جنرل الارڈ اور پان دائےکے مجسمے نصب کئے ہیں۔پان دائےہوٹل میں نصب وہ تاریخی پینٹنگ بھی سیاحوں کا دل کھینچتی ہے جس میں انار کلی میں واقع گھر میں جنرل الارڈ اپنے خاندان کے ساتھ موجود ہے ۔ سینٹ ٹروپاز میں الارڈ فیملی کی اب پانچویں نسل رہتی ہے۔اس کا لکڑ پوتا ہنری پرووسٹ الارڈ شہر کا ڈپٹی میئر بھی رہ چکا ہے ۔وہ فرانسیسی میں لکھی گئی تین کتابوں کا مصنف بھی ہے جس میں سے ایک کتاب جنرل الارڈ پر بھی ہے۔ محبت کی اس لازوال داستان نے لاہور میں جنم لیا مگر یہاں کسی کو نہیں معلوم کہ “کڑی باغ ” کی کیا کہانی ہے ؟ مقبرہ انار کلی جہاں آج پنجاب کا سول سیکرٹریٹ ہے اسے فرانسیسی جنرل لارڈ اور ا س کی بیوی پان دائےکے لئے بنایا گیا تھا ۔فرانس والے لاہور میں جنم لینے والی محبت کی اس داستان کو دنیا بھر کے ارب پتیوں کو بیچ رہے ہیں او ر ہم یہ جانتے تک نہیں کہ اس داستان کا تعلق لاہور سے ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں