237

’’ بدلا ہوا نواز شریف ‘‘


یہ تو وہ نواز شریف نہیں جسے میں نے 1985ء میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اور پھر تین دفعہ بطور وزیراعظم پاکستان دیکھا تھا یہ وہ نواز شریف بھی نہیں جسے 1999ء میں وزارتِ اعظمیٰ سے ہٹا کر پہلے قید اور پھر سعودی عرب بھجوا دیا گیا ، یقینا یہ 2007ء والا نواز شریف بھی نہیں جس نے محترمہ و مرحومہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت سائن کیا تھا لیکن یہ تو 2017ء والا نواز شریف تھا جس نے اسٹیبلشمنٹ سے آخری لڑائی کا ارادہ کیا اور ابھی تک اپنے بیانئیے میں تبدیلی کی خواہش سے دور ہے۔ یہ وہ نواز شریف ہے جو Now or Never کی جنگ لڑنے کا مصمّم ارادہ کر چکا اور لغزش پا بھی نہیں ہے یہ وہ تجزیہ تھا جو گذشتہ ہفتے 13ستمبر کی سہ پہر میں لندن میں حسن نواز کے دفتر سے باہر آتے ہوئے میرے ذہن میں پنپ رہا تھا، جہاں میاں نواز شریف نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں سے ایک طویل نشست کی اس نشست میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اُن کی بھر پور مدللّ معاونت کی تھی ، سوال و جواب کے دوران ایک لمحے کیلئے بھی نہیں لگا کہ نواز شریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کے مابین کسی قسم کی Good cop Bad cop کی پالیسی کار فرما ہے حالانکہ ان کے سیاسی مخالفین ہمہ وقت ن سے ش اور ش سے م نکلنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں ۔ یوں لگا کہ میاں نواز شریف عمر کے اس حصہ میں بھی لمبی تان کر سو نہیں رہے بلکہ ،سیاسی قیلولہ ، میں ہیں اور اس کے بعد خود کو ایک اونچی سیاسی اُڑان کے لئے تیار کر رہے ہیں اور اگر چُپ ہیں تو
بقول اختر شمار
میں تو اس واسطے چُپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
پیر 13ستمبر 2021ء کو خاصے عرصہ کے بعد اس طرح سے تفصیلاً ملاقات میں صحافیوں نے بڑے کھلے انداز میں پاکستان کی حالیہ سیاسی اور بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال پر گفتگو کی۔ زیادہ تر معاملات تو وہی تھے جن پر گاہے بگا ہے نواز شریف اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بیانات میڈیا میں نظر آتے رہتے ہیں لیکن کچھ نئی باتیں بھی صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کیں ، مثلاً انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں پاکستان افغانستان کے ہر معاملہ میں دخل دے۔ (حالانکہ اس وقت حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی) لیکن یوں لگا کہ میاں نواز شریف حکومت کی اس بات سے متفق نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں بتا رہے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی پاکستان سے خوش کیوں نہ تھے ہم نے یہ بھی سوچنا ہے حالانکہ یہ دونوں صدور انڈیا سے تو خوش تھے ۔ میاں صاحب نے ایک اور ’تاریخی بحث ‘ پر بھی اپنا کلیئر موقف دیتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب الرحمان غدار تھا اور نہ ہی اس کے چھ نکات ملک دشمنی پر مبنی تھے بلکہ ہم نے (مغربی پاکستان ) بنگالیوں کو الگ ہونے پر مجبور کیا جس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ انہوں نے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیوں اور حکومت کی طرف سے نیا آرڈینینس لائے جانے پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے سول سوسائیٹی اور صحافیوں سمیت دیگر ملکی اداروں کو موجودہ نظام کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب یا اپیل بھی کی ۔
صحافیوں کے ساتھ حالیہ ملاقات میں میاں نواز شریف کے دائیں بائیں اُن کے دیرینہ ساتھی اور مسلم لیگ برطانیہ کے صدر او ر سینیٹ الیکشن میں ناکامیاب رہنے والے زبیر گل ، جج ارشد ملک کی وڈیو سے شہرت پانے والے ناصر بٹ بھی موجود تھے اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی جو میاں صاحب کے رائٹ ہینڈ بھی ہیں انہوں نے صرف پاکستان میں چند سال پہلے اور حالیہ معاشی حالات پر سیر حاصل گفتگو اور موجود ابتر معاشی صورتحال کی بہتری پر تجاویز دیں بلکہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ تو چاہتی ہے پاکستان میں فوری عام انتخابات کروا دیئے جائیں کیونکہ اب اس سے زیادہ ابتر حالات اور کیا ہوں گے !! اس ملاقات میں مجھے ایک لمحہ کیلئے بھی یوں نہیں لگا کہ میاں نواز شریف کی حالیہ خاموشی کے پس پردہ میڈیا پر ان کے بیانات یا وڈیو پر لگنے والی پابندی کے علاوہ بھی کچھ اور ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ خاموشی کسی مواقف موقع اور حالات کے انتظار میں ہے ۔ اس ملاقات میں نواز شریف نے ’ پاپا جونز پیزا ‘ کا ذکر کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ پر بھی تنقید کی کہ ان کی انکوائری کیوں نہیں ہوتی پوچھا جائے ان کے پاس یہ سرمایہ کہاں سے آیا ، تین دفعہ وزارت اعظمیٰ کی بھول بھلیوں اور غلام گردشوں سے نکل کر میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں حالیہ پاکستانی سیاست میں ان کے ہم پلہ کوئی نہیں شائد اسی لئے اب وہ کسی قسم کے مفاہمتی داؤ پیچ کی بجائے مزاہمتی ایجنڈے کو تقویت د ے رہے ہیں شائد انہیں قوی امید ہے کہ اُن کی مزاہمت کامیاب ہو گی اور وہ ’ ووٹ کو عزت دو ‘ والے اپنے نعرے کو حقیقت کا رنگ دینے یا دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
صحافیوں سے ہونے والی اس ملاقات میں چند سوال جو میاں صاحب سے کسی صحافی نے نہیں کئے کہ اگر آرمی چیف جنرل قمر باوجوہ کی ایکٹینشن ’’ پی ٹی آئی ‘‘ نے کی ہے تو پھر مسلم لیگ نے اس کی حمایت کیوں کی حالانکہ اُس وقت نہ تو سرحدوں پر ایسی کوئی ’ جنگی ‘ صورتحال تھی اور نہ ہی اندرون ملک ہی ایسے کوئی خطرناک حالات تھے جن کا قلع قمع ضروری تھا ؟ یہ سوال بھی نہیں ہوا کہ میاں صاحب اگر آپ ججوں کو مینج کرنے پر آج تنقید کرتے ہیں تو کیا یہ روایت پرانی نہیں ہے اور کیا ماضی کی اس روایت پر آپکو افسوس ہے ؟ہم نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ اگر ان حالات میں آپ پاکستان گئے تو آپ کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے ؟ایک اور بات جو اس ملاقات کے بعد مجھے شدت سے محسوس ہوئی کہ میاں نواز شریف کو حکمران جماعت یا ان کے دیگر ناقدین خواہ کچھ بھی کہتے رہیں وہ اپنے آپ میں مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ پاکستان کے عوام بھی ان کے بیانئے کے ساتھ اور بین الاقوامی سطح پر جمہوری قوتیں بھی ان کی حمائتی ہیں اور آخر کار وہ وقت آئے گا جب ان کے اسی نقطہ نظر کی جیت ہو گی جو 1999ء یا کلی طور پر 2017ء میں انہوں نے پوری شدت کے ساتھ اپنایا اور جس پر وہ سختی کیساتھ قائم ہیں اور آئندہ بھی پر اس پر ’ پہرہ ‘ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اب سمجھتے ہیں کہ اپنی حکومت یا اقتدار بچانے کیلئے کی جانے والی مفاہمت بے فائدہ اور نقصان دہ ہے اور اب انتخابات میں شفافیت ہی وہ واحد حل ہے جس کے بعد تمام ملکی اداروں میں بھی عدل و انصاف قائم ہو سکے گا ۔ یقینا پاکستان کا ہر جمہوریت پسند ادارہ اور عوام اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں بشرطیکہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں بھی یہی رویہ اپنانے کا تہیہ کر لیں ۔میاں نواز شریف نے امتداد زمانہ اور چالیس سال سیاست میں خامہ فرسائی کے بعد جہاں بہت سے سیاسی اسباق حاصل کئے ہیں وہاں ایک سبق میل ملاقات کے ضمن میں بھی لیا ہے جو انہو ں نے یقینی طور پر عمران خان سے لیا ہے جس کا تذکرہ اظہار تفنن یہاں ضروری ہے ، وہ یہ کہ صرفہ کیا جائے اور ماضی کی اچھی روایات کی بجائے ظہرانوں ، عصرانوں اور عشائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے چاء پانی پر ہی اکتفا کیا جائے!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں