سجاداظہر
برطانیہ کی آبادی تقریباً چھ کروڑ اسی لاکھ ہے جس میں سے جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد تقریباً 80 ہزار ہے جو کل آبادی کا 0.088 فیصد بنتی ہے ۔یعنی دس لاکھ میں سے 167 افراد جیلوں میں مختلف سزائیں بھگت رہے ہیں ۔ جرائم میں ہونے والے اضافوں کو دیکھتے ہوئے خیال کیا جا رہا ہے کہ 2026ء تک یہ تعدا د بڑھ کر 98700 ہو جائے گی ۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 35 لاکھ ہے جو کل آبادی کا تقریباً4.5 فیصد ہے برطانیہ میں اسلام ، مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے ۔ برطانیہ کے محکمہ انصاف کے مطابق جیلوں میں مسیحوں کی تعداد 35255ہے۔ وہ افراد جو کسی عقیدے کے پیرو کار نہیں ان کی تعداد 24540جبکہ مسلمانوں کی تعداد 13724ہے ۔جیلوں میں بدھ مت کے پر وکاروں کی تعداد 1606، سکھوں کی تعداد ،538، یہودیوں کی تعداد 515 اور ہندوئوں کی تعداد341ہے ۔اس طرح جیلوں میں قید مسلمانوں کی تعداد کل قیدیوں کے تقریباً 15 فیصد بنتی ہے ۔ یعنی برطانیہ کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد اپنی آبادی کی اوسط سے تقریباً دس فیصد زیادہ ہے ۔ لندن جو آبادی کے لحاظ سے برطانیہ کا سب سے بڑا شہر ہے اس میں مسلمانوں کی آبادی 14.4 فیصد ہے لیکن لندن کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد27 فیصد ہے یعنی یہاں بھی وہ اپنی آبادی سے 12.6 فیصد زیادہ ہیں ۔
کیا اس کی وجہ غربت ہے ؟
46 فیصد مسلمان برطانیہ کے دس پسماندہ ترین علاقوں میں رہتے ہیں جہاں وسائل کم ہیں اور غربت زیادہ ہے ۔ملازمت کے کم مواقعوں کی وجہ سے وہ جرائم پر مائل ہوتے ہیں ۔ ہالم یونیورسٹی شفیلڈ کی ایک تحقیق کے مطابق معاشی طور پر فعال (16سے 74سال ) مسلم آبادی میں سے ہر پانچ میں سے صرف ایک شخص برسرروزگار ہے یعنی مسلمانوں کی کل آبادی میں سے صرف 19.8فیصد کام کرتے ہیں ۔ جبکہ برطانیہ میں یہ شرح 39.9 فیصد ہے ۔صرف چھ فیصد مسلمان ایسے ہیں جو انتظامی یا پروفیشنل پیشوں سے منسلک ہیں جبکہ برطانیہ میں مجموعی طور پر یہ شرح دس فیصد ہے ۔اس کی ایک وجہ ان کا کم پڑھے لکھا ہونا بھی ہے سولہ سال سے زیادہ عمرکے صرف چوتھائی مسلمانوں کے پاس لیول فور یا اس سے اوپر کی ڈگری ہے ۔’’مسلم ان پرزن پراجیکٹ ‘‘کے ایڈوائزر اشتیاق احمد نے بتایا کہ مسلم آبادی میں بھی جیلوں میں قید سب سے زیادہ شرح جس کمیونٹی کی ہے وہ پاکستانی ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی پہلی دو نسلوں نے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانا اور اس کے عوض پاکستان میں اثاثے بنانا اپنا مقصد جانا جس کی وجہ سے وہ اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر سرمایہ کاری نہیں کر سکے اور وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ۔اب وہ جلد از جلد کامیابی کے لئے جائز و ناجائز طریقے جب استعمال کرتی ہے تو جرائم بھی سرزد ہو تے ہیں ۔
خواتین مسلمان قیدی بھی زیادہ :
برطانوی جیلوں میں قید مسلمان خواتین کی تعداد تین سو کے قریب ہے جن کے جرائم کے پیچھے ان کے مرد رشتہ دار ہیں یعنی کسی کے سامان میں منشیات برآمد ہو گئی جس کا پتہ خاتون کو نہیں تھا ایسی خواتین کل قیدیوں کا 40 فیصد ہیں ۔ صوفیہ بنسی جنہیں ملکہ برطانیہ نے جیلوں میں قید مسلمان خواتین کے لئے کام کرنے پر آرڈر آف برٹش ایمپائر کا خطاب بھی دیا ہوا ہے ۔انہوں نے 2013ء میں ایک منصوبہ ’’مسلم ویمن ان پرزن ‘‘ شروع کیا ۔انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ برطانوی جیلوں میں خواتین کی کل تعداد تقریباً تین ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سے سات فیصد خواتین مسلمان ہیں ۔ ان کے زیادہ تر جرائم نے غربت اور پسماندگی سے جنم لیا ہے مثال کے طو ر پر کسی کے گھر میں ٹی وی لائسنس نہیں ہے تو گھر میں خواتین ہی ہوتی ہیں اور پولیس انہیں ہی گرفتار کر کے لے جاتی ہے یا پھر انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کا خاوند منشیات میں ملوث ہے تو اس وجہ سے بھی وہ قانون کی گرفت میں آ جاتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ یارکشائر کی جیلوں میں مسلمان عورتوںمیں زیادہ تر تعداد پاکستانی عورتوں کی ہے اور ان کے جرائم کی نوعیت بھی زیادہ تر معمولی نوعیت کی ہے ۔تاہم یہاں کے حکام کا خیال ہے کہ آنے والے دس سالوں میں مسلمان خواتین کی جیلوں میں تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہو جائے گا ۔
اسلامو فوبیا بھی ا س کی ایک وجہ :
برطانیہ کے ہوم آفس نے ملک بھر میں گزشتہ سال ہونے والے ان جرائم کی تعداد 6377 بتائی ہے جن کے پیچھے مذہبی منافرت کارفرما تھی ۔ان میں سے آدھے جرائم کا ہدف مسلمان تھے ۔ بریڈ فورڈ میں قائم ادارے کیو ای ڈی فائونڈیشن کے بانی چیف ایگزیکٹوڈاکٹر محمد علی او بی ای نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلمانوں کے بارے میں ایک تاثر بن گیا ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں یا پھر یہ بچوں کے ساتھ جنسی تعلق میں ملوث ہیں ۔اس لئے جس جج کے پا س مسلمانوں کا کیس جاتا ہے وہ انہیں اُن کیسوں میں بھی جیل بھیج دیتا ہے جس کی عمومی نوعیت معمولی سزا کی ہوتی ہے ۔ جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کے پیچھے ایک وجہ اسلامو فوبیا بھی ہے ۔حالانکہ گزشتہ دس سالوںمیں صرف 175 مسلمان قیدی ایسے ہیں جو دہشت گردی کی وجہ سے جیلوںمیں بند ہیں ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی پچاس فیصد آبادی کی عمریں 25سال سے کم ہیں اور ان میں بیروزگاری کی شرح 23فیصد ہے جبکہ برطانیہ میں یہ شرح 11 فیصد ہے ۔ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کہ جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد اس لئے بھی زیادہ ہے کہ 30 فیصد قیدی ایسے ہیں جو جیل میں جا کر مسلمان ہوئے ہیں ۔
صادق خان لندن کے میئر بننے سے پہلے شیڈو منسٹر تھے تو انہوں نے کہا کہ وائیٹ مور اور کیمبرج شائر کی جیلوں میں 43 فیصد قیدی مسلمان ہیں جب یہ تعداد سامنے آتی ہے تو مسلمانوں کا مجموعی تاثر مجروح ہوتا ہے ۔ جیلوں کی سابق انسپکٹر ڈیم اینی اوور نے وائیٹ مور جیل کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’’ایک تاثر بن گیا ہے کہ جیلوں میں مسلمان قیدیوں کے گینگ بنے ہوئے ہیں جو ساتھی قیدیوں کو زبردستی مسلمان بناتے ہیں ‘‘۔برطانیہ کی جیلوں کے پہلے مسلم ایڈوائزر مقصود احمد او بی ای نےبتایا کہ برطانوی جیلوں کا مقصد قیدیوں کو سدھارنا اور انہیں راہ راست پر لانا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے جیل میں قیدیوں کو اپنے اپنے مذہب کا چیپلن مہیا کیا جاتا ہے جو ان کی روحانی و علمی رہنمائی کرتا ہے ۔مسلمان چیپلن بھی وہاں نمازیں پڑھاتا ہے جسے ورکشاپ کہا جاتا ہے لیکن اسے تبلیغ کی اجازت نہیں ہوتی ۔البتہ قیدی خود مطالعہ کر کے اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر کے مذہب تبدیل کر سکتا ہے ۔لیکن جب اس رجحان کو میڈیا میں بیان کیا جاتا ہے تو اس سے اسلامو فوبیا کو فروغ ملتا ہے ۔