163

’’ابراہم معاہدہ ‘‘


امریکی صدر جوبائیڈن نے گذشتہ ہفتے مشرق و سطی کے ممالک کا دورہ کیا ، یقینا یہ وُہ مشرق وسطی نہیں جو ٹھیک ایک سال پہلے تھا کیونکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں ہونے والے ’’معاہدہ ابراہم‘‘ نے مشرق وسطی کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ جو بائیڈن نے 13سے 15جولائی کو ناصرف یروشلم کا دورہ کیا بلکہ اسرائیل اور اس کے مغربی کنارے میں فلسطینی ہیڈ کوار ٹر کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیراعظم یائرلیپڈ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کیں 15 جولائی کو صدر جوبائیڈن سعودی عرب پہنچے اور 16 جولائی کو واپس امریکہ روانہ ہو گئے ۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ دورے سے قبل صدر محمود عباس اور ’’ حماس ‘‘ کی اعلیٰ قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ اسرائیل ا ورامریکہ کی مشترکہ کوشش ہے کہ خطے کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات ہی نہیں عوامی سطح پر بھی تعلقات میں بہتری آئے یہ دونوں ممالک کا پلان ہے کہ معاہدہ ابراہم مشرق وسطی، سعودی عرب اور ان ممالک تک بھی پھیلے جو اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں ۔
معاہدہ ابراہام اسرائیل اور امریکہ کی ثالثی سے 15ستمبر 2020ء کو وائٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا، ابتدا میں اس معاہدے پر ’’ متحدہ عرب امارات ‘‘ اسرائیل ، بحرین ، سوڈان اور مراکش نے دستخط کئے ، معاہدہ ابراہم کا بنیادی مقصد دنیا میں بالعموم اور مشرق وسطی میں بالخصوص امن کا ماحول قائم کرنا ہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے ۔ اب قطع نظر اس بات کے کہ فلسطین نے اس معاہدے پر دستخط کئے کیا انہوں نے دستخط کرنے سے پہلے فلسطینی قیادت یا عوام کے اعتماد میں لیا تھا یا نہیں ؟ لیکن اس کے باوجود معاہدہ ابراہم کے بعد خلیجی ریاستوں اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں خاصی گرمجوشی دیکھنے میں آئی اور سفارتی تعلقات قائم ہونے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے ، اگر چہ سعودی عرب جس نے بظاہر تو اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے لیکن پس پردہ معاہدہ ابراہم اور دیگر امن معاہدوں کی حمایت ضرور کی ہے یہاں تک کہ سعودی عرب نے اسرائیل کی ائر لائنز کو اپنی فضائی حدود سے نہ صرف گزرنے بلکہ مفت گزرنے کی سہولت دے دی ہے ۔ اسی طرح سوڈان نے بھی اسرائیلی پروازوں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے اور اُردن نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر اسرائیلی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق دونوں ممالک کے سویلین اور فوجی طیاروں کو ایک دوسرے کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہو گی ۔
لگتا ہے اسرائیل اور امریکہ نے بڑی سوچ بچار کے بعد مذکورہ معاہدے کا نام تجویز کیا ہے کیونکہ یہ نام حضرت ابراہیم سے منسوب ہے اور دنیا کے تینوں سامی مذاہب حضرت ابراہیم کو مشترکہ طور پر مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا یہ بات قارئین کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں مزید اسلامی ممالک بھی اس معاہدے پر دستخط کریں گے اور یہ حقیقت بھی قرین قیاس نہیں کہ اب بحرین کا تیل ہو یاخلیجی ممالک کی دولت اب اس کا بہاؤ بغیر کسی رکاوٹ کے اسرائیل کی طرف بہے گا ۔ گو کہ ملکوں کی درمیان دوستی اور امن و آتشی کے رشتے استوار ہونا خوش آئند بھی ہے اور عام لوگوں کی خوشحالی کا ضامن بھی لیکن آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ چپقلش رکھنے والے فریقین براہ راست مذاکرات کے بعد کسی امن معاہدے پر پہنچیں ۔ ’’ ابراہم معاہدے ‘‘ کے معمار اب انڈونیشا کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں کیونکہ انڈونیشیا مسلمان آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی خارجہ پالیسی بھی یہی ہے کہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کئے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے مزید یہ کہ فلسطین کی 1967ء والی سرحدوں کو بحال کیاجائے ، اگرچہ سعودی عرب کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ شیروشکر بھی ہو ہا ہے ۔
معاہدہ ابراہم سے پہلے بھی ماضی میں اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ سفارتی تعلقات کیلئے کوئی کوششیں ہو چکی ہیں اور پاکستان کی کئی حکومتیں پس پردہ اسرائیل کی طرف دوستی ہاتھ بڑھانا چاہتی بھی تھیں لیکن کئی قسم کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے یہ بیل منڈے نہیں چڑھ سکی لیکن کیا ہمیں علم ہے کہ رواں سال کے شروع میں جب اسرائیلی وزیر خارجہ نے بحرین کا پہلا اور تاریخی دورہ کیا اس کے بعد بحرین میں قائم امریکی فوجی اڈے ففتھ نیول فلیٹ کی قیادت میں مشرق وسطی میں سب سے بڑی فوجی مشقیں ہوئی تھیں ، اسرائیلی امریکی اور دیگر کئی مسلمان ملکوں کی بحریہ سمیت کئی ان ممالک کی فوج نے بھی ان مشقوں میں حصہ لیا جو فلسطین کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ اس سے سفارتی تعلقات رکھتے ہیں اور میڈیا کے مطابق ان ممالک میں سعودی عرب اور پاکستان کی بحریہ بھی شامل تھیں ۔ پاکستان اسلامی دُنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے اور پاک اسرائیل تعلقات سے متعلق پاکستان کا ہمیشہ یہ کہنا رہا ہے کہ اسرائیل فلسطین اور عرب ریاستوں سے بعض معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کر لے گا ۔ چنانچہ ’’معاہدہ ابراہم ‘‘ کے تحت اگر انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لے تو یقینا یہ اسرائیل کی بڑی کامیابی ہو گی اور اس کے بعد پاکستان اکیلا کہاں کھڑا ہو گا ؟ کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کی حتی الوسع کوشش ہو گی کہ پاکستان جیسے مسلمان ایٹمی ملک کیساتھ سفارتی اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں