399

برطانیہ میں’’ حلالہ ‘‘ کا شرمناک بزنس

بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر متعدد ادارے مطلقہ مسلم خواتین سے حلالہ کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول رہے ہیں۔ یہ خواتین ایک اجنبی سے شادی کرنے اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے بعد اسے طلاق دے کر واپس اپنے پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے یہ رقم ادا کر رہی ہیں۔ فرح (فرضی نام) جب 20 سال کی تھیں تو خاندانی دوستوں کے ذریعے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں کے بچے بھی ہوئے، ۔ فرح نے بی بی سی کے کو بتایاکہ پہلی بار میرے شوہر نے پیسوں کے لیے بدسلوکی کی۔ فرح نے کہا: وہ مجھے بالوں سے بال پکڑ کر گھسیٹتے ۔ وہ کئی مواقع پر پاگلوں کی طرح برتاؤ کرنے لگتے۔ان بدسلوکیوں کے باوجود فرح کو امید تھی کہ حالات بدل جائیں گے لیکن ان کے شوہر کے رویے میں سختی آتی گئی اور پھر ایک دن ان کے شوہر نے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ انھیں طلاق دے دی۔ فرح بتاتی ہیں: میں گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ تھی اور وہ کام پر تھے۔ ایک شدید بحث کے بعد انھوں نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا- طلاق، طلاق، طلاق۔یہ بعض جگہ مسلمانوں میں مروج شادی کو ختم کرنے کا ایک ہی نششت میں تین طلاق کا نظام ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے تاہم برطانیہ میں یہ جاننا تقریبا ناممکن ہے کہ کتنی خواتین کو تین طلاق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرح نے کہا: میرا فون میرے پاس تھا۔ میں نے یہ پیغام اپنے باپ کو بھیج دیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی شادی اب ختم ہو گئی۔ تم اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ فرح کا کہنا ہے کہ وہ بری طرح گھبرا گئی تھیں، لیکن وہ اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی تھیں۔ فرح کا کہنا ہے کہ وہ ان کی زندگی کا پیار تھا۔ فرح نے کہا کہ ان کے سابق شوہر کو بھی اس طلاق پر افسوس تھا اور اپنے سابق شوہر کو حاصل کرنے کے لیے فرح نے حلالہ کے متنازع نظام کی جانب قدم بڑھایا۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ حلالہ واحد طریقہ ہے جس کے سہارے دو طلاق شدہ پھر سے آپس میں شادی کرنا چاہیں تو شادی کر سکتے ہیں۔ حلالہ کے بعض معاملوں میں اقتصادی طور پر ان کا استحصال کیا جا سکتا ہے، بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس چلن کے سخت خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں طلاق سے منسلک قوانین کی ذاتی طور پر غلط تشریح کی جا رہی ہے۔ لیکن بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سی آن لائن سروسز کے ذریعہ حلالہ کو انجام دیا جا رہا ہے اور بہت سے معاملات میں خواتین سے عارضی شادی کے لیے ہزاروں پاؤنڈ وصول کیے جا رہے ہیں۔ فیس بک پر ایک آدمی نے حلالہ سروس کی تشہیر کی تھی۔ اس سے بی بی سی کی ایک انڈر کور رپورٹر نے ایک مطلقہ مسلم خاتون کے طور پر ملاقات کی۔ اس شخص نے کہا کہ ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عوض وہ اس سے شادی کر سکتا ہے اور پھر ہم بستری کے بعد اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ اپنے پہلے خاوند سے دوبارہ شادی کر سکے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ اور کئی لوگ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک نے تو ایک خاتون سے شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بی بی سی نے جب اس شخص سے ملاقات کی تو اس نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلالہ کی کسی شادی میں ملوث نہیں اور اس نے جو صفحہ بنایا ہے وہ محض تفنن طبع اور سماج کی نبض کو جاننے کے لیے ہے۔ اپنے پہلے شوہر سے ملنے کے اضطراب میں فرح نے ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس سے شادی کرے اور پھر اسے طلاق دے دے تاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ فرح نے کہا: ‘میں ایسی لڑکیوں کو جانتی تھی جو خاندان سے چھپ کر اس کے لیے آگے بڑھی تھیں اور ان کا کئی ماہ تک استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے لیے وہ ایک مسجد میں گئی تھیں جہاں انھیں مخصوص کمرے میں لے جایا گيا تھا اور وہاں انھوں نے اس خدمت (حلالہ) کو فراہم کرنے والے امام یا دوسرے کسی شخص کے ساتھ ہم بستری کی اور پھر دوسروں کو بھی ان کے ساتھ سونے کی اجازت دی گئی۔ لیکن مشرقی لندن میں اسلامی شریعہ کونسل جو خواتین کو طلاق کے مسئلے پر مشورے دیتی ہے وہ سختی کے ساتھ حلالہ کی مخالف ہے۔ اس تنظیم کی خولہ حسن نے کہا: یہ جھوٹی شادی ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اور مجبور خواتین کا استحصال ہے۔انھوں نے مزید کہا: یہ مکمل طور پر حرام ہے۔ اس کے لیے اس سے سخت لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے دوسرے طریقے ہیں، مشاورت ہے۔ ہم لوگ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے جو بھی ہو لیکن آپ کو حلالہ کی ضرورت نہیں۔فرح نے آخر میں طے کیا کہ وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نہیں جائیں گی اور نہ ہی حلالہ کا راستہ اپنائیں گی۔ تاہم فرح نے متنبہ کیا کہ ان جیسی صورتحال میں بہت سی عورتیں کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں گی۔ وہ کہتی ہیں: جب تک آپ اس ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوئے ہیں اور آپ کو طلاق نہیں ہوئی ہے اور اس درد کو نہیں سہا ہو جو میں نے سہا ہے تو آپ کسی خاتون کی اضطراب کو نہیں سمجھ سکتے۔اب ہوش کے عالم میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ میں اپنے شوہر کو واپس پانے کے لیے کسی کے ساتھ سونے کو تیار نہیں ہوں۔ لیکن ایک خاص مدت کے دوران میں اپنے شوہر کو واپس حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھ—— اسلام کرہ ارض پر وہ واحد دین ہے جس نے ازدواجی زندگی سے متعلق معاملات اور قوانین کو آخری الہامی کتاب میں جمع کرکے رہتی دنیا کے لیے ہدایت کا بندوبست کردیا ہے چنانچہ بیوی کے شوہر پر حقوق ہوں یا شوہر کے اہل خانہ پر فرائض یا پھر گھریلو ناچاقیوں اور پیچیدہ تنازعات کا حل ہو ہر دور کا مسلمان ان قوانین سے مستفید ہورہا ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا طلاق کا معاملہ ہو یا طلاق کے بعد نان نفقہ، وراثت اور اولاد سے جڑے معاملات کی پچیدگی ہو قرآن میں مفصل انداز سے درج ہے اور یہ وہ پچیدہ مسائل ہیں جسے جدید دنیاوی قوانین اور عدالتی نظام بھی نبھاتے ہوئے بھی قاصر نظر آتے ہیں کہ ایسا ہی ایک مسئلہ حلالہ ہے شریعت کی رو سے اگر میاں بیوی میں طلاق واقع ہوجائے تو دونوں میں رجوع کی صورت حلالہ رہ جاتی ہے، حلالہ اس صورت حال کا نام ہے جب مطلقہ بیوی کسی اور شخص کے نکاح میں بندھ جائے اور پھر کسی ناگہانی اور غیر متوقع طور پر دوسرے شوہر سے بھی طلاق ہوجائے یا وہ انتقال کرجائے تو ایسی صورت میں عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ عاقبت نا اندیش لوگ حلالہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور حلالہ کے نام پر نہ صرف یہ کہ جعلی شادیوں اور معینہ مدت کے نکاح کرائے جا رہے ہیں بلکہ اس کام کے لیے طے شدہ رقم بھی بٹوری جا رہی ہے۔انٹرنیٹ کی سہولیات کے عام ہونے کے بعد سے کاروباری ذہنیت رکھنے والے ایسے لوگوں نے آن لائن حلالہ کے نام پر معصوم خواتین کو اپنے شکنجے میں پھانس کر قابل اعتراض کام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے پیسے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی واقعہ میں ایک شخص نے فرح کو اپنے پہلے شوہر سے رجوع کرنے کے لیے حلالہ کرانے کا راستہ بتایا اور اس کے لیے اپنے آپ کو رقم کے عوض پیش کیا تاہم خاتون نے اس طریقہ کار کو اپنانے سے انکار کردیا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جہاں عالم دین نے ’’ مذکورہ طریقہ حلالہ‘‘ کو حرام قرار دیا۔۔تاہم جب اس شخص سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر یہ صفحہ محض طبع مزاح کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس سارے افسانے میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ اس نے کسی خاتون کو حلالہ کی پیشکش کی ہے۔مذکورہ شخص کی وضاحت اپنی جگہ مگر خاتون کے دلائل زیادہ پختہ نظر آتے ہیں اور اسی سے ملتے جلتے کئی اور واقعات بھی سننے میں آتے رہے ہیں جس پر علمائے کرام نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مذموم کام کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ بی بی سی نے ابھی برطانیہ میں آن لائن حلال کے گھناؤنے کاروبار کی نشاندہی کی ہے تاہم دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ کام کھلم کھلا جاری ہے۔پاکستان میں یہ کام آن لائن ہونے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات موصول نہیں تاہم دیگر معاشرے میں حلالہ جان پہچان یا رقم کے عوض خاموشی کے ساتھ کیے جانے کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں