200

برطانیہ میں حلالہ کے نام پر زیادتی کے واقعات

اسلام کرہ ارض پر وہ واحد دین ہے جس نے ازدواجی زندگی سے متعلق معاملات اور قوانین کو آخری الہامی کتاب میں جمع کرکے رہتی دنیا کے لیے ہدایت کا بندوبست کردیا ہے چنانچہ بیوی کے شوہر پر حقوق ہوں یا شوہر کے اہل خانہ پر فرائض یا پھر گھریلو ناچاقیوں اور پیچیدہ تنازعات کا حل ہو ہر دور کا مسلمان ان قوانین سے مستفید ہورہا ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا طلاق کا معاملہ ہو یا طلاق کے بعد نان نفقہ، وراثت اور اولاد سے جڑے معاملات کی پچیدگی ہو قرآن میں مفصل انداز سے درج ہے اور یہ وہ پچیدہ مسائل ہیں جسے جدید دنیاوی قوانین اور عدالتی نظام بھی نبھاتے ہوئے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ایسا ہی ایک مسئلہ حلالہ ہے شریعت کی رو سے اگر میاں بیوی میں طلاق واقع ہوجائے تو دونوں میں رجوع کی صورت حلالہ رہ جاتی ہے، حلالہ اس صورت حال کا نام ہے جب مطلقہ بیوی کسی اور شخص کے نکاح میں بندھ جائے اور پھر کسی ناگہانی اور غیر متوقع طور پر دوسرے شوہر سے بھی طلاق ہوجائے یا وہ انتقال کرجائے تو ایسی صورت میں عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ حلالہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور حلالہ کے نام پر نہ صرف یہ کہ جعلی شادیوں اور معینہ مدت کے نکاح کرائے جا رہے ہیں بلکہ اس کام کے لیے طے شدہ رقم بھی بٹوری جا رہی ہے۔
انٹرنیٹ کی سہولیات کے عام ہونے کے بعد سے کاروباری ذہنیت رکھنے والے ایسے لوگوں نے آن لائن حلالہ کے نام پر معصوم خواتین کو اپنے شکنجے میں پھانس کر قابل اعتراض کام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے پیسے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک واقعہ برطانیہ میں مقیم فرح نامی خاتون کے ساتھ پیش آیا جنہیں ان کے غصیلے اور تشدد پسند شوہر نے معمولی جھگڑے کے بعد تین طلاقیں دے دیں جس پر خاتون نے علیحدگی اختیار کر لی لیکن شوہر کی ندامت اور ضد کی وجہ سے دوبارہ رجوع کرنے پر رضامند ہو گئیں۔انہوں ںے اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی ربطے کی ویب سائٹ پر ایک شخص سے رابطہ کیا جو خواتین کو حلالہ کی سہولت فراہم کرنے کا دعوی دار تھا۔اسلامی نظریاتی کونسل نے اس طریقہ حلالہ کو حرام قرار دیا
مذکورہ شخص نے فرح کو اپنے پہلے شوہر سے رجوع کرنے کے لیے حلالہ کرانے کا راستہ بتایا اور اس کے لیے اپنے آپ کو رقم کے عوض پیش کیا تاہم خاتون نے اس طریقہ کار کو اپنانے سے انکار کردیا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جہاں عالم دین نے ’’ مذکورہ طریقہ حلالہ‘‘ کو حرام قرار دیا۔حلالہ کرنے والے کئی خواتین سے متعدد افراد نے زیادتی کی
فرح نے برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے کو بتایا کہ ایسی کئی خواتین ہیں جو یہ طریقہ کار اپنانے پر مجبور ہوئیں اور اپنے آپ کو اس شخص کے بتائے ہوئے طریق پر کار بند کیا جہاں ان خواتین کے ساتھ دیگر لوگوں نے زیادتی کا عمل کیا لیکن اب وہ خواتین خوف اور عزتیں پامال ہونے کے ڈر سےاس گھناؤنے عمل کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہیں۔
تاہم جب اس شخص سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر یہ صفحہ محض طبع مزاح کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس سارے افسانے میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ اس نے کسی خاتون کو حلالہ کی پیشکش کی ہے۔مذکورہ شخص کی وضاحت اپنی جگہ مگر خاتون کے دلائل زیادہ پختہ نظر آتے ہیں اور اسی سے ملتے جلتے کئی اور واقعات بھی سننے میں آتے رہے ہیں جس پر علمائے کرام نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مذموم کام کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ بی بی سی نے ابھی برطانیہ میں آن لائن حلال کے گھناؤنے کاروبار کی نشاندہی کی ہے تاہم دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ کام کھلم کھلا جاری ہے۔پاکستان میں یہ کام آن لائن ہونے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات موصول نہیں تاہم دیگر معاشرے میں حلالہ جان پہچان یا رقم کے عوض خاموشی کے ساتھ کیے جانے کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔
حلالہ کا کیا مطلب ہے؟ کیا ایسا کرنا درست ہے؟حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی-بخاری شریف کے مطابق :۱) اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے، اور تین طلاق واقع ہوکر بیوی اس پر حرام ہوجائے تو اُس شخص کو نہ حق رجعت باقی رہتا ہے اور نہ ہی تجدیدِ نکاح بغیر حلالہ شرعیہ کا استحقاق ہوتا ہے، البتہ مطلقہ عورت کو حق حاصل ہوجاتا ہے کہ بعد انقضائے عدت علاوہ تین طلاق دینے والے شخص کے جس سے چاہے اپنا عقد ثانی کرلے اور اُس کے ساتھ حُسن معاشرت سے گذربسر کرے باقی اگر دوسرا شوہر بعد جماع کے بقضائے خداوندی وفات پاجائے یا بعد ہمبستری کے کسی وقت طلاق دے اور بہرصورت عدت مکمل گذرجائے تب عورت کو پھر اپنے نکاحِ کا حق حاصل ہوجاتا ہے اُس وقت اگر عورت چاہے اور تین طلاق دینے والے پہلے شوہر کی بھی مرضی ہو تو نکاح ہوسکتا ہے جب باقاعدہ شرعی طریقے پر نکاح ہوجائے گا تو عورت اس شخص کے حق میں حلال ہوجائے گی اگر عورت دوسرے شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد عدت مکمل ہوجانے پر کسی تیسرے شخص سے نکاح کرے یہ بھی اُس کو حق ہے اور کسی سے نہ کرے اُس میں بھی بحق عورت کچھ مضائقہ نہیں، الغرض شرعاً عورت اپنے معاملہ میں بحق نکاح ہرطرح آزاد ہے اُس پر کوئی جبر نہیں ہے کہ وہ پہلے شوہر ہی سے نکاح کرے ہاں جب نکاح باقاعدہ ہوجائے گا تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی اور پہلے شوہر کے حق میں حلال ہونے کا اس کے علاوہ تین طلاق واقع ہوجانے کی صورت میں کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، یہ حلالہ ہے۔(۲) جو صورت تفصیل نمبر ایک کے تحت لکھ دی اس صورت سے عمل میں آجاتا ہے۔(۳) اگر بہ وقت عقد باقاعدہ طے کرکے اور منصوبہ بند طریقہ پر کوئی کرتا ہے تو یہ موجب لعنت ہے اور نمبر ایک کے تحت لکھی گئی تفصیل کے مطابق حلالہ ہوجائے تو وہ لعنت کا سبب نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں