146

مغرب میں مسلمانوں کا کردار

مغرب میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے اسلامی ممالک سے تعلیم یا بہتر روزگار کی تلاش کے لیے اپنی مرضی سے ایک بڑے وسیع غیرمسلم معاشرے میں اقلیت کی حیثیت سے آباد ہورہے ہیں۔ آج وہاں پر مسلمان،برطانیہ میں ٦ ٪ یورپ کی آبادی کا ۳ فی صد اور امریکا کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں۔ اس ضمن میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ انھیں نہ تو وہاں پر زبردستی جانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور نہ انھیں وہاں محکومیت کا سامنا ہے۔ دوسرے یہ کہ نقل مکانی کرکے یہاں آنے والے مسلمانوں کی دوسری نسل اور مقامی مسلمانوں کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کے متعلق مغرب میں ان امور پہ مکالمہ زوروں پر ہے کہ: ان ممالک میں ایک اقلیت کی حیثیت سے کیسے گزربسر کی جائے؟ اس مخلوط تہذیبی ماحول میں کس انداز سے سماجی زندگی گزاری جائے، اور دیگر مذاہب یا مقامی لوگوں سے تعلقاتِ کار کی کیا حدود ہیں؟ یہاں کے سیاسی عمل میں کیسے شرکت کی جائے؟ ان ممالک کی افواج میں شمولیت وغیرہ یہ اس نوعیت کے بنیادی مسائل ہیں جن کے متعلق عام لوگ، علما، مفکرین اور دانش ور، خواتین اور حضرات، بحث و مباحثے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کچھ علما اور مفکرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو بحیثیت اقلیت، اپنے قواعدوضوابط خود وضع کرلینے چاہییں۔ اس کے برعکس مغرب میں موجود بعض قابلِ ذکر علما اور مفکرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ان ممالک میں خود کو اقلیت سمجھنے کا خیال ترک کردینا چاہیے، کیونکہ اسلام کا پیغام، آفاقی ہے۔ اس لیے اگر مسلمان خود کو اقلیت سمجھتے رہیں گے تو وہ نفسیاتی طور پر ہمیشہ ایک ایسی حالت میں گرفتار رہیںگے، جہاں وہ بحیثیت مسلمان ایک تابع مہمل اور دبی دبی کیفیت کا شکار رہیںگے، اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے، اور یوں اکثریت سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ بلاشبہہ مسلمان عددی لحاظ سے اقلیت میں ہیں، لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اپنے وجود اور اپنے عمل سے معاشرے کے لیے ایک تعمیری حصہ ثابت ہوں۔ وہاں پر ان کا یہی کردار دعوتِ اسلام کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو۔ جو مسلمان، ان غیرمسلم معاشروں میں بحیثیت اقلیت زندگی گزار رہے ہیں، ان کے متعلق نظریاتی اور فکری سطح پر ایک نیا ماحول اور فضا تشکیل پارہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہاں پر مسلم اہلِ علم دارالحرب اور دارالاسلام پر بحث کے بجاے دارالصلح (ہم آہنگی کی سرزمین)، دارالامن (امن کی زمین)، دارالعہد (معاہدے کے تحت سکونت کی زمین) اور دارالدعوہ (وہ سرزمین جہاں تبلیغ کی جاسکے) جیسے نئے تصورات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شناخت اور پہچان کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جارہی ہیں، مثلاً مسلمانوں کو امریکی مسلمان کہنا چاہیے یا مسلم امریکی کے نام سے پکارنا چاہیے۔ اس تہذیبی منظرنامے کی دوسری خصوصیت ’مسجد کا کردار‘ ہے۔ اکثر مسلم ممالک کی مساجد، نمازِ پنجگانہ کی ادایگی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں تو مساجد سرکاری یا ریاستی اوقاف کے زیرانتظام ہیں، بعض ممالک میں مساجد سیاسی نوعیت اختیار کرگئی ہیں اور انھیں غیرجمہوری حکومتوں، عوام کی محرومیوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کرنے کے مراکز کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ بہرحال، مغرب، خاص طور پربرطانیہ یا امریکا میں، مسجد ایک اسلامی مرکز کی حیثیت سے ایک نیا کردار اختیار کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر جگہ اور سماجی تقاریب کے لیے جگہوں (venues) کی کمی کے باعث، مسجد، جملہ اسلامی تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بنتی جارہی ہے۔ان تقاریب میں نمازِ پنجگانہ ،مذہبی و دینی تعلیم، جداگانہ طور پر مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے باہم تبادلۂ خیال، میل جول اور نکاح کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے کے میدان، تفریحی مقامات اور نوجوانوں کے لیے عمارت کے اندر کھیلوں کے لیے جگہیں مخصوص ہیں۔ بعض اوقات ایک بڑی مسجد کے احاطے میں بنیادی طور پر ورزشی کھیلوں کے لیے ایک بڑا کمرہ اور ایک ریستوران واقع ہوتا ہے، تاکہ نوجوانوں کو صحت بخش سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے، جب کہ نماز کی ادایگی کے لیے مخصوص بڑا کمرہ، تعمیر کردہ عمارت کے ایک ذیلی حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ مزیدبرآں کھیلوں کے لیے مخصوص بڑا کمرہ (جمنیزیم) نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں مساجد، سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال ہورہی ہیں۔ گرجاگھروں کے طالب علم یا پادری اکثر نمازِ جمعہ کے دوران میں مساجد کا دورہ کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی مقامی غیرمسلم رہنمائوں، مثلاً سیاست دانوں، پولیس انسپکٹروں یا مقامی تعلیمی بورڈ کے انتظامی عہدے داروں کو اپنے ہاں مسجد میں مدعو کرتے ہیں۔ پھر نمازِ جمعہ کے بعد عام طور پر تین قسم کے اعلانات ہوتے ہیں، مثلاً گاڑی غلط طور پر کھڑی کرنے اور گاڑی کھڑی کرنے کے آداب کے متعلق، خواتین، مردوں اور نوجوانوں کے آیندہ اجلاس کے متعلق، اور کانگرس کے کسی رکن، کسی متوقع رکن یا ناظم شہر کے متعلق جو مسلمانوں سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔
بڑے اسلامی مراکز میں سماجی سرگرمیوں کے لیے معقول اور اچھی طعام گاہیں موجود ہیں۔ مسلمان عام طور پر انھیں شادی، منگنی یا سالگرہ کی تقریبات کے لیے کرایے پر دے دیتے ہیں۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسجد جو مرکز اسلامی کا ایک حصہ ہوتی ہے نوجوانوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کے لیے گہرے اطمینان، سکون اور تشفی کا باعث ہو۔ نیوجرسی کی ایک مسجدمیں ۳کروڑ ڈالر کی لاگت سے پانچ سالہ توسیعی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بزرگ شہریوں کے لیے ۳۰ گھر بھی تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ بڑی عمر کے بے شمار افراد کو اسلامی مراکز اور مساجد کی سرگرمیوں میں شامل کیا جاسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں