380

پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کی برطانیہ میں دینی و ملی خدمات

تحریر:قاضی اشتیاق احمد

پیکر رشد ہدایت ہر دور میں اور ہر سوسائٹی میں کچھ ایسی شخصیات کا ظہور ہوتا ہے جو اپنی دور بینی ، اجتماعی سوچ ، انسانی ہمدردی ، اور ناروا ماحول کے فتنوں، اختلافات اور رکاوٹوں سے بالاتر ہوکر ، اپنی آرام و آسائش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ،صرف اللہ تعالیٰ کے قرب ورضا کی خاطر اور آقا نامدار ای ایم کی محبت میں محو ہو کر انسانی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر دور میں ہوتے تو کم ہیں لیکن اُن کے آثار بہت وسیع اور دیر پا ہوتے ہیں۔ وہ ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو زمانوں تک انسانیت کے لیئے مشعل راہ کا کام دیتے ہیں۔ پیرسید معروف حسین شاہ قادری نوشاہی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں۔ جو دیار غیر میں روزگار کی تلاش میں آئے تو ضرور لیکن اس کو زندگی کا مقصد نہ جانا بلکہ اس کو دینی فرائض کی تکمیل کا ایک ذریعہ بنایا۔ جہاں اوروں نے معاش کی بہتری کو نصب العین بنایا، پیرسید معروف حسین شاہ صاحب نے اللہ اکبر اور یا رسول اللہ کے پر چار کے لئے مساجد اور دینی مدارس بنانے کی راہ اختیار کی اور عشق رسول اور اُسوہ رسول کے پر چار کو حاصل زندگی سمجھتے ہوئے اس راہ پر مستعدی سے گامزن ہو گئے اور آج بھی اسی ولولے کے ساتھ متحرک ہیں۔ نہ آرام کی پرواہ اور آسائش کی طلب ، بس لوگوں کے دلوں میں آقا کی عشق و محبت ر چادوں کے جذبے اور لگن میں محو .
بچپن
پیر سید معروف حسین شاہ کی پیدائش 20 جون 1936 کو ہوئی۔ 1954 میں مٹیرک مکمل کرنے بعد مدرسہ دار العلوم اہلسنت جہلم میں دینی تعلیم کے حصول کی لیئے داخلہ لیا۔ ایک سال کے بعد 1955 راولپنڈی میں مدرسہ غوثیہ میں داخلہ لیا۔ 1956 تا 1961 دار العلوم احسن المدارس راولپنڈی میں دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1961 میں ہی برطانیہ آنے کا سفر کیا۔ 26 اپریل 1961 لندن ہیتھرو ائیر پورٹ پر اتر کر برمنگھم پہنچے اور دو ماہ کے بعد 10 جون 1961 کو بریڈ فورڈ کومسکن بنایا اور اس طرح اہلیان بریڈ فورڈ کو آپ کی قیادت کی سعادت نصیب ہوئی۔
برطانیہ آمد
بریڈ فورڈ میں آتے ہی 27 جون کو Oxenhope نز کیتھلے مل میں ملازمت اختیار کی اور دینی کام کے ساتھ ساتھ 25 سال کے طویل عرصہ تک رات کی شفٹ بھی کی ۔ یہ ایک مرد مومن کا ہی کرتب ہو سکتاہے۔
دینی مساعی
1963 میں ساتھیوں سے مل کر جمعیت تبلیغ الاسلام کی بنیاد رکھی اور 30 جنوری 1966 میں مسجد قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیئے 27 فروری کو ساوتھ فیلڈ سکویئر بریڈ فورڈ 8 میں مکان نمبر 68 خریدنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں 6 مارچ کو مکان نمبر 69 کو مسجد کی توسیع کی خاطر خریدنے کا بھی فیصلہ کر ڈالا ۔ 19 مارچ کو مسجد کی پلاننگ ملنے کے ساتھ ہی مسجد کا کام باقاعدگی سے شروع کر دیا اور نماز با جماعت انعقاد کرنے کے لیئے حافظ محمد بشیر المعروف حافظ مصری خان کو باضابطہ امام مقرر کیا۔ پچاس اور ساٹھ دہائی میں پاکستان/ آزاد کشمیر سے لوگوں نے روزگار کی خاطر برطانیہ کا ایک بڑی تعداد میں رخ کیا۔ پیر سید معروف حسین شاہ صاحب نے بھی برطانیہ آنے کا مستحکم ارادہ کیا اور یہاں آتے ہی پہلے سے موجود لوگوں کے تعاون اور رہنمائی سے رہائش اور روزگار کا انتظام تو ہو گیا اور قابل قبول آمدنی بھی شروع ہو گئی ، لیکن یہاں آئے ہوئے پاکستانیوں اور کشمیریوں کا دین سے لا پروائی اور بے حسی نے اُن کو بے چین کر دیا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ آپ کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا اور یہاں آنے سے پہلے خود بھی دینی مدارس کے طالب علم تھے۔ یہ دینی چنگاری کیونکر آپ کو چین سے بیٹھنے دیتی ۔ آخر کاراس نے اپنا کام کر ہی دکھایا۔ اور زادہ راہ کمانے کے ساتھ ساتھ دین کے کام کی شروعات کر دی۔ بتدا میں دوستوں احباب کے طعنے بھی سننے پڑے۔ کیونکہ اکثر کا مشن کام صرف کام تھا۔ کم سے کم وقت میں اتنا پیسہ جمع کر کے ملک واپسی ہو سکے ۔ لیکن ایسا ہو نہ ہو سکا اور نہ ہونا تھا۔ پیر صاحب نے اس حقیقت کو شائد جلد ہی بھانپ لیا تھا۔ یہ ہی وہ احساس اور حس ہے جس کو ہم اندر کی لوح سے تعبیر کرتے ہیں ، جو اللہ کے خاص بندوں کو دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ یہی ان کی فراست و وراثت ہوتی ہے۔ جوان کو قدرت سے خاص ورثہ میں ملتی ہے۔
الْحُبُّ لِله
پیر صاحب نے اپنے اس ورثہ کی مستعدی سے حفاظت کی اور فروغ دیا۔حضرت پیر صاحب نے اسلام کی ترویج کو زندگی کا مشن بنایا اور یہ کام اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق رسول صلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ رسول اللہ لی ایم کی اطاعت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت اور یہی حکم الہی بھی ہے۔ اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ لہذا جس نے رسول اللہ صلی لا الہ سلم کا دامن پکڑ لیا اس نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ لیا، جو رسول اللہ صلی یا یتیم کی امان میں آگیا وہ اللہ تعالیٰ کی امان میں آ گیا اور جسے رسول اللہ لا لا یتیم کا قرب مل گیا اس کو قرب الہی مل گیا۔ اسی لیئے پیر صاحب نے سرور کونین سے مضبوطی کے ناطہ کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنایا، اب عشق رسول صلی سیم کاعملی پہلو اسوہ رسول ملایا کہ ان کی پیروی ہے اور قرآن کی بھی یہی تلقین و تعلیم ہے۔ کیونکہ اسوہ رسول صلی ما اینم سے افضل تم بڑ کر زندگی کا کوئی اور معیار نہیں اور جس کا اطاعت الہی کے بغیر کوئی اور مقصد نہیں :
اللہ بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یادکرے۔
مسجد کی اہمیت
قرآن میں خالق کل ہمیں ہدایت کرتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کی وجہ صرف اور صرف اُس کی عبادت ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُو الذاريات :57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
لہذا اہتمام عبادت کے لئے مساجد کی تعمیر فریضہ اول ہے۔ تا کہ رسول ملا پریتم کی پیروی میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو سکیں اور اللہ کی عبادت کے حقیقی مفہوم کا ادراک کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اسلام جہاں بھی گئے اور جس مقصد کے لیئے بھی گئے مسجد کا انعقاد اولین فرصت میں کیا۔ مدینہ میں مسجد قبا عالم اسلام کی پہلی مسجد میں یہی درس پنہا ہے۔ آقا اصلی ایم نے بھی ہجرت مدینہ میں سب سے پہلے مسجد بنانے کا اقدام کیا۔ اس سنت کے اقتدا میں یمن سے آئے ہوئے مسلمانوں نے برطانیہ کی سرزمین لیور پول میں سب سے پہلے مسجد کا ہی قیام کیا۔ کیونکہ مسجد دین اسلام میں منبع رشد و ہدا ہیت ہے۔ امت میں اجتماعیت کا مرکز ہے اور قرب الہی اور قرب رسول صلی یہ تم کا بنیادی ذریعہ ہے ۔ بریڈ فورڈ میں بھی پہلے پہل آنے والے مسلمانوں نے بھی مسجد کے اہتمام کو ہی قولیت دی۔
بریڈ فورڈ میں دینی مساعی کا آغاز
پیر صاحب نے بھی اپنے مشن کی ابتدا مسجد کے قیام سے ہی کی کیونکہ مسجد کے بغیر قرب الہی اور اسوہ رسول کو اپنا نا مکمن نہیں ہے۔ مسجد اہل ایمان کی شناخت ہے۔ اور اگر مسلمانوں کو اپنی دینی شناخت کو قائم رکھنا ہے تو پھر مساجد کا قائم کرنا لازمی ہوگا. پیر صاحب اس احساس اور سوچ کو اجاگر کرنے کی سعی کی اوراس مشن کے فروغ کے لیئے وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی پرفتن ماحول کے باوجود اپنی سوچ کو عملی شکل دینے کے لیئے میدان میں آگئے۔ دیکھتے دیکھتے یہ تحریک جو اس مرد مومن نے بریڈ فورڈ سے شروع کی تھی ، اس نے زور پکڑا اور برطانیہ کے ہر شہر میں جہاں جہاں مسلمانوں کا قیام تھا مساجد قائم کرنے کو ترجیح دینا شروع کر دیا ۔ اس تحریر کے لکھتے وقت صرف بریڈ فورڈ میں 130 کے قریب مساجد اور دینی ادارے دین کے فروغ و سر بلندی کے لیئے متحرک ہیں اور برطانیہ میں کوئی دو ہزار کے الگ پلگ مساجد قائم ہو چکی ہیں۔ پیر صاحب کی اپنی تشکیل دی ہوئی تنظیم جمعیت تبلیغ الاسلام کے سر پستی میں 18 مساجد اور منسلک ادارے دین کی خدمت میں عمل پیرا ہیں۔ بلکہ صرف بریڈ فورڈ اور برطانیہ میں ہی نہیں ، پیر صاحب نے یورپ کے مختلف ممالک میں بھی مساجد کے قیام کو عمل میں لایا جس میں ہالینڈ اور فرانس قابل ذکر ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی برحق ہے کے برطانیہ میں اکثر جید مشائخ اور علمانے پیر صاحب کی پلیٹ فارم سے ہی اپنے کام کا آغاز کیا اور آج اپنے اپنے انداز میں دین کی خدمت میں سرانجام ہیں۔ یہ سب نوشاہی فیض کے نتیجے میں ہی ہے۔
مساجد کے قیام سے مسلمانوں میں ایک دینی اعتماد آ گیا۔ اور اپنی آنے والی نسلوں کی دینی بقا کا احساس کے ساتھ اس کے لیئے پیش رفت کرنے کا اعتماد پیدا ہوا۔ آج برطانیہ میں مساجد آباد ہیں ، لاکھوں کے لیئے دین سے وابستگی کا ذریعہ ہیں۔ مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب استفادہ کر رہے ہیں۔ مساجد کی دین کے پر چار میں مرکزی حیثیت ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ برطانیہ میں غیر مسلموں کا اسلام میں شامل ہونے کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان تمام پہلوں کا ایک شاندار پس منظر ہے جس میں پیر صاحب کی چلائی ہوئی تحریک بنیادی اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔
فیملیز کی آمد اور مسائل
1970 کے عشرہ میں پاکستان اور کشمیر سے فیملیز کا آنا شروع ہوا ۔اس سے پہلے 1950 اور 1960 کے عشروں میں آنے والے کی اکثریت مرد تھے جن کا برطانیہ میں آنے کا مقصد صرف روزگار کی تلاش تھی یہ ارادہ لے کر کہ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد واپسی اختیار کریں گے لیکن یہاں کے حالات نے انھیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں کے ہی ہو کر رے گئے ۔اس حقیقت نے اُن میں اپنی بیویوں اور بچوں کو بلانے کا احساس پیدا ہوا اور فیملیز کا آنا شروع ہو گیا۔ 1970 کے آخر تک بریڈ فورڈ کے سکولوں میں مسلمان بچے ایک خاصی تعداد دیکھنے کو آئی ۔ جس کی وجہ سے مسلمان والدین کے لیئے چند پہلو شدت سے تشویش کے باعث بنے مثلاً :
1۔ سکولوں میں مذہبی تعلیم عیسائیت تک محدود تھی اور مسلمان والدین خواہش تھی کے سکولوں کے نصاب میں اسلام کو بھی شامل کیا جائے.
2 ۔سکولوں میں جو بچوں کو انچ کا کھانا دیا جاتا تھاوہ حلال نہیں تھا جس کی وجہ سے مسلمان بچے کھانے سے محروم رہتے تھے۔ یہ مسلمان والدین کی نظر میں سراسر نا انصافی تھی ۔ لہذا اُن کی خواہش تھی کہ سکولوں میں حلال کھانوں کا باقاعدگی کے ساتھ انتظام ہو.
1023 سکولوں میں انگریزی کے علاوہ یوروپین زبانوں کو پڑھایا جاتا تھا۔ پاکستانی / کشمیری والدین کا تقاضا تھا کہ اردو اور دیگر زبانوں کی تعلیم کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے تا کہ پاکستانی / کشمیری بچوں کواپنی زبانوں اور ثقافت کے ساتھ مضبوط تعلق رہے۔
پہلے دو تقاضے خالص دینی تھے۔ لیکن مسلمانوں کے پاس کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں تھا جو ایک آواز سے ان مسائل کے حل کیلئے متعلقہ اداروں سے بات چیت کا ادراک کر سکے۔ پیر صاحب نے اس کمی کو شدت سے محسوس کیا اور عمر حیات واڑ یچ ۔ حاجی شیر اعظم ، ناظم نقوی ، حنیف انصاری ، عبدالحق پانڈور ، حاجی طرفدار ۔ جو شہر میں اُس وقت کی چند اہم دینی اور مساجد سے منسلک شخصیات تھی۔ کے ساتھ مل کر کونسل برائے مساجد کی تشکیل کی۔ یہ برطانیہ میں تمام عقائد پر مشتمل پہلی مشترکہ پلیٹ فارم تھا۔ یہ بھی ایک تحریکی عمل ثابت ہوا۔ بریڈ فورڈ کی پیش رفت رنگ لائی اور دیکھتے دیکھتے دیگر شہروں میں اس نوعیت کی مشترکہ تنظیم بندی کا سلسلہ عمل میں آنا شروع ہو گیا۔
اجتماعیت کے لئے سعی
1980 کے عشرہ کے اوّل میں کونسل برائے مساجد کی کوشش سے سکولوں میں اسلام کو مذہبی نصاب میں شامل کیا گیا۔ مسلمان بچوں کو حلال کھانا مہیا ہونا شروع ہو گیا اور اردو اور دیگر کمیونٹی زبانوں کو نصاب میں شامل کر لیا گیا۔ یہ اہم اقدام تھے ۔ مسلمانوں کی اس تگ و دو سے دوسری مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو مراعات بھی ملنی شروع ہو گئی اور وہ مسلمان کمیونٹی کی مرعون منت نظر آنے لگے۔ اس سے مسلمانوں میں بھی خود اعتمادی بڑی اور غیر ہونے کے احساس میں مثبت کمی آئی اور برٹش سوسائٹی کا ایک اہم حصہ ہونے کے احساس کو فروغ ملا۔
کونسل برائے مساجد کی تشکیل کی وقت بریڈ فورڈ میں 17 مساجد تھی ۔ اس تحریر کے لکھتے وقت 130 سے زائد شہر میں دینی دارے متحرک ہیں اور کونسل برائے مساجد کی پلیٹ پر مسلمان اجتماعی مسائل پر تعاون کر رہے ہیں ۔ پیر صاحب نے اپنے عقائد کو مضبوط بنیاد بناتے ہوئے اجتماعی کوششوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور یہ ثابت کر دکھایا کے مسلمان اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہ کر بھی اجتماعی کاموں میں تعاون کر سکتے جو کہ زمانے کی ضرورت ہے۔
سنگ میل
مسلمانوں کی اپنے دین کلچر اور ثقافت کے تحفظ کی اس تحریک کے خلاف انگریز کمیونٹی کی بعض حلقوں میں نسلی تعصب کی بنیاد پر سخت مخالفت کی گئی تھی جو کے Honeyford Affaire کی شکل میں سامنے آئی۔
رے ہنی فورڈ (Ray Honeyford) بریڈ فورڈ کے ایک لوکل سکول ( ڈرمنڈ ) جس میں مسلمان بچوں کی تعداد بانسبت انگریز بچوں سے زیادہ تھی 1984 میں ہیڈ ٹیچر تھا۔ با قول ہنی فورڈ کے ،جس کا اظہار اس نے چند چھپی ہوئی تحریروں میں کیا تھا ، انگریزوں کا کلچر، رہن سہن اور ثقافتی قدرمیں ایشیا اور افریقہ سے آئے ہوئے لوگوں سے افضل اور بہتر ہیں لہذا ایسی کم ترین قدروں کو سکولوں میں رائج کرنا انگریزوں کی قدروں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
رے ہنی فورڈ کے خلاف مسلمان اور دوسرے والدین نے مل کر سخت احتجاج کیا اور ایک دیر پا تحریک عمل میں لائی گی۔ مسلمان اور دوسرے والدین کا مشترکہ موقف کے مطابق ہنی فورڈ کا سکول کا ہیڈ ٹیچر رہنا نا مناسب ہے لہذا اسے سکول سے ہٹایا جائے۔ والدین کی تحریک کئی مہینوں تک چلی ۔ اس تحریک کے دوران ایک ایسا موڑ بھی آیا جہاں والدین نے اپنے بچوں کو سکول سے ہٹا کر اپنے بل بوتے پر قریب ہی پاکستان کمیونٹی سینٹر میں کمیونٹی کے تعاون سے بچوں کی تعلیم کا انتظام کر دیا اس شرط پر کہ جب تک متنازع ہیڈ ٹیچر کو ہٹا نہیں جائے گا بچوں کی سکول میں واپسی نہیں ہوگی ۔ پاکستان کمیونٹی سینٹر کی تعمیر محمد عجیب جو بریڈ فورڈ کے پہلے مسلمان لارڈ میر تھے کی قیادت میں ہوئی تھی جس کا افتاح شہزادی این (Anne) نے کیا تھا۔ میں بھی اس سینٹ کو بنانے والی ٹیم میں بطور جوائنٹ سیکرٹری شامل تھا۔ والدین کی اس تحریک کے دوران پیر صاحب نے اپنی جماعت کی وساطت سے والدین کی ہر ممکن انداز میں حوصلہ افزائی کی اور تعاون کیا۔ آخر کار تحریک کامیاب ہوئی اور والدین نے رے ہنی فورڈ سے چھٹکار پایا۔
رشدی ملعون
میری نظر میں 1980 کے عشرہ میں برطانیہ کے مسلمانوں جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا وہ سلیمان رشدی ملعون کی کتاب Stannic Verses کی اشاعت تھی ۔ اس کے خلاف مسلمانوں کے احتجاجی رد عمل کے اثرات اب بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ مصنف نے کتاب میں آقا دو جہاں صا لی ایم کی ناموس رسالت ، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کو بے بنیاد اور شرمناک قسم کی الزامات کا نشانہ بنایا۔ اس شرمناک حرکت پر پیر صاحب جیسے عاشق رسول میں ڈوبے ہوئے اور ناموس رسول کے داعی شخصیت کیسے خاموش رہ سکتی تھی ۔ کتاب کے قابل اعتراض مندرجات کی تصدیق کے لئے کتاب منگوائی اور اس پر اعتراضات کی تصدیق کرتے ہوئے فورا” کونسل برائے مساجد کے ساتھیوں کی اس طرف توجہ دلائی۔ کونسل برائے مساجد سے منسلک تمام مساجد کے تعاون سے پاکستان کمیونٹی سنٹر میں پبلک میٹنگ کا انعقاد کیا۔ جس میں تمام عقائد سے تعلق رکھنے والے جید علما، ساجد کے منتظمین اور مسلمانان بریڈ فورڈ کی ایک کثیر تعداد نے بڑے جوش و جذبے سے شرکت کی ۔ جمعیت تبلیغ الاسلام کے ساتھیوں نے کثیر تعداد پیر صاحب کی ہدایت پر بڑے ولولے کے ساتھ حصہ لیا۔ میٹنگ کے اختتام پر بریڈ فورڈ کے عاشقان رسول نے مشترکہ طور پر کتاب کے بارے میں کونسل برائے مساجد کی قیادت میں مشترکہ لائحہ عمل پر رضامندی کا اظہار کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے
: 1۔ کتاب مذمت اور مکمل بائی کاٹ کرنا
-2 کتاب کی اشاعت اور تقسیم روکنے کے لیئے مصنف اور پبلشر سے رابطہ کرنا
3۔ کتاب کی فروخت روکنے اور مارکیٹ سے ہٹانے کی اپیل کرنا 4 ۔ حکومت سے مطالبہ کہ کتاب کی اشاعت اور ڈسٹری بیوشن کو روکنے کے لیئے عملی مداخلت کرے تا کہ ملک میں مسلمانوں کی مزید دل آزاری نہ ہو
5۔ جب تک کتاب مارکیٹ میں موجود ہے کتاب کے خلاف پرامن تحریک کا جاری رکھنے کا فیصلہ۔ ان تجاویز کے علاوہ کتاب کے خلاف پر امن تحریک کے دوران حضرت پیر صاحب کی طرف سے حکمت عملی کی تشکیل اور اُس کے نفاذ کو عملی جامہ پہنانےکے لئے بھر پور تعاون کیا۔
مصنف، پیبلشر اور حکومت نے آزادی رائے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس رویہ نے برٹش مسلم کمیونٹی کے جذبات کو اور بھڑ کا دیا۔ وہ کسی صورت میں بھی ناموس رسالت کی تو ہین گوارہ اور برداشت کرنے کی متحمل نہیں تھے۔ مصنف ، پبلیشر اور حکومت کی بے حسی نے بریڈ فورڈ کو مسلمانوں کو کتاب جلانے کے عمل پر مجبور کر دیا۔ پیر صاحب کے لیئے کتاب جلانے کا عمل بہت بھاری تھا ۔ جس ہستی نے ساری زندگی کتابوں کو اکٹھا کرنے اور حفاظت میں لگا دی ہو اس کے لیئے کتاب کا جلانا کیسے آسان یا بلکہ ہو سکتا ہے لیکن ایک عاشق سامنے ناموس رسول کی پاسبانی کے سامنے تمام سوچیں اور ترجیحات کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔
بریڈ فورڈ مسلمانوں کاSatanic Verses کا جلا نا کیا تھا کہ آزادی رائے لابی نے برٹش مسلم کمیونٹی کے خلاف تعصب اور نفرت پھیلانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن برٹش مسلمانوں نے ہمت نہیں باری اور نفرت کے تمام تیروں کو تحمل مزاجی برداشت کیا۔ اور اپنی تحریک کو جاری رکھا۔ کونسل برائے مساجد نے اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیئے قیادت کا رول ادا کیا۔ ہر موڑ پر پیر صاحب حکمت عملی سے استفادہ کیا گیا اور آپ کی آرا کو مقدم جانا۔ وہ لوگ جن کے تعاون سے کونسل برائے مساجد معرض وجود میں آئی تھی۔ وہ تحریک کو چلانے میں پیش پیش تھے۔
مسلمانوں کی اجتماعی کوشش کا ایک فائدہ یہ ہوا کی بہت جگوں سے کتاب کی فروخت روک دی گئی تھی ۔ لائبریریوں نے کتاب سامنے رکھنا بند کر دیا تھا۔ اور برٹش مسلمانوں نے باور کروا دیا کے ناموس رسول پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ کتاب جلا کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کتاب پر اعتراضات کی تشہیر بہت سے مسلمان ممالک میں ہوئی اور ان کو کتاب کے خلاف اقدام کرنے پڑے۔ کتاب جلانے کی خبر جب ایران پہنچی تو ایران کے مذہبی رہنما نے کتاب کو منگوایا۔ ترجمہ کروایا اور پڑھ کر سلیمان رشدی کے خلاف فیصلہ گن تو ہجاری کیا ۔ Satanic Verses کے خلاف نے مسلمانوں میں دینی اور سیاسی شعور ایک اہم سنگ میل کا رکھتی ہے۔
برج ہدایت
جب بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تعصب اور نسلی نفرت کی لہر اٹھی تو پیر صاحب کی قیادت میں جمعیت تبلیغ الاسلام ہمیشہ کمیونٹی کے حق میں آواز بلند کی اور تعصب اور نفرت کی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ اور کمیونٹی کو تحفظ دیا ۔ پیر صاحب کی قیادت میں جمعیت تبلیغ السلام کی سر پرستی میں 18 مساجد اور دینی ادارے دین کے فروغ کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں لیکن پیر صاحب ایک جامع مسجد تعمیر کی ایک دیرانہ خواہش تھی جو بریڈ فورڈ کے مسلمانوں کی شیان شان ہو ۔ جو اسلام کی عظمت کا اعلان کرے۔ جو یہ باور کرائے کہ مسلمان کہیں جانے والے نہیں ، وہ اور اُن کا دین بریڈ فورڈ کا مستقل حصہ ہیں ۔ اور مساجد شہر کی زینت ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔ اس خواہش کو بروئے کار لانے کے لئیے مرکزی جامعہ مسجد کا منصوبہ بنایا گیا اور وسائل اور وقت کی بندشوں کی پرواہ نہ کرتے اللہ اور رسول پر بھروسہ کر کے بریڈ فورڈسٹی سینٹر کے نز د جگہ خریدی اور ایک شاندار مسجد بنانے کا آغاز کر دیا۔ اور کوئی ہیں سال کے طویل عرص میں مرکزی جامع مسجد تکمیل کو اپنے خوبصورت انجام تک پہنچا دیا۔ مرکزی جامع مسجد تر کی تعمیری سٹائل میں صرف مسلمانوں کے لئے ہی فخر کا باعث نہیں بلکہ پوری سٹی کی شان اور زینت ہے۔ اور مسلمانوں کی خود اعتمادی اور اسلام کی عظمت اور وقار کا بھر پور اعلان ہے۔ جس پر جتنا فخر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ مرکزی جامع مسجد پیر صاحب کی دور بینی ، بردباری مستقل مزاجی اور توکل علی اللہ کی نشاندہی ہے ۔ یہ تمام پیر صاحب کی پرسنالٹی اور سیرت کے مرکزی اوصاف ہیں۔
فیضان نوشاہی
سلسلہ نوشاہیہ کے بانی دسویں صدی ہجری کے نمایاں مبلغ اسلام ، قطب الاولیاء مجد داعظم حضرت سید حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری قدس سرہ ہیں ۔ یہ عظیم الشان روحانی بزرگ اور بلند مرتبہ عالم دین تھے۔
آپ نے معاشرے کی دینی اور نفسیاتی کے تقاضوں کے مطابق 77 سال مبلغانہ رول ادا کیا جس کے اثرات اور کیفیات آج بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔ آپ کے ہم عصر علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی ، حضرت شیخ احمد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ملا کمال الدین کشمیری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی،رحمتہ اللہ علیہ جیسے اکابر دین تھے جنوں نے آپ کی اسلامی خدمات کا گرم جوشی سے اعتراف کیا۔ بقول مشہور مشترق پروفیسر آرنلڈ تھا مس آپ کے سایہ اثر میں دو لاکھ ہند و با مشرف اسلام ہوئے اور آپ کے روحانی حلقہ ارادت میں لاکھوں مسلمانوں فیض پارہے ہیں ۔ اس کا فیض جاری رہنا ہی ولایت کی ٹھوس اور نہ جھٹلاتی جانے والی حقیقت ہے۔ نوشاہی فیض کا دریا اب بھی مبلغ عالم اسلام پیر سیدم معروف حسین قادری نوشاہی کی سر پرستی میں اسی تابانی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ نوشاہی سلسلے کے احسانات اہلیان برطانیہ اور بالخصوص بریڈ فورڈ پر بہت ہیں۔ اس سلسلے کے موجودہ بانی جناب پیر سید معروف حسین شاہ قادری نوشاہی کی قیادت میں الحمد واللہ دین کا کام جس اہتمام اور مستعدی سے پچھلے نصف صدی سے بیشمار مسائل اور دقتوں کے باوجود جس شیان شان سے آگے بڑھ رہا ہے اس کو خوشاہی روحانیت کا فیض ہی سمجھنا صحیح ہو گا ۔ بلکہ یہی عین حقیقت ہے اور اس سے انکار کرنا نا انصافی کے مترادف ہوگا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی دور میں جب پاکستان اور انڈیا سے مسلمانوں کو برطانیہ میں روزگار کے سلسلے میں آنا ہوا تو یہاں دینی سہولتوں کا نام و نشان نہیں تھا اور نہ ہی اکثر مسلمانوں کا اِس طرف رُجحان تھا الا ما شاء اللہ ۔ یہ بیچارے تو یہاں صرف روزگار اور غربت کو دور کرنے کی سعی کر کے آئے تھے ، ان کو دینی تقاضوں کی طرف توجہ کرنے کے فرصت ہی کہاں تھی۔ اس نا موافق ماحول اور ان مشکل حالات میں کسی ایک شخص کا دینی تقاضوں پر دھیان دینا اور سعی کرنا ایک روحانی معجزہ ہونے سے کم نہیں تھا اور یہ نوشاہی روحانیت کا فیض ہی ہوسکتا جو پیر سید معروف حسین قادری نوشاہی مدظلہ کے حصے میں ہی آیا ۔ اور آپ نے بڑی محنت اور تگو دو اور مستعدی سے اس دینی فریضہ کو نبانے کا بھیڑا اُٹھایا اور اب تک ایک نصف صدی سے زائد عرصہ سے اس کام کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس راہ خیر میں قبلہ پیر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا: وسائل کی کمی ۔ بے حس لوگوں کے تعنے اور مخالفت اور غیر دینی اور ناموافق ماحول ۔ ان تمام حالات کو ڈھٹ کر بردباری سے مقابلہ کرنا ایک مرد مجاحد کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے، جس پر اللہ کا خصوصی کرم اور جس میں کسی دینی پیشوا کی روحانیت جاری ہو۔ یہ منصب پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کو ہی ملا ہے اور اہلیان بریڈ فورڈ کے نصیب میں ہی آیا ہے۔ جس نورانی تحریک کی بنیاد مجدد اعظم سید حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری نے صدیوں پہلے ڈالی تھی اس کا فیض آج بھی اُسی کروفر سے پیرسید معروف حسین قادری نوشاہی کی سر پرستی میں رواں دواں ہے ۔ اس سے بڑ کر ایک زندہ ولی اللہ ہونے کی دلیل، ثبوت اور مثال کیا ہوسکتی ہے۔
اللہ کی مقرب ہستیاں انسانیت کو زندگی دینے سے تو ہی زندہ ہیں۔ میں نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی معلومات کے مطابق مبلغ اسلام کی زندگی کی کچھ پہلوں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس امید کے ساتھ کے مجھے سے زیادہ کوئی قابل انسان جو پیر صاحب کی نورانی زندگی پر گہری نظر رکھتا ہے مثلاً حاجی لیاقت حسین نوشاہی ، ایک مفصل کتاب لکھنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالی کو اس مبارک کام کی سعادت دی تو میں سمجھوں گا کہ میری دُعا قبول ہوئی۔ میں حاجی لیاقت حسین نوشاہی کا مشکور ہوں جنوں پیر صاحب کے متعلق نہایت ہی قیمتی انفارمیشن مہیا کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا شکر گذار ہوں کہ مجھے اپنے محسن کی زندگی پر کچھ تحریر کرنے کی توفیق دی ہے اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں