147

یمن میں “المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ” کی انسانی کاوشیں !


بیشمار واقعات، جنگیں ، المیے اور قتال ایسے ہیں کہ جن کے پس پردہ مسلمان خود اپنی اُمّہ (اگر کوئی ہے) سے نبرد آزما اور ایک دوسرے کے کشت وخون کے ذمہ دار ہیں اور اس کی صریح وجہ فقط عقائد کے اختلافات یا مخالفانہ سیاسی معاملات ہیں۔ کوئی پچھلی ایک دہائی سے نفرت کا یہ الاؤ بغاوت کے بعد استحکام لانے والی سیاسی منتقلی کی ناکامی کے بعد بھڑک اٹھا، یمن میں حوثی تحریک جو گزشتہ بارہ سال کے دوران حکومت کیخلاف بغاوت کر چکی تھی لیکن اصل میں اس تنازع کی جڑ مبینہ طور پر دو مسلم ملکوں کی آپس کی مخاصمت ہے، اب سچ کچھ بھی ہو لیکن صورتحال یوں ہے کہ یمن کے 80 فیصد شہری بے گھر و بے آسرا ہو چکے جن کی بقا اور جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے انہیں امداد کی ضرورت ہے، 24 ملین افراد کو فوری خوراک و شیلٹر کی ضرورت ہے ، دس سال میں ایک لاکھ سے زیادہ تو صرف بچے ہی موت کے منہ میں جاچکے ہیں گزشتہ سال کے آخری چھ مہینوں میں اسہال اور ہیضے کے 15,700 کیسز ہو چکے 20 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور ملک کی تقریبا چار ہزار طبی سہولیات میں سے صرف ایک ہی درست طریقے سے کام کر رہی ہے گولہ بارود کی بُو اور جنگ کی تباہ کاریاں مسلسل جاری ہیں اسلامی دنیا بھی مسلسل لاتعلق اور خاموشی ہے۔ سعودی عرب جو اس لڑائی میں ایک فریق بھی ہے سب سے زیادہ یمنی عوام کی مالی مدد کر رہا ہے، اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی گراؤنڈ پر رہ کر اس عظیم انسانی ایسے سے نبرد آزما ہونے اور یمنی عوام کیلئے امدادی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ برطانیہ میں قائم وہ واحد این جی او ہے جو یمن میں ہر ممکن امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اگلے روز چیئرمین ’’ اے ایم ڈبلیو ٹی ‘‘ عبدالرزاق ساجد ایک اور ورچول میڈیکل کانفرنس میں بتارہے تھے کہ ہماری تنظیم اقوام متحدہ کے طے کردہ اصول و ضوابط اور ہدایات کے مطابق اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی ہر ممکن مددکر رہی ہے اور انہیں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ شیلٹر فراہم کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یمن میں ہماری امداد ٹیموں کے فراہم کردہ حالات اور اعداد و شمار بھی درد ناک اور چشم کشا ہیں کہ خوراک کی کمی کے شکار انسانوں کی ایک بڑی مہاجر آبادی یا بے گھر افراد کو مختلف قسم کے وائرسز کا بھی سامنا ہے اب اقوام متحدہ کے تازه اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہمیں آئندہ چند ہفتوں میں کم از کم دو ارب ڈالر کی رقم نہ ملی تو اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یمن میں امدادی کارروائیوں کے سربراہ مارک لولاک بھی اپنے ایک اخباری انٹرویو میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے یمن کیلئے 3.2 ارب ڈالر مختص کئے تھے لیکن صرف 474 ملین ڈالرہی ملے۔ سعودی عرب نے یقین دلایا ہے کہ سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جو یمن کے موجودہ بحران میں اربوں ڈالرخرچ کر چکا ہے دو سال قبل بھی ریاض میں یمن کیلئے امدادی کا نفرنس ہوئی جس میں 66 ممالک نے حصہ لیا اور 1.35 ارب ڈالر اکٹھا کئے گئے یہ رقم اقوام متحدہ کی تنظیموں اور ایجنسیوں کے زریعہ خرچ کئے گئے جب کہ سعودی عرب یمن کی معیشت بہتر بنانے کیلئے بھی کام کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صورتحال یوں ہے کہ جب تک “المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ” جیسی تنظیمیں انسانی بھلائی کے جذبہ کے تحت سامنے نہیں آئیں گی اس وقت تک اس عظیم انسانی المیہ سے نمٹنا ناممکن ہے۔
چئرمین “المصطفیٰ ویلفئر ٹرسٹ “ عبدالرزاق ساجد بڑے دُکھی دل سے بتا رہے تھے کہ بہت سی عالمی پابندیوں کی وجہ سے ہم خود یمن جا کر بیشمار مسائل کے شکار اپنے بہن بھائیوں کی مدد تو نہیں کر سکتے لیکن مقامی طور پر یمن میں ہماری ٹیمیں بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کے لئے عارضی شیلٹر ، بچوں کی تعلیم ، صحت اور کھانے پینے کی بنیادی چیزوں کا بندوبست کر رہے ہیں، یقینا کئی سال سے کئے جانے والی اس ریلیف ایفرٹ پر لاکھوں پاؤنڈ کے اخراجات ہو چکے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہےلیکن برطانیہ میں ہمارے ڈونرز کے ہم پر اعتماد کی بدولت ہم بڑی جانفشانی سے یمن میں جاری افسوسناک المیے سے نمٹ رہے ہیں لیکن یہ المیہ اسقدر بڑا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دُنیا کے ہر درد مند انسان کو اپنے طور پر اور اپنی بساط کے مطابق دُکھ انسانیت کی مدد کے لئے آگے آنا ہو گا۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا ہو، اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور، یہ سب ایسے المیے پیدا ہی کیوں ہونے دیتے ہیں اور پھر کھربوں ڈالر انسانی ہمدردی اور امداد کی صورت میں مہیا کرتے ہیں کیا کروڑوں انسانی جانوں کے خون کی یہ قیمت ہوتی ہے کیا اس قسم کے انسانی المیے پیدا کرنے والےلاعلم ہوتے ہیں کیہ جنگیں موت قحط اور عدم استحکام لاتی ہیں ،ذ کر کیے گئے جو ممالک اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر آگ بھڑ کانے کا سبب بن رہے ہیں یہ اپنا ہاتھ پرائے ملک میں دخل اندازی سے اُٹھا کیوں نہیں لیتے، کیوں یمنی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود نہیں کرنے دیتے ؟ یہ تو یوں ہے کہ مارنے والے بھی خود پھر بچانے کا کریڈٹ لینے کے خواہشمند بھی خود !! لیکن اس سوج میں دو رائے نہیں کہ یمن کا بھیانک بحران شدت اختیار کر چکا ہے دنیا بھر کے اسلامی ملک ہوں یا دوسری مہذب دنیا سب کویکجا اور یک آواز ہو کر یمنی عوام کی ہر ممکن مدد بھی کرنی چاہئے اور ان کیلئے آواز بھی اٹھانی چاہئے تا کہ جلد یہ بحران ختم ہو قتال اور جنگ وجدل کا خاتمہ ہو سکے۔
لیکن یمن گزشتہ دس بارہ سال سے جن حالت سے گزر رہا ہے انہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ صرف جنگ بندی یمن کے انسانی بحران کوحل نہیں کرسکتی کیونکہ جسقدر تباہی وہاں ہو چکی ہے معمول کی زندگی بحال ہونے میں بھی برسوں لگ جائیں گے۔ یمن کے عوام کے لیے بیرون ملک طبی دیکھ بھال کے لئے پروازوں کو بھی بڑھانا ہو گا خاص طور پرمغربی طیف کےآس پاس کی سڑکوں کودوبارہ کھولنا ہوگا اس سے امدادی کارکنوں کو نقل وحرکت کی آزادی ملے گی جن سے انہیں لاکھوں ضرورت مند یمنی باشندوں تک انسانی ہمدردی کے تحت امداد پہنچانے کے لیے آسانی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں