371

قرون وسطی ٰمیں اسلامی تہذیب و تمدن

سلسلہ یورپ پر اسلام کے احسانات قسط 7
ڈاکٹر غلام جیلانی برق

قرون وسطیٰ میں یورپ وحشت، بربریت اور جہالت میں تا بفرق ڈوبا ہوا تھا۔ لوگ گارے اور گھاس کی جھونپڑوں میں رہتے ، پتے کھاتے اور کھالیں پہنتے تھے۔ ان کی گلیاں غلیظ جابجا گندے جو ہڑ اور کوڑے کے ڈھیر ، سرکیس ندارد، ہر طرف بے راہ جنگل ۔ جن میں ڈاکوؤں اور آدم خوروں کا بسیرا تھا۔ سیاست ، حکومت ، تمدن، تہذیب اور علوم وفنون کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ عین اس عالم میں عرب سے ایک قوم اٹھی ، جو صرف نوے برس میں ملتان سے بحیرہ اسود اور سمرقند سے ساحل اطلس اور وسط فرانس تک چھا گئی۔ اس قوم نے جابجا مساجد بنا ئیں ۔ علم وفن کے بڑے بڑے مرکز قائم کیے دنیا بھر کے علماء حکما کو اپنے درباروں میں جمع کیا۔ تمام یونانی و رومی علوم کو عربی میں منتقل کیا۔ جا بجا دار الکتب اور دار العلوم قائم کیے۔ شفا خانے بنوائے سڑکیں نکالیں ، نہریں کھودیں، باغات لگائے ، گلیوں کو پختہ کیا۔ رات کو روشنی کا انتظام کیا۔ پل اور تالاب بنائے اور دنیا کو حسین تعمیرات سے بھر دیا۔ اسلامی تعمیرات کے امتیازی اوصاف چمک ، روشنی ، صفائی، کشادگی، حسین نقش و نگار ، نگین پتھر کا باریک کام سنگ مرمر کی جالیاں، بلند مینار چمکتے ہوئے گنبد ، چھلکتے ہوئے تالاب، سرسراتے ہوئے چشمے، مہکتے ہوئے باغ ، اور ناچتے ہوئے فوارے ہیں۔ الحمرا میں کانسی کے شیر سونے کے مور اور ایسے فوارے بنے ہوئے تھے ۔ جن سے پانی کے ساتھ ساتھ نہایت میٹھی باتیں نکلتی اور ساز بجے ماتھے ۔ المقتدر عباس ع (۹۳۲۹۰۸ء) کے محل میں ایک وسیع حوض تھا، جس کے وسط میں سونے کا درخت تھا۔ اس کی شاخیں سو سے زیادہ تھیں، اس کے پتے ، پھل اور پھول یا قوت و زمرد وغیرہ سے بنائے گئے تھے۔ شاخوں پر رنگ برنگ کے پرندے تھے۔ جو سونے، چاندی اور لعل و مرجاں سے تیار کیے گئے تھے۔ جب ہوا چلتی تو یہ پرندے مختلف بولیاں بولتے اور گاتے تھے۔ تالاب کے دونوں جانب ایسے مصنوعی سوار تھے۔ جو خوبصورت لباس پہنے اور مُرقع تلواریںہاتھوں میں لیے یوں بڑھتے تھے۔ جیسے وہ ایک دوسرے پر حملہ کر رہے ہوں ۔ ان خلفا کی شان و ہیبت کا یہ عالم تھا۔ کہ جب قسطنطین ہفتم (۹۱۲- ۹۵۸ء) کا سفیر مقتدر عباسی (۹۰۸۔۹۳۲ء) کے کاسفیر دربار میں پہنچا۔ تو اس نے محل کے باہر ایک لاکھ ساٹھ ہزار سوار اور پیادہ، سات ہزار خواجہ سراء سات سو حاجب اور محل کے اندر اڑتیس ہزار پردے اور بائیس ہزار قالین دیکھے۔ جب فوج کے ایک دستے نے پریڈ کی۔ تو اس کے ساتھ ایک سو شیر بھی مارچ کر رہے تھے۔ اس کا محل نو مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ اور اس میں نو ہزار گھوڑوں کا ایک اصطبل بھی تھا۔
عہد مامون (۸۱۳-۸۳۳ء) میں بغداد کی آبادی دس لاکھ تھی۔ جس میں نہیں ہزار مساجد، دس ہزار حمام ایک ہزار محل اور آٹھ سو ساٹھ اطبا تھے۔ نیز ایک دار الحکمت تھا۔ جس میں ایران، ،عراق، شام، مصر اور ہندوستان کے سینکڑوں حکما دنیا بھر کے علوم وفنون کو عربی میں منتقل کر رہے تھے۔ سڑکوں پہ ہر روز گلاب اور کیوڑے کا عرق چھڑ کا جاتا تھا۔ جب خلیفہ کی سواری سڑکوں پر نکلتی تھی۔ تو اس کے آگے پیچھے دس ہزار سوار ہوتے تھے۔ ان کے گھوڑے زیوروں سے آراستہ اور سب کا رنگ نیلگوں مائل بہ سیاہی ۔
محلات میں چاندی اور سونے کے شمعدان، مُرضع فانوس اور ان میں عنبری شمعیں رات بھر نور و خوشبو کا عالم رچائے رکھتی تھیں۔ امرا میں سمور و سنجاب اور حریر و پر نیاں کا استعمال عام تھا۔ بغداد کے جامہ ہاف اس قدر با کمال تھے ۔ کہ ایک مرتبہ کس امین (۸۰۹-۸۱۳ء) کی والدہ زبیدہ کو کپڑنے کا ایک تھان پچاس ہزار دینار ( بارہ لاکھ پچاس ہزار روپے ) میں خریدنا پڑا۔ جب مامون کی شادی حسن بن سہل وزیر کی بیٹی بوران سے ہوئی ۔ تو حسن بن سہل نے ایک قالین سونے کے تاروں سے بنوایا۔ جس کی جھالر میں قیمتی جواہر پروئے ہوئے تھے۔ جب مامون اس قالین پر بیٹھا۔ تو اس پر موتی نچھاور کیے گئے۔ دل ڈیوران لکھتا ہے۔ کہ دمشق میں سو حمام ۔ سو فوارے ۔ پونے چھ سو مساجد اور بے شمار باغات تھے ۔ آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ شہر کا طول بارہ میل اور عرض تین میل تھا۔ یہاں ولید اول (۷۰۵-۷۱۵ء) نے ایک مسجد تیار کرائی تھی ۔ جس پر بارہ ہزار مزدور آٹھ سال تک کام کرتےرہے تھے۔
ایج آف فیتھ ص ۲۳۱ ۲۳۲)
رابرٹ بریفالٹ کے لکھتا ہے۔ کہ عربوں کے نفیس کتانی ہوتی ، اونی اور ریشمی لباس، بغداد کے تحریر و پرنیاں، دمشقی منجر ، موصل کی ململ ، غازہ کی جالی، غرناطہ کے اُونی کپڑے، ایرانی تافتہ اور طرابلس کے شیفون نے یورپ کی نیم برہنہ آبادی کو اعلیٰ لباس کا شوقین بنا دیا۔ اس قسم کے مناظر اکثر دیکھنے میں آئے۔ کہ ایک بشپ گرجے میں عبادت کر رہا ہے اور اس کی عباص پر قرآنی آیات کا ڑھی ہوئی ہیں۔ مرد تو رہے ایک طرف عورتیں بھی عربی قمیص اور جبہ بڑے فخر سے پہنتی تھیں۔ سپین اور سسلی میں بے شمار کر گھے تھے ۔ صرف اشبیلیہ میں سولہ ہزار تھے۔ قرطبہ میں ریشم بافوں کی تعداد ایک لاکھ میں ہزار تھی۔ سلی کے پایہ تخت میں تین ہزار سے زیادہ جامہ باف تھے۔ ان کی تیار کردہ عباؤں، قباؤں اور چادروں پر قرآنی آیات بھی ہوتی تھیں جنہیں عیسائی بادشاہ اور پادری فخر سے پہنتے تھے۔ سلی میں عیسائی عورتیں نقاب اوڑھتی تھیں ۔
عبد الرحمن سوم (۹۶۱۹۱۲ء) کے زمانے میں قرطبہ کی آبادی پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی ۔ اس میں سات سو مساجد، تین سو حمام، ایک لاکھ تیرہ ہزار مکانات اکیس مضافاتی بستیاں اور ستر لائبریریاں تھیں۔ اس میں شیشہ سازی اور چڑہ رنگنے کے کارخانے بھی تھے۔ ۹۳۶ء میں عبد الرحمن سون نے ایک شاندار محل کی بنا ڈالی۔ دُور دراز ممالک سے سنگ مرمر و سُرخ نیز سنگ موسیٰ منگوایا اور دس ہزار مزدور پندرہ سو گدھوں کے ساتھ ہیں سال تک کام کرتے رہے۔ الحمر اسولہ سال میں تیار ہوا تھا۔ اور تاج محل میں ہزار مزدوروں نے بائیس برس میں بنایا تھا اور اس کا مسالہ چھ کروڑ روپے میں خریدا گیا تھا۔
سلی کا پایہ تخت پگر مومسلمانوں کے عہد میں نہایت خوبصورت شہر تھا کشادہ بازار ۔ پختہ سڑکیں۔ سیدھی گلیاں۔ جابجا پارکیں اور فوارے۔ اندر پانچ نہریں بہتی تھیں۔ وہاں ایک بہت بڑا کارخانہ بھی تھا۔ جس میں جہاز کواریں، نیزے، تیر خنجر ، زیره، خود، ڈھالیں، منجنیق ، بارود اور چند دیگر چیزیں بنتی تھیں۔ عظیم شاہی محلات۔ چھ سو مساجد اور دیگر عمارات کی وجہ سے شہر دلہن نظر آتا تھا۔ وہاں تانبے، پیتل ، کاغذ ، تیل اور عطر کے بھی بیسیوں کارخانے تھے۔
مسلمانوں نے سسلی میں نہریں کائیں۔ دُور دُور سے شفتالو ۔ لیموں وغیرہ کے درخت منگا کر لگائے ۔ کپاس اور نیشکر کو عام کیا۔ ریشم کو رواج دیا۔ تعمیرات میں سرخ وسفید پتھر کا استعمال کیا۔ نوکدارمحرابوں، آرائشی طاقچوں ، جالیوں اور میناروں کو مقبول بنایا۔ محلات و مساجد پہ خط طغرائی میں آیات نویسی کا سلسلہ شروع کیا۔ جا بجا در سگا ہیں اور کتب خانے قائم کیے۔ ایک سو تیرہ بندرگا ہیں بنا ئیں اور وہاں کے لوگ ہماری تہذیب سے اس قدر متاثر ہوئے۔ کہ ان کا لباس تمدن ، نظام تعلیم اور رہن سہن سب کچھ اسلامی ڈھانچے میں ڈھل گیا۔

لوپ اور قیصر ہمارے باجگزار تھے
اس دور میں عیسائیوں کے طاقتور حکمراں دو ہی تھے ۔ رومہ میں پوپ اور قسطنطنیہ میں قیصر ۔ ۸۲۹ء میں مسلمان اٹلی پر حملہ آور ہوئے ۔ اور ۸۷۲ء میں روم تک جا پہنچے۔ اس وقت پوپ جان ہشتم (۶۸۸۲۸۷۲) مسند پاپائیت پر فائز تھا۔ اس نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ جزیہ دینا منظور کر لیا۔ اور مسلمان واپس آگئے کہ ای طرح قیصر بھی ۷۷۶ ء سے ہمارا با جگزار تھا۔ لیکن جب قیصر نائسیفورس اول (۸۰۲ – ۶۸۱۱) مسند نشین ہوا۔ تو اس نے ہارون الرشید (۷۸۶ – ۶۸۰۹) کولکھا۔ کہ میں آئندہ خراج ادا نہیں کروں گا۔ ہارون الرشید نے اس کا وہ جواب دیا۔ کہ وہ یورپ کے مؤرخین آج تک نعل در آتش ہیں ۔ لکھا: امیر المؤمنین حسہارون الرشید کی طرف سے
رومی کتے کے نام
اے فاحشہ ماں کے بچے ! میں نے تمہارا خط پڑھا۔ اس کا جواب تو عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا ۔”
چند روز بعد قیصر پہ حملہ کیا۔ اور اسے سخت شکست دے کر دوبارہ باجگزاری پہ مجبور کر دیا۔
تاریخ فجاتی ہے۔ کہ مائیکل ہفتم (۱۰۶۷ – ۱۰۷۸ء) سلجوقی بادشاہوں کو خراج دیتا تھا۔ الغرض دنیا کی قیادت وسیادت ہزار برس تک ہمارے پاس رہی ۔ سیاہ وسفید کے مالک ہم تھے ۔ خشک وتر پہ ہمارا سکہ چلتا تھا۔ کوئی گردن کش ہم سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ دنیا ہماری تہذیب ، ہمارے تمدن اور ہمارے علوم وفنون پہ جان دیتی تھی۔ ملک کے ملک ہمارا مذہب قبول کر چکے تھے۔ اس کی وجہ تلوار نہیں تھی۔ اگر ہم جبر کرتے تو سپین ۔ اٹلی۔ سلی اور ہندوستان میں آج ایک بھی غیر مسلم نظر نہ آتا۔ ہماری تلوار صرف تسخیر ممالک کے لیے تھی۔ دلوں کو ہم پاکیزگی ، بلند اخلاقی، نرمی، انصاف اور ایک عدیم المثال نظریۂ حیات کی تلوار سے فتح کیا کرتے تھے ۔ آپ نے کہیں پڑھا ہو گا۔ کہ جب فاروق اعظم (۶۳۴ – ۶۴۴ء) کے زمانے میں شام کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رومیوں کے دباؤ کی وجہ سے ایک شہر کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ۔ تو آپ نے تمام مالیہ لوٹا دیا۔ اور کہا کہ ہم نے یہ مالیہ تمہاری حفاظت کے لیے لیا تھا۔ چونکہ اب ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں اس لیے یہ واپس کر رہے ہیں ۔ وہ سماں دیکھنے کے قابل تھا۔ کہ مسلمان رخت سفر باندھ رہے ہیں اور عیسائی زار زار رورہے تھے۔ ان کے بشپ نے ہاتھ میں انجیل لے کر کہا۔ ” اس مقدس کتاب کی قسم ! کہ اگر کبھی ہمیں اپنا حاکم خود منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ تو ہم عربوں کو ہی منتخب کریں گے۔” ول ڈیوران ‘ لکھتا ہے کہ ا۱۰۷ء میں سلجوقی سلطان الپ ارسلان (۱۰۶۳-۱۰۷۲ء) اور قیصر رونس لال چہارم میں کسی بات پر شدید اختلاف ہو گیا۔ اور نوبت بہ جنگ رسید ۔ قیصر ایک لاکھ فوج لے کر آگے بڑھا۔ الپ ارسلان کے پاس صرف پندرہ ہزار فوج تھی۔ ارسلان نے صلح کا پیغام بھیجا۔ لیکن قیصر نے مسترد کر دیا، جنگ شروع ہوگئی ۔ قیصر کو شکست ہوئی۔ اور وہ گرفتار ہو گیا۔ جب ارسلان کے سامنے پیش ہوا۔ تو اس نے پوچھا اگر میں گرفتار ہو کر تمہارے سامنے پیش ہوتا۔ تو تم مجھ سے کیا سلوک کرتے ؟ کہا۔ میں کوڑوں سے تمہاری کھال کھینچ لیتا۔ فرمایا: مسلم اور عیسائی میں یہی فرق ہے۔ اس کے بعد قیصر کی خدمت میں بیش بہا تحائف پیش کیے۔ اسے اس کی سلطنت واپس دے دی۔ اور بڑے شان و احترام سے رخصت کیا۔
بلند اخلاقی
رچرڈ شیر دل تل (۱۱۸۹ ۱۱۹۹ء) فلسطین میں صلاح الدین ایوبی (۱۱۶۹-۱۱۹۳ء) کےخلاف لڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہو گیا۔ تو ایام علالت میں : رااح الدین اسے کھانا۔ پھل اور مُفرحات بھیجتا رہا۔ جرمنی کا شہنشاہ فریڈرک دوم (۱۲۱۲- ۱۲۵۰ء) عربی کا عالم اور اسلامی تہذیب کا از بس گردیدہ تھا۔ جب پوپ نے اسے صلیبی جنگوں میں شمولیت پر مجبور کیا۔ اور وہ فلسطین میں پہنچا۔ تو مصر و شام کے بادشاہ محمد الکامل (۱۱۹۹۔ ۱۲۱۸ء) نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ اور بڑی خاطر و مدارات کی۔ عموماً یہ دونوں مسجد عمر میں بیٹھ کر علمی مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہی ملاقاتوں میں ایک بار فریڈرک نے کہا تھا:
سلطان کتنا خوش قسمت ہے۔ جس کا کوئی پوپ نہیں۔“
جب فریڈرک نے واپسی کی تیاری کی ۔ تو سلطان نے اسے نہایت قیمتی تحائف دیئے۔ جن میں ایک کلاک بھی شامل تھا۔ یہ آسمان کی طرح گنبد نما تھا۔ اس میں ایک چاند اور ایک سورج بنا ہوا تھا۔ یہ آسمانی چاند سورج کی حرکت کے عین مطابق گھومتے تھے۔ جب آسمان کا سورج ڈوبتا ۔ تو کلاک کا آفتاب بھی چھپ جاتا تھا۔ اور صبح کے وقت سورج کے ساتھ نکل آتا تھا۔ پر لطف بات یہ کہ سر ما ہو یا گرما۔ ان دونوں آفتابوں کی حرکت میں سر موفرق نہیں آتا تھا۔
گو فریڈرک نے سسلی سے تمام باقی ماندہ مسلمانوں کو نکال دیا تھا۔ لیکن جب اس کی وفاتہوئی۔ تو تمام دنیائے اسلام نے اس کا ماتم کیا۔
موسییولیبان لکھتا ہے۔:
عربوں نے چند صدیوں میں اندلس کو مالی اور علمی لحاظ سے یورپ کا سرتاج بنا دیا۔ یہ انقلاب صرف علمی و اقتصادی نہ تھا۔ اخلاقی بھی تھا۔ انہوں نے نصاری کو انسانی خصائل سکھائے۔ ان کا سلوک یہود و نصاری کے ساتھ وہی تھا۔ جو مسلمانوں کے ساتھ ۔ انہیں سلطنت کا ہر عہد ہل سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ مذہبی مجالس کی کھلی اجازت تھی ۔۔۔۔۔ ان کے زمانے میں لا تعداد گرجوں کی تعمیر اس امر کی مزید شہادت ہے۔ جب ۱۱۹۳ء میں والی تقر طبہ الیوسف یعقوب بن المنصور از موحدین افریقہ ۱۱۸۴- ۱۱۹۹ء) نے طلیطلہ کا محاصرہ کیا۔ جو اس وقت ایک عیسائی شہزادی بیرن زیر کے قبضے میں تھا۔ تو شہزادی نے ابو یوسف کو پیغام بھیجا کہ عورتوں پر حملہ کرنابہادروں کا شیوہ نہیں۔ اس نے جواب دیا۔ کہ شہزادی پہ میرا اسلام ہو۔ اورفوراً محاصرہ اٹھالیا۔
رابرٹ سے بریفالٹ لکھتا ہے کہ چین کے عربوں اور عیسائیوں کے تعلقات اس قدر گہرے تھے ۔ کہ جب عبدالرحمان اول (۷۸۸۷۵۶ء) کے زمانے میں شارلیمان (۶۸۱۴۷۶۸) نے چین پر حملہ کیا ۔ تو اس کا مقابلہ نصاری و مسلم نے مل کر کیا۔
مسلمانوں کو عیسائی اور یہودی لڑکیوں سے نکاح کرنے کی مذہباً اجازت ہے لیکن انہیں لڑکیاں دینے کی اجازت نہیں۔ اس مذہبی هر کاوٹ کے باوجود اشبیلیہ کے بادشاہ ابو القاسم محمد ثانی (۱۰۶۸ – ۱۹۹۱ء) نے اپنی بیٹی زاہدہ کیوں کے فرمانروا الفونسو ششم (۱۰۶۵۔ ۱۱۰۹ء) کے نکاح میں دی اور الفونسو پنجم (۹۹۹ – ۱۰۲۸ء) نے اپنی بہن کی شادی طلیطلہ کے بادشاہ محمد سے کی۔ اسی طرح ایک عیسائی سردار بر موڈ کی لڑکی ٹریسہ نامی سرقسطہ کے فرماں روا المنصور (۱۰۱۹۔ ۱۰۲۳ء) کے نکاح میں تھی۔
تو یہ تھا وہ سلوک جس سے متاثر ہو کر صرف غرناطہ میں انیس لاکھ سے زیادہ عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہم نے اس ملک پر نہایت عادلانہ و عاقلانہ حکومت کی ، ملک کو آباد کیا، ہزاروں درسگاہیں قائم کیں۔ نہریں نکالیں، سینکڑوں کارخانے لگائے ۔ اور ساری آبادی کو نہال و آسودہ حال کر دیا ۔ دل ڈیوران علیہ لکھتا ہے:۔
اندلس پر عربوں کی حکومت اس قدر عادلانہ ، عاقلانہ اور مشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اس کی تاریخ میں موجود نہیں۔ ان کا نظم ونسق اس دور میں بے مثال تھا۔ ان کے قوانین سے معقولیت و انسانیت ٹپکتی تھی اور ان کے حج نہایت قابل تھے۔ عیسائیوں کے معاملات ان کے اپنے ہم مذہب حکام کے سپرد تھے۔ جو عیسوی قانون کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ پولیس کا انتظام اعلیٰ تھا۔ بازار میں وزن اور ماپ کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ رومہ کے مقابلے میں ٹیکس کم تھا۔ کسانوں کے لیے عربوں کی حکومت ایک نعمت ثابت ہوئی۔ کہ انہوں نے بڑے بڑے زمینداروں کی زمینیں مزارعین میں تقسیم کر دی تھیں۔
اسلامی اثرات یورپ میں
آدمی آدمی سے ملے تو کچھ سیکھتا اور کچھ سکھاتا ہے۔ ہم سپین میں آٹھ سو جنوبی فرانس میں دو سوسلی میں دوسو تریسٹھ اور جنوبی اٹلی میں ڈیڑھ سو برس تک حاکم رہے۔
محکوم پر حاکم کا اثر اتنا شدید ہوتا ہے کہ تہذیب و تمدن تو رہے ایک طرف بعض اوقات اس کا مذہب تک بدل جاتا ہے۔ ہندوستان پر انگریز نے صرف ڈیڑھ سو برس حکومت کی ۔ اور پچاس کروڑ انسانوں کا تمدن ، لباس ، طرز حیات اور نقطہ نگاہ تک بدل گئے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کا جواب نہیں ۔ یہ مشرقی وسطی افریقہ بحر الکاہلی جزائر ، ملایا اور چین میں تجارت کی غرض سے گئے تھے اور وہاں کا نقشہ بدل آئے ۔ یہاں تک کہ چین کے مشہور ہیئت دان کو شو چنگ نے ۱۲۸۰ء میں علی ابن یونس مصری (۱۰۰۹ء) کی کتاب الہیت کو چینی زبان میں منتقل کیا۔
(تمدن عرب ص ۵۱۲)
یہ انڈونیشیا کے ساڑھے سات کروڑ ملایا کے نوے لاکھ چین کے پانچ کروڑ اور شرقی و وسطی افریقہ کے آٹھ کروڑ مسلمان ان تاجروں کی یاد دلاتے ہیں۔ جو آج سے تیرہ سو سال پہلے ان علاقوں میں بغرض تجارت گئے تھے۔ کتنی ہی ایسی منڈیاں ہیں ۔ جہاں عیسائی اور مسلمان صدیوں ملتے رہے۔ مثلاً مصر – تونس – کریٹ ۔ قبرص ۔ جزائر یونان و اندلس ۔ شام – انطاکیہ ۔ آرمینیا ۔ عراق وغیرہ ۔ موسیو لیباں ‘ لکھتا ہے کہ عرب تاجر دریائے والگا کے راستے فن لینڈ تک جاتے تھے۔ نیز بحیرہ بالٹک کے جزائر مثلا کاٹ لینڈ (Gotland) بارن ہوم (Bornholm) اورآلینڈ (Aland) سے ہو کر سوئیڈن، ڈنمارک اور پرشیا کو نکل جاتے تھے۔ ان جزائر سے کئی سو عرب سکتے ملے ہیں۔ اور یہ اس امر کی واضح شہادت ہے کہ عرب وہاں تجارت کے لیے گئے تھے۔
یہ سکے پولینڈ میں بھی دستیاب ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ڈر پر لکھتا ہے :۔
بارسلونا کی بندرگاہ خلفائے اندلس کی بحری تجارت کا مرکز بھی یہاں سے سینکڑوں جہاز مالِ تجارت سے لدے ہوئے اکناف عالم میں جاتے تھے۔ مسلمانوں نے یہودی تاجروں کی مدد سے تجارت کے بہت سے اصول اختراع کیے۔ جو رفتہ رفتہ یورپ کی تاجر جماعتوں تک پہنچے۔ حساب میں ڈبل انٹری سسٹم مسلمانوں کی ایجاد ہے۔“
رابرٹ سے بریفالٹ کہتا ہے :- عربوں کے سپین اور سسلی کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں نے یورپ کی تجارت وصنعت کو جنم دیا۔“
ایک اور مقام پر لکھتا ہے:۔
یورپ کے افلاس کی یہ حالت تھی۔ کہ اٹلی کے تاجروں کے پاس عربوں کا مال خریدنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ عموماً اردگرد کے دیہات سے بچے چرا لاتے ۔ انہیں غلام بنا کر بیچتے اور اس طرح رقم ادا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ عربوں نے ہند ، چین ، ملاکا اور ٹمبکٹوتیک خشکی کے راستے کھول دیئے۔ اور سوڈان وسقوطرہ سے مڈغاسکر تک تجارتی منڈیوں کا ایک سلسلہ قائم کر دیا۔ جہاز سازی کے فن کو ترقی دی۔ دنیا کو بحر پیمائی کا درس دیا۔ ہنڈیوں کا طریقہ رائج کیا اور بحری تجارت کے لیے انتظامیہ کونسلیں قائم کیں ۔“
ہمارے تاجروں کا مابہ الامتیاز یہ تھا۔ کہ وہ مال تجارت کے ہمراہ اپنی تہذیب، اپنا فلسفہ اورنظریہ زندگی بھی لے جاتے تھے۔ اور ان لوگوں کو جو جہالت، بد اخلاقی، بت پرستی اور اوہام و اباطیل میں مبتلا تھے۔ خدائے واحد کی پرستش، پاکیزگی اور بلند اخلاقی کا درس دیتے تھے۔ اسلامی تہذیب کو پھیلانے میں صلیبی جنگوں نے بڑی مدد کی۔ انداز دوسو برس تک لاکھوں صلیبی مصر، فلسطین، ایشیائے خورد اور شام میں آکر اسلامی تہذیب و تمدن سے متاثر ہوتے رہے۔ صلیبیوں نے پہلی جنگ (۱۱۹۶ء) میں یوروشلم لے لیا تھا۔ وہ یہاں اتنی برس تک حاکم رہے۔ پہلا بادشاہ بالڈول تھا۔ یہ عربی لباس پہنتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی طرح جابجا حمام قائم کیے اور شفا خانے بنائے۔ یورپ مشنری عربی سیکھنے لگے۔ سازِ جنگ میں گھوڑوں کی زرہ ، تبر طبل اور بارود کا اضافہ ہوا۔ کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی شروع ہوئی۔ محاصرہ کے عربی طریقے نیز مشرق کے پودے اور کاشت کے طریقے ، لذیذ کھانے مثلاً پلاؤ، قورمہ ، حلوہ، چٹنیاں ، اعلیٰ لباس، عطریات، مسالے، مشروبات، نیشکر سے شکر نکالنے کی ترکیب اور دیگر متعدد اشیاء مشرق سے مغرب میں پہنچیں۔ وہاں فرنیچر ، برتن اور عمارات مشرقی طرز کی بنے لگیں، آرٹ ، نقاشی یہاں تک کہ جلد بندی پر بھی اسلامی رنگ چڑھ گیا۔ دمشق اور صور (شام کے شہر ) کی صنعت شیشہ سازی وینس میں قائم ہوئی۔ فرانس اور اٹلی میں ریشم باقی ہونے لگی۔ عرب رجز خوانوں سے متاثر ہو کر یورپ کے شعرا نے بھی رجز خوانی شروع کر دی۔ اور لطف یہ کہ بحر ، ردیف و قافیہ کے علاوہ تشبیہات و استعارات تک عربوں سے لے لیے ۔ وہی اونٹ ، آہو، ریت اور خار مغیلاں کا تذکرہ وصل و فراق کے قصے اور حسب و نسب پہ ناز ۔ عربی ساز مثلاً بنسی ، نخود، رباب ، طنبورہ اور گھار بھی یورپ میں جاپہنچے۔ یوں عربوں کی شائستگی کا نور آہستہ آہستہ یورپ میں پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ جاہل اور وحشی لوگ ذہنی مشاغل میں حصہ لینے لگے۔ ان کے لباس چمک اٹھے، اور وہ دنیا کی مہذب ترین قوم بن گئے۔
مسلمانوں کا شوق علم
یوں تو آغا نے اسلام میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا شاعر رسالت حضرت حسان بن ثابت اور امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کے دیوان حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر، حضرت کعب بن زہیر کا قصیدہ (ہائت سعاد ) حضرت علی کے خطبات و خطوط کا مجموعہ (نہج البلاغہ ) حضرت ابوبکر صدیق کا مجموعہ احادیث، ابن الحرام کا جغرافیہ عرب (اس کی ایک نقل پروفیسر عبد العزیز میمن علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جو کراچی میں مقیم رہے کے پاس موجود تھی ) ورقہ بن نوفل کا ترجمہ تورات و انجیل اور درجنوں شعرا کا کلام اس پر شاہد ہیں لیکن جب ہمارے سلاطین و خلفا جہاں گیری سے فارغ ہوئے ۔ تو انہوں نے علوم وفنون کی طرف خاص توجہ دی۔ دار الکتب قائم ہوئے۔ تصنیف و ترجمہ کے ادارے بنے ۔ اور دنیا بھر سے علما اور کتا ہیں پایہ تخت میں آنے لگیں۔ یہ کام دو ر اُمیہ میں شروع ہوا تھا۔
یزید اول (۶۶۸۰) کے بیٹے خالد نے ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا۔ جس میں ایک پادری اہرن نامی نگرانی پر مامور تھا۔ خود خالد بھی مصنف تھا۔ ابن الندیم نے الفہر ست (ص ۴۹۷ ) میں
اس کی چار کتابوں کے نام دیئے ہیں:
ا کتاب الحرارت
-۲- كتاب الصحيفة الكبير
-٣ – كتاب الصحيفة الصغير
۴۔ وصية الى ابنه في الصنعة
امیر معاویہ (۶۶۱-۱۸۰ء) کی خواہش پر ایک عیسائی عالم این آمال نے طب کی کچھ کتابیں عربی میں ترجمہ کیں۔ مروان بن حکم (۶۸۳ – ۱۸۵ء) کے حکم سے ماسر جیں یہودی نے اہرن کی قرابادین کو عربی میں منتقل کیا۔ ہشام بن عبدالملک (۷۲۴-۶۷۴۳) کے میر منشی سالم نے ارسطو کے بعض رسائل کا ترجمہ کیا۔ اس خلیفے نے فارسی کا ایک شاہ نامہ بھی غربی میں منتقل کرایا تھا۔ عباسی خلفا نے دنیا کے ہر حصے میں اپنے آدمی بھیجے جو کتابوں کے انبار لے کر واپس آئے۔ جہان بھر کے حکما و علما در بار خلافت میں طلب ہوئے۔ اور تصنیف و ترجمہ پہ مامور ہوئے۔ ان لوگوں نے تھیلز (پ ۶۴۰ قم ) سے لے کر بطلیموس (۱۵۱ء میں زندہ) تک کی تصانیف عربی میںمنتقل کر ڈالیں ۔ جالینوس وارسطو کی شرحیں لکھیں۔ یونانیوں کی غلطیاں نکالیں ، بطلیموس کے بعض مشاہدات پر تنقید کی۔ اور نہایت محنت سے ستاروں کے مقام و حرکت کی فہرستیں بنائیں ۔ خسوف و کسوف کے اسباب بتائے۔ زمین کی جسامت معین کی کئی قسم کے اصطرلاب بنائے ۔ علماء کے ساتھ بعض وزراء، امرا اور سلاطین بھی کتب خانوں اور رصد گاہوں میں جابیٹھے ۔ حکمت یونان کو جسے دنیا بھول چکی تھی ، پھر زندہ کیا۔ قرطبہ سے سمر قند تک ہزاروں درسگاہیں قائم کیں۔ ان میں طلبہ کی کثرت کا یہ عالم تھا۔ کہ بقول ول ڈیوران جغرافیہ دانوں ، مؤرخوں ہنجموں ،فقہوں، اس : محمدثوں، طبیبوں اور حکیموں کے ہجوم سے سڑکوں پر چلنا مشکل تھا۔“
سلاطین کی علم نوازی
علم وادب کی تخلیق کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے برسوں کا مطالعہ، دیدہ ریزی، ایثار اور یکسوئی چاہیے۔ جب تک ادب فکر معاش سے آزاد نہ ہو ۔ وہ لکھ نہیں سکتا۔ تخلیق ادب کے لیے یا تو حکومت کی سرپرستی چاہیے۔ اور یا امرا و طالب علموں کی طرف سے حوصلہ افزائی ۔ یورپ میں ایک آدمی صرف ایک کتاب لکھ کر فکر معاش سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انگلستان کی مشہور شخصیت مسٹر چرچل جس کی عمر ۱۹۶۳ء میں ۸۳ برس تھی ) کی کتاب ”دوسری جنگِ عالمگیر کی تاریخ کو ایک پبلشر نے ایک پونڈ فی لفظ کے حساب سے خریدا تھا۔ لیکن ایشیا میں یہ صورت نہیں ۔ یہاں ادیب کو روزی کا بھی دھندا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ کہ احمد شاہ بخاری (۱۹۵۸ء) جیسا فاضل اجل صرف ایک مجموعہ مضامین (مضامین پطرس) لکھ سکا۔ سنا ہے کہ ایک یا دو انگریزی کتابوں کا بھی ترجمہ کیا تھا۔ لیکن کہیں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر (۱۹۵۱-۱۹۰۲ء) کو کشاکش روز گار نے لکھنے کی فرصت ہی نہ دی۔ ان کی صرف چند نظمیں کتابی صورت میں نکلیں۔ اور وہ بھی بعد از مرگ۔ اس وقت پاکستان میں لا تعداد اہلِ قلم موجود ہیں۔ لیکن حکومت کی سرپرستی سے محروم ۔ نتیجہ یہ کہ ان میں سے کوئی فلمی گیت لکھ رہا ہے۔ کوئی کلر کی کر رہا ہے۔ اور کوئی آوارہ گردی۔ آج سے ہزار سال پہلے صورت حال مختلف تھی ۔ اس دور کے سلاطین اہل علم کا شکار کھیلتے تھے اور جس طرح بھی بن پڑتا، انہیں اپنے ہاں بلا لیتے تھے ۔ جب سلطان محمودغزنوی کو معلوم ہوا کہ خوارزم شاہی دربار میں البیرونی ( ۱۰۴۸ء) اور ابن سینا (۱۰۳۷ء) جیسے فضلا موجود ہیں۔ تو اس نے خاص قاصد بھیج کر انہیں طلب کیا۔ اور ساتھ ہی شاہ خوارزم کو دھمکی دی کہ اگر انہیں نہ بھیجا تو سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ محمود غزنوی کے دربار میں چارسو علما وشعرا تھے ۔ یہی حال سلجوقیوں، عباسیوں، سامانیوں، خوارزمیوں اور دیلمیوں کا تھا۔ پروفیسر براؤن ( تاریخ ادب فارسی کا مصنف ) محمود کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ اہل علم کو اغوا کیا کرتا تھا۔ ہمارے تذکرے ایسے علماء کے ذکر سے لبریز ہیں جو سلاطین و امرا سے قصائد و تصانیف پر بے اندازہ انعام پاتے تھے ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:۔
ا جبرئیل بن بخت یشوع – ہارون الرشید کا طبیب خاص اور چند کتابوں کا مصنف تھا۔
اس کی سالانہ آمدنی ہی تھی ۔
ا۔ سرکاری مشاہرہ ایک لاکھ بیس ہزار درہم سالانہ
۲۔ یحییٰ بن خالد (۶۸۰۵ ) وزیر ہارون سے چھ لاکھ بیس ہزار درہم سالانہ
۔ جائیداد سے آمدنی پندرہ لاکھ بیس ہزار درہم سالانہ
۴۔ عطیات ایک لاکھ بیس ہزار درہم سالانہ
۵ – جعفر بن یحی (۸۰۳ء) سے بارہ لاکھ بیس ہزار درہم سالانہ
فضل بن یحیی (۱۸۰۸) سےچھ لاکھ
۷۔ دیگر امرا سے دولاکھ
میزان تینتالیس لاکھ بیس ہزار میں
۲۔ ہارون ملک نے ایک شاعر مروان بن ابی حفصہ کو صرف ایک نظم سن کر پانچ ہزار دینار( پچیس ہزار ڈالر ) عطا کیے تھے۔
-۳۔ ایک روز نض است بن فمیل (۸۱۹ء) جو مشہور موجد عروض خلیل بصری کا شاگرد تھا، مامون کو سلام کرنے آیا، اور دوران گفتگو میں ایک ایسا ادبی چکلہ پیش کیا۔ کہ مامون پھڑک اٹھا اور اسے پچاس ہزار درہم بطور انعام دیے۔
– اسی طرح ایک مرتبہ مامونایک ادیب، کلثوم عتابی، کے چند جملوں سے اس قدر محظوظ
ہوا۔ کہ اسے ایک ہزار دینار عنایت کیے۔
-۵- ایک مرتبہ مامون عمل نے قیصر روم کولکھا۔ کہ وہاں کے ایک حکیم لیونامی کو دربار خلافت
میں بھیج دیجئے۔ اس کے عوض چالیس من سونا دیا۔ نیز دائی صلح کا وعدہ کیا۔ ۔ مامون کے علمائے دار الحکمہ کی تصانیف کو سونے میں تو لتا۔ اور یہ سونا مصنف کو دےدیتا تھا۔
-۔ مامون اس کے سامنے ایک شاعر محمد بن وہیب نے ایک قصیدہ پڑھا اور ہر شعر پر ایک ہزار دینار انعام پایا۔ ۔ جب مامون جس نے اپنے والد ہارون سے محل کی ایک خاص کنیز طلب کی ۔ تو ہارون نے کہا ۔ کہ قیمت ادا کرو۔ پوچھا کتنی؟ فرمایا۔ کہ ایک نظم لکھ کے لاؤ۔
۔ ایک دفعہ خلیفہ ہشام (۷۲۴-۰۷۴۳) کو ایک قصیدہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بڑی تلاش کی۔ لیکن نہ ملا۔ آخر حماد الراوی نے اسے سنایا۔ جس پر ہشام نے اسے دو کنیز میں اور پچاس ہزار دینار صلہ دیا۔ خلفا و ملوک کی ہی وہ قدر افزائی تھی۔ کہ اس دور کے ایک ایک عالم نے کئی کئی سو کتا ہیں لکھیں۔ ان علما کے شوق و ذوق کا یہ عالم تھا کہ حسین ابن اسحاق (۰۸۷۷) نے جالینوس (۲۰۰ ء ) کی ایک کتاب تلاش کرنے کے لیے بغداد سے شام ۔ فلسطین اور اسکندریہ تک پیدل سفر کیا۔ اورواپسی پر اسے دمشق میں اس کتاب کا صرف ایک مقالہ ملا۔
ہمارے اسلاف کی یہی وہ محنت ، تلاش اور ہمت تھی۔ جس نے ایشیا و یورپ ہر دو کو علوم وفنون سے بھر دیا۔ اور کائنات ارضی کے درودیوار نور علم سے چمک اٹھے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں