205

چلتے ہو تو امریکہ کو چلیئے


امریکہ روانہ ہونے لگا تو میرے دوست پروفیسر ڈاکٹر سلیم عباس قیصر کہنے لگے کہ وہاں برطانیہ کی ہر چیز الٹ ہوتی ہے۔ اس کا عملی تجربہ امریکہ پہنچ کر ہوا، گاڑی کا سٹیئرنگ لفٹ پینڈ، ٹریفک لیفٹ ہینڈ، بجلی کا سونچ اوپر ہو تو بلب روشن ہوگا، نیچے کی طرف بند ہو گا، انگریزی امریکی سٹائل میں لکھنی ہو گی ، موبائل بھی امریکی ورنہ سم نہیں چلے گی۔ لندن میں سفر کے لئے میٹرو ٹرین اور بسوں کی افراط ہے لیکن یہاں گاڑی کے بغیر سفر مشکل ہوجاتا ہے، امریکی آبادی ۳۳ کروز تو رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد ۲۷ کروڑ سے زائد ہے، ہر گھر میں تین، چار پانچ گاڑیوں کی تعداد معمولی بات ہے، کہتے ہیں کہ کارساز کمپنیوں نے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مضبوط نہیں ہونے دیا تاکہ گاڑیوں کی فروخت کم نہ ہو۔ اسلحہ رکھنا معمولی بات ہے، لائسنس اور بغیر لائسنس دونوں طرح کا اسلحہ ہے، اسلحہ کپڑوں، گاڑیوں اور گھروں میں رکھا جاتا ہے، چوری، ڈکیتی تو کم ہوتی ہے لیکن اسلحہ کی نمائش بہت ہے۔ امریکہ میں سرمایہ دارانہ معیشت ہے، یہاں پرچیز کی قیمت ہے، فلاحی ریاست کا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے، تعلیم، صحت، گھر، کھانا ڈالر ہوتو خرید سکتے ہیں ورنہ بے گھر اور بھوکے مرجائوں گے، ہر شخص کو ملین پتی بننے کا شوق ہے لیکن کام سے چالو ہیں، امریکہ پاکستانیوں سے خالی ہے، یہاں معمولی تعداد میں پیشہ ور اور پڑھے لکھے پاکستانی پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی ڈاکٹروں کی ہے، طالبعلم بھی بہت کم ہیں، حالانکہ امریکہ میں ملازمتوں اور آمدنی کے بہت زیادہ مواقع ہیں، پھر جو پڑھا لکھا پاکستانی یہاں پہنچ گیا اس نے پیچھے آنے والوں کا دروازہ بند کردیا، ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکی سفارتخانہ پاکستانیوں کو بہت کم ویزے دیتا ہے، واشنگٹن کے ایک معروف وکیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کسی پاکستانی کو انسانی حقوق کے نام پر ویزے نہیں دیتا، سیروکاروبار کے ویزے بھی مشکل سے ملتے ہیں، امریکی ویزہ اس وقت آسان ہوتا ہے جب آپ کے پاسپورٹ پر برطانیہ کا ویزہ لگاہو، لہذا امریکہ سے پہلے برطانیہ کا ویزہ حاصل کرنے کی کوشش ضروری ہے۔
پاکستان میں امریکی ویزہ جاری نہ ہونے کے باوجود ویزہ حاصل کرنے والوں کی دوڑ لگی ہے جس وجہ سے امریکی سفارتخانے میں بہت زیادہ رش ہے اور سیاحتی اور کاروبازی ویزے بی ون اور بی ٹو کے لئے ایک سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ویزہ کی باری آجائے تو انٹرویو میں فیل ہوجاتے ہیں جس میں امریکی امریگریشن سے زیادہ ہمارے پاکستانی قصور وار ہوتے ہیں، مجھے جب امریکی سفارتخانہ کراچی میں ویزہ جاری ہوا تو انٹرویو کے دوران شکلیں دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ کن کو ویزہ جاری ہوگا اور کن افراد کو جاری نہیں ہوگا، ویزہ لینے والوں کے چہرے بوکھلائے اور مرجھائے ہوئے تھے، دو بنکر دوستوں نے اکٹھے ویزہ انٹرویو دینا تها، امیگریشن افسر نے پوچھا کہ اکٹھے درخواست کیوں دی ہے، جواب ملا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر سفر نہیں کرتے ہیں، جس پر دونوں پاسپورٹ واپس کر دئیے گئے، ایک نوجوان سے دریافت کیا گیا کہ وہ کس زبان میں بات کرے گا جواب ملا انگریزی میں بات کرے گا، اس نے بتایا کہ وہ ٹیکسٹائل مل کا مالک ہے، کپڑے کی مصنوعات بناتا ہے اور امریکہ میں امپورٹ ایکسپورٹ کو دیکھنا چاہتا ہے، امیگریشن افسر نے پوچھا کہ کون سا ویزہ درکار ہے تو جواب دیا کہ سیاحت کرنے جانا ہے، امیگریشن اصر اگلے سوال کا گولا پھینکنا لگا تھا کہ صاحب کا گلا خشک اور اوسان خطا ہوگئے اور اچانک سوال کا جواء میں دینے لگ گئے اور بوکھلا کر کہا کہ اردو مترجم کو بلائیں، جس پر امیگریشن افسر نے انھیں فیل کردیا اور مرجھائے ہوئے چہرے سے پاسپورٹ لے کر واپس چلے گئے۔ امریکہ پاکستانیوں سے خالی ہے، یہاں بھارتی اور بنگلہ دیش کے طالبعلموں، کاروباری حضرات اور سیاحوں کی بہتات ہے، بھارتی شہریوں کو گرین کارڈ کے لئے دس سال انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ پاکستانیوں کی فوری باری آجاتی ہے جس کی وجہ ہے کہ پاکستانی کی بہت کم تعداد امریکہ پہنچتی اور یہاں امیگریشن لیتی ہے۔
پاکستانی قسمت کے مارے ہیں، ان کی اکثریت اسائلم اور جلاوطنی اختیار کرنے کے لئے درخواستیں دیتی ہے ، قادیانی، شیعہ ظاہر کرنا اور پاکستان میں جان کو خطرہ کا بہانہ بناکر سیاسی جلاوطنی اختیار کرنا عام وطیرہ ہے۔ حکومت پاکستان اگر آئی ٹی میڈیکل ، انجنیئرنگ کے شعبوں کے افراد کو امریکہ تو ملک وقوم کو فائدہ ہو سکتا ہے. امریکہ ایک فری ملک ہے جہاں پر کام کی آزادی ہے، یہاں آنے والوں کے بارے میں عام مشہور کہ امریکہ آنے والے کو کبھی واپس نہیں بھیجتا، وہ جتنا عرصہ چاہیں یہاں رھا سکتے ہیں، غیر قانونی تارکین وطن کو ان ڈاکومنٹڈ امگرینٹ کہا جاتا ہے اور انہیں ال ليكل كبنا بذات خود ال ليكل ہے، یہاں پر غیر قانونی کام قانونی طریقے سے کرنا چاہئے تو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ امیگریشن کے بغیر بھی ڈرائیونگ لائسنس، آئی ڈی کارڈ اور کام کاج مل جاتا ہے ، ڈیپارٹمنٹ آف موثر وپیکل ڈی ایم وی صرف دو ثبوت ہے جس کے لئے موبائل فون کا بل اور بنک اکائونٹ کافی ہے ،جس کے بعد آپ کو ایک ٹریفک اشاروں کی کتاب دی جاتی ہے جس کو پڑھنے کے بعد آپ ایک سو ٹریفک اشارے اور مختصر سوالات کی تیاری مکمل کر لیں تو ڈرائیونگ لائسنس مل جاتا ہے، ویسے امریکہ کے ٹریفک قوانین آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے ڈرائیونگ لائسنس پر چه ماه تک گاڑی چلا سکتے ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ انٹر نیشنل ڈرائیونگ اور عام لائسنس دونوں پر گاڑی چلاسکتے ہیں، میرے امریکی دوست منیر گیلانی نے دلچسپ واقعہ سنایا کہ امریکہ آنے کے بعد انھوں نے دس برسوں تک پاکستانی لائسنس پر گاڑی چلانی کیونکہ امریکی لائسنس پر انھیں تیز گاڑی چلانے پر جرمانہ اور پوائنٹس لگتے تھے جس پر کار انشورنس مہنگی ہوجاتی ہے، لیکن پاکستانی لائسنس پر پوائنٹس نہیں لگتے، میکسکوکی میری کلاس فیلو نے بتایا کہ امریکہ میں بہت سارے تارکین وطن بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلا رہے ہیں، ایک پاکستانی نے کمال کیا کہ وہ وزٹ ویزے پر تشریف لائے اور یہاں امریکی شہری کے شناختی کارڈ نمبر پر ڈیلیوری ویگن چلا کر اچھے پیسے کمارہے ہیں۔ بنک اکائونٹ کھولنے کے لئے رہائشی ثبوت چاہئے جس کے لئے میں نے موبائل فون کا بل دیا تو اکائونٹ کھل گیا۔ میں برطانیہ میں بارہ سال مقیم رہا لیکن نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہونے” کے مصداق پاکستان اور برطانیہ دونوں گنوا بیٹھا ، امریکہ میں آپ کو کام اور قیام دونوں مل جاتے ہیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں