517

کورونا وائرس اور عالمی معاشی حالات

مہلک وائرس نے دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین معاشیات کا قیاس ہے کہ عالمی معیشت کو اس دبائو سے نکلنے کیلئے کئی سال درکار ہوں گے ۔دنیا کی طرح پاکستان کو بھی حالیہ مالی سال میں معاشی نمو کی شدید گراوٹ کا سامنا ہے کیونکہ لوگوں کی آمدنی کم ہونے سے معیشت کا پہیہ سست ہو چکا ہے ۔لیکن ایک حوصلہ افزاء بات یہ بھی ہے کہ عالمی اقتصادی بحالی کے امکان کے ساتھ عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات میں اضافہ ہونے کی بھی امید ہے ۔خصوصاً اس وقت جب بڑھتے ہوئے قرضوں اور جعفرافیائی سیاسی تنائو کے ماحول میں مالی سال 2021ء کے معاشی پنیلٹس کی شرح نمو 1.3فیصد ہے اسی طرح اس سال عالمی شرح نمو 4.9فیصد رہ جائے گی جو ’’ ورلڈ اکنامک آئوٹ لک ‘‘ ڈبلیو ای او کی پیش گوئی سے بھی کم 1.9فیصد ہے ۔ 2020ء کے پہلے نصف میں کووڈ 19کی سرگرمیوں کی وجہ سے دُنیا کی معیشت پر بے حد منفی اثر پڑا ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ 2020ء میں شرح نمو عالمی سطح پر 5.4فیصد ہو گی جس کا اثر خصوصی طور پر کم آمدنی والے گھرانوں پر شدید تر ہو گا اس سے 1990ء کے بعد سے دنیا میں غربت کم کرنے کی عالمی کوششوں کو بھی دھچکا لگے گا۔
اپریل 2020ء کو ’’ڈبلیو ای او‘‘ کی اس ضمن میں کی گئی پیش گوئی سے اس وقت کہیں زیادہ غیر یقینی کی صورتحال ہے کیونکہ کووڈ 19سے ہونے والے نقصانات بارے پیش گوئیاں صرف مفروضوں پر مبنی ہیں حتیٰ کہ کووڈ 19سے کم متاثر ہونے والی معیشتوں میں بھی معاشی سست روّی کے حالات درست نہیں ہیں۔ 2020ء کی پہلی اور دوسری سسہ ماہی میں لاک ڈائون کے دوران دنیا بھر کے معاشی حالات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ مہنگائی کی شرحوں پر قابو پانے کیلئے جدوجہد کرنے والی معیشتوں کیلئے یہ عرصہ شدید ترین معاشی گراوٹ دور تھا ۔ خصوصاً اس دور میں جب کورونا وائرس کی دوسری لہر آنے پر بے شمار ملکوں میں دوبارہ لاک ڈائون کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ چند ہفتے قبل حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے ’’ ایس او پیز‘‘ کو مزید سخت کیا گیا ہے جن کے نتیجہ میں معاشی شرح نمو ملک بھر میں مزید سست ہو چکی ہے ، ان حالات میں دنیا بھر کے ممالک میں معاشی اشاریئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیںکہ اگر اس قسم کا معاشی عدم استحکام طویل مدت تک مزید قائم رہا تو عالمی معیشت شدید ترین مالی بحران کا شکار ہو گی۔ آج دنیا کی مالی منڈی بدترین گراوٹ سے دوچار ہے اور معاشی تھنک ٹینک کسی قسم کی حتمی اور مثبت منصوبہ بندی تشکیل دینے میں ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ مالی حالات کو جس طرح سے عام طور پر سمجھا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ سخت ہو سکتے ہیں۔
ان حالات میں دنیا کے تمام ممالک بشمول وہ ملک جو پہلے شدید متاثرہ تھے اور بعد ازاں اس موذی وبا سے چھٹکارہ حاصل کر چکے ہیں ان ملکوں کو بھی لوگوں کی صحت کے معاملات کو مناسب اور ایمرجنسی کی صورتحال کی طرح ہی دیکھنا چاہیے اس ضمن میں بہت سے ممالک کو ویکسین فراہم کرنے کیلئے بھی معاشی مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔ ان حالات میں جبکہ کووڈ 19کا خطرہ بدستور موجود ہے ، عالمی پالیسی سازوں کو چاہیے کہ دنیا بھر کیلئے تجارت و ٹیکنالوجی سیکٹر میں تعاون و مدد فراہم کریں اور ضرورت مندوں کو ریلیف کی فراہمی کیلئے مئوثر طریقہ کار اختیار کر کے اس ’’تباہی ‘‘ سے بچائو کی تجاویز تیار کریں۔
عالمی مالیاتی ادارے ’’ آئی ایم ایف ‘‘ کا اندازہ یہ بھی ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں عالمی معیشت تین فیصد تک سکڑ جائے گی اور دنیا 1930ء کی دہائی کے ’’ گریٹ ڈپریشن‘‘ سے بھی بڑے بحران کی طرف تیزی سے بڑھے گی۔ امریکہ جیسے معاشی طور پر مضبوط ملک میں ’’ نیشنل بیورو آف اکنامک ‘‘ ریسرچ کے مطابق کساد بازاری ، معاشی سرگرمیوں میں واضح کمی جو کئی ماہ تک جاری رہے گی اور ’’ جی ڈی پی ‘‘ میں نظر آنے کے ساتھ ساتھ حقیقی آمدنی بے روزگاری ، صنعتی پیداوار اور پرچون کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر گراوٹ ہو گی۔آئی ایم ایف ‘‘ نے تخمینہ لگایا ہے کہ ہم کوروناوائرس کے بدترین معاشی اثرات سے گذر رہے ہیں لیکن اگر لاک ڈائون جیسے اقدامات پے در پے ہوتے رہے ، کاروبار ختم ہوتے رہے اور لوگ بیروز گار ہوتے رہے تو کساد بازاری سنگین اور طویل ترین ہو سکتی ہے اور پھر اس سے نکلنا بھی زیادہ مشکل ہو گا۔معاشی ماہرین کے مطابق حکومتیں اگر لاگ ڈائون جیسے اقدامات ختم کر دیں اور معیشت کوسہا را دینے کی کوشش کریں مگر کررونا وائرس کی دوسری لہر کی صورت معیشت جو پہلے ہی شدید مندی کا شکار ہے اسے مزید دھچکا لگے گا ، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو اس نکتے پر ہنگامی بنیادوں پر سوچنے اور لائمہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں