55

غزہ میں امداد کیسے پہنچ رہی ہے؟


غزہ میں سات اکتوبر 2023کے بعد ہولناک جنگ جاری ہے، یہ دنیا کی سب سے تباہ کن جنگ ہے جس میں ایک صدی کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی بڑی جنگوں کے مقابلے میں یومیہ اموات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں فضائی حملوں اور بموں سے ہر روز 250سے زائد افراد مر رہے ہیں، یوکرائن جنگ میں یومیہ اموات 43، یمن 15، افغانستان 28، شام 95، عراق 50 اور سوڈان میں خانہ جنگی میں ہرروز مرنے والوں کی تعداد 51تھی۔ غزہ میں مجموعی آبادی 22لاکھ سے زائد ہے اور اموات کی تعداد 25ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے، زخمیوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، اس وقت غزہ کی ایک فیصد سےزائد اانسانی ٓبادی جاں بحق ہوچکی ہے،ہر 40افراد کے خاندان میں ایک شخص ہلاک اور زخمی ہے۔ غزہ دنیا کی انوکھی جنگ ہے جس کے دوران پوری آبادی اپنے ہی ملک کی سرزمین بے گھر بارہو چکی ہے، گھروں، سکولوں، ہسپتالوں سمیت دیگر پناہ گاہوں کی تباہی کے بعد پلاسٹک کے خیموں میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کررہی ہے۔عالمی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جس میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد جنگ سے زیادہ ہو گی اور ہلاکتوں کا سلسلہ سالہا سال جاری رہے گا۔یہ انسانی ہلاکتیں خوراک کی کمی، بھوک، سردی، بیماریوں،پینے کے صاف پانی کی قلت، جنگ میں زخمی ہونے والے افراد،ذہنی، دماغی اور جسمانی معذوریوں کے نتیجہ میں ہوگی۔اس سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ ہم غزہ کی امداد میں مصروف اداروں کے بارے میں ہنسی مذاق کررہے ہیں، ہمارے یار لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ غزہ میں امداد نہیں پہنچ رہی، امداد بھیجنے کے راستے بند ہیں اور امداد اپنے کام آتی ہے۔مرے کو ماریں شاہ مدار کی مثل کہ فلسطینی پہلے مرے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت امداد وہاں پہنچ سکتی ہے یار لوگ اسے بھی بند کرنے کے چکر میں ہیں۔المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ یو کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان فلاحی اداروں میں واحد چیرٹی ادارہ ہے جو غزہ میں عملی طور پر امدادی سامان بھیج رہا ہے۔ غزہ میں رفاہ بارڈر واحد راستہ ہے جہاں روزانہ امدادی سامان کے ٹرک غزہ روانہ ہورہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ریلیف اور بحالی کے ادارے (UNRWA) نے اپنی ویب سائٹ پر المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی بطور غیر سرکاری تنظیم خدمات کا اعتراف کیا ہے، المصطفی کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد ان کی اہلیہ اور بچے اپنے زندگی ہتھیلی پر رکھے غزہ میں امدادی سامان بھیج رہے ہیں۔7اکتوبر 2023 کو جب غزہ جنگ شروع ہوئی تو عبدالزاق ساجد اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی مادر وطن پاکستان میں موجود تھے جہاں ان کی زیر نگرانی نابینا افراد کی آنکھوں میں روشنی دینے کے لئے سب سے بڑے منصوبے پر کام ہورہا ہے،انھوں نے اس مقصد کے لئے المصطفی آئی ہسپتال لاہور قائم کیا اور پاکستان بھر میں فری آئی کیمپوں کا جال پھیلادیا ہے۔ وہ اپنے اسی مقصد کے لئے پاکستان گئے تھے اور المصطفی آئی ہسپتال کی 20اکتوبر کو ہونے والی تیسری سالگرہ کے پروگرامات طے کررہے تھے۔ غزہ کی جنگ کتنی سنگین اور طویل ہوسکتی ہے، انھیں اس کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا۔ عبدالرزاق ساجد کی آنکھیں جنگ سے آنے والی تباہی سے خوفزدہ تھیں اور انھیں غزہ جنگ میں مظلوم اور بے گناہ فلسطینی عورتوں اور شیر خوار بچوں کی ہلاکتوں کا اندزہ تھا۔ ،ان کی زبان پر صرف ایک لفظ غزہ تھا جہاں انھیں ہر حال پہنچنا تھا۔ لہذا انھوں نے پاکستان میں اپنی تمام سرگرمیوں کو معطل کر کے فوری یو کے واپس روانہ ہونے کا فیصلہ کیا اور سخت تگ ودو کے بعد وہ تیسرے ہی دن یو کے پہنچ گئے جہاں انھوں نے المصطفی لندن کے دفتر میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کر کے غزہ ریلیف مشن کا اعلان کیا،اس لمحے جن افراد نے غزہ ریلیف مشن میں ان کا ابتدائی ساتھ دینے کا اعلان کیا ان میں ہنسلو مسجد کے چودھری شفیق، بیرسٹر زبیر اعوان اور چند دوست شامل تھے۔غزہ کی جنگ میں یوکے سے امدادی سرگرمیاں سنگین خطرہ مول لینے کے مترادف تھیں، یہ ایسا وقت تھا جب نام نہاد ادارے 10ڈائوننگ سٹریٹ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ سرکاری پالیسی کیا ہوگی، وزیر اعظم برطانیہ جو اعلان کریں وہ ان کی تائید کے لئے تیار بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے نام نہاد لیڈر غزہ جنگ میں “نو سپورٹ، نو اپوز” حمایت نہ مخالفت کی پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے۔ ان حالات میں غزہ میں امداد بھیجنے کا اعلان بہت مشکل کام تھا۔ عبدالرزاق ساجد کے بعد ان کے اہلخانہ بھی پاکستان سے واپس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ غزہ کی امداد کے لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ عبدالرزاق ساجد نے یو کے میں مساجد، فلاحی اداروں سے لے کر مخیر افراد تک سب سے رابطے کئے، غزہ جنگ کے ایک ماہ بعد نومبر میں عبدالرزاق ساجد المصطفیٰ ریلیف مشن کے ساتھ یو کے سے مصرکے درالحکومت قاہرہ میں واقع عالمی ادارے ریڈ کریسنٹ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں انھوں نے ریڈ کریسنٹ اور المصطفیٰ کے درمیان غزہ میں امدادی سامان بھیجنے کا معاہدہ طے کیا۔ المصطفی ریلیف مشن کے تحت مصر پہنچنے والے وفد میں رضوانہ لطیف، صدف جاوید، وجاہت علی خان شامل تھے۔ لندن واپسی پر غزہ کی امدادی سرگرمیاں مزید تیز کردی گئیں، عبدالرزاق ساجد کہتے ہیں کہ غزہ میں سامان کی رسائی نہایت مشکل اور مہنگی ہے اور ایک جہاز کا کرایہ 40ہزار ڈالر ہے۔ان مالی دشواریوں کی وجہ سے غزہ امداد کا کام متاثرہ نہ ہو انھوں نے فنڈ ریزنگ ایونٹس کئے جس کے لئے عالم اسلام کے عظیم سکالر، خطیب اور معروف قاری مشاری الراشد العفاسی کو دس دنوں کے لئے یو کے آمد کی دعوت دی اور برمنگھم، مانچسٹر، راچیڈیل ، لندن سمیت دیگر شہروں میں مسلمان کمیونٹی کو بڑی بڑی تقریبات کر کے جمع کیا اور انھیں غزہ کی صورتحال سے آگاہ اور دل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں