ضیا شاہد
11 مارچ 1988 ء کا ذکر ہے۔ میں نوائے وقت کے بعد روز نامہ جنگ لاہور سےمنسلک ہو چکا تھا کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور میرے دوست سعید بٹ نے انتہائی پریشانی میں تیزی کے ساتھ مجھے بتایا کہ خورشید صاحب کی ویگن کو حادثہ پیش آیا ہے اور وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے میں دم بخود ہو گیا اور پھر برسوں پرانے بڑے بھائی دوست ساتھی اور اپنے آئیڈیل کی اچانک وفات پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ برسوں پہلے جب میری خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی اس دن میں نے انہیں اپنا بڑا بھائی اور انہوں نے مجھے اپنا چھوٹا بھائی مان لیا تھا۔ یہ ملاقات 38 ملتان روڈ پر واقع خورشید صاحب کے گھر میں ہوئی اور ایک گھنٹے کا وقت ان سے لیا تھا مگر ہم پہلے دن ہی ساڑھے چار گھنے با تیں کرتے رہے۔ خورشید صاحب کم گو واقع ہوئے تھے اور خاص طور پر قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے وہ زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے مگر میں ان کے پاس گیا ہی اس لیے تھا کہ جونو جوان 20 سال کی عمر میں 1943ء میں قائد اعظم کا پرائیویٹ سیکرٹری بنا اور 1947 ء تک یعنی قیام پاکستان کے شب و روز بانی پاکستان کے ساتھ رہا اس کی زبانی زیادہ سے زیادہ باتیں سن سکوں ۔ وکیلوں والے کالے کوٹ اور کالی ٹائی میں سفید شرٹ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت اور وجیہ لگ رہے تھے اور جس ڈرائنگ روم میں ہم بیٹھے تھے ان کے مکان چھوڑ نے کے بعد فوراہی میں نے یہ گھر کرائے پر لے لیا اور اپنی زندگی کے کم وبیش 15 برس وہاں گزارے۔ معلوم نہیں انہوں نے پہلی ملاقات میں مجھے کیسا پایا لیکن میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ میں زندگی کا زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاروں گا اور میری قائد اعظم کے ساتھ والہانہ عقیدت سے متاثر ہو کر انہوں نے میرے جواب میں کہا کہ مجھے آپ واقعی اچھے لگے اور آپ نے مجھے بڑا بھائی کہا ہے تو میں کوشش کروں گا کہ اس رشتے پر پورا اتروں۔ چند برس بعد وہ لاہور کی ریس کورس روڈ پر ایک وسیع و عریض کوٹھی کے عقب میں بنی ہوئی انیکسی کرائے پر لے کر وہاں منتقل ہوئے تو مکان خالی کرتے ہوئے انہوں نے چابی میرے سپرد کر دی اور کہا کہ میں ملک صاحب (مالک مکان ) سے کہہ چکا ہوں آپ ان سے مل کر نیا معاہدہ لکھوا لیجئے گا۔ ملک بشیر احمد صاحب بڑی محبت سے ملے اور کہنے لگے کہ کرائے نامے کی کیا ضرورت ہے بس وقت پر ادا ئیگی کر دیا کریں۔ ملک صاحب کے بیٹے اقبال ملک سے ایسی دوستی ہوئی کہ بھائیوں سے بڑھ کر تعلقات بن گئے ۔ آج کل وہ ٹمپل روڈ پر لاہور پیلس نامی شادی گھر کے مالک ہیں۔ خبر یں کا پانچ محل روڈ پر واقع دفتر بھی انہوں نے خریدا اور وہاں لڑکیوں کا ہاسٹل بنایا۔ عمر بھر وہ یونائیٹڈ بنک میں منیجر رہے اور ”خبریں“ کے ایک ڈائر یکٹر بھی ہیں۔
کے ایچ خورشید صاحب سے میری ملاقاتیں سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہیں۔ ایک بار یہ تعلق بنا تو انہوں نے بھی بڑی محبت اور شفقت سے نبھایا اور میں نے بھی انتہائی عقیدت اور جذبے سے اسے قائم رکھا۔ پہلے دن سے ان کی باتوں میں مجھے قائد اعظم کی خوشبو محسوس ہوئی ۔ نو جوانی میں قائد کے ساتھ زندگی کے چار سال گزارنے کے سبب وہ سوچ کے اعتبار سے بانی پاکستان کے سانچے میں ڈھل گئے تھے۔ ان کی زندگی اول و آخر قائد کے اصولوں پر قائم تھی یہی وجہ ہے کہ قائد کی رحلت کے بعد بھی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے گھر فلیگ ہاؤس میں دو اڑھائی سال تک قیام کیا جہاں ان کی نئی نویلی لہن بیگم ثریا خورشید بھی ان کے ساتھ تھیں۔ قارئین واضح رہے کہ بیگم شیا سے کے ایچ خورشید کی شادی 31 دسمبر 1955 ء کو ہوئی اور 3 جنوری 1956 ء کو ان کا ولیمہ ہوا۔ ارداد میں سب سے بڑی بیٹی یا مین ہارون ہے ایک بیٹا امیرج خورشید 14 سال کی عمر میں فوت ہو گیا ایک دوسرا بیٹا عروج خورشید 1969ء کو پیدا ہوا اور 1974 ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ کے ایچ خورشید کا ایک بیٹا خرم خورشید 1961 ء میں پیدا ہوا جو ماشاء اللہ حیات ہے اور کینیڈا میں مقیم ہے۔ بیگم ثریا خورشید نے مادر ملت کے ساتھ اپنے قیام کے دوران ہونے والے بعض واقعات پر ایک کتاب یادوں کی کہکشاں بھی لکھی ہے ہے نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے شائع کیا ہے۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ زندگی بھر ان کے پاس رہائش کے لیے ذاتی مکان تھا نہ کوئی دوسری جائیداد۔ انہوں نے کوئی زمین الاٹ کروائی نہ کوئی سرکاری لائسنس لے کر بیچا۔ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے وہ قانون کی پریکٹس کرتے تھے اور جب میری ان سے دوستی ہوئی تو ان کے پاس ایک پرانی سیاہ رنگ کی اوپن ریکارڈ گاڑی تھی جو ہر دوسرے تیسرے دن خراب ہو کر ہمارے مشترکہ دوست سعید بٹ کی ورکشاپ میں پہنچ جاتی تھی جو چو بر جی کے پاس گرین بلڈنگ کے سامنے کاروں اور ٹریکٹروں کی مرمت کا کام کرتے تھے اور اس ورکشاپ سے میں بھی اپنی کار مرمت کرواتا تھا۔ قارئین ! کیا آپ کو یہ سن کر حیرت نہیں ہوئی کہ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور قائد اعظم کے چار برس تک پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کے علاوہ دو اڑھائی سال مادر ملت کے گھر پر زندگی بسر کرنے والے کے ایچ خورشید کا انتقال اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے نہیں بلکہ ایک ویگن کے حادثے میں ہوا جس میں وہ ایک عام مسافر کی طرح سفر کر رہے تھے اور ان کی جیب سے وفات کے بعد کل 37 روپے برآمد ہوئے ۔ انہیں روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور ایمانداری میں قائد کی تربیت نے راسخ کر دیا تھا۔ میں ان کی جگہ حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ساری زندگی انہوں نے حرام کا ایک پیسہ گی اپنے یا اپنے گھر والوں پر خرچ نہیں کیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے جو سڑک فین روڈ سے اسے جی آفس کو اتی ہے مجھے اس کا نام تو یاد نہیں شاید اسے وکیلوں والی سرک کہتے ہیں، اس سڑک پر اے جی آفس کی طرف جائیں تو بائیں ہاتھ ایک گلی مڑتی ہے جہاں ایک چھوٹے سے کمرے کے باہر کے ایچ خورشید بارایٹ لا کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس دفتر میں میں سینکڑوں بار گیا ہوں گا ۔ اکثر وہ کام میں مصروف ہوتے تو میں خاموشی سے بیٹھ جاتا اور اشارے سے کہہ دیتا کہ پہلے آپ اپنا کام مکمل کر لیں ۔ وہ میری خاطر جلدی جلدی کا غذات سمیٹتے اور پھر ہماری باتیں شروع ہو جاتیں۔ تحریک پاکستان سے لے کر آج کی سیاست تک ہم واقعی گھنٹوں باتیں کرتے نہ تھکتے ۔ انہوں نے اپنے گھر بھی بیشمار مرتبہ مجھے بلایا۔ میری ان کی بیگم صاحبہ سے بھی متعدد بار ملاقات ہوئی خاص طور پر جب کبھی میں یاسمین کو ساتھ لے کر جاتا ان کی بیٹی یا کمین ان دنوں کالج میں پڑھتی تھی آج کل لاہور میں پی آئی اے کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک ہیں ہم خورشید صاحب کے بھائی شاہد کی شادی میں ایک ساتھ مظفر آباد بھی گئے اور دو تین دن وہاں قیام کیا۔ ہمارے درمیان عام طور پر جو گفتگو ہوتی تھی اس کے ذکر سے پہلے آئیں ذرا ایک نظر خورشید صاحب کی ذاتی زندگی پر ڈالیں۔
کے ایچ خورشید کا پورا نام خورشید حسن خورشید تھاوہ سری نگر مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد حسن ایک سکول ٹیچر تھے۔ انہوں نے کالج کے زمانے میں کشمیر مسلم سٹورانٹس فیڈ ریشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی جب وہ پہلی بار طلباء کے ایک وفد کے ساتھ جالندھر گئے جہاں ایک تقریب میں قائد اعظم نے انہیں پاکستان کا جھنڈا عطا کیا جسے خورشید صاحب نے اس قدر مضبوطی سے تھاما کہ زندگی بھر اس کے سائے سے باہر آنے کا سوچا تک نہیں۔ خورشید صاحب نے امر سنگھ کالج سری نگر سے بی اے کیا۔ ریاضی اور اکنامکس ان کے خاص مضمون تھے۔ قائد اعظم کشمیر کے تیسرے دورے میں سری نگر پہنچے اور موٹر بوٹ میں قیام کیا تو خورشید صاحب ایک طالب علم رہنما کی حیثیت سے روزانہ قائد کے پاس حاضری دیتے تھے۔قائد اعظم کا پرائیویٹ سیکرٹری بنے کا واقعہ خورشید صاحب نے مجھے یوں سنایا۔
یہ 1944 ء کا ذکر ہے پریس کے نمائندے کی حیثیت سے قائد اعظم سے اس تمام عرصے میں میری بہت سی ملاقاتیں ہوئیں ۔ کچھ تو مسلم سٹوڈنٹس یونین کی وساطت سے اور کچھ اور بینٹ پریس آف انڈیا کے نمائندے کی حیثیت سے جو مسلمانوں کی واحد نیوز ایجنسی تھی۔ سرینگر میں اس کے نمائندے اسماعیل ساغر تھے جو بہت پر جوش کارکن تھے اور پیشے کے اعتبار سے دکاندار مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں انگریزی نہیں آتی تھی ۔ اور ینٹ پریس آف انڈیا والے معاوضہ نہیں دیتے تھے اس لئے انگریزی تعلیم یافتہ لوگ اس کام میں دلچسپی بھی نہ رکھتے تھے۔ اسماعیل ساغر نے مجھے سے کہا قائد اعظم بیانات انگریزی میں دیتے ہیں اس لئے جب تک وہ سرینگر میں ہیں تم اور پینٹ پریس آف انڈیا کی نمائندگی کرو۔ میں نے حامی بھر لی اور پریس کے نمائندے کی حیثیت سے قائد اعظم کو وقتا فوقتا ملتارہا۔
ان دنوں قائد اعظم کے پاس جو سیکرٹری تھا اس کا نام مسٹر لو بوتھا۔ وہ بمبئی کا عیسائی تا ہے کشمیری تو ایک طرف رہی اردو تک نہ آتی تھی۔ وہ محض ملازم تھا قومی خدمت اس کے پیش نظر نہ تھی۔ اس لئے وہ جانفشانی سے کام بھی نہ کرسکتا تھا، جس جانفشانی سے ہم رضا کار رتے تھے۔ قائد اعظم کو بعض خطوط اردو میں لکھوانا ہوتے تو مجھے بلوا لیتے ۔ بعد ازاں حکم کھا کہ روزانہ آ جایا کرو میں روزانہ جانے لگا۔ اس دورے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
تیم جولائی 1944 ء کے لگ بھگ ایک روز فرمانے لگے کہ خورشید تم میرے پاس جھاؤ اور میرے ساتھ کام کرو۔ میں نے عرض کیا، جناب ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور بی اے کا امتحان دینا ہے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد کل سوچ کر جواب دوں گا۔
چند روز ہی ادھیڑ بن میں گزرے پھر جی میں آئی کہ تعلیم تو پھر بھی حاصل کی جاسکتی ہے مگر مسلمانوں کے اس عظیم قائد کی صحبت شاید پھر میسر نہ آئے اور مسلم لیگ کیلئے کام کرنے کا موقع پھر نہ مل سکے لہذا حامی بھر لی۔ پہلے مجھے مسٹر لوبو کے ساتھ اسٹمنٹ بنایا گیا اور کچھ عرصے میں سارا کام سمجھ لیا تو قائد اعظم نے مجھے اپنا سیکرٹری مقرر کیا۔ اس عہدے پر میں اصولی طور پر ان کی وفات تک فائز رہا۔“
خورشید صاحب صبح آٹھ بجے سے رات گئے تک انتہائی محنت سے کام کرتے کبھی کبھی فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ باہر سے آنے والے خطوط کھولتیں اور ان کی مدد کر تیں۔ قیام پاکستان کے بعد خورشید صاحب قائد کے ساتھ کراچی آئے تو قائد اعظم کو کشمیر کی نظر احق تھی۔ انہیں خورشید صاحب کا پس منظر معلوم تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبد اللہ کے نام ایک خصوصی پیغام دے کر خورشید صاحب کو سری نگر بھیجا لیکن مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے یہ جان کر کہ وہ قائد کے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں انہیں گرفتار کر لیا۔ محترمہ فاطمہ جناح اور قائد اعظم انتہائی پریشان ہوئے اور قائد نے پنڈت نہرو کو ذاتی طور پر ایک خط لکھا جس میں یہ جملہ شامل تھا کہ مجھے خورشید کی بہت ضرورت ہے آپ ذانی دلچسپی لے کر اسے رہا کروائیں اور پاکستان بھجوائیں، لیکن پنڈت صاحب نے مطلق توجہ نہ دی اور خورشید صاحب کو 13ماہ قید تنہائی کا نا پڑی جس میں ہندوستانی حکام ان سے مسلسل تفتیش کرتے رہے کہ وہ کس مقصد کے لیے سری نگر آئے ہیں۔ بعد ازاں خورشید صاحب کو اہم قیدیوں کے تبادلے کی ٹیم میں رہا کیا گیا اور ان کے بدلے میں ایک بھارتی جرنیل جنرل گھساراسنگھ کو پاکستانی حکام نے رہا کیا۔ خورشید صاحب پاکستان پہنچے تو بہت دل گرفتہ تھے۔ قائد کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنے دوست عزیز بیگ کے ساتھ مل کر گارڈین کے نام سے ایک اخبار نکالا چونکہ قائد کی وفات کا دکھ اس قدر زیادہ تھا کہ سیاست سے خورشید صاحب کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ گارڈین زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور مالی مشکلات کے باعث بند ہو گیا۔ کے ایچ خورشید صاحب کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے پاس کراچی بلایا اور وہ فلیگ ہاؤس میں ان کے ساتھ رہنے لگے۔
محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم کا خورشید صاحب کے والد سے کیا جانے والا وعدہ باد تھا کہ وہ اس نوجوان کو اعلی تعلیم کے لیے لندن بھیجیں گے لہذا محترمہ فاطمہ جناح نے انہیں لندن جانے میں ہر طرح سے مدد دی اور خورشید صاحب نے بار میں داخلہ لیا اور بار ایٹ لا کر کے چند برس بعد پاکستان لوٹے ۔ جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا جس کے ووٹر بنیادی جمہوریت کے منتخب ارکان تھے تو خورشید صاحب نے ان کے پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے بہت محنت کی لیکن مادر ملت کو مغربی پاکستان میں ناکامی اور مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ کچھ عرصہ بعد ایوب خان نے کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کی صدارت کے لیے پیشکش کی۔ خورشید صاحب اول و آخر جمہوریت کے پرستار تھے اور ایوب خان کی فوجی آمریت سے انتہائی نفرت کرتے تھے لیکن مادر ملت نے ذاتی طور پر ان پر دباؤ ڈالا کہ آپ کو یہ پیشکش قبول کر لینی چاہئے ۔ شایدکشمیر کی آزادی کے لیے آپ کو اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کا موقع مل سکے۔
کے ایچ خورشید صاحب آزاد کشمیر کے صدر بن گئے ۔ قائد اعظم کے نقش قدم پر وہ صبح آٹھ بجے سے رات گئے تک اپنے دفتر میں کام کرتے تھے۔ رشوت اقربا پروری اور بے اصولی سے انہیں شدید نفرت تھی۔ انہوں نے آزاد کشمیر کی صدارت کے لیے الیکشن کروائے جن میں دو کامیاب ہوئے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ آزاد کشمیر کو ایک الگ آزا اور یاست تسلیم کرے اور اس کی بھر پور سیسی اور فوجی مددکرے تا کہ مظفر آباد کو ہیں کیمپ بنا کر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی جاسکے۔ پاکستان اپنے دوست ممالک سے بھی میر کو الگ ریاست تسلیم کروائےاور نام نہادکشمیر اس کے ذریعے آزادکشمیر پر بیوروکریسی کیا حکمرانی کا خاتمہ کرے۔
ایوب خان جو خود فوج کی مدد سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے تھے کیسے خورشید صاحب کا نقطۂ نظر تسلیم کر سکتے تھے۔ خود آزاد کشمیر میں بھی وہی لاقانونیت اور رشوت ستانی کا دور دورہ تھا جو پاکستان میں رائج تھی ۔ ایوب خان زیادہ دیر تک خورشید صاحب کو برداشت نہ کر سکے۔ ان کے خیال میں وہ ملک دشمنی کے مرتکب ہورہے تھے لہذا نہ صرف انہیں صدارت سے ہٹایا گیا بلکہ دلائی کے مقام پر قید بھی کر دیا گیا۔ بعد ازاں انہیں رہائی ملی تو انہوں نے جموں و کشمیر لبریشن لیگ قائم کی اور کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنے لگے ۔ شملہ معاہدے کے بعد ان کی کوششیں تیز ہوگئیں۔ وہ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح افراد کو حریت پسند بنا کر بھیجنے کے مخالف تھے۔ یادر ہے کہ ایوب خان کے دور میں یہ منصوبہ بھٹو صاحب اور وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل عزیز احمد نے بنایا تھا اور پاکستانی صدر کو یقین دلایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر حملہ کر دیں جواب میں بھارت پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پرحملہ نہیں کرے گا لیکن جب پاکستانی فوج چھمب جوڑیاں میں پہنچی تو بھارت نے لاہور پر جوابی حملہ کر دیا۔
1965ء کی جنگ 17 روز جاری رہی پھر جنگ بندی ہوئی اور آخر میں تاشقند میں مذاکرات جہاں بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری ایوب خان سے ملے اور تاشقند کا معاہدہ طے پایا جہاں پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو نے معاہدے کی حمایت کی اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں بھی اس کے حق میں تقریر کی مگر کچھ عرصہ بعد معاہدہ تاشقند کی مخالفت کر کے ایوب خان سے الگ ہو گئے اور جلسوں میں عوام کو تاشقند کا راز بتانے کا جھانسہ دے کر اپنی سیاست شروع کی اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کا قیام مل میں لایا گیا تاہم اپنی وفات تک انہوں نے تاشقند کے خورشید صاحب اس سارے تجربے کے سخت مخالف تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد کو مقبوضہ کشمیر بھیجنا جہاں کے جغرافیے سے بھی وہ واقف نہ تھے سراسر غلط اقدام تھا اور پھر ریڈیو آزادکشمیر پر ان کے لئے پیغام نشر کرنا کہ بیٹا گھر واپس آجاؤ تمہاری ماں بیمار ہے ایک لطیفے سے کم نہ تھا۔ خورشید صاحب کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ آزاد کشمیر کو ایک مثالی جمہوری ریاست بنایا جائے جس کے ساتھ الحاق کرنا مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہش میں جائے ۔ وہ سردار عبد القیوم خان کی مسلم کا نفرنس کے مخالف تھے اور پاکستان سے الحاق کرنے کے نعرے کو کشمیر کونسل کی افسر شاہی کو خوش کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیں مسلم ممالک کے علاوہ دنیا کی جمہوری ریاستوں کو اپنے موقف کے حق میں قائل کرنا چاہئے اور مسلح جدو جہد یا گوریلا جنگ کی بجائے سیاسی انداز میں جدو جہد کرنی چاہئے جیسا کی قائد اعظم نے کی تھی کچھ عرصے بعد جموں و کشمیر لبریشن لیگ کی ناکامی پر کے ایچ خورشید نے پیپلز پارٹی سے الحاق بھی کیا مگر کشمیری سیاست پاکستان سے الحاق کا دعویٰ کرنے والی مسلم کانفرنس کے پاس رہی اور سردار عبد القیوم خان بار بار کامیابی حاصل کرتے رہے کیونکہ وفاقی حکومت بھی درپردہ ان کی حامی تھی اور کشمیر کے سلسلے میں اس نقطہ نظر کی قائل تھی کہ جو حصہ ہمارے پاس ہے اس پر اکتفا کیا جائے اور زبانی طور پر مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ جاری رکھا جائے ، خورشید صاحب گنگا ہائی جیکنگ کے بھی خلاف تھے جس میں کشمیری حریت پسند اشرف اور ہاشم وہاں سے ایک فوکر طیارہ اغوا کر کے لاہور لے آئے۔ ان کا موقف تھا کہ مقبول بٹ اور ان کے ساتھی جو راستہ اختیار کر رہے ہیں اس سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگیاں بھارتی ظلم و ستم سے مزید اجیرن بن جائیں گی۔ قائد اعظم کے یہ تربیت یافتہ نوجوان کسی قیمت پر تشدد کے حامی نہیں تھے اور تحریک آزادی کو بین الاقوامی تائید وحمائت پاکستان کی بھر پور مدداور مقبوضہ کشمیر کے نو جوانوں کی طرف سے مسلسل سیاسی جدو جہد کے قائل تھے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو حریت کانفرنس کے موجودہ موقف کی تائید انک حاصل ہوتی ۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ گور یا طرز کی کاروائیاں معصوم کشمیری نوجوانوں کو تیرہ بن کے علاوہ پھانسی گھاٹ تک لے جاسکتی ہیں۔
کے ایچ خورشید کی زندگی کا یہ ایک اجمالی جائزہ ہے۔ ان کے خیالات سے اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی لیکن میں پورے یقین اور اخلاص سے یہ بات کہ سکتا ہوں کہ وہ دل سے پاکستان میں جمہوری آزادیوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری اور بالاخر ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کے خواہاں تھے۔
اب کچھ باتیں ان سے سنے ہوئے واقعات کے بارے میں ہو جائیں۔ یہ امر انتہائی حیرت کا باعث ہے کہ تحریک پاکستان کے بارے میں آخری چار برس تک دن رات قائد اور مادرملت کے ساتھ رہنے والے خورشید صاحب نے کبھی بلند و بانگ دعوے نہیں کئے ہاں جب تحریک پاکستان یا قائد اور ان کے خاندان کے حوالے سے کوئی غلط بات کہتایا حقائق کو مسخ کرتا تو وہ فورا اس پر تنقید کرتے اور اصل حقائق بیان کرتے۔
ایک دن میں نے ان سے کہا جناب! آپ نے سعادت حسن منٹو کی زبانی آزاد قلم ایکٹر کی باتیں پڑھی ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ برسوں تک قائد کے ڈرائیور رہے۔ خورشید صاحب نے اثبات میں سر ہلایا پھر بولے سارا جھوٹ ہے۔ 1943 ء سے 1947 ء تک کے دوران میں اس نام کا کوئی ڈرائیور قائد کے پاس نہیں رہا اور اس سے پہلے بھی میرے علم میں نہیں کہ یہ صاحب کبھی اورنگزیب روڈ دتی میں قائد کے گھر ملازم رہے ہوں ، پھر انہوں نے ایک ایک کر سکے قسم، یکٹر آزاد کی او کو جھٹلانا شروع کیا۔ خورشید صاحب نے کہا کہ آزاد کہتا ہے کہ روزانہ میں کچن کے لئے پانچ سو روپے ملتے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کبھی حساب نہیں لیتی تھیں اور پیسے بھی واپس نہیں مانگتی تھیں ۔ خورشید صاحب بنے اور بولے اللہ معاف کرنے محترمہ اس قدر کفائت شعار اور فضول خرچی سے نفرت کرنے والی خاتون تھیں کہ یہ واقعہ انتہائی جھوٹ اور بکواس ہے۔ محترمہ ایک ایک روپے کا حساب لیتی تھیں اور یوں بھی کچن کے اخراجات کے لئے کسی نئے ڈرائیور کو پیسے دے کر بھیجا جو خود تسلیم کرتا ہو کہ مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی تھی اور ایک ہی بار قائد کو لے کر نکلا تھا کہ انتہائی زور سے بریک لگانے پر و قائد نے واپسی کا حکم دیا اور دوبارہ بطور ڈرائیور اس کی باری کبھی نہیں آئی ۔ خورشید صاحب نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ ایک شخص کو ڈرائیونگ کی جھٹکا لگا اے لباس سے بھی واقفیت نہ تھی قائد انہیں برسوں تک اپنے ہاں ملازم رکھتے۔ خورشید . صاحب نے اس حوالے سے دیگر مندرجات کو بھی سراسر جھوٹ قرار دیا اور کہنے لگے قائد بھی اس دنیا میں نہیں ہیں اور محترمہ بھی وفات پا چکی ہیں اب ہر دوسرا شخص الٹے سیدھے دعوے کرتا ہے میں کس کس کی تردید کروں۔
خورشید صاحب کی زبانی میں عمر بھر قائد کی باتیں سنتا رہا۔ میری کتاب ائد اعظم زندگی کے سبق آموز واقعات میں بے شمار واقعات خورشید صاحب کی زبانی درج کئے گئے ہیں۔ قائد اعظم کا سال منایا گیا تو میں نے پی ٹی وی پر روزانہ پانچ منٹ کا ایک مختصر واقعہ قائد کی زندگی کے حوالہ سے سنانا شروع کیا اور ایک برس تک یہ کام جاری رکھا۔ انہی واقعات ایڈٹ کر کے میں نے کتاب کی شکل دی۔ جب یہ کتاب تچپ کر آئی تو اس کی پہلی کا پی دیکھ کر میں ایک بار پھر غمزدہ ہو گیا۔ میرے جی میں آئی کہ کاش خورشید صاحب زندہ ہوتے تو میں پہلا نسخہ لے کر ان کے پاس جا تا بلکہ شاید میں کتاب کا انتساب ہی ان کے نام کرتا ۔ مجھے قائد اعظم کے حوالے سے پڑھنے کا بہت موقع مل لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرسٹ ہینڈ معلومات مجھے خورشید صاحب سے زیادہ کسی سے نہیں ملیں ۔ قائد کی شادی کے وقت خورشید صاحب ان کے ساتھ نہیں تھے لیکن مادر مت کے ساتھ بے انداز و وقت گزارنے کے باعث انہیں ایک ایک واقعہ یا تھا۔ قائد کا راین کمین ان کا لباس ، ان کا طرز گفتگو ان کی خوراک ان کی دیانتداری ذاتی محنت، ان کا طبیعت کی بار بار ٹرالی ڈاکٹر مستری ان کے معالج سے مسلسل رابطہ۔ قائد کا خطوط سننا اور ان کے جواب لکھوانا، ان کے ہر ایک خط کا جواب دینا۔ ایک ایک پیسے کا حساب رکھنا پائیٹس چھوڑنے اور سیاست شروع کرنے کے بعد بھی ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ تجارتی کمپنیوں کے شیئر ز خرید نے اور بیچنے پر مشتمل ہوتا ، ان کا سیاسی دوروں کے سفری اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنا اور کبھی مسلم لیگ سے ایک پیسہ بھی نہ لینا غرضیکہ قائد کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جوخورشید صاحب سے مخفی ہو۔
ایک روز انہوں نے مجھے حیرت انگیز واقعہ سنایا، فرقہ واریت اور مذہبی تعصب پر بحث ہورہی تھی تو خورشید صاحب بولے ایک بار علما حضرات نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مسلم لیگ میں سرظفر اللہ خان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں مرکزی عیدوں اور خصوصی کمیٹیوں میں شامل کیا جاتاہے حالانکہ وہ قادیانی ہے۔ یہ تحریک چلی تو خاص طور پر تو جمعیت علمائے ہند اور دیو بندی علما نے جو مسلم لیگ کے خلاف خورشید صاحب نے بتایا کہ میں سٹڈی روم میں میز پر قائد کے سامنے بیٹھا تھا اور نوٹس لے رہا تھا کہ باہر کچھ شور سنائی دیا۔ قائد نے کہا دیکھو کیا مسئلہ ہے؟ میں باہر گیا مولوی حضرات کا ایک جلوس سڑک پر جمع ہو گیا تھا اور وہ قادیانیوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے واپس آکر قائد کو بتایا۔ انہوں نے کہا ویل! آپ جا کر ان سے کہو کہ دو لوگ اندر آجائیں اور باقیوں کی نمائندگی کریں کہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ میں گیٹ پر گیا اور انہیں قائد کا حکم سنایا۔ دو مولوی صاحبان نے جن کے پاس کتابوں اور کاغذوں کے گھڑ تھے میرے ساتھ ہو لئے۔ خورشید صاحب نے بتایا کہ سٹڈی روم میں ایک کرسی قائد کی تھی اور دوسری ان کے سامنے میز کی دوسری طرف میری یعنی بی اے کی ۔ بیٹھنے کی اور کوئی جگہ نہیں تھی ۔ دونوں حضرات کمرے میں داخل ہوئے اور ادھر اُدھر دیکھا کہ کہاں بیٹھیں۔ قائد نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا کہ سٹڈی میں میں کوئی اور کرسی نہیں رکھوا تا آپ بات کیجئے میں خود کھڑا ہو جا تا ہوں ۔ جب انہوں نے مسئلہ بیان کرنا شروع کیا تو قائد نے کہا کہ دیکھیں میں بہت ضروری کام کر رہا ہوں آپ کے لئے میرے پاس پندرہ منٹ ہیں بعد ازاں جواب کے لئے میں صرف دو منٹ لوں گا۔ مولوی صاحبان نے کھڑ کھولا اور قادیانیت کے خلاف لکھی گئی کتا میں دکھا ئیں پھر انہوں نے مرزا صاحب کے بیانات اور تحریروں کے اقتباسات سنائے۔ میں گھڑی دیکھتا رہا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ قائد جو کہتے ہیں اس پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ ٹھیک 15 منٹ بعد قائد نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور بولے .enough
جنٹلمین! اب میری باری ہے۔ قائد نے انتہائی اختصار کے ساتھ کہا اس وقت ہم مسلمانوں کے لئے علیحدہ است کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جب پاکستان بن جائے گا تو آپ لوگ عوام سے مل کر جو بلہ کریں گے مجے منظور ہوگا لیکن سردست میں ہر اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں جو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ کسی کے دل میں کیا ہے اس کا علم صرف خدا کو ہے لہذا مہر بانی کر کے مجھے اپنا کام کرنے دیجئے اور ریاست بننے کا انتظار کیجئے پھر بیٹھ کر فیصلہ کرنا کہ کون کیا ہے۔ مولوی صاحبان نے پھر بولنا چاہا تو قائمہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا جناب ! پاکستان بننے تک مجھے ان بھٹوں میں نہ الجھائیں اور مہربانی کر کے میرا مزید وقت ضائع نہ کریں۔ وہ دونوں مولوی مصر تھے کہ ابھی تو ہماری بات مکمل نہیں ہوئی مگر قائد نے کہا میں اب اس مسئلے پر مزید ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا اور کرسی پر بیٹھ گئے، میں نے ان سے بڑے ادب سے درخواست کی کہ براہ کرم ہیں اپنا کام کرنے دیں اور بمشکل تمام انہیں سمجھا بجھا کر باہر لے گیا۔ قائد کا موقف ہمیشہ یہی رہا کہ مذہبی بحثوں اور فرقے بازی سے سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان بن جائے گا تو آپ کی اپنی حکومت ہوگی۔ آپ ہر متنازعہ مسئلے پر کھل کر بات کر سکیں گے۔ مذہبی ماہرین کی راے، بجے گا او پھر آخری فیصلے کو قانون کی شکل دے دی جائے گی۔ اس سے پہلے ان بحثوں میں الجھنا اپنا وقت ضائع کرنا ہے اگر آج ایک مکتب فکر کو بغیر مذہبی ماہرین کی رائے لئے نکال دیا جائے تو کل دوسرا کوئی گروہ آن پہنچےگا اور اپنے مخالف طبقے کو نکالنے کے لئے کہے گا۔ قائد نے کہا خورشید ! میں ڈرتا ہوں کہ یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو رفتہ رفتہ سب نکل جائیں گے اور آخر میں، میں اور تم باقی رہ جاؤ گے۔ خورشید صاحب ہمیشہ بتا یا کرتے تھے کہ قائد کو دنگے فساد اور لڑائی جھگڑے سے سخت نفرت تھی ۔ وہ انتہائی مہذب انسان تھے مختصر گفتگو کرتے اور ہر مسئلے پر جچی تلی رائے دیتے ، عام طور پر وہ اپنی رائے نہیں بدلتے تھے سوائے اس کے کہ دلائل سے کوئی انہیں قائل کرے۔ انہیں نام ونمود بڑی گاڑیوں قیمتی لباس سے سخت نفرت تھی ۔ وہ خوش پوش تھے لیکن مہنگی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے تھے۔ ہاں وہ ستار کے معاملے میں بہت حساس تھے اور انتہائی قیمتی اور ایک ہی برانڈ کے سگار استعمال کرتے تھے ۔ اگر کوئی انہیں مسلم لیگ کے لئے چار آنے کا چندہ بھی بھیجتا تو شروع میں وہ منی آرڈر فارم پر دستخط بھی خود کرتے ۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے تحریری طور پر پوسٹ آفس والوں کو خط لکھا کہ ان کی عدم موجودگی یا عدیم الفرصتی کے باعث میرے پی اے مسٹر کے ایچ خورشید میری طرف سے منی آرڈر اور رجسٹری لفافوں کی وصولی پر دستخط کرنے کے مجاز ہوں گے۔
قائد کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات میں نے چونکہ خود ترتیب دیئے ہیں اس لئے مجھے بہت سی معلومات حاصل ہیں جو بالعموم میں نے مختلف کتابوں مضامین اور انٹرویوز سے اخذ کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں قائد اعظم سے زیادہ اصول پسند انسان نہیں دیکھا اور خورشید صاحب کی سوچ بھی قائد کے اصولوں کے مطابق ڈھل گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں ان کی باتوں میں سے قائد کی شخصیت کے مختلف پہلو تلاش کیا کرتا تھا۔ وہ عام لوگوں سے ہمیشہ کم گفتگو کرتے تھے لیکن میرے ساتھ ان کی نشست پانچ انچ چھ چھ گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی ۔ میری علمی پیاس کبھی نہیں بجھتی تھی اور خورشید صاحب کم از کم مجھ سے گفتگو کرتے وقت کبھی نہیں تھکتے تھے۔ مظفر آباد آزادکشمیر میں ایک زمانے میں ہمارا دفتر خورشید صاحب کے مزار کے بالکل قریب تھا اور جب کبھی میں وہاں جا تا ہمیش ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد آدھ پون گھنٹہ وہیں گزارتا۔ میں ان کی باتیں باد کرتا اور پھر ان کا آج کے حالات سے موازنہ کرتا۔ قائد نے اپنی وفات کے بعد ذاتی جائیداد کے بارے میں کیا وصیت کی۔ انہوں نے اپنے سکول کو کیا عطیہ دیا جس میں بچپن میں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور کو کیا رتم تھے میں دی۔ انہوں نے کس طرح اپنی بیٹی دینا جناح کو خود سے دور رکھا کیونکہ اس نے ماں کے پاری اندان میں شادی کر لی تھی۔ خورشید اب بھی قائد کی ذاتی زندگی کے حال سے منٹو کرنے تو ان کی عظمت اور مسلمان قوم کے لئے اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی قربان کرنے کی ینت انہیں آبدیدہ کر دیتی۔ ضیا صاحب ! وہ اکثر کہتے تھے جناح صاحب جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں وہ انسان نہیں مقصد سے عشق اور اصولوں کی پاسداری میں ایک پہاڑ کی طرح تھے۔ جس پر نہ گرم ہوا کوئی اثر کرتی ہے اور نہ برف باری، برسوں تک ان کے ساتھ رہنے کے باعث کوئی شخص اپنے منہ سے کوئی جملہ ادا کر رہاہوتا تو مجھے پا جانتا تھا کہ اس کے جواب میں قائد کیا کہیں گے ۔ ان کے اپنے متعین کردہ اصول تھے اپنی زندگی کا ایک ڈھب تھا۔ سروجنی نائیڈو جو ان کی مداح تھیں نے ٹھیک لکھا تھا کہ میں یک سکتی ہوں باپو ( گاندھی ) جھک سکتے ہیں بدل سکتے ہیں مگر جناح صاحب کو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی دائیں بائیں ہلایا نہیں جا سکتا۔ وہ نہ جھک سکتے ہیں اور نہ بک سکتے ہیں ۔ کاش ہماری قوم میں بھی جناح کی طرز کا ایک بھی لیڈر ہوتا۔ قائد کو اپنی زندگی میں سب سے بڑا دھوکا تقسیم کے وقت مسلم کش فسادات سے لگا ۔ وہ شخص جس نے زندگی میں کبھی لکھی تک نہیں ماری تھی جب انہیں بہار کے بعد مشرقی پنجاب کے فسادات کا علم ہوا جب لاشوں سے بھری ریل گاڑیاں پاکستان پہنچے لگیں تو قائد کے اعصاب پر بہت برا اثر پڑا۔ وہ اس قدر نفیس مہذب، شائستہ اور صلح پسند انسان تھے کہ میں قبوضہ کشمیرمیں قید تنہائی کاٹ رہا تھا لیکن بار بار مجھے احساس ہوتا کہ لٹے پٹے مہاجرین کی آمد سے میرے قائد کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ آپ یقین جانیں کہ ایک بار کچن میں کام کرنے والے ایک ملازم کی انگلی سبزی کاٹنے والی چھری سے کٹ گئی۔ وہ سٹڈی میں آیا تو انگلی کا ایک حصہ ساتھ لٹک رہا تھا۔ قائد نے فوراً کہا خورشید اس پر پٹی باندھو۔ وہ انسانی خون کو بہتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میرے پاس پٹی موجود نہیں تھی میں نے کاغذ سے اس کا زخم ڈھانپا اور ہاتھ ے کپڑ کر ملازم کو باہر لے گیا۔ واپس آیا تو بار بار قائد یہ پوچھتے رہے کہ کیا اسے ہسپتال بھجوا دیا نے اثبات میں جواب دینے پر وہ بولے میں دعا کرتا ہوں کہ اس کی کئی ہوئی انگلی ٹانکے لگا کر ساتھ جوڑی جاسکے۔ اسے ایک مہینے کی چھٹی دلوا دو۔ فاطی ( فاطمہ جناح ) سے کہنا کچھ دن دوسرے تک سے گزارا کرے۔ اسے ہر گز کام نہ کرنے دیں۔
خورشید صاحب نے بتایا کہ جب کبھی ہم سفر پر جانے لگتے جس میں بالعموم ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ساتھ ہوتی تھیں تو وہ بار بار اطمینان حاصل کرنے کے لیے کہ ان کی ہمشیرہ کو مناسب جگہ اور مناسب سہولیات مل بھی گئی ہیں کہ نہیں۔ کبھی کام میں دیر ہو جاتی تو کہتے مجھے تو کم ہی بھوک لگتی ہے تم جوان آدمی ہو میں انتظار کر لیتا ہوں جاؤ اور کھانا کھا کر آؤ۔ وہ اپنے ملازموں کی صحت کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے اور کسی کے بارے میں سنتے کہ طبیعت خراب ہے تو ڈرائیور کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس بھیجتے ۔ ہر نقد رقم یا چیک موصول ہونے پر جو مسلم لیگ کے لیے فنڈز کی صورت میں آتا تھا وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تیک اپنے سامنے اس کی رسید نہ ہوا لیتے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی سیاسی رہنما ایسا ہو جو امانت کے سلسلے میں اس قدر محتاط ہو۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں میں یہ اعلان کروا ئیں کہ جس شخص کے پاس بھی مسلم لیگ کو فنڈ ز بھیجنے کی رسید ہے یا قائد اعظم کی طرف سے انگریزی زبان میں موصول ہونے والا خط ہے وہ اس کی فوٹوسٹیٹ آپ کو بھجوائے تو آپ کو ہزاروں نہیں لاکھوں خط ل جائیں گے کیونکہ قائد نے ساری زندگی اپنے نام آنے والے ہر خط کا جواب دیا ہے البتہ پاکستان بننے کے بعد گورنر جنرل کی حیثیت سے انہیں چونکہ ہزاروں خطوط روزانہ موصول ہوتے تھے اور سب کا جواب لکھوانا مشکل ہو گیا تھا۔ اسی طرح اگر قائد کی تصویروں کو جمع کیا جائے جومختلف لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں تو بھی ایک نادر ذخیرہ بن سکتا ہے۔ خورشید صاحب نے مجھے بتایا کہ جب قائد کی وفات ہوئی تو میں مقبوضہ کشمیر میں قید تھا تاہم میرے خیال میں ان کی وفات کے حوالے سے افواہیں غلط ہیں کہ وہ کس سازش کا نتیجہ تھیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ قائد ایک مدت سے بیمار چلے آرہے تھے۔ بے تحاشا محنت ضروری ، جلسوں، اہم اجلاسوں اور سیاسی مصروفیات کے باعث طول طویل سفری صعوبتوں کے باعث وہ بری طرح تھک جاتے تھے۔ 46-1945 میں الیکشن کے دوران ایک بار قائد کلکتہ سے کو ہائی جاتے ہوئے 72 گھنٹہ کے سفر میں ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ عوام کے بڑے بڑے جلوس ہر شہر میں ان کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھے اور ٹرین ہر دس منٹ بعد رک جاتی تھی۔
خورشید صاحب نے یہ واقعہ بھی مجھے سنایا کہ ایک بار شملہ جاتے ہوئے جب فاطمہ جناح بھی ہمراہ تھیں تو قائد کی طبیعت بگڑ گئی اور فاطمہ جناح کے اصرار پر میں نے بار بار ترین کی زنجیر کھینچی تو کچھ دیر بعد ایک چھوٹے سٹیشن پر گاڑی رک گئی اور فاطمہ جناح نے دروازے کھول کر پریشانی میں آواز دی کہ آپ کے قائد سخت بیمار ہیں کیا کوئی ڈاکٹر مل سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور چند ہی لوگ پلیٹ فارم پر چل پھر رہے تھے۔ گاڑی کے مسافروں ہی میں سے گارڈ کی مدد سے میں نے ایک ڈاکٹر تلاش کیا جس نے ہمارے ڈبے میں آکر قائد کو چیک کیا اور کہا کہ آپ اگلے کسی بھی بڑے اسٹیشن پر سفر کرنا بند کریں اور انہیں فوراً کسی ہسپتال میں لے جائیں لیکن تھوڑی دیر بعد قائد خود ہی سنبھل گئے اور اصرار کیا کہ انہیں لازمی طور پر شملہ پہنچنا ہے۔
خورشید صاحب ایک ڈکشنری تھے جس کے ہر صفحے پر قائد کی زندگی کے واقعات درج تھے۔ میں کوئی ایک واقعہ چھیڑ دیتا تو خورشید صاحب تفصیل سے اس کا سیاق و سباق مجھے بتا دیتے۔ برصغیر کے سیاسی لیڈروں بالخصوص جواہر لعل نہرو، گاندھی ، شیخ عبداللہ، ماؤنٹ بیٹن اور دوسرے بے شمار لوگوں کے حوالے سے قائد کی ملاقاتیں انہیں از برتھیں ۔ خورشید صاحب قائد اعظم کے عشق میں مکمل طور پر گرفتار تھے وہ ان کا ذکر بڑی بے تکلفی سے لیکن بہت احترام کے ساتھ کرتے ۔ ظاہری طور پر خورشید صاحب قائد کے لباس سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ بتایا کہ قائد بے داغ ، بے عیب اور ہر لحاظ سے موزوں
لباس پسند کرتے تھے جس سے ان کی نفاست پسندی کا پتہ چلتا تھا۔ آپ ان کے لباس میں کوئی نقص تلاش نہیں کر سکتے تھے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص ایک بار بھی ان سے ملا ہے تو وہ ہمیشہ ان کی خوش لباسی کی تعریف کرتا ہوا ملے گا۔ لا پرواہی ، جلد بازی ذہنی پریشانی اور افراتفری کا قائد کی شخصیت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ مشکل سے مشکل مواقع پر بھی انتہائی محتاط، پر سکون اور خود مختار دکھائی دیتے تھے۔ قائد کی کوئی پرائیویٹ زندگی نہیں تھی ۔ ان کا ظاہر اور باطن سب کے سامنے تھا البتہ وہ طبعاً تنہائی پسند تھے اور اشد ضرورت کے سوا لوگوں سے ملنا اور بھیڑ بھاڑ میں رہنا انہیں پسند نہ تھا۔ حتی کہ عام لوگوں کا خیال تھا کہ محمد علی جناح عوام سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد کو وقت کی صحیح قدر تھی اور وہ اپنا نصب العین اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے انہیں اس بات کا بھی شدت کے ساتھ احساس تھا کہ آئے دن ان کی طبیعت ناساز ہو جاتی ہے اور اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی وہ ضائع کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ خورشید صاحب نے مجھے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے چار برس تک مجھے روزانہ ان کو صبح شام دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے خیال میں وہ چار سے پانچ گھنٹے سے زیادہ آرام نہیں کرتے تھے۔ فاطمہ جناح کے سوا جو ان کی چھوٹی بہن تھی اور عمر میں ان سے 20 سال چھوٹی تھیں ان کے گھر میں ملازموں کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک کامیاب ڈینٹل سرجن یعنی دانتوں کی ڈاکٹر تھی۔ بھیتی میں انہوں نے کئی برس تک پریکٹس کی لیکن اپنی بھاوج رتی جناح جن کا اسلامی نام مریم تھا کی وفات کے بعد وہ اپنے بھائی محمدعلی جناح کے پاس رہنے لگیں ۔ فاطمہ جناح نے شادی نہیں کی حالانکہ ان کی بہنیں سب کی سب ہواتوں اور تو اسوں والی تھیں۔ قائمہ کے دوسرے بھائی احمد علی جناح تھے۔ جنگ عظیم سے پہلے وہ ایک کامیاب تاجر تھے جن کی تجارت یورپ، امریکہ اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی ۔ بعد ازاں ان کے بال بچے سوئٹزر لینڈ نتقل ہو گئے ۔ احمد علی جناح فرانسیسی ، جرمن اور سوئس زبانوں کے ماہر تھے۔ قد میں محمد علی جہاں سے ذرا چھوٹے تھے اور ناک قدرے چپٹی تھی لیکن احمد علی کی چال ڈھال اور باتیں کرنے کا انداز اپنے بھائی سے بہت حد تک مشابہ تھا۔ خورشید صاحب کہتے ہیں کہ قائد کے بے تکلف دوست نہ ہونے کے برابر تھے ۔ لوگ ان کی بڑائی کو تسلیم کرتے ہوئے بہت عزت اور احترام سے انہیں ملتے تھے۔ وہ چھا جانے والی شخصیت تھے اور دبلے پہلے انسان ہونے کے باوجود انتہائی پرشکوہ اور خوبصورت اور دلکش شخصیت کے مالک تھے ان کے لیے انتھا اور پتلی انگلیاں اپنا مطلب واضح کرنے کیلئے گفتگو کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھیں تو سنے والاگو ہو جاتا تھا۔ قائد کی گردن کی جنبش اور ان کی انگلیوں کی حرکات اور سب سے بڑھ کران کا سگار، پینے کا انداز ، دیکھنے اور سننے والوں کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا تھا۔ ان کی تیز نگاہوں سے آپ کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ مخاطب کو چیر کر اس کے دوسری طرف نکل جائیں گے۔ ان کی آنکھیں آپ کا ایکسرے کر لیتی تھیں اور آپ محسوس کرتے تھے کہ قائد میرے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچتے اور اس کے ہر پہلو کو مجھنے کی کوشش کرتے تھے اور جب آخری بار وہ کوئی رائے قائم کر لیتے تو پھر اس سے ہرگز نہیں ہٹتے تھے۔
خورشید صاحب نے مجھے بتایا کہ مسٹر جناح کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی حیرت انگیز یاد داشت تھی۔ آج وہ ایک بیان پریس کو دیتے تو ہفتہ بعد بھی انہیں وہ سارے کا سارا زبانی یاد ہوتا تھا۔ وہ اپنے کہے ہوئے الفاظ کو ہرگز فراموش نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں 99 بارسوچ کر 100 ویں بارا اپنی زبان سے الفاظ ادا کرتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے یادر ہتا ہے کہ میں نے فلاں موقع پر فلاں بات کہی تھی ۔ ان کا ذہن ایک خاص سانچے میں ڈھل چکا تھا اور ان کی زبان سے ہمیشہ موزوں ترین الفاظ نکلتے تھے جن میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی تھی ۔ تقریر کرتے وقت وہ عوام کے جوش و خروش سے کبھی متاثر نہ ہوتے تھے اور نہی کبھی اپنے آپ سے باہر ہوتے نہ ہی توازن کو ہاتھ سے جانے دیتے۔
سٹیج پر جا کر زمین ان کے پاؤں تلے کبھی نہیں سرکتی تھی۔ دنیا بھر میں ان کے ہمعصروں میں کوئی لیڈران کی طرح سے غیر جذباتی اور ایک ایک لفظ پر زور دینے والا نہیں ملتا تھا۔ قائد اپنے قول کے پچکے تھے، ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ پتھر کی لکیر ہوتا تھا جو بھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قائد بولنے سے پہلے بار بار جذبات سے ہٹ کر سو چتے تھے جس سے غلطی کا احتمال باقی نہ رہتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جو کہ رہے ہیں اس پر عمل کرنا ہو گا۔ ایک بار انہوں نے کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا میں ڈرنے والا انسان نہیں ہوں جب وقت آئے گا اور جب بھی دیکھوں گا کہ اب اور کوئی آبرومندانہ طریقہ کار باقی نہیں رہا تو سب سے پہلے گولی کھانے کیلئے اپنا سینہ پیش کروں گا۔ خورشید صاحب نے بتایا اس بات میں کوئی لفاظی نہ تھی یہ سٹیج کے کسی ایکٹر کے نہیں محمد علی جناح کے الفاظ تھے جنہیں انہوں نے 99 بار سوچ کر ادا کیا تھا اگر کوئی ایسا موقع آتا تو قائد من وعن ایسا ہی کرتے اور واقعی گولی کھانے کیلئے اپنا سینہ پیش کر دیتے۔ مخالفین کا یہ کہنا کہ وہ جیل جانے سے گریز کرتے تھے اور انہوں نے جسمانی طور پر کبھی کوئی قربانی نہیں دی سراسر غلط ہے کیونکہ قائدا اپنے مقصد کیلئے گولی کھانے کو تیار تھے البتہ جوش اور بے ہوش ہونے کے قائل نہیں تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ غیر ملکی طاقت برسر اقتدار ہو تو جیل جانا نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ انسان کی جدو جہد ادھوری رہ جاتی ہے ہاں اپنی حکومت کے خلاف احتجاج اور امی ٹیشن کا مؤثر ذریعہ جیل ہے جبکہ بیرونی طاقت کا مقابلہ خود اپنے آپ کو بے بس اور مجبوس کر دینے سے نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ خورشید صاحب کے بقول کہ قائد نے خود مجھ سے کہا تھا کہ جیل میں بے بس ہو کر اپنی جد و جہد سے الگ ہونا مجھے پسند نہیں ۔ اگر میں جیل گیا بھی تو میرے خیال میں مجھے آغا خان کے کسی محل میں رکھا جائے گا اور میرے سیکرٹری اور میرا اعملہ اور میرے ڈاکٹر ساتھ ہو نگے ۔ اخبارات اور ریڈیو اور دیگر سہولتیں مہیا ہونگی ۔ اصل جیل تو عوام کے لیے ہوتی ہے اور میری نصیحت ہے کہ جب تک اس کی اشد ضرورت نہ ہو۔
بلا وجہ اور بے فائدہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا میری سیاست سے خارج بات ہے۔ خورشید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ قائد نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں آپ کا جرنیل ہوں اور میرا کام آپ کو لڑائی کی آگ میں جھونکنا نہیں بلکہ اولین فرض یہ ہے کہ میں آپ کو تربیت دوں ۔ آپ کو جد و جہد کیلئے سامان مہیا کروں آپ کی خوراک، لباس اور ڈاکٹروں وغیرہ کا بندو بست کروں۔ سیاست بھی ایک جنگ ہے ضروری ہے کہ میں آپ کو جنگی نقشہ سمجھاؤں ۔ دشمن کی پوزیشن اور اس کی کمزوریوں سے آگاہ کروں پھر میں آپ کو حملہ کرنے کا حکم دوں اور آپ جانتے ہیں کہ افسر تو افسر عام سپاہی کو بھی تربیت دینے کیلئے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ خورشید صاحب نے کہا یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں جو خود میں نے اپنے کانوں سے سنے، پیشہ ور وکلاء کا کہنا ہے کہ قائد صرف چار گھنٹے نامور وکلاء اور بیرسٹروں کو صرف قانونی مشورہ دینا شروع کر دیتے تو فیس کے طور پر سالانہ لاکھوں روپے کما سکتے تھے۔ امریکہ اور انگلستان کے مشہور ناشروں اور کمپنیوں کی طرف سے انہیں اپنی زندگی کے حالات لکھنے کی درجنوں بار پیشکش ہوئی جس کا بقول خورشید صاحب انہیں ذاتی طور پر علم ہے۔ قائد چاہتے تو کروڑوں روپے کما سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر پیشکش کو رد کر دیا اور کہا میر کی قابلیت اور صلاحیت قومی خدمت کیلئے وقف ہے اور میرے پاس وقت بہت کم ہے اور میں ایک لمحہ بھی ان فضول کاموں پر خرچ نہیں کر سکتا۔
خورشید صاحب نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جھوٹے پراپیگنڈے اور ستی شہرت سے مسٹر جناح کو سخت نفرت تھی قائد کبھی برداشت نہیں کرتے تھے کہ حقیقت کو چھپایا جائے۔ ایک ہندو پریس رپورٹر نے ان سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ قائد نے جواب دیا میرے عزیز نوجوان پریس کا کام نہایت ذمہ داری کا ہے۔ یہ ایک امانت ہے جو تمہارے سپرد کی گئی ہے۔ پریس والے اپنے قلم کا صحیح استعمال کریں تو وہ ملک اور قوم کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں۔ تمہیں ہر کسی سے بے نیاز ہو کر اور بے خوف رہ کر اپنا فرض اداکرنا چا ہیے۔ حتی کہ میرے متعلق اور مسلم لیگ کے متعلق بھی تم جو دیکھو اور بھی محسوس کرو وہی کھو زندگی بھر ہی تمہارا اصول ہونا چاہیے۔ خورشید صاحب کہتے ہیں کہ محمدعلی جناح کی ڈاور بنی مسلہ تھیں۔ دو ہر بات کا تخمینہ ایسے درست پیرائے میں آجاتے تھے کہ عقل دنگ ہو جاتی۔ شملہ کا نفرنس نا کام ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا نمودار ہو جائیں کیونکہ الیکشن اچانک تم پر ھونٹس دیئے جائیں گے تا کہ تم تیاری نہ کر سکو۔ آج کام شروع کر دو اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس بیان کے ایک ماہ کے اندر برطانوی حکومت نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ کانگریس نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ اتنی جلدی نہ کی جائے حتی کہ ایک کانگریسی لیڈر سر جگدیش پرشاد نے جل کر کہا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ برٹش انڈ یا پر لارڈ ویول کی حکومت ہے یا مسٹر جناح کی۔ انہیں الیکشن کا پیشگی علم کیسے ہو گیا حالانکہ بیض قائد کی فہم و فراست تھی کہ انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب عوام کے پاس جانے کے سوا حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ قائد کو نہر کی طرح والدین سے ترکے میں لیڈری نہیں ملی تھی ۔ انہوں نے مسلسل سیاست کو محنت سے سیکھا اور سمجھا۔ انہوں نے اسمبلی کی سیاست میں بھی نام پیدا کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاسی داؤ پیچ اور تکنیک سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ کامیاب رہے سوائے اس وقت کہ جب انہوں نے ہندو اور مسلمان کو ایک پلیٹ فارم پرلانے کی کوشش کی۔ قائد کومتحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنانے کی پیشکش ہوئی مگر میری موجودگی میں قائد نے فوراً انکار کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے مرتبے اور مقام کے سیاستدان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ برطانوی پریس نے قائد کو مارکس لین اور کمال اتاترک کی فہرست میں شمار کیا حالانکہ قائد کا کام ان دونوں لیڈروں سے مشکل تھا کیونکہ انہوں نے یک وقت انگریز کا مقابلہ کیا اور کروڑوں ہندوؤں کا بھی جو تعداد اور سرمائے کے لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بہتر پوزیشن میں تھے۔ خورشید صاحب کے مطابق قائد نے بھیڑوں کے ایک گروہ کو ایک قوم بنا دیا۔ کاش پاکستانی اپنے بانی کی تعلیمات پر چل سکتے ۔ قائد کے مخالف انہیں ضدی قرار دیتے اور ہندو لیڈر انہیں ہٹ دھرم کہتے۔ یہ قائد کی عظمت کا اعتراف تھا۔ ایک مرتبہ قائد فرانس جارہے تھے وہ جوان تھے اور ان کی طبیعت میں مزاح کا پیوندہ و تابندہ تھا۔ ساحل فرانس پر اترنے کے بعد انہیں کٹم کی چوکی پر روک لیا گیا۔ پڑتال ہوئی تو کچھ سگریٹ برآمد ہوئے۔ قائد نے ازراہ مذاق کہا یہ چند سگریٹ میرے استعمال کے ہیں ان پر محصول کیسا۔ کسٹم حکام نے کہا یہ آپ کو دینا پڑے گا۔ قائد بولے اگر میں نے نہ دیا تو جواب ملا کہ آپ یہاں سے آگے نہیں جا سکتے۔ قائد بولے میں ضرور جاؤں گا اور کشم بھی نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر قائد نے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ٹوکری میں پھینک دیا اور کہا اب میرے پاس سگریٹ نہیں ہیں لہذا محصول کیسا۔ کسٹم حکام ہنس پڑے اور کہا آپ جاسکتے ہیں۔ خورشید صاحب نے کہا قائداکثر مجھے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سناتے ۔ وکیل کے طور پر ان کی ابتدائی زندگی طالب علمی کے زمانے میں لندن کی باتیں۔ ایک بار انہیں تھیٹر میں کام کرنے کا شوق ہوا اور انہوں نے سٹیج پر اداکاری کی اور ایک اچھے مقرر کی طرح زیردست گفتگوکی لیکن جلد ہی یہ شوق ختم ہو گیا۔ ایک بارلندن میں قیام کے دوران جب قائد پندرہ سولہ برس کے تھے تو مالکہ مکان نے کہا روزانہ نہانا صحت کے لیے اچھا نہیں اور پانی بھی بہت خرچ ہوتا ہے۔ قائد نے کہا میں تو روزانہ نہانے کا عادی ہوں۔ مالکہ مکان نے کہا اس صورت میں تمہیں گرم پانی نہیں مل سکتا۔ قائد نے کہا نہ ملے میں ٹھنڈے پانی سے نہالوں گا۔ انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ اگلے روز میں غسل خانے میں داخل ہوا تو سردی کی شدت سے اب کا پانی بالائی سطح پر ہلکا سا م گیا تھا قائد نے مجھے بتایا کہ میں نے مکا مارکر گہر کی تہ کو توڑا اور آنکھیں بند کر کے شب میں کود پڑا۔ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے جو طے کر لیتے اس پر عمل کرتے۔ برطانیہ سے فارغ التحصیل ہو کر واپس ہندوستان آئے تو والد کا کارو بارتباہ ہو چکا تھا اور مالی پریشانیاں سر پر تھیں۔ سارے خاندان کا خیال تھا کہ جناح کو پانچ چھ سوروپے ماہوار پر ملازمت مل سکتی ہے۔ چار بہنیں بزرگ والدہ والد اور ایک چھوٹا بھائی سب کی نظریں ان پر تھیں۔ انہوں نے پورے یقین سے کہا میں ملازمت نہیں کروں گا اور قانون کی پریکٹس کا آغاز کرنا چاہتا ہوں ۔ قائد نے یہ بھی بتایا کہ میں پیدل روزانہ عدالت جایا کرتا تھا اور رام میں جانے کا خیال کبھی دل میں نہ آتا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اور میں ایک آنہ بھی خرچ نہیں کر سکتا تھا۔ قائد نے دن رات محنت کی اور جلد ہی ان کی پریکٹس چل نکلی۔ ایمانداری میں ان کا جواب نہیں تھا حتی کہ وکالت کے دور کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک کیس کا معاوضہ اس طرح طے کیا کہ ان کے خیال میں یہ مقدمہ تین چار پیشیوں میں ختم ہو گا لیکن ان کے زبردست دلائل اور تیاری کے باعث مقدمہ دوسرے ہی دن ختم ہو گیا۔ قائد نے جو فیس ادا کی جا چکی تھی اس میں سے نصف واپس کر دی۔ اپنی کا میابی پر خوش موکل نے اصرار کیا کہ آپ یہ پیسے رکھ لیں لیکن قائد نہ مانے۔ خورشید صاحب کو بے شمار واقعات یاد تھے۔ ایک بہت دلچسپ واقعہ ان کی زبانی آپ بھی سنئے ، قائد کا ایک ملازم کام کے اعتبار سے بہت محنتی تھا لیکن دوسرے ملازموں سے لڑائی جھگڑا کر ن اس کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ وہ قائد کے پاس آیا اور درخواست کی کہ میں اپنے وطن (پشاور) جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کتنا عرصہ آپ کے پاس کام کیا ہے مجھے کوئی سرٹیفکیٹ بنا دیں جسے دکھا کر کسی اچھے گھر میں مجھے ملازمت مل سکے۔ قائد نے وعدہ کر لیا اوراسی روز مجھے سرٹیفکیٹ کا مضمون لکھوایا۔ قائد نے جوسر ٹیفکیٹ ملازم کو دیا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے ۔ نام اور پتے کے بعد اس کے کام کی تعریف کی اور لکھوایا کہ وہ بہت ایماندار اور اپنے کام میں بہت دلچپسی لیے والا ہے البتہ بد قسمتی سے وہ بہت لڑا کا ہے اور ساتھیوں سے اکثر اوقات لڑتا جھگڑتا رہتا ہے۔ میں اس کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کرتا ہوں۔ دستخط ایم اے جناح ۔ خورشید صاحب کہتے ہیں کہ جب یہ سرٹیفکیٹ اس ملازم نے پڑھوا کر سنا تو پریشانی کے عالم میں قائد کے پاس حاضر ہوا اور کہا جناب یہ پڑھ کر تو کوئی مجھے نوکری نہیں دے گا۔ ” قائد نے کہا آئی ایم سوری میں نے جو بچ تھا لکھ دیا میں اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔
خورشید صاحب کی کتاب ” قائد اعظم کی یادیں انگریزی زبان میں آکسفورڈ یو نیورسٹی پریس نے چھاپی تھی۔ بعد ازاں سنگ میل لاہور نے اس انگریزی کتاب کو دوبارہ چھاپا، برادرم مجیب الرحمن شامی کے اخبار اسلامی جمہوریہ میں ان کے نائب ممتاز اقبال ملک نے خورشید صاحب سے طویل انٹرویو کیا جو اسلامی جمہوریہ کی فائل میں موجود ہے۔ خورشید صاحب کے حوالے سے ایک مختصر سی کتاب میں نے بھی ترتیب دی تھی جس میں ان کے دو انٹرویوز اور دو تحریریں جمع کی گئی تھیں اس کتاب کا نام ”مسئلہ کشمیر اور خورشید صاحب“ ہے۔ خورشید صاحب کی بیگم ثریا خورشید کو شوہر سمیت مادر ملت کے ساتھ فلیگ ہاؤس کراچی میں دو اڑھائی سال رہنے کا موقع ملا۔ انہوں نے یادوں کی کہکشاں کے نام سے مادر ملت کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات پر کتاب لکھی ہے جس میں محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ قائد اعظم کی زندگی کے بعض واقعات بھی درج ہیں۔ قائد کے زیر استعمال چیزوں کی ایک چھوٹی سی نمائش گاہ مزار قائد کے ساتھ موجود ہے۔ اگر آپ نے ان کی یادگار اشیا دیکھی ہیں تو یقیناً ان چیزوں سے قائد کی شخصیت کا اندازہ کیا ہوگا۔ ان کے چشمے ان کے قلم ان کے کپڑے ان کے کف لنکس ان کے جوتے ان کی شیروانیاں ان کے کوٹ پتلون ان کی ٹائیاں اور سب سے بڑھ کر ان کے زیر استعمال گاڑی۔ کیا شاندار چیزیں ہیں اور کس قدر پر شکوہ شخصیت کے تصرف میں رہی ہیں۔ قائد اعظم اپنی جوانی میں خود بھی خوبصورت انسان تھے اور بڑھاپے میں بھی وہ ایک باوقار شخصیت تھے۔ جب کبھی خورشید صاحب قائد کی اہلیہ رتی جوان کا ذکر کرتے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ان کو بمبئی کا گلاب کہتے تھے۔ وہ انتہائی خوبصورت اور دلکش خاتون تھیں۔ قائد اعظم نے انہیں پسند کیا۔ وہ بھی قائد کو بہت چاہتی تھیں ۔ قائد نے کئی سال انتظار کیا اور جب وہ قانونی طور پر بالغ ہو گئیں تو انہیں اسلامی نام (مریم) دے کر ان سے شادی کی ۔ خورشید صاحب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ قائد سے 24 سال چھوٹی تھیں اور ان کی کبھی علیحدگی نہ ہوتی اگر قائد اپنے کالموں میں شدید مصروف ہوتے ۔ رتی جناح چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر ہمیشہ ساتھ رہیں ان کے لئے وقت لگائیں، وہ شاموں کو تفریح کے لئے کلب جانا اور راتوں کو باہر ڈنر کرنا چاہتی تھیں جبکہ قائد کی زندگی میں ان سب کے لئے وقت نہیں تھا۔ خورشید صاحب نے مجھے تفصیل سے ان کی علیحدگی اور بعد ازاں پیش آنے والے واقعات کے متعلق بتایا وہ بیمار ہوئیں تو علاج کے لئے فرانس گئیں۔ قائد کو پتا چلا تو انہوں نے فرانس پانچ کر آخری دنوں میں ان کی تیمارداری کی اور وہ بار بار کہتے رہے کہ ہمیں رتی کو بچانا ہوگا لیکن ان کی بیگم کو تپ دق کا مرض لاحق تھا اور وہ آخری سٹیج پر تھیں لہذا جلد ہی وہ دنیا سے کوچ کر گئیں، قائد کے گھر واقع دہلی میں ان کا کمرہ ہمیشہ بند رہا اور ہفتے میں ایک بار اس کی صفائی کی جاتی ۔ کبھی کبھار قائد اس کمرے میں جاتے تھے اور اپنی چہیتی بیوی کی چیزیں اور ان کا لباس دیکھ کر پرانی یادوں کو تازہ کرتے تھے۔ ان کی وفات پر صاحبزادی دینا جناح جو اپنے تفصیال کے پاری خاندان میں ان کی اپنی مرضی سے بیاہی گئی تھیں کراچی آئیں اور آخری رسومات میں شریک ہوئیں ، قارئین کو یاد ہوگا کہ چند برس پیشتر دینا جناح نے جواب خود بزرگ خاتون ہو چکی ہیں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا اور ان کی تصویریں اور خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئی بھی تھیں۔ اس تذکرے کے آخر میں آپ دیکھئے کے ایچ خورشید کی ایک تصویر اپنی بیگم یا کے ساتھ اور اندازہ کیجئے کہ یہ جوڑا کس قدر خوبصورت اور دلکش ہے۔ یہ ان کی جوانی کی تصویر ہے جب وہ مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ ان کی رہائش گاہ فلیگ ہاؤس کراچی میں قیام پذیر تھے۔
کے ایچ خورشید کی کتاب ” میموریز آف جناح پہلے پہل آکسفورڈ یونیورسٹی پر لیں نے چھاپی البتہ اس کا دوسرا ایڈیشن سنگ میل پبلیکیشنز نے 2001ء میں شائع کیا۔ یہ کتاب اردو سے ترجمہ کی گئی اور مترجم کا نام تھا خالد حسن جن کے بارے میں ہم نے پہلے بتایا ہے کہ واشنگٹن میں قیام کے دوران وہ روز نامہ ” خبریں“ کے امریکہ میں بیورو چیف بھی رہے۔ خالد حسن خورشید کی بیگم ثریا کے چھوٹے بھائی تھے۔ انہوں نے کتاب کے دریاچے میں لکھا ہے کہ خورشید صاحب کی وفات 1988 میں ہوئی تھی اور اس سال ان کے لکھے ہوئے کاغذات کو میری بہن ثریا نے ترتیب دیا۔ میں ان دنوں ویانا میں مقیم تھا میری بیوی کا نام ج والف ن ت الف تھا۔ میری بیوی جوانتا نے اسے ٹائپ کیا۔ میرے دوست خالد شیخ نے جو انٹر نیشنل اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہیں، انہوں نے اس پر نظر ثانی کی اور مسودے کو حتمی شکل دی۔ صحافی انعام عزیز نے جواب دنیا میں نہیں رہے میری بہت مدد کی اور لندن سے اطہر علی نے بھی مجھے کافی ضروری کاغذات بھجوائے ۔ شاہد ملک میرے کزن جو بی بی سی سے منسلک تھے انہوں نے تصاویر تلاش کیں۔ دیانا کے سید فیضی نے بھی اس بارے میں میری مدد کی۔ خورشید صاحب کے صحافی دوست آئی ایچ برنی نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے اسے چھپوانے کا بندوبست کیا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے پڑھا اور بعض غلطیوں کی اصلاح کی۔ سنگ میل کے شیخ نیاز احمد نے دوسرا ایڈیشن چھاپا۔ اس کتاب کے آغاز میں خورشید صاحب کے بارے میں خالد حسن کا اپنا تحریر کردہ مضمون بھی شامل ہے ۔ خورشید ایک زندگی کے عنوان سے میں خالد حسن نے لکھا ہے کہ خورشید صاحب کا خاندان اگر چہ سری نگر کا رہنے والا تھالیکن انہوں نے اپنا بچپن گلگت میں گزارہ جہاں ان کے والد مولوی محمد حسن ہیڈ ماسٹر تھے اور ان کی والدہ وزیر اپنے بچوں کے ساتھ وہیں رہتی تھیں۔ خالد حسن یہ بھی لکھتے ہیں کہ سری نگر میں کشمیر سٹو ڈنٹس فیڈ ریشن کے نام سے خورشید صاحب نے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ اور کینٹ پریس کے سری نگر میں نمائندے بھی رہے۔ اکتوبر 1947 میں وہ قائد اعظم کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر گئے جہاں شیخ عبداللہ کی حکومت نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ لاہور میں انہوں نے جو اخبار نکالا وہ ہفت روزہ تھا۔ وہ ہفت روزہ بند ہو گیا تو خورشید صاحب کراچی چلے گئے جہاں سے فاطمہ جناح نے انہیں مالی مدد کر کے لندن اسی درسگاہ میں بار ایٹ لاء کرنے کے لئے بھیجا جہاں سے قائد اعظم فارغ التحصیل ہوئے تھے اس درسگاہ کا نام لنکنز ان ہے۔ واپس آکر 1954 میں پریکٹس شروع کی ۔ 1959 میں ایوب خان کے دور میں صدر آزاد کشمیر بنے جس کی اجازت محترمہ فاطمہ جناح نے خود دی تھی ۔ 1964 میں شیخ عبداللہ پاکستان آئے لیکن پنڈت نہرو کی اچانک فوتیدگی کے باعث فورا واپس چلے گئے ۔ 1964 کے انتخابات میں خورشید صاحب جو آزاد کشمیر کی صدارت سے الگ ہو چکے تھے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج ہے ۔ انہوں نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے پاکستانی فوج کی طرف سے آزادی کشمیر کے لئے مسلح جدوجہد کی مخالفت کی ۔ 1962 میں جموں و کشمیر لبریشن لیگ قائم کی ۔ وزارت امور کشمیر کا جوائنٹ سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر کا اصل حکمران ہوتا تھا کی شکایات کی بنیاد پر پاکستان ٹیلی ویژن نے خورشید صاحب کی تصویر خبر یا گفتگو نشر کرنے پر پابندی لگائی جو 1988 میں ان کی وفات تک جاری رہی ۔ ژیا خورشید صاحبہ کا ایک مضمون بھی خورشید صاحب کے بارے میں میموریز آف جناح کے شروع میں شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے خورشید صاحب کی ذات کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بہت زیادہ سفر کرتے تھے۔ شاپنگ میں انہیں کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کا بہت شوق تھا۔ اچھا کھانا بہت پسند کرتے تھے خاص طور پر جب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھایا جائے ۔ خود بھی اپنی والدہ کی طرح بہت اچھا کھانا تیار کرتے تھے۔ اپنے بچپن کے واقعات سناتے کہ کس طرح وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گلگت میں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم کہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بہت گریز کرتے تھے اور انگریزی دوائیوں کی بجائے ہربل دوائیں استعمال کرتے تھے۔ اور عمر بھر وہ گلے کی خرابی کا علاج ہر بل قہوے سے کیا کرتے تھے۔ کرنل رشید ان کے بڑے بھائی تھے۔ خورشید صاحب اپنے دوستوں میں KH کے نام سے یاد کئے جاتے تے اور آزادکشمیر میں انہیں ” خورشید ملت کہا جاتا تھا۔ دوسروں کی رائے کا وہ بہت احترام کرتے تھے اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ خوش مزاج خوش طبع اور خوش پوش انسان تھے۔ جمہوریت کی پرستش کرنے والے تھے۔ ہمیشہ عوام کی طاقت میں ان کا بھروسہ ہوتا تھا۔ لندن میں تعلیم کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے بی بی سی میں کام بھی کیا ۔ صبح سویرے اٹھنا ان کا معمول تھا۔ بیڈ ٹی اپنے لئے خود تیار کرتے تھے۔ ریاہ ہو سے خبریں سنتے اور اخبار دیکھتے تھے۔ نوجوانوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے اور ہمیشہ ان کی تقریبات میں شرکت کرتے ۔ بیگم ثریا خورشید لکھتی ہیں کہ ہم لاہور میں رہتے تھے کیونکہ بچے یہاں پڑھتے تھے لیکن خورشید صاحب زیادہ راولپنڈی اور کشمیر کے دوروں پر اپنا وقت صرف کرتے تھے۔ جن دنوں ان کی وفات ہوئی وہ تین کتابیں لکھنا چاہتے تھے اور پہلی کتاب قائد کے ساتھ گزرے ہوئے چار برسوں کے بارے میں تھی لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ آزاد کشمیر کی صدارت سے استعفی دینے کے بعد انہیں سرکاری نرخوں پر گھر بنانے کے لئے ایک پلاٹ مل رہا تھا لیکن انہوں نے اسی بنیاد پر حکومت کو واپس کر دیا کہ میرے پاس اس کی تعمیر کے لئے رقم نہیں ہے۔ ریا خورشید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے گورنر تھے ۔ خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہاں رہتے ہو۔ انہوں نے جمایا کہ کرائے کے ایک فلیٹ میں جو مال روڈ پر ہے ۔ نشتر صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اسی ہفتے 19 کوئنیز روڈ پر ایک گھر الاٹ کر دیا۔ ہم کچھ ماہ اس میں رہے پھر خورشید صاحب تعلیم کی غرض سے لندن چلے گئے تو کسی اور شخص نے پھر سے اسے الاٹ کر والیا۔ واپسی پر جب دو صدر آزاد کشمیر تھے تو میں نے کہا کہ آپ اپنا گھر تو بحال کروائیں انہوں نے کہا کہ میں اپنا سرکاری حیثیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاؤں گا۔ بطور صدر بھی وہ دو بیڈ روم کے ایک گھر میں رہتے تھے۔ ایک میں ہمارا قیام تھا اور دوسرا بچوں کو دے رکھا تھا۔ کوئی مہمان آجاتا تو اسے بچوں کے کمرے میں سلاتے تھے۔ میری بیٹی یا کمین کی عمر پانچ سال تھی جب میں نے پہلی بار اسے سرکاری کار میں سکول بھیج دیا خورشید صاحب کو معلوم ہوا تو خفا ہوئے اور کہا آئندہ ہرگز ایسا نہ کیا جائے۔ بچوں کو انہوں نے ہمیشہ سیاست سے دور رکھا یہاں تک کہ میرے لیے خرم و مظفر آباد آزادکشمیر میں لوگوں نے اس وقت دیکھا جب خورشید صاحب فوت ہوچکے تھے۔فرم تعلیم سے فارغ ہوکر راولپنڈی میں پکچر دیا حالانکہ میں چاہتی تھی کہ وہ اپ کی طرح وکیل ہے لیکن اسے یہ پسند نہ تھا۔ میں نے زور دینا چاہا تو خورشید صاحب نے خود خرم سے پوچھا اس نے کہا میں ٹیچر بنا چاہتا ہوں۔ خورشید صاحب نے کہا کہ کسی پر اپنی مرضی کو نہیں ٹھونتے جو وہ چاہتا ہے بن جائے۔ میں نے ان کی صدارت کے دوران یہ کہا کہ ہم زیادہ تر لا ہور میں رہتے ہیں آپ اس کی تبدیلی راولپنڈی سے لاہور کروادیں خورشید صاحب نے انکار کیا اور بولے وہ سرکاری ملازم ہے۔ اگر محکمہ اسے ڈیرہ غازی خان بھیجنا چاہتا ہے تو بھی اس کا فرض ہے کہ وہاں جا کر ڈیوٹی ادا کرے۔ بہت برس بعد اس کی تبدیلی محکمہ نے خود ہی لاہور کر دی تو خورشید صاحب بہت خوش ہوئے لیکن پھر بھی نصیحت کی کہ جہاں آپ کو بھیجیں آپ جاؤ اور محنت سے کام کرو۔ 15 اگست 1964ء کو انہوں نے صدارت سے استعفی دیا تھا۔ صدر ایوب خان کی طرف سے کچھ دن پہلے انہیں اور مجھے کسی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ خورشید صاحب نے کہا اب میں صدر نہیں رہا لہذا ہم دعوت میں نہیں جائیں گے۔ ہم صرف ایک رات سرکاری گھر میں رہے اگلے روز خورشید صاحب نے کراچی کا رخ کیا اور میں اپنے بچوں کو لے کر اپنے والدین کے پاس سیالکوٹ چلی گئی حالانکہ ہم قواعد کے مطابق تین ماہ تک سرکاری گھر میں رہ سکتے تھے۔ خورشید صاحب نے گھر چھوڑتے وقت سرکاری کار بھی استعمال نہ کی اور ایک ٹیکسی منگوائی۔ ہمارے ڈرائیور اور ملازم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن خورشید صاحب اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ کچھ چیزیں جو رہ گئی تھیں انہیں لانے کے لئے خورشید صاحب نے اپنے بھائی شوکت کو مظفر آباد بھیج وہاں نیازی کے ایک افسر جوائنٹ سیکرٹری ہوتے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ شام تک گھر کی صفائی کر دی جائے۔ وہ پنڈی سے اسی روز وہاں پہنچ گئے تھے اور انہوں نے خوشی سے کہا کہ میں آج رات اس بستر پر سوؤں گا جس پر خورشید صاحب سوتے تھے۔ بعد ازاں جب خورشید صاحب کو مظفر آباد سے راولپنڈی آنے والی سڑک پر دریا کے کنارے دلائی کیمپ میں قید کیا گیا تو امان اللہ نیازی مظفر آباد آتے اور جاتے ہوئے وہاں ضرور قیام کرتے۔ طنزیہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہوتی تھی اور وہ کیمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے کہ دیکھو وہ سامنے خورشید کا مکان ہے۔ خورشید صاحب نے کشمیر کی صدارت کے دوران سرکاری سٹاف کو کم کر دیا تھا اور صدر کے ساتھ کام کرنے والے ملازموں کی تعداد نصف کر دی تھی۔ خورشید صاحب اپنے اصولوں ختی سے کاربند رہتے تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے شوہر ایک ایماندار دیانتدار اور عوام میں مقبول سیاستدان تھے۔ وہ اعلیٰ قدروں پر یقین رکھتے تھے اور ہم اگر چہ تنگی محسوس کرتے لیکن ہمیشہ اس بات پر ہمیں فخر ہوتا تھا کہ خورشید صاحب نے اصولوں کی پاسداری کی اور قائد اعظم کے نقش قدم پر چلے۔
قارئین کرام ! خورشید صاحب کی کتاب ” میموریز آف جناح میں درج واقعات تم پر بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے کیونکہ ان سے زیادہ قائد کی شخصیت سے متعلق معلومات اور کسی کے پاس نہ تھیں اور نہ ہو سکتی ہیں۔
217