531

کتاب حیات کے ناقابلِ فراموش، تلخ حقائق


محمد بشیر۔ ایڈووکیٹ (واشنگٹن )

جب سے خط ارضِ پر ریاستِ پاکستان کی سرحدوں کی لکیریں کھینچی گئیں- قیاس اغلب ھے کہ زندگی کی کم و بیش چار بہاریں ھم جہانِ رنگ و بُو میں دیکھ چکے ھوں گے – معاشی و سماجی پسماندگی کے ویرانوں میں دُور – کوسوں دُور – غربت و افلاس کے خوفناک اندھیروں میں ڈُوبے ہوئےگھرانے کا چشم و چراغ بننا کاتبِ تقدیر نے ازل سے نصیب میں لکھ دیا تھا- حسب نسب البتہ کسی تعریف کا محتاج نہیں – حضرت قطب شاہ الاعوان کی اولاد میں سے ہونے کا شرف ہی متاعِ عظیم اور سرمایہء افتحار ہے- جس پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے کہ شجرہ پاک کے موتیوں کی لڑی حضرت عباس ابنِ علی کرمُ للّٰہ وجہُ الکریم کی دہلیز سے جُڑی ہوئی ہے ۔
والدین مکرمین ، مفلس و مسکین ، مگر انتہائی صابرین و شاکرین -پیشہ معمولی سی کھیتی باڑی جس سے گزر اوقات مشکل ۔ گھر میں تنگ دستی کا بسیرا ، مگر صبر اور شکر کا دامن زندگی کے آخری سانس تک باکمال مضبوطی تھامے رکھا- فاقوں کی حالت میں بھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرتے – وہ وقت بھی دیکھا کہ جَو کے ستو پی کر شِکم سَیر ہو جاتے- عید کے روز حلوہ پوری اور سیویاں دستیاب نہ ہوتیں تو نانِ شعیر پہ قناعت کر لیتے -قسمت سے کبھی گِلہ کیا نہ شکوہ – فقیری اپنائے رکھی غریبی میں نام تھا- القِصہ مختصر ، صبر یار لوگوں کی مادری جاگیر اور شُکر وراثتِ پدری ہے۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل خاندان – کچی مٹی سے بنے ہوئے ایک کمرے کا مکان – نہ کھڑکی نہ روشندان ، چھت میں ننھی چڑیوں کے گھونسلے ،شہتیروں میں دوڑتی چھپکلیاں، جب یہ تمام نظارے چشمِ تخیل کے سامنے سے گزرتے ہیں تو اپنی حیات رفتہ کی حقیقت کا تصّور دل و دماغ کے چودہ طبق روشن کر دیتا ہے- گھر میں مٹی کے تیل سے چراغ جلتا تو کمرے کے ایک چوتھائی حصے میں روشنی ہوتی- مدھم سی روشنی میں کھانا اور تھوڑی بہت پڑھائی بھی۔ بجلی کا اس وقت خواب نہ خیال ، نہ ہی لالٹین میسَر۔ یہی تھا اس وقت میرا گھر میری جنت –
ہوش سنبھالا تو چارسُو نفرت کے انبار – دستگیر کوئی نہ تھا – طعنے دینے والے بے شمار – لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر یہ کاٹ لیتے ہیں اور اگر یہ کاٹ لیں تو اِن کے زخم کبھی نہیں بھرتے۔غربت ہی بہت بڑا جُرم ہوتا ہے۔ انسان سب کچھ بُھول سکتا ہے سوائے ان لمحات کے جب اُسے اپنوں کی ضرورت تھی اوروہ دستیاب نہ تھے- نفرت ، بغض اور حقارت کے لگے ہُوئے تیروں کی درد آج بھی دل میں محسوس ہوتی ہے۔ نو مولُود وطنِ پاک میں امریکی امداد میں آئے ہوئے خشک دودھ کے پیکٹ سکولوں میں ہفتہ وار مفت تقسیم ہوتے- والدین اپنے بچوں کو پڑھائی کے لیے کم ، اور دودھ کے لالچ میں زیادہ سکول بھیجتے۔شُومئی قسمت آدھ کلو خشک دودھ کے پیکٹ کے لالچ میں بڑی ہمشیرہ نے گھسیٹ کر سکول تک پہنچا دیا۔مراکیوال سکول سے تعلیم کی ابتداء ہوئی جس کا ایک کمرہ تھا چار دیواری اور گیٹ کے بغیر وہ بھی پانچویں جماعت کے لیے مختص ۔مراکیوال کو وائسرائے ھند LORD LIN LITH GOW کی مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل ہے۔ ذیلدار چودھری فقیر حسین مرحوم کی دعوت پر 1935ء میں وائسرائےنے اس گاؤں کا دورہ کیا تھا پہلی سےچوتھی جماعت تک گرمیوں میں درختوں کے سائے میں اور سردیوں میں باہر دھوپ میں کچے فرش پر بیٹھ کر پڑھائی ہوتی- استاد محترم منشی صاحب کے لیے چھوٹی سی کرسی بغیر بازوؤں کے ۔ تختی پر کانے کے قلم سے لکھائی اور چُونے کے چاک سے سلیٹ پر حساب کے سوال و جواب لکھے جانے کا رواج عام ۔ یہی تھا زادِ تعلیم ہر طالبِ علم کیلئے۔ ہر جماعت میں سے روزانہ باری باری چند طلباء کا ہیڈ ماسٹر بڑے مُنشی صاحب کی ناز نخرے والی بھینسوں کو پانی پلانے اور نہلانے کے لئے تالاب لیکر جانا بھی تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ تھا۔ سالانہ امتحان میں پاس ہونے کی خوشی میں پتاسوں ، چھواروں یا پھولوں کے ہار پہنا کر مدّرسین کی حوصلہ افزاعی اعترافِ احسانات بھی ، شفقت اور محبت کا صلہ بھی۔

ٹیوشن کا تصّور نہ وجود – اساتذہ کا بے حد احترام – عصرِ حاضر میں اُس کا فقدان شائد تعلیم کاروباربن چُکا ھے نفع بخش کاروبار۔ جس کی خرید و فروخت کی منڈیاں ہر گلی ہر بازار ۔ جس کے پاس دولت یا بڑی عمارت کا مالک وہ خود ساختہ پرنسپل- اہلیت و قابلیت اور تجربے کی پُرسش ، نہ کوئی سوال- ارباب اقتدار کی سر پرستی میں سرکاری سکولوں میں شادیاں اور ولیمے ۔ یا پھر گدھوں اور گھوڑوں کے اصطبل ۔ شُوگرملوں کے احاطوں میں پرائیوٹ انگلش سکو ل اور کالج ۔ ہر سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کی اپنی اپنی قیمت ، منہ مانگے دام ، یہی ہے وجہ زوالِ علم و عرفان ۔آئین کی محافظ پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں والے عام ، خاندانوں کے خاندان،۰ کسی کا گھر دبئی ، کسی کا انگلستان ۔ خود ہی چور خود ہی کوتوال ۔ سرکاری خزانے سے عیاشیاں ۔ زکوة فنڈ سے حج اور عمرے بمعہ اہل و عیال – رعایا ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر تڑپ تڑپ کر جہانِ فانی سے رخصت۔ سڑکوں ، گلیوں اور رکشوں میں بچوں کی پیدائش ۔ معصوم اور بے بس عوام کا بے دردی سے قتلِ عام ہی دولت کے پوجاریوں ، اقتدار کے بُھوکھے سفاک ظالموں کا نظریہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے- پانچویں جماعت پاس کی تو مڈل سکول کھروٹہ سیداں چھٹی جماعت میں داخلہ ہوگیا ۔ تب بنچوں پر بیٹھنا نصیب ہوا ۔ سردیوں میں گرم لباس نایاب ، کھدر کی چادر اوڑھ کر کلاس میں بیٹھنا معمول ہوتا – چھٹی کلاس کی بزمِ ادب میں جنگِ بدر کے موضوع پر تقریر کا موقع ملا مقابلہ جیتنے پر ہیڈ ماسٹر چودھری منظور بُھٹہ صاحب نے خوش ہو کر دو پیسے نقد اپنی جیب سے انعام دیکر حوصلہ افزائی کی ۔ عرصہ ستر سال گزرنے کے باوجود آج تک وہ وقت ، وہ کلاس روم ، ہم عمر ، ہم جماعتیوں کے پیارے پیارے اور معصوم چہرے ابھی تک یاد ہیں ۔مڈل پاس کیا تو نویں جماعت میں داخلے کے لئے قریب ترین ہا ئی سکول کوٹلی لوہاراں کا رُخ کیا -وہاں کے ہیڈ ماسٹر قریشی صاحب کو کھروٹہ سیداں سے نہ جانے کیا ضد تھی-تمام سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دینے کے باوجود موصوف نے ایک جماعت پیچھے یعنی آٹھویں میں داخل کرنے کی ضد کردی ۔اچھے نمبروں میں مڈل پاس طالبعلم نے ایک سال ضائع کرنے سے انکار کردیا ۔ مُستقبل میں آنے والے وقت نے ہائی سکول کے منجھے ہُو ئے تجربہ کار ھیڈ ماسٹر کے فیصلے کو غلط اور چھوٹے سے طالبعلم کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔بادلِ نخواستہ سیالکوٹ چھاؤنی کی طرف رُخ کرنا پڑا- مشکلات کا اچھی طرح ادراک تھا-منزل کٹھن تھی پر علامہ اقبال کا فرمان کہ “نہ ھو نَاامید نَا امیدی زوالِ علم و عرفاں ہے، پر عمل کرکے دل پر پتھر رکھ کر چل دئیے –

سکاچ مشن ھائی سکول سیالکوٹ کینٹ میں داخلہ مل گیا ۔ متواتر دو سال تک گرمی سردی آندھی طوفان بارش میں چار سے چھ میل روزانہ دو طرفہ پیدل آنا جانا معمول بن گیا ۔ بارش ہوتی تو قمیض اتار کتابوں والے تھیلے اور جُوتے کو اُس میں لپیٹ لیتے۔ سکول میں امیرانِ شہر ۔ تاجران اور عسکری خاندانوں کے چشم و چراغ کے لباس کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک احساسِ کمتری کی ہلکی ہلکی ٹکور کرتی رہتی- مگر ہمت نہ ہاری ۔ سالہا سال کی مسافت پر امید کی کِرن اور کامیابی کی منزل دکھائی دے رہی تھی- “ارادےجن کے پختہ ہوں نظر جنکی خدا پر ہو طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہں کرتے” دوران تفریح طلباء سکول کے باہر لگے ہُوئے خوانچوں سے خورد و نوش خرید تے، ہم چند ساتھی سکول کے سامنے والی مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر آدھا گھنٹہ گزار لیتے-“اک شکستہ نائو تھی امید کی، ایک بحر بیکراں تھا اور میں” -بے رحم موجوں کے تھپیڑے کبھی ہلکے کبھی زور دار ۔ کبھی ڈوبنے کا خطرہ کبھی پار لگنے کی آس و امید – غضب پہ غضب ، گاؤں کے منافق سرپنچوں کا پڑھائی چھڑانے کے لئے بےحد دباؤ- مگر والدین کا یقیں محکم- نویں جماعت کے پہلے سہ ماہی امتحان میں نتیجہ اچھا آیا – ہیڈ ماسٹر ملک فیروز دین جو انگلش کے ٹیچر بھی تھے نے شاباش بھی دی اور فیس میں بھی نصف رعائت کردی- ڈیڑھ روپیہ معاف ہونے پر حوصلےبلند-میٹرک پاس کیا تو کالج کا شوق خواب تھا-والدِ محترم نے زمین کسی کو گروی رکھ کر داخلہ فیس کا انتظام کیا اور دو سو روپے کی نئی سہراب سائکل خرید کر دی- لباس کے لئے لنڈے سے سات روپے کی پتلون اور گیارہ روپے کا بلیزر (کوٹ) خرید کر شوق پورا کیا- بڑے بھائی نے اٹھارہ روپے کے شُوز بنوا کر دئے- یوں چھّتییس روپے میں کالج بابو بن گئے – پتلون میں کمر بند ( Belt ) کی بجائے رسی استعمال کرنا پڑتی – حقیقت کو چھپانے کے لئے کوٹ کے دونوں بٹن ہر وقت بند رکھنا پڑتے – گیارہ روپے ماہانہ فیس تھی کبھی بھائی پیسے دیتے کبھی گھی اور کبھی گُڑ بکنے کا انتظار رہتا-


انٹرمیڈیٹ پاس کیا تب تک معاشی تنگ دستی دہلیز پر پنجے گاڑ چکی تھی-والدین پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہ سمجھا-گرچہ پڑھائی کا شوق بہت تھا۔ معاشی حالات سے مجبور ہوکر تعلیم ادھوری چھوڑی اور روزگار کی تلاش شرو ع کردی -ڈسٹرکٹ پولیس آفس سیالکوٹ میں درخواست دی پولیس کے مقررہ معیار سے قد دو انچ کم ہونے کی وجہ سے انکار ہوگیا ۔ مخبر نے رہنمائی کی کہ D.I.G صاحب سالانہ معائنے پر آ ئے ہیں اور ریسٹ ہاؤس میں قیام پزیر ہیں – وہاں جاکر دیکھا کہ پولیس کا سخت پہرہ تھا -دُور سے روک لیا گیا ۔ بے کسی کا وہ لمحہ ۔وہ نظارہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے ، گارڈ انسپیکٹر کو مدعا بیان کیا وہ مہربان ہوئے اور کہا کہ بڑے صاحب عصر کے بعد تلاوت کر رہے ہیں فارغ ہونے پر اجازت لیں گے – کچھ دیر بعد اندر جانے کا اشارہ ملا -سلام دعا کے بعد ملاقات کی وجہ بیان کی انہوں نے تعلیمی ثبوت طلب کیے۔ سند اور سرٹیفیکیٹ پیش کیے اور ساتھ درخواست بھی۔ پڑھ کر حکم نامہ صادر کر دیا جس میں ہدایت تھی کہ F.A تعلیم ھے ایگزیکٹو برانچ کے لئے قد کم ہے تو دفتر میں کلرک رکھ لیا جائے – اگلی صبح SP آفس جاکرکاغذات پیش کئے۔ /-55 روپے ماہوار تنخواہ پر بطورِ کلرک ملازمت مل گئی-کارِ سرکار کو باپ کا کام سمجھ کر فرائض کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ عمدہ کارکردگی پر S P صاحب کی طرف سے دس روپے نقد انعام اور ایک عدد تعریفی سرٹیفیکیٹ عطاء ہُوا -جو آج بھی سنبھال کر رکھا ہُوا ہے ۔ ماہوار تنخواہ ملنے لگی حالات اچھے ہونا شروع ہوئے – دو سال تین ماہ وہاں کام کیا ۔اچانک ایک دن والدِ محترم نے سنجیدگی سے پوچھا کہ پولیس کے علاوہ کسی دوسرے محکمے میں نوکری نہیں مل سکتی ۔ والدِ محترم کو بہت گہری سوچ میں گُم دیکھ کر سمجھ گیا کہ لوگ طعنے دیتے ہونگے یا رشوت کا شبہ ہوگا ۔ حالانکہ جُونئیر دفتری سٹاف کی اُس وقت حرام خوری تک زیادہ رسائی نہ تھی-والد گرامی کی درد بھری آواز تھی سُن کر ساری رات نیند نہ آئی ۔اگلی صبح ہی جاکر استعفے لکھ کر دے دیا-اچانک فیصلے پر دوست ساتھی سب انگشت بدنداں -ہیڈ کلرک صاحب نے ایک ماہ استعفا اپنے پاس روکے رکھا -بار بار یاد دہانی کرانے پر با الاخر بتایا کہ مجاز اتھارٹی کی طرف سے محکمانہ سفارش کے ساتھ A.S.I کے عہدے پر ترّقی کے لئے خط لکھ دیا گیا ہے- منظوری آنے والی ہے -والدِ مکرم کی خواہش کو مقُدم جانتے ہوئے پیشکش ٹھکرادی- ٹھنڈے دودھ میں پھونکیں مارنے کے تندو و ترش طعنے بھی سننے پڑے ، لین فیصلہ نہ بدلا-آخر کار استعفا منظور ہو گیا- وردی پولیس لائن کے گودام محرر کے پاس جمع کرائی اور دامن جھاڑ کر گھر آگئے۔ والدِ محترم کو بتایا تو بڑے اطمینان سے حوصلہ آفزائی کی کہ رازق بہت کریم ھے- رزق وہاں سے بھیجتا ھے جہاں پر انسان کی سوچ بھی پرواز نہیں کرسکتی-والدِ محترم کی حلال رزق کی تلاش اور تمّنا کا فلسفہ بھی اُس وقت سمجھ میں آیا جب خالقِ کائنات نے اُن کو اپنے گھر پر مہمان بننے کی سعاد ت بخشی اور حج کے پانچ دن بعد مدینہ منَورہ بھیج کر اپنے پیارے حبیب علیہ اسلام امام الانبیاء کے قدمین شریفین میں پہنچا کر سلام کی توفیق بخشی – پھر بروز جمعرات حیاتِ فانی تمام کرکے اپنے پاس بلا لیا -جمعتہ المبارک مسجدِ نبوی شریف میں نمازِ جنازہ اور جنت البقیہ میں آخری آرام گا نصیب کردی-حسنِ اتفاق جُونہی استعفا منظور ہُوا اُسی ہفتے پاک فضائیہ میں بھرتی کے لئے گشتی ٹیم سیالکوٹ آگئی- انٹری ٹیسٹ میں قسمت آزمائی -کامیاب ہوئی – بھرتی کا پروانہ مل گیا-راہداری کے ساتھ پُر کشش پیشکش – ٹریننگ کے دوران مبلغ ساٹھ روپے ماہانہ وظیفہ (تنخواہ) روٹی کپڑا مکان اور علاج معالجہ اور تمام سفری سہولیات مفت- خط میں لکھی ہوئ تاریخ اور وقت کے مطابق لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے جہاں پر سینکڑوں لوگوں کو کراچی سے لے کر آئی ہوئی ریل گاڑی کوہاٹ کیلئے تیار کھڑی تھی-اُس میں سوار ہوکر منزلِ مقصود پر پہنچ گئے ۔ 10 جون 1966ء کو باقائدہ عسکری تربیّت کا آغاز ہوا- سب سے پہلے سر کے بالوں کی زیرو کٹ ہوئی ۔ بڑے بڑے نخرے والوں کا غرورخاک میں ملا- پھر خاکی وردی اور بڑے بُوٹ پہنے – دوڑ دھوپ اور ڈھڈو چال -کھانے کے وقت فلائٹ مارچ -ایک ہاتھ میں enameled plate .دوسرے میں پانی پینے والا mug تھام کر لمبی قطار میں کھڑے ہونے کا سلیقہ سکھایا گیا قطار ) que پہلی مرتبہ mess کے دروازے پر جّلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا- رات کو سونے اور صبع کو جگانے کے لئے سیٹیاں بجتیں ، ناشتے کے بعد پریڈ اورپھر پیشہ وارانہ نصاب کی تعلیم – – سہ پہرمیدان میں ورزش – کبھی کراس کنٹری – دریا میں کودنا تربیّت کا حصہ – ڈرنے والے کو عقب سے دھکا – شام کو کھانے کے بعد بے زبان درختوں کے سامنے کھڑے ہو کر ہوشیار باش اور آرام باش کی رَٹ لگوائی جاتی- لیٹ کر بندوق چلانا سیکھی -جو ڈرتا اُس کے دونوں تلووں پر استاد اپنے پاؤں رکھ کر کھڑا ہو جاتا-ہرغلطی پر سزا دوگنی ہوجاتی-ماں کے لاڈ پیاراورنانی اسوقت سب کو خوب یاد آتی ،ٹریننگ ختم ہوئی تو پہلی تبدیلی معروف ائیر بیس پر ہوگئی – تین سال وہاں گُزرے ۔ ایڈوانس ٹریڈ ٹریننگ کے لیے دوبارہ کوہاٹ- کورس مکمل ہوا توتبدیلی کراچی ہوگئی – اسوقت تک محکمہ تعلیم کی طرف سے پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر کسی بھی یونیورسٹی کے امتحان کی اجازت عام تھی مگر سرکاری ملازمین کواجازت نہ تھی-تعلیم کا جنون تھا ۔ شوق پورا کرنے کے لئے BA کے نصاب کی کتابیں خریدیں اور پڑھائی شروع کردی- انہی دنوں مشرقی پاکستان میں سیاسی چپقلش کے نتیجے میں سول نافرمانی کا آغاز ہوگیا – اقتدار کے حریص سیاستدانوں کی منحوس کرتوتوں کی وجہ سے قوم عذاب میں مبتلاء ہوگئی -محبِ وطن افواج نے قربانی کا بکرا بن کر اپنے لہو سے ارضِ پاک کی زکوة ادا کی- عوامی لیگ وہاں اکثریتی جماعت بن کر ابھری – بھٹو صاحب نے اُدھر تم اِدھر ھم کا نعرہ لگا دیا-مُکتی باہنی نے بغاوت کردی تو سرکار حرکت میں آگئئ-مشرقی پاکستان میں فوجیں جمع ہونا شروع ہوگئئں -عوامی لیگ کا سربراہ گرفتار کر لیا گیا۔ شام کا وقت تھا ہمیں بھی ہنگامی حکم نامہ دیا گیا جس میں لکھا تھا کہ کل صبع ۹بجے کراچی سے بذریعہ PIA ڈھاکہ روانگی ہے-ٹکٹ بھی حکم نامے کے ساتھ لف تھا-(Do or Die) کی وارننگ -کوئی بھی عُذر ناقابلِ قبول-حکم عدولی کا انجام معلوم تھا انکار ممکن ہی نہیں تھا- بچپن گذر چکا تھا بھرپور جوانی ابھی نہیں آئی تھی- رختِ سفر میں حربی لباس اور کتابیں پیک کیں – دشمن نے ہوائی راستے کی ناکہ بندی کی ھوئی تھی – خطرناک فضائی راستہ- پائلٹ نے ایک گھنٹے کا سفر چھ گھنٹے میں سمندر کے اوپر سے طے کیا- شام کو ڈھاکہ ائرپورٹ جہاز اترا تو چار سُو خاموشی – سنسان و ویران- فوج والوں نے ائیرپورٹ کا نظام سنبھال رکھا تھا-فوجی گاڑی میں کیمپ پہنچے-ہر طرف ہُو کا عالم-اداس فضاؤں نے سب کچھ سمجھا دیا-جو ساتھی دیکھا مسلح تھا ۔صبح ہوئی پُر تپاک استقبال ، نہ ڈر رہا نہ خوف ، ایک ہی رنگ میں سب کے سنگ شانہ بشانہ۔ نیا تجربہ نیا طرزِ زندگی – گرجتی توپوں -تڑتڑ کرتی گولیوں ۔ ھوائی حملوں کے سائے میں ہر دم جیتے ہر دم مرتے- عسکری فرائض کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری- صورتِ حال عجیب و غریب – پیشہ دفاعِ وطن – تعیناتی کراچی -عارضی ڈیوٹی ڈھاکہ – امتحان کی تیاری کے لیے نصاب جامعہ پنجاب لاہور کا اور امتحانی مرکز شہر سیالکوٹ – خواب گریجوئیٹ بننے کے – سنگ مداوہ ہے ایسی آشُفتہ سری کا- قدم قدم آزمائش – امتحان کی تاریخ کا اعلان تو کسی دوست نے داخلہ فارم بھجوا دیا-امتحان کے لئے داخلہ فیس ڈھاکہ چھاؤنی سے ارسال کی- ڈاک خانے کا انتظام بھی فوج کے پاس تھا -کلرک نے فارم پڑھا تو ساتھ بیٹھے صُوبے دار کو دکھایا -وہ طنزیہ کہنے لگا جانتے ہوئے کہ واپس نہیں جا سکتے پھر بھی پیسے ضائع کر رہے ہو-عقلمند نہیں لگتے ھو۔ پُر زور اصرار کیا تو داخلہ فارم کا منی آرڈر بن گیا-جب امتحان کی تاریخ قریب آئی دھڑکن تیز ہوئی -ادنی اعلی تمام دروازوں پر دستک دی – کبھی اِس طرف کبھی اُس طرف -فیلڈ ایریا سے گرین سگنل اتنا آسان نہیں ہوتا -کبھی ہاں کبھی ناں – بالآخر مجاز اتھارٹی مہربان ہوئی – واپسی کا پروانہ مل گیا -کراچی پہنچ کر اپنی یونٹ کے اربابِ اختیار سے تعطیل کی بھیک مانگنا شروع کی- آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے -جس کسی سے عرض گذاری کرتا وہ میرے درد سے بے نیاز ہوکر ڈھاکہ کے حالات پوچھنا شروع کر دیتا- وہ دن وہ حالات اور واقعات یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے-در در کی ٹھوکریں کھا کر چھتیس یوم کی سالانہ تعطیل عنائت ہوئی -سیالکوٹ پہنچ کر تیاری شروع کردی – تاریخ قریب آئی امتحان اچانک ملتوی ہو گئے – ڈیوٹی سے غیر حاضری کا کھٹکا امتحان کے کھو جانے کا ڈر- کسی کی مِنّت سماجت کرکے ملٹری ہسپتال میں داخل ہونا پڑا-نہ کوئی بیماری نہ دوائی ۔ طبیب نے پورے جسم میں گھومنے والی درد لکھ کر چارٹ بنا دیا سرجیکل وارڈ میں زخمی مریضوں کی درد بھری چیخیں – نرسنگ سٹاف کی حقارت بھری نگاہیں – بھوک پیاس کی شدت- حصولِ علم کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا پڑا- پرچہ دینے کے بعد واپس ہسپتال مریضوں کے کمرے میں امتحان کے بعد ڈیوٹی پر واپسی ہوئی تو پتہ چلا کہ desertion roll جاری ہو چکی ہے یعنی مفروروں کی فہرست میں نام درج ہوکر اشتہاری بن گئے – سالہا سال کی محنت اور فرض شناسی کا پیمانہ صفر ہو گیا- ہسپتال کا سرٹفیکیٹ پیش کرنے پر معافی بھی اور تلافی بھی-کچھ مہینوں بعد نتیجہ آیا سیکنڈ ڈویژن میں بی- اے پاس ہونے کی نوید پڑھکر تمام تکالیف بھول گئیں – دکھ درد جاتے رہےمگر خواب ابھی ادُھورا تھا- حصولِ علم کی تڑپ ابھی باقی تھی-سرکاری ملازمت کی وجہ سے سخت پابندیاں تھیں -کسی بھی یونیورسٹی میں باقاعدہ طالبعلم کی حیثیت سے قدم رکھنا ابھی تک ناممکن تھا-ڈرتے ڈرتے راز داری سے ایس- ایم لاء کالج میں شام کی کلاس میں داخلے کے لئے درخواست دےدی- ایل، ایل ۔ بی میں داخلہ مل گیا – کلاس میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کچھ دیگر سرکاری ملازم بھی چھپ کر بیٹھے ہیں گوشۂ طلبِ علم کے مےخانے میں-دن کے وقت کارِ سرکار – شام کو چُھپ چُھپا کر قانون پڑھنے اور سیکھنے کلاس میں جاکر بیٹھ جاتے- بسوں اور ویگنوں پر دھکے – متواتر دو سال تک mess سے بچا کھچا کھانا – مشاغلِ زندگی ترک- دوست احباب کی رفاقت کو خیرباد –
دریں اثناء وطنِ عزیز میں لُولی لنگڑی جمہوریت وارد ہو چکی تھی-ایک شام کلاس جاری تھی کہ اچانک اسوقت کےوزیرِ قانون حفیظ پیرزادہ پیشگی اطلاع د ئیے بغیر کلاس میں پہنچ گئے ۔ پرنسپل صاحب کو معلوم ہُوا تو قانون شکنی پر طاقتور وزیرِ قانون کی خوب دھلائی کردی- وزیر صاحب نے پرنسپل سے اپنی غلطی کی معافی مانگی-تب موصوف کو طلباء سے خطاب کرنے کی اجازت ملی وہ زمانہ اچھا تھا -قانون کی حکمرانی تھی-آجکل کے ان پڑھ اور جاہل وزیر ہوتے تو استحقاق کے شعلے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلند ہوتے-اور پرنسپل کی نوکری چلی جاتی-اُسی اثناء میں موقع غنیمت جان کر کلاس میں بیٹھے ہُوئے ایک طالبعلم نے چھوٹی سی پرچی پر استدعاء لکھ کر سیکریٹری یونین کے ذریعے پیرزادہ تک پہنچادی-جس میں گزارش تھی کہ مُّسلح افواج کے چند لوگ بھی اپنے محکموں سے چھپ چھپا کر طالبعلم بنے کلاس میں براجمان ھیں – تعلیم ہر انسان بشمول مُسلّح افواج کا بنیادی حق ہے -قانون مین گنجائش پیدا کی جائے-نوجوان وزیرِ قانون نے تحریر پڑھی تو جذباتی انداز اور بہترین الفاظ مین گمنام طالبعلموں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے پرچی کو ہوا میں لہرایا اور پوری کلاس کے سامنے وعدہ کیا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا وزیرِ اعظم تک پہنچا دیا جائے گا-ایسا ھی ہُوا کچھ عرصہ بعد خوش خبری آئی کہ حکومتِ وقت نے تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کرکے سرکاری ملازمین کو بھی یونیورسٹی امتحانات مین شرکت کی اجازت دے دی ہے-یہ خبر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھا -ذوق شوق سے پڑھائی شروع کردی-سیکںڈ ایل -ایل-بی کا امتحان قریب آیا تو کراچی سے کیڈٹ کالج سرگودھا تبدیلی کا حکم بھی آگیا -تبدیلی منسوخ یا مؤخر کرانے کی تمام کوششیں ناکام-کالج کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو وہاں سے جواب ملا کہ تشریف لے آؤ پھر غور کریں گے-وہاں پہنچ کر حاضری دی اور ساتھ تعطیل کی درخواست بھی-کئی عہد و پیمان لئے جانے کے بعدایک ماہ چھٹی منظور ہوئی تو پھر اپنے خرچ پر کراچی واپسی ہوئی-
فرنٹیئر پولیس کے D-S-P حکیم خان بھی ساتھ قانون کے طالبعلم تھے کبھی کبھی کھانا ان کے ساتھ پولیس کے لنگر خانہ میں کھا لیتے – شب گزاری کے لئے اپنا اپنا بندوبست -مسافروں کی طرح ہر روز ٹھکانے بدلتے رہے- امتحان ختم ہوا تو سرگودھا واپسی -کچھ مہینوں بعد نتیجہ آیا تو کامیاب -اتنی مشکلات کے بعد قانون کی ڈگری حاصل کرنے پر خوشی کی انتہا نہ تھی- پہلے پولیس پھر ائر فورس کی فوجی وردی اور تیسرا لارڈز کا گاؤن یعنی وکالت والا کالا کوٹ -ایک جسم پر تین لباس ، اپنی قسمت پہ نازاں
BAاور LLB کی دونوں ڈگریاں دست بستہ ہوکرمحکمہ کی سرکار کو پیش کردیں -با ضابطہ (Personnel file)نامۂ اعمال میں اندراج ہوگیا-جان پہچان اور عزت و آبرُو میں اضافہ قدردان بے شمار ہزاروں میں یکتا-سرکار کے ساتھ ۱۲ سال کا کنٹریکٹ تھا مدت مکمل ہونے پر محکمہ کے اربابِ اختیار کو استدعا کر دی کہ معاہدہ پورا ہو گیا ہے – وردی اتار کر گھر جانے کی اجازت فرمائی جائے-جگہ جگہ انٹرویو – کچھ سنتے کچھ سناتے رہے- مگر ہر کوشش بے سود- المختصر درخواست تو اعلی ایوانوں تک نہ پہنچی مگر بات کسی کے دل پر اتر گئی -اعلی اختیاراتی بورڈ نے طلب کرلیا -ساتھ ۱۲ ذہین ترین دیگر حضرات بھی گروپ مین شامل – یکے بعد دیگرے سب کا تحریری امتحان اور زبانی انٹرویو ہوا-نتائج میں پوزیشن تمام ساتھیوں سے بہتر آئی بورڈ نے سفارت خانہ پیکنگ میں تعیناتی کا اشارہ دیا ، ادب سے معذرت کرلی ۔ فیصلے پر نظر ثانی تک انتظار کا حکم ملا کچھ دیر بعد دوبارہ بلایا گیا واشنگٹن ڈی سی میں وطنِ عزیز کے سفارت خانے مین ادنی سے سٹاف لیول سفارتی عہدے پر کام کرنے کے لئےتعیناتی کا حکم ہوگیا – سن کر خوشی ہوئی سرکاری طور پر بمعہ اہل و عیال سفری کاغذات تیار ہوئے ۔ ۱۹ دسمبر 1979ء کو نئی تعیناتی پر واشنگٹن ڈی سی – وطنِ عزیز کے سب سے بڑے ائر بیس سے نکل کر دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ میں واقع پاکستان کے سب سے بڑے سفارتی مشن مین آمد ہوگئی- چار سال پیشہ وارانہ ذمہ داری نبھائی- اسی عرصے میں صدرِ پاکستان ضیاء الحق نے امریکہ کے دو سرکاری دورے کئے-وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے والہانہ استقبال کا نظارہ ہماری آنکھوں نے دونوں مرتبہ قریب سے دیکھا-
اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت اور ضیاء الحق کی تقریر جنرل اسمبلی کے ھال میں بیٹھ کر سننے کا شرف بھی حاصل ہوا-
امریکہ سے واپسی ہوئی تو تین سال بعد سعودی عرب سرکاری ڈیوٹی پر تعیناتی ہوگئی -تین سال سعودی فضائیہ میں خدمات انجام دیں-حرب الخلیج میں آپریشن Desert Storm اور گرم ہواؤں کی تپش کا تجربہ-مقاماتِ مقدسہ کی زیارتیں اور دو عدد حج نصیب اور بیشمار مرتبہ عمرہ جات- باری تعالی کا خاص کرم- تمام عمر بھی شکر کریں تو کم ھے-
سعودیہ سے واپسی پر عزت و احترام کے ساتھ سبکدوشی- ریٹائرمنٹ پیشن – ڈسٹرکٹ بار اور ہائی کورٹ بار کی تا حیات ممبر شپ لیکر سیالکوٹ کچہری میں وکالت شروع کردی ۔ کچہری اور عدالتوں میں ایماندار محنتی پیشہ ور مانندِ صفتِ اولیاء وکلاء بھی دیکھے اور انسان کی شکل میں کالے کوٹ میں ملبوس بہروپئے بھی- مجبور لوگوں اور مظلوم بوڑھوں کا خون چوستے شیطان خونخوار بھیڑیے بھی-عدل کی کرسی پر ذہین اصول پسند خوفِ خدا رکھنے والے منصف انصاف کرتے ہوئے بھی دیکھے اور کمرۂ عدالت میں جج کی کرسی کے عقب میں دیوار پر موٹے اورجلّی حروف میں لکھے ہوئے حدیثِ شریفہ کے الفاظ “کہ انصاف میں گزرا ہوا ایک لمحہ عابد کی ستّر سال کی عبادت سے بہتر ہے” کے سائے میں انصاف بِکتے ہوئے بھی دیکھا-اور بے رحم راشی ظالموں کے سامنے روتے ہوئے بے سہارا بوڑھی عورتوں اور مردوں کو انصاف کی بھیک مانگتے اور دھکے کھاتے ہوئے اور انصاف کا خون ہوتے ہوئے بھی دیکھا-
شائد ہی کوئی قتل کی F I R بھی بغیر رشوت کے کٹتی ہو- انصاف کا خون تھانہ محرر کی میز پر ہو جاتا ہے-اور کچھ تفتیش میں- کچھ جھوٹی گواہیوں میں-رہی سہی کسر معزز عدالتی کارروائیوں میں پوری ہو جاتی ہے ۔اگر مظلوم کو انصاف مل بھی جائے تو معاشرہ ظالم کا ساتھ دیتے ہُوئے مظلوم کے خاندان کو مجبور کرکے معافی نامہ لکھوا کر مجرم کو بری کروا لیتا ہے ۔-
خیر و شر کے تمام نظارے دیکھ کر آبائی گھر اور وطنِ عزیز کو خیر باد کہنے پر مجبور ہونا پڑا- کشتیاں جلائیں-امریکہ کی طرف رُخ کیا- بہت محنت کرنا پڑی -آرام چھوڑا نیند چھوڑی -راتوں کو جاگ کر پٹرول پمپوں پر کام کیا – ورکشاپوں میں جھاڑو دی ،ہوٹلوں میں برتن دھوئے – میز صاف کئے – نصف شب تاریکیوں میں گلی گلی گھر گھر اخبار تقسیم کئے- بلندیوں کی حقیقت سے آشنا ہو کر بڑے سکون سے پستی خرید لی-بہت عرصہ لگا آہستہ آہستہ قدم جمے پرانا تجربہ کام آیا ، خوش قسمتی سے سعودی سفارت خانے میں وائٹ کالر جاب مل گئی -سکون کا سانس لیا-اہل و عیال کو بلا لیا- بچے سکول داخل کروادیئے – بچوں نے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کی- سب نے یونیورسٹیوں سے اعلی ڈگریاں حاصل کیں -ادارے کا محنت کی قدراوردلجوئی کرنے پر تا دمِ تحریر مشکور ہوں ورنہ امریکہ جیسے مہنگے ملک میں ایک بچہ بھی پڑھا نے کا خواب صرف خواب ہی رہتا ۔ نہ جانے کتنےستارےٹُو ٹےکتنے ہی دئے بُجھے ، پوچھیئے شب سے جا کر کس طرح سحر آئی ہے-
بچپن سے لیکر تادمِ تحریر شب و روز غربت و اوافلاس سے لڑتے لڑتے نصف صدی گزر گئی تب کہیں جا کر امید کی کِرن طلوع ہوئی – مایوسیوں کے اندھیرے چُھوٹے ۔گلشن میں بہار آئی ۔
پھلا پُھولا رہے یا رب یہ گلشن میری اُمیدوں کا، جگرکا خون دے دےکر یہ بُوٹےمیں نے پالے ہیں
محنت کرتے کرتے جوانی چلی گئی بڑھاپا چھا گیا ۔کمر ٹیڑھی ہوگئی۔زندگی کے سفر کی صعوبتوں نے راحتوں کو مات دے دی ۔اپنے لئےکوئی جائیداد بنائی نہ فیکٹری نہ بنک بیلینس جمع کیا، اولاد کو اللہ کے فضل و کرم سے اُن کے قدموں پر کھڑا کر دیا.مجھ نا چیز جیسے محنت کش کے لئے یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔جس پر خالق اور رازق کریم کی نعمتوں کا شُکر ادا نہیں کر سکتا ۔ پیری سے خم نہیں کمر میں میری قمر، میں جُھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی.
ایک خواب تھا کہ جس قریہ میں جن گلیوں میں بچپن گزرا مفلسی ناداری اور بے کسی کا زمانہ دیکھا -اُن گلیوں میں پھرتا ہُوا اگر کوئی بے سہارا بے کس و بے یارو مددگار یتیم یا کوئی بیوہ دیکھوں تو داد رسی کر سکوں۔ اِسی دیرینہ خواہش کو پیشِ نظر رکھ کر پیارے والدین نُور احمد / رحمت بی بی کے نام پر منسوب آبائی گاؤں چک سدیو سیالکوٹ میں اپنی سر پرستی میں نُورِ رحمت ویلفئر ٹرسٹ کے نام کا غیر منافع بخش اوُر غیر سیاسی پودا لگا دیا ہے جس کی دامے درمے سخنے آبیاری کر رہا ہوں-انتظامیہ میں تمام حضرات رضاکارانہ بغیر کسی معاوضے کے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ خزاں رسیدہ پتے کی طرح زرد موسم میں والدین کی یادوں سے لپٹا اُس حکم کا منتظر ہوں جو مجھے اُن سے ملا کر حجر کو تمام کردے ۔ جب بھی خبر ملتی ہے رمضان شریف میں غریبوں مسکینوں کے گھر ٹرسٹ کی طرف سے راشن پہنچ گیا ہے -یتیم کو عیدی دے دی گئی ہے- زکوۃ کے حقداران تک اُن کا حصہ پہنچ گیا ہے کسی غریب کی بچی کی شادی کے لیے حسب توفیق مالی مدد کردی گئی ہےتوسن کرحقیقی سکونِ قلب ملتا ہے۔ حیات عارضی کے نازک اور پُر آزمائش لمحات میں قدم پہنچ چکے ہیں ۔ حیاتِ جاودانی کی طرف سفر رواں دواں مگر زادِ راہ کے بغیر ۔ توکل اور یقین کامل کہ ناخدا جن کا نہ ہو اُن کا خدا ہوتا ہے۔
کسی نے خوب کہا زندگی ہے انساں کی مانند مُرغِ خوشنوا۔ شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا اُڑ گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں